حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 7)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

غیرت ِدینی

اس بات کے بتا نے کے بعد کہ رسول کریم ﷺ کی زندگی اور آپ کا ہر فعل خشیت الٰہی کی ایک زندہ مثال ہے میں آپؐ کی غیرت دینی کے متعلق کچھ لکھنا چاہتا ہوں۔

بہت سے لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھا تے ہیں مگر یہ اخلاق اسی وقت تک ظا ہر ہو تے ہیں جب تک انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ذرا ان کے منشاکے خلاف کو ئی بات ہو اور ان کی آنکھیں لال پیلی ہو جا تی ہیں اور منہ سے جھاگ آنی شروع ہو جا تی ہے۔اور اگر اشارۃً بھی کو ئی انہیں ایسی بات کہہ بیٹھے جس میں وہ اپنی ہتک سمجھتے ہوں تو وہ اسے برداشت نہیں کر سکتے بلکہ ہر ممکن سے ممکن طریق سے اس کا بدلہ لینے کی کو شش کر تے ہیں اور جب تک مد مقابل سے بدلہ نہ لے لیں انہیں چین نہیں آ تا۔

مگر انہیں لو گوں کو دیکھا جا تا ہے کہ جب خدا اور رسول کی کوئی ہتک کر تا ہے تو اسے بڑی خوشی سے سنتے ہیں اورا ن کو وہ قطعًا بری نہیں معلوم ہو تی اور ایسی مجلسوں میں اٹھنا بیٹھنا نا پسند نہیں کر تے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ کسی وقت ان سے بھی کو ئی غلطی ہو جا تی ہے اور اس طرح ان کا دین برباد ہو جا تا ہے۔

جتنے اخلاق اخلاق اور تہذیب تہذیب پکا رنے والے لوگ ہیں ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرکے دیکھ لو ضرور ان میں یہ بات پا ئی جا ئے گی کہ دوسروں کے معاملہ میں اور خصوصًا دین کے معاملہ میں غیرت کے اظہار کو وہ بد خلقی اور بد تہذیبی قرار دیتے ہیں مگر اپنے معاملہ میں ان کا معیار ِ اخلاق ہی اور ہے اور وہاں اعلیٰ اخلاق سے کام لینا ان کے لیے ناممکن ہو جا تا ہے۔

مومن انسان کا کام اس کے بالکل بر خلاف ہو نا چاہیے اور اسے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اپنے معاملات میں دکھانا چاہیے اور حتّی الوسع کوشش کر نی چاہیے کہ بہت سے موقعوں پر چشم پو شی سے ہی کام لے اور جب تک عفو سے کام نکل سکتا ہو اور اس کا خراب نتیجہ نہ نکلتا ہو اسے ترک نہ کرے لیکن دین کے معاملہ میںقطعًا بے غیرتی کا اظہار نہ کرے اور ایسے تمام مواقع جن میںدین کی ہتک ہو تی ہوان سے الگ رہے اور ایسی تمام مجلسوں اور صحبتوں سے پر ہیز کرے کہ جن میں دین کی ہتک اور اس سے ٹھٹھا ہو تا ہو اور دین پر جس قدر اعتراض ہوں ان کو دور کرنے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا نہیں کر تا تو معلوم ہو گا کہ وہ خداتعالیٰ کی قدوسیت قائم کرنے کی نسبت اپنے نفس پر اعتراضات دور کرنے کے لیے زیا دہ کو شاں رہتا ہے اور جتنا اسے اپنی صفا ئی کا خیال ہے اتنا خدا تعالیٰ اور دینِ حق کی تنزیہہکا خیال نہیں۔

رسول کریم ﷺکی زندگی اس معاملہ میں بھی عام انسانوں سے بالکل مختلف ہے اور آپؐ بجائے اپنے نفسانی معاملات اور ذاتی تکالیف پر اظہار غضب و غصہ کے نہایت ملائمت اور نرمی سے کام لیتے اور اگر کو ئی اعتراض کر تا تو اس پر خاموش رہتے اور جب تک خاموشی سے نقصان نہ پہنچتا ہو کبھی ذبّ اعتراضات کی طرف توجہ نہ کر تے مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں آپؐ بڑے با غیرت تھے اور یہ کبھی برداشت نہ کر سکتے تھے کہ کو ئی شخص اللہ تعالیٰ کی ہتک کرے اور جب کو ئی ایسا موقع پیش آتا آپؐ فوراً اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کرتے یا اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے احکام سے لا پر واہی کر تا تو اسے سخت تنبیہ کر تے۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے فر مایا کہ

جَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرِّ جَالَۃِ یَوْمَ اُحُدٍ وَکَا نُوْ اخَمْسِیْنَ رَجُلًا عَبْدَاللہِ بْنَ جُبَیْرٍ فَقَالَ اِنْ رَاَیْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَاتَبْرَحُوْامَکَانَکُمْ ھٰذَا حَتّٰی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ وَاِنْ رَاَیْتُمُوْنَا ھَزَمْنَا الْقَوْمَ وَاَوْطَأْنَا ھُمْ فَلَاتَبْرَحُوْ احَتّٰی اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ فَھَزَمُوْ ھُمْ قَالَ وَاَنَا وَاللہِ رَاَیْتُ النِّسَآءَ یَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُھُنَّ وَاَسْوُ قُھُنَّ رَافِعَاتٍ ثِیَابَھُنَّ فَقَالَ اصْحَابُ عَبْدُاللہِ بْنِ جُبَیْرٍ اَلْغَنِیْمَۃَ اَیْ قَوْمِ الْغَنِیْمَۃَ ظَھَرَ اَصْحَابُکُمْ فَمَا تَنْتَظِرُوْنَ فَقَالَ عَبْدُاللہِ بْنُ جُبِیْرٍ اَنَسِیْتُمْ مَاقَالَ لَکُمْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالُوْ وَاللہِ لَنَاْتِیَنَّ النَّاسِ فَلَنُصِیْبَنَّ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ فَلَمَّا اَتَوْھُمْ صُرِفَتْ وُجُوْھُھُمْ فَاَقْبَلُوْ امُنْھَزِمِیْنَ فَذٰکَ اِذْ یَدْعُوْھُمُ الرَّسُوْلُ فِی اُخْرَاھُمْ فَلَمْ یَبْقَ مَعَ النَّبِیِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرُ اِثْنَیْ عَشَرَ رَجُلًا فَاَصَا بُوْ امِنَّا سَبْعِیْنَ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَصْحَابُہٗ اَصَابَ مِنَ الْمُشْرِ کِیْنَ یَوْمَ بَدْرٍاَرْ بَعِیْنِ وَمِائَۃَ سَبْعِیْنِ اَسِیْرًا وَسَبْعِیْنَ قَتِیْلًا فَقَالَ اَبُوْ سُفْیَانَ اَفِی الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَھَاھُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یُّجِیْبُوْہُ ثُمَّ قَالَ اَفِی الْقَوْمِ اِبْنُ اَبِیْ قَحَا فَۃَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ اَفِی الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّا بِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی اَصْحَابِہٖ فَقَالَ اَمَّا ھٰؤْلٓاَ ءِ فَقَدْ قُتَلُوْ فَمَا مَلَکَ عُمَرُ نَفْسَہٗ فَقَالَ کَذَبْتَ وَاللہِ یَاعَدُوَّ اللہِ اِنَّ الَّذِیْنَ عَدَدْتَ لَاَحْیَآءٌ کُلُّھُمْ وَقَدْ بَقِیَ لَکَ مَایَسُوْ ءُ کَ قَالَ یَوْمٌ بِیَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ اِنَّکُمْ سَتَجِدُوْنَ فِی الْقَوْمِ مُثْلَۃً لَمْ اٰمُرْبِھَاوَلَمْ تَسُؤْنِیْ ثُمَّ اَخَذَ یَرْتَجِزُ اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ قَالَ النّبِیُّ صَلیَّ اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَا تُجِیْبُوْ الَہٗ قَالُوْ ایَارَسُوْلَ اللہِ مَا نَقُولُ قَالَ قُوْلُوْ اللہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ قَالَ اِنَّ لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ فَقَالَ النَّبِیُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلَا تُجِیْبُو الَہٗ قَالُوْ ایَارَسُوْلَ اللہِ مَا نَقُوْلُ قَالَ قُوْلُوْ ااَللہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلیٰ لَکُمْ

(بخاری کتاب الجھاد باب مایکرہ من التنازع والا ختلاف فی الحرب)

یعنی رسول کریم ﷺ نے پیا دہ فوج کے پچاس آدمیوں پر احد کے دن عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہٗ کو مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ ہمیں جانور اچک رہے ہیں تب بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہلنا جب تک تم کو میں کہلا نہ بھیجوں۔اور اگر تم یہ معلوم کر لو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور ان کو مسل دیا ہے تب بھی اس وقت تک کہ تمہیں کہلا نہ بھیجا جائے اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔اس کے بعد جنگ ہو ئی اور مسلمانوں نے کفار کو شکست دے دی۔حضرت براءؓ فرما تے ہیں خدا کی قسم میں دیکھ رہا تھا کہ عورتیں کپڑے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہی تھیں اور ان کی پنڈلیاں ننگی ہو رہی تھیں اس بات کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا کہ اے قوم ! غنیمت کا وقت ہے غنیمت کا وقت ہے ۔ تمہارے سا تھی غالب آگئے پھر تم کیا انتظار کر رہے ہو اس پر عبداللہ بن جبیر ؓ نے انہیں کہا کہ کیا تم رسول کریمﷺ کا حکم بھول گئے ہو۔انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ! ہم بھی سا ری فوج سے مل کر غنیمت حاصل کریں گے۔جن لشکر سے آکر مل گئے تو ان کے منہ پھیرے گئے اور شکست کھا کر بھا گے اسی کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ آیت نازل ہو ئی ہے کہ یا دکرو جب رسول تم کو پیچھے کی طرف بلا رہا تھا اور رسول کریم ﷺ کے سا تھ سوائے بارہ آدمیوں کے اور کوئی نہ رہا اس وقت کفار نے ہمارے ستر آدمیوں کا نقصان کیا اور رسول کریم ﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ نے جنگ بدر میں کفار کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا۔سترّ قتل ہوئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے۔غرضیکہ جب لشکر پراگندہ ہو گیا اور رسول کریمؐ کے گرد صرف ایک قلیل جماعت ہی رہ گئی تو ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ کیا تم میں محمد(ﷺ) ہے اور اس بات کو تین بار دہرایا لیکن رسول کریم ؐ نے لوگوں کو منع کر دیا کہ وہ جواب نہ دیں۔اس کے بعد ابو سفیان نے تین دفعہ بآوازبلند کہا کہ کیا تم میں ابن ابی قحافہ (حضرت ابوبکر ؓ) ہے۔اس کا جواب بھی نہ دیا گیا تو اس نے پھر تین دفعہ پکار کر کہا کہ کیا تم میں ابن الخطاب(حضرت عمرؓ)ہے۔پھر بھی جب جواب نہ ملا تو اس نے اپنے سا تھیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ یہ لوگ مارے گئے ہیں۔اس بات کو سن کر حضرت عمرؓ برداشت نہ کر سکے اور فرمایا کہ اے خدا کے دشمن تو نے جھوٹ کہا ہے جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب کے سب زندہ ہیں اور وہ چیز جسے تو ناپسند کر تا ہے ابھی با قی ہے۔ اس جواب کو سن کر ابو سفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کا بدلہ ہو گیا۔اور لڑا ئیوں کا حال ڈول کا سا ہو تا ہے تم اپنے مقتولوں میں بعض ایسے پاؤ گے کہ جن کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں گے۔میں نے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا لیکن میں اس بات کو نا پسند بھی نہیں کر تا۔پھر فخر یہ کلمات بآوازبلند کہنے لگا اُعْلُ ھُبَلْ اُعْلُ ھُبَلْ یعنی اے ہبل(بت) تیرا درجہ بلند ہو اے ہبل تیرا درجہ بلند ہو۔اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو جواب کیوں نہیں دیتے۔صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ! ہم کیا کہیں؟آپؐ نے فر مایا کہو‘‘کہ خدا تعالیٰ ہی سب سے بلند رتبہ اور سب سے زیا دہ شان والا ہے’’۔ ابوسفیان نے یہ بات سنکر کہا‘‘ ہمارا تو ایک بت عُزّیٰ ہے اور تمہار کو ئی عُزّیٰ نہیں’’۔جب صحابہؓ خاموش رہے تو رسول کریم ؐ نے فر مایا کہ کیا تم جواب نہیں دیتے۔صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ ہم کیا کہیں۔آپؐ نے فر مایا انہیں کہو کہ ‘‘خدا ہمارا دوست وکارساز ہے اور تمہارا کوئی دوست نہیں’’۔

اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ خدا تعالیٰ کے معاملہ میں کیسے باغیرت تھے۔ابو سفیان اپنی جھوٹی فتح کے نشہ میں مخمور ہو کر زور سے پکارتا ہے کہ کیا آپ زندہ ہیں لیکن آپؐ اپنی جماعت کو منع فر ماتے ہیں کہ تم ان باتوں کا جواب ہی نہ دو اور خاموش رہو۔ایک عام آدمی جو اپنے نفس پر ایسا قابو نہ رکھتا ہو ایسے موقع پر بولنے سے کبھی باز نہیں رہ سکتا اور لا کھ میں سے ایک آدمی بھی شا ید مشکل سے ملے جو اپنے دشمن کی جھوٹی خوشی پر اس کی خوشی کو غارت کر نا پسند نہ کرے۔لیکن چونکہ ابو سفیان اس دعویٰ سے رسول کریم ؐ کی ذات کی ہتک کرنا چاہتا تھا اور یہ ظاہر کر نا چاہتا تھا کہ میں نے ان کو قتل کر دیا ہے اس لیے رسول کریم ؐ نے نہ صرف خود جواب نہ دیا بلکہ صحابہ ؓ کو بھی منع کر دیا۔

مگر جو نہی کہ ابو سفیان نے خدا تعالیٰ کی ذات پر حملہ کیا اور سر میدان شرک کا اعلان کیا اور بجا ئے خدا تعالیٰ کی عظمت بیان کرنے کے ہبل بت کی تو صیف کی تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور صحابہ ؓکو حکم دیا کہ اسے جواب دو کہ خدا کے سوا اورکو ئی نہیں جو عظمت و جلال کا مالک ہو۔پھر جب اس نے یہ ظاہر کیا کہ عزیٰ ہمارا مدد گا ر ہے آپؐ نے صحابہ ؓکو حکم دیا کہ اسے کہہ دو کہ ہمارا خدا مددگار ہے اور ہم کسی اور کی مدد نہیں چاہتے اور یہ بات بھی خوب یادرکھو کہ خدا ہماری مدد کرے گا اور تمہاری مدد کر نے والا کوئی نہ ہو گا۔

اللہ اللہ ! اپنے نفس کے متعلق کیا صبر ہے اور خدا تعالیٰ اور اس کے دین کی کیسی غیرت ہے۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button