الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال اور بعض نشانات کا ظہور

ماہنامہ ‘‘انصاراللہ’’ ربوہ مارچ 2012ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے وصال کے حوالہ سے بعض نشانات کے ظہور کو پیش کیا گیا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اکتوبر 1905ء میں ایک رؤیا میں دیکھا کہ ‘‘ایک کوری ٹنڈ میں کچھ پانی مجھے دیا گیا ہے۔ پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفّٰی اور مقّطرپانی ہے۔ اس کے ساتھ الہام تھا: آبِ زندگی‘‘۔ پھر اسی طرح کے کئی الہام یکے بعد دیگر ہوئے مثلاً ‘‘قَلَّ مِیْعَادُ رَبِّکَ’’ (تیرے ربّ کی مقرر کردہ میعاد تھوڑی رہ گئی ہے)۔ اور ‘‘خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھاگئی‘‘۔ چنانچہ دسمبر 1905ء میں رسالہ الوصیت میں اپنی وفات کے قریب ہونے سے متعلق وحیٔ الٰہی کو حضورؑ نے تفصیل سے بیان فرمادیا اور جماعت کو قدرت ثانیہ کی آمد اور روشن مستقبل کی خوشخبری بھی دے دی۔ فرمایا: ‘‘یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی۔ اور ایک بڑا درخت ہوجائے گا۔’’
1907ء کا ایک الہام تھا: ‘‘ستائیس کو ایک واقعہ (ہمارے متعلق) وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی’’۔ اسی طرح کئی دیگر الہامات بھی ہوئے۔ لیکن اس کے باوجود آپؑ کا خداداد رعب اتنا تھا کہ جب آپؑ نے ایک شدید مخالف مولوی ثناء اللہ امرتسری کو مباہلہ کے لئے بلایا تو اُس پر ایسا خوف طاری ہوا کہ اُس نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔
اپنے وصال سے قریباً ایک ماہ قبل حضرت مسیح موعودؑ لاہور تشریف لے گئے تاکہ حضرت امّاں جانؓ (جن کی طبیعت اُن دنوں علیل تھی) کے لئے کسی لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے۔ حضورؑ کی آمد کے بعد لاہور میں آپؑ کی قیامگاہ مرجع خلائق بن گئی اور اوباش مخالفین نے رہائشگاہ کے سامنے اڈّا جمالیا اور گندے اور اشتعال انگیز لیکچر دینے لگ گئے۔ حضورؑ نے احمدیوں کو صبر کی نصیحت فرمائی۔

9؍مئی 1908ء کو حضورؑ کو الہام ہوا: ‘‘اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ’’۔ (یعنی کُوچ کا وقت آگیا ہے۔ ہاں کُوچ کا وقت آگیا ہے)۔ یہ الہام 26مئی کے ’بدر‘ میں شائع ہوا یعنی اُسی دن جس دن حضور علیہ السلام کا وصال ہوا۔ اور اُسی روز حضورؑ کا یہ الہام بھی شائع ہوا: ‘‘ڈرو مت مومنو’’۔

لاہور میں 12؍مئی 1908ء کو انگلستان کے سائنسدان پروفیسر ریگ صاحب نے حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر چند سوالات پیش کئے۔ جواب پانے کے بعد انہوں نے ایک اور ملاقات کے لئے وقت دینے کی درخواست کی تو حضورؑ نے فرمایا: ‘‘ان دنوں ہماری طبیعت بیمار ہے۔ ہم زیادہ محنت نہیں برداشت کرسکتے۔ البتہ صحت کی حالت ہو تو ممکن ہے۔’’

اُنہی دنوں لاہور کے شہزادہ سلطان ابراہیم صاحب (جن کا تعلق کابل کے شاہی خاندان سے تھا) حضورؑ سے ملاقات کے لئے آئے تو حضورؑ نے ان کو مخاطب کرکے فارسی میں تقریر فرمائی جس میں یہ بھی فرمایا: ‘‘اب ہم اپنا کام ختم کرچکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔ البتہ اب تو ہماری طرف سے دعائیں باقی ہیں۔’’

شہزادہ سلطان ابراہیم صاحب حضورؑ کی ملاقات سے اتنے متأثر ہوئے کہ انہوں نے احمدی احباب کو حضورؑ کی ایک تقریر کا اہتمام کرنے کی تحریک کی جس میں لاہور کی نمایاں شخصیات کو مدعو کیا جائے۔ چنانچہ 17؍مئی کو اس تقریر کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن ایک روز قبل اسہال کی وجہ سے حضورؑ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور بہت زیادہ کمزوری ہوگئی چنانچہ حضورؑ کے ارشاد پر حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ نے تقریر شروع کردی۔ اسی دوران حضورؑ کی طبیعت بہتر ہونی شروع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے الہام کی روشنی میں آپؑ مقامِ اجتماع میں خطاب کے لئے تشریف لے گئے اور قریباً دو گھنٹے وہاں روح پرور خطاب فرمایا۔
17؍مئی کو حضورؑ کو الہام ہوا: ‘‘مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار’’ (ناپائیدار عمر پر بھروسہ مت کر)۔ پھر 20؍مئی کو الہام ہوا: ‘‘اَلرَّحِیْلُ ثُمَّ الرَّحِیْلُ وَالْمَوتُ قَرِیْبٌ’’ (اب کُوچ کا وقت آگیا۔ ہاں کُوچ کا وقت قریب آگیا اور موت قریب ہے۔)

17؍مئی کی تقریر (جو ایک مخصوص طبقہ میں کی گئی ) کے بعد یہ تجویز کیا گیا کہ حضورؑ کا ایک خطاب عام پبلک میں بھی ہو۔ اس پبلک لیکچر کے لئے حضورؑ نے ‘‘پیغامِ صلح’’ کا موضوع پسند فرمایا اور اس لیکچر کو لکھنا شروع کیا۔ 25؍مئی کی شام کو یہ مضمون مکمل کرکے آپؑ نے کاتب کے سپرد کردیا۔ اس کا مرکزی نکتہ آنحضرت ﷺ کا عشق تھا۔ اس میں حضورؑ نے فرمایا: ‘‘مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں لیکن اُن لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر، جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔’’

مضمون مکمل کرنے کے بعد حضورؑ سیر پر تشریف لے گئے اور رات کے کھانے کے وقت آپؑ کی آخری علالت کا آغاز ہوا اور ایک اسہال آیا۔ اس کے بعد حضورؑ کو دبایا گیا اور آپؑ سوگئے۔ کچھ دیر بعد دوبارہ حاجت محسوس ہوئی۔ پھر آپؑ کی طبیعت بہت کمزور ہوگئی۔ اس پر حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کو بلالیا گیا۔ ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بھی بلایا گیا۔ حضورؑ نے بیماری بیان فرمائی اور ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب سے فرمایا کہ ‘‘حقیقت میں تو دوا آسمان پر ہے۔ آپ دوا بھی کریں اور دعا بھی کریں۔’’

اس وقت حضورؑ کے گلے میں خشکی محسوس ہوتی تھی جس کی وجہ سے بولنے میں دقّت محسوس ہو رہی تھی۔ اور وقت کے ساتھ کمزوری لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جاتی تھی۔ اس وقت آپؑ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہو رہے تھے: ‘‘اللہ میرے پیارے اللہ۔’’

علاج کے لئے انگریز ماہر ڈاکٹروں کو بھی بلایا گیا۔ لاہور کے میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سدرلینڈ کو بھی بلایا گیا اور مشورہ سے حضورؑ کو ایک سے زائد مرتبہ انجکشن دیے گئے اور (نمک ملے پانی) Saline کا ٹیکہ لگایا گیا۔
صبح نماز کے وقت حضورؑ نے دریافت فرمایا کہ کیا نماز کا وقتہوگیا ہے؟ عرض کیا گیا کہ حضور! ہوگیا ہے۔ اس پر حضورؑ نے تیمّم کرکے لیٹے لیٹے نماز شروع کی لیکن نماز کے دوران ہی غشی ہوگئی۔ لیکن ہوش آتی تو آپ کی زبان مبارک سے ‘‘اللہ میرے پیارے اللہ’’ کے الفاظ سنائی دیتے۔ پھر آپؑ کو غرغرہ شروع ہوگیا اور قریباً ساڑھے دس بجے آپؑ محبوب حقیقی سے جاملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلیْہِ رَاجِعُوْن۔

جب حضورؑ کے آخری لمحات قریب آئے تو شدّتِ محبت کی وجہ سے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے یہ منظر برداشت نہ ہوا اور وہ دوسرے کمرہ میں جاکر دعاؤں میں مشغول ہوگئے۔ جب حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانیؓ نے انہیں سانحہ ارتحال کی اطلاع دی تو فرمایا کہ مَیں تو رات ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکا تھا کیونکہ اس مرتبہ جتنا سخت حملہ حضورؑ کو اس مرض کا ہوا اس سے قبل مَیں نے اتنا سخت حملہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ پھر آپؓ نے آکر حضور علیہ السلام کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور احباب کو صبر کی تلقین کی۔
یہ خبر پھیلی تو جہاں بہت سے غیرازجماعت معززین نے لاہور میں حضورؑ کی رہائشگاہ پر آکر تعزیت کی وہاں اوباش مخالفین نے اپنے سفلہ پن کا مظاہرہ کیا اور گالیاں دیتے ہوئے ایک جعلی جنازہ نکال کر خوشی کا اظہار کیا۔ حتّٰی کہ اُس مکان پر حملہ کرکے داخل ہونے کی کوشش بھی کی جہاں حضورؑ کا جنازہ رکھا تھا۔ نیز جنازہ کو قادیان جانے سے روکنے کے لئے حکومت کو شکایت کی گئی کہ حضورؑ کا وصال ہیضہ سے ہوا ہے۔ (اُس وقت ہیضہ سے فوت ہونے والوں کے جنازے دوسرے شہر لے جانے پر پابندی ہوا کرتی تھی)۔ لیکن چونکہ حضورؑ کے علاج میں انگریز ڈاکٹر بھی شامل تھے چنانچہ اُن کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بعد یہ کوششیں دَم توڑ گئیں۔ تاہم جب حضورؑ کا جنازہ لاہور ریلوے سٹیشن کی حدود میں داخل ہورہا تھا تو اُس وقت ڈیوٹی پر متعیّن ایک ہندو نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ایک اَور افسر نے اُس شقی القلب کو ڈانٹا۔
اُس وقت بعض اخبارات (بشمول ‘‘کرزن گزٹ’’) نے دھوکہ دہی کی خاطر لکھا کہ ‘‘جو شخص تمام دنیا کی ہلاکت کی پیشین گوئیاں کرتا رہتا تھا اسے اپنی موت کی خبر نہ ہوئی …‘‘۔ لیکن اشد مخالفین (مثلاً مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی) نے اقرار کیا کہ ‘‘اس شہتیر کے ٹوٹ جانے کی قادیانی اپنے انجام کو سوچ کر خود پیشگوئی کرچکا تھا جو اُمّت محمدیہ پر رحم فرماکر خداتعالیٰ نے پوری کردی’’۔

اسی طرح بعض معاندین آج بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضورؑ کی وفات ہیضہ کے سبب ہوئی۔ نہ جانے وہ اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کسی حدیث میں یہ ذکر تو نہیں پایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے کسی مامور یا ولی کو ہیضہ نہیں ہوسکتا مگر یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ ‘‘مبطون یعنی پیٹ کی بیماری سے فوت ہونے والا شہید ہوتا ہے’’۔(بخاری)

دست کی تکلیف یا پانی کی شدید کمی کی پیچیدگی جو موت پر بھی منتج ہوسکے صرف ہیضہ میں نہیں ہوتی بلکہ بہت سے جراثیم کی وجہ سے یہ علامات ظاہر ہوسکتی ہیں بلکہ ایسی بہت سی بیماریوں میں بھی یہ مسائل ہوسکتے ہیں جن کا کسی جراثیم کے حملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ ہر مرض کی تشخیص میں اس مرض کا Pattern بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہیضہ کا مرض بہت زیادہ دستوں اور قَے سے شروع ہوتا ہے اور چند گھنٹوں میں بھی موت کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر مرض کی شدّت زیادہ نہ ہو یا پانی کی کمی دُور کردی جائے تو مریض بچ جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں ایک ماہ کے قیام کے دوران حضرت اقدسؑ کو یہ تکلیف دو تین دفعہ ہوئی تھی۔ لاہور کے بعض معززین بھی گواہ تھے کہ اسہال کی شدید تکلیف کے نتیجہ میں طبیعت علیل ہونے کی وجہ سے حضورؑ تقریر کے لئے بروقت تشریف نہ لاسکے تھے۔ پھر یہ تکلیف 25مئی کو ہوئی۔ یہ دونوں وقت ایسے تھے جب حضورؑ پر شدید مصروفیت کا دباؤ تھا۔ دونوں مرتبہ آپؑ لیکچرز کی تیاری میں مصروف تھے۔ بدر اور الحکم کے شماروں میں یہ ذکر موجود تھا کہ حضورؑکو اسہال کی پرانی تکلیف تھی جو زائد کام کے دباؤ کے دنوں میں بڑھ جاتی تھی۔ علمِ طب سے آگاہی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہیضہ میں بیماری کی یہ طرز بالکل نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ہیضہ کے مریض کی پانی اور نمکیات کی کمی دُور کردی جائے تو اُس کی طبیعت سنبھل جاتی ہے لیکن جب حضورؑ کو Saline کا ٹیکہ لگایا گیا تو آپؑ کی طبیعت سنبھلنے کی بجائے تیزی سے بگڑتی گئی۔

حضورؑ کے وصال کے بارہ میں کسی ایک روایت کا یہ جملہ مخالفین پیش کرتے ہیں کہ جب بیماری شروع ہوئی تو ہیضہ کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر مریضوں کا جب علاج شروع کیا جاتا ہے تو ہمیشہ ایک سے زائد امراض تشخیص کی فہرست میں رکھے جاتے ہیں۔ اسے میڈیسن کی اصطلاح میں Provisional Diagnosis کہا جاتا ہے۔ بعدازاں ٹسٹوں کے نتائج، علاج کا ردّعمل، مریض کی ہسٹری وغیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک تشخیص قائم رہتی ہے اور باقی امکانات کو ردّ کردیا جاتا ہے۔

بعض مخالفین نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ حضورؑ کی وفات کو پوشیدہ رکھا گیا۔ ‘‘کرزن گزٹ’’ نے تو یہ بھی لکھا کہ 26؍مئی کو مرزا صاحب انتقال کرچکے تھے مگر کچھ عرصہ تک کسی خاص مصلحت سے اُن کا مرنا مشہور نہیں کیا۔ جس وقت ڈاکیامنی آرڈر لے کر آیا تو اُن کے کسی مرید نے دستخط کرکے رقم وصول کی۔ ڈاکخانہ میں جب دستخط ملائے گئے تو تفتیش ہوئی اور مرزا صاحب کے انتقال کا راز کھلا۔

مذکورہ خبر کا جھوٹ اسی بات سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کی خبر 27مئی کے پیسہ اخبار میں شائع ہوگئی تھی۔ اور حضورؑ کی وفات کے فوراً بعد اوباش مخالفین جن میں اسلامیہ کالج کے کچھ پروفیسر بھی شامل تھے حضورؑ کی رہائشگاہ کے سامنے جمع ہوکر سوانگ نکالنے اور تمسخر کرنے میں شامل رہے۔ پس اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کا وصال اپنی ذات میں ایک نشان تھا کیونکہ آپؑ نے بمطابق الہام اس کے بارہ میں بار بار پیشگوئی فرمائی تھی۔

٭…٭…٭

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا نومبر 2012ء میں مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کا اسلام احمدیت کی صداقت کے حوالہ سے کلام شائع ہوا ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

خوابِ غفلت سے نکل اب اے زمانے ہوش کر
کیوں بھٹکتا پِھر رہا ہے چھوڑ کر مولیٰ کا دَر
جس کی سچائی کے ٹھہرے تھے گواہ شمس و قمر
اس مسیحِ وقت نے دی تھی خدائی یہ خبر
‘‘زلزلہ سے دیکھتا ہوں مَیں زمین زیر و زبر’’

خالقِ ارض و سما کا سامنا اچھا نہیں
ہم ایماں والوں کو یوں دھتکارنا اچھا نہیں
انبیاء کو جان کر انکار کرنا اچھا نہیں
دھول محبوبِ خدا پر ڈالنا اچھا نہیں
‘‘جو خدا کا ہو اُسے للکارنا اچھا نہیں’’

عصرِ حاضر کا وہی جو مامن اسلام ہے
ہاتھ میں اب اس کے لوگو زندگی کا جام ہے
ہے مسیحا وہ غلام احمدؑ کہ جس کا نام ہے
جس کی تزئین و آرائش آج اس کا کام ہے
‘‘اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے’’

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button