متفرق مضامین

پیاری امّی جان مکرمہ امۃ الرشید حبیبہ صاحبہ کی یاد میں

(ڈاکٹر محمد احمد۔ مانچسٹر۔ یوکے)

میری والدہ محترمہ امۃالرشید حبیبہ صاحبہ زوجہ حوالدار محمد شفیع صاحب دارالنصر غربی ربوہ حال مانچسٹر 29؍ستمبر 2017ء بروزجمعۃالمبارک مانچسٹر (یُوکے) میں وفات پاگئیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت والی لمبی زندگی عطا کی اور پورے 84 سال حیات رہیں مگر پھر بھی یوں لگتا ہے کہ امّی جلد چلی گئیں۔

میری امّی متقی، پرہیزگار، نماز روزہ کی پابند، تہجد گزار، ہر صبح باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی، صاحبِ رؤیا، دعا گو، قناعت پسند اور نہایت صابر خاتون تھیں جنہوں نے بڑی ہمّت کے ساتھ کئی آزمائشوں کا مقابلہ کیا اور اللہ کے فضل سے ایک اچھے روشن مستقبل کو تعمیر کیا۔ ان آزمائشوں میں پاکستان کے قیام کے وقت ہجرت کرنا اور پھر پاکستان میں حالات کی وجہ سے مستقل ہجرت کرکے برطانیہ آنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح میرے والد محترم مکرم محمد شفیع صاحب (ریٹائرڈ حوالدار) مانچسٹر (یُوکے) میں 2009ء میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی زندگی بھی ایک مثالی فدائی احمدی، نڈر داعی اور صابر احمدی کا کمال نمونہ تھی۔ والد محترم کا ذکرخیر روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 27؍مارچ 2015ء میں شائع ہوچکا ہے۔ میرے والدین کا ازدواجی زندگی کا سفر 65 سال پر محیط تھا۔ میری والدہ نے آٹھ سال کا بیوگی کا عرصہ بہت صبر و تحمل کے ساتھ اپنی بیٹی اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ مانچسٹر میں ہی گزارا۔

میری امّی 27 جون 1933ء کو پیدا ہوئیں۔ اُن کا تعلق قادیان کے نزدیکی گاؤں ننگل سے تھا۔ باوجود قادیان کے قریب رہنے کے، ان کے خاندان نے احمدیت قبول نہ کی۔ میری امّی کے والد محترم مہر دین اور والدہ مکرمہ برکت بی بی، دونوں حضرت مسیح موعودؑ کے بابرکت وقت میں قادیان کے قریب ہی موجود تھے۔ میری امّی کی دادی جان نے کئی بار حضرت مسیح موعودؑ کا دیدار کیا تھا جس کا تذکرہ وہ امّی سے کیا کرتی تھیں کہ انہوں نے حضرت صاحب کو صبح سویرے چند آدمیوں کے ساتھ سیر کو جاتے کئی بار دیکھا تھا۔ حضرت صاحب تیز تیز چلا کرتے تھے اور ساتھ کوئی لکھا بھی کرتا تھا۔

امّی کی دادی جان سوداسلف لانے کے لیے اکثر قادیان جایا کرتی تھیں اور آپ کو بھی اپنے ہمراہ لے آتیں۔ کبھی کبھی قادیان میں ننگل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو ملنے بھی جایا کرتیں جو حضرت امّاں جانؓ کی ملازمہ تھیں ۔ چنانچہ میری امّی کو کئی بار حضرت امّاں جانؓ سے ملنے اور اُن کی باتیں سننے کا شرف بھی حاصل ہوچکا تھا۔ امّی کی دادی کہا کرتی تھیں کہ قادیان میں اس قدر امن، سکون اور ایک ایسی خوشبو ہے جو کہیں اَور نہیں ملتی۔ امّی قریباً پندرہ سال کی تھیں کہ قیامِ پاکستان ہوا اور ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کو ہجرت کرنا پڑی اور پھر قادیان آنے جانے کے واقعات بھی خواب ہی بن گئے۔ امّی بتایا کرتی تھیں کہ قادیان آس پاس کے علاقوں سے بہت ہی مختلف تھا۔ قادیان میں عورتیں ایک دوسرے کو سلام کرتیں۔ آپ کے پوچھنے پر دادی بتاتیں کہ وہ اس عورت کو نہیں جانتیں لیکن یہ قادیان کا رواج ہے۔ قادیان کے لوگ قرآن کریم پڑھتے اور نمازوں کے وقت مسجد کی طرف ٹولیوں میں جاتے نظر آتے۔ دکاندار بہت خوش اخلاق اور ایماندار تھے اور قادیان کے لوگ یوں تھے کہ جیسے زمین پر فرشتے ہوں۔

امّی حضرت امّاں جانؓ سے ملاقات کا حال بھی بتایا کرتیںاور بتایا کرتیں کہ مَیں اُن کے پاؤں دباتی۔ وہ ایک تخت پوش پر بیٹھی ہوتی تھیں۔ گھر میں ایک عجیب خوشبو ہوتی تھی۔ کبھی کبھی اُن کے پاس موتیے کے پھول بھی ہوتے تھے۔ حضرت امّاں جان میرے پاؤں دبانے پر مجھے پیار کرتیں۔ دو دفعہ انہوں نے مجھے اپنے ہاتھوں سے کھیر کھلائی اور مجھے دعائیں دیں، میری دادی کو کہا کہ تمہاری پوتی بہت نیک ہے۔امّی کو حضرت امّاں جانؓ کے گھر کا نقشہ بھی ابھی تک یاد تھا۔ شاید یہ حضرت امّاں جانؓ کی دعائیں ہی تھیں کہ صرف میری امّی کو اپنے سارے خاندان میں سے اکیلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی اور آپ دنیاوی طور پر بھی سب سے خوشحال زندگی گزارنے والی تھیں۔ امّی کہتی تھیں کہ مَیں ناچیز کس قدر خوش نصیب ہوں جس نے احمدیت کو اپنی زندگی میں دو پی ایچ ڈی ڈاکٹر دیے میرا بیٹا ایمپیرئل کالج لندن سے فزکس ڈاکٹر اور پوتا اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ سے الیکٹرانکس کا ڈاکٹر ہے۔ الحمدللہ

امّی بتاتی تھیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد پہلے تو خیال تھا کہ ہندوستان کے علاقوں میں رہنے والے مسلمان وہیں رہتے چلے جائیں گے اور جب سکھوں نے حملے شروع کردیے تو بھی یہی خیال تھاکہ چند دن میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ اسی دوران آپ کی شادی کردی گئی اور آپ بیاہ کر قادیان آگئیں۔ جب ننگل کے قریبی گاؤں میں قتل عام ہوا اور زیرہؔ میں بہت سی عورتوں کو قتل کردیا گیا تو ان حالات میں آس پاس کے دیہات سے ہزارہا لوگ قادیان میں جمع ہوگئے۔ پھر یہاں سے ایک بڑا قافلہ پاکستان کے لیے روانہ ہوا جس میں امّی بھی شامل تھیں۔ یہ قافلہ کئی دن کے سفر کے بعد پاکستان پہنچا۔ اس دوران کئی بار اس کے مختلف حصوں پر سکھ حملہ کرتے اور چیخ و پکار شروع ہوجاتی۔ اسی دوران امّی کے والد کا ایک سکھ دوست اُنہیں ڈھونڈتا ہوا اس قافلہ تک پہنچا اور گُڑ اور بھُنے ہوئے چنوں کی ایک بوری اُنہیں دی چنانچہ راستہ میں سب گھر والوں کو تھوڑا سا گُڑ اور مٹھی بھر چنے روزانہ ملتے رہے۔بارش اکثر ہوتی تھی اور قافلہ میں چلنے والے کیچڑ میں لت پت ہوجاتے۔ جگہ جگہ کچھ زندہ زخمی اور بے شمار لاشیں نظر آتیں۔ ایک نہر لاشوں سے بھری ہوئی نظر آئی۔ ماحول شدید بدبو سے بھرا ہوا تھا۔ بہرحال تھکادینے والے سفر کے بعد نَو دنوں میں یہ قافلہ ڈیرہ بابا نانک سے ہوتا ہوا پاکستان کے شہر نارووال پہنچا۔

اگرچہ پاکستان میں جان کا خطرہ تو نہیں تھا لیکن بھوک، افلاس، بیماری اور صفائی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے موت کا کھیل جاری رہا۔ ہیضہ کی وبا نے کئی جانیں لے لیں۔ امّی کے ابّا بھی ہیضہ کی وجہ سے وفات پاگئے اور اُن کی موت کی خبر سُن کر امّی کی دادی بھی وفات پاگئیں۔ اس طرح دو جنازے اکٹھے ہوگئے۔ پھر بقیہ خاندان سیالکوٹ چلا آیا اور وہیں ایک قریبی گاؤں میں زمین ان کو الاٹ ہوگئی۔ لیکن وہاں کا پانی بہت خراب تھا اس لیے کچھ عرصہ بعد سب فیصل آباد آگئے۔ اسی دوران 1952ء میں میرے والد صاحب نے ربوہ میں رہائشی زمین خرید لی۔ وہ پہلے برٹش آرمی میں تھے اور پاکستان بننے کے بعد پاکستانی فوج کا حصہ بن گئے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں متعیّن رہے اور امّی بھی اُن کے ساتھ ہی تھیں۔

امّی نے اگرچہ تین چار کلاسیں پڑھی تھیں لیکن پاکستان میں پہلے بچے کی پیدائش کے بعد دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر آپ نے اپنے بڑے بیٹے کو نہ صرف ابتدائی تعلیم دی بلکہ قرآن کریم بھی پڑھایا اور تیسواں پارہ اُسے زبانی یاد کروایا۔ مختلف مقامات پر قیام کے دوران لوگ اگرچہ احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کی مخالفت تو کرتے لیکن امّی کے چھوٹے سے بچے کی زبانی قرآن کریم سُن کر حیران بھی ہوتے۔ بعض لوگ تو دُشمنی کی انتہا کردیتے۔ چنانچہ کوئٹہ میں ایک ہمسائے نے امّی کی پالتو مُرغیوں کو اس لیے مار دیا کہ یہ قادیانی کی مُرغیاں ہیں۔ امّی کو بہت صدمہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد اُس ہمسائے کو ایک مصیبت نے گھیر لیا اور اسے تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑا ۔اس پر لوگ برملا کہنے لگے کہ اُس شخص نے مُرغیوں کو مارنے کی سزا پائی ہے۔

میری امّی کو کپڑے پر کروشیا سے کڑھائی کرنے میں بھی مہارت حاصل تھی۔ اس فن پر اُنہیں فوج کی طرف سے بھی کئی انعام ملتے رہے۔ نیز اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اردو اور بابا بُلھے شاہ کے پنجابی کلام کا بہت سا حصہ بھی زبانی یاد تھا۔ وہ اپنی گفتگو میں جب اشعار بھی پڑھتیں تو گفتگو کو چارچاند لگ جاتے۔ کوئٹہ میں قیام کے دوران ایک میجر صاحب کی بیوی (جو سیّدزادی تھیں) میری اُمّی کی بہت عزّت کرتی تھیں۔ جب اُنہیں کسی نے بتایا کہ شوکت کی امّی قادیانی ہیں اس لیے ان سے عزت والا سلوک نہ کیا کریں تو جواباً انہوں نے کہا کہ وہ اعلیٰ اخلاق والی، نرم مزاج، سلیقہ مند اور قرآن کریم پڑھنے والی عورت ہے اور اچھی مسلمان ہے۔ اس واقعہ کے بعد وہ دوسری عورتوں کی موجودگی میں امّی کی نمایاں عزت افزائی کرنے لگیں۔

جب ابّاجان کوئٹہ چھاؤنی میں EME میں مکینک تھے تو بیس کے قریب لوگ آپ کے معاون کے طور پر کام کررہے تھے۔ آپ جب جمعہ کی نماز کے لیے کوئٹہ احمدیہ مسجد میں جاتے تو وہاں سے الفضل اخبار اور رسالہ لاہور لے آتے۔ گھر میں بھی پڑھتے اور کام کی جگہ پر بھی لے جاتے۔ کچھ عرصہ بعد کسی بنگالی نے صوبیدار کو اس کی شکایت کی کہ گویا آپ کام کی جگہ پر تبلیغ کرتے ہیں۔ صوبیدار نے بنگالی سے تحریر لکھواکر کرنل کو شکایت کردی۔ کرنل نے وضاحت کا نوٹس بھیجا تو آپ بہت پریشان ہوئے کہ کس چیز کی وضاحت! حضرت مصلح موعودؓ کو دعا کے لیے لکھا تو چند روز بعد بہت تسلّی بخش جواب بھی آگیا۔ پیشی کا دن آیا تو کرنل صاحب نے شکایت ردّ کردی اور آپ کو صرف اتنا کہا کہ جماعت کا لٹریچر یا اخبار گھر پر رکھا کریں، کام کی جگہ صرف کام ہونا چاہیے۔

کچھ دن بعد بنگالی سپاہی نے ابّاجان کو بتایا کہ مَیں نے تو باتوں باتوں میں صوبیدار سے بات کی تھی لیکن اُس نے اس کو باقاعدہ شکایت والا معاملہ بنادیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صوبیدار کی بھی جواب طلبی جلد ہی ہوگئی۔ چند ہفتے گزرے تھے کہ صوبیدار کو گاؤں سے خط ملا کہ زمین کے تنازعے پر پورے خاندان میں جھگڑا شروع ہے اور عدالتی کارروائی شروع ہونے والی ہے۔ اس پر اسے فوج کی نوکری چھوڑ نا پڑی اور پورا خاندان گاؤں چلا گیا۔

امّی کو کھانے پکانے کا کافی شوق تھا اور وہ ہر قسم کے کھانے پکالیتی تھیں۔ 1965ء میں ابّاجی کے تحت فوج میں قریباً بیس بنگالی افراد کام کرتے تھے۔ وہ غریب لوگ تھے اور اُن کو عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن میری امّی اُن کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتی تھیں۔ اُنہیں اردو سکھاتی تھیں اور اُن سے بنگالی زبان اور بنگالی کھانے بنانا سیکھتی تھیں۔ ایک بنگالی عورت نے امّی سے کہا کہ میرے خاوند کی ترقی کے لیے دعا کریں جو آٹھ سال سے ایک ہی عہدے پر ہے۔امّی نے اُس کے سامنے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھا تو کچھ ہی عرصہ میں وہ بنگالی ترقّی پاکر مشرقی پاکستان کے کسی مقام پر چلا گیا۔ وہ بنگالی عورت بہت خوش تھی اور کہتی تھی کہ آپ کا پیر بہت اللہ والا ہے۔

1965ء میں پہلی جنگ رَن کچھ میں ہوئی۔ کوئٹہ سے جو فوجی دستہ بھیجا گیا اُس میں ابّاجان بھی بطور مکینک شامل ہوئے۔ فاتح کے طور پر یہ یونٹ واپس کوئٹہ آئی۔ ستمبر میں دوسری جنگ شروع ہوئی تو ابّاجان کی یونٹ کو کھیم کرن محاذ پر بھیجا گیا۔ یہاں بھی فتح ہوئی۔ لوگ کہتے تھے محمد شفیع کی دعائیں یونٹ کے ساتھ تھیں۔ یہ رات دن درودشریف پڑھتا تھا اور دعائیں کرتا تھا۔ اسی جنگ کے دوران میرے بھائی کو میجر صاحب کے گھر میں چوٹ آگئی۔ چند دن کے بعد ابّاجان کا میدانِ جنگ سے لکھا ہوا خط امّی کو ملا کہ جس میں ایک خواب کے حوالہ سے بچوں کا خیال رکھنے کا ذکر تھا۔ یہ خط دیکھ کر میجر صاحب کی اہلیہ بہت حیران ہوکر کہنے لگیں کہ محمد شفیع اللہ کا بندہ ہے، اسے سب نظارہ خواب میں دکھادیا گیا جو یہاں واقع ہوا ہے۔

1965ء کی جنگ ختم ہونے پر ابّاجان کو تمغے اور اسناد ملیں نیز تنخواہ میں بھی اضافہ ہوا۔ امّی نے تنخواہ کی اضافی رقم سے بچت کرکے فیصل آباد میں اپنے رشتہ داروں کے علاقہ میں ایک مکان خریدلیا۔ یہ اُن کی کفایت شعاری کی ایک مثال ہے۔

ابّاجان کوئٹہ کے بعد لاہور میںمتعیّن رہے اور پھر 1969ء میں فوج سے ریٹائرڈ ہوکر فیصل آباد میں اپنے مکان میں شفٹ ہوگئے۔

ربوہ کے پلاٹ پر مکان تعمیر کرنے کے لیے رقم درکار تھی۔ اس لیے امّی نے کرسیوں اور پیڑھیوں کی بنائی کا کام دوسروں کو سکھایا اور اس طرح کچھ آمد پیدا کی۔ اس پر کسی نے امّی سے پوچھا کہ آپ کو کتنے ہُنر آتے ہیں؟ آپ نے اُسے بتایا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک کی تھی کہ احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ ہنر سیکھنے چاہئیں اس لیے احمدیوں کو دوسرے احمدیوں کو ہنر سکھانے چاہئیں۔

1971ء کی جنگ شروع ہوئی تو میرے بڑے بھائی شوکت حسین صاحب پاکستان نیوی میں تھے اور پاکستان نیوی کے سب سے بڑے جہاز ‘پی این ایس بابر’پر تعینات تھے۔ ایک روز اطلاع ملی کہ بھارتی آبدوزوں نے پاکستانی جنگی جہاز بابر غرق کردیا ہے اور اُس پر موجود عملہ کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا ہے۔ سب رشتہ دار اور محلّہ والے فکرمند تھے۔ ابّاجان کراچی میں نیوی کے ہیڈکوارٹر سے اطلاع ملنے کا انتظار کررہے تھے۔ اسی اثنامیں بھائی صاحب کا خط کراچی سے آیا کہ مَیں کراچی میں ہوں۔ جہاز بابر کی روانگی کے وقت مَیں دیر سے پہنچا اور جہاز روانہ ہوچکا تھا اور اب مَیں دوسرے جہاز ‘پی این ایس جہانگیر’کے ذریعہ مشرقی پاکستان جا رہا ہوں۔

ایک خوشی بھی تھی اور فکر بھی تھی کہ بابرؔ جہاز والا معاملہ اس کے ساتھ بھی نہ ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ بعد میں شوکت صاحب کو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جنگی قیدی بناکر دو سال کے لیے بھارت کی فوج نے اپنی تحویل میں رکھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو دعا کے لیے خطوط لکھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور 1972ء میں وہ رہا ہوگئے۔

1974ء میں احمدیت کے خلاف نفرت کی مُہم جاری تھی تو ہم اسلام نگر فیصل آباد میں مقیم تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی احمدی گھرانہ کو لُوٹنے یا آگ لگانے کی خبریں آتی تھیں مگر امّی یا ابّاجان کو کوئی خوف نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا اور والدین اللہ تعالیٰ پر متوکل تھے نیز اگرچہ ہمارے سارے رشتہ دار غیراحمدی تھے لیکن چونکہ دنیاوی طور پر بہت طاقتور تھے اس لیے بھی کسی کی جرأت نہیں تھی کہ ہمارے گھر سے کوئی غلط حرکت کرتا۔ دوسرے میرے والدین کا احترام بھی لوگوں کے دلوں میں تھا۔ لیکن قومی اسمبلی کے فیصلہ کے بعد لوگوں کو دھوکا ہونے لگا کہ ہم شاید واقعی مسلمان نہیں تھے۔ آہستہ آہستہ جو باہمی محبت رشتہ داروں کے دلوں میں تھی وہ کم ہونے لگی۔ محلّہ والے بھی جانتے تو سب کچھ تھے لیکن اپنی مسلمانیت کو ثابت کرنے کے لیے ہم پر طعن بھی کرلیتے۔ مگر امّی کسی سے نہ ڈرتی تھیں نہ کمزوری دکھاتی تھیں۔ ایک دن آپ نے خواب دیکھا کہ حضرت امام حسینؓ اسلام نگر میں آئے ہیں اور اپنا سیاہ رنگ کا جھنڈا آپ کو دیتے ہیں۔

ہمارے محلہ اسلام نگر فیصل آباد میں دو خواتین حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شدید نفرت کا اظہار کرتی تھیں اور اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بارہ میں طعن کرتی تھیں۔ امّی اُن کو بار بار منع کرتے ہوئے کہتیں کہ خدا کا خوف کرو، تمہیں تو اپنا بھی نہیں پتہ کہ کہاں مروگی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وہ دونوں تقریباً دس سال بعد مختلف سالوں میں فوت ہوئیں لیکن اُن کی وفات عبرتناک طور پر پاخانے میں ہوئی اور وہاں سے مُردہ حالت میں نکالی گئیں۔ جن جن لوگوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں گستاخی کی ان لوگوں کی اولادوں میں چوری، جؤا، منشّیات اور جیلوں میں آنا جانا لگا رہنا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ راندہ درگاہ ہیں۔

1978ء میں میرے والدین فیصل آباد سے ربوہ منتقل ہوگئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہاں آکر قادیان کے ماحول کا عکس پڑتا ہے۔ جلسہ سالانہ پر ربوہ اس قدر دلکش حسین نظارہ پیش کرتا تھا کہ وہ لمحے یاد کرکے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔ ہر لمحہ اللہ اللہ۔ نمازیں اور اللہ کے دین اور اللہ کے نبیؐ اور نبیؐ کے عاشق صادق کی باتیں۔ مہمانوں کی آمد، جلسہ گاہ جانا، واپس آنا، کھانا کھانا، نمازیں پڑھنا، رات باتیں کرنا۔ آخر میں مہمانوں کو الوداع کرنا اور اداس ہونا۔ ربوہ کے ہر گھر کی یہی کہانی تھی۔

ربوہ میں رہ کر قادیان کی یاد تازہ کرنے کے لیے امّی اُن عورتوں سے مسجد اقصیٰ میں جمعہ کی نماز کے بعد باقاعدہ ملتی تھیں جو قادیان سے ہجرت کرکے آئی ہوئی تھیں۔ اُن سے مل کر دل بہت خوش ہوتا۔ اُس زمانے میں چند ایک صحابہ اور صحابیات حیات تھے جن کو مل کر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سُن کر اُس دَور میں حاضر ہوجانے کا یقین ہوتا تھا۔ بالآخر یہ لوگ بھی ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ ہمارا گھر حضرت محمد حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کے سامنے تھا۔ صحابی صاحب کی بیوی جو کہ اُمّ اقبال کہلاتی تھیں امّی جان کی بہت دوست تھیں اور اکثر صحابی صاحب کی تبلیغ کے واقعات بیان کرتی تھیں۔ صحابی صاحب کو ہم نے بھی اکثر چلتے پھرتے دیکھا۔ بہت ہی مخلص، سادہ، عبادت گزار، دعاگو، ایک خزانہ جو تبلیغ کے جنون سے پُرہو۔

جون 1982ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کی وفات ہوئی تو دُکھ کا عالم تھا۔ اسی دوران امّی کو خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت میاں طاہر احمد صاحب ہیلی کاپٹر میں ربوہ میں اُتر رہے ہیں اور لوگوں کے سلام کا جواب دے رہے ہیں۔ پھر 1984ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ ہجرت کرکے لندن چلے گئے تو کیسٹس میں خطبات آنے لگے۔ تب آپ سب گھر والوں کو اکٹھا کرکے خطبہ سنتیں۔ حسرت سے کہا کرتیں کہ کاش ہم حضور کے پاس لندن چلے جائیں۔

پاکستان میں احمدی ہنرمندوں کی مخالفت، طلبہ سے یونیورسٹیوں میں ظلم، فوج میں احمدیوں سے نفرت انگیز سلوک، مجمع میں صرف اپنے آپ کو احمدی کہہ دیں تو جان بچانا مشکل ہوجاتی۔ اگرچہ عوام اکثر اس بات کا اقرار کرتے کہ احمدی اچھے سچے شہری ہیں ۔ مگر احمدیوں کو اکثر شہری حقوق سے محروم رکھا جاتا۔

1998ء میں امّی اور ابّاجان پہلی بار لندن میرے پاس آئے۔ پھر 2000ء میں مستقل طور پر یہاں منتقل ہو گئے۔ یوں لگتا تھا کہ 1947ء سے ہجرت کا جو سفر ہندوستان سے شروع کیا تھا وہ یوکے پہنچ کر پورا ہوگیا ہے۔ خلیفۂ وقت سے روبرو ملاقات ہوتی۔ جلسہ سالانہ میں عرصہ دراز کے بعد شرکت اُن کے لیے ایک خواب سے کم نہ تھی۔

لندن میں ربوہ کے احباب سے مل کر بہت خوشی ہوتی۔ ہر فرد کی عجیب کہانی، عجیب داستان ہوتی ۔ اس وقت انہیں بہت خوشی ہوتی جب ایک طرف ایک دوست اور دوسری طرف سے دوسرا دوست آملتا۔

2003ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی اور امی اور اباجان کو حضورؒ کا چہرہ دیکھنے اور نماز جنازہ پڑھنے کی سعادت بھی ملی۔ بعدازاں خلافتِ خامسہ کی پہلی بیعت میں بھی شامل ہوئے۔

2000ء میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں امّی اور ابّا دونوں ایسے علاقے میں رہتے تھے جہاں آس پاس پاکستانیوں کے بہت زیادہ گھر تھے۔ یوں اُن کو کسی قسم کی اجنبیت نہ تھی۔پاکستانی اشیاء کا بازار بھی پاس ہی تھا۔ یوں اُن کو بازار جانے اور اشیائے خورونوش خریدنے میں کوئی دقّت نہیں تھی۔ امّی انگریزی سیکھنے کے لیے ایک پاکستانی لڑکی کے جاری کردہ ادارہ میں بھی جاتی تھیں اور آپ نے کسی حد تک انگریزی بول چال بھی ایک سال میں سیکھ لی تھی۔ جمعہ کا دن میرے والدین بہت اچھے طریقے سے گزارتے۔ تہجد اور فجر کی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ جمعہ کی نماز کے لیے مقامی احمدیہ مسجد جاتے۔ مسجد کے احمدی اس قدر محبت سے پیش آتے کہ اپنے رشتہ داروں کی کمی محسوس نہ ہوتی۔ یوں لگتا جیسے سارے احمدی ایک لڑی میں پروئے ہوئے ایک ہی خاندان میں شامل ہیں۔

امّی کی ہمسایہ عورتیں جب امّی کو ملنے آتیں تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کی اسلام کے بارہ میں MTA پر آنے والی تقریروں کی تعریف کرتیں۔ امّی اُن کو قادیان کے واقعات سناتیں ، حضرت امّاں جان کی شفقتیں بیان کرتیں۔ بتاتیں کہ احمدیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری اولاد کو ساری دنیا میں پھیلا دیا ہے اور سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور احمدیت کے خادم ہیں۔

امّی کو سانس کی تکلیف تھی مگر ہسپتال جانے سے گھبراتی تھیں۔ بدھ کو اُن کی بیٹی ناصرہ نے سانس میں کچھ شدّت محسوس کی تو ایمبولینس منگواکر ہسپتال لے گئی۔ وہاں ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ جسم میں آکسیجن کی شدید کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اس وجہ سے امّی کا کھانا روک دیا گیا۔ جمعرات کو کمزوری ہوگئی لیکن آکسیجن کی مقدار بڑھ نہ سکی۔ جمعہ کے روز آپ کی وفات ہوگئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون

مَیں قازقستان سے پہلے ہی جہاز کی سِیٹ بُک کرواچکا تھا۔ میری آمد سے قبل ہی امّی چل بسیں۔ مانچسٹر میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جسد خاکی لندن لائے جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی۔ جس کے بعد بذریعہ جہاز جنازہ ربوہ لے جایا گیا۔ دارالضیافت میں کثیر تعداد میں محلہ دار، دوست احباب اور احمدی و غیراحمدی رشتہ دار موجود تھے۔

ربوہ کے قبرستانِ عام میں میرے والد مرحوم آسودۂ خاک ہیں۔ وفات سے قریباً دو ماہ قبل صحتمند و توانا حالت میں امّی ربوہ گئی تھیں اور خودچل کر بہشتی مقبرہ میں حضرت امّاں جانؓ اور دیگر مزارات اور ابّاجان کی قبر پر اپنے پانچوں بیٹوں کے ہمراہ دعا کے لیے جاتی رہیں۔مگر کیا علم تھا کہ امّی آخری مرتبہ ابّاجی کی قبر کی زیارت کررہی ہیں۔

مسجد مبارک میں سب احمدیوں اور غیراحمدیوں نے مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کی اقتدامیں نماز جنازہ ادا کی۔ پھر نصیرآباد میں واقع نئے بہشتی مقبرہ میں تدفین کے لیے پہنچے۔ بہشتی مقبرہ میں قبروں کی قطاربندی، ایک ہی طرز کے سفید چاندی نما کتبے، سرسبز درخت اور قبرستان میں موجود عملے کا انتظام دیکھ کر ہمارے غیراحمدی رشتہ دار بہت متأثر ہوئے۔

میری امّی کے ہاں اللہ تعالیٰ نے سات لڑکے اور دو لڑکیاں عطا کیں۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی پانچ سال کی عمر سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے برکت دی اب ان کے خاندان کی تعداد پچاس سے اوپر ہے جو پاکستان، انگلستان، ناروے اور امریکہ میں موجود ہے اور سب کے سب احمدیت کی برکت سے وابستہ اپنے اپنے دائرے میں اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو خادم اسلام و خادمِ احمدیت بنائے۔ آمین

اللہ تعالیٰ ہماری والدہ محترمہ کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائے، اُن کی اولاد میں اُن کی نیکیاں جاری رکھے اور قیامت تک آنے والی اولاد کو خادمِ دین اور نافع الناس وجود بنائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button