سیرت خلفائے کرام

ہر دائرۂ حیات میں امن صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت ممکن ہے

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

خلافت ایک ایسی حقیقت ہے جو اقوامِ عالم کو مساوات اور جمہوریت کی فلسفیانہ بحثوں سے نکال کر انتخاب کے میدان میں لا کھڑا کرتی ہے ۔ پھر تائید الٰہی اور نصرتِ خداوندی منتخب فرد کو اپنے حصار میں لے کر خلیفۃ اللہ اور ہر صاحب ایمان کا محبوب،آقا و مطاع بنا دیتی ہے ۔

خلافت الہام الٰہی ،نور یزدانی اور خدا داد بصیرت سے مومن متبعین کو جلا بخشتی ہے ۔اُس آبشار کی طرح جو بلندیوں سے اتر کر کشتِ ویراں کو زندگی کا پیام دیتی ہے ۔دور حاضر میں خلافت کے زیر سایہ بلاشبہ صرف مسیحِ محمدی ؐکی خدمت گار بندیاں ہیں جو اس پر آشوب دور میںقرون اولیٰ کی قربانیوں کو تازہ کرنے کا عزم اور حوصلہ رکھتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ خدا تعالیٰ کی مدد گار لونڈیوں کی جماعت ہے۔ جس طرح لونڈی کا کام اپنے مالک کے ہر حکم کو بجا لانا اور اُسے ہر حال میں خوش رکھنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ بالکل اُسی طرح خداتعالیٰ کی خدمت گار بندیوں کی یہ جماعت اپنے مولائے حقیقی کو ہر حال اور ہر قیمت پر راضی رکھنے کی کوششوں میں سر گرمِ عمل ہے۔

حضرت مصلح موعو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔ ……میں سمجھتا ہوں کہ جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگروہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے لگ جائے تو ہمارا غلبہ سو سال پہلے آجائے ۔ اگر مردوں میں بھی وہی دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے جس کا عورتوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا ہے۔ تو ہماری فتح کا دن بہت قریب آجائے۔’’(‘اوڑھنی والیوں کے لیے پھول ’حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؒ کے مستورات سے خطابات کا مجموعہ ص:410 ، 411)

مسابقت فی الخیرکا یہ جذبہ بلا تردّد ایک احمدی عورت ہی کی شان ہے۔ ایک خاتون اپنے گھر کی بنیاد ہوتی ہے۔ قربانیاں دینے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے ہر چھوٹے سے چھوٹے موقع پر افرادِ خانہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔ مسابقت فی الخیر اس کا مقصد حیات ہے۔ اس کے حوصلے بلند، ارادہ مضبوط اور عزم غیرمتزلزل ہوتا ہے۔ یہ ممکن نہیں گھر کی یہ امانت دار جس کا باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا قربانیوںکے میدان میں اسلام اور احمدیت کی فتح کا علم بلند کررہے ہوں، وہ خود میدانِ عمل سے دور رہے؟ نیکیوں میں سبقت لے جانے کا مقصد ابتداء ہی سے احمدی مستورات کے پیش نظر ہے۔ جن کی آبدیدہ کردینے والی مثالوں سے تاریخ ِ احمدیت کے صفحات چمک رہے ہیں۔مضمون ہذا میں کوشش ہوگی کہ خواتین کی روحانی ترقی میں خلافت کس طرح ممدد و مددگار ثابت ہوتی ہے وہ بیان کر سکوں ۔

خلافت امن کی ضمانت

انسانی زندگی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس میں نشیب و فراز ، دکھ سکھ ، خوف اور امن کا دور دورہ رہتا ہی ہے ۔ ایک قافلہ اگر راہ حیات پر قدم مارتا ہے تو اپنی منزل کے حصول میں کبھی پتھریلی چٹانیں اس کے قدموں کو اذیت سے ہمکنار کرتی ہیں تو کہیں سر سبز لہلہاتی کھیتیاں اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں ۔کبھی وہ تشنہ لبی کا شکار ہوتا ہے تو کبھی ابلتے ہوئے چشمے اس کی پیاس کا مداوا کرتے ہیںاور جس طرح وہ قافلہ کبھی سکون و قرار سے راہ سفر طے کرتا ہے ،اسی طرح راہ زنوں کا خوف بھی اسے بے چین کرتا رہتا ہے ۔مذہبی زندگی بھی فطرت کی انہی راہوں پر گامزن ہے ۔کبھی پے در پے ترقیات مومنین کی جماعت کی ہمت بلند کرتی ہیں تو کبھی منافقوں کا نفاق اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں ان کے دلوں میں خوف پیدا کردیتی ہیں ۔ مگر خلافت ایسی نعمت ہے کہ اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں اطمینان میں تبدیل کر دی جاتی ہے ۔

پس خلافت وہ قلعہ ہے جس کی فصیلیں خوف کی دسترس سے بلند تر ہیں ۔وہ خوف خواہ منافقت کا ہو یا عداوت کا ، جنگ کا ہو یا سیاست کا ،کسی گروہ کی طرف سے ہو یا بادشاہت کی طرف سے۔ہر حال میں خلافت امن کا نشان ہے ۔بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جو حکومت بھی خلافت سے ٹکرائی پاش پاش ہو گئی ۔پس نظامِ خلافت کی اگر ایک طرف بنیادیں ایمان کی مستحکم چٹان پر قائم ہیں تو دوسری طرف اس کی فصیلیں عرش ِرب العالمین کو چھو رہی ہیں ۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور حفظ و امان کے جلوے ہر وقت جلوہ فگن رہتے ہیں ۔

نبو ت کے بعد خلافت ہی منصبِ اعظم ہے جس پر ایمان غلبہ و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے تمکنت و استحکام ِ دین اور غلبہ اسلام خلافت سے وابستہ کیا ہے ۔ اور جب مسلمانوں کے دل اس ایمان سے خالی ہوں گے جس کی بناء پر خلافت کا قیام ہوتا ہے تو پھر جو مصیبتیں مسلمانوں پر افتراق و انتشار اور تنزل و ادبار کی صورت میں نازل ہوئیں ان کی داستانیں ابروئے قلم سے خون ڈھلکاتی ہیں کیونکہ امّت مسلمہ پر طلوع ہونے والا ہر سورج مسلمانوں کی ذلت وپسپائی کا پیام بر تھا اور ہر ڈھلنے والا دن حسرت و یاس کی علامت ۔ اسلام کی اس حالتِ زار میں خدا تعالیٰ نے استحکام اسلام اور تمکنت دین کی صداقت کے ثبوت کے لیے خلافت کے جلوے کو ظاہر کیا ۔اور مسیح موعود و مہدی موعودکو مبعوث فرمایا۔چنانچہ آپ کے ذریعہ اسلام سے ہر اعتراض کو دور کیا گیا ۔اسلام کی حقانیت اور دیگر مذاہب کے بطلان کو روز روشن کی طرح واضح کیا گیا پھر آپؑ کی وفات کے بعد خلافت علی منھاج النبوۃ کے ذریعہ نظام ِخلافت کو دوبارہ قائم کیا گیا اور آج دنیا کے ہر خطّے میں دینِ مصطفیٰ کو برتری حاصل ہے ۔

امن کا ہر دائرہ آج خلافت سے وابستہ ہے

آج احیاء دین کے لیے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دیئے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اسلام کا جھنڈا پوری آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا۔( انشاء اللہ )

ہم جو اپنے آپ کو اس مسیح موعود ؑ سے منسوب کرتے ہیں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھتے ہوئے اپنی دعائوں کو درد میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا درود صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی آل کے ساتھ پیار محبت کا وہ اظہار کریں کہ تمام دنیا صلح،امن اور محبت کی فضا سے مخمور ہوجائے ۔ہم پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس زمانے کے امام کو پہچانیں اور بہت زیادہ دعائیں کریں اپنے لیے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لیے بھی تاکہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچا لے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو بہت زیادہ اپنی دعائوں میں جگہ دیں ۔خدا تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلائے اور پھر خدا تعالیٰ کے شکر گذار بندے بنیں اور شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی،اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق دے اور ہمیشہ اپنی رضاکی راہوں پر چلائے ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں کہ عورت کس طرح کسی معاشرے میںامن کی ضامن ہوسکتی ہے فرماتے ہیں :

…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میری تعلیم ہے ۔ یہ ایک دوسرے کے حقوق ہیں۔ یہ عورت اور مرد کی ذمہ واریاں ہیں۔ یہی ہیں جو فطرت کے عین مطابق ہیں۔ مَیں نے تمہیں چھوڑا نہیں بلکہ مَیں تم پر نگران بھی ہوں۔ مَیں دیکھ رہا ہوں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوںکہ کس حد تک تم اس پر عمل کرتے ہو۔ اگر صحیح رنگ میں عمل کرو گے تو میرے فضلوں کے وارث بنوگے۔ تمہیں قطعاً مغربی معاشرے سے متاثرہونے کی، ان کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ وہ تمہارے سے متاثر ہوںگے اور کچھ سیکھیں گے، اسلام کی خوبیاں اپنائیں گے۔

اور پھر یہ ہے کہ یہ حقوق ادا کرنے کے طریق کیا ہوںگے، کس طرح اپنی ذمہ واریاں ادا کرنی ہوںگی۔؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں فرماتا ہے کہ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ( النحل آیت نمبر98)جو کوئی مومن ہونے کی حالت میں مناسبِ حال عمل کرے، مرد ہو یا عورت ،ہم ان کو یقینا ًایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم ان تمام لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق ان کے تمام اعمالِ صالحہ کا بدلہ دیں گے۔تو اس آیت سے مزید وضاحت ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو بِلا تخصیص اس کے کہ وہ مرد ہیں یاعورت ،یہ خوشخبری دی ہے کہ اگرتم نیک اعمال بجالا رہے ہو ،میرے حکموں کے مطابق چل رہے ہو ،تمہارے اعمال ایسے ہیں جو ایک مومن کے ہونے چاہئیں تو خوش ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ،تمہاری زندگیاں خوشیوں سے بھر دے گا۔ ظاہر ہے جب تم نیک اور صالح اعمال بجالارہے ہوگے تو تمہاری اولادیں بھی نیکی کی طرف قدم مارنے والی ہوںگی اور تمہارے لیے خوشی کا باعث بنیں گی، تمہارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوںگی۔

(خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی 2003ء مطبوعہ ،الازھارلذوات الخمارجلدسوم حصہ اول ،صفحہ 31)

اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے؟ اُس سے کیا توقعات وابستہ رکھی ہیں؟ اس سلسلے میں ایک اقتباس حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا پیش ہے:۔

‘‘اسلام نے عورت کو ایک عظیم معلمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ صرف گھر کی معلمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہر کی معلمہ کے طور پر بھی۔ ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی روایات کا تعلق ہے وہ تقریباً آدھے دین کے علم پر حاوی ہیں۔ بعض اوقات آپؓ نے علوم دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہ ؓبکثرت آپؓ کے پاس دین سیکھنے کے لیے آ پؓ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے ۔ پردہ کی پابندی کے ساتھ آپؓ تمام سائلین کے تشفی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔’’(خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ برموقع جلسہ سالانہ انگلستان 26؍جولائی 1986ء)

تو یہ ہے عورت کے مقام کا وہ حسین تصور جو اسلام نے پیش کیا ہے جس سے ایک سلجھی ہوئی قابلِ احترام شخصیت کا تصور ابھرتا ہے۔ وہ جب بیوی ہے تو اپنے خاوند کے گھر کی حفاظت کرنے والی ہے، جہاں خاوند جب واپس گھر آئے تودونوں اپنے بچوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی جنت کا لُطف اُٹھا رہے ہوں۔ جب ماں ہے تو ایک ایسی ہستی ہے کہ جس کے آغوش میں بچہ اپنے آپ کو محفوظ ترین سمجھ رہا ہے۔ جب بچے کی تربیت کر رہی ہے تو بچے کے ذہن میں ایک ایسی فرشتہ صفت ہستی کا تصور اُبھر رہا ہے جو کبھی غلطی نہیں کر سکتی ،جس کے پائوں کے نیچے جنت ہے ۔اس لیے جو بات کہہ رہی ہے وہ یقیناً صحیح ہے، سچ ہے۔اور پھر بچے کے ذہن میں یہی تصور اُبھرتا ہے کہ میں نے اس کی تعمیل کرنی ہے۔ اسی طرح جب وہ بہو ہے تو بیٹیوں سے زیادہ ساس سسر کی خدمت گزار اور جب ساس ہے تو بیٹیوں سے زیادہ بہوئوں سے محبت کرنے والی ہے ۔اس طرح مختلف رشتوں کو گنتے چلے جائیں اور ایک حسین تصور پیدا کرتے چلے جائیں جو اسلام کی تعلیم کے بعد عورت اختیار کرتی ہے۔تو پھر ایسی عورتوں کی باتیں اثر بھی کرتی ہیں اور ماحول میں ان کی چمک بھی نظر آرہی ہوتی ہے۔ (خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی 2003ءمطبوعہ ،الازھارلذوات الخمارجلدسوم حصہ اول ،صفحہ32)

اب اس مضمون کی طوالت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے خاکسار نہایت اختصار کے ساتھ یہ بیان کرنا چاہے گی کہ کس طرح ہر قسم کا دائمی امن خلافت کے دائرہ سے وابستہ ہے ۔ اگرچہ اس مضمون کا اجمالی خاکہ اوپر گزر چکا ہے مگر مزید وضاحت اس عنوان سے ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ

عالمی امن کی ضمانت

خدا تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے اور اس کی ترقی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو کھڑا کیا ہے ۔آج مسلمانوں کی اس کھوئی ہوئی میراث کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں نے اسلام کی صحیح تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اور اپنے دلوں کو تقویٰ سے پُر کرتے ہوئے واپس لانا ہے ۔ اسلام تشدد کا نہیں بلکہ پیار محبت کا علمبردار ہے ۔ہر سطح پر اسلام کی تعلیم امن اور محبت کی تعلیم ہے ۔اسلام نے قوموں اور ملکوں کی سطح پر بھی امن اور سلامتی قائم کرنے کے لیے نہایت خوبصورت تعلیم دی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے قوموں کی ایک تنظیم اقوام متحدہ کے نام سے ابھری لیکن اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ایک دنیاوی تنظیم کا ہو سکتا تھا۔اس میں بڑے دماغوں نے مل کر بڑی منصوبہ بندی سے یہ تنظیم بنائی ،اس میں کئی کمیٹیاں بنائی گئیں ۔سلامتی کونسل بنائی گئی تاکہ دنیا کا امن اور سکون قائم رکھا جا سکے ،جھگڑوں سے نپٹا جائے ۔معاشی حالات کے جائزے کے لیے بھی ایک کونسل بنائی گئی ،عدالتِ انصاف بھی قائم کی گئی لیکن اس کے باوجود جو کچھ آجکل دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ اس ناکامی کی وجہ تقویٰ کی کمی ہے۔ پس دنیا میں سلامتی اگر پھیلے گی تو اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے جس میں تقویٰ شرط ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت ،تمہارا دوسرے انسان سے اعلیٰ و برتر ہونا ،اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے،نہ تمہارے رنگ سے ،نہ تمہاری قوم سے ،نہ تمہاری دولت اور معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے اور نہ کسی قوم کا اعلیٰ ہونا کمزور لوگو ں پر اس کے حکومت کرنے سے ہے ۔دنیا کی نظر میں ان دنیاوی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہو گا مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نہیں ۔اور جو چیز خدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہو سکتی جس کے لیے وہ استعمال کی جارہی ہے ۔ اسلام تمام انسانوں کو ایک خاندان کے افراد قرار دیتا ہے جو ایک دوسرے کی سلامتی کا خیال رکھتے ہیں اور آپس میں پیار محبت رکھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاک نمونے سے یہ حسین معاشر ہ تشکیل دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبوں سے لاڈ کیا ، غلاموں کو پیار دیا ۔محروموں کو ان کے حق دلوائے ان کو معاشرے میں مقام دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کا عالمگیر درس دیا اور فرمایا:

‘‘تم سب آدم کی اولاد ہواس لیے نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے نہ عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت ہے ۔اسی طرح رنگ و نسل بھی تمہاری بڑائی کا ذریعہ نہیںہیں ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓے اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَانِسَآئٌ مِنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓے اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ۔ وَلَا تَلْمِزُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۔ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۔ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ۔اَ یُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ ۔ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْم ۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ۔ (الحجرات 14-12)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے )کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے ۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں)۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسّس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیا کوئی تم میںسے یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو۔اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور )بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اے لوگو !یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور)ہمیشہ باخبر ہے۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)

پس یہ خوبصورت معاشرہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا اور یہی معاشرہ ہے جو آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت نے خلافت کی برکت سے اس دنیا میں قائم کرنا ہے ۔

حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

یہ ہے وہ بنیادی تعلیم جو اگر معاشرے میں رائج ہو جائے تو یہ دنیا بھی انسان کے لیے جنت بن جائے۔ عورتوں کی آبادی عموماً دنیا کے ہر ملک میں مردوں سے زیادہ ہے۔ اگر عورت کی اصلاح ہوجائے اور تقویٰ پر قائم ہو جائے، معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے لگ جائے تو بہت سے فساد جنہوں نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہے ختم ہو جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں بعض برائیوں سے رکنے اور تقویٰ پر قائم ہونے کی تلقین فرمائی ہے۔ ان میں خاص طور پر عورتوں کا نام لے کر انہیں مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اے عورتو! یہ برائیاں نہ کرو۔یہ عورت کی فطرت میں زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ انسان کی فطرت کو کون جان سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیونکہ یہ عورت کی فطرت میں ہے کہ وہ عموماًاپنی بڑائی بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے،دوسرے کو اپنے سے کم تر سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس لیے اس عمومی نصیحت کے ساتھ جو مومنوں کو کی گئی ہے کہ کسی قوم کو حقیر نہ سمجھو کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی قوم بری نہیں۔ تم جس کو بُرا سمجھ رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہو۔ہاں بعض لوگوں کے بعض فعل ہیں جو اللہ کی راہ سے بغاوت کرنے والوں کے فعل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان افعال کی وجہ سے ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن یاد رکھو کہ یہ صرف خدا تعالیٰ کو پتہ ہے وہی ہے جو غیب کا علم رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون برا ہے، کون اچھا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کن کے دلوں میںکیا بھرا ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آئندہ کس نے کس حالت میں ہونا ہے۔ تم جو اپنے آپ کو بہتر سمجھ رہی ہو، ہو سکتا ہے کہ تمہارے میں برائیاں پیدا ہو جائیں اور جو برائیاں کرنے والا ہے ہو سکتا ہے اسے نیکیاں کرنے کی تو فیق مل جائے۔ اس لیے بلاوجہ کسی کو تحقیر سے نہ دیکھو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔(النمل آیت نمبر66)ترجمہ:پھر تو کہہ دے کہ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی ہے خدا کے سوا ان میں سے کوئی غیب کو نہیںجانتا۔

…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نزدیک تو وہی لوگ معزز ہیں جو ان برائیوں سے بچنے والے اور تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ باقی رہے تمہارے قبیلے یا تمہارے خاندان یا تمہاری قومیتیں یہ توصرف ایک پہچان ہے۔ جب ہم نے اس زمانے کے مسیح و مہدی کو مان لیا۔حَکَم وعدل کو مان لیا۔جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو مان لیا۔ جب ہم اس دعویٰ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ہم نے دنیا کو امت واحدہ بنانا ہے، ایک ہاتھ پر اکٹھے کرنا ہے، ایک امت بنانا ہے۔ تو پھر یہ قومیتیں اور یہ قبیلے اور یہ خاندان کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ پہچان تو ہے کہ ہم کہیں کہ فلاں جرمن ہے، فلاں پاکستانی ہے اور فلاں انڈونیشین ہے، اور فلاں افریقن ہے، گھانین ہے، نائیجیرین ہے۔ لیکن ایک احمدی میں کسی قوم کا ہونے کی وجہ سے بڑائی نہیں آنی چاہیے۔یا کسی احمدی کو ،کسی بھی قوم کے احمدی کو ،کسی دوسری قوم کے احمدی کو دیکھ کر یہ احساس نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ یہ ہم سے کمتر ہے۔ ایک پاکستانی احمدی کا کام ہے کہ ایک افریقن احمدی کو بھی اسی طرح عزت دے جس طرح ایک جرمن احمدی کی وہ عزت کرتا ہے یا کسی دوسرے یورپین ملک کے باشندے کی عزت کرتا ہے۔ اسی طرح ایک احمدی جو یورپین ہے، اسی طرح افریقن کی یا ایشین کی عزت کرے جس طرح وہ یورپین کی کرتا ہے۔ جب یہ معاشرہ قائم ہوگاتو خدا کی رضا حاصل کرنے والا معاشرہ ہوگا۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کا کسی کے ساتھ کوئی جسمانی رشتہ نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ خودانصاف ہے اور انصاف کو دوست رکھتا ہے۔ وہ خود عدل ہے ،عدل کو دوست رکھتا ہے۔ اس لیے ظاہری رشتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔جو تقویٰ کی رعایت کرتا ہے اسے وہ اپنے فضل سے بچاتا ہے۔ اور اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اسی لیے اُس نے فرمایا :اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔(الحجرات آیت نمبر14)

(ملفوظات جلد 2صفحہ 309۔310۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)(خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی2005ء، روزنامہ الفضل 2؍اپریل 2016ء)

سیاسی امن کی ضمانت

دنیا کی سلامتی کا دارو مدار انصاف پر ہے ،خدا تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائو اور کسی قوم کی دشمنی ہر گز تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو ۔انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو ۔’’

( سورۃ المائدہ آیت نمبر9)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ‘‘دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو ۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ ’’

پھر فرماتے ہیں :‘‘آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکہ والے کافروں نے کیا تھا ۔ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتائو کرنا کسقدر مشکل ہوتا ہے ۔…میں سچ سچ کہتا ہوں دشمن سے مدارت سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے ۔

پھر فرماتے ہیں : اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیارِ محبت کا ذکر کیا ۔کیونکہ جو شخص جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے در گزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے۔ ’’(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ المائدہ) تو یہی ہے اسلام کی سچی تعلیم اور اس کے معیار جب سچی محبت ہو گی تو انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو سلامتی کا پیغام بھی پہنچے گا ۔ پس آج اس دنیا میں اس حسین تعلیم کے وارث اور حقدار اور خلافت کے جھنڈے تلے رہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور امام الزمان کی ڈھال کے پیچھے آکر ،تقویٰ کی راہ پر قدم مارتے ہوئے اس تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے والے ہوں گے تو یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ایک تقریر میں دیانت کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:‘‘اچھے اخلاق میں سے …بہترین اخلاق جن کا پیدا کرنا کسی قوم کی زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے وہ سچ اور دیانت ہیں۔…جس قوم میں دیانت آجائے وہ قوم نہ کبھی ذلیل ہو سکتی ہے نا کبھی غلام بنائی جاسکتی ہے ۔اور سچائی اور دیانت دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو ذلیل بناتا ہے اور ان دونوں کا فقدان ہی کسی قوم کو غلام بناتاہے۔ ’’(خطبات محمود جلد 20صفحہ 80)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دور میں وہ مرد مجاہد ہیں جو ہر سطح پہ اپنے خطابات کے ذریعے تمام عالم کے سربراہان مملکت کے سامنے ،انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے، اور مختلف پارلیمنٹ سے خطابات میں اسلام کی خوبصورت تعلیمات کو نہ صرف بیان کر رہے ہیں ،بلکہ ان کو واضح الفاظ میں متنبہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو انہیں انتہائی خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔اور یہ کہ اب نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ سچائی اور انصاف سے کام لیا جائے ۔

حضور ایدہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘قرآن معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی گھرانے سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلام ہمیں انفرادی حقوق مثلًا بچوں کے حقوق کے بارے میں تعلیم دیتا ہے تو حکومت اور معاشرے کے افراد کے مجموعی حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان تعلیمات کی تشریح فرمائی ہے تاکہ آپؑ کی جماعت کے لوگ اپنے عقیدے کو سمجھ سکیں اور ہر قسم کے جھوٹے الزامات اور تنقید کا جواب دے سکیں۔

پس آپ کو چاہیے کہ آپ ہر قسم کی ہچکچاہٹ اور خوف کو دور کر دیں اور اپنے عقیدے پر کامل یقین اور پختگی کے ساتھ قائم ہوں اور اس سے قطع نظر کہ آپ کُل وقتی طور پر جماعت کے لیے کام کر رہی ہیں یا نہیں، ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیں جو اسلام کی پاک تعلیمات کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔’’

(اجتماع واقفاتِ نَو سے خطاب الفضل انٹرنیشنل 10؍ مئی 19)

معاشرتی امن کا ضامن

دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنے کے لیے معاشرتی امن کا قیام بھی بے حد ضروری ہے ۔ خدا تعالیٰ ہمیں طریقِ ادب اور اخلاق کا سبق سکھاتا ہے ۔گند کا جواب گند سے دینا اپنے اوپر گند ڈالنے والی بات ہے ۔ برائی کا جواب برائی سے دینا کوئی حکمت اور دانائی نہیں اور یہ بھی نہیں کہ نرمی دکھائو اور مداہنت کا اظہار کرو ۔ بلکہ احسن طور پر نصیحت کا حکم دیا گیا۔ یہاں تک کہ مشرکوں سے بھی عمدہ اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات کرنے کا حکم دیا گیا ۔پس آج مسلمان کا کام ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کا پرچار کرے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘چوتھی قسم ترک شر کے اخلاق میں سے رِفق اورقولِ حسن ہے اور یہ خُلق جس حالتِ طبعی سے پیدا ہوتا ہے اُس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روئی ہے۔ بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قولِ حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے۔ یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے۔طلاقت ایک قوت ہے اوررفق ایک خُلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہوجاتا ہے۔ اس میں خدائے تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے’’۔ اس کا ترجمہ میں پڑھ دیتا ہوں کہ ‘‘ یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں۔ ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا ہے وہی اچھے ہوں ۔ بعض عورتیں بعض عورتوں سے ٹھٹھانہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ جن سے ٹھٹھا کیا گیا وہی اچھی ہوں۔ اور عیب مت لگائو۔ اپنے لوگوں کے بُرے بُرے نام مت رکھو۔ بدگمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو۔ ایک دوسرے کا گلہ مت کرو۔ کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگائو جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔اور یاد رکھو کہ ہر یک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان، آنکھ، دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا’’۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد نمبر 10 صفحہ 350) (لجنہ اماء اللہ جرمنی سے خطاب 2003ء۔ بحوالہ الازھار لذوات الخمار۔ جلد سوم حصہ اول)

آج عالمِ اسلام انتشار کا شکار ہو چکا ہے ۔مسلم ممالک کے شہر فحاشی و بد کرداری کے مرکز بن گئے ہیں ۔ ان کی بستیاں اور گلی کوچے اسلامی اخلاق سے عاری نظر آتے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار کا اس حد تک دیوالیہ نکل چکا ہے کہ اس بد کردار معاشرےکو اسلام سے منسوب کرنا دین کی توہین ہے ۔

مگر آج صرف خلافتِ احمدیہ کی بدولت دنیا کو ایک سچا اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ عطا ہوا ہے جو صحیح اسلامی تعلیمات اور اقدار پر مبنی ہے ۔یہ معاشرہ ہر ملک ہر بستی میں جہاں خلافت سے وابستگی نظر آتی ہے دیکھا جا سکتا ہے ۔ جہاں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے تذکرے جاری ہیں ۔ جہاں کی راتیں اور دن عبادت میں گزرتے ہیں ۔جہاں تربیت اور اصلاح اخلاق کی خاطر دن رات کوششیں کی جاتی ہیں ۔ جہاں نیکیوں سے محبت اور بدیوں سے نفرت کی جاتی ہے ۔جہاں مسابقت بالخیرات کے روح پرور نظارے دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں قرون اولیٰ کے صحابہ کے رنگ میں رنگین ہو کر جان و مال کے نذرانے پیش کیے جاتے ہیں۔یہ وہ زندہ اور زندگی بخش معاشرہ ہے جو اللہ کے فضل سے اور خلافت کی بدولت دنیا میں قائم ہو چکا ہے ۔آج خلافتِ احمدیہ نے دورِ آخرین میں دنیا کو جو اسلامی معاشرہ عطا کیا ہے یہ دراصل ابتداء ہے اس روحانی انقلاب کی جس کی برکت سے دنیا اس صدی میں انشاء اللہ ایک روح پرور نظارہ دیکھے گی ۔ نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان اور ساری دنیا اسلام کے آفتاب عالم تاب کے نور سے منور ہو جائے گی۔(انشاء اللہ )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘حقوق العباد ہیں،والدین سے احسان کا سلوک ہے۔اب سب سے زیادہ والدین سے احسان کے سلوک کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان سے کرو اور ان کے لیے دعا کرو کہ جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا ،مجھے پالا پوسا اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ۔اور یہ دعا ان کی زندگی میں بھی ہو سکتی ہے ،ان کے مرنے کے بعد بھی ہو سکتی ہے ۔ ایک مستقل دعا ہے ۔ اگر ہر بچہ ، ہرنوجوان،ہر عورت یہ دعا کر رہی ہو گی تو خود بھی اس کو احساس ہو رہا ہو گا ۔جو بچوں والیاں ہیں ۔جب وہ اپنے والدین کے لیے دعا کر رہی ہوں گی تو ان کو خود بھی یہ احساس ہو گا کہ ہم نے بھی یہ دعا لینی ہے ہمیں بھی ان نیکیوں پر قائم ہونے کی ضرورت ہے جو ہمیں ان دعائوں کا حقدار بنائیں ۔ یہ ایک ایسی دعا ہے ۔ جس کو اگر غور سے پڑھا جائے اور دعا غور سے کی جائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی کبھی کسی کی برائی چاہنے والی ہو ۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس دعا میں اگر آپ غور کریں تو ہمارے ہاں یہ جو ساس بہوئوں کے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں ،وہ بھی حل ہو جاتے ہیں ۔ بہو جب اپنے والدین کے لیے دعا کر رہی گی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارے جو رحمی رشتےدار ہیں خاوند کی طرف سے وہ بھی تمہارے ماں باپ ہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان کے لیے بھی دعا ہو رہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرمائے۔ میرے خاوند کے ماں باپ پر بھی رحم فرمائے ،میرے ماں باپ پر بھی رحم فرمائے ۔ماں باپ جو ہیں جب یہ دعا کر رہے ہوں گے تو وہ اپنے بڑوں کے لیے دعا کر رہے ہوں گے اور یہ سوچ کر کر رہے ہوں گے کہ اسی طرح ہمارے بچے بھی ہمارے لیے دعا کر رہے ہیں ۔ تو ہم نے بھی ان دعائوں کا وارث بننا ہے اُن کا فائدہ اٹھانا ہے ۔تو ہم بھی ان سے نیکیاں کریں۔

(ماخوذ از: ملفوظات جلد 5صفحہ180-179۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر رشتہ داروں سے حسن سلوک ہے ۔یہ ایک بہت اہم چیز ہے ۔ذرا ذرا سی بات پر بعض رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک نیکی جو ہے جس کا اللہ تعالیٰ ثواب دے رہا ہوتا ہے اُس سے محروم ہو جاتی ہیں ۔ اگر یہ رشتے داروں سے حسن سلوک کی نیکی رہے تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں جو رشتے برباد ہوتے ہیں ،ٹوٹتے ہیں ،خاوند اور بیوی کی آپس میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ نندوں اور بھابھیوں کی لڑائیاں ہیں ،ساس اور بہو کی لڑائیاں ہیں ۔ اگر ایک دوسرے سے حسن سلوک کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی قسم کی ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پیدا ہوں ،برائیاں پیدا ہوں ۔ پس یہ بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے والی مومنات کا کام ہے کہ اپنے رشتوں کا بھی پاس اور خیال رکھیں ۔

پھر ہمسایوں سے حسن سلوک ہے ۔یہاں کے جو جرمن ہمسائے ہیں ۔نہ جاننے والے اُن سے تو آپ حسن سلوک اسی کو سمجھتے ہیں کہ ہمارا اُن سے تعلق نہیں ،واسطہ نہیں ۔ پھر قریبی ہمسائے آپ کے جماعت کے ممبران بھی ہیں اُن سے حسن سلوک ہے۔لیکن جرمنوں سے بھی حسن سلوک ضروری ہے ۔ ہر ایک ہمسایہ چاہے وہ عیسائی ہے ، چاہے وہ ہندو ہے ،چاہے سکھ ہے یا بدھ ہے ، یہودی ہے یا مسلمان ہے اُن سے حسن سلوک ہوگا تو آپ لوگ نیکیوں کو پھیلانے والے ہوں گے اور ان نیکیوں کو پھیلانے کی وجہ سے اپنے تبلیغ کے میدان کو وسیع کر رہے ہوں گے ۔ پس یہاں بھی ضروری ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سو کوس تک یعنی سو سو میل تک تمہارے ہمسائے ہیں ۔ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری ہمسائیگی صرف اس حد تک ہے کہ تمہارے گھر کے ساتھ جڑی دیوار والا تمہارا ہمسایہ ہے۔

(ماخوذ از: ملفوظات جلد 4صفحہ نمبر215-214۔ایڈیشن 2003،مطبوعہ ربوہ )

جماعت کے تمام افراد تمہارے ہمسائے ہیں ۔جہاں آپ اس وقت بیٹھی ہوئی ہیں ،تین چار ہزار، پانچ ہزار جتنی بھی تعداد ہے ہر ایک جو بیٹھی ہے ہر دوسری اُس کی ہمسائی ہے اور یہ ہمسائیگی کا حق آج کے لیے نہیں ،یہ ان تین دنوں کے لیے نہیں بلکہ اب اس ہمسائیگی کے حق کو مستقل آپ نے نبھانا ہے ۔اس سوچ کو وسیع کریں گی تو پھر دیکھیں کیسا حسین معاشرہ آپ پیدا کرنے والی ہو جائیں گے ۔وہ خوبصورت معاشرہ پیدا کرنے والی ہو جائیں گی جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ ’’

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 16تا 22نومبر 2012ءصفحہ 2 لجنہ اماء اللہ جرمنی سے خطاب 17ستمبر 2011ء)

گھریلو امن کی ضمانت

جماعت احمدیہ میں خلافت کے زیرِ سایہ مردوں ،عورتوں کی دینی تعلیم و تربیت اور ترقی کے لیے انصار اللہ ۔خدام الاحمدیہ،اطفال الاحمدیہ ،ناصرات اور لجنہ اماء اللہ کی الگ الگ ذیلی تنظیمیں موجود ہیں جو براہ راست خلیفہ وقت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں ۔ایک مکمل انتظامی ،تربیتی اور روحانی نظام ہے جو اس دور میں خلافتِ احمدیہ کے ذریعہ دنیا کو عطا ہوا ہے ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘… جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔…ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے ۔’’

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19، صفحہ 19، ایڈیشن 2008ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ

‘‘پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں،نیک سلوک کریں ،ایک دوسرے کو سمجھیں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسن ِسلوک کرو گے تو بظاہر نا پسندیدگی ،پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے بھلائی اور خیر پا سکتے ہو ۔کیونکہ ہمیں غیب کا علم نہیں اور اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے ۔اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ تمہارے لیے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا ۔’’

(مشعلِ راہ جلد پنجم حصہ چہارم صفحہ 122 123 ۔ ایڈیشن 2007ء)

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو جیسا کہ لباس میں سکون ،آرام ، گرمی سے بچائو، زینت ،قسما قسم کے دکھ سے بچائو ہے ایسا ہی اس جوڑے میں ہے جیسا کہ لباس میں پردہ پوشی ہے ایسا ہی مردوں عورتوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی پردہ پوشی کیا کریں اس کے حالات کو دوسروں پر ظاہر نہ کریں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘آپ میں سے ہر وہ عورت جس کے گھر میں کوئی فتنہ ہو اور اتحاد میں خلل پیدا ہوتا ہو اپنے خدا کے سامنے اس کی ذمہ دار ہے اور اس کے متعلق اپنے رب کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا کیونکہ اس نے اپنے گھر کی پاسبانی نہیں کی۔ ’’( ماہنامہ مصباح سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نمبر جون ،جولائی 2008ء صفحہ 85)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں:

پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں ۔بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ ردِ عمل بھی اِس قدر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہوجاتی ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔لیکن اکثر دعا ،صدقات اور رویّوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لیے اُس کی طرف مزید جُھکنا چاہیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:۔‘‘اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیا کرواورکثرت سے استغفار کیا کرو۔ ’’

(صحیح مسلم ۔کتاب الایمان ،باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات۔۔)

یہ نسخہ بھی آزما کر دیکھیں۔ جہاں آپ کی روحانی ترقی ہوگی وہاں بہت سی بلائوں سے بھی محفوظ رہیں گی۔ پھر جوان لڑکیوں کے حقوق ہیں۔ اس میں بچیوں کے رشتوں کے معاملے ہوتے ہیں ۔گو ماں باپ اچھاہی سوچتے ہیں سوائے شاذ کے جو بیٹی کو بوجھ سمجھ کر گلے سے اُتارنا چاہتے ہیں۔ بچیوں کو اُن کے رشتوں کے معاملے میں اسلام یہ اجازت دیتا ہے اگر تم پر زبردستی کی جا رہی ہے تو تم نظامِ جماعت سے، خلیفۂ وقت سے مدد لے کر ایسے ناپسندیدہ رشتے سے انکار کردو۔ لیکن یہ اجازت پھر بھی نہیں ہے کہ اپنے رشتے خود ڈھونڈتی پھرو۔ بلکہ رشتوں کی تلاش تمہارے بڑوں کا کام ہے یا نظامِ جماعت کا ۔ ہاں پسند نا پسند کا تمہیں حق ہے۔ جس لڑکے کا رشتہ آیا ہے اس کے حالات اگر جاننا چاہو تو جان سکتی ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دُعا کر کے شرح صدر ہونے پر رشتے طے کرنے چاہئیں۔ رشتوں کے بارے میں آزادی کے نام نہاد دعویدار تو یہ آزادی عورت کوآج دے رہے ہیں، اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کی یہ آزادی قائم کردی۔’’

(خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی 2003ءمطبوعہ،الازھارلذوات الخمارجلدسوم حصہ اول ،صفحہ40,41)

ایک اور خطاب میںآپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کو نصائح کرتے ہوئے مزید فرمایا :

‘‘پس آج اگر اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو دنیا کے فتنہ و فسادسے بچانا ہے اور دنیاو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔ جو احکامات اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں بتائے ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والی ہوں تاکہ اپنی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے سپرد جماعت کی امانتوں کی بھی صحیح رنگ میں حفاظت کرتے ہوئے، ان کو بھی خداتعالیٰ کے احکامات کا فہم حاصل کرنے اور ان کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کا ذریعہ بنیں۔

پس اس سوچ کے ساتھ قرآن کے احکامات کی تلاش کریں۔ جب ایک جستجوکے ساتھ، ایک لگن کے ساتھ اس کوشش میں مصروف ہوںگی کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کا پتہ کرکے، ان پر عمل کرنے والی بنوں تو پھر ہی آپ حقیقی مومنات کہلائیں گی۔ اور حقیقی مومن کی مدد کر نا اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ مومن کی مَیںمدد کرتا ہوں اور یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی ہے جو آپ کی اولادوں کو نیکیوں پر قائم رکھے گی۔ یہ خدا تعالیٰ کی مدد ہی ہے جس سے آپ کی اولادیں آپ کے لیے دعائیں کرنے والی ہوںگی۔ یہ خدا تعالیٰ کی مدد اور فضل ہی ہے جس سے آپ کی اولاد جماعت سے مضبوط تعلق جوڑنے والی ہوگی اور آپ کے لیے، آپ کے خاندان کے لیے اور جماعت کے لیے مفید وجود بنے گی۔

پس ایمان کے یہ معیار حاصل کرنے کے لیے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کی مدد اپنے پر فرض کی ہے تواس کے لیے ایک مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے۔سب محبتوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوبنے کی ضرورت ہے۔ پس جب یہ صورت پیدا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کی وجہ سے اس کی عبادت میں بڑھنے کی کوشش کریں گی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کرنے کی کوشش کریں گی تو پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ضرور مدد فرماتا ہے اور آپ کی اولاد کو آپ کے لیے قرّۃ العین بنائے گا۔اور آپ کی دعا وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا ۔(الفرقان آیت نمبر75)کو قبول فرماتے ہوئے نیک صالح اولاد عطا فرمائے گا جو قرّۃالعین ہو۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ شرط یہی ہے کہ آپ کی عبادتوں کے معیار بھی بلند ہوں، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والی اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والی ہوں، تو پھر آپ کی نیک تربیت کو پھل لگیں گے۔ آپ کی زندگی میں بھی آپ کی اولاد آپ کی نیک نامی کا باعث بن رہی ہو گی اور مرنے کے بعد بھی اولاد کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمارہا ہو گا۔ ہر وہ نیک عمل جو آپ کی اولاد کرے گی، آپ کے کھاتے میںبھی اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق شمار کرے گا۔بچوں کو دعائیںجو اللہ تعالیٰ نے سکھائی ہیںوہ اسی لیے ہیں۔ ایک دعا ہے رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰـنِیْ صَغِیْرًا۔ (بنی اسرائیل آیت نمبر، 25)کہ اے میرے ربّ! اُن پر مہربانی فرما کیونکہ اُنہوں نے بچپن کی حالت میں میری پروش کی تھی ۔یقیناً یہ دعا انہی بچوں کے منہ سے نکلے گی جن کا اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق ہوگا، جوعبادتوں کی اہمیت سمجھتے ہوں گے، جو نیک اعمال کی طرف توجہ دینے والے ہوں گے۔ نیک اعما ل کرکے ہی اُنہیں خیال آئے گا کہ میرے ربّ کے بعد میرے والدین کا مجھ پر احسان ہے، میری ما ں کا مجھ پر احسان ہے، میرے با پ کا مجھ پر احسان ہے جنہوں نے میری نیک تربیت کی۔ میری ایسے رنگ میں پرورش کی کہ مجھے میرے خدا سے ایک زندہ تعلق پیدا کروادیا۔ میری اس رنگ میں پرورش کی مجھے جماعت کے لیے خدمت کا موقع عطا فرمایا۔ سوچیں ذرا جو واقفینِ نَو بچے اور بچیاں خدمت ِ دین پر کمر بستہ ہوں گے، ایک قربانی کے جذبے سے دین کی خدمت کر رہے ہوں گے۔ اُس وقت ان کے دل میںجہاں اپنے ربّ کے لیے شکر کے جذبات کا اظہا ر ہو رہا ہوگا، وہاں اپنے والدین کے لیے بھی دل سے دعائیں نکل رہی ہوں گی کہ اے خدا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تُونے مجھے ایسے والدین عطا فرمائے جنہوں نے خلیفۂ وقت کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے ہمیں خدمتِ دین کے لیے وقف کیا۔ پس اے خدا میرے ایسے والدین پر اس دنیا میں بھی رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسا دے اور اگلے جہان میں بھی ان سے وہ پیار کا سلوک کر جو تُو اپنے پیاروں سے کرتا ہے۔
پس یہ دعا جو ہمارے پیارے خدا نے ہمیں اپنے والدین کے لیے سکھائی ہے تو یقینا اس کی بہت اہمیت ہے۔ یقینا ًقبولیت کا درجہ دینے کے لیے دعا سکھائی ہے۔ یقینا ً ماں باپ کو ان کے بچوں کی تربیت پر ان کو ایک اعلیٰ سرٹیفکیٹ دینے کے لیے دعا سکھائی ہے کہ اے بچو!تم اپنے ایسے نیک ماں باپ کا احسان نہیں اتار سکتے ہو، ان کا شکر ادا کر سکتے ہو اور اس کا بہترین ذریعہ یہ کہ ہمیشہ جب بھی کوئی نیک کام کرو، اپنے ما ں باپ کو یاد رکھتے ہوئے، میرے سے ان کے لیے رحم کی دعا مانگو۔ مَیں اُن کے درجات کو بڑھاتا چلا جائوںگا۔

ایک حدیث میں ہے جو پہلے بھی میں نے ذکر کیا کہ ماں گھر کی نگران ہونے کی وجہ سے ،اپنے اور اپنے خاوند کے بچوںکی نگران ہوتی ہے اور اگر صحیح نگرانی نہیں کر رہی تو اس کی وجہ سے وہ پوچھی جائے گی۔(صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200) تو جن مائوں نے نیک اولا د پیدا کی ہے وہ ہر وقت اللہ کے پیار کی نظر کے نیچے بھی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ نہ کرنے پرتو سزا دے اور پوچھے اور اگراچھاکام کوئی کرے تو خاموش بیٹھا رہے۔ اللہ تعا لیٰ تو ایسا دِیالُو ہے جو کئی گنا کسی عمل کی جزا دیتا ہے۔ پس اس خدا سے جہاں خود بھی تعلق جوڑیں، وہاں اپنے بچوں کا بھی تعلق جڑوائیں۔

یاد رکھیں مائیں ہی ہیں جو بچوں کی قسمت بدلا کرتی ہیں بلکہ بچوں کے زیر اثر دوسروں کی قسمت بھی بدل جاتی ہے۔ عورت ہی ہے جو ولی اللہ بھی پیدا کرتی ہے اور ڈاکو بھی پیدا کرتی ہے۔دیکھیں وہ ماں ہی تھی جس نے اپنے معصوم بچے کو سفرپر بھیجتے ہوئے یہ نصیحت کی تھی کہ بچے جو چاہے حالات گذر جائیں جھوٹ نہ بولنا۔ جب ڈاکو نے بچے کو گھیرا اور اس سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے تو اس نے صاف صاف بتا دیا کہ اسّی(80) اشرفیا ں میری قمیص کے اند رسلی ہوئی ہیں ۔ ڈاکوئوں کے سردار نے کہا تم ہم سے چھپا سکتے تھے کیونکہ ہم تمہیں بچہ سمجھ کر یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ تمہارے پاس بھی کچھ ہوگا۔ لیکن بچے نے اُس نیک ماں کی تربیت کی وجہ سے کیا خوبصورت جواب دیا کہ میری ماں نے کہا تھا کہ بچے کبھی جھوٹ نہ بولنا، اگر آج پہلے امتحان پر ہی میں جھوٹ بولنے والا بن گیا تو میری ماں نے جو مجھ پر محنت کی ہے اُسے ضائع کرنے والا بنوں گا۔ یہ سن کر ڈاکوئوں کا سردار دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور توبہ کرکے اللہ کے عباد ت گزاروں میں بن گیا۔’’

(ماخوذ از: ملفوظات جلد1صفحہ370۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)(خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی ،مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 2؍دسمبرتا8؍دسمبر،2016ء)

حضورِ انور ایّدہ اللہ نے برطانیہ کی واقفاتِ نَو کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘معاشرے کے امن و سکون کا تعلق گھریلو امن و سکون سے ہے اور گھریلو سکون اچھے اخلاق، میاں اور بیوی ،والدین اور اولاد کے باہمی حسن سلوک ، ادب و احترام کے بغیر ناممکن ہے۔اس لیے واقفاتِ نَو ہونے کی حیثیت میں آپ ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا آپ کے لیے ضروری ہے۔

قطع نظر اس کے کہ آپ بچیاں ہیں، نوجوان ہیں یا پختہ عمر کی ہیں آپ تمام واقفاتِ نَو پر لازم ہے کہ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں۔ آپ میں سے جو شادی شدہ ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں اور خاوندوں سے محبت کا تعلق رکھیں ،ان کے حقوق ادا کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ آپ کا گھرانہ اسلامی روایات کی عملی تصویر ہو۔

جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ قرآنِ کریم جیسی بے نظیر کتاب کی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری ہمیشہ ہماری اولین ترجیح رہنی چاہیے۔لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے کرام کی تفاسیر کا مطالعہ کریں اور اس امر میں فخر محسوس کریں کہ آپ ایک زندہ خدا کو ماننے والی اور ایک عظیم الشان نبیؐ کی پیروکار ہیں جس کی بیان فرمودہ تعلیمات رہتی دنیا تک قائم رہیں گی۔ ان شاء اللہ۔

اس بات کو بھی باعثِ فخر سمجھیں کہ ہمارا ایمان ہمارے لیے دنیا و آخرت میں نجات کا باعث ہو گا۔

اگر آپ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں گی تو یقیناً آپ اپنی روز مرّہ زندگی اور اپنے گھروں میں ہی جنت کا نظارہ دیکھ لیں گی۔’’

(اجتماع واقفاتِ نَو سے خطاب الفضل انٹرنیشنل 10؍ مئی 19)

آج فقط خلفائے احمدیت ہی ہیں جو بار بار اپنے خطبات و خطابات کے ذریعہ ہمیں حسنِ معاشرت کا درس دیتے ہیں ۔ جو ہمارے دکھ کو اپنا دکھ جان کر ساری ساری رات گریہ و زاری میں گزاردیتے ہیں ۔آج خلافت کی برکت سے جماعت میں ایک ایسا شاندار نظام موجود ہے جو حقدار کو اس کا حق دلواتا ہے ،جو مظلوم کی فریاد سنتا ہے ،جو ظالم کے ہاتھ کو روکتا ہے ۔پھر خواہ معاملہ عورتوں سے متعلق ہو یا سوال بچوں کے حقوق کا ہو ہر معاملے میں خلیفہ وقت کی رہنمائی ہمارے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہے ۔ گھریلو امن کو قائم رکھنے میں خلیفہ وقت کی زریں ہدایات اس گھر کو خوشحال گھرانہ اور جنت نظیر معاشرہ بنانے میں بے حد معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔جہاں ہر ماں ، باپ ،بہن بھائیوں ،عزیزواقارب اور ہمسایہ کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور معاشرے میں پیدا ہونے والی گاہے بہ گاہے برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں ۔ اور یہ تمام تر ثمرات صرف اور صرف خلافت سے وابستگی سے ہی حاصل ہوتے ہیں ۔

روحانی امن کا ضامن

خلافت سے سچے تعلق کی بدولت انسان کی پرانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی روحانی زندگی اس کو نصیب ہوتی ہے ۔ اور وہ گناہوں کی آلائش سے پاک و صاف ہو کر نیکیوں کے مجسمے بن جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر جا پہنچتے ہیں ۔ تاریخ احمدیت ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ خلافت سے وابستگی نے اس میں شامل ہونے والوں کی زندگیوں میں عظیم روحانی انقلاب پیدا کر دیا ۔ان کو گناہوں کی آلائش سے پاک کر کے اسلامی تعلیمات پر سچا عامل بنا دیا کہ وہ خدا نما وجود بن گئے ۔نیک اور پاکیزہ تبدیلیوں کے واقعات سے تاریخ احمدیت بھری پڑی ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ ‘‘اس درخت کو اس کے پھلوں سے اور اس نیر کو اس کی روشنی سے شناخت کرو گے۔ ’’(روحانی خزائن جلد 3صفحہ44ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس بارے میں فرماتے ہیں :

‘‘ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنا اگر کسی کے مقدّر میں ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح کی جماعت کے ذریعے سے یہ مقدّر کیا ہوا ہے۔پس اگر مسیح موعود کی فوج میں شامل ہونا ہے تو اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھیں۔سب سے پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنی دینی، علمی اور روحانی ترقی کے لیے جلسے پر آئی ہیں۔ اور یہی مقصد لے کرآپ یہاں بیٹھی ہیں اور بیٹھنا چاہیے۔ …یہاں جلسے کے پروگراموں کو پوری توجہ سے سنیں۔یہ نہ ہو کہ ٹولیاں بنا کر بیٹھی گپیں مارتی رہیں، اپنے کپڑوں اور زیوروں کا ذکر کر رہی ہوں۔ وہی ذکر زیادہ چلتا رہے۔ سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں ۔اگر دین سیکھنے کی خاطر اجتماع اور جلسے کے دن ملاکر کُل پانچ دن یا چھ دن بھی آپ دین سیکھنے کے لیے نہیں دے سکتیں، اپنے آپ کو دنیا کے کاموں سے کلیۃً علیحدہ نہیں کر سکتیںتو اپنے روحانی معیار اونچے کرنے کی کوشش کرنے والی کس طرح کہلاسکتی ہیں۔ … اپنے آپ کو مکمل طور پر ان دنوں میں دین سیکھنے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لیے وقف کریں۔ ’’

(خطاب لجنہ اماء اللہ جرمنی فرمودہ یکم ستمبر 2007ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

‘‘تعلیمی ترقی اور نئی ایجادات نے جہاں انسانوں کے ذہنوں کو روشن کیا ہے وہاں اکثریت کو روحانی طور پر مُردہ کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمان بھی کامل تعلیم کے باوجود غلط قسم کے علماء کے پیچھے چل کر روحانی طور پر مُردہ ہو چکے ہیں۔…اس فساد کے زمانے میں، روحانی زوال کے زمانے میں، دنیاوی خواہشات کے بڑھنے کے زمانے میں، اسلامی تعلیمات کو بھلانے کے زمانے میں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک غلام دنیا کی رہنمائی کے لیے آئے گا اور احیائے موتیٰ کا ذریعہ بنے گا۔

پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے اور مسیح موعود اور مہدی معہود کو مان لیا اور اس کی بیعت میں شامل ہو کر یہ اعلان کیا کہ ہم شیطان کے ہر حملے کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس پر الٹا دیں گے۔ اس کے ہر بہکاوے پر اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے بچنے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔ دین کو دنیا پر مقدم کریں گے۔

پس آپ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ لیکن یہ شکرگزاری صرف منہ کے اعلان سے ہی مقصد پورا نہیں کر سکتی کہ الحمد للہ ہم شکرگزار ہیں اللہ کے کہ ہم احمدی ہو گئے۔ اس کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور احمدی عورت اور لڑکی کی سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری ہے کیونکہ اس نے صرف اپنے آپ کو ہی شیطان کے حملوں سے نہیں بچانا بلکہ اپنی نسلوں کو بھی ان حملوں سے بچانا ہے۔ عورت ہے جس کی کوکھ سے بچہ جنم لیتا ہے۔ عورت ہے جس کی گود میں بچہ پلتا ہے، بڑھتا ہے۔ عورت ہے جو اپنے بچہ کو باہر کے ماحول سے متاثر ہونے سے پہلے اپنے بچے کی اس نہج پر تربیت کر سکتی ہے کہ اسے پتا چل جائے کہ برائی کیا ہے اور اچھائی کیا ہے۔ ایک حقیقی احمدی مسلمان عورت اپنے بچے کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کے علاوہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق کے معیار کیا ہیں۔ ایک احمدی عورت ہے جو اپنے بچہ کو بتا سکتی ہے، اس کے کان میں بچپن سے ڈال سکتی ہے کہ تمہارے احمدی مسلمان ہونے کا مقصد کیا ہے۔ اس موجودہ بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ تربیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ہر احمدی عورت کے لیے، ہر احمدی ماں کے لیے۔ ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔

‘‘…اسلام ماؤں پر ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ بچوں کی تربیت کا حق ادا کریں۔ بچوں کی تربیت کی ذمہ داری جیسا کہ میں نے کہا کہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے اور اس بگڑے ہوئے معاشرے میں جہاں ہر قدم پر شیطان نے دنیاوی ترقی کے نام پر اپنی طرف کھینچنے کے سامان کیے ہوئے ہیں اور پھر جب بچے اپنے ساتھ کے غیر بچوں کو بعض کام کرتے دیکھتے ہیں خاص طور پر جب بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان میں بے چینیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پس یہ تربیت جو ماں کرتی ہے اور جس محنت سے اس طرف توجہ دیتی ہے یہ جہاد سے کم نہیں ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے سوال کرنے پر کہ ہم جہاد پر تو جا نہیں سکتیں کیا، گھروں کو سنبھالنے اور بچوں کی تربیت کرنے پر جہاد جیسا ثواب کمائیں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقینا ًیہ تمہارا جہاد ہے اور اس کا ثواب تمہیں جہاد جتنا ہے۔(الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلد 11 صفحہ 177-178 حدیث 8369 مطبوعہ الرشد ناشرون ریاض2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پردہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

بعض احمدی لڑکیوں کوپتا نہیں کیوں احساس کمتری ہے کہ اگر انہوں نے پردہ کیا تو لوگ انہیں جاہل سمجھیں گے ۔ پس ایسی لڑکیاں یہ دیکھ لیں کہ کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے یا لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو ماننا ہے یا اس کی باتوں پر اندھے اور بہروں کی طرح گزر جانا ہے، جیسے سنا ہی نہیں یا دیکھا ہی نہیں ۔ غیر احمدی عورت تو کہہ سکتی ہے کہ ہمیں تو ان احکامات کاپتا نہیں۔ ہمیں قرآن کریم کا علم نہیں۔ ہم نے تو تفصیل سے احکامات نہیں پڑھے۔ لیکن احمدی لڑکی اور عورت نہیں کہہ سکتی کہ ہم نے سنا نہیں اور دیکھا نہیں۔مستقل انہیں پوری تفصیل کے ساتھ اس بارے میں سمجھایا جاتا ہے اور تمام خلفاء نے سمجھایا۔ میں عرصےسے سمجھا رہا ہوں۔ پس اس طرف لجنہ کی تنظیم کو بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور خود ہر لڑکی اور عورت کو بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ آہستہ آہستہ پھر یہ فیشن اور لاپرواہیاں بالکل ہی ننگا کر دیں گی ۔ اگر ابھی ایک دو چار بھی ہیں تو ان کو اپنا جائزہ لینا چاہیے اور جو نہیں ہیں ان کو کسی قسم کے احساس کمتری میں، کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا دین ایک بہترین دین ہے اور دنیا میں پھیلنے کے لیے آیا ہے۔ پس اس کو پھیلانے کے لیے ہم میں سے ہر عورت اور مرد کو اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب صرف ننگا نہیں ہو جائیں گی بلکہ اس ذمہ داری سے بھی لاپرواہ ہو جائیںگی جو اولاد کی دینی تربیت کے لیے ہے اور بچے جب دیکھیں گے کہ میری ماں کی بعض حرکتیں تو اس سے مختلف ہیں جو قرآن کریم نے حکم دیا ہے تو پھر ظاہر ہے ان پر منفی اثر پڑے گا۔

پس جہاں اعتقادی لحاظ سے ہر عورت اور لڑکی نے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے، ایمان میں بڑھنا ہے وہاں عملی لحاظ سے بھی مضبوط کریں۔ اس معاشرے میں ہمیں اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو حجاب اور پردے اور حیا کا تصور پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حیا دار حجاب کی جھجھک اگر کسی بچی میں ہے تو ماؤں کو اسے دور کرنا چاہیے بلکہ اسے خود اپنے آپ بھی دور کرنا چاہیے اگر اس کی عمر ایسی ہے۔ مائیں اگر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچیوں کو حیا کا احساس نہیں دلائیں گی تو پھر بڑے ہو کر ان کو کوئی احساس نہیں ہو گا۔ ’’

(خطاب لجنہ اما ءاللہ کینیڈا۔مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل17؍مارچ2017ء صفحہ14)

خلافت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے دنیا پر احسان عظیم فرمایاکہ دنیا کو وہ برگزیدہ مسیح موعود اور اما م مہدی عطا کیا جس نے دنیا کو زندہ خدا کی خبر دی ،زندہ خدا کی تجلیات پر ایمان اور محکم یقین بخشا ۔اپنی ذات کو ہستی باری تعالیٰ کے ایک زندہ گواہ کے طور پہ پیش کیا ۔

‘‘خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو ! مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں سنوں گا اور اس خدا کا یہ بھی وعدہ ہے کہ اگر تمہارا ایمان سچا ہو گا تو تم فرشتوں سے ہم کلام ہو سکوگے ۔اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔مگر جب اس دور ِآخرین میں مسلمانوں پر عقائد اور کمزور ی کا دور آیا تو انہوں نے ان پیاری تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ۔مجیب الدعواۃ زندہ خدا پر ان کا ایمان اُٹھ گیا ۔ اللہ تعالیٰ کی لقاء اور وحی و الہام کے منکر ہو گئے ۔ خدا تعالیٰ کی پیاری ہستی کا تذکرہ ان کی مجالس میں مفقود ہونے لگا ۔کوئی نہ تھا جو خدا کے زندہ کلام کی بات کرتا ہو،قبولیت دعا کا ذکر بھی ایک قصہ پارینہ بن گیا ۔تب خدا کے مسیح و مہدی ؑنے دل شکستہ مسلمانوں کو یہ نوید سنائی کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے جس کی پیاری صفات میں سے کوئی صفت بھی مرورِزمانہ سے معطل نہیں ہوئی وہ آج بھی سنتا ہے جیسے پہلے سنتا تھا ،وہ آج بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا ۔

پھر فرمایا:‘‘زندہ مذہب وہ ہے جس کے ذریعہ زندہ خدا ملے ۔زندہ خدا وہ ہے جو ہمیں بلاواسطہ ملہم کر سکے اور کم سے کم یہ کہ ہم بلا واسطہ ملہم کو دیکھ سکیں ۔سو میں تمام دنیا کو خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ زندہ خدا اسلام کا خدا ہے۔ ’’(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ311ایڈیشن 1989ء مطبوعہ انگلستان ،بحوالہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا صفحہ 14,15)

آپ علیہ السلام کا یہ اعلان ایک انقلاب ا ٓفرین اعلان تھا جس نے مذہب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یہ نقیب اور شاہد ایک مقناطیسی وجود ثابت ہوا ۔جس کی طرف سعید فطرت لوگ قافلہ در قافلہ آنے لگے اور اس وجود کے فیضان سے سیراب ہو کر با خدا انسان بن گئے ۔یہ وہ گروہ قدسیاں تھا جو ایک عالم کے لیے خدا نمائی کا وسیلہ بن گیا۔یہ روحانی نعمتیں اور برکتیں آج خلافت سے وابستگی کی بدولت ہر احمدی کو نصیب ہیں۔ اور یہ دولتیں اور نعمتیں و برکتیںکبھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔ اور آج خلافت سے وابستگی کی بدولت ہم ان نعمتوں کے امین ہیں۔ ( الحمدللہ علیٰ ذالک)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button