متفرق مضامین

الرجی (قسط نمبر 2)

(ڈاکٹر امۃ السلام سمیع۔ یوکے)

پھر جلد کے ساتھ تعلق میں آنے سے چیزیں الرجی پیدا کر سکتی ہیں جیسے میک اپ کی اشیاء ہیں ،کریمیں ہیں، کیمیکل جیسے بلیچ ہے ۔یہ ا لر جی اور irritationدونوں پیدا کرسکتے ہیں ۔

اس مضمون کو سمجھنے کے لیے ہمیں الرجی، حساسیت اور ایری ٹیشن کو سمجھنا ہوگا۔ جیسے irritation کی مثال ہے۔جب آپ پیاز کاٹتے ہیں تو آنکھوں میں خارش یاirritation ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے آپ کی آنکھ لال بھی ہو سکتی ہے۔یہ ایسا عمل ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ ایسا کام نہ کریں۔ یا اپنی حفاظت کے ساتھ یہ کام کریں ۔جیسے عینک پہن کر پیاز کاٹ لیں ورنہ آپ اپنے آپ کو اس خاص اثر ہونے والے جسم کے حصہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ حفاظتی عمل ہے۔

حساسیت کسی بھی چیز کا جسم کی ضرورت یا جسم کی اس کو استعمال کرنے کی طاقت سے زیادہ استعمال آپ کے اندر تکلیف پیدا کرنے والی علامات پیدا کرسکتا ہے ۔اس چیز کی مقدار کا تعین انسان کے جسم کے لیے مختلف ہوتا ہے مثلاً ایک عام پیالہ گندم کا دلیہ آپ کو کسی قسم کی ناپسندیدہ علامات نہیں دیتا۔ اگر آپ دو پیالا کھالیں تو اس سے آپ کا پیٹ پھول جائے گا ۔بے آرامی کا احساس ہو گا۔ آپ کے جسم پر خارش بھی ہوسکتی ہے۔ شاید سرخ رنگ کے نشان یاد ھپڑ بھی پڑ جائیں مگر یہ بد ہضمی نہیں ہوتی۔ ان دونوں کی علامات میں واضح فرق ہے۔ حساسیت کا تعلق جسم میں بد اثرات کا پیدا ہونا کھانے کی مقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ الرجی ایک جسم کا پریشان کن ردِ عمل ہے جو وہ بے ضرر چیزوں کے لیے پیدا کرتا ہے ۔اس رد عمل میں جسم کا کوئی بھی نظام اور حصہ علامات پیدا کرسکتا ہے۔ جیسے انسانی جلد، سانس کا نظام، کھانے کا نظام، ناک، کان، گلے یا آواز، بلڈ پریشر یا ذہن ان سب پر اثر ہو سکتا ہے۔ جیسے خارش ہونا جو صرف جسم پر جلد پر ہی نہیں بلکہ ناک ،کان گلے اور آنکھوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ جسم پر لال رنگ کے دھپڑبہت نمایاں طریقے پر پڑ سکتے ہیں۔ جن میں خارش ہوتی ہے۔ چھینکیں آنا، ناک بند ہونا ،ناک سے رطوبت بہنا ،کھانسی آنا، آواز کا بدلنا، دمے کادورہ پڑنا، الٹی آنا، جلاب لگنا ،چکر آنا، سانس رکنا اور الرجی کی شدت بےہوشی بھی پیدا کر سکتی ہے ۔اور کچھ حالتوں میں زندگی کو خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے مونگ پھلی یا تِل کی الرجی سے حال ہی میں بچوں کی اموات کے افسوسناک واقعات ہوئے ۔ ہوئیں ۔

الرجی کی ایک علامت بھی ہو سکتی ہے اور ایک مریض میں اس کی بہت سی علامات اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں۔ اور عام حالات میں ان علامات کی شدت الرجی کی شدت پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ علامات مریض کی روزمرہ کام کاج پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔

الرجی کا مضمون بہت بڑا ہے ۔ہم سب سے زیادہ روزانہ زندگی پر اثر انداز ہونے والی الرجی یعنی ہوا میں اڑنے والے ذرات کی الرجی کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے۔جیسے گھاس ،درختوں اور پھولوں کے بیج، ہاؤس ڈسٹ مائیٹ HDMروزانہ کے پالنے والے جانور جیسے کتا ،خرگوش، بلی، گھوڑا کے لعاب کے ذرات کی وجہ سے الرجی ۔ان کے بالوں یا بعض دفعہ ان کے پیشاب کے ذرات کی وجہ سے الرجی۔ گندگی جس میں کاکروچ پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بہت شدت کی الرجی کی علامات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ پھر فنگس اور مولڈ بھی مستقل اور روزانہ زندگی پر اثر کرنے والی علامات پیدا کر سکتی ہیں ۔

ان الرجی پیدا کرنے والے ذرات سے بہت سی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے ناک کابند ہونا، ناک سے بے حساب رطوبت بہنا ، چھینکیں آنا ، ناک ، کان ، گلے میں خارش ہونا ۔ شنوائی میں فرق پڑنا ، آنکھوں کا لال ہونا، آنکھوں میں خارش ہونا اور بہت آنسو آنا مگر اس سے دیکھنے کی صلاحیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر یہ علامات یا الرجی شدت کی ہو تو سینے سے آوازیں آنا اور دمہ کا دورہ بھی ہو سکتا ہے ۔

ہاؤس ڈسٹ مائیٹ ،یہ مائیکروسکوپ سے دکھائی دینے والا کیڑا خود تو الرجی پیدا نہیں کرتامگر اس کے جسم کا اخراج بہت سخت خارش پیدا کرنے والی یا Irritating Protein کا بنا ہوتا ہے۔ اور جس جگہ خاص کر جب یہ ناک کی جھلی میں جاتیں ہیں تو اس کوIrritate کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے جھلی میں رطوبت پیدا کرنے والے غدود زیادہ رطوبت بناتے ہیں کہ اس فساد پیدا کرنے والی چیز کو جسم سے نکال سکیں اور اِسی کشمکش میں کچھ ایسےہارمونز یا انزائمز نکلتے ہیں جو اس عنصر کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ اس کا تو کچھ نہیں کرسکتے بلکہ ناک کی جھلی کو بری طرح سوجا دیتے ہیں اور ناک بند ہونا، ناک میں خارش ہونا، بہت زیادہ رطوبت پیدا ہونے کی علامات شروع ہو جاتی ہیں۔یہ سوجن جب ناک کے پچھلے حصے میں پہنچتی ہے ۔ جہاں ناک کو کان کے درمیانے حصے سے ملانے والی ٹیوب (Eustachian Tube)کھلتی ہے۔ جس کا کام ہمارے نگلنے پر ہوا کو اس ٹیوب کے ذریعے کان میں پہنچانا ہوتا ہے ۔تاکہ یہ ہوا کان کے اندرونی حصہ میں آواز کے سفر میں مدد کرےاور ہم سن سکیں ۔ اگر یہ نالی یا ٹیوب جو بہت ہی باریک اور چھوٹی ہوتی ہے۔ الرجی کی ان تبدیلیوں کی وجہ سے سوج جائے۔ تو بند ہوجاتی ہے اور تازہ ہوا کان کے درمیانی حصہ میں نہیں پہنچاتی اور سنائی دینے میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اَور بھی دوسری کان سے تعلق رکھنے والی علامات پیدا ہو سکتی ہیں ۔

…………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button