خطاب حضور انور

مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے نیشنل اجتماع 2018ء کے موقع پرحضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے نیشنل اجتماع کے موقع پرحضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انگریزی زبان میں فرمودہ اختتامی خطاب کا اردو ترجمہ

(فرمودہ23ستمبر2018ء بروز اتوار بمقام Country Market, Kingsley, Bordon ،یُوکے)

(اس خطاب کا اردو ترجمہ ادارہ الفضل انٹرنیشنل ادارہ ‘‘اسماعیل ’’ کے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

امسال مجلس خدام الاحمدیہ یوکے نے اپنا مرکزی عنوان‘‘صلوٰۃ’’ رکھا ہے۔ مجھے امید ہے اور میں توقع رکھتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی انتظامیہ نے ہر سطح پر خدام اور اطفال کو صلوٰۃ کی طرف توجہ دلانے اور اس کی انتہائی اہمیت کو واضح کرنے کی اجتماعی کوشش کی ہو گی۔ لیکن مجلس (خدام الاحمدیہ) اور اس کے عہدیدار صرف ایک حد تک نماز کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں اور بالآخر ہر شخص جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اُس پر ہی منحصر ہے کہ وہ نماز کی اصل حقیقت اور اہمیت کو سمجھتا ہے یا نہیں۔ یہ سب سے بنیادی عبادت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر دن میں پانچ بار لازم قرار دیا ہے۔ پس یہ ہر مسلمان پر بذات خود منحصر ہے کہ وہ نماز کی اعلیٰ ترین اقدار کو اور دعا کی لامتناہی قوت کو سمجھتا ہے یا نہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امام الزمان کو مبعوث فرمایا جس نے اسلام کی شان دنیا پر ظاہر کرنی تھی اوراصل اسلامی تعلیمات کو پھر سے زندہ کرنا تھا۔ وہ تعلیمات جو عرصۂ دراز سے بُھلا دی گئی تھیں۔ ہم احمدی مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ہم نے اُس امام الزمان کو مانا ہے۔ پس اگر ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے انہیں مانا ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نماز ایک بنیادی فریضہ ہے جسے ادا کرنے کی ذمہ داری ہمارے دین نے ہم پر عائد کی ہے اور یہ کہ ہمیں اپنی نمازوں میں کبھی بھی سُستی نہیں کرنی چاہیے بلکہ لازماً ہر وقت اسے مکمل فوقیت دینی چاہیے۔

جب ہم کلام اللہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ کے آغاز میں ہی فرمایا ہے کہ قرآن کریم متقیوں کو ہدایت دینے کے لیے نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرۃ:4) ۔یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بطور عَالِمُ الغیب قبول کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃ(البقرۃ:4) اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ مومن وہ ہیں جو ‘نماز قائم کرتے ہیں’۔ پس اللہ تعالیٰ نے حُکم دیا ہے کہ ہر مسلمان کو لازمًا ہر روز نماز ادا کرنی چاہیے۔ یہ حُکم آج بھی ایسا ہی قابل عمل ہے جیسا کہ ماضی میں تھا۔ قرآن کریم کی تعلیمات یقیناً تمام زمانوں کے لیے اور عالمی تعلیمات ہیں۔

ہمیں یہ خوش نصیبی حاصل ہے کہ ہم نے اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کیا ہے۔ مگر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آپؑ کی بیعت میں آنا صرف اُس وقت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے اگر یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے دینی فرائض میں غافل ہیں تو ہمیں یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کرنے سے ہمارے اندر ایک روحانی انقلاب برپا ہوا ہے۔ یا یہ کہ اس طرح ہمیں حقیقی اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق ملی ہے۔ پس ہمارا آپؑ کو قبول کرنے کا زبانی دعویٰ کھوکھلا اور بے معنی ہو گا۔ قیام نماز کی اہمیت سورۃ البقرۃ کی آیت 239میں ایک بار پھر بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ٭ وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ۔‘‘اپنی نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص مرکزی نماز کی اور اللہ کے حضور فرمانبرداری کرتے ہوئے کھڑے ہو جاؤ۔’’یہاں قرآن کریم میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ‘‘اپنی نمازوں کی حفاظت’’ کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر حُکم ہے کہ مرکزی نماز کی حفاظت کی جائے۔ نمازوں کی حفاظت کا مطلب ہے کہ ہمیں نماز کے معاملہ میں کبھی بھی سستی اور غفلت برتنی نہیں چاہیے۔ اس آیت میں یہ بھی حکم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کامل تذلل اور تبتلِ تام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اس زمانہ میں نہایت بر محل ہےکیونکہ دنیا بھر میں لوگ اپنے کاموں، سکولز، کالجز اور دوسری روز مرّہ کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پس نمازوں کی حفاظت کے لیے ایک خاص کوشش کی ضرورت ہے۔ جہاں تک عام معمول کا تعلق ہے یعنی یہ کہ لوگ کام پر جاتے ہیں یا سکول جاتے ہیں تو اس میں مرکزی نماز ظہر اور عصر ہے۔ اور یہی دو نمازیں ہیں جن میں اکثر لوگ لاپروا ئی کرتے ہیں اور انہیں ادا نہیں کرتے۔ پس قرآن کریم نے خاص طور پر تنبیہ کی ہے کہ ہم نے فرض نمازوں میں کبھی کوئی کمزوری نہیں دکھانی یا اپنی دنیاوی مصروفیات کو کبھی دینی فرائض پر ترجیح نہیں دینی۔

اس آیت کے حوالہ سے میں اس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ظہر اور عصر کو ہی مرکزی نماز نہ سمجھا جائے بلکہ آج کل کی دنیا میں ہر عمر سے تعلق رکھنے والے لوگ بشمول اکثر نوجوان رات دیر تک پڑھائی کرتے ہیں، یا اپنا وقت بداخلاقی اور ردّی چیزوں میں ضائع کرتے ہیں جیسے انٹرنیٹ میں بلا مقصد سرفنگ (surfing) کر رہے ہوتے ہیں،ٹی وی یا فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ، فون یا ٹیبلیٹ پر بلاحد بندی سکرولینگ (scrolling) کررہے ہوتے ہیں اور رات دیر تک messagesبھیج رہے ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ فجر پر بیدار ہونے سے قاصر رہتے ہیں اور اُن کے معمول کی وجہ سے در اصل فجر اُن کے لیے مرکزی نماز بن جاتی ہے۔ پس دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے مرکزی نماز وہ نماز ہےجس کے چھوٹنے کا خطرہ ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں لوگ عصر کے وقت سب سے زیادہ مصروف ہوتے تھے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عصر مرکزی نماز ہے۔ (جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ما جاء فی الصلوٰۃ الوسطی انہا العصر حدیث182)لیکن آجکل کی دنیا میں لوگوں کی مختلف معمولات ہیں اس لیے پانچ نمازوں میں سے مرکزی نماز کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ اکثر لوگوں کے لیے اب فجر در اصل مرکزی نماز ہے کیونکہ دیر سے سونے کی وجہ سے وہ اسے بروقت ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پس آپ کو جلد سونے کی عادت ڈالنی چاہیے اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر آپ کو اِس پختہ نیت اور مصمم ارادہ کے ساتھ سونا چاہیے کہ آپ فجر کے لیے بیدار ہوں گے خواہ آپ کتنا ہی تھکے ہوں۔

مزید یہ کہ جب بھی ممکن ہو ، خواہ آپ کو زائد کوشش بھی کرنی پڑے پھر بھی آپ کو اپنی نمازیں باجماعت اپنی مقامی مسجد یا صلوٰۃ سینٹر میں ادا کرنی چاہئیں کیونکہ مَردوں کے لیے یہ خدا تعالیٰ کا حُکم ہے ۔ ایک مرد جو اپنی نمازیں کسی جائز وجہ یا عذر کے بغیر گھر میں ادا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا پانے والا نہیں ہو گا۔ یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ با جماعت نماز کا ثواب انفرادی نماز سے 27گنا سے زیادہ ہے۔(صحیح البخاری کتاب الاذان باب فضل صلوٰۃ الجماعۃ حدیث نمبر 645)ایسی روایات سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنا مہربان، سخی ، رحمٰن ورحیم اور کتنا فیض رساں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے گناہ کی سزا اس کے برابر رکھی ہے یا جرم کے مطابق سزا رکھی ہے۔ مگر جہاں تک اچھے اخلاق اور نیک اعمال کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کئی گنا زیادہ نوازتا ہے۔ سو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے رحمٰن خدا کی عظیم رحمانیت سے فائدہ اُٹھائیں ۔آپ مسجدوں میں باجماعت نمازوں کے لیے جمع ہو کرخدا تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوں اور اُس سے اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگیں۔

مَیں نے پہلے بھی کئی مرتبہ کہا ہے کہ اگر ہماری جماعت اور ذیلی تنظیموں کے سب عہدیدار باجماعت نماز میں باقاعدہ ہو جائیں تو ہماری مسجدوں میں حاضری فوری طور پر 60یا 70فیصد بڑھ جائے۔ پس مَیں نیشنل ، ریجنل اور لوکل مجلس عاملہ کے ممبران کو اُن کی ڈیوٹی کے حوالہ سے ایک بار پھر کہوں گا کہ وہ نمازوں کی باجماعت ادائیگی سے دوسروں کے لیے ایک مثبت نمونہ بنیں۔

مزید یہ کہ جبکہ اس سال کے نیشنل اجتماع کا مرکزی عنوان ‘‘صلوٰۃ’’ ہے آپ یہ کبھی نہ سمجھیں کہ یہ مرکزی عنوان صرف اسی سال کے لیے ہے۔ بلکہ آپ نماز کی طرف اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں اور اسے آخری دم تک اپنی روز مرّہ زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔ اس لحاظ سے اگر اگلے سال اجتماع کا مرکزی عنوان بدل جاتا ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ اب آپ کو نماز پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ اب آپ کی تمام توجہ صرف نئے مرکزی عنوان پر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سال ‘‘صلوٰۃ’’ بطور مرکزی عنوان اس لیے رکھا گیا تاکہ ہر ایک خادم اور طفل کو زندگی میں باجماعت نماز کی خاص اہمیت سے اچھی طرح واقفیت ہو جائے۔

جیساکہ مَیں نے کہا یہ معاملہ صرف آج ، اِس ہفتہ، مہینہ یا سال کا نہیں ہے بلکہ پنجوقتہ نماز آئندہ ہر روز آپ کی باقی کی زندگی کی مسلسل ساتھی رہنی چاہیے۔ بہر حال مَیں اس امید کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ آپ نے اس سال کے پروگرام سے صحیح فائدہ اُٹھایا ہو گا اور آپ کو احساس ہو گیا ہو گا کہ نماز کی حقیقی ضرورت اور خاص اہمیت کیا ہے۔جنہوں نے اپنی نمازوں کی حالت کو بہتر بنایا اور نمازوں سے فائدہ اُٹھایا، مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اس معاملہ کو سنجیدگی کے ساتھ لیا اور ترقی کرنے کی طرف گامزن رہے۔ لیکن آپ کو اب آرام نہیں کرنا چاہیے یا جو بھی بہتری آپ اپنے اندر لائے ہیں اُس پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مزید سنجیدگی کے ساتھ مسلسل توجہ دینی چاہیے اور نماز مکمل توجہ اور اِس کامل یقین کے ساتھ ادا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی سنتا ہے جو اُس کے حضور سنجیدگی کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

اگر آپ میں سے بعض ایسے رہ گئے ہیں جنہوں نے دوران سال اپنے عبادت کے معیاروں کو بڑھانے کے لیے کوئی نتیجہ خیز کوشش نہیں کی تو انہیں مزید کوئی دن ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ آپ ابھی سے مصمم ارادہ اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ آپ نے اپنی حالت کو بہتر بنانا ہے۔ اب وہ وقت ہے کہ آپ اس روحانی سیڑھی پر چڑھنا شروع ہوں جو ہمیں اپنے خالق کی طرف لے جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خود دعا اور عبادت کے بے مثال فوائد سے آگاہ کیا ہے۔ پس قرآن کریم کی سورۃ العنکبوت آیت 46میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ۔ وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ۔ (ترجمہ):  یقیناً نماز بے حیائی اور ہر ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر یقیناً سب (ذکروں) سے بڑا ہے۔

یہاں جو عربی لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے ‘‘الفحشاء’’ جس کا ترجمہ ‘‘بے حیائی ’’ کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے مطالب بہت وسیع ہیں۔ اس عربی لفظ کے چند اَور معانی میں بے حد، بہت زیادہ اور بہت ہی بڑا گند، شامل ہیں۔ مزید مطالب میں بد اخلاقی، شہوت پرستی، بے ہودگی، گناہ یا جرم اور زنا شامل ہیں۔

اس آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نماز تمہیں ‘‘المنکر’’ سے بچاتی ہے۔ اس کا ترجمہ ‘‘ہر ناپسندیدہ بات’’ کیا گیا ہے۔ اس کے اَور مطالب میں ہر وہ فعل جو ردّی ہو یا جسے گندہ قرار دیا گیا ہو، قابلِ نفرت، بَد، مکروہ اور دوسروں کے نزدیک ناشائستہ یا نازیبا شامل ہیں۔ جیساکہ آپ نے سنا کہ یہ تو واضح ہے کہ اِن دونوں عربی الفاظ کے منفی مفاہیم اور معانی ہیں۔ سو یہ آیت دعا اور صلوٰۃ کی قوت کے حوالہ سے ایک غیر معمولی اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نمازیں بروقت اور پوری شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں وہ بہت سی بد اخلاقی، ناپاکی اور ناپسندیدہ حرکات سے بچائے جائیں گے۔

ہم ایک ایسے زمانہ میں رہ رہے ہیں جس کے ہر موڑ پر ہمارا سامنا ناشائستہ، بد اخلاقی اور مُضرات سے ہوتا ہے جو بنی نوع انسان کو نیکی سے گناہ کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہیں۔ پہلے سے بہت زیادہ ایک مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان لاتعداد بدیوں اور بد اخلاقیوں سے بچائے جو اس معاشرے میں پھیل رہی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں وہی طریق اختیا کرنا پڑے گا جو اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں بتایا ہے یعنی یہ کہ اس کے حضور ہر روز پانچ مرتبہ سر بسجود ہوں۔ یہ نجات کی راہ ہے اور جولوگ اس راہ کو اختیار کرتے ہیں وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اُس کے پیار ، اس کی رحمت اور اُس کے عظیم اجر کو پانے والے ہوتے ہیں۔

قرآن کریم کی بعض آیات پیش کرنے کے بعد اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض احادیث بیان کروں گا جن سے نماز کی خاص اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا اور کہا یا رسول اللہ! مجھے وہ چیز بتائیے جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور وہ چیز جو مجھے آگ سے دور کر دے؟ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اگر اس نے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھا تو جنت میں داخل ہو گا۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان الذی یدخل بہ الجنۃ…حدیث104اور105)

ایک اور موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ حدیث 246)

اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سخت تنبیہ کسی بھی مخلص مسلمان کے دل میں ایک خوف ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

ایک اَور حدیث جو ہمیں بچپن سے ہی سکھائی جاتی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے جس سے نماز کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خدام اور اطفال یہاں موجود ہیں انہوں نے اس حدیث کو کئی دفعہ سنا ہو گا۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر کسی کے دروازے کے پاس سے نہر گزر رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ بار نہائے تو اس کے جسم پر کوئی میل رہ جائے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کوئی میل نہیں رہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہ معاف کرتا ہے اور کمزوریاں دور کر دیتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوٰۃ باب الصلوات الخمس کفّارۃ حدیث 528)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی تاکید کرو۔ اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر سختی کرو۔(جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ما جاء متی یؤمر الصبی بالصلوٰۃ حدیث 407)اس حدیث سے بچپن سے ہی نماز میں باقاعدگی اختیار کرنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ نماز وہ سنگ بنیاد ہے جس پر بچوں کو اپنی مستقبل کی زندگی بنانی چاہیے۔

مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع 2018ء کے موقع پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا ایک روح پرور منظر

پس اطفال الاحمدیہ کے چھوٹے ممبروں کو بھی نمازوں کو توجہ کے ساتھ ادا کرنے اور چھوٹی عمر سے ہی اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہر حال اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مانا ہے اور آپ کے سچّے خادم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بھی مانا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم پنجوقتہ نماز کو التزام کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔ جیساکہ مَیں نے کہا کہ ہر گز اس خیال کا شکار نہ رہیں کہ ‘صلوٰۃ’ صرف ایک سال کے لیے بطور مرکزی عنوان ہے۔بلکہ یہ مرکزی عنوان آپ کی پوری زندگی کی بنیاد بننی چاہیے۔

آپ خواہ کسی عمر کے ہوں، خواہ آپ کی عمر 70سال ہو ،80سال ہو یا اس سے بھی زیادہ ہو صلوٰۃ ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر ایک حقیقی مسلمان کا جینا محال ہے۔ اس کے بغیر کسی معیاری چیز کو حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ نماز میں سستی کا کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہوسکتا۔

اس حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں اس لیے پانچ وقت نماز ادا کر نے کے لیے ہمیں فرصت نہیں ہوتی۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ 253۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
جیسا کہ مَیں نے کہا نماز اسلام کاایک بنیادی جزو ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ارکان اسلام میں کلمہ طیبہ کے بعد دوسرا رُکن نماز ہے۔ نتیجۃً اگر ہم اسلام کو مانتے ہیں تو ہمیں ہر حال میں اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے ورنہ ہمارا ایمان لانا کھوکھلا اور بے فائدہ ہے۔یہ ہمارے سامنے ایک ٹھوس حقیقت ہے۔

ا ب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اقتباسات میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں جن سے روز روشن کی طرح صلوٰۃ کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے اور یہ کہ ہمیں نماز کیسے ادا کرنی چاہیے۔ ایک موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایاکہ نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کی معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 247۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

نماز کس طرح پڑھنی چاہیے؟ اس حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و ا لسلام فرماتے ہیں:
‘‘نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتا دے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں دست بستہ کھڑے ہو۔ ’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ 248۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مزید فرمایا:

نماز میں‘‘جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جُھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو۔ ’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ 248۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک اَور موقع پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:

‘‘نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے۔ ’’(ملفوظات جلد 3 صفحہ 258۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کیا حالت ہوتی تھی؟ اس حوالہ سے حضرت عائشہؓ اور کئی صحابہؓ نے گواہی دی ہے کہ آپ کامل گریہ و زاری، تذلل اور تبتل تام کی حالت میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ (ماخوذ از سنن النسائی کتاب قیام اللیل وتطوع النہار باب کیف الوتر بثلاث)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے افسوس کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ نماز کو توجہ کے بغیر جلدادا کرتے ہیں، اور جو اس کا حق ہے اس کے مطابق اسے ادا نہیں کرتے۔چنانچہ ایسے لوگوں کو مخاطب ہوتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ کے صحابہؓ کی طرح نمازیں ادا نہیں کرتے ۔ بلکہ آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز کو بہت جلد جلد مُرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ہمیں خشوع اور خضوع اور پورے آداب کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 258۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ نماز کو سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 445۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک اور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں صدقِ دل سے دعا کرنی چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ ہم نمازیں پورے آداب سے اور تعدیلِ ارکان پورے طور پر ملحوظ رکھ کر ادا کر رہے ہیں۔ ہر رُکن کو احتیاط سے اور پوری توجہ کے ساتھ ادا کر رہے ہیں۔

بعض لوگوں کی نمازوں کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:

‘‘ گویا وہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کا ادا کرنا ایک بوجھ ہے۔ اس لیے اس طریق سے ادا کیا جاتا ہے جس میں کراہت پائی جاتی ہے۔ حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق، اُنس اور سرور بڑھتا ہے۔ مگر جس طرز پر نماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضورِ قلب نہیں ہوتا اور بے ذوقی اور بے لُطفی پیدا ہوتی ہے۔ ’’
آپؑ مزید فرماتے ہیں:‘‘مَیں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں۔ بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔’’

(ملفوظات جلد 3صفحہ 443تا 444۔ ایڈیشن 1985ءمطبوعہ انگلستان)

یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نےدعا یا نماز کے لیے اقام الصلوٰۃ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اقام الصلوٰۃ کے کیا معنی ہیں؟ اس کا مطلب نماز کو کھڑا کرنا اور ادا کرنا ہے۔ یعنی یہ کہ جب نماز کا وقت ہو تو اسے ہر کام اور مصروفیت پر فوقیت دی جائے۔ اور اسے با جماعت ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ جب تک ایک شخص نماز قائم نہیں کرتا اس وقت تک وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اقام الصلوٰۃ کے معنی ایک اور رنگ میں واضح فرمائے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اَقِیْمُوْا الصَّلوٰۃ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے ۔ کیونکہ اگر کسی شخص کی توجہ قائم نہیں رہتی تو نماز کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاتے ۔ مگر جو شخص اقام الصلوٰۃ کرتے ہیں تو اس کی روحانی صورت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہو جاتے ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3صفحہ 444۔ ایڈیشن 1985ءمطبوعہ انگلستان)

یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے واضح فرمایا ہے کہ جو لوگ توجہ کے ساتھ نماز ادا کرنے سے قاصر ہیں وہ صلوٰۃ کے حقیقی مقصد کو پا ہی نہیں سکتے۔ اگر ایک شخص نماز کے لیے کھڑا ہو مگر اس کا ذہن کہیں اَور ہو اور اُس کی توجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ کہیں اَور بٹی ہوئی ہو تو نماز کے مقاصد پورے نہیں ہوں گے۔ اس کے بر عکس وہ لوگ جو پوری توجہ سے نماز ادا کرتے ہیں اور نماز کے دوران اپنے ذہنوں کو خیالات سے خالی کر دیتے ہیں توایسے لوگ نماز سے حقیقی روحانی فائدہ اُٹھانے والوں میں سے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور کامل طور پر جھکتے ہوئے ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کےلیے اخلاص ،عاجزی اور انکساری شرط ہے۔ یقیناً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں کی نمازیں اُن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں اور اُن کی تباہی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ آپ کو حیرانی ہو رہی ہو گی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے لیے نمازیں اُن کی تباہی کا موجب بنتی ہیں؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس سوال کا جواب دیا ہوا ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ بعض لوگ اخلاص کے بغیر دعائیں کرتے ہیں۔ اُن کی نمازیں روحانیت سے خالی ہوتی ہیں اس کے نتیجہ میں وہ اُس روحانی سایہ کے نیچے آنے سے محروم رہ جاتے ہیں جو مومنوں کو غلط کاریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کے بر عکس وہ ایسی نماز ادا کرتے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ لعنت بھیجتا ہے۔ اُن کی غیر مخلصانہ اور کھوکھلی دعائیں ردّ کی جاتی ہیں اور اُن پر ماری جاتی ہیں۔ پس اُن کی خالی دعائیں لعنتی ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے والی ہیں نہ کہ راحت اورآرام۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ نماز ایسی شئے ہے کہ سیّئات کو دُور کر دیتی ہے۔جیسےسورہ ہود آیت 115 میں فرمایا : اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ۔یقیناً نماز کُل بدیوں کو دُور کر دیتی ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 445۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کے سالانہ اجتماع 2018ء کے موقع پر حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کا ایک روح پرور منظر

پس نماز پاک ہونے اور ہر قسم کی بدیوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ حسنات سے مراد نماز ہے۔ مگر آج کل یہ حالت ہو رہی ہے کہ عام طور پر نمازی کو مکّار سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیا ہے کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا۔ اُن کی نمازیں خالی ہیں اور تقویٰ کی بجائے وہ اُن کی تباہی کا موجب بنتی ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 445۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

ایک اَور موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے ترجمہ کو سمجھنے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نماز طوطے کی طرح مت پڑھو۔ سوائے قرآن شریف کے جو ربِ جلیل کا کلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول تھیں۔ نماز بابرکت نہ ہو گی جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو۔

آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعاؤں کو پیش کرے اور رکوع میں، سجود میں مسنون تسبیحوں کے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے۔ ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں۔

فرمایا کہ نماز کا تعہد کرو جس سے حضور اور ذوق پیدا ہو۔ فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طول دو۔ اور چاہیے کہ اس میں گریہ و بکا ہو۔ تاکہ وہ حالت پیدا ہو جاوے جو نماز کا اصل مطلب ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 445۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے متعدد اقتباسات پیش کیے ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ پنجوقتہ نماز کی بروقت اور توجہ کے ساتھ ادائیگی کتنی عظیم اہمیت کی حامل ہے۔ پس تمام خدام اور اطفال کو ہر حال میں نمازوں کو مقدم رکھنا چاہیے اور انہیں توجہ اور جو اُس کا حق ہے اس کے مطابق انہیں ادا کرنا چاہیے۔

جیساکہ مَیں نے پہلے کہا ‘صلوٰۃ’ کا مرکزی عنوان صرف ایک سال کے لیے نہیں ہے بلکہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی بابرکت اور خوشحال ہو تو نماز وہ سنہری کنجی ہے جسے کبھی نہ چھوڑیں۔ اگر آپ حقیقی مومن بننا چاہتے ہیں اور شرائط بیعت کے پابند ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سنجیدگی کے ساتھ پنجوقتہ نماز میں باقاعدہ ہونا پڑے گا۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو جیسا کہ اُس نے بتایا ہے آپ کو اُس کے حضور سر بسجود ہونا پڑے گا۔ جب تک آپ اپنی توجہ اور اپنی استطاعت کو نماز اور عبادت کی طرف مرکوز نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ آپ سے مطمئن نہیں ہو گا۔

آپ پر اللہ تعالیٰ کی عبادت فرض ہے۔ اگر آپ اُسے نظر انداز کریں گے اور دنیاوی خواہشات کی طرف توجہ دیں گے تو شاید دنیاوی عیش و عشرت اور آرام حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو جائیں گے لیکن یاد رکھیں کہ ایک حقیقی مسلمان کی توجہ اگلی زندگی کی طرف مرکوز ہوتی ہے جو دائمی ہے نہ کہ اِس عارضی دنیا کی طرف جس کی خوشیاں تھوڑے عرصہ کے لیے ہیں۔ پس دائمی خوشیاں صرف اور صرف دعاؤں سے حاصل ہو سکتی ہیں۔

اگر ہم نماز میں باقاعدہ ہیں اور ہم اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ دعائیں کر رہے ہیں تو ہماری زندگیاں کامیاب ہونے کے قابل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ہم بدیوں، گناہوں اور بداخلاقیوں کے شکنجے سے آزاد ہو جائیں گے ۔

ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہو گا جو اپنے خالق کے حقوق اور ایک دوسرے کے حقوق دونوں ادا کرنے والے ہیں ۔ہمارا شمار اُن لوگوں میں ہو گا جو معاشرے میں پیار، رواداری اور ہمدردری پھیلانے والے ہیں۔ ہم حقیقی مسلمان ہوں گے۔ ہماری نمازیں ردّ ہونے اور ہمارے لیے لعنت کا باعث بننے کی بجائے ہمیں اپنے خالق کی طرف رفعت بخش رہی ہوں گی اور ہماری زندگیوں میں برکات کو بڑھانے کا ذریعہ ہوں گی۔پس ہر احمدی مسلمان کو مسلسل نماز کی طرف اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ رکھنی چاہیے خواہ وہ بچہ ہو، نو جوان ہو، جوان ہو یا بوڑھا ہو۔ اور ہر احمدی مسلمان کو اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی دعائیں خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہوں۔

آخر پر مَیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک اَور اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں دعاؤں کی بے مثال برکات کا ذکر ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ حصولِ فضل کا اقرب طریق دعا ہے اور دعا کامل کے لوازمات یہ ہیں کہ اس میں رِقّت ہو۔ اضطراب اور گدازش ہو۔ ’’ فرمایا: ‘‘جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے۔ ’’(ملفوظات جلد 6 صفحہ 93۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)پس جب آپ عاجزی اور کرب کی حالت میں دعا کرتے ہیں اور اس طرح دعا کرتے ہیں کہ آپ کی دعائیں دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ کی برکات آپ کی طرف کھچی چلی آتی ہیں۔

مَیں تہِ دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس طریق پر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ کی دعائیں جذبات، اخلاص اور درد سے بھری ہوئی ہوں جو آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیار اور قرب نصیب کر رہی ہوں۔ سجدے کی حالت میں ہمارے دل اپنے آقا کے حضور پگھل رہے ہوں ۔ہم ایسی عاجزی اور ہمہ نیستی کے ساتھ دعا کرنے والے ہوں جس میں ہمارے وجود کا ہر ذرّہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کی حالت میں ہو۔
دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی ایسی دعائیں یقیناً قبول ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں جو ہمارا حقیقی مقصد ہے۔اگر ہم اس طریق پر عبادت کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو ہم نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے بلکہ ہم انسانیت کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوں گے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور قرب پا گیا ہو اور وہ اُس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے سے غافل ہو۔پس اِنہیں دو مقاصد کے لیے اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بعثت ہوئی ہے تا کہ بندے کو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو اور انسانیت کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر ہم ان دو مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اُس روحانی مشعل کو پکڑنے کے قابل ہو جائیں گےجن کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے تو پھر بلا شبہ دنیا کی توجہ ہماری طرف ہو گی اور ہماری طرف مائل ہونے والے لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی۔ تب ہی ہم اسلام کے حقیقی پیغام کو پھیلانے اور لوگوں کو اس طرف لانے کی ذمہ داری ادا کرنے والے ہوں گے۔یہ وہ عظیم کام اور مشن ہے جسے مجلس خدام الاحمدیہ کو اخلاص کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔

آپ کو دن رات اُن لوگوں کا ردّ کرنے کے لیے جو اسلام کے نام کو بدنام کررہے ہیں یا اسلام پر بے بنیاد الزامات لگا رہے کام کرناچاہیے۔آپ لوگوں کو اسلام کی روشن تعلیمات کو دور دور تک پھیلانے کے لیے پیش پیش ہونا چاہیے تاکہ ہم وہ بابرکت دن دیکھنے والے ہوں جب دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے متحد ہو گی۔ آپ لوگوں کا شمار اُن لوگوں میں ہونا چاہیے جو اپنے دین کی خاطر ہر چیز کو قربان کرنے کے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ تب ہی آپ دنیا میں انسانیت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف لانے والے روحانی انقلاب کو برپا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ تب ہی ہم آج کی کالی گھٹاؤں کو صاف نیلے آسمان میں بدلتا ہوا دیکھیں گے۔ تب ہی ہم اُس انتہائی اہم زمانے کے گواہ ہوں گے جب اللہ تعالیٰ کی شریعت دنیا بھر میں حاوی ہو گی۔ پس اس عظیم کام کے لیے آپ کو ہمیشہ تیار اور مستعد رہنا چاہیے۔ آخری دم تک اسے اپنی زندگیوں کا اوّلین کام اور مقصد سمجھیں۔

جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا یہ کام صرف ایک سال یا چند دنوں کا نہیں ہے بلکہ یہ کام آپ کی پوری زندگی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ یہ آپ کی زندگیوں کا واحد مقصد ہے جسے آپ کو چھوٹی عمر سے ہی سمجھنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کے مطابق اپنی زندگیوں کوگزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے مجلس خدام الاحمدیہ کو برکات سے نوازتا رہے ۔ آمین۔ اب میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں۔

(ترجمہ:فرّخ راحیل۔ مدیر اردو ، اسماعیل میگزین)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button