سیرت خلفائے کرام

خلافتِ احمدیہ اور اردو زَبان

(میر انجم پرویز۔عربی ڈیسک یوکے)

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ (ابراہیم: 5)

ترجمہ: اور ہم نے کوئى پىغمبر نہىں بھىجا مگر اس کى قوم کى زبان مىں تا کہ وہ انہیں خوب کھول کر سمجھا سکے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب وہ کوئی پیغمبر بھیجتا ہے تو اس کو اس کی قوم کی اعلیٰ ترین زبان کا معجزہ بھی عطا فرماتا ہے اور زبان کا اعجازی نشان عطا فرمانے کا ایک مقصد ہوتا ہے جو معمولی زبان سے حاصل نہیں ہو سکتا اور وہ مقصد یہ ہے کہ تا وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو خوب کھول کر اور واضح کرکے لوگوں کے سامنے بیان کر دے۔ یُبَیِّنکے لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول کا کلام تصنّع اور بناوٹ سے پاک ہوتا ہے جیسا کہ بعض مشکل پسند شعراء وادباء تکلفاً اوپرے اور نامانوس الفاظ استعمال کر کے پیچیدہ اسلوب میں مضمون بندی کرتے ہیں تاکہ ان کی زبان دانی اور علمیت کا خوب رعب جمے۔ لیکن مامورینِ الہٰی کا کلام انتہائی فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسا سادہ اور واضح ہوتا ہے کہ اس سے جہاں عام مخاطَب کو بھی ابلاغ ہورہا ہوتا ہے وہاں اہلِ علم اس کلام کے بحر معانی میں ڈوب کر گنجینہ ہائے معارف ودقائق تلاش کرتے ہیں۔ دوسرا یہ آیت اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ جب نبی کی بعثت ہوتی ہے تو اس وقت اس قوم کی زبان اپنا اصلاحی سفر طے کرتے ہوئے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں اس میں تبیان (یعنی خوب کھول کر بیان) ہو سکے۔

سرزمین ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃِ ثانیہ اور اس کی تمام عالم میں اشاعت وغلبے کے لیے حضرت مسیح موعود وامام مہدی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ آپؑ کی زبان اردو تھی۔ اس طرح عربی کے بعد اردو زبان آپؑ کی جماعت کی مذہبی زبان بن گئی۔

خلافت کے زیرِ سایہ اردو زبان عالمی زبان بن گئی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد الہٰی وعدوں اور پیش گوئیوں کے مطابق خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام عمل میں آیا، جس نے جماعت کے ننھے پودے کی نگہداشت اور آبیاری کی ، جس کا تخم خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بویا تھا سو آج یہ تناور درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں دنیا کے دو سو بارہ ممالک میں پھیل چکی ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اردو زبان بھی آپ کے غلاموں کے ذریعہ تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔

حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں:

‘‘میں سمجھتا ہوں ایک اور چیز بھی ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہیے اور وہ یہ ہے کہ بیرون ممالک میں جو لوگ احمدی ہوں گے وہ اردو زبان بھی سیکھیں گے۔ اس لیے اشاعت احمدیت سے اردو زبان کو بھی بہت زیادہ تقویت پہنچے گی۔ انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہے۔ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ان میں سے بعض نے اردو زبان سیکھی اور پھر بعض نے اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بھیجا۔ مشرقی افریقہ میں اردو جاننے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو احمدی ہیں۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اردو زبان کے بہت ہی مخالف تھے۔ ایک دوست ابوالہاشم صاحب تھے، انہیں احمدی ہونے سے قبل صرف احمدیت سے ہی نفرت نہیں تھی بلکہ وہ اردو زبان کو بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کے لیےبڑھاپے میں اردو زبان سیکھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی سکھائی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھی بعض دوست آئے ہیں اور انہوں نے اردو زبان سیکھی۔ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ انگلیڈ سے آئے اور انہوں نے اردو زبان سیکھی اور مسٹر کنزے جرمنی سے آئے ہیں، وہ بھی اردو سیکھیں گے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اردو زبان پھیلتی جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس جائیں گے اور چونکہ ان میں دوسری زبان سیکھنے کا بہت شوق ہے اس لیے یہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اردو سکھائیں گے اور یہ چیز اردو زبان کی ترقی کا موجب ہو گی۔’’ (انوار العلوم جلد 21 صفحہ70)

اردو زبان کبھی مر نہیں سکتی

یہاں محترم چودھری محمد علی مضطر صاحب مرحوم کا ایک واقعہ یاد آگیا۔آپ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ نامور صحافی اور ادیب مولانا صلاح الدین احمد صاحب بہت اداس اور پریشان تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو کہنے لگے کہ اردو زبان کے مستقبل کا سوچ کر پریشان ہوں کیونکہ یہ زبان اب زوال پذیر ہے اور لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں۔ چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اردو زبان کبھی مر نہیں سکتی۔ آپ ربوہ آئیں، ہم آپ کو افریقہ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ ملکوں کے طلبہ سے ملوائیں گے جو ہماری طرح اردو بولتے، لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ کہتے ہیں مولانا صلاح الدین صاحب یہ بات سن کر بے حد خوش ہوئے اور انہوں نے کہا آپ نے مجھے یہ خوشخبری سنا کر ایک مردہ جسم میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ہے۔ اب میں اطمینان سے اس دنیا سے رخصت ہو سکتا ہوں۔

اے اردو! تو گھبرانا نہیں، تو فقیروں کا لگایا ہؤا پودا ہے

اردو زبان ابھی اپنے لڑکپن میں قدم رکھ رہی تھی کہ ایک صوفی بزرگ خواجہ میر درد صاحب نے اس کی ترقی کے بارے میں ایک پیشگوئی کی جو آج پوری ہو چکی ہے۔ مولانا حکیم سید ناصر نذیر فراق صاحب دہلوی نے حضرت خواجہ میر درد صاحب کی حیات پر ایک کتاب ‘‘میخانۂ درد’’ کے نام سے تالیف کی، جس میں وہ بیان کرتے ہیں:

‘‘چونکہ اردو کے ابھی الڑپنے کے دن تھےاور اسے دل ربائی کے پورے نازوانداز نہ آئے تھے اس لیے کبھی کبھی فارسی سے یہ مات کھا جاتی اور کھسیانی ہو کر اپنا منہ بنا لیتی تو آپ(خواجہ میر درد) فرماتے: اے اردو! تُو گھبرانا نہیں، تُو فقیروں کا لگایا ہؤا پودا ہے۔ خوب پھلے پھولے گی، تو پروان چڑھے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آ کر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طبابت تجھ میں آجائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی۔’’

(میخانۂ درد صفحہ 152-153۔مطبوعہ 1344 ہجری۔جید برقی پریس)

آج اردو زبان صرف ہندوستان کی زبان نہیں رہی بلکہ خلافت کی برکت سے یورپ اور افریقہ میں بھی اردو بولنے والے موجود ہیں۔ انڈونیشیا ، ملائشیا اور عرب بھی اردو زبان سیکھ رہے ہیں تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کا کلام براہ راست پڑھ اور سمجھ سکیں۔

اردو زبان کا دائمی سرمایہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی تائید وتجدید ، آنحضرت ﷺ کی صداقت وعظمت اورقرآن کریم کی حقانیت کے اثبات میں پچاسی کتب تحریر فرمائیں جن میں سے پینسٹھ سے زائد کتب اردو زبان میں ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کے ملفوظات، جو سب کے سب اردو ہی میں ہیں، دس جلدوں میں محفوظ ہیں۔ نیز اشتہارات کی تین جلدیں اور آپ کے مکتوبات کی سات جلدیں ہیں۔ یہ اردو زبان میں ایک ایسا دائمی سرمایہ ہے جو نسلاً بعد نسل ٍنہ صرف احمدیوں کے دلوں کو منور کر رہا ہے بلکہ تمام قوموں کے مردہ دلوں کو جِلابخش رہے ہیں ۔آج آپ کی منظومات کو عرب وعجم اور کئی افریقی اور مغربی قوموں کے باشندے ترنم سے پڑھتے اور اس سے روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:

‘‘اردو پڑھنا سیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔’’

(الفضل انٹرنیشنل 8 تا 14 فروری 2013ء)

اشاعتِ اسلام کے جدید ذرائع میں سے اہم ذریعہ اردو زبان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف ‘تحفۂ گولڑویہ’ میں یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا زمانہ تکمیل ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح موعود کا زمانہ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ابلاغ کے ایسے ذرائع مہیا فرمائے ہیں جو پہلے وقتوں میں نہیں پائے جاتے تھے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

‘‘خدا تعالیٰ نے تکمیلِ اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیا جس میں قوموں کے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور برّی اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سواری کی ممکن نہیں ۔اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیا جو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔ سو اس وقت حسب منطوق آیت

وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ :4)

اور نیز حسب منطوق آیت

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا (الاعراف:159)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لیے بدل وجان سرگرم ہیں۔آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجیےکیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لیے آیا ہوں اور اب یہ وقت ہےکہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لیے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔’’

(تحفۂ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ 262-263)

اردو زبان کا شاندار مستقبل

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘چونکہ اس زمانے کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر عربی کے بعد اردو میں الہام زیادہ کثرت سے ہوا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ زبان ہندوستان کی اردو ہوگی اور دوسری کوئی زبان اس کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکے گی۔’’

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ 444)

اردو کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے 29 جولائی 1949ء کو کوئٹہ میں خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اردو کہتے ہیں۔ اس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اس کو بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اردو زبان بہت مقبول ہو گئی ہے۔ مگر پنجاب کے عوام اور غیرتعلیم یافتہ اشخاص ابھی اس سے بہت دور ہیں اور انہیں اس میں کلام کرنا دوبھر معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس میں بات کریں تو طریق گفتگو غیرزبان دانوں کا سا معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو غیرمادر ی زبان میں گفتگو کرتے وقت ہمیشہ مشکلات پیش آتی ہیں اور لازمی طور پرلہجہ میں فرق معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اگر آپس میں اردو زبان میں ہی گفتگو کی جائے تو اس میں مہارت حاصل کر لینا کوئی مشکل امر نہیں۔…….

پس میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اردو کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اس زبان میں ہی گفتگو کیا کریں۔ جب ہم اردو میں ہی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتا نہیں لگے گا کہ ان کو اردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اس طرح ہمارے علم میں ترقی ہو گی۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی ان کی سمجھ نہیں آتی، لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو ان پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں اور اُردو کو، جو اَب بے وطن ہو گئی ہے، اپنائیں۔ یہ بھی ایک بڑا مہاجر ہے۔ جس طرح مہاجروں کو زمینیں مل رہی ہیں، چاہیے کہ اسے بھی اپنے ملک میں جگہ دی جائے اور اسے اتنا رائج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں جن کے خیال میں پنجابی زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔میرے نزدیک اردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنا لینا چاہیےاور اسے رواج دینا چاہیے۔ ملک کے کناروں پر اور پہاڑوں پر کہیں کہیں پنجابی زبان باقی رہ جائے تو حرج نہیں۔ اگر کسی کو پنجابی زبان سننے اور بولنے کا شوق ہوگا تو وہاں جا کر سن لے گا یا بول لے گا۔ پس میری نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے۔’’

(روزنامہ الفضل، 6 دسمبر 1966۔ مشعل راہ جلد اول صفحہ 536-538)

حضرت مصلح موعودؓ نے کوئٹہ میں یہ خطاب فرمایا۔ اگر اس نصیحت پر عمل کیا جائے تو لسانی تقسیم سے بچ کر وحدت قومی پیدا کی جاسکتی ہے۔ آج پاکستان کے مسائل کا حل بھی اسی نصیحت پر عمل کرنے میں ہے۔

احمدیت کی وجہ سے اردو زبان دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہے

حضرت مصلح موعود ؓبیان فرماتے ہیں:

‘‘ہمارے ملک میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہےکہ آیا اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے یا انگریزی زبان کوبھی ذریعہ تعلیم بنایا جائے؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو پاکستان تمام ممالک سے کٹ جائے گا۔ ذریعہ تعلیم اسی زبان کو بنانا چاہیے جسے دوسرے لوگ بھی سیکھیں۔ احمدیت کی اشاعت سے یہ سوال بھی حل ہو جائے گا۔ احمدیت کی وجہ سے اردو زبان دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہے اور ان شاء اللہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کا ہر آدمی یہ سمجھنے لگ جائے گا کہ ہمیں کسی فارن لینگوئج یا اردو زبان کے علاوہ کسی اور زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت نہیں۔’’

(انوار العلوم جلد 21 صفحہ70)

اردو کے ساتھ جماعت کا روحانی رشتہ

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) نے تعلیم الاسلام کالج کے تحت منعقدہ ‘‘اردو کانفرنس’’ بتاریخ 18؍اکتوبر1964ء بمقام ربوہ میں فرمایا:

‘‘اردو کے ساتھ جماعت احمدیہ کا ایک پائیدار اور روحانی رشتہ بھی ہے۔ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی اکثر تصانیف اردو ہی میں ہیں، اس لیے اردو زبان عربی کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے۔ اسی لیے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدیہ مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھائی جا رہی ہے۔زبان اردو کی یہ وہ ٹھوس خدمت ہے جو جماعت احمدیہ دنیا کے گوشے گوشے میں کر رہی ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے۔ یہ ہماری قومی زبان ہے۔ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے۔ یہ وہ قیمتی متاع ہےجو ہمارے اسلاف سے ورثہ میں ملی ہے۔ اسے اس قابل بنائیے کہ ہماری آئندہ نسلیں اس ورثہ کو سرمایۂ افتخار تصور کریں اور اس پر بجا طور پر ناز کر سکیں۔’’ (ذکر اردو صفحہ ج)

http://www.handwriting.pk/calligraphy.html

اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟

1931ء میں حضرت مصلح موعود ؓنے ایک مضمون بعنوان ‘‘اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟’’ تحریر فرمایا، جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اردو زبان کی بڑی دقتوں میں سے ایک یہ دقت ہے کہ اس کی لغت کتابی صورت میں پوری طرح مدون نہیں ہے۔ اور نہ اس کے قواعد پورے طور پر محصور ہیں اور نہ مختلف علمی مضامین کے ادا کرنے کے لیے اصطلاحیں مقرر ہیں…… اردو کی ترقی کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ بجائے ایک محدود جماعت کی دلچسپی کا مرکز بننےکے جمہور کو اس سے دلچسپی پیدا ہو۔ خالص علمی رسائل صرف منتخب اشخاص کی توجہ منعطف کرا سکتے ہیں اور زبانیں چند آدمیوں سے نہیں بنتیں، خواہ وہ بہت اونچے پایہ کے کیوں نہ ہوں۔ قاعدہ یہ ہے کہ زبان عوام الناس بناتے ہیں اور اصطلاحیں علماء۔ اردو بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتی۔ پس اگر ہم اردو کی ترقی کے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہی ہے کہ ہمارے ادبی رسالوں میں اس کے علمی پہلؤوں پر بحثیں ہوں تاکہ صرف پیش آنے والی مشکلات کے علاج ہی کا سامان نہ ہو بلکہ عوام الناس بھی ان تحقیقات سے واقف ہوتے جائیں۔ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی اردو رسائل کامیابی سے چل رہے ہیں۔ اگر ان رسائل میں چند صفحات مستقل طور پر اس بات کے لیے وقف ہو جائیں کہ ان میں اردو زبان کی لغت یا قواعد یا اصطلاحوں وغیرہ پر بحثیں ہؤا کریں گی تو یقیناً تھوڑے عرصہ میں وہ کام ہو سکتا ہے جو بڑی بڑی انجمنیں نہیں کر سکتیں۔ اور بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو نئی نئی اختراعیں ہوں گی یا الفاظ کے استعمال یا قواعد زبان کے متعلق جو پہلو زیادہ وزنی معلوم ہوگا عام لوگ بھی اسی کو قبول کر لیں گے۔ کیونکہ دلچسپ اردو رسائل میں چھپنے کی وجہ سے وہ سب مضامین ان کی نظروں سے بھی گزر تے رہیں گے۔ہاں یہ مدنظر رہے کہ مضمون ایسے رنگ میں ہو کہ سب لوگ اسے سمجھ سکیں……… میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ جو رسالہ اس تحریک پر عمل کرنا چاہے اس میں ایک ادبی کلب قائم کر دی جائے۔’’

اس کے بعد حضورؓ نے بتایا کہ کس طرح مستند ادیبوں اور علماء کو اس کلب کا ممبر بنایا جائے۔ پھر فرمایا: ‘‘ تمام ممبروں سے امید کی جائے کہ جب کبھی کوئی سوال اردولغت کے متعلق، نحوی قواعد کے متعلق، بعض علمی خیالات کے ادا کرنے میں زبان کی دقتوں کے متعلق، محاورات کے متعلق، تذکیروتانیث اور جمع کے قواعد کے متعلق، بظاہر مترادف نظر آنے والے الفاظ کے متعلق، پرانی اصطلاحات کی تشریح یا نئی اصطلاحات کی ضرورت کے متعلق پیدا ہو تو بجائے خود حل کر کے خود ہی اس سے لطف حاصل کرنے کے وہ اس سوال کو رسالہ کے ادبی کلب کے حصہ میں شائع کرائیں۔ خواہ اپنا حل بھی ساتھ ہی لکھ دیں یا خالی سوال ہی لکھ دیں۔ ان سے یہ امید بھی کی جائے کہ جب کوئی ایسا سوال شائع ہو تو وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کیا کریں۔ …کلب کا کام فیصلہ کرنا نہ ہو بلکہ صرف ہر پہلو کو روشنی میں لانا ہو۔ اسی طرح جدید اصطلاحات کی ضرورتوں کو کلب کے صفحات میں شائع کیا جائے۔… میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ضرورت ہو تو میں اس بحث کو واضح کرنے کے لیے اور اس تحریک سے لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بشرطِ فرصت اَور مضامین بھی لکھ سکتا ہوں۔’’

(رسالہ ادبی دنیا، مارچ 1931، صفحہ186۔187)

امام جماعت احمدیہ کے دل میں اردو زبان کے لیے ایک لگن

1931ء میں حضرت مصلح موعود ؓنے ایک مضمون بعنوان ‘‘اردو رسائل زبان کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟’’تحریر فرمایا۔ اس مضمون کو برصغیر پاک وہند کے نامور ادیب مولانا احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی نے اپنے رسالہ ‘‘ادبی دنیا’’میں شائع کیا۔ نیز اپنے ادارتی نوٹ میں تحریر کیا:

‘‘حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی توجہاتِ بے کراں کا میں سپاس گزار ہوں کہ وہ ‘‘ادبی دنیا’’ کی مشکلات میں ہماری عملی مدد فرماتے ہیں۔ میں نے ان کی جناب میں امداد کی نہ کوئی درخواست کی تھی، نہ مجھے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے اور نہ ادبی دنیا کوئی مذہبی پرچہ ہے مگر حضرت مرزا صاحب اپنی عزیز مصروفیتوں میں سے علم وادب اور علم وادب کے خدمت گزاروں پر توجہ فرمائی کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ ملکی زبان وادب سے جناب موصوف کا یہ اعتنا ان علماء کے لیے قابل توجہ ہے جو اردو کی خدمت کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں۔’’

(ادبی دنیا مارچ 1931، صفحہ 131)

ادبی دنیا کے اگلے شمارے میں مولانا موصوف نے لکھا: ‘‘پچھلے نمبر میں حضرت امام جماعت احمدیہ قادیان کی توجہِ بےکراں کا حال آپ نے پڑھ لیا ہوگا۔ امام جماعت احمدیہ، مرزاغلام احمد صاحب مسیح موعودکے خلف الرشید اور ان کے خلیفہ ہیں۔ مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف اردو ادب کا ذخیرۂ بے کراں ہیں۔ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہِ کے مطابق ان کے نامور فرزند کے دل میں اردو زبان کے لیے ایک لگن اور اردو کے خدمت گزاروں سے ایک لگاؤ موجود ہے۔’’

(ادبی دنیا اپریل 1931، صفحہ 199-200)

اردو زبان کے مسائل حل کرنے کی ضرورت

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالث ؒ) تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل تھے ۔آپ نے کالج کے زیرِ انتظام 18؍ اکتوبر، 1964ء کو کل پاکستان اردو کانفرنس کا انعقاد فرمایا۔ جس میں ملک کے بعض نامور شعراء وادباء نے شرکت کی۔ اردو کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اردو کی ترویج وترقی کے مسائل پر تعمیری نقطۂ نظر سے سوچ بچار کرنا تھا۔ اس کانفرنس کے خطبۂ استقبالیہ میں آپ نے فرمایا:

‘‘اس کانفرنس کے مقاصد خالصۃً تعمیری اور مثبت ہیں۔… اردو کو وہ ارفع مقام دیا جا سکتا ہے جو اس کا واجبی حق ہے۔ یہ ایک عظیم قومی حادثہ ہے کہ زبان کا مسئلہ، جو خالصۃً قومی اور علمی سطح پر حل کیا جانا چاہیے تھا، سیاسی نعرہ بازی اور مہمل جذبات کا شکار ہو کر رہ گیا اور سترہ سال کا طویل عرصہ بے کار مباحث اور مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں ضائع ہوگیا۔… اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل انگاری اور خوش فہمی کے گنبد سے نکل کر ہم حقائق کی دنیا میں قدم رکھیں۔ ٹھنڈے دل سے اپنی مشکلات کا جائزہ لیں اور سنجیدگی سے اپنے تعلیمی، تدریسی، علمی، ادبی، لسانی اور طباعتی مسائل کا حل تلاش کریں۔ زبان وبیان، تلخیص وترجمہ، رسم الخط اور اس قسم کے دیگر عقدوں کی گرہ کشائی کی کوشش کریں۔ ایسا لائحہ عمل بنائیں اور اس کی تشکیل ایسے خطوط پر کریں جس سے یہ گومگو کی کیفیت ختم ہو اور اس ذہنی دھند سے نجات ملے جو قومی افق پر عرصہ سے چھائی ہوئی ہے۔’’ (ذکرِ اردو، صفحہ ب،ج)

ساری دنیا کے دلوں پر اردو کی حکومت ہو

حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) نے ‘‘اردو کانفرنس’’ میں مزید فرمایا:

‘‘اردو ایک زندہ قوم کی زبان ہے۔ ادبیات کی اہمیت مسلّم، لیکن یہ نہ بھولیے کہ اردو زبان کا یہ بھی حق ہے کہ شعروادب کے روایتی اور محدود دائرے سے باہر نکلے اور زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہو جائے۔ ساری دنیا کے دلوں پر اس کی حکومت ہو۔ قومیں اسے لکھیں، بولیں اور اس پر فخر کریں اور بین الاقوامی زبانوں کی محفل میں اردو بھی عزت کے بلند مقام پر سرفراز ہو۔… میں اللہ کے حضور دست بدعا ہوں کہ وہ ہم سب کو ایسا انداز فکر عطا فرمائے اور اس نہج پر کام کرنے کی توفیق دے جو نہ صرف زبان اردو کے لیے بلکہ ہمارے لیے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے خیروبرکت کا باعث ہو۔ اللّٰہم آمین’’

(ذکر اردو صفحہ ج، د)

جماعت احمدیہ کا اردو زبان پر احسان

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 28 مارچ 1971ء کو مجلس مشاورت کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم کے بارہ میں فرمایا:

‘‘ضروری ہے کہ ہم ہر انسان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام پہنچا دیں۔ یہ صحیح ہے کہ ترجمہ بہرحال ترجمہ ہے۔ اصل سے تو وہ کسی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا، لیکن ان کو جب ترجمہ پڑھ کر اس بیان کا چسکا پڑ جائے گا جس کا کہ وہ ترجمہ ہے تو پھر کہیں گے کہ ہمیں اردو سکھاؤ تاکہ ہم اصل کو بھی پڑھیں۔ … ایک دفعہ ہمارے کالج میں اردو کانفرنس ہوئی تھی۔ اس موقع پر میں نے ان کو کہا تھا کہ جماعت احمدیہ کا زبانِ اردو پر یہ احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کی خاطر ساری دنیا کی قوموں میں اردو پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی ایک حصہ میں تو اب ہے اور کچھ کو بعد میں احمدیت کی وجہ سے شوق ہو جائے گا۔’’

(تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد چہارم صفحہ 796)

اردو کی طرف توجہ کریں

خلفائے سلسلہ بار بار جماعت کو اردو زبان سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں تاکہ افراد جماعت اور آئندہ نسلیں ان روحانی خزائن سے اپنے آپ کو مالا مال کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اور آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وہ خزائن ہمارے لیے کھول دیے ہیں لیکن ان خزانوں سے اپنی جھولیاں بھرنے کے لیے ہمیں اردو زبان سیکھنی ہو گی کیونکہ یہ ان خزائن کی کلید ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘آپ اردو کی طرف توجہ کریں۔ الہامات کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر تحریرات اردو ہی میں ہیں۔ جب تک آپ اردو نہیں سیکھیں گے آپ حضرت مسیح موعودؑ کی پُرمعارف کتب میں بیان فرمودہ نکاتِ روحانیت سے صحیح معنوں میں آشنا نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ترجمہ میں وہ خوبصورتی اور لطف ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو حضور کی اپنی تحریرات کو پڑھنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍ جولائی 1993ء بمقام اوسلو ناروے)

بچوں کو معیاری اردو زبان سکھانی ضروری ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ءمیں فرماتے ہیں:

‘‘بچپن ہی سے عربی زبان کے لیے بنیاد قائم کرنی چاہیے اور جہاں ذرائع میسر ہوں اس کی بول چال کی تربیت بھی دینی چاہیے۔…… عربی کے بعد اردو بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کی کامل غلامی میں اس زمانے کا جو امام بنایا گیا ہے اس کا اکثر لڑیچر اردو میں ہے۔ احمدیہ لٹریچر چونکہ خالصتاً قرآن اور حدیث کی تفسیر میں ہے اس لیے عرب پڑھنے والے بھی جب آپ کے عربی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ قرآن اور حدیث پر ایک ایسی گہری معرفت اس انسان کو حاصل ہے کہ جو اِن لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھی جو مادری لحاظ سے عربی زبان سیکھنے اور بولنے والے ہیں۔ …. پس عربی کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹریچر کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اور بچوں کو اتنے معیار کی اردو سکھانی ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو لٹریچر سے براہ راست فائدہ اٹھا سکیں۔ جہاں تک دنیا کی دیگر زبانوں کا تعلق ہے، خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اکثر اہم ممالک میں ایسی احمدی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو مقامی زبان نہایت شستگی کے ساتھ اہل زبان کی طرح بولتی ہیں۔…… لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا اردو کا معیار ویسا نہیں رہا… پس آئندہ اپنی واقفین نسلوں کو کم از کم تین زبانوں کا ماہر بنانا ہوگا۔ عربی، اردو اور مقامی زبان۔’’

(مشعل راہ جلد سوم۔ صفحہ 422-423)

اردو سیکھے بغیر ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘واقفین نو کو جامعہ کے لیے تیار کریں… جو جامعہ میں نہیں آ رہے، وہ بھی زبانیں سیکھنے کی طرف توجہ کریں… تین زبانیں اُن کو آنی چاہئیں۔ ایک تو اُن کی اپنی زبان ہو، دوسرے اردو ہو، تیسرے عربی ہو۔ عربی تو سیکھنی ہی ہے، قرآنِ کریم کی تفسیروں اور بہت سارے میسر لٹریچر کو سمجھنے کے لیے۔ اور پھر قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے جب تک عربی نہ آتی ہو صحیح ترجمہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور اردو پڑھنا سیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے ہی اس وقت دین کا صحیح فہم حاصل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ آپ کی تفسیریں، آپ کی کتب، آپ کی تحریرات ہی ایک سرمایہ ہیں اور ایک خزانہ ہیں جو دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتی ہیں، جو صحیح اسلامی تعلیم دنیا کو بتا سکتی ہیں، جو حقیقی قرآنِ کریم کی تفسیر دنیا کو بتا سکتی ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں۔ پس اردو زبان سیکھے بغیر بھی صحیح طرح زبانوں میں مہارت حاصل نہیں ہو سکتی۔… ہمیں زیادہ سے زیادہ زبانوں کے ماہرین چاہئیں۔ اس طرف واقفینِ نَو کو بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر جامعہ کے طلبہ کے علاوہ کوئی کسی زبان میں مہارت حاصل کرتا ہے تو اُسے جیسا کہ مَیں نے کہا عربی اور اردو سیکھنے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔

(الفضل انٹرنیشنل 8 تا 14 فروری 2013ء)

اردو پڑھنی بھی سیکھیں، لڑکیاں جو واقفاتِ نَو ہیں، جو پاکستانی اوریجن (Origin) کی ہیں، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں، جن کو اردو بولنی آتی ہے، وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں۔ جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اَور ہیں وہ بھی سیکھیں، عربی سیکھیں ، پھر اپنے آپ کو تراجم کے لیے پیش کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے عورتوں میں ،لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں۔ ’’

(الفضل انٹرنیشنل 8 تا 14 فروری 2013ء)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘وہ واقفین نو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور جن کا زبانیں سیکھنے کی طرف رجحان بھی ہے اور صلاحیت بھی ہے، خاص طور پر لڑکیاں، وہ انگریزی، عربی، اردو اور ملکی زبان جو سیکھ رہی ہیں جب سیکھیں تو اس میں اتنا عبور حاصل کر لیں کہ جماعت کی کتب اور لٹریچر وغیرہ کا ترجمہ کرنے کے قابل ہو سکیں تبھی ہم ہر جگہ نفوذ کر سکتے ہیں۔…’’

(الفضل انٹرنیشنل 2تا8 جولائی 2004ء)

جن کو اردو بولنی آتی ہے وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘اردو پڑھنی بھی سیکھیں، لڑکیاں جو واقفاتِ نَو ہیں، جو پاکستانی اوریجن (Origin) کی ہیں، پاکستان سے آئی ہوئی ہیں، جن کو اردو بولنی آتی ہے، وہ اردو پڑھنی بھی سیکھیں اور جو یہاں باہر کے ملکوں میں رہ رہی ہیں وہ مقامی زبان بھی سیکھیں۔ جہاں انگلش ہے، جرمن ہے یا ایسے علاقوں میں ہیں جہاں انگلش سرکاری زبان ہے اور مقامی لوکل زبانیں اَور ہیں وہ بھی سیکھیں، عربی سیکھیں ، پھر اپنے آپ کو تراجم کے لیے پیش کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے عورتوں میں ،لڑکیوں میں زبانوں کا ملکہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو پیش کر سکتی ہیں۔ ’’

(الفضل انٹرنیشنل 8 تا 14 فروری 2013ء)

قرآن وحدیث کو سمجھنا ہے تو اردو سیکھیں

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘اگر قرآن کو سمجھنا ہے یا احادیث کو سمجھنا ہے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ تو بڑی نعمت ہے ان لوگوں کے لیے جن کو اردو پڑھنی آتی ہے کہ تمام کتابیں اردو میں ہیں۔ اکثریت اردو میں ہیں، چند ایک عربی میں بھی ہیں۔ پھر جو پڑھے لکھے نہیں ان کے لیےمساجد میں درسوں کا انتظام موجود ہے ان میں بیٹھنا چاہیے اور درس سننا چاہیے۔ پھر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اور اسی طرح اُردو دان طبقہ جو ہے، ملک جو ہیں، وہاں سے اردو کے پروگرام بن کے آنے چاہئیں۔ جس میں زیادہ سے زیادہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس کلام کے معرفت کے نکات دنیا کو نظر آئیں اور ہمار ی بھی اور دوسروں کی بھی ہدایت کا موجب بنیں۔’’

(مشعل راہ جلد پنجم حصہ دوم)

13؍ستمبر2005ء کو ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی وقف نو سویڈن کے ساتھ کلاس ہوئی جس میں ایک بچے (سلیمان تقی)نے تلاوت کا اردو ترجمہ پڑھ کر سنایا۔ اس پر حضورِ انور نے فرمایا: ‘‘بڑا اچھا ترجمہ پڑھا ہے، کمال کر دیا ہے۔ حضورِ انور نے کلاس کے بچوں سے بھی دریافت فرمایا کہ کس کس کو اردو پڑھنی آتی ہے۔’’ حضور نے فرمایا: ‘‘جس طرح اس بچے نے اردو زبان سیکھی ہے تو باقی بچے بھی اسی طرح سیکھ سکتے ہیں۔’’ حضورِ انور نے بچوں سے فرمایا: ‘‘آپ سب اردو زبان سیکھیں۔ آپ نے کل کو بڑے ہونا ہے،حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اردو کتب پڑھنی ہیں، پھر ان کتب کے تراجم کرنے ہیں، اس لیے آپ کو اردو آنا ضروری ہے۔’’

(الفضل انٹرنیشنل 28؍ اکتوبرتا03 نومبر 2005ء)

الفضل پڑھنے سے آپ کی اردو بہتر ہو گی

اسی طرح پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ دورہ ٔ امریکہ میں 29؍ اکتوبر 2018ء بروز سوموار مبلغین سلسلہ کے ساتھ ملاقات میں فرمایا:

‘‘الفضل کا مطالعہ کیا کریں۔… الفضل پڑھنے سے آپ کی اردو بہتر ہوگی۔’’

(الفضل انٹر نیشنل 8 فروری 2019ء صفحہ 15)

اردو زبان اور ہمارا فرض

اردو زبان وہ خوش قسمت زبان ہے جو عربی زبان کے بعد تکمیل اشاعت دین حق کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے چن لی گئی ہے۔ اس خوش بختی پر اُردو زبان جس قدر بھی ناز کرے کم ہے۔ یہ وہ مبارک زبان ہے جس کے ذریعے سے اسلام اور رسول کریم ﷺ کا نام تمام دنیا اور تمام قوموں تک پھیل جائے گا۔ خلفائے احمدیت باربار جماعت کو اور خاص کر بچوں اور آئندہ نسلوں کو اردو سیکھنے سکھانے کی طرف توجہ دلاتے ہیں، کیونکہ اوّل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر اکثر اردو ہی میں ہے۔ پھر خلفائے سلسلہ کی کتب، خطبات وخطابات بھی عموماً اردو ہی میں ہیں۔ آج جماعت کےمشن دنیا کے اکثر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور تمام اقوام عالم کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروا رہے ہیں۔ اردو کے بغیر یہ کام ناممکن ہے، کیونکہ اردو جانے بغیر ان علوم سے واقفیت ہی نہیں ہو سکتی۔ جب اپنا کیسہ خالی ہو توکوئی کسی اور کو کیا دے سکتا ہے۔ اس لیے ان علوم سے اپنا دامن بھرنے کے لیے اردو زبان ہی بنیادی ذریعہ ہے۔ آج دنیا کے بارہ ممالک میں چودہ جامعات احمدیہ کام کر رہے ہیں جن میں بھارت اور پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، برطا نیہ، جرمنی، کینیڈا، گھانا (میں دو)، تنزانیہ، سیرالیون، نائیجیریا اور بورکینا فاسو شامل ہیں۔ ان چودہ جامعات میں بیسیوں ممالک کے طلبہ اسلام کی حقیقی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس کا بنیادی ذریعہ اردو زبان ہی ہے۔ پھر یہی طلبہ فارغ التحصیل ہو کر مختلف ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا میں پھیلا تے ہیں۔ اسی طرح جماعت میں بیشتر رسائل واخبارات اردو زبان ہی میں شائع ہو رہے ہیں جن میں الفضل سب سے نمایاں ہے جو خلیفۃ المسیح کے تازہ بتازہ ارشادات وہدایات اور علوم ومعارف کوفوری طور پر افراد جماعت کو پہنچاتا ہے جو اس سے آگے دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر ساری قوموں تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح خلافت کے زیر سایہ احمدیت کا یہ قافلہ دن بدن آگے بڑھتا چلا جا رہا ہےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی اور اشاعت میں اردو زبان کا نمایاں کردار ہے۔ اسی لیے خلفائے سلسلہ جماعت کو گاہے بگاہے اردو سیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ خود بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی اردو زبان سکھائیں اور اس معیار کی اردو سکھائیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۃ المسیح کے کلام کو سمجھ سکیں اور آگے پہنچا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button