از مرکز

حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا معرکہ آرا خطبہ عید الفطر

سیّدنا و امامنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یکم شوال 1440ہجری قمری بمطابق 5؍ جون 2019ء بروز بدھ مسجد بیت الفتوح مورڈن میں عید الفطر پڑھائی اور معرکہ آرا خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس اجتماع میں دس ہزار سے زائد احمدیوں نے شرکت کی۔

حضورِ انور نمازِ عید پڑھانے کے لیے ٹھیک گیارہ بجے مسجد بیت الفتوح میں رونق افروز ہوئے اور نماز کا آغاز ہوا۔ نماز کے بعد حضورِ انور منبر پرتشریف لائے اورالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کے بعد خطبہ عید الفطر کا آغاز فرمایا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے قریباً سو سال سے زائد عرصہ پہلے عید پہ ایک خطبہ دیا تھا۔ وہ مضمون آج بھی بہت اہم ہے۔ اس لیے اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں آج عید کے حوالے سے کچھ باتیں کروں گا۔

اس کے بعد حضورِ انور نے عید اور پھر خوشی کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں جس قدر خوشیاں ہیں وہ اجتماع سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی طرح خوشی کے اظہار کے لیے بھی اجتماع منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے کہ جب اسے خوشی ہو تو وہ دوسروں سے ملے اور خوشی حاصل کرے۔ پس خوشی اور اجتماع دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے عید کے موقع پر خوشی کا موقع پیدا کیا ہے، مسلمانوں کو جمع ہونے کا حکم دیا ہےکہ صرف ایک جگہ کے قریبی لوگ نہیں بلکہ تمام علاقے کے لوگ عید کے موقع پر عید گاہ میں جمع ہوں اور عید کی خوشی منائیں۔ پس اس نظر سے ہم دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ خوشی درحقیقت اجتماع کا نام ہے۔ اس لحاظ سے عید بھی اجتماع کا نام ہے اور سب سے بڑی عید وہی ہو سکتی ہے جس میں سب سے بڑا اجتماع ہو اور اس سب سے بڑے اجتماع کی بنیاد کب پڑی جس کی وجہ سے سب سے بڑی عید کا موقع پیدا ہوا ؟ وہ اس وقت ہوا جب اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے انسان نے تمام دنیا کو پکار کر کہا کہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّٰهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کہ اے انسانو! یقینا میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیا نے مختلف انبیاء کی بعثت کے وقت چھوٹے پیمانے پر عیدیں تو دیکھی تھیں مگر حضرت آدم سے لے کر اگر دنیا میں کوئی بڑی عید ہوئی تو وہ وہی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک انتہائی پیارے کو کہا کہ تم اپنے ذریعہ سے تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ کو ایک لامتناہی روحانی خزانہ دیا گیا ہے جسے بلا تفریق پوری دنیا میں بھی تقسیم کیا جائے تو تھوڑا نہیں پڑے گا۔ یقیناً آپؐ کا آنا سب سے بڑی عید کا دن تھا کیونکہ آپؐ کی بعثت کے ساتھ تکمیل ہدایت ہوئی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر ایک عید کا دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرما کو خود تکمیل تبلیغ اور اشاعتِ دین کا ذمہ لیا۔ چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے تمام دنیا شریعت کے احکام پر جمع ہو کر عملی طور پر ایک دین پر اکٹھی ہو جائے گی تو وہ اصل اور بڑی عید ہو گی اور اس عید کا زمانہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر حقیقی عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے تو پھر ہمیں اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ کس طرح ہم اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا ہے اس پر عمل کر کے ہم جلد سے جلد اس حقیقی عید لانے کے سامان کر سکتے ہیں، اس کام کو صحیح رنگ میں سرانجام دے سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہمارے سپرد کیا ہے۔

حضورِ انور نے اس مقصد کے حصول کے لیے چنیدہ نصائح بیان فرمائیں کہ ایسی فطرت حاصل کرو کہ خدا تعالیٰ کی محبت کسی غرض کے لیے نہ ہو ۔قرآن کو بکثرت پڑھو اور اپنے عملوں کو اس کے مطابق ڈھال کر عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبیاں دنیا پر ظاہر کرو۔ تبلیغ کے لیے تقویٰ بھی ضروری ہے اس لیے قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر کے ہی تقویٰ پیدا ہو سکتا ہے اور عملی خوبیاں پیداہو سکتی ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی بھرپور کوشش کرو۔ یہ دونوں یہ تمہارے فرائض میں داخل ہیں۔ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو اقرارِ توحید اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ذکر الٰہی اور اپنے بھائیوں کے حق ادا کرنے میں خاص رنگ پیدا کرنا چاہیے۔ سچی توبہ کرو اور خدا تعالیٰ کو سچائی اور وفاداری سے راضی کرو۔ نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرو۔ تہجد میں باقاعدگی اختیار کرو۔ نوافل کی طرف توجہ دو۔ اپنے دینی علم کو بڑھاؤ۔ تقویٰ میں ترقی کرو۔ حق کا ہمیشہ ساتھ دو۔ سچائی پر قائم رہو۔ کبھی جھوٹ تمہارے سے نہ نکلے۔ منکرین کے لیے بھی دعا کرو۔ نئے شامل ہونے والوں سے حسن سلوک کرو اور اپنے عمل سے ان کی تربیت کی کوشش کرو۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ’عید منانا‘ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اس لیے جماعت کے لوگوں کو توجہ اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم ایسا اجتماع کریں جو حقیقی عید دکھانے والا ہو کیونکہ حقیقی عید وہی ہو گی جب خدا تعالیٰ کے کلام پر سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دنیا کے چپے چپے پر ایسے لوگ پیدا کرنا جو خدا تعالیٰ کی حمد اور اس کی تقدیس کر رہے ہوں جماعت احمدیہ کا فرض ہے۔ لیکن ہم اپنے آپ کو بھی دیکھیں کہ کیا ہم خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی تقدیس بیان کرنے اور اپنے عملوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے ہیں؟ہمیں رمضان کی عید بھی منانی چاہیے لیکن اس سے بڑھ کر ہماری توجہ پوری دنیا کواسلام پر اکٹھا کر کے حقیقی عید منانے کی طرف ہونی چاہیے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ آج کل ’اللہ اکبر‘ کا اتنا خوبصورت نعرہ اور تشہد بعض مسلمانوں کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے۔ آج مسیح محمدی کے غلاموں کا یہ کام ہے کہ ان پیارے الفاظ کی حقیقت کو دنیا پر اس طرح کھولیں کہ ہر قوم کے لوگ ان الفاظ کو پڑھنے اور ان کا ورد کرنےمیں راحت اور خوشی محسوس کرنے لگیں۔ اور ان شاء اللہ یہ ایک دن ضرور ہو گا۔
اپنے خطبے کے اختتام میں حضورِ انورنے تمام دنیا کے احمدیوں کو عید کی مبارکباد دی اور دعا کروائی۔ دعا میں اسیرانِ راہِ مولیٰ، شہدائے احمدیت کے لواحقین، سلسلہ کے خدام اور مبلغین کے ساتھ ساتھ تمام احمدیوںکو عمومی طور پر دعاؤں میں یاد رکھنے کی تحریک فرمائی۔ نیز مسلم امّہ کے لیے دعا کی تحریک فرمائی کہ اللہ ان کو بھی عقل اور سمجھ دے اور یہ مسیح موعودؑ کو ماننے والے ہوں اور دجالی چنگل سے نجات پانے والے ہوں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button