حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 3)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

باب سوم

اخلاق پر مجموعی بحث:

پیشتر اس کے کہ میں آنحضرت ﷺ کے اخلاقِ پاکیزہ کا فرداً فرداً ذکر کروں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مضمون پر ایک مجموعی حیثیت سے بھی روشنی ڈالوں جس سے پڑھنے والے کو پہلے ہی سے تنبیہ ہو جا ئے کہ کس طرح آپؐ ہر پہلو سے کامل تھے اور اخلاق کی تمام شاخوں میںآپؐ دوسروں کی نسبت بہت آگے بڑھے ہو ئے تھے۔اس بات کے مفصل ثبوت کے لیے تو انسان کو احادیث کا مطالعہ کر نا چاہیے کیونکہ جب آ پؐ کا سلوک صحابہ ؓ سے اور ان کا عشق آپؐ سے دیکھا جا ئے تو بے اختیار منہ سے نکل جا تا ہے؎

مرحبا احمدؐ مکی مدنی العربی
دل وجاں بادفدایت چہ عجب خوش لقبی

لیکن اس جگہ میں مختصراً یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عرب ایک وحشی قوم تھی اور وہ کسی کی اطاعت کر نا حتی الوسع عار جا نتی تھی اور اسی لیے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا انہیں گوارہ نہ تھا بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کر تے تھے۔یہاں تک کہ قیصرو کسریٰ کی حکومتیں ان کے دونوں طرف پھیلی ہو ئی تھیں لیکن ان کی وحشت اور آزادی کی محبت کو دیکھ کر وہ بھی عرب کو فتح کرنے کا خیال نہ کر تی تھیں۔عمر وبن ہند جیسا زبردست بادشاہ جس نے اردگرد کے علاقوں پر بڑا رعب جمایا ہو ٔا تھا وہ بھی بدوی قبائل کو روپیہ وغیرہ سے بمشکل اپنے قابو میں لا سکا اور پھر بھی یہ حالت تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر وہ اسے صاف جواب دے دیتے تھے اور اس کے منہ پر کہہ دیتے تھے کہ ہم تیرے نوکر نہیں کہ تیری فرمانبرداری کریں چنانچہ لکھا ہے کہ عمر وبن ہند نے اپنے سرداروں سے پوچھا کہ کیا کو ئی شخص ایسا بھی ہے کہ جس کی ماں میری ماں کی خدمت کرنے سے عار کرے۔اس کے مصاحبوں نے جواب دیا کہ ایک شخص عمروبن کلثوم ہے اور عرب قبیلہ بنی تغلب کا سردار ہے۔اس کی ماں بے شک آپ کی ماں کی خدمت سے احتراز کرے گی اور اسے اپنے لیے عار سمجھے گی جس پر بادشاہ نے ایک خط لکھ کر عمروبن کلثوم کو بلوایا اور لکھا کہ اپنی والدہ کو بھی سا تھ لیتے آنا کیونکہ میری والدہ اسے دیکھنا چاہتی ہے۔عمروبن کلثوم اپنی والدہ اور چند اَور معزز خواتین کو لے کر اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کے خط کے بموجب حاضر ہو گیا بادشاہ کی والدہ نے حسب مشورہ اس کی والدہ سے کچھ کام لینا تھا۔دونوں زنان خانہ میں بیٹھی ہو ئی تھیں ۔والدہ شاہ نے کسی موقع پر سادگی کے سا تھ کہہ دیا کہ ذرا فلاں قاب مجھے اٹھا دو۔عمر و بن کلثوم کی والدہ لیلیٰ نے جواب دیا کہ جسے ضرورت ہو خود اٹھا لے۔اس پر والدہ شاہ نے مکرّر اصرارکیا لیکن لیلیٰ نے بجائے اس حکم کی تعمیل کے زور سے نعرہ مارا کہ وَااَذِ لَّاہُ یَا بَنِی تَغْلَبَ!!اے بنی تغلب! دو ڑو کہ تمہاری ذلت ہو گئی ہے۔اس آواز کا سننا تھا کہ اس کے بیٹے عمروبن کلثوم کی آنکھوں میں تو خون اترآیا۔بادشاہ کے پاس بیٹھا ہو ا تھا گھبرااٹھا۔ چونکہ اپنے پاس تو کو ئی ہتھیار نہ تھا ادھر ادھر دیکھا۔بادشاہ کی تلوار کھونٹی کے سا تھ لٹک رہی تھی اس کی طرف جھپٹا اور تلوار میان سے نکال کر ایک ہی وارسے بادشاہ کا سر اڑا دیا لیکن اس سے بھی جوش انتقام نہ اترا۔باہر نکل کر سپاہیوں کو حکم دیا کہ شاہی مال ومتاع لوٹ لو۔بادشاہ کی سپاہ تو غافل تھی اس کے سنبھلتے سنبھلتے لُوٹ لاٹ کر صفایا کر دیا اور اپنے وطن کی طرف چلا آیا۔چنانچہ اپنے ایک قصیدہ میںا س شاعر نے عمروبن ہند کو مخاطب کرکے اپنے آزاد ہو نے کا ذکر یوں کیا ہے:

اَبَا ھِنْدٍ فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْنَا
وَاَنْظِرْنَا نُخَبِّرْکَ الْیَقِیْنَا

اے ابا ہند تو ہمارے معاملہ میں جلدی نہ کر
اور ہمیں ڈھیل دے ہم تجھے یقینی بات بتا ئیں گے
بِاَنَّا نُوْرِدُ الرَّایَاتِ بِیْضًا
وَنُصْدِرُ ھُنَّ حُمْرًا قَدْ رَوِیْنَا
وہ یہ کہ ہم سفید جھنڈوں کے سا تھ جنگ میں جا تے ہیں
اور جب واپس آتے ہیں تو وہ جھنڈے خون سے سرخ و سیراب ہو تے ہیں
وَاَیَّامٍ لَنَا غُرٍّ طِوَالٍ
عَصَیْنَا الْمَلِکَ فِیْھَا اَنْ نَدِیْنَا
اور بہت سے ہمارے مشہور اور دراز معر کے ہیں
کہ ہم نے ان میں بادشاہ کی نافرما نی کی تا اس کے مطیع نہ ہو جا ئیں
وَرِثْنَا الْمَجْدَ قَدْ عَلِمَتْ مَعَدٌّ
نُطَا عِنُ دُوْنَہٗ حَتّٰی یَبِیْنَا
عرب جانتے ہیں کہ ہم بزرگی کے وارث ہیں
اپنے شرف کے لیے لڑتے ہیں تا کہ وہ ظاہر ہو جا ئے
اَلَاَ لاَ یَعْلَمُ الْاقْوَامُ اَنَّا
تَضَعْضَعْنَا وَاَنَّا قَدْ وَنَیْنَا
خبردار تو ہمیں یہ نہ سمجھ کہ ہم
کمزور اور سست و کاہل ہو گئے ہیں
اَلَا لَا یَجْھَلَنْ اَحَدٌ عَلَیْنَا
فَنَجْھَلَ فَوْقَ جَھْلِ الْجَاھِلِیْنَا
خبردار کو ئی ہم پر جہالت سے ظلم نہ کرے
ورنہ ہم ظالموں کے ظلم کا سخت بدلہ دیں گے
بِاَیِّ مَشِیْئَۃٍ عَمْرَو بْنَ ھِنْدٍ
نَکُوْنُ لِقَیْلِکُمْ فِیْنَا قَطِیْنَا
کس وجہ سے عمروبن ہند تو چاہتا ہے
کہ ہم تیرے گورنر کے فرمانبردار ہو جا ئیں
تُھَدِّدُنَا وَنُوْعِدُنَا رُوَیْدًا
مَتٰی کُنَّا لِاُمِّکَ مَقْتَوِیْنَا
تو ہمیں ڈراتا ہے اور دھمکاتا ہے جانے بھی دے
ہم تیری ماں کے خادِم کب ہو ئے تھے
فَاِنَّ قَنَاتَنَا یَا عُمْرُو اَعْیَتْ
عَلَی الْاَعَدَآءِ قَبْلَکَ اَنْ تَلِیْنَا
اے عمرو ہمارے نیزوں نے انکار کیا ہے
تجھ سے پہلے بھی کہ دشمنوں کے لیے نرم ہو جا ئیں

(‘‘سبعہ معلقّات’’قصیدہ پنجم از عمروبن کلثوم صفحہ37تا44 مطبع سعیدی کراچی نار محمد سعید اینڈ سنز)

ان اشعار کو دیکھو کس جوش کے سا تھ وہ بادشاہ کو ڈانٹتا ہے اور اپنی آزادی میں فرق آتا نہیں دیکھ سکتا۔جو حال بنی تغلب کا ان اشعار سے معلوم ہو تا ہے وہی حال قریباًقریباًسب عرب کا تھا اور خصوصاً قریش مکہ تو کسی کی ماتحتی کو ایک دم کے لیے بھی گوارہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ انہیں کعبہ کی ولا یت کی وجہ سے جو حکومت کل قبائل عرب پر تھی اس کی وجہ سے ان کے مزاج دوسرے عربوں کی نسبت زیا دہ آزاد تھے بلکہ وہ ایک حد تک خود حکومت کرنے کے عادی تھے اس لیے ان کا کسی شخص کی حکومت کا اقرارکر لینا تو بالکل امر محال تھا یہ وہ قوم تھی کہ جس میں رسول کریم ﷺ کا ظہور ہوااور پھر ایسے رنگ میں کہ آپ نے ان کی ایک نہیں دو نہیں تمام رسوم و عادات بلکہ تمام اعتقادات کا قلع قمع کر نا شروع کیا جس کے بدلہ میں ان کے دلوں میں آپؐ کی نسبت جو کچھ بغض و کینہ ہو گا وہ آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔
مگر آپ ؐ کے اخلاق کو دیکھو کہ ایسی آزاد قوم باوجود ہزاروں کینوں اور بغضوں کے جب آپؐ کے سا تھ ملی ہےاسے اپنے سر پیر کا ہوش نہیں رہا و ہ سب خود سری بھول گئی اور آپؐ کے عشق میں کچھ ایسی مست ہو ئی کہ آزادی کے خیال خواب ہو گئے۔اور یا تو کسی کی ماتحتی کو برداشت نہ کرتی تھی یا آپؐ کی غلامی کو فخر سمجھنے لگی۔اللہ اللہ ! بڑے بڑے خونخوار اور وحشی عرب مذہبی جوش سے بھرے ہو ئے قومی غیرت سے دیوانہ ہو کر آپؐ کے خون کے پیاسے ہو کر آپ ؐکے پا س آتے تھے اور ایسے رام ہو تے تھے کہ آپ ہی کا کلمہ پڑھنے لگ جاتے۔حضرت عمرؓ جیسا تیز مزاج گھر سے یہ تہیہ کرکے نکلا کہ آج اس مدعی نبوت کا خاتمہ ہی کرکے آؤں گا۔غصہ سے بھرا ہوا تلوار کھینچے ہو ئے آپؐ کے پاس آتا ہے لیکن آپ ؐ کی نرمی اورو قارو سکینت اور اللہ تعالیٰ پر ایمان دیکھ کر آپ کو قتل تو کیا کر نا تھا خود اپنے نفس کو قتل کرکے حلقہ بگوشوں میںداخل ہو گیا۔کیا کو ئی ایک نظیر بھی دنیا میں ایسی معلوم ہو تی ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ ایسی آزاد اور خونخوار قوم کو کسی نے ایسا مطیع کیا ہو اور وہ اپنی آزادی چھوڑ کر غلامی پر آمادہ ہو گئی ہو اور ہر قسم کی فرمانبراری کے نمونے اس نے دکھا ئے ہوں۔اگر کو ئی ایسی قوم پا ئی جا تی ہو تو اس کا نشان و پتہ ہمیں بتاؤ تا ہم بھی تو اس کے حالات سے واقف ہوں۔لیکن میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کو ئی مصلح ایسے وسیع اخلاق لے کر دنیا میں نہیں آیا جیسا کہ ہمارا آقا ﷺ اور اس لیے کسی مصلح کی جماعت نے ایسی فدائیت نہیں دکھائی جیسے ہمارے آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓ نے چنانچہ بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے واقعات میں مسورا بن مخرمہ کی روایت ہے کہ جب آپ حدیبیہ میں ٹھہرے ہو ئے تھے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تھوکتے تھے تو صحابہ ؓ اچک کر آپؐ کا تھوک اپنے منہ اور ہا تھوں پر مل لیتے تھےا ور جب وضو کر نے لگتے تو وضو کے بچے ہو ئے پا نی کے لینے کے لیے اس قدرلڑتے کہ گو یا ایک دوسرےکو قتل کر دیں گے۔اور جب آپؐ کو ئی حکم دیتے تھے تو ایک دوسرے کے آگے بڑھ کر اس کی تعمیل کرتے اور جب آپ بولنے لگتے تو سب اپنی آوازوں کو نیچا کر لیتے اور صحابہ ؓ کے اس اخلاص اور محبت کا ان ایلچیوں پر جوگفتگو کے لیے آئے تھے ایسا اثر پڑا کہ انہوں نے اپنی قوم کو واپس جا کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ ؐکی مخالفت سے باز آجا ئیں۔

اسی طرح بخاری میں لکھا ہےکہ جنگ احد پر جا نے کے متعلق جب آپؐ نے انصار ؓ سے سوال کیا تو سعد بن عبادہ ؓنے آپؐ کو جواب دیا یا رسول اللہﷺ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے سا تھیوں کی طرح کہہ دیں کہ فَاذھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدہ :25)یعنی تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں دشمنوں سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ خدا کی قسم! ہم تیرے آگے بھی اور پیچھے بھی اور دا ئیں بھی اور بائیں بھی تیرے دشمنوں سے مقابلہ کریں گے۔اے چشم بصیرت رکھنے والو!اے فہم دل رکھنے والو خدا ر اذرا اس جواب کا اس جواب سے مقابلہ تو کرو جو حضرت موسیٰ کو ان کی امت نے دیا اور اس عمل سے بھی مقابلہ کرو جو حواریوں سے حضرت مسیح ؑکے گرفتار ہو نے کے وقت سرزد ہوا۔اور پھر بتاؤ کہ کیااس قربانی اس فدائیت سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ہمارا رسول ﷺ ایسے اخلاق رکھتا تھا کہ جن کی نظیر دنیاوی بادشاہوں میں تو خیر تلاش کر نی ہی فضول ہے دینی بادشاہوں یعنی نبیوں میں بھی نہیں مل سکتی۔اور اگر کو ئی نبی ایسے اخلاق رکھتا تو ضرور اس کی امت بھی اس پر اس طرح فدا ہو تی جس طرح آپؐ پر۔

مگر اس اخلاق کے مقابلہ کے سا تھ عربوں کی آزادی کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔اس موقع پر میں ایک اور نظیر دینی بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جس سے مردوں کے علاوہ عورتوں کے اخلاص کا نمونہ بھی ظاہر ہو جا ئے۔حضرت عائشؓہ فرما تی ہیں کہ جَا ءَتْ ھِنْدُ بِنْتُ عُتْبَۃَ فَقَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ مَاکَانَ عَلیٰ ظَھْرِ الْاَرْضِ مِنْ اَھْلِ خِبَآءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ اَنْ یَذِلَّوْ مِنْ اَھْلِ خِبَآئِکَ ثُمَّ مَا اَصْبَحَ الْیَوْمَ عَلیٰ ظَھْرِ الْاَرْضِ اَھْلُ خِبَآءٍ اَحَبَّ إلَیَّ اَنْ یَّعِزُّ وْااَھْلِ خِبَآئِکَ (بخاری کتاب المناقب باب ذکر ہند بنت عتبہ)یعنی ہند بنت عتبہ آئی اور اس نے حضرت رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ رو ئے زمین پر کو ئی خیمہ والا نہ تھا جس کی نسبت میں آپ سے زیا دہ ذلت کی خواہشمند ہوں اور اب رو ئے زمین پر کو ئی گھر والا نہیں جس کی نسبت میں آپ کے گھر والوں سے زیادہ عزت کی خواہشمند ہوں۔اس عورت کی طرف دیکھو یا تو وہ بغض تھا یا ایسی فریفتہ ہوگئی اور اس کی وجہ سوائے ان اخلاق کریمہ اور اس نیکی اور تقویٰ کے کیا تھی جو آپ میں پا ئے جا تے تھے۔اللہ تعالیٰ بھی اس کی یہی وجہ بیان فر ما تا ہے۔چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہے فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَا الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ(آل عمران :160)غرض کہ ان اخلاق حسنہ کا ایسا نیک اثر پڑا کہ ایک ایک کرکے تمام عرب قبیلے آپ کی خدمت میں آحاضر ہو ئے۔بھلا اس واقعہ کا عمروبن ہند کے واقعہ سے مقابلہ تو کرکے دیکھو‘‘ببیں تفاوت راہ ازکجا است تا بکجا’’۔

………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button