الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

مکرم شمیم الرّب صاحب

مکرم شمیم الرّب صاحب سابق صدر جماعت احمدیہ گونڈہ (یوپی، بھارت) 6؍اگست 2011ء کو وفات پاگئے۔ اخبار ’’بدر‘‘ قادیان 15؍ستمبر 2011ء میں اُن کا ذکرخیر اُن کی ہمشیرہ مکرمہ سعیدہ فاطمہ بیگم صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم شمیم الرّب صاحب 13؍جنوری 1926ء کو گونڈہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کُل دس بہن بھائی تھے۔

آپ کے والد محترم بابو عبدالرزاق صاحب گونڈہ میں پوسٹ ماسٹر تھے۔ اُن کی بیعت کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ وہ بچپن سے ہی نماز تہجد کے عادی تھے اور امام مہدیؑ کی آمد کے بشدّت منتظر تھے۔ 1932ء میں وہ بذریعہ ٹرین سفر کر رہے تھے۔ اُسی ڈبّے میں قادیان سے آنے والے چند مبلغین بھی سوار تھے۔اُن کے ساتھ بات چیت ہوئی تو آپ نے وہیں احمدیت قبول کرلی اور گھر آکر اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ شروع کردی۔ لیکن اُن کی طرف سے شدیدمخالفت ہوئی اور ذہنی اذیّتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شادی بیاہ کے موقع پر آپ کو بلایا جاتا اور کھانے کے وقت مہمان کہتے کہ اس قادیانی کو علیحدہ کھانا کھلاؤ ورنہ ہم واپس چلے جائیں گے۔ آپ بڑے تحمّل سے اس بات کو برداشت کرلیتے اور خود کہہ دیتے کہ مجھے الگ ہی کھانا دے دو۔

آپ کی تبلیغ اور مخالفین کی حرکتیں بڑھتی گئیں۔لوگ تبلیغ کے نام پر آپ سے کتابیں لیتے اور حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر کی بے حرمتی کرکے واپس کردیتے۔ایسے میں آپ

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں

کے مصداق بن کر اپنے ربّ کے حضور گِر جاتے۔ خداتعالیٰ کی غیرت بھی جوش میں آئی اور آپ کو کشف اور الہام سے نوازا جانے لگا۔ چنانچہ آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق مخالفین کی رُسوائی ہونے لگی لیکن اُنہیں پھر بھی ایما ن لانے کی توفیق نہ ملی۔ آپ کے ایک بھائی تھے جن کے بیٹے سے آپ کی ایک بیٹی کا نکاح بھی ہوچکا تھا لیکن جب بھی آپ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ ‘کافر’کہہ کر چلے جاتے۔ ایک روز آپ اُن کے گھر گئے اور ایک تصویر کے فریم کی پشت پر حضرت مسیح موعودؑ کا درج ذیل شعر لکھ کر واپس آگئے:

قادر کے کاروبار نمودار ہو گئے
کافر جو کہتے تھے وہ گرفتار ہو گئے

آپ کے بھائی کریانہ کی دکان کرتے تھے۔ کسی نے اُن کے پاس آٹا بیچا جو مضر صحت تھا۔ انہوں نے وہ کسی گاہک کو بیچ دیا تو اُس کی ہلاکت ہوگئی اور پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ یہ اطلاع ملتے ہی آپ اپنے بھائی کے گھر گئے اور اُس شعر کی نشاندہی کی جو چند دن قبل آپ نے لکھا تھا۔ اس پر بھائی کے گھر والے بہت ناراض ہوئے اور جب بھائی کو جیل سے رہائی ملی تو انہوں نے آپ سے ناراضگی کا بدلہ آپ کی اُس بیٹی کو قادیانی ہونے کے طعنے دے کر لیا جو اُن کی بہو تھی۔

بہرحال مکرم بابو عبدالرزاق صاحب کی تبلیغ سے خداتعالیٰ نے بہت سی روحوں کو احمدیت کی آغوش میں آنے کی توفیق ملی۔ آپ کے بڑے بیٹے مکرم شمیم الرّب صاحب بھی تبلیغ میں خوب حصہ لیتے تاہم عبادات کی طرف اُن کی توجہ کم تھی۔ اپنی شادی کے پانچ چھ ماہ بعد وہ شدید بیمار ہوگئے کہ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ تاہم محترم بابو صاحب مایوس نہیں ہوئے اور دعاؤں میں لگے رہے۔ آخر ایک دن تہجّد کے دوران آپ کو آواز آئی: اُمراؤعلی کی چائنا۔ آپ نے نماز ختم کی اور رات اڑہائی بجے ہی وہاں کے ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر اُمراؤعلی صاحب کے ہاں پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ چائنا نام کی کوئی دوا آپ کے پاس ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور آپ کے طلب کرنے پر پوچھا کہ کیا بات ہے۔ آپ نے سارا واقعہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ اس میں چند دواؤں کو ملاکر مَیں ایک نسخہ بنادیتا ہوں۔ پھر وہ دوائی گھر لاکر آپ اپنی بہو سے کہنے لگے کہ تھرمامیٹر توڑ دو، اب شمیم کو بخار نہیں چڑھے گا۔ دوائی سے خدا تعالیٰ نے فضل فرمادیا اور لمبی صحت مند عمر بھی عطا فرمائی۔ اس واقعے کے بعد سے مکرم شمیم الرّب صاحب عبادات کی طرف بھی خاص توجہ دینے لگے اور تہجّد کی ادائیگی معمول بنالی۔

محترم شمیم الرّب صاحب تبلیغ کی طرف اتنی توجہ دیتے تھے کہ اپنے کاروبار کی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ دینی مسائل پر دسترس تھی اور غیروں کا بحث میں ناطقہ بند کردیتے تھے۔بہت سے غیرازجماعت آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے قائل تھے اور آپ کے ساتھ نماز جمعہ اور عیدین وغیرہ بھی پڑھ لیتے لیکن معاشرتی خوف سے احمدیت قبول نہیں کرتے تھے۔ ایک غیر ازجماعت محمد احمد صاحب شدید مخالفوں میں سے تھے۔ اُن کی چائے کی دُکان تھی۔ ایک بار وہ اتنے بیمار ہوئے کہ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ آپ اُن کی عیادت کے لیے گئے تو وہ رونے لگے۔ اس پر آپ نے تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ آپ مریں گے نہیں اور بالکل صحت یاب ہو جائیں گے۔ جب آپ نے اپنے جملہ پر غور کیا تو بہت بے چین ہوئے کہ یہ میرے منہ سے کیا نکل گیا۔ پھر خوب دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ صداقتِ احمدیت کے لیے یہ نشان دکھادے۔ چنانچہ دعا قبول ہوئی اور رفتہ رفتہ وہ تندرست ہوگئے۔ پھر اُن کا طرز عمل یکسر مختلف ہوگیا۔ اگر کوئی احمدی اُن کی دُکان پر جاتا تو اُسے چائے بھی پلاتے۔

آپ کے ایک غیرازجماعت دوست کا بیٹا کافی بیمار تھا اور کئی روز سے ہسپتال میں داخل تھا۔ آپ نے بہت سے لوگوں کے سامنے خداتعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اُس دوست کو کہا کہ مریض کو دوسرے ہسپتال میں لے جاؤ، انشاء اللہ تندرست ہوجائے گا اور پھر مَیں مٹھائی بھی کھلاؤں گا۔ آپ دعا بھی کرتے رہے اور پھر ویسا ہی وقوع میں آیا چنانچہ آپ نے اپنے حلقۂ احباب میں مٹھائی تقسیم کی۔

اسی طرح آپ کے ایک ہندو دوست کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ شادی کے قریباً دس سال بعد اُس نے آپ سے دعا کے لیے کہا۔ آپ نے دعا کی اور قبولیت کا اشارہ پاکر اُنہیں بتادیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ بعد اُس کو اولاد سے نوازا۔

آپ کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھا۔ اکثر ملنے والے دعاؤں کی درخواست کرتے۔ آپ دعا کرتے اور جب احمدیت کی برکت سے قبولیت کا اشارہ ملتا تو اُسے جاکر بتا بھی دیتے۔

آپ کے پاکیزہ اخلاق کی وجہ سے اگرچہ مداحوں کی تعداد خاصی تھی تاہم تبلیغ کی وجہ سے مخالفین بھی بہت تھے۔ مخالفین بظاہر کوئی ذاتی نقصان تو نہیں کرسکے لیکن اکثر کہا کرتے تھے کہ جب یہ قادیانی مرے گا تو پھر ان کو بتائیں گے (یعنی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دیں گے)۔ ان حالات میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے گونڈہ میں زمین خرید کر احمدیہ قبرستان کے لیے مختص کردی گئی اور اس کی چار دیواری بھی مکمل ہوگئی۔

آپ کو تبلیغ کا اتنا شوق تھا کہ دل کے تیسرے حملے کے بعد بھی عیادت کے لیے آنے والے دوستوں کو تبلیغ کرتے رہے۔ اسی وجہ سے کچھ دن کے اندر آپ کو چوتھا ہارٹ اٹیک ہوا جس کے نتیجہ میں وفات ہوگئی۔

آپ کی آخری بیماری میں مخالفین خوش ہوتے تھے کہ اب اُن کو اپنے ارمان پورا کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اُن کی خوشی اس طرح ناکام بنادی کہ آپ کے جنازے میں شامل ہونے کے لیے دوسرے علاقوں سے بیس پچیس احمدی حضرات تشریف لے آئے اور غیراحمدی شرفاء میں سے بھی ڈیڑھ سو کے قریب افراد نے احمدی مربی کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی۔ مخالفین نے نماز جنازہ میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ تدفین کے وقت جب دیکھا کہ اُن کو علم ہوئے بغیر ہی احمدیوں نے اپنا قبرستان تیار کرلیا ہے تو شرمندگی اور غصّہ میں اُن دو غیرازجماعت نوجوانوں کو بہت مارا جنہوںنے آپ کی قبر تیار کرنے میں مدد کی تھی۔ مُلّاؤں نے شور مچایا کہ جنہوں نے قادیانی کی نماز جنازہ پڑھی ہے اُنہیں تجدید ایمان کرنی چاہیے۔ لیکن وہ شرفاء یہی کہتے رہے کہ احمدیوں کی نماز جنازہ بھی ہماری طرح ہی تھی اس لیے ہم نے پڑھ لی۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔

……٭……٭……٭……٭……

مکرم رانا دلاور حسین صاحب شہید

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ دسمبر 2011ء میں مکرم رانا دلاور حسین صاحب شہید کے بارہ میں مکرم ملک مبشر منظور صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں 26؍فروری 2016ء کے شمارہ کے ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ میں آپ کا ذکرخیر چکا ہے۔

مکرم رانا دلاور حسین صاحب گولیانوالہ ضلع شیخوپورہ میں مکرم رانا محمد شریف صاحب کے ہاں 25؍مئی 1969ء میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی اور ایک ہمشیرہ آپ سے بڑے تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم گاؤں کالوکے سے حاصل کی اور پھر فاروق آباد سے میٹرک اور شیخوپورہ سے D.Com اور B.A. کیا۔ پھر PTC کرکے بطور ٹیچر ملازم ہوگئے۔ 1992ء میں پہلی شادی مکرمہ صغراں بی بی صاحبہ بنت مکرم محمد اسلم صاحب سے ہوئی جن کی جلد ہی وفات ہوگئی اور پھر 1993ء میں مرحومہ کی چھوٹی بہن مکرمہ عشرت بی بی صاحبہ سے آپ کی دوسری شادی ہوئی جن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
مکرم رانا صاحب کو احمدیت کا تعارف اپنے بعض سسرالی رشتہ داروں کے ذریعہ ہوا ۔ پھر MTA کے پروگرام اور احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کیا۔ باقاعدہ بیعت سے پہلے ہی آپ اپنے بیٹوں کے ہمراہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے احمدیہ مسجد آنے لگے اور 29؍ستمبر 2010ء کو مع اہل و عیال باقاعدہ بیعت کرلی جس کے بعد اخلاص میں تیزی سے ترقی کی۔ اپنے گھر پر باجماعت نماز کا اہتمام کیا، MTA کا انتظام کروایا اور خالص دینی ماحول پیدا کیا۔ دعوت الی اللہ کا بھرپور جذبہ تھا۔چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے۔

آپ کے قبولِ احمدیت کے بعد قریبی عزیز جانی دشمن بن گئے۔ گاؤں والوں نے سوشل بائیکاٹ کیا اور چند دن بعد ایک مولوی کو گاؤں میں بلاکر مخالفانہ تقریر کروائی۔ پھر آپ کو مسجد میں بلایا کہ آکر جماعت کی وکالت کریں۔ آپ کے پوچھنے پر امیر صاحب ضلع نے گھر پر رہنے اور فتنے سے بچنے کا مشورہ دیا۔ لیکن مولوی ساٹھ افراد ہمراہ لے کر آپ کے گھر چلا آیا اور دروازے پر کھڑے ہوکر آپ کو باہر بلایا۔ آپ نے باہر آکر کہا کہ مولوی صاحب مجھے حیات مسیح از روئے قرآن ثابت کردیں۔ اس پر مولوی حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں بدزبانی کرتا ہوا آپ کو واجب القتل کہتے ہوئے رخصت ہوگیا۔ بعدازاں ایک اَور مُلّا چند مسلح افراد کے ساتھ گاؤں میں آیا اور لوگوں کو غیرتِ ایمان دکھانے کا درس دیتا رہا اور کہتا رہا کہ اگر یہ قادیانی حق قبول نہ کرے تو اس کا ایک ہی علاج ‘قتل’ ہے۔

یکم اکتوبر 2011ء کو موٹرسائیکل پر سوار داڑھیوں والے دو افراد نے کلاس سے آپ کو باہر بلایا اور فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ ربوہ میں آپ کی تدفین کی گئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 7؍اکتوبر 2011ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

……٭……٭……٭……٭……

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا جولائی 2012ء میں مکرم محمد عثمان خان صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

انداز ہے گو سادہ مری نظم کا لیکن
پنہاں ہیں کئی اس میں حکایات مسلسل
اشعار میرے بھول بھی جائیں گے اگر آپ
رہ جائیں گے کچھ ، ذہن پر اثرات مسلسل
اس آس میں اپنے تو گزرتے ہیں شب و روز
یکساں نہیں رہتے ہیں یہ حالات مسلسل
نقصاں نہ مرا مِل کے بھی کر سکے دشمن
کھائی ہے سدا اپنوں سے ہی مات مسلسل
اللہ میرے دوست یہاں جتنے ہیں موجود
ان سب پہ رہیں تیری عنایات مسلسل

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button