متفرق شعراء

مناجات

(قریشی دائود احمد ساجدؔ)

عشق کی جوت مرے دل میں جگا دے مولا
مجھ کو اغیار کے چنگل سے چھڑا دے مولا
جو تری یاد میں سوکھے نہ کبھی رک جائے
اشک ایسا مری آنکھوں سے بہا دے مولا
دے محبت کے اسیروں کو اسیری کا ہنر
گُر فقیروں کو فقیری کا سکھا دے مولا
دَم فقط تیری غلامی کا بھروں میں ہر دم
ایک ہرجائی کو، یک جائی بنا دے مولا
چھین لے مجھ سے جو فردوسِ بریں کی قربت
ایسے ہر خوشۂ گندم کو جلا دے مولا
بڑھ گیا پھر سے عدو شور و فغاں میں اِک بار
اِک چمک اپنے نشاں کی تُو دکھا دے مولا
خون عشاق کا گلیوں میں نہ بہنے پائے
ظلم کے ہاتھ سے دامن کو کٹا دے مولا
پھر براہیم جلانے کے عدو ہے درپے
آگ نمرود کی، گلزار بنا دے مولا
روک دے پھر سے تُو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
اور اُنہیں گرد کی مانند اڑا دے مولا
اَب اندھیروں کو اجالوں میں بدل دے یا رب
کتنے دن اَور ہیں ظلمت کے بتا دے مولا
لا نہیں سکتا ہے اب تاب دکھوں کی ساجؔد
اپنے بیمار کو خود آپ شفا دے مولا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button