الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم محسن محمود صاحب

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ امریکہ نومبرودسمبر 2012ء میں نیویارک جماعت کے مخلص ایفروامریکن احمدی محترم محسن محمود صاحب کا تفصیلی ذکرخیر شامل اشاعت ہے جن کی وفات 19؍اکتوبر2012ء کو 87سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کچھ عرصہ سے بوجہ کینسر علیل تھے۔

مکرم شعیب ابوالکلام صاحب لکھتے ہیں کہ محترم محسن محمود صاحب نیویارک کے ابتدائی احمدیوں میں شامل تھے اور 2009ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے نام پر جاری Lifetime Achievement Award آپ کو پیش کیا جاچکا تھا۔ آپ نے مقامی جماعت کے نائب صدر اور سیکرٹری تبلیغ کے طور پر سالہاسال نہایت مخلصانہ خدمت کی توفیق پائی۔

مکرم محسن محمود صاحب کے والدین بارباڈوس سے ہجرت کرکے نیویارک میں آباد ہوئے تھے اور یہیں 1925ء میں آپ پیدا ہوئے۔ تین سے انیس سال کی عمر تک آپ کی پرورش مختلف عیسائی فیملیوں میں Foster child کی حیثیت سے ہوتی رہی۔ 1944ء میں آپ فوج میں بھرتی ہوگئے اور 1946ء تک جنگ عظیم دوم کے دوران نیوگنی اور فلپائن میں متعین رہے۔ جنگ کے اختتام پر نیویارک آکر آباد ہوگئے اور ایک کمپنی میں ملازمت کرلی جو قریباً 34 سال تک جاری رہی۔

نیویارک واپس آجانے کے بعد جلد ہی آپ نے مذہب کے حوالہ سے سچائی کی تلاش کا آغاز کیا تو آپ کی ملاقات سرِ راہ تبلیغ کرنے والے چند احمدیوں سے بھی ہوئی جن کے ساتھ گفتگو کرکے آپ نے بہت اطمینان محسوس کیا۔ پھر آپ احمدیہ مشن ہاؤس جانے لگے اور مکرم غلام یٰسین صاحب (مبلغ انچارج) سے بہت متأثر ہوئے جو 1947ء سے 1956ء تک نیویارک مرکز میں متعیّن رہے تھے۔ جلد ہی احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ اُن کے ہمراہ مختلف گرجوں اور تعلیمی اداروں میں تبلیغی لیکچرز کے لیے بھی جاتے رہے۔ اسی دوران آپ نے اپنا اسلامی نام محسن محمود پسند کیا۔ پہلے آپ کا نام Louis تھا۔

آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ ہر نئی طبع ہونے والی کتاب آپ خود خرید کر پڑھتے اور تبلیغ کے لیے تحفۃً بھی تقسیم کرتے۔وفات سے قریباً ایک سال قبل آپ علیل ہوگئے لیکن تبلیغ کا سلسلہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہا۔

سن پچاس کی دہائی کے آخر میں آپ نے چند احمدی دوستوں کو ساتھ ملاکر کچھ رقم جمع کی اور ایک پرانا فوٹو کاپیئر خرید لیا۔ اُس سادہ فوٹوکاپیئر میں نقل تیار کرنے کے لیے ایک ایک کاغذ manually ڈالنا پڑتا تھا۔ لیکن تبلیغ کا جذبہ اس قدر تھا کہ یہ نَوجوان بڑی لگن اور محنت سے پہلے کوئی تبلیغی پمفلٹ ٹائپ کرتے اور پھر ساری رات اس کی نقول تیار کرتے رہتے۔ یہ لوگ نیویارک کے مرکز میں تبلیغی سٹال بھی لگاتے جس پر بینر آویزاں کرتے۔ ایک بار بعض احمدیوں کو پولیس نے حراست میں بھی لیا اور ایک رات حوالات میں گزار کر وہ اگلے روز نئے عزم سے تبلیغ میں مصروف ہوگئے۔

مکرم محسن صاحب 2005ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے لیکن اس سے قبل بھی ہر مالی قربانی میں سرفہرست رہتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہی کیفیت رہی۔ چنانچہ جب جماعت احمدیہ امریکہ نے وقف جدید کے مقابلہ میں اوّل آنے کا قصد کیا تو مکرم محسن صاحب نے دس ہزار ڈالرز کی خطیر رقم پیش کی۔ اسی طرح نیویارک میں مسجد بیت الظفر کی خرید کے لیے بھی آپ نے دس ہزار ڈالرز عطیہ دیے۔

نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے آپ ہمیشہ تیار رہتے۔ آپ کا مقولہ تھا کہ پختہ عزم کامیابی کی کنجی ہے۔ آپ نوجوانوں کو کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ یہ سوچو کہ تم کون ہو اور پھر اپنے دعویٰ کے مطابق عمل کرکے دکھاؤ۔آپ کو جب دعا کے لیے کہا جاتا تو آپ باقاعدگی سے دعا کرتے اور دوبارہ ملنے پر اس بارہ میں پوچھتے۔

آپ نے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ فاطمہ محمود صاحبہ کے علاوہ چار لے پالک بچے بھی چھوڑے ہیں۔

مکرم محسن محمود صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مبلغ سلسلہ مکرم انعام الحق کوثر صاحب اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں کہ آپ نے 1958ء میں مکرم عبداللہ صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی جو اُن دنوں نیویارک جماعت کے صدر تھے۔

محترم محسن محمود صاحب نہایت مخلص اور مستعد احمدی تھے۔ نماز جمعہ کے لیے موسم یا اپنی صحت کی پروا کیے بغیر باقاعدگی سے تشریف لاتے اور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ دعوت الی اللہ کے لیے کتب اپنی گرہ سے خرید کر تحفۃً پیش کرتے۔ ہر ایک سے انتہائی محبت، شگفتہ مزاح، نرم گفتاری اور خوش اخلاقی آپ کی فطرت کا حصہ تھی۔

خلافت کا بہت احترام کرتے اور خلیفۂ وقت کے ہر حکم پر فوری عمل کرتے۔ مسجد کی تزئین کے لیے پھول لگاتے اور پودوں کی آبیاری کرتے۔ آپ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ جب آپ کو نظام وصیت میں شامل ہونے کی تحریک کی گئی تو آپ کے پوچھنے پر بتایا کہ اپنی آمد کا دس فیصد بطور چندہ ادا کرنا ہوگا۔ آپ کہنے لگے کہ مَیں تو پہلے ہی بیس سے پچیس فیصد ادا کررہا ہوں۔ پھر آپ نے وصیت کرلی۔ صرف پنشن پانے کے باوجود آپ کا چندہ اکثر دوسرے لوگوں سے زیادہ ہوتا تھا۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍نومبر 2012ء میں مرحوم کا ذکر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھایا۔

مکرم احتشام الحق محمود صاحب مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ مکرم محسن محمود صاحب بتایا کرتے تھے کہ جب نیویارک جماعت کے صدر عبداللہ بن Hannah صاحب ہوا کرتے تھے جو ایک میوزیشن تھے، وہ اپنے گھر پر ہم میوزیشنز کو اکثر مدعو کیا کرتے تھے جہاں کوئی خاص موضوع زیربحث آتا۔ ایک بار اُن کا موضوع تھا کہ مَیں کون ہوں؟ اُس دن مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ میری جڑیں افریقہ میں ہیں اور مَیں بنیادی طور پر مسلمان تھا۔ یہی سوچ بعد میں میری قبول احمدیت کا باعث بنی۔ اسی طرح کئی دوسرے میوزیشنز بھی احمدی ہوئے۔

اُس وقت کے مبلغ سلسلہ کی طرف سے ہمیں ایک ہدایت یہ کی گئی کہ ہم کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی تلاش کرنے کی کوشش کریں۔چنانچہ بہت سے میوزیشنز تو روزگار کے دیگر مواقع تلاش کرنے میں کامیاب رہے لیکن چند ایک اپنی رواں دواں زندگی میں ہی دوبارہ گُم ہوگئے۔

مکرم محسن محمود صاحب کو اُن دنوں حضرت چودھری محمدظفراللہ خان صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا جب حضرت چودھری صاحبؓ اقوام متحدہ میں خدمات بجالا رہے تھے۔ اسی طرح خلفائے سلسلہ کے ساتھ آپ کی متعدد یادگار ملاقاتیں بھی ہوئیں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 1976ء میں اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مختلف اوقات میں کئی بار امریکہ کے دورے فرمائے۔

………٭………٭………٭………

محترم شیخ محمد اکرام صاحب

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا فروری 2012ء میں محترم شیخ محمد اکرام صاحب (آف نوید جنرل سٹور ربوہ) کا ذکرخیر اُن کے بیٹے مکرم محمد اعزاز نوید صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مکرم شیخ محمد اکرام صاحب 13؍نومبر 2010ء کو 81 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ 1930ء میں فضل محمد صاحب کے ہاں جالندھر (انڈیا) میں پیدا ہوئے اور میٹرک وہیں سے کیا۔ والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہوگیا۔ آپ کی والدہ، سات بھائی اور دو بہنیں پاکستان بننے کے بعد جہلم آکر آباد ہوئے۔ انٹرکرنے کے بعد آپ پاک بحریہ کے شعبہ ٹیلی کمیونیکیشن میں ملازم ہوگئے۔ دورانِ ملازمت ریپبلک ایوارڈ سے نوازے گئے اور نیوی کے بہترین ایتھلیٹ بھی رہے۔ اسی دوران 1954ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔

محترم شیخ صاحب دس سال کی ملازمت کے بعد اپنی اہلیہ کے مشورہ پر ریٹائرمنٹ لے کر ربوہ منتقل ہوگئے اور 1960ء میں گولبازار میں کاروبار شروع کیا۔ بعدازاں 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپ کو ہنگامی حالات میں بحریہ میں کچھ عرصہ خدمت کا دوبارہ موقع ملا۔

آپ کے سارے خاندان والے احمدیت کی وجہ سے مخالفت کرنے کے باوجود آپ کی خودداری اور خوش مزاجی کی وجہ سے عزت بھی کرتے۔ اسی طرح آپ کی والدہ بھی مخالفت کے باوجود آپ سے بہت محبت کرتی تھیں چنانچہ حج سے واپسی پر سیدھی آپ کے پاس ربوہ آئیں اور دیگر بچوں کی مخالفت کے باوجود کچھ عرصہ ربوہ میں مقیم رہیں۔

مکرم شیخ صاحب خوش اخلاق اور خوش وضع انسان تھے۔ خوراک ہر قسم کی مگر اعتدال کے ساتھ استعمال کرتے۔ جمعہ کے دن گھر میں خاص اہتمام ہوتا۔ اُس روز آپ کی اہلیہ خاص کھانا بناتیں، سارا گھرانہ درودشریف پڑھتے ہوئے مسجد جاتا۔

محترم شیخ صاحب کی زندگی بہت منظّم تھی۔ اپنا کاروبار ہونے کے باوجود آپ وقت کی پابندی کا ہمیشہ خیال رکھتے۔کہتے تھے کہ اشتہار کی بجائے دیانتداری اور حسن خلق ہی کاروبار میں ترقی کی ضمانت ہے۔ کبھی کسی سے کاروباری رقابت نہیں رکھی۔ نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو دیانتدارانہ مشورہ دیتے اور حسب ضرورت لاہور جاکر سامان خریدنے میں بھی اُن کی مدد کرتے۔ کچھ عرصہ ربوہ ٹریڈ یونین کے صدر بھی رہے۔

کرکٹ سے دلچسپی تھی اور پاکستان کی ٹیم کا ریکارڈ بھی رکھتے۔ اپنی ٹیم کی جیت کی خوشی میں مٹھائی بھی بانٹتے لیکن ہار کی صورت میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے تھے۔

آپ کی شادی 1957ء میں مکرمہ کنیز رسول طاہرہ صاحبہ سے ہوئی۔ وہ بھی دعاگو، تہجد گزار اور غریب پرور خاتون تھیں۔ تیسرے حصہ کی موصیہ تھیں۔ محلہ کے غرباء کو خاص طور پر گھر پر لگائی ہوئی سبزیاں بھجواتیں۔ مہمانوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت سمجھ کر شوق سے خاطر مدارات کرتیں۔ جلسہ کے دنوں میں تو کثرت سے مہمان آتے جن کے آرام کا خاص خیال رکھتیں۔ عائلی زندگی بھی قابلِ رشک تھی۔ بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا۔ فجر کی نماز باجماعت ادا کروانے کے لیے سختی کرتیں اور پانی کے چھینٹے دے کر اٹھاتیں۔ وفات سے پہلے لمبا عرصہ جوڑوں کے درد کی تکلیف میں مبتلا رہیں اور بہت صبر سے بیماری برداشت کرتی رہیں۔ اُن کی وفات 10جنوری 1996ء کو 63 سال کی عمر میں ہوئی۔

مکرم شیخ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں۔ آپ اپنی ایک بیٹی کا بہت خیال رکھتے جو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور تھی۔ وہ بھی آپ سے بہت اٹیچ تھی۔ چنانچہ آپ کی وفات کا صدمہ اُس پر اتنا گہرا ہوا کہ صرف تین ہفتے بعد ہی اُس کا بھی انتقال ہوگیا۔

………٭………٭………٭………

جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ‘‘النور’’ اکتوبر 2012ء میںمکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

خلوصِ دل سے جو خالی ہو دوستی کیا ہے
دلوں کو نُور نہ بخشے وہ روشنی کیا ہے
ہجومِ یاس میں بس اِک وہی سہارا ہے
اگر وہ تھام لے مجھ کو تو پھر کمی کیا ہے
سجی ہوئی ہے جو یہ کائنات جس کے طفیل
دلوں میں وہ نہیں بستا تو زندگی کیا ہے
نصیب جس کو غلامی ہو شاہِ بطحاؐ کی
نظر میں اُس کی بھلا تاج و سروری کیا ہے
خوشانصیب جنہیں مل گیا وصالِ حبیب
وہی سکھاتے ہیں دنیا کو عاشقی کیا ہے
خدا کی راہ میں مر کر جو ہو گئے زندہ
انہی کے دَم سے کُھلا رازِ سرمدی کیا ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button