متفرق مضامین

خلفائے سلسلہ کی واقفینِ نَوسے توقعات (قسط نمبر 2 آخری )

(فراست احمد راشد۔ ربوہ)

غنیٰ

“قناعت کے بعد پھر غِنیٰ کا مقام آتا ہے اور غِنیٰ کے نتیجے میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے۔ غِنیٰ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے۔ اپنی ضرورت سے غنی ہوتا ہے غیر کی ضرورت کی خاطر۔ یہ اسلامی غِنیٰ میں ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہوجائیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر اُن کو تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 89۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء )

غصہ پر قابو اور تحمل

“ایسے واقفین بچے چاہئیں جن کو شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی عادت ہونی چاہیے، جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے، جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور تحمل کا ثبوت دیں۔ جب اُن سے کوئی بات پوچھی جائے تو تحمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں…… اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہیے کہ جتنا علم ہے اُس کو علم کے طور پر بیان کریں، جتنا اندازہ ہے اُس کو اندازے کے طور پر بیان کریں۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 92،93۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء)

حسن خلق

“واقفین بچوں کے اخلاق پر خصوصیت سے توجہ کی ضرورت ہے انہیں خوش اخلاق بنانا چاہیے۔ ایک تو اخلاق کا لفظ ہے جو زیادہ گہرے خصائل سے تعلق رکھتا ہے …لیکن ایک اخلاق کا معنی عرف عام میں انسان کی میل جول کی اس صلاحیت کو کہتے ہیں جس سے وہ دشمن کم بناتا ہے اور دوست زیادہ۔ کوئی بد مزاج انسان اچھا واقف زندگی ثابت نہیں ہو سکتا اور کوئی خشک مزاج انسان ملاں تو کہلا سکتا ہے صحیح معنوں میں روحانی انسان نہیں بن سکتا۔…پس اپنے بچوں کو خوش اخلاق ان معنوں میں بنائیں کہ میٹھے بول بول سکتے ہوں، لوگوں کو پیار سے جیت سکتے ہوں۔ غیروں اور دشمنوں کے دلوں میں راہ پا سکتے ہوں، اعلیٰ سوسائٹی میں سرایت کر سکتے ہوں کیونکہ اس کے بغیر نہ تربیت ہو سکتی ہے نہ تبلیغ ممکن ہے۔ بعض مبلغوں کو اﷲتعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے اس لیے اپنے ملک کے بڑے سے بڑے لوگوں سے جب وہ ملتے ہیں تو تھوڑی سی ملاقات میں ہی وہ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کی عظیم الشان راہیں کھل جاتی ہیں۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 106،107۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء)

چالاکیوں سے بچیں

“اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں۔ بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور اُن کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اُس کے نتیجے میں بعض دفعہ اُن شوخیوں کی تیزی خود اُن کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے۔ اس لیے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 99۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء )

واقفین نو کا تعلیمی معیار

ایک واقف نو کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے بعد کا مرحلہ اس کا تعلیم معیار بلند کرنے کا ہے جس میں اسلامی تعلیم اور دنیاوی تعلیم دونوں شامل ہیں۔ اس حوالہ سے دربارِ خلافت احمدیہ سے ملنے والی ہدایات پیش ہیں۔

قرآن کریم کی تلاوت اس کے معانی سمجھ کر کریں

“ابتداء ہی سے ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کرنا چاہیے …والدین نظام جماعت سے رابطہ رکھیں …کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلیٰ درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور آواز میں اُن کی ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں لیکن اُس سے جان نہیں پڑا کرتی۔ …وہ قاری جو تلاوت کرتے ہیں سمجھ کر اور اُس تلاوت کے اُس مضمون کے نتیجے میں اُن کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں، اُن کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں … وہ روح ہے اصل تلاوت کی۔ تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہیے۔ خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور یہ عادت ڈالی جائے بچے کو کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے۔ ایک تو روز مرہ کی صبح کی تلاوت ہے اُس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے عرصے تک آپ کو اُس کو قرآن کریم پڑھانا ہی ہو گا لیکن ساتھ ساتھ یہ ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہیے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 89،90۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

نمازکی پابندی

“نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں اُن کے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا…یہ باتیں بچوں کو آجانی چاہییں۔ ’’

(خطبات طاہر جلد8صفحہ 90۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء )

وقف نو کا سلیبس

“واقفینِ نو کا سلیبس ہے جو جماعت نے، مرکز نے بنایا ہوا ہے۔اس سے آگاہ کرنا، اسے پڑھانا ماں باپ اور نظام دونوں کا کام ہے…… پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بچے میں خود دین سیکھنے کی لگن ہو۔ اگر یہ ہو گا توپھر ہی صحیح فہم و ادراک بھی حاصل کرنے کی طرف توجہ ہو گی……پس ہمارے واقفِ زندگی اور خاص طور پر وہ جو دین سیکھ کر اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں۔ یا واقفینِ نو جودنیا کے مختلف جامعات میں پڑھ رہے ہیں ، انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے جو دین سکھایا ہے وہ سیکھنا ہے۔”(خطبات مسرور جلد 8 صفحہ543،544۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22اکتوبر 2010ء )پھر فرمایا:

“واقفینِ نو کے لیے، چاہے وہ جامعہ میں پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے اور کوئی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ان کے لیے سلیبس بنایا گیا ہے…اس کو پڑھنا اور اس کا امتحان دینا بھی ضروری ہے۔’’

(خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 553۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22اکتوبر 2010ء )

کثرت مطالعہ
مضامین کا انتخاب اور اخبارات و رسائل

“تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور دینی تعلیم میں وسعت کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اخبار اور رسائل کا مطالعہ رہے۔ …واقفین بچوں کی علم بنیاد وسیع ہونی چاہیے… وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا چاہیے۔ یعنی پہلے بنیاد عام دنیاوی علم کی وسیع ہو اُس پر پھر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور بابرکت ایک شجر طیبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو عام جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔… بچوں کے لیے ایسے رسائل ، ایسے اخبارات لگوایا کریں، ایسی کتابیں ان کو پڑھنے کی عادت ڈالیں جس کے نتیجے میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول میں جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہو ، عام دنیا کے جو آرٹس کے مضامین ہیں لیکن سیکولر مضامین مثلاً معیشت ہے، اقتصادیات، فلسفہ، نفسیات اور حساب ، تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امور ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ سکولوں میں تو اتنا زیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا یعنی پانچ مضمون، چھ مضمون، سات مضمون رکھ لے گا بچہ، بعض یہاں دس بھی کر لیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ نہیں جا سکتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 91۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء )

“ان کی تعلیم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے، ان کے علم کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں قوموں کی تاریخ اور مختلف ممالک کے جغرافیہ کو خصوصیت کے ساتھ ان کی تعلیم میں شامل کرنا چاہیے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 102۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء )

ٹائپنگ اور اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت

“ عمومی تعلیم میں ان کی بنیاد وسیع کرنے کی خاطر ان کو ٹائپ سکھانا چاہیے جو ٹائپ سیکھ سکتے ہوں۔ اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہیے۔ دیانت پہ … بہت زور ہونا چاہیے۔ اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیانک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں پائی جائے اور اُس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ …اس لیے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہیے اور اس لحاظ سے اکاؤنٹس کا بھی ایک گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ اکاؤنٹس نہیں رکھ سکتے اُن سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بددیانتی ہوئی ہے اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجے میں جن کو اکاؤنٹس کا طریقہ نہ آتا ہو لوگ بددیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اُس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ … اس لیے اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع ہی سے تربیت ہونی چاہیے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 94۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء)

مختلف زبانوں کا جاننا

“جہاں تک زبانوں کا تعلق ہے سب سے زیادہ زور شروع ہی سے عربی زبان پر دینا چاہیے کیونکہ ایک مبلغ عربی کے گہرے مطالعہ کے بغیر اور اس کے باریک در باریک مفاہیم کو سمجھے بغیر قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا ۔ اس لیے بچپن ہی سے عربی زبان کے لیے بنیاد قائم کرنی چاہیے …عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنا یا گیا ہے اس کا اصل لٹریچر اردو میں ہے … پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے اور بچوں کواتنے معیار کی اُردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اُٹھا سکیں۔ … پس آئندہ آپ نے واقفین نسلوں کو کم سے کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہو گا۔ عربی، اردو اور مقامی زبان۔ پھر ہمیں انشاء اﷲ آئندہ صدی کے لیے اکثر ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تعلیم پیش کرنے والے بہت اچھے مبلغ مہیا ہو جائیں گے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 104 تا 106۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء )

“تین زبانیں تو کم سے کم ہیں یعنی اس کے علاوہ کوئی زبان سیکھے تو چاہے جتنی چاہے سیکھے لیکن تین زبانوں سے کم تو کوئی سوال ہی نہیں اس لیے یہ بھی بتانا ہو گا کہ جہاں تم پولش سیکھ رہے ہو یا ہنگیرین سیکھ رہے ہو، چیکو سلواکین سیکھ رہے ہو یا پولش سیکھ رہے ہو یا رومانین سیکھ رہے ہو یا البانین سیکھ رہے ہو۔ ساتھ ساتھ لازماً تمہیں اُردو اور عربی بھی سیکھنی ہو گی۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 781۔خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1989ء)

واقفات نو بچیوں کے لیے ہدایت

واقفاتِ نو جو زندگی کے ہر مرحلہ میں اپنے والدین یا شوہر کے توسط سے خدمت کریں گی ان کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
“جہاں تک بچیوں کا تعلق ہے اس سلسلے میں بھی بارہا ماں باپ سوال کرتے ہیں کہ ہم انہیں کیا بنائیں۔ وہ تمام باتیں جو مردوں کے متعلق یا لڑکوں کے متعلق میں نے بیان کی ہیں وہ ان پر بھی اطلاق پاتی ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں گھر گرہستی کی اعلیٰ تعلیم دینی بہت ضروری ہے اور گھریلو اقتصادیات سکھانا ضروری ہے کیونکہ بعید نہیں کہ وہ واقفین بچیاں واقفین کے ساتھ ہی بیاہی جائیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ بعید نہیں تو مراد یہ ہے کہ آپ کی دلی خواہش یہی ہونی چاہیے کہ واقفین بچیاں واقفین سے بیاہی جائیں ورنہ غیر واقفین کے ساتھ ان کی زندگی مشکل گزرے گی اور مزاج میں بعض دفعہ ایسی دوری ہو سکتی ہے ایک واقف زندگی بچی کا اپنے غیر واقف خاوند کے ساتھ مذہب میں اس کی کم دلچسپی کی وجہ سے گزارہ نہ ہواور واقفین کے ساتھ شادی کے نتیجے میں بعض دوسرے مسائل اس کو درپیش ہو سکتے ہیں۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 107،108۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء )

بچیوں کی تعلیم

“جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلوانا یعنی بی ایڈ کروانا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو استانیاں بننے کی ٹریننگ دلوانا خواہ ان کو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہو ان کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح لیڈی ڈاکٹرز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے۔ پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور Typist کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مردوں کے ساتھ ملے جلے بغیر سوائے ڈاکٹری کے باقی سارے کام عمدگی سے سرانجام دے سکتی ہیں ۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 109۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء)

بچیوں کا زبانوں کا ماہر ہونا

“زبانوں کا ماہر بھی ان کو بنایا جائے یعنی لٹریری نقطہ نگاہ سے ، ادبی نقطہ نگاہ سے ان کو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہیے تاکہ وہ جماعت کی تصنیفی خدمات کر سکیں۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 109۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء بمقام بیت النور ہالینڈ)

“علمی کام میں ہمیں واقفین بیٹیاں بہت کام آسکتی ہیں۔ انہوں نے میدان میں نہیں جانا ہو گا لیکن وہ تصانیف کریں گی، وہ گھر بیٹھے ہر قسم کے خدمت کے کام اس طرح کر سکتی ہیں کہ اپنے خاوندوں سے ان کو الگ نہ ہونا پڑے۔ اس لیے ان کو ایسے کام سکھانے کی خصوصیت سے ضرورت ہے۔…اس لیے اگر وہ زبانیں سیکھ لیں تو گھر بیٹھے بڑی آرام سے خدمت کر سکتی ہیں اور جب زبانیں سیکھیں تو جس وقت ان کے اندر صلاحیت پیدا ہو ان کو پھر ان زبانوں میں ٹائپ کرنا بھی سکھایا جائے اور ان زبانوں کا لٹریچر ان کو پڑھایا جائے …… لٹریچر جتنا زیادہ پڑھا جائے اتنا ہی زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 602،603۔خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍ستمبر1989ء)

“وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں۔ وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں، (میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے)کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔

مجھے یاد ہے گھانا کے نارتھ میں کیتھولک چرچ تھا، چھوٹی سی جگہ پہ (میں بھی وہاں رہا ہوں)تو پادری یہاں انگلستان کا رہنے والا تھا وہ ہفتے میں چار پانچ دن موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جنگل میں جایا کرتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم وہاں کیا کرنے جاتے ہو۔ اس نے بتایا کہ ایک قبیلہ ہے، ان کی باقیوں سے زبان ذرا مختلف ہے اور ان کی آبادی صرف دس پندرہ ہزار ہے اور وہ صرف اس لیے وہاں جاتا ہے کہ ان کی وہ زبان سیکھے اور پھر اس میں بائبل کا ترجمہ کرے۔ تو ہمارے لوگوں کو اس طرف خاص طور پر واقفین نو بچے جو تیار ہو رہے ہیں، توجہ ہونی چاہیے تاکہ خاص طور پر ہر زبان کے ماہرین کی ایک ٹیم تیار ہو جائے۔ بہت سے بچے ایسے ہیں جو اب یونیورسٹی لیول تک پہنچ چکے ہیں، وہ خود بھی اس طرف توجہ کریں۔ ’’

(خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 419،419۔خطبہ جمعہ فرمودہ 18؍ جون2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن)

عمومی ہدایات

واقفین نو کی روحانی و اخلاقی تربیت اور ان کے تعلیمی معیار کے حوالہ سے ارشادات کے بعد اب وہ عمومی ہدایات پیش ہیں جن کا جاننا اور ذہن نشین کر لینا ایک واقف نو کے لیے بہت ضروری ہے۔

تم ہمارے پاس صرف اور صرف جماعت کی امانت ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واقفین نو کے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ واقفین کو بچپن سے ہی سکھانا چاہیے کہ وہ والدین کے پاس ایک امانت کے طور پر ہیں۔ فرمایا:

“کسی وقف نَو بچے کی یہ سوچ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم نے اگر وقف کیا تو ہم دنیاوی طور پر کس طرح گزارہ کریں گے یا یہ وسوسہ دل میں پیدا ہو جائے کہ ہم ماں باپ کی مالی خدمت کس طرح کریں گے یا جسمانی طور پر خدمت کس طرح کریں گے۔ گزشتہ دنوں میری یہاں واقفین نَو کے ساتھ کلاس تھی تو ایک لڑکے نے یہ سوا ل کیا کہ اگر ہم وقف کر کے جماعت کو ہمہ وقت اپنی خدمات پیش کر دیں تو ہم اپنے والدین کی مالی یا جسمانی یا عمومی خدمت کس طرح کر سکیں گے۔ یہ سوال پیدا ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ ماں باپ نے بچپن سے اپنے واقفین نَو بچوں کے دل میں یہ بات بٹھائی ہی نہیں کہ تمہیں ہم نے وقف کر دیا ہے اور اب تم ہمارے پاس صرف اور صرف جماعت کی امانت ہو۔ دوسرے بہن بھائی ہماری خدمت کر لیں گے۔ تم نے صرف اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کو پیش کر دینا ہے اور اس کے حکموں کے مطابق چلانا ہے۔”(خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 564۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء )

عہدوں کو پورا کرو

“عہدوں کو پورا کرنا کوئی معمولی چیز نہیں ہے اور وہ عہد جو وقف زندگی کا عہد ہے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درد بھرے الفاظ ہم سن چکے ہیں یہ کیسا عظیم عہد ہے۔ اگر ہر وقف نَو لڑکا اور لڑکی اپنے اس عہد کو وفا کے ساتھ پورا کرنے والا ہو تو ہم دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ بعض نوجوان جوڑے میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بھی وقف نَو ہوں ،میری بیوی بھی وقف نَو ہے، میرا بچہ بھی وقف ہے۔ یا ماں کہے گی کہ میں وقف نَو ہوں، باپ کہے گا میں وقف نَو ہوں اور میرا بچہ وقف نَو ہے تو یہ بڑی قابل تعریف بات ہے ۔لیکن اس کا حقیقی فائدہ تو جماعت کو تبھی ہو گا جب وفا کے ساتھ اپنے وقف کے عہد کو پورا کریں گے …یہ معیار نہ صرف ہر واقف نَو کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ ہر واقف زندگی کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک قربانیوں کے معیار نہیں بڑھیں گے ہمارے وقف زندگی کے دعوے سطحی دعوے ہوں گے۔”

(خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 566،567۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء )

پڑھائی کی ہر سٹیج پر واقفینِ نَو کو
مرکز سے مشورہ کرنا چاہیے

“واقفینِ نو کی ایک بڑی تعداد ایسے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے جو دینی علم حاصل کرنے کے لیے جا معہ میں داخل نہیں ہوتے اور مختلف میدانوں میں جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جماعت کو ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف فیلڈز میں جائیں اور جماعت کی خدمت کریں۔ اس لیے پڑھائی کی ہر سٹیج پر واقفینِ نَو کو مرکز سے مشورہ کرنا چاہیے کہ اب یہاں پہنچ گئے ہیں ہم آگے کیا کریں ۔ اب ہمارا یہ یہ ارادہ ہے۔ کیا کرنا چاہیے؟ …رہنمائی بھی لیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہم جامعہ میں تو نہیں جا رہے، یہ یہ ہمارے شوق ہیں۔ تعلیم میں ہمیں یہ دلچسپی ہے تو آپ ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کونسی تعلیم حاصل کریں۔… اور پھر مرکز یہ بتائے گا کہ کیا کام کرنا ہے، کیا نہیں کرنا۔ یا کیا آگے پڑھنا ہے یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مرکز میں اپنی خدمات پیش کرنی ہیں۔ خود ہی فیصلہ کرنا واقفِ نو کا کام نہیں ہے،نہ ان کے والدین کا… یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیں تو بتادیں اور پہلے اجازت لے لیں ۔ اور جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکے ہوں اور اپنا وقف میں رہنا بھی confirmکیا ہوا ہو توان کے لیے بھی لازمی ہے کہ وقتاً فوقتاً جماعت سے رابطہ رکھیں … جب جماعت کو ضرورت ہو گی بلا لے گی۔ لیکن ان کا کام یہ ہے کہ ہر سال اس کی اطلاع دیتے رہیں۔ اسی طرح جودوسرے پیشے کے لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے لیکن دوسرے پیشوں میں، مختلف قسم کے سکلز(Skills) ہیں پروفیشنر (Professions) ہیں، ان میں چلے گئے ہیں تو ان کوبھی اپنی ٹریننگ یاڈپلومہ وغیرہ مکمل کرنے کے بعد اطلاع کرنی چاہیے۔”

(خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 552 تا 555۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22اکتوبر 2010ء بمقام بیت الفتوح ،لندن )

خدمت کے لیے کون سی لائن اختیار کی جائے؟

“اپنی دنیاوی تعلیم کے دوران مختلف دوروں سے گزرتے وقت بجائے خود فیصلے کرنے کے جماعت سے پوچھیں کہ ہمیں کس لائن میں جانا ہے۔…واقفین نَو لڑکے جامعات میں جا کر مربی اور مبلغ بننے کو پہلی ترجیح دیں۔ اس وقت اس کی ضرورت ہے۔…ہمیں ہر ملک میں بے شمار مربیان اور مبلغین چاہئیں۔ پھر ہمارے ہسپتالوں کے لیے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ربوہ میں بہت سے ڈاکٹروں کی جو مختلف شعبوں کے ماہر ہوں ان کی ضرورت ہے۔ قادیان میں ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ دنیا والے میرا خطبہ سن رہے ہیں اگر یہاں سے نہیں بھی جا سکتے تو اپنے اپنے ملکوں میں واقفین نَو اس طرف توجہ دیں اور ماہرین ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ بہت بڑا خلاہے کہ ہمارے پاس ماہرین ڈاکٹر کم ہیں۔ افریقہ میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور ہر شعبہ کے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔… اس لیے سپیشلائز کر کے ان ممالک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اور تجربہ لے کر واقفین نَو بچوں کو جو ڈاکٹر بن رہے ہیں ان کو آگے آنا چاہیے ۔… اسی طرح سکولوں کے لیے ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرز اور ٹیچرز کے لیے تو لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی کام آ سکتے ہیں اس لیے اس طرف توجہ کریں۔ کچھ آرکیٹکٹ اور انجنیئرز بھی چاہئیں جو تعمیرات کے شعبہ کے ماہر ہوں تا کہ مساجد مشن ہاؤسز سکول ہسپتال وغیرہ کی تعمیر کے کاموں میں صحیح نگرانی کر کے اور پلاننگ کر کے جماعتی اموال کو بچایا جا سکے۔ کم پیسے میں زیادہ بہتر سہولت مہیا کی جا سکے۔ پھر پیرا میڈیکل سٹاف بھی چاہیے اس میں بھی آنا چاہیے تو یہ تو وہ چند بعض اہم شعبے ہیں جن کی جماعت کو فی الحال ضرورت ہے۔ آئندہ ضروریات حالات کے مطابق بدلتی بھی رہیں گی۔
بعض واقفین نَو کی اپنی دلچسپی بھی بعض مضامین میں زیادہ ہوتی ہے … یہاں میں طلباء کو یہ بھی کہوں گا کہ وہ سائنس کے مختلف شعبوں میں ریسرچ میں بھی جائیں اور اس میں عمومی طور پر واقفین نَو بھی اور دوسرے سٹوڈنٹس بھی شامل ہیں۔ سائنس کے مختلف شعبہ جات کی ریسرچ میں ہمارے بہترین سائنس دان پیدا ہو جائیں تو آئندہ جہاں دین کا علم دینے والے احمدی ہوں گے اور دنیا دین سیکھنے کے لیے آپ کی محتاج ہو گی وہاں دنیاوی علم دینے والے بھی احمدی مسلمان ہوں گے اور دنیا آپ کی محتاج ہو گی۔ ایسی صورت میں واقفین نَو بے شک دنیا کا کام کر رہے ہوں گے لیکن ان کا مقصد اس علم اور کام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا پر ثابت کرنا ہوگا، اس کے دین کو پھیلانا ہو گا۔

اسی طرح دوسرے شعبہ جات میں واقفین نَو جا سکتے ہیں لیکن بنیادی مقصد یہ ہے اور جس کو ہر ایک کو جاننا چاہیے کہ میں واقف زندگی ہوں اور کسی وقت بھی مجھے دنیاوی کام چھوڑ کر دین کی ضرورت کے لیے پیش ہونے کا کہا جائے تو بغیر کسی عذر کے، بغیر کسی حیل و حجت کے آ جاؤں گا۔’’

(خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 570،571۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء )

بدنی صحت

جہاں واقفین نو کے علمی معیار بلند ہونےچاہئیں وہیں وہ مضبوط اور توانا جسم کے مالک بھی ہوں تاکہ سختیاں برداشت کرنے کے قابل ہوں اور خدمت کی اس راہ میں آنے والی مشکلات کا بہادری اور صبر اور اخلاص سے مقابلہ کرنے کی طاقت ان میں پیدا ہوسکے۔ فرمایا:۔

“واقفین کی تیاری کے سلسلے میں ان کی بدنی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے۔ وہ واقفین جو مختلف عوارض کے شکار رہتے ہیں اگرچہ بعض ان میں سے خدا تعالیٰ سے توفیق پاکر غیر معمولی خدمت بھی سرانجام دے سکتے ہیں لیکن بالعموم صحت مند واقفین بیمار واقفین کے مقابل پر زیادہ خدمت کے اہل ثابت ہوتے ہیں اس لیے بچپن ہی سے ان کی صحت کی بہت احتیاط کے ساتھ نگہداشت ضروری ہے۔ پھر ان کو مختلف کھیلوں میں آگے بڑھانے کی باقاعدہ کوشش کرنی چاہیے۔ … بعض دفعہ ایک ایسا مربی جو کسی کھیل میں مہارت رکھتا ہو محض اس کھیل کی وساطت سے لوگوں پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیتا ہے اور نوجوان نسلیں اس کے ساتھ خاص طور پر وابستہ ہو جاتی ہیں۔ پس ہم تربیت کا کوئی بھی رستہ اختیار کریں کیونکہ ہماری نیتیں خالص ہیں اس لیے وہ رستہ خدا ہی کی طرف جائے گا۔ ’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 101،102۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء)

اللہ تعالیٰ تمام واقفین نَو اور واقفین زندگی کو حضور انور کے منشائے مبارک کے مطابق خدمات سلسلہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button