تعارف کتاب

‘‘صوبہ بہار کے اصحاب احمد’’

(محمد ذکریا ورک۔ کینیڈا)

نام کتاب: صوبہ بہار کے اصحاب احمد
مؤلف: ڈاکٹر سیّد شہاب احمد صاحب
ناشر: مکرم منور احمد نوری صاحب
صفحات: 556
مقام و تاریخ اشاعت: قادیان۔ اپریل 2018ء
تعداد: 400

جماعت احمدیہ کینیڈا کے جیّد عالم، صا حب قلم، معتبرمضمون نگار اور مصنف ڈاکٹر سید شہاب احمد (ایڈ منٹن کینیڈا)نے صوبہ بہار کے اصحاب احمدؑ کے نام سے کتاب قادیان سے شائع کی ہے جس میں19 ؍اصحاب احمد علیہ السلام کے حالات زندگی، ان کی اولاد کے حالات اور پھرآگے ان کی اولاد(کل74 احباب ) کے کوائف دیے گئے ہیں۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے یہ ایک نادر کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر کتابوں کے رسیا کو کرنا چاہیے۔

کتاب میں سب سے پہلے صوبہ بہار کے پہلے جلیل القدرصحابی حضرت مولوی حسن علی صا حب ؓ کے ایمان افروزحالات زندگی دیے گئے ہیںجن کے ذریعہ احمدیت کا نور بہار میں پھیلا تھا۔ مسلمان قوم نے آپ کو شمس الواعظین کا لقب عطا کیا تھا۔ کئی سو ہنود نے آپ کے دست مبارک پر نور اسلامی سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ سکول کے زمانے میں لوگ آپ کی شعلہ بیاں تقریروں سے بہت مر عوب و متأثر ہوتے تھے۔ ہندوستان کے مشہو ر شہروں کے دورے کیے اور مدارس و یتیم خانے قائم کیے۔ انجمن حمایت اسلام کی بنا ء میں بھی آپ کا ہاتھ تھا۔ آپ کا بیعت کا سال 1894ء ہے۔ انجام آتھم میں313 صحابہ میں آپ کا نام درج ہے۔ آپ کی سوانح حیات ان کی اپنی کتاب تائید حق میں موجود ہے۔

حضرت سید وزارت حسین صا حب ؓ صوبہ بہار کے دوسرے احمدی تھے جن کی ولادت اورین ضلع مونگھیر میں 1883ء میں ہوئی تھی۔ آپ نے بذریعہ خط1900ء میں اور بعد ازاں 1901ء میں قادیان میں دستی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ آپ متعدد کتب کے مصنف تھے۔ 1905ء میں آپ نے کتاب مراۃ الجہاد312 صفحات کی تصنیف فرمائی جو حضرت اقدس کے نام نامی سے معنون تھی۔ دوسری بار جب آپ قادیان گئے تو صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید ؓان کے سامنے ہی افغانستان روانہ ہوئے تھے۔ کئی ماہ تک ریویو آف ریلیجنزکے تنہا انچارج رہے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے تھے۔ سالہا سا ل تک امیر جماعت احمدیہ بہار رہے۔ تاریخ احمدیت میں مقدمہ بہار مشہور معروف ہے۔ پٹنہ میںاس مقدمہ کی تیاری میں آپ کو خاص موقعہ نصیب ہؤا تھا۔ آپ کا تعلق قانون کے پیشہ سے نہیں تھا مگر آپ نے بڑی مہارت ، کمال دور اندیشی اور فراست سے مقدمہ کے واقعات ، تنقیحات، فقہی اور قانونی مسائل ، کتب فقہ ، قانونی دلائل اور نظائر کا مرقع تیار کیا تھا۔ اس کا ذکر سر ظفراللہ خاں صا حب ؓکی عالمی شہرت کی حامل سوانح عمری تحدیث نعمت میں بھی موجود ہے۔ ایک کامیا ب مناظر کے طور پر آپ نے آریہ سماجیوں سے مناظر ے کیے۔ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ بعض انگریز مرد اور خواتین کو تبلیغی خطوط لکھے۔ اخبارات کے ایڈ یٹر صا حبان کو خطوط لکھتے، اوراخباری نمائندوں کو انٹرویو دیا کرتے تھے۔ یکم مئی 1975ءکو اپنے گاؤں اورین میں وفات پائی۔
مؤلف کتاب کے ناناجان حضرت سید ارادت حسین ؓ (1880-1931ء)نے دستی بیعت اپنے چھوٹے بھائی سید وزارت حسین ؓ کے دو سال بعد1903ء میں کی تھی۔ آپ کا علمی ذوق بہت بلند تھا اور کئی کتب کے مصنف تھے۔ چند کتابوں کے نام یہ ہیں: صحبت قاطعہ، شہاب ثاقب، النبوۃ فی الاسلام ، قول حق، معیار نبوت، اثبات النبوۃ۔ صوبہ بہار کے مسلمانوں کے لیے بہت نافع اور فیض رساں وجود تھے۔

حضرت ڈاکٹرملک الٰہی بخش صا حبؓ1902ء میں سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہوئے تھے۔ دستی بیعت کے لحاظ سے صوبہ بہار کے صحابہ کرام میں آپ کا تیسرا نمبر ہے۔ آپ کا وطن مالوف موضع آڑھا ضلع مونگھیرتھا۔ آپ نہایت متقی، صا لح، صا ف گو، غریب پرور ، بانی سلسلہ احمدیہ ؑ کے عاشق صا دق اور خلافت احمدیہ کے دلدادہ تھے۔ آپ کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں ڈاکٹر تھے۔ راولپنڈی میں بہت مشہور تھے صرف ڈاکٹر الٰہی بخش لکھنے سے خط مل جاتا تھا۔ کابل کے سابق بادشاہ یعقوب خاں اور اس کے بھائی ایوب خاں راولپنڈی میں انگریزوں نے نظر بند کیے ہوئے تھے۔ ایوب خاں کے خسر سے آپ کے قریبی برادرانہ تعلقات تھے۔ راولپنڈی میں پریکٹس کر رہے تھے جہاں سے1910ء میں اسسٹنٹ سرجن کے عہدے سے ریٹائر ہوکر قادیان میں سکونت اختیار کرلی۔ قادیان میں شفاخانہ دارالعلوم کے انچار ج مقررہوئے۔ 18 نومبر1910ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ گھوڑے سے گر پڑے اور پیشانی پر چوٹیں آئیں تو دیگر ڈاکٹروں کے علاوہ آپ کو بھی طبی خدمت کی توفیق ملی تھی۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ قادیان کے معروف مؤلف ملک صلاح الدین صا حب آپ کے پوتے تھے۔

ڈاکٹر شاہ محمد رشید الدین مؤلف کتاب کے والد گرامی تھے جن کا تعلق سادات کے خاندان سے تھا۔ شاہ صاحب شہر کے چوٹی کے ڈاکٹر تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓ کی تحریک پر1929ء میں ہندوستان میں سیرۃ النبی ﷺ پر جلسے منعقد ہوئے تو آپ نے آرہ میں شایان شان طریق سے پہلا جلسہ منعقد کروایا تھا۔ آپ کا ادبی ذوق بہت بلند تھا۔ ہزاروں ادبی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوا تھا۔ شعر و شاعری سے بھی شغف تھا۔ مؤلف کتاب کی والدہ سیدہ میمونہ بیگم صا حبہ ؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں۔ ان کا انتقال جولائی 1984ء کو ہوا تھا۔ آپ کے والد کا نام سید ارادت حسین تھا۔ اخبارات و رسائل کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتیں۔ ما ہنامہ عصمت دہلی، ساقی دہلی، تہذیب نسواں ، اخبار انقلاب آپ کے پسندیدہ رسائل و اخبار تھے۔ معروف مصنفین کی کتب کا مطالعہ کیا ہؤا تھا۔ ہندوستان کے مشہور ادیب پروفیسر اختر اورینوی آپ کے عم زاد تھے۔

پروفیسر اختر اورینوی ( ایم اے، ڈی لٹ، صدر شعبہ اردو ، پٹنہ یو نیورسٹی ) ہندوستان کے بلند پایہ ادیب،مصنف، افسانہ نگار ، نقاد، شاعر اور افسانہ نویس تھے۔ آپ کا اردو ادب میں بلند مقام تھا۔ نہایت دبنگ اور بے خوف احمدی تھے۔ ان کے سب دوست احباب ان کی بذلہ سنجی، زندہ دلی، اور خوش مزاقی کے قائل تھے۔ لاہور کے رسالہ نقوش کے آپ بیتی نمبر میں انہوں نے علی الاعلان لکھا تھا کہ مجھے جس شخصیت نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی ذات با برکت ہے۔ اس رسالے میں اختر اورینوی کی سوانح 1097 پر دی گئی ہے۔ یہ رسالہ آن لائن دستیاب ہے:

ttp://apnaorg.com/books/urdu/naqoosh-aapbeeti/book.php?fldr=book

آپ کی اہلیہ شکیلہ اختر بھی اردو کی مشہور افسانہ نویس تھیں۔ ا ن کی کتاب شیطان کی ڈائری کا بہت چرچا ہوا ، اور عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ اختر صا حب ایک استاد کی حیثیت سے طلبہ میں ہمیشہ منظور نظر رہے۔ بہار میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ تنقیدی مقالات کے مجموعے مطالعہ نظیر، مطالعہ اقبال، کسوٹی، تنقید جدید، قدر و نظر، تحقیق و تنقید ، سراج ومنہاج، مطالعہ و محاسبہ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے۔ طبیعت میں سادگی تھی ان کو اپنے مہمانوں کی مٹی کے برتنوں میں زمین پر چٹائی بچھا کر کھانا کھلانے میں کوئی عذر نہیں ہوتا تھا۔ ایک غریب لڑکی کی تجہیز و تکفین کا سامان نہ تھا تو انہوں نے اپنی اہلیہ کے سونے کے قیمتی کڑے فروخت کر کے یہ سامان مہیا کردیا۔ ان کے ایک عزیز دوست کو والد کے مقدمہ کے لیے فیس جمع کرانے کی ضرورت تھی۔ اس کا ذکر اس نے اس وقت کیا جب ان کی جیب خالی تھی مگر آپ نے امتحان میں ملنے والے سونے کے جتنے میڈل تھے ان کو اونے پونے فروخت کر کے تمام رقم دوست کے حوالے کر دی۔ ان کے گھر پر مشاعر ے ہوتے جس کی نظامت کی باگ ڈور وہ خود سنبھالتے اور ایسی نظامت کرتے کہ ان کے ادا کیے ہوئے جملے لوگ ہفتوں مہینوں دہراتے رہتے۔ اپنی غزلیں ایسے پر کشش انداز میں سناتے کہ سننے والا سنتا ہی رہ جاتا، اور خواہش کرتا کہ کاش یہ بزم اور سلسلہ ختم نہ ہو۔ ان کا شعری مجموعہ انجمن آرزو منظر عام پر آچکاہے۔ ہند و پاکستان سے شائع شدہ ایک درجن کتابوں میں ان کے متعلق سوانحی مواد موجود ہے۔ دو رسالوں مہر نیم روز( کراچی) اور ساغر نو (پٹنہ) نے آپ کی ادبی خدمات پر خاص نمبر شائع کیے۔ مؤخر الذکر اختر شناسی کے نام سے2008ء میں کتاب شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ سید فضل احمد ( آئی جی پولیس بہار) اختر صا حب کے چھوٹے بھائی تھے۔ مؤلف کتاب کے آپ ماموںجان تھے۔

حضرت سید عبدالقادر صا حب ؓ کو اپنے والد گرامی مولانا عبد الماجد صا حبؓ (پروفیسر دینیات علی گڑھ)سے قبل سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی 1903ء میں تیرہ سال کی عمر میںدستی بیعت کی توفیق ملی۔ آپ کی چھوٹی بہن سیدہ سارہ بیگم صا حبہ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کے عقد میں آئی تھیں۔ اس لحاظ سے آپ حضور کے برادر نسبتی تھے۔ آپ نے لاہور کے او رینٹل کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اسلامیہ کالج لاہور میں مقبول لیکچر ر رہنے کے بعد پٹنہ کے گورنمنٹ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد کلکتہ یونیورسٹی کی سینیٹ اور سینڈ یکٹ کے ممبرنامزد ہوئے۔ ان کی وفات فروری 1978ء میں سندھ میں ہوئی۔ آپ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ آپ کے دو قابل افتخاربیٹوں کو شہادت کا عظیم الشان مقام عطا ہوا۔ یعنی پروفیسر عباس بن عبد القادر ( 2 ستمبر1974ء )خیر پور سندھ، اور پروفیسرڈاکٹر عقیل بن عبد القادر (9جون 1985ء) حیدر آباد سندھ۔

پروفیسر عباس بن عبد القادرشہید نے سکول کی تعلیم بھاگلپور اور کلکتہ میں حاصل کی اور کالج کا زمانہ علی گڑھ اور پٹنہ میں گزارا۔ آپ نے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری کے لیےہندوستان میں مغلیہ خاندان کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھا مگر قادیان سے حکم آنے پر سارا تحقیقی کام وہیں ترک کردیا۔ بحیثیت واقف زندگی تعلیم الاسلام کالج قادیان میں تاریخ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد خیر پور منتقل ہوگئے اور سندھ میں شعبہ تعلیم کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ آپ ایک فیض رساں وجود تھے۔ طالب علموں کو فیس کی ضرورت ہو، بس کا کرایہ چاہئے یا کتابوں کے لیے پیسوں کی ضرورت ہو ، آپ ہمیشہ ان کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں کالج کے پرنسپل کے فرائض انجام دیے۔ بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے سچ بات کہنے سے خوف نہ کھاتے تھے۔ ٹھٹھری (خیر پور) میں1960ءکی دہائی کے فسادات میں بہت سے لوگ لقمہ اجل بن گئے آپ نے مظلوموں کی فراخدلی سے مدد کی۔ کہتے تھے تبلیغ کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ کے تعلقات ہوں وہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کے قائل ہوں۔

ماہر امراض چشم ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر شہید اعلیٰ صفات حسنہ سے متصف تھے۔ آپ غرباء کی آنکھوں کے علاج کے لیے مفت کیمپ لگایا کرتے تھے۔ بلکہ بعض مریضوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا کرتے تھے۔ نہایت بے نفس، ہمدرد، نافع الناس اور بے لوث انسان تھے۔ بہت دور دور سے لوگ بگڑے کیس لے کر آتے اور ہمیشہ کامیاب واپس جاتے تھے۔ واقف زندگی ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ فضل عمر ہسپتال جو اس وقت ابتدائی مراحل میں تھا میں بھی پریکٹس کی۔ برطانیہ سے Doctor of Osteopathic Medicineکی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ کے شیفیلڈ ہا سپٹل Sheffield Hospitalمیں ملازمت کو ترک کر کے ،سرزمین سندھ کے ریگستانوںکو اپنے گلے سے لگا لیا۔ حیدرآباد میں تیس سال کا عرصہ بڑی محنت اور صعوبت کا گزرا۔ صدرپاکستان ایوب خاں اور صدر پاکستان زیڈ اے بھٹو کے دور حکومت میں ان کو ملازمت سے علیحدہ کر دیا گیا تو میر رسول بخش تالپور آپ کے گھر حاضر ہوئے۔ معززین سندھ نے آپ کی بحالی کے لیے کوششیں کیں مگر خود اس کے لیے کوئی بھاگ دوڑ نہیں کی بلکہ پرائیویٹ پریکٹس پر زیادہ توجہ دے دی جو مالی طور پر فائدہ مند تھی۔ دوست احباب کے لیے ان کا سینہ ہمیشہ کشادہ تھا اور بھائی بہنوں کے لیے تو وہ پھل دار درخت تھے۔

کتاب میں چند ایسے احباب کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ساتھ راقم آثم کو بھی کچھ تعلق رہا۔ کتاب میں مکرم سید فضل احمد (انسپکٹر جنرل پولیس بہار) کی پولیس وردی میں ملبوس رعب دار تصویر ہے۔ یہ غالباََ 1978ءکی بات ہے کہ کسی نے مجھے بتایا کہ ہندوستان کی ایک سربر آوردہ شخصیت سید فضل احمد مسس ساگا آئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ کیا، وہ میرے ساتھ بہت پیار اور تعظیم سے پیش آئے۔ آپ دودھ میں دھلی سفید بشرٹ اور سفید پینٹ میں ملبوس تھے۔ چہرے پر متانت اور سڈول جسم۔ چونکہ میں ان دنوں ایک کمیو نٹی نیوزپیپر کا نا ئب ایڈیٹر تھا اس لیے انٹرویو کا اہتما م ہو گیا۔ اخبار کے ایڈیٹر بھی ان سے ملاقات کے دوران بہت متاثر ہوئے اور فخریہ ان کا انٹرویو شائع کیا۔ اتنے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجودمیں نے ان کوسادہ ،سراپا عجز اور منکسر المزاج پایا۔ ان کا متین چہرہ ، ان کا طرز تخاطب، ان کی من موہنی شخصیت ابھی تک میرے ذہن پر مرتسم ہے۔ آپ نے20 جون 1999ءکو وفات پائی اور موصی ہونے کی وجہ سے بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ اس موقعہ پر پولیس نے سلامی دی اور معززین علاقہ نے اظہار تعزیت کیا۔
مؤلف کتاب ڈاکٹرسید شہاب احمد کی ولادت آرہ بہار میں17نومبر 1929ءکو ہوئی تھی۔ علی گڑھ یو نیورسٹی سے نفسیات میں ماسٹر ز کیا اور پھر برطانیہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ہندوستان کے ایک کالج میں چار سال تک ملازمت کی پھر کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں پانچ سال تدریس کاکام کیا۔ نیز9 سال تک کینیڈا میں کلینکل سائیکالوجسٹ کا کام کیا۔ سسکا ٹون میں قیام کے دوران گیارہ مرتبہ انٹر فیتھ سمپوزیم منعقد کر وایا۔ مختلف اداروں میں اسلام احمدیت پر تقاریر کرنے کا موقع ملا۔ لائبریریوں میں جماعت کی کتابیں رکھوائیں۔ ان کے خیال افروز،اذہان کو تشحیذ کر نے والے ، اعلیٰ پایہ کے مدلل علمی مضامین پچھلے تیس سال سے انگریزی اور اردو میں شائع ہوتے آرہے ہیں۔ 1988ء میں پانامہ کے ملک میں بطور مبلغ کئی ماہ تک خدمت کاموقعہ ملا۔ سسکا ٹون کی مسجد احمدیہ میں سات سال تک بطورخادم کام کرنے کی توفیق ملی۔ پچھلے دس سال سے قاضی اول نیز ریسرچ سیل کے ممبر ہیں۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا آپ کی نیک اولاد ہیں۔ ضعیف العمری کے باوجود علمی کاموں میں مصروف ہیں ، جو کام انجمنیں کرتی ہیں وہ آپ تن تنہا کر رہے ہیں۔
کتاب کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبہ بہار میں متعدد احباب اور ان کی اولادیں در اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے جن میں سے متعدد پروفیسر، ڈاکٹر، سرجن، ماہرین امراض چشم، انجینئر، کمپیوٹر سافٹ وئیر انجینئر، ٹیچر، لائبریرین ، سائیکالوجسٹ تھے۔ کتاب کی متعدد خوبیوں میں سے دو خوبیاں ایسی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو مستند حوالہ جات بمع نام اخبار اور تاریخ دیے گئے ہیں جو پچھلے سو سال پر ممتد ہیں۔ دوسرے کتاب میں 122 رشتہ داروں کی تصاویر دی گئی ہیں۔ جہاں کسی کا ذکر ہے وہاں اس کی تصویر دی گئی ہے۔ تصاویر کا حاصل کرنا جبکہ احباب پوری دنیا میں آباد ہوں جان جوکھوں والا کام تھا جو ڈاکٹر شہاب احمد نے بڑی ہمت اور صبر سے چھ سال کی شب و روز کی محنت سے سر انجام دیا ہے۔

کتابت و طباعت معیاری ، مضبوط جلد، دیدہ زیب سرورق۔ کاش کہ پروف ریڈنگ کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی تو جگہ جگہ املا کی غلطیوں کا ازالہ ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ اس مفیدمعلومات سے مالا مال کتاب کو بہتوں کے لیے رشد و ہدایت کا موجب بنائے۔ یہ دراصل بہار سے تعلق رکھنے والے پیارے پیارے دیو قامت انسانوں ، زبردست عالموں، نافع الناس وجودوں کا انسا ئیکلوپیڈیا Who`s Who ہے جس کی وقعت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔ خداتعالیٰ مؤلف کو اس کا ر عظیم کا اپنی جناب سے صلہ عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button