متفرق مضامین

احمدیت کے علمبردار دو گروہوں کے صدی کے سفر کا تقابلی جائزہ

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

مسئلہ تکفیر

فرزند ارجمندحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مولوی محمد علی صاحب اور آپ کے رفقا ءکی جانب سے جو الزام بڑی شدت سے لگایا اور دہرایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے۔ اور گذشتہ ایک سوسال میں ان کی طرف سے شائع شدہ لٹریچر میں‘‘احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کے عقائد’’بڑے طمطراق سے پیش کیے جاتے ہیں اور یہ لکھا جاتا ہے کہ ‘‘کوئی کلمہ گو کافر نہیں’’۔اخبار پیغام صلح کا ایک اداریہ ملاحظہ ہو:‘‘پھر ایسا وقت بھی آیا کہ‘‘صدر انجمن احمدیہ قادیان’’ میں بانی تحریک احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؒ کے عقائد کے بر عکس افراط و تفریط پر مبنی تکفیری نظریات کو منظم انداز میں فروغ دیا جانا شروع کیا گیا ۔ وہ تحریک جو اصلاح کے لیے کھڑی ہوئی تھی ، جب امت کے لیے فتنہ بنتی دکھائی دی تو مجاہد و مجدد احمد یت مولانا محمد علی ؒنے اصلاح کی کوشش کی مگر ناکامی پر ان تکفیری عقائد سے بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے انتہائی نامساعد حالات میں 1914ء میں احمدیہ انجمن لاہور کی بنیاد رکھی اور احمدیہ تحریک کی اصل روح ،اعلائے کلمۃ اللہ اور اصل عقائد کو بچالیا’’۔

(پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2014ء صفحہ 2۔جلد 101، شمارہ 23،24)

موجودہ امیر بیان کرتے ہیں:‘‘سب سے اہم بات جو ہم نے دنیا پر ظاہر کرنی ہے اور اسے میں سب کا فرض سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ احمدیہ انجمن لاہور کا قیام اس لیے ضروری ہوا کہ مولانا محمد علی رحمۃاللہ علیہ اور ان کے رفقا ء اسلام اور امام زماں کے اصلی عقیدے کے علاوہ کسی اَور دین یا خیالات کے ساتھ سمجھوتہ ہرگز نہیں کرسکتے تھے اور نہ یہ اس بات کو قبول کرسکتے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اَور نبی آسکتا ہے، اور نہ کوئی کلمہ گو حضرت صاحب کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تصور کیا جاسکتا ہے’’۔

(پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2013ء صفحہ 3۔ جلد100،شمارہ 23، 24)

‘‘ ہم ہی ایک وہ واحد جماعت ہیں جو تمام کلمہ گوئوں کو مسلمان سمجھتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کسی پرانے نہ نئے نبی آنے کے انتظار میں ہے۔ اور اس طرح یہ جماعت ہی ہے جو خاتم النبیین کے عقیدے پر قائم ہے۔ہم ہی ہیں جو خاتم النبیین کی کسی تشریح میں نہیں الجھتے اور اسی تشریح پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی ۔ آپ نے فرمایا انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیںکہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ، بلکہ بار بار اور اپنی زندگی کے آخری گھنٹوں تک مسلسل اس کا انکار کیا ۔ حضرت مولوی محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ قادیان چھوڑنا اور لاہور میںآجانا، آپ کے اس انکار نبوت پرمکمل یقین کی وجہ سے ہی تھا۔ اور اسی مقصد کے لیے تھا کہ حضرت مرزا غلام احمدصاحب کی اصل تعلیم کو زندہ رکھا جائے’’ ۔

(پیغام صلح یکم تا 31مئی 2014ء، صفحہ 2۔ جلد 101، شمارہ 9،10)

اس زمانے کا نذیر اس مسئلے پر کیا لکھتا ہے ،وہ ہدیہ قارئین ہے :‘‘در اصل یہ بیچارے ہمیشہ اسی تلاش میں رہتے ہیںکہ کوئی سبب ایسا پیدا ہو جاوے کہ جس سے میری ذلّت اور اہانت ہو۔ مگر اپنی بدقسمتی سے آخر نامُراد ہی رہتے ہیں۔ پہلے ان لوگوں نے میرے پر کفر کا فتویٰ تیار کیااور قریباًدو سو مولوی نے اس پر مہریں لگائیں اور ہمیںکا فر ٹھہرایا گیا۔ اور ان فتووں میں یہاںتک تشدّد کیا گیا کہ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میں یہود اور نصاریٰ سے بھی بد ترہیں اور عام طور پر یہ بھی فتوے دیے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کرنا چاہیےاور ان لوگوں کے ساتھ سلام اور مصافحہ نہیں کرنا چاہیےاور ان کے پیچھے نماز درست نہیںکافر جو ہوئے ۔بلکہ چاہیے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویںکیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں۔اور اگر داخل ہو جائیںتو مسجد کو دھو ڈالنا چاہیے۔ اور ان کا مال چرانا درست ہےاور یہ لوگ واجب القتل ہیں کیونکہ مہدی خُونی کے آنے سے انکاری اور جہاد سے منکر ہیں۔ مگر باوجود ان فتووں کے ہمارا کیا بگاڑا۔ جن دنوں میں یہ فتویٰ ملک میں شائع کیا گیا اُن دنوں میں دس آدمی بھی میری بیعت میں نہ تھے مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور حق کے طالب بڑے زور سے اس جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔کیا مومنوں کے مقابل پر کافروں کی مدد خدا ایسی ہی کیاکرتا ہے۔ پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمّہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا۔ حالانکہ ہماری طرف سے کوئی سبقت نہیں ہوئی۔ خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیںاور نادان لوگ ان فتووں سے ایسے ہم سے متنفّر ہوگئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہوگیا۔ کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا۔اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوئ کفر سے پہلے شائع ہواہےجس میں ہم نے مخالف مسلما نوں کو کا فر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہراویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویںکہ گویا ہم نے تمام مسلما نوں کو کافر ٹھہرایا ہے۔ اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دل آزار ہے ۔ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتووں کے ذریعہ سے کافر ٹھہرا چکے، اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہوگئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہےتو کفر اُلٹ کر اُسی پر پڑتا ہےتو اِس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب اُنھیں کے اقرار کے ہم ان کوکا فر کہتے۔ غرض ان لوگوں نے چند روز تک اس جھوٹی خوشی سے اپنا دل خوش کر لیا کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ اور پھر جب وہ خوشی باسی ہو گئی اور خدا نے ہماری جماعت کو تمام ملک میں پھیلا دیا ۔تو پھر کسی اَور منصوبہ کی تلاش میں لگے’’۔

(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد نمبر 22صفحہ نمبر 122تا124)

پھرمنکرین اور مخالفین کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ببانگ دہل فرماتے ہیں:‘‘میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لیے آسمان سے نشان ظاہر کیے ہیں ۔پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حُجّت ہو چکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چکا ہے وہ قابل مؤاخذہ ہوگا۔ کیونکہ خدا کے فرستادوں سے دانستہ منہ پھیرناایسا امر نہیں ہے کہ اُس پرکوئی گرفت نہ ہو ۔اس گناہ کا داد خواہ میں نہیں ہوں بلکہ ایک ہی ہے جس کی تائید کے لیے میں بھیجا گیا یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ۔جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ میرا نہیں بلکہ اس کا نافرمان ہے جس نے میرے آنے کی پیشگوئی کی۔

ایسا ہی عقیدہ میرا آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے کے بارہ میں بھی یہی ہے کہ جس شخص کو آنحضرت ﷺ کی دعوت پہنچ چکی ہے اور وہ آپؐ کی بعثت سے مطلع ہو چکا ہے ۔خدا تعالیٰ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی رسالت کے بارہ میں اس پر اتمام حجت ہو چکا ہے وہ اگر کفر پر مر گیا تو ہمیشہ کی جہنم کا سزاوار ہوگا’’۔

( حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد نمبر 22صفحہ نمبر 184،185 )

پھر فرماتے ہیں:‘‘ میراانکار میرا انکار نہیںہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے …… میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ الحمد سے والنّاستک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا ۔ پھر سوچوکہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے۔ یہ میں از خود نہیں کہتا ۔خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اُس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور خدا کو چھوڑ دیا’’۔

( ملفوظات جلد چہارم،صفحہ 14،15۔ایڈیشن1984ء لندن)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس نزاعی مسئلہ پر واضح لفظوں میں روشنی ڈالی،فرماتے ہیں:‘‘ہر نبی کے زمانے میں لوگوں کے کفر اور ایمان کے اصول کلام الٰہی میں موجود ہیں ۔جب کوئی نبی آیا اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق کیا دقت رہ جاتی ہے ۔ ایچا پیچی کرنی اور بات ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ نے کفر ،ایمان ،شر کو کھول کر بیان کر دیا ہے۔ پہلے نبی آتے رہے ، ان کے وقت دو ہی قومیں تھیں ماننے والے اور نہ ماننے والے ۔ کیا ان کے متعلق کوئی شبہ نہیں پیدا ہوا؟اور کوئی سوال اٹھا کہ نہ ماننے والوں کو کیا کہیں ، جو اب تم کہتے ہو کہ مرزاصاحب کو نہ ماننے والوں کو کیا کہیں……غرض کفر وایمان کے اصول تم کو بتا دیے گئے ہیں ۔ حضرت صاحب خدا کے مرسَل ہیں اگر وہ نبی کا لفظ اپنی نسبت نہ بولتے تو بخاری کی حدیث کو نعوذباللہ غلط قرار دیتے، جس میں آنے والے کانام ‘نبی اللہ ’ رکھا ہے۔پس وہ نبی کا لفظ بولنے پر مجبور ہیں ۔ اب ان کو ماننے اور انکار کا مسئلہ صاف ہے۔ عربی بولی میں کفر انکار کو ہی کہتے ہیں ۔ ایک شخص اسلام کو مانتا ہے اس حصہ میں اس کو اپنا قریبی سمجھ لو ،جس طرح پر یہود کے مقابلہ میں عیسائیو ں کو قریبی سمجھتے ہو۔ اسی طرح پر مرزا صاحب کا انکار کرکے ہمارے قریبی ہوسکتے ہیں۔ اور پھر مرزا صاحب کے بعد میرا انکار ایسا ہی ہے جیسے رافضی صحابہ کا کرتے ہیں۔ ایسا صاف مسئلہ ہے مگر نکمّے لوگ اس میں بھی جھگڑتے رہے ہیں۔ اَور کوئی کام نہیں ایسی باتوں میں لگے رہتے ہیں’’۔

( تاریخ احمدیت جلد 3،صفحہ 402۔ ایڈیشن 2007ء قادیان)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:‘‘جب آپ ہمیں کافر کہتے ہیں اور سارے مسلمان کافر کہہ رہے ہیں تو آپ ہمیں حضرت محمد ﷺ کا کافر کہہ رہے ہیں ، جو واقعہ کے خلاف ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ پر دل و جان سے ایمان لاتے ہیں ، آپؐ کےدین کے عاشق، آپؐ کے ادنیٰ غلام، قرآن کریم کے تابع ، سنت کے تابع ، دعویٰ ہمارا یہ ہے ،آپ کہتے ہیں۔ نہیں جھوٹ بولتے ہو۔تم آنحضرت ﷺ کے کافر ہو۔ اس لیے ہمارے دعویٰ کے خلاف آپ بات کر رہے ہیں، یہ انصاف نہیں ہے۔ ہم جن معنوں میں آپ کو کا فر کہتے ہیں، آپ کے دعویٰ کے مطابق کہتے ہیں ۔ اس لیے آپ کو شکوہ کس بات کا ہے ۔ ہم کہتے ہیں آپ امام مہدی کے کافر ہیں۔ اب آپ بتائیے کہ ہمارے لیے اَور معقول راستہ کون ساہے ۔ جس کو ہم نے امام مہدی مانا یا تو ہم جھوٹ بول رہے یا سچ بول رہے ہیں۔ تیسری تو شکل ہی کوئی نہیں ۔ ہم نے سچاسمجھ کے مانا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں ،ورنہ اتنی مصیبتیں کیوں اٹھاتے اس راستے میں ۔ پاکستان میں جو ہم سے ہو رہا ہے وہ کوئی جھوٹی قوم تو برداشت نہیں کر سکتی، ہم نے یقیناً سچا سمجھ کے مانا ہے ، تو جو امام مہدی کو سمجھتا ہے کہ امام مہدی آگیا اور سچاہے ، اس کے منکر کو وہ امام مہدی کا منکر نہ کہے تو کیا کہے گا۔ کیا اس کے سوا کوئی تیسری صورت ہے ہمارے لیے ؟ ……… جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہے یا کلمہ پڑھ لے اس کو غیر مسلم کہنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ نہ جماعت احمدیہ کو ہے نہ کسی اَور جماعت کو ہے۔ اس لیے ہم آپ کے اقرار کے خلاف کبھی کوئی فتویٰ نہ دیتے ہیں ، نہ آج تک کبھی دیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں آپ مسلمان ہیں ، لیکن مسلمان رہتے ہوئے امام مہدی کا آپ نے انکار کیا ، جسکو ہم امام مہدی سمجھتے ہیں ۔ اس لیے امام مہدی کے منکر پر وہی فتویٰ ہے جو آپ کے علماء کا فتویٰ ہے، متفقہ فتویٰ ہے۔ امام مہدی کی ضرورت کیا ہے ؟ سوال یہ کہ اگرا مام مہدی آئے گا تو آپ کو غور کرنا چاہیے کہ آئے گاکس کام کے لیے، ایک طرف خدا اُس کو مقرر کرے ، چودہ سو سال انتظار کو ہو گئے ہیں، آپ کے نزدیک ابھی نہیں آیا، کل آجائے فرض کریں تو دوسری طرف انکار کی اجازت دے دے ، عقل کے خلاف بات ہے ،یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ عظیم الشان دینی تحریک کی خاطر خدا تعالیٰ کسی کوامام بنائے اور ماننے والوں سے کہہ دے کہ تم اس کا بے شک انکار کرو ،فرق ہی کوئی نہیں پڑتا ،اس لیے ہماری پوزیشن ایک مجبوری کی پوزیشن ہے یا ہم جھوٹے ہیں،کہ ہم ان کو سچا امام مہدی سمجھ رہے ہیں ۔ جب ہم سچا سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس چارہ ہی کوئی نہیں کہ جس کو ہم امام مہدی کہتے ہیں، جو اس کا منکر ہے ہم اسے امام مہدی کا کافر کہیں گے ۔ لیکن غیر مسلم نہیں کہیں گے ۔ آپ ہمیں غیر مسلم کہتے ہیں، یہ زیادتی ہے اس کی قرآن اجاز ت نہیں دیتا’’۔

( الفضل انٹر نیشنل لندن22جنوری 2004ء صفحہ 13۔ جلد 11،شمارہ 3)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اور آپ کے خلفائے برحق اس مسئلے کو بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ مخالفین کو آئینہ دکھا کر بیان کر چکے ہیں، مگر اہل پیغام کی باسی کڑہی میں ابھی تک ابال اُٹھ رہا ہے ۔ اور باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی نام لیوا عملًا دنیا کے کناروں تک پھیل چکے ہیں ،یہ آج بھی مخالفین کے جذبات کو یہ کہہ کر انگیخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قادیانی کلمہ گو کو کافر قرار دیتے ہیں ،مگر ہم آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

٭لاہورمیں پاک ممبر

اہل پیغام امام عالی مقام کے جس الہام کو بہت کثرت کے ساتھ اپنے حق میں پیش کرتے ہیں ، اور ان کی کتب اور لٹریچر کے سرورق اس سے بھرے پڑے ہیں وہ مورخہ 13دسمبر 1900ء کا الہام ہے:‘‘ لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے۔نظیف مٹی کے ہیں’’۔ ( تذکرہ،صفحہ 328۔ایڈیشن ششم 2006ء قادیان)

لیکن حقائق اور شواہد ان کو اس پاک زمرے میں شامل نہیں کرتے ، کیونکہ وہ اُس وقت لاہور میں موجود نہ تھے اور نہ انہیں اطلاع دی گئی۔ اس ضمن میں مورخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کا ایک تحقیقی مضمون روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع شدہ ہے ۔اس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مورخہ 28اگست 1900ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا ، اور اپنے قلم مبارک سے لکھا: ‘‘لاہور میں میرے ساتھ تعلق رکھنے والے پندرہ بیس آدمی سے زیادہ نہیںہیں’’۔ حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات میں درج ذیل مخلصین کے نام ملتے ہیں ،اور یہی اس الہام کے حقیقی مصداق ہیں۔ 1۔میاں معراج دین صاحب لاہوری۔2۔مفتی محمد صادق صاحب۔3۔صوفی محمد علی صاحب کلرک۔ 4۔خلیفہ رجب دین صاحب۔ 5۔حکیم محمد حسین صاحب قریشی۔ 6۔حکیم محمد حسین صاحب تاجر مرہم عیسیٰ۔ 7۔میاں چراغ دین صاحب ۔ 8۔میاں فیروز دین صاحب۔ 9۔شیخ رحمت اللہ صاحب ۔ 10۔سید فضل شاہ صاحب۔ 11۔منشی تاج الدین ۔ 12۔حکیم نور محمد صاحب ۔ 13۔حکیم فضل الٰہی صاحب۔ 14۔شیخ نبی بخش صاحب۔15۔حافظ فضل احمد صاحب۔16۔مولوی غلام حسین صاحب۔ 17۔منشی مولا بخش صاحب۔ 18۔کرم الٰہی صاحب۔ 19۔میاں عبد السبحان صاحب ۔ 20۔میاں عبد العزیز صاحب۔ان بیس ناموں کے علاوہ حضرت مسیح پاک کی تحریرات میں اور کوئی نام نہیں ملتا۔ ان احبا ب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بحکم خداوندی بذریعہ خط اس الہام کی خبر دی ۔نظیف مٹی سے بنے یہ تمام مخلصین بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں مدفون ہیں۔ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا، اس وقت مولوی محمد علی صاحب قادیان میں،خواجہ کمال الدین صاحب پشاور اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب فاضلکا میں موجود تھے اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب نے 1900ء تک بیعت ہی نہیں کی تھی۔ اس لیے یہ احباب کسی طرح بھی اس الہام کے مصداق نہیں ہو سکتے’’۔(روزنامہ الفضل 25نومبر 2005ء صفحہ 3،4۔جلد 55۔90،شمارہ 263)

٭افراد جماعت کی بیعت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:‘‘جو لوگ اس دعوت بیعت کو قبول کرکے اس سلسلہ مبارکہ میں داخل ہوجائیں، وہی ہماری جماعت سمجھے جائیں، اور وہی ہمارے خاص دوست متصوّر ہوں۔ اور وہی ہیں جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں انہیں ان کے غیروں پر قیامت تک فوقیت دوں گا، اور برکت اور رحمت ان کے شامل حال رہے گی، اور مجھے فرمایا کہ تو میری اجازت سے اور میری آنکھوں کے روبرو یہ کشتی تیار کر جو لوگ تجھ سے بیعت کریں گے خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوگا’’۔ ( اشتہار12جنوری 1889ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 191،192 )

مولانا محمدعلی صاحب نے 22مارچ 1914ء کو لاہور میں ڈاکٹر سیدمحمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر پہلی شوریٰ بلائی ۔ اس میں جو فیصلے ہوئے ،ان میں یہ بھی شامل ہے کہ:‘‘جس بزرگ کو احمدی قوم کا امیر سمجھا جائے، اس کے ہاتھ پر ان لوگوں کی بیعت لازم نہ ہوجو پہلے سے احمدی ہیں’’۔ ( پیغام صلح ازیکم تا 31دسمبر 2013ء صفحہ 59۔جلد نمبر 100، شمارہ 23-24)

مگر اب حضرت امیر فرماتے ہیں:‘‘ہم اگر کسی سلسلہ میں بیعت نہیں کرتے تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اس کے لیے اپنے کام چھوڑ کر یہاں آئیں گے ضرورت پڑنے پر اس کے لیے جان دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔یہ کافی نہیں کہ میرا باپ چندہ دیتا ہے لہٰذا میرا حق ہے اس انجمن پر، نہیں بلکہ آپ سب کو چندے ادا کرنے چاہئیں۔بچوں کو میں کہتا ہوں کہ پاکٹ منی سے بھی چندہ دیں ،اور باقاعدہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوں’’۔( اختتامی خطاب بر موقعہ صدسالہ یوم تاسیس۔پیغام صلح صفحہ 5یکم تا 30اپریل2014ء۔جلد 101،شمارہ 7-8)

‘‘یہ جو بیعت ہے اس کی ہم نے تعلیم کرنی ہے کہ لوگو بیعت کرو ، کوئی نہیں آتا کہ بیعت ہو جائے۔ کسی نے کہہ دیا کہ ہم خاندانی احمدی ہیں۔جنم کی وجہ سے احمدی کوئی نہیں ہوتا۔اپنے آپ کو پیش کرنا پڑتا ہے کہ میں بیعت کرنے آیا ہوں۔ اور آئو جی سارے بیعت کر لیں یہ بھی نہیں ہے۔انفرادی بیعت کرنی چاہیے۔ اور اب میں جہاں دورہ جائوں گا ،وہاں دورہ جات میں جومعتمدین کے ممبر ہیں انہیں لوگوں کو تیار کرنا چاہیے کہ امیر آرہا ہے ہم نے اس کی بیعت کرنی ہے’’۔ (تقریر سالانہ دعائیہ 31دسمبر 2017ء۔https://www.youtube.com/watch?v=9nMlIQ9r9Yc)

(………………………باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button