خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اپریل 2019ء

اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسولﷺ

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 62؍ اپریل 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نےفرمایا:

گزشتہ خطبے میں مَیں نے حضرت عثمان بن مظعوؓن کے متعلق اس پر بات ختم کی تھی کہ آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہونے والے پہلے شخص تھے۔ آنحضرتﷺ کے ورودِ مدینہ کے وقت وہاں یہودکے علاوہ عرب قبائل، قبا ، بنوظفر، بنو سلمہ، بنو سعد سب کے الگ الگ قبرستان تھے۔ بقیع الغرقد سب سے پرانا قبرستان تھا۔ آپؐ نے اسے مسلمانوں کے لیے منتخب فرمایا۔ یہ آج تک منفرد اور ممتازحیثیت رکھتا ہے۔

آپؐ نےقبرستان کی تلاش کے سلسلے میں کئی جگہوں کو ملاحظہ فرماکر، بقیع الغرقد کے متعلق فرمایا مجھے حکم ہوا ہے کہ اس جگہ کو منتخب کروں۔ اس جگہ بے شمار غرقد کے درخت تھے۔ مچھر اور دیگر حشرات الارض کی بھرمار تھی۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی تدفین کے موقع پر آپؐ نے ان کی قبر کے سرہانے ایک پتھر نشانی کے طور پررکھ دیا اورفرمایا یہ ہمارے پیش رَو ہیں۔ آپؐ نے عثمانؓ کی وفات پر انہیں بوسہ دیا ۔آپؐ کے آنسو حضرت عثمانؓ کے رخسار پر بہ رہے تھے۔ اس جگہ کو جنت البقیع بھی کہتے ہیں۔ حضرت سالم بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی فوت ہوتا تو آپؐ فرماتے اس کو ہمارے گئے ہوئے بندوں کے پاس بھیج دو۔ عثمان بن مظعونؓ میری امت کا کیا ہی اچھا پیش رَو ہے۔ آپؐ نے عثمان بن مظعونؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور چار تکبیرات کہیں۔ حضورِ انور نےحضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحقیق کے حوالے سےحضرت عثمان بن مظعون ؓ کی وفات اور سیرت کی بعض تفصیلات بیان فرمائیں۔ آپؐ کبھی کبھی جنت البقیع میں جاکر ان کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی وفات پر ان کی اہلیہ نے مرثیہ بھی لکھا تھا۔

حضرت اُمِّ علاء ، انصاری خاتون تھیں ۔ہجرتِ مدینہ کے بعد حضرت عثمانؓ کی رہائش کا قرعہ انہی کے نام نکلا تھا۔ اُن کی وفات پر اُمِّ علاءنے شہادت دی کہ اللہ نے ضرور آپؓ کو عزت بخشی ۔ آپ ﷺ نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا کہ جہاں تک عثمانؓ کا تعلق ہے میں ان کے متعلق بہتری کی امید کرتا ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ عثمانؓ کے ساتھ کیا ہوگا۔ حضورِ انور نے مسنداحمد بن حنبل کی دو روایات سے اُمِّ علاءکے اس واقعے کی مزید تفصیلات بیان کیں اور فرمایا کہ یہ آنحضرت ﷺ کی تربیت کا ایک طریق تھاکہ یونہی اتنے وثوق سے اللہ تعالیٰ کی بخشش کے متعلق شہادت نہ دیا کرو۔

اگلے بدری صحابی جن کی سیرت حضورِ انور نے بیان فرمائی حضرت وہب بن سعد تھے۔ یہ قبیلہ بنو عامر بن لوئی سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام مہانہ بنتِ جابر تھا۔ حضرت وہب، ارتداد اختیار کرلینے والے کاتبِ وحی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے بھائی تھے۔حضورِانور نےحضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سےعبداللہ کے ارتداد کی تفصیل بیان فرمائی کہ ایک دن آپؐ سورۃ المؤمنون کی آیت15،14لکھوارہے تھے جب ثُمَّ اَنْشَاْنَہُ خَلْقَاً اٰخَرَتک پہنچے تو عبداللہ کے منہ سے فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ کے الفاظ نکلے۔ آپؐ نے فرمایا یہی وحی ہے اس کو لکھ لو۔ عبداللہ کو اس واقعےسے ٹھوکر لگی اور وہ مرتد ہوگیا۔فتح مکہ کے موقع پر آنحضرتﷺ نے بعض لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ فتنہ وفساد بھڑکانے کے سبب، عبداللہ کا نام بھی ان افراد میں شامل تھا۔ یہ تین چار دن چھپا رہا اور پھر حضرت عثمانؓ کی سفارش پر آپؐ نے اس کی بیعت قبول کرلی۔

حضرت رسول اللہﷺ نے وہبؓ اور سویدبن عمروؓ کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم فرمایا۔ وہبؓ غزؤہ بدر،احد، خندق اور حدیبیہ و خیبر میں شریک ہوئے۔ آپؓ جنگِ موتہ میں40 برس کی عمر میں شہید ہوئے۔ اس جنگ کے شہیدوں کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو دی گئی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ زیدؓ نے جھنڈالیا اور وہ شہید ہوگئے،پھرجعفرؓ نے اسے پکڑا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھرعبداللہ بن رواحہؓ نے جھنڈا پکڑا اوروہ بھی شہید ہوگئے۔ یہ خبردیتے ہوئے آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ پھرآپؐ نے فرمایا کہ پھر جھنڈا خالدؓ بن ولید نے بغیر سردار ہونے کے پکڑا اور انہیں فتح حاصل ہوئی۔

صحابہ کِرام کے اس ذکر کے بعد حضورِ انور نے چار مرحومین کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ جن میں پہلا جنازہ حاضر مکرم ملک محمد اکرم صاحب مربی سلسلہ کا تھا۔ ان کی وفات 25؍اپریل کو مانچسٹر میں ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ ملکوال ضلع گجرات میں 1947ء میں پیدا ہوئے۔ 1961ء میں بیعت کی توفیق ملی اور 1962ء میں زندگی وقف کردی۔ آپ نے بی اے کے بعد عربی فاضل اور شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان کے علاوہ گیمبیا،نائیجیریا اور یوکے میں آپ کا عرصہ خدمت 48 سال بنتا ہے۔ یوکے میں آکسفورڈ، مانچسٹر، گلاسگو، کارڈف کی جماعتوںمیں تیس سال تک خدمت کی توفیق ملی۔ کئی سال نائب افسر جلسہ گاہ بھی رہے۔ مرحوم نے مانچسٹرتعیناتی کے دوران مسجد دارالامان کی تعمیر کےلیےفنڈ اکٹھا کرنے میں بہت فعال کردار ادا کیا۔

دوسرا جنازہ چوہدری عبدالشکور صاحب مبلغِ سلسلہ کا تھا۔ آپ 12؍اپریل کو وفات پاگئے۔ مرحوم 1935ء میں پیدا ہوئے۔ 1956ء میں زندگی وقف کی۔ 1963ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔ آپ کو سیرالیون، گھانا، گیمبیا وغیرہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ مزید برآں نائب وکیل التبشیر، نائب وکیل المال ثالث، سیکرٹری کمیٹی آبادی، نائب وکیل المال ثانی کے طور پر خدمت انجام دیتے رہے۔

تیسرا جنازہ مکرم محمد صالح محمد صاحب معلّم وقفِ جدید کا تھا۔ آپ 12؍اپریل کو وفات پاگئے۔ اِن کے پڑنانا ملک اللہ بخش صاحب نےکسوف و خسوف کا نشان دیکھ کر لودھراں سے پیدل قادیان جاکر حضورؑ کی بیعت کی۔ 1959ءمیں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے بیٹے جو خود مربی سلسلہ ہیں کہتے ہیں کہ ہماری والدہ بیان کرتی ہیں کہ نگرپارکر میں جس سینٹرمیں ہم تھے۔ وہاں معلّم ہاؤس لمبے عرصے سےبند پڑا تھا۔ گھرگر چکا تھا۔ توہم دونوں میاں بیوی دن کے وقت بہت دُور سے پانی اورمٹی لےکرآتے اور رات میں کچی اینٹیں بناتے۔ جب اینٹیں بن گئیں تو از خود کچّا مکان تیار کرلیا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ سندھ میں ابتدائی معلّمین نے بڑی قربانی کرکے وہاں گزارہ کیا ہے۔مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ آپ کے بیٹے مبارک احمد منیر صاحب برکینا فاسو میں مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

چوتھا جنازہ ممکرم مویشیحے جمعہ صاحب تنزانیہ کا تھا۔آپ 13؍مارچ کو وفات پاگئے۔ 1933ء یا 1934ءمیں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ 1967ءمیں جماعت میں شامل ہوئے۔ جماعت میں شامل ہونے کے بعد سے وفات تک ان کے ہر عمل سے یہی ثابت ہوتا کہ خلافت کے انتہائی شیدائی ہیں۔ آپ کے بیٹے شمعون جمعہ صاحب استاد جامعہ احمدیہ تنزانیہ لکھتے ہیں کہ ہم تین بھائی جامعہ میں مبشر کا کورس کررہے تھے، چھٹیوں میں ہم نے مشورہ کیا کہ ایک بھائی جامعہ کی پڑھائی چھوڑ کر والدین کاہاتھ بٹائے۔ یہ خبر جب مویشیحے جمعہ صاحب کو ہوئی تو انہوں نے بڑے جلال سے کہا کہ اللہ پر توکّل رکھو اور جامعہ کی پڑھائی جاری رکھو۔ جماعت کی خدمت کی ایک روح اپنے تینوں بچوں میں پھونکی۔

اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اورمغفرت کا سلوک فرمائےدرجات بلند کرے اور ان کی نسل کو بھی سچّا خادمِ دین اور خادمِ اسلام بنائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button