خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کی سیرت مبارکہ کا دلنشین تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 14؍جون2019ءبمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، سرے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 14؍ جون 2019ء کو مسجد بیت الفتوح،مورڈن، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےحضرت زید بن حارثہؓ کے واقعات بیان کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئےفرمایا:

طائف کے سفر کی کچھ مزیدوضاحت جو سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے لکھی ہے،اس حوالے سےبھی بیان کرتا ہوں۔

شعبِ ابی طالب سے نکلنےکےبعد جب آنحضرتﷺ کو کچھ آزادی نصیب ہوئی تو آپؐ نے مکّہ کے جنوب مشرق کی جانب چالیس میل کے فاصلے پر واقعے مشہور مقام طائف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ شوال 10؍ نبوی میں آنحضرتﷺ طائف تشریف لےگئے۔بعض روایتوں کےمطابق حضرت زید بھی آپؐ کےساتھ تھے۔ یہاں دس روز قیام کےدوران آپؐ نے کئی رؤساسےملاقاتیں کیں۔ لیکن سب نے انکار کیابلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپؐ طائف کے رئیسِ اعظم عبدیالیل یا ابن عبدیالیل کےپاس گئے اور اسے اسلام کی دعوت دی۔ اس نےبھی انکارکیا اور تمسخر کی راہ اختیار کی۔ اس بدبخت نے شہر کے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھےلگادیےجنہوں نے پتھر برسا برساکر آپؐ کو لہولہان کردیا۔ حضرت زیدؓ کے بھی سر پر پتھر لگے۔تین میل تک یہ لوگ گالیاں دیتے اور پتھر برساتےچلےگئے۔

طائف سےنکل کر آپؐ نے عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ لی، اور اللہ تعالیٰ کے حضوردعا کی۔ عتبہ اور شیبہ نے اپنے غلام عداس کے ہاتھوں انگور بھجوائے، جو آپؐ نے قبول فرمالیے۔ آپؐ نے عداس سے اس کے مذہب اور علاقے کے متعلق استفسار فرمایا۔ عداس نے بتایا کہ وہ نینوہ کا عیسائی ہے۔ جس پرآپؐ نے یونسؑ کےمتعلق فرمایا کہ وہ میرابھائی تھا کیوں کہ میں بھی نبی ہوں۔آپؐ نے عداس کو تبلیغ فرمائی جس کا اس پر گہرااثرہوا۔ اس نے عقیدت سے آپؐ کے ہاتھ چوم لیے۔

یہاں سے واپسی پرآپؐ پہلے نخلہ اور پھر کوہِ حرا میں ٹھہرے۔طائف سے بظاہر ناکام واپسی پر مکّہ والوں کے دلیر ہونے کا خدشہ تھا۔ چنانچہ آپﷺ مطعم بن عدی کی پناہ میں مکّہ میں داخل ہوئے۔

حضرت زیدؓ ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت کلثوم بن ہدم یا حضرت سعد بن خیثمہ کے یہاں قیام پذیر رہے جبکہ آپؓ کی مؤاخات حضرت اسیدبن حفیرسے یا حضرت حمزہؓ کےساتھ قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے غزوہ احدکےدن حضرت حمزہؓ نے حضرت زیدؓ کے حق میں وصیّت فرمائی تھی۔ ہجرت کے چند دن بعد آپؐ نے زیدؓ کو مکّہ روانہ کیا جو آپؐ کے اہل وعیال کو لےکر مدینہ آئے۔

حضورِ انور نے آنحضورﷺ کے عمرے کی ادائیگی کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا ۔ مکّہ میں تین دن قیام کےبعد جب آپؐ واپس روانہ ہوئے تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی عمّارہ یا عمامہ یا ایک روایت کے مطابق امۃ اللہ پیچھے پیچھے آگئیں۔ ان کو اپنے پاس رکھنے کےحوالے سے حضرت علیؓ ، حضرت جعفرؓ اور حضرت زیدؓ آپس میں جھگڑنے لگے۔ چونکہ آنحضرت ﷺ نے حضرت زیدؓ کی حضرت حمزہؓ سے مؤاخات قائم فرمائی تھی اس رشتے سے زیدؓ کا دعویٰ تھا کہ یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، اور اسےرکھنے کا میرا حق ہے۔ حضرت زیدؓ نے امّ ایمن سے شادی کی تھی۔ یہ حبشہ کی رہنے والی تھیں اور حضورﷺ کے والد عبداللہ کی کنیز تھیں۔ آنحضورﷺ کی والدہ کی وفات کے بعد امِّ ایمن ہی ابواء مقام سے آپؐ کو لےکر مکّہ واپس آئیں تھیں۔ پہلے امِّ ایمن کی شادی عبیدبن زیدسےہوئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق امِّ ایمن آپؐ سے نہایت مہربانی سے پیش آتی تھیں۔ ان ہی سے حضرت اسامہ پیداہوئے۔ حضرت امِّ ایمن نے حبشہ کی طرف ہجرت کی،مدینہ ہجرت کےبعد غزوہ احد میں آپ لوگوں کو پانی پلاتیں،زخمیوں کی تیمارداری کرتیں۔ حضرت امِّ ایمن کی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت کے آغاز میں ہوئی۔

حضورِ انور نے حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کے حوالے سے حضرت زیدؓاور امِّ ایمن کی شادی کی کچھ مزید تفاصیل بیان فرمائیں۔ آپؐ امِّ ایمن کے متعلق فرماتے کہ یہ میرے اہلِ بیت میں سے باقی ماندہ ہیں۔ اسی طرح فرماتے کہ امِّ ایمن میری حقیقی والدہ کے بعد میری والدہ ہیں۔

ہجرتِ مدینہ کےبعد انصار نے مہاجرینِ مکّہ کو اپنی جائیدادوں میں سے کچھ حصّہ دینے کامعاہدہ کیا۔ جس کے مطابق انصار ہرسال اپنے باغوں کا میوہ مہاجرین کو دیتے لیکن محنت مزدوری اور باغ کو سنھالنے کاکام خود کرتے۔ حضرت انس کی والدہ حضرت امِّ سلیم نے اپنے باغ کے کچھ کھجورکےدرخت حضورﷺ دیے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ درخت اپنی کِھلائی حضرت امِّ ایمن کو دے دیے۔فتحِ خیبرکےبعدچونکہ مہاجرین کے معاشی حالات بہتر ہوچکے تھے تو مہاجرین نے یہ عطیے انصار کو واپس کردیے۔ روایت کے مطابق آنحضرتﷺ نے اس موقعے پرحضرت امِّ ایمن کو پہلے سےدس گنا زیادہ درخت عطافرمائے ۔

حضرت امِّ ایمن کے ساتھ خداتعالیٰ کا بڑا خاص سلوک تھا۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت آپؓ ایک بزرگ خاتون تھیں۔ راستے میں شدید گرمی اور پیاس کی شدت محسوس ہوئی تو انہوں نے آسمان سے پانی کے ایک ڈول کی مانند چیز کو اپنے سر پر جھکا پایا۔ آپ نے سیر ہوکر پانی پیا۔ بیان کرتیں کہ اس کے بعدمجھے کبھی پیاس یا تشنگی کا احساس نہ ہوا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بدری صحابہ کے ذکرکے دوران اِن بزرگ خواتین کا ذکر ساتھ ساتھ کرتا رہتاہوں تاکہ ان خواتین کے بلندمقام کا بھی پتالگتا رہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آغاز میں سلام اللہ علیکم کہنے کا رواج تھا لیکن امِّ ایمن کی زبان میں کچھ لکنت تھی۔ آپؓ صحیح طرح یہ الفاظ ادانہ کرپاتیں۔ آنحضرتﷺ نے حضرت امِّ ایمن کو سلام علیکم یا السلام علیکم کہنےکی اجازت دی اور اب وہی رواج ہے۔

حضرت امِّ ایمن آپؐ کی وفات پر روتی جاتیں ۔ کسی نےپوچھا آپ کیوں روتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ تو جانتی تھی کہ آپؐ بھی ایک دن ضرور وفات پاجائیں گے۔ لیکن میں روتی اس لیے ہوں کہ آپؐ کی وفات کے ساتھ جوتازہ بتازہ نزولِ وحی کا سلسلہ تھا وہ اب بند ہوگیا۔

حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد ایک روز حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ امِّ ایمن کے پاس ملنےکےلیےگئے تو آپؓ روتی رہیں۔ دونوں صحابہ نے جب صبر کی تلقین کی تو آپؓ نے یہی جواب دیا کہ اب آسمان سے وحی آنا بند ہوگئی ہے۔ اس بات نے ابوبکرؓ اورعمرؓ کو بھی غم گین کردیا اور وہ دونوں بھی رونے لگے۔

بعض منافق طبع حضرت زید اور اسامہ بن زید کی رنگت کےتفاوت کے باعث اعتراض کیا کرتے۔ ایک مرتبہ مجززمدلجی جو ماہر قیافہ شناس تھا۔ اس نے اِن دونوں باپ بیٹے کو ایسی حالت میں سوتے ہوئےدیکھا کہ دونوں کے چہرے ڈھکے ہوئےتھے۔ اس نے گواہی دی کہ یہ پیر ایک دوسرے میں سے ہیں۔ عرب کے ماحول میں یہ ایک حتمی بات تھی۔ اس ثبوت کی دستیابی پر آنحضرتﷺ بڑے خوش ہوئے۔

حضورِ انور نے سیرت خاتم النبیین کے حوالے سے حضرت زید اور حضرت زینب بنت جحش کی شادی،طلاق اور پھر آپؐ کے ساتھ شادی کی تفصیل بیان فرمائی۔

آنحضرت ﷺ نے شعبان 5ہجری میں زینب بنت جحش سے شادی فرمائی۔ زینب آپؐ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحب زادی تھیں۔ نیکی اور تقویٰ کے باوجود خاندانی عظمت کا احساس بھی ان کی طبیعت میں پایا جاتا تھا۔ آنحضرتﷺ کی پُرزور تحریک پر زینب کی زیدؓ کےساتھ شادی ہوگئی۔ لیکن طبقاتی فرق کے باعث گھریلو زندگی پہلے بےلطف ہوئی اور پھر ناچاقی میں بدل گئی۔ حضرت زید نے آنحضرتﷺ سے طلاق کی اجازت چاہی جسے آپؐ نے طبعاً ناپسندفرمایا۔ ایک مضبوط روایت سے علم ہوتاہےکہ آنحضرتﷺ کو وحی کے ذریعے پہلے ہی خبر دی جاچکی تھی کہ حضرت زینب طلاق کےبعد آپؐ کے نکاح میں آئیں گی۔ لہذا آنحضورﷺاس معاملے سے بالکل بےتعلق رہے۔ حضورؐ کو یہ اندیشہ تھا کہ زیدسے طلاق کےبعد زینب آپؐ کے نکاح میں آئیں تو لوگ متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی پر خواہ مخواہ ابتلا میں پڑیں گے۔

بہرحال جب زیدؓ نے زینؓب کو طلاق دےدی تو عدت کےبعد آنحضورﷺ پر زینب کو اپنے نکاح میں لینے کےمتعلق وحی نازل ہوئی۔ اس خدائی حکم میں حضرت زینبؓ کی دل جوئی کےعلاوہ مطلقہ اور بالخصوص متبنیٰ کی مطلقہ سے شادی میں یہ حکمت تھی کہ مسلمانوں میں منہ بولےبیٹے کے حقیقی بیٹا نہ ہونے کا،عملی اثر قائم ہو۔ یوں عرب کی جاہلانہ رسم مسلمانوں میں پورے طورپر مٹ گئی۔ اس اہم واقعے کی تفصیل قرآن کریم میں بھی بیان ہوئی ہے۔

خدائی وحی کے نزول کے بعد آپؐ نےزیدؓ کے ہاتھ ہی شادی کا پیغام بھجوایا۔ زینبؓ کی رضامندی کے بعد ان کے بھائی ابواحمد جحش نے ولی بن کر چارسودرہم پر زینب کا نکاح آنحضرتﷺ کے ساتھ کردیا۔
حضورِ انور نے ابنِ ہشام کی روایت کی روشنی میں عام مؤرخین اور محدثین کے اس وسوسے کا ازالہ فرمایا کہ چونکہ یہ نکاح خاص خدائی حکم کے تحت ہوا تھا اس لیے ظاہری طور پر نکاح کی رسم ادا نہیں کی گئی تھی۔

آخر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ اس نکاح پر معترضین آج بھی اعتراض کرتے ہیں سو ہمیں اس معاملے کا تفصیلی علم ہونا چاہیے۔ اس لیے بعض مزید تفصیلات اور حضرت زید سے متعلق بعض اور باتیں ،جس حد تک بیان کرنےکی ضرورت ہوئی آئندہ بھی مَیں بیان کروں گا۔ ابھی حضرت زید کے حوالےسے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button