سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعودؑ کا عشقِ رسولﷺ

(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے مرزا سلطان احمد صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی حالات کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ

’’ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت ﷺ) کے متعلق والد صاحب ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فوراً ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے۔مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو باربار دہرایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا ۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا‘‘

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 196)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

’’ضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ جب دسمبر1907ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت صاحب نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لیے بھیجا۔مگر آریوں نے خلافِ وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت ﷺ کے متعلق سخت بدزبانی سے کام لیا۔اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک مجلس میں برا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرت دینی سے کام نہ لیا۔جب انہوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فوراً اس مجلس سے اُٹھ آنا چاہیے تھا۔اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کر تے تھے کہ میں اس وقت اٹھنے بھی لگا تھا مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھہر گیا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت صاحب ناراض ہو رہے تھے تو آپ نے مجھ سے کہا کہ حافظ صاحب وہ کیا آیت ہے کہ جب خدا کی آیات سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو اس پر میں نے حَتّٰی یَخُوْ ضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ (النساء :141) والی آیت پڑھ کر سنائی اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت مولوی صاحب سر نیچے ڈالے بیٹھے تھے‘‘

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 196)

حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

یک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اورا س کے ساتھ ہی آپؑ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جارہی تھی۔اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آکر سنا تو آپؑ آنحضرت ﷺ کے صحابی حضرت حسان بن ثابت ؓ کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان ؓ نے آنحضرت ﷺ کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے:

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِی فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

(دیوان حسان بن ثابتؓ )

’’یعنی اے خدا کے پیارے رسولؐ!تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہو گئی ہے۔اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہوگئی‘‘

راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا اور اس وقت آپؑ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت!یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کون سا صدمہ پہنچا ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔میں اس وقت حسانؓ بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ ’’ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا!!!‘‘

(سیرت طیبہ صفحہ27-28 از حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ)

حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

’’ادیان میں ایک صاحب محمد عبداللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے۔وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروں کی تصویریں دکھا کر اپنا پیٹ پالا کرتے تھے۔مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضورؑ کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے اور حضور کو گالیاں دی ہیں ۔پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا ’’نہیں نہیں ایسا نہیں چاہیے۔ ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے‘‘ پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہر ہورہے تھے۔جوش کے ساتھ بولے۔واہ صاحب واہ! یہ کیا بات ہے آپ کے پیر (یعنی رسول اللہﷺ)کو کوئی شخص برا بھلا کہے تو آپؑ فوراً مباہلہ کے ذریعہ اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہوجاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپؑ کوہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں !!

پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر صبر کس نے کیا ہے اور کس نے کرنا ہے مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشق رسولؐ اور غیرت ناموسِ رسولؐ کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی‘‘

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ صفحہ29،30)

حضرت مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

یک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپؑ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نوراللہ مرقدھا اور ہمارے نانا جان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا۔حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے حج کو چلنا چاہیے ۔اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود ؑ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔ حضرت نانا جان کی بات سن کر فرمایا:

’’یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا۔؟‘‘

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمدصاحب ؓصفحہ35-36)

یہی بے قراری تھی کہ یہ عشق اورمحبت بھرادل ہمیشہ اُسی کوئے یارکے طواف کے لیے بے چین رہتاتھا۔اوراسی بےقراری کااظہارآپ نے نظم ونثرمیں بھی کیا۔جیساکہ ایک جگہ فرماتے ہیں :

جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَالَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَان

یعنی میراجسم تیری طرف اشتیاق ومحبت کے ساتھ ہمیشہ بلندیوں کی جانب پرواز کرنا چاہتا ہے۔

اورہرچندکہ ظاہری طورپرآپؑ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل نہ کرسکے لیکن مخبرِ صادق آنحضرت ﷺ نے کشفی طورپراپنے اس عاشق جانثارکوطواف کعبہ کرتے ہوئے دیکھ کرگویا پہلے سے ہی حج بیت اللہ کرنے والےخوش نصیبوں میں شامل ہونے کی کی بشارت دے دی۔جیساکہ ایک کشف کاذکرکرتے ہوئےآپ ﷺنے فرمایا:

وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الكَعْبَةِ فِي الْمَنَامِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ، كَأَحْسَنِ مَا يُرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ، رَجِلُ الشّعَرِ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوْفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا المَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرْ فِي الكِتَابِ مَرْيَمَ … حدیث3440)

نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے رات کوخواب میں اپنے آپ کوکعبہ کے پاس دیکھاتوکیادیکھتاہوں کہ ایک گندمی رنگ کاخوبصورت جوان رعنا جس کے بال شانوں پرپڑتے تھے۔ سیدھے بالوں والا جس کے سرسے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔ دوبندوں کے کندھوں پرہاتھ رکھے ہوئے تھااورخانہ کعبہ کاطواف کررہاتھا۔میں نے کہایہ کون ہے؟ تولوگوں نے کہا یہ مسیح ابن مریم ہے۔(یعنی مسیح موعودہے)

اور روضۂ نبویؐ کاتصورتوہمیشہ ہی آپ ؑ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنارہتاتھا۔اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ آپ کا جینا اور آپ کا مرنا اسی عشق کے ساتھ ہی تو تھا۔تبھی تو نبی اکرم ﷺ نے اسی قلبی محبت و مودت کا ذکر کرتے ہوئے فرما دیا تھا کہ یہ وہ شخص ہوگا کہ

یُدْفَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِی

روضۂ نبویؐ کے اس تصور کا غیر جانبدار تبصرہ ایک غیرازجماعت کی زبان سے ملاحظہ ہو۔

برّصغیر پاک و ہند کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ (ولادت 1886ء وفات 1947ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنیے جو اپنے فرقہ میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقہ والے خدا جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے۔یہ کون ہے۔جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ۔ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں اس لیے یہ جب کبھی دلّی آتے تو مجھے ضرور بُلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے چنانچہ دو تین دفعہ ان سے میرا ملنا ہوا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ کہا جا سکے۔ میں اس زمانے میں ایف اے میں پڑھتا تھا۔زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ہوتا تھا اور اس پر وہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہو گی اس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے۔

میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ تھا۔یہ بڑے فقیر دوست تھے۔تمام ہندوستان کا سفر فقیروں سے ملنے کے لیے کیا۔بڑی بڑی سخت ریاضتیں کیں ۔چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجئے کہ تقریباً چالیس سال تک یہ رات کو نہیں سوئے۔صبح کی نماز پڑھ کر دو ڈھائی گھنٹے کے لیے سو جاتے ورنہ سارا وقت یادِ الٰہی میں گزارتے۔

ایک دن میں جو مرزا غلام احمد کے یہاں جانے لگا تو چچا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا ’’بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کر دو اور وہ کام یہ ہے کہ جن صاحب سے تم ملنے جا رہے ہو ان کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں۔‘‘ میں سمجھا بھی نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے؟مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے۔اسی سلسلے میں مَیں نے خود بھی ان کو ذرا غور سے دیکھا کیونکہ اس سے پہلے جو میں ان کے پاس جاتا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کر کے بیٹھتا تھا اس دفعہ میں نے دیکھا ان کا چہرہ بہت با رونق تھا ۔ نسر پر کوئی دو، دو انگل کے بال ہیں۔ داڑھی خاصی نیچی ہے۔آنکھیں جُھکی جُھکی ہیں۔ بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں ۔مگر بعض وقت جھلا بھی جاتے ہیں ۔بہر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کیے۔فرحت دیکھو اس شخص کو بُرا کبھی نہ کہنا۔فقیر ہے اور یہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ کے عاشق ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ نے کیوں کر جانا۔فرمایاکہ جو آنحضرت ﷺ کے خیال میں ہر وقت غرق رہتا ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آجاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک لہران میں دوڑ رہی ہے۔‘‘

میں نے اس وقت تو ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہلِ طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ (کے روضہ) کا رنگ سبز ہے۔اسی کا عکس آپؐ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے۔‘‘

(عالمی ڈائجسٹ کراچی نمبر10 ، اکتوبر 1968ء صفحہ 73-74)

آپؑ کے عشق قرآن کا بیان

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’حدیثوں میں یہ بات بوضاحت لکھی گئی ہے کہ مسیح موعود اس وقت دنیامیں آئے گا کہ جب علم قرآن زمین پرسے اٹھ جائےگااورجہل شیوع پاجائے گا۔یہ وہی زمانہ ہے جس کی طرف ایک حدیث میں یہ اشارہ ہے لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا عِنْدَالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجُلٌ مِّنْ فَارِس…آپ لوگ تھوڑے سے تامل کے ساتھ اس بات کوسمجھ سکتے ہیں کہ حدیثوں میں یہ واردہے کہ آخری زمانہ میں قرآن زمین سے اٹھا لیاجائے گا اور علم قرآن مفقودہوجائے گا۔اورجہل پھیل جائے گا۔اورایمانی ذوق اور حلاوت دلوں سے دورہوجائے گی۔پھران حدیثوں میں یہ حدیث بھی ہے کہ اگرایمان ثریاکے پاس بھی جاٹھرے گا یعنی زمین پراس کانام ونشان نہیں رہے گا توایک آدمی فارسیوں میں سے اپنا ہاتھ پھیلائے گااوروہیں ثریاکے پاس سے اس کولے لے گا۔اب تم خودسمجھ سکتے ہوکہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اورضلالت جودوسری حدیثوں میں دخان کے ساتھ تعبیرکی گئی ہے دنیامیں پھیل جائے گی اورزمین میں حقیقی ایمان داری ایسی کم ہوجائے گی کہ گویاوہ آسمان پراٹھ گئی ہوگی اورقرآن کریم ایسا متروک ہوجائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالےٰ کی طرف اٹھایاگیاہوگا۔تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پیداہو اور ایمان کوثریا سے لے کر پھرزمین پرنازل ہو۔سویقیناً سمجھو کہ نازل ہونے والا ابن مریم یہی ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد3 ص 455-456)

قرآن کریم سے عشق ومحبت کااظہارتوہرکوئی مسلمان کرتاہی ہے۔لیکن جس زمانے میں امام الزمان امام مہدی علیہ السلام کی بعثت ہوئی اس زمانے میں قرآن کریم سے عشق ومحبت ایک اورہی رنگ اختیارکرچکاتھا۔اب قرآن سے محبت کااظہاراس کوقیمتی سے قیمتی ریشمی غلافوں میں بندکرکےکیاجارہاتھا۔اس کواونچے طاقچوں میں سجایاجاتاتھا کہ اس کی طرف پیچھانہ ہو۔امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت کردہ حدیث نبوی کاعملی اظہار اب ہورہاتھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پرعنقریب ایسازمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کاصرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریرہی رہ جائے گی۔مسجدیں تو لوگوں سے بھری ہوئی ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی اورویران ،ان کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے ان سے ہی فتنہ نکلے گااور انہیں میں واپس لوٹ جائے گا ،یعنی وہ فتنوں کے ماسٹرمائنڈ ہوں گے۔

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مَنْ عِنْدَهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ‘‘

(شعب الایمان للبیہقی1763)

یہ وہ زمانہ تھا کہ قرآن ختم شریف کے موقعے پر پڑھے جاتے ،مردوں کوثواب پہنچانے کے لیے پڑھے جاتے ،اس پرغوروفکر،تدبروفہم کا توسوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اکثریت توعربی سے ویسے ہی نابلدتھے۔ان کومعلوم ہی کیاتھا کہ اس کے اندرلکھاکیاہے۔اور جب ترجمہ کرنے کی باری آتی تو ترجمہ کرنے کوکفراورترجمہ کرنے والے کوکافرکہہ کرشورڈالاجاتا۔ایسے میں آپ ؑ نے عشق ومحبت ِقرآن میں احیاوتجدیدی کارنامہ یہ سرانجام دیاکہ عشق کے اس برائے نام سے دستور ورواج کو بدل ڈالا اور فرمایاکہ قرآن کوریشمی غلافوں سے باہرنکالواور اس کوپڑھو، اس میں غورو فکرکرو،تدبرکرو،اوراس سے اتناپیارکرو،اتناپیارکروکہ کسی سے نہ کیاہو۔آپؑ نے فرمایاکہ تمہاری کوئی بھی دینی ضرورت نہیں ہے جواس میں نہ ہو۔

(ماخوذ از کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ27)

(…………باقی آئندہ )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button