حضرت مصلح موعود ؓ

آزمائش کے بعد ایما ن کی حقیقت کھلتی ہے (قسط نمبر 2)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(مسٹر ساگرچندبیرسٹر ایٹ لاء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی نصائح فرمودہ 6؍دسمبر1919ء بیت المبارک قادیان)

امتحان انسان پر اس کی حقیقت کھولتا ہے

بہت دفعہ ہوتا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے کہ میں ایک بات مانتا ہوں لیکن جب امتحان آکر پڑتا ہے تو رہ جاتا ہے کیونکہ پہلے ان تمام باتوں کا جو اس بات کے ماننے میں علائق اور جذبات کی صورت میں مانع ہوتی ہیں اس کو علم نہیں ہوتایا اگر ہوتا ہے تو وہ چیزیں اس کے سامنے نہیں ہوتیں اور جب سامنے آجاتی ہیں تو پھر اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا پہلا خیال کمزور تھا اور ماننے کا دعویٰ درست نہ تھا ۔ بہت لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے ملک سے محبت ہے لیکن جب ایک شخص کو اس وطن سے علیحدہ کیا جاتا ہے اور حکماً کیا جاتا ہے تو وہ ان جگہوں کو دیکھتا ہے ، ان عمارتوں کو دیکھتا ہے ، ان درختوں کو دیکھتا ہے اور دیکھ دیکھ کر رو دیتا ہے۔ اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنے وطن سے کیسی محبت تھی ۔ یہ حالت معمولی لوگوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے علم والوں کی ہوتی ہے ۔ نپولین کے متعلق لکھا ہے کہ جب اس کو انگریزوں نے ماخوذ کر لیا اور اس کو لے چلے تو بادل پھٹا اور اس کو فرانس نظر آیا تو اس نے ٹوپی اتار لی اور کہا ‘‘الوداع اے فرانس’’نپولین کے اس قول کا یہ اثر پڑا کہ وہ انگریزافسر جو اس کے نگہبان تھے انہوں نے بھی اپنی ٹوپیاں اتار لیں۔

فرانس کی محبت کا اظہار جس طرح اس وقت نپولین سے ہوا ، جب وہ فرانس میں ہوتا ہو گا اس کو کبھی محسوس بھی نہیں ہوا ہو گا کہ اس کو اس قدر فرانس سے محبت ہے ۔

ہمارے ملک کا ایک مشہور بادشاہ گزرا ہے جب اس کوجلا وطن کیا گیا تو اس نے وطن کی محبت کا اظہار اس شعر میں کیا کہ ؎

یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھنؤ

یوں تو وطن سے باہر عموماً لوگ سیر کے لیے جاتے ہیں لیکن جب حکماً ان کو بھیجا جائے اور پھر لوٹنے کی امید نہ ہو تب وطن کی محبت کا حال معلوم ہوتا ہے بچوں تک کو دیکھو اپنے والدین سے لڑتے ہیں کہ ان کو سیر کرائی جائے لیکن کسی کو یوں پکڑ کر دوسری جگہ لے جائو تو کس قدر اس کو رنج پہنچتا ہے ۔ تو حقیقی استقامت ، اصل ایمان ، سچی بہادری کا پتہ تب ہی لگتا ہے جب مقابلہ ہو ۔ عموماً لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ بڑے بہادر ہیں اور جب وہ اخبارات میں پڑھیں کہ کوئی فوج بھاگ گئی تو وہ حیران ہوتے ہیںکہ اس قدر بزدل آدمی بھی ہوتے ہیںجو میدان ِ مقابلہ سے بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن ان ہی لوگوں کو میدان جنگ میں لے جائو ، ان میں سے ستر اسّی فیصدی بزدل ثابت ہوں گے۔ عموماً فوجیں اپنی ہی گولہ باری سے ڈر کر لڑتی ہیں ورنہ ایک بڑی تعداد میدان جنگ سے بھاگ جاوے ۔ میں نے ایک دفعہ ایک سپاہی سے دریافت کیا کہ آجکل فوجوں میں بہادری کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ ہم بہادری کو نہیں جانتے ۔ ہمارے پیچھے توپ خانہ ہوتا ہے اور آگے دشمن کی فوج اگر بلا حکم پیچھے ہٹیں تو اپنے ہی توپ خانہ کا نشانہ بنتے ہیں ، اس لیے یہ خیال کر کے کہ بلا حکم پیچھے ہٹے تب اپنوں کے ہاتھوں سے مارے جاویں گے اس لیے بہتر ہے کہ دشمن سے ہی لڑیں تامریں تو دشمن کے ہاتھ سے مریں اور اگر بچ جاویں تو انعام پاویں ۔

پھر بعض اقوام اسی لیے لڑنے والوں کو شراب پلا کر میدان میں بھیجتی ہیں اور سکھوں میں بھی یہی رواج تھا بلکہ سوائے مسلمانوں کے سب قوموں میں یہی طریق رائج رہا ہے ۔ شراب پلانے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ بزدلانہ خیالات دل میں نہ آنے پاویں ۔ غرض حقیقی بہادر بہت کم لوگ ہوتے ہیں ۔ لیکن خیال سب لوگ ہی کر لیتے ہیں کہ ہم بہادر ہیں اور جب تک تجربہ کا موقع نہیں آتا یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ درست ہے مگر جب وہ مواقع سامنے آتے ہیں تو ان کو اپنے فیصلے پر پچھتانا پڑتا ہے ۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ بہادر ہیں مگر موقع پر ان پر اپنی غلطی کھل جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں کسی سے محبت ہے اور واقع میں وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا سینہ مثلاً اولاد کی محبت سے معمور ہے مگر جب کوئی موقع پڑتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ اصلی محبت نہ تھی صرف ایک نفس کا دھوکہ تھا ۔ یورپ کے بعض واقعات میں نے پڑھے ہیں کہ بعض تھیٹروں میں تماشا کے وقت آگ لگی تو مائیں اپنے بچوں سے ، کئی بھائی اپنے بھائیوں سے ، کئی خاوند اپنی بیویوں سے اور کئی بیویاں اپنے خاوندوں کو دھکے دیتے ہوئے اپنی جانوں کے بچانے کے لیے دروازہ کی طرف بھاگے حالانکہ اس گھبراہٹ سے اور بھی زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔

جذبات کا مقابلہ کر کے صداقت پر قائم رہنا بہادری ہے

تو جو انسان جذبات سے متاثر ہو کر صداقت یا اپنے فیصلہ پر قائم نہ رہ سکے اس کا پہلا فیصلہ فیصلہ کہلانے کا مستحق نہیں۔ ایک شخص خیال کرتا ہے کہ خدا کا حکم ہے کہ رشوت نہ لوں مگر دوسری طرف جذبہ محبت ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ اولاد بھوکی ہے ، بیوی کے تن پر کپڑا نہیں ۔ اس وقت باوجود جاننے کے کہ رشوت ستانی خدا کے حکم کے خلاف ہے ، وہ شخص اس جذبہ محبت کے زیر اثر رشوت لے لیتا ہے اگرچہ دل میں وہ سمجھتاتھا کہ ا س کو خدا سے محبت ہے اور وہ اظہار بھی کرتا تھا مگر جب موقع آیا تب کھل گیا کہ خدا کی محبت کا دعویٰ بے دلیل تھا ۔ اسی طرح بہت لوگ جھوٹ کو برا جانتے ہیں مگر جب وہ خیال کریں کہ کسی دوست کی جان جھوٹ بول کر بچ سکتی ہے تو وہ جھوٹ بولنے میں دریغ نہیں کرتے اور اس طرح پتہ لگ جاتا ہے کہ خداکی محبت اور جھوٹ سے نفرت قبل ا ز امتحان کا ایک خیال تھا۔

امتحان کا وقت

غرض اب آپ کے امتحان کا وقت آیا ہے ایک طرف آپ کے جذبات ہیں اور علائق ہیں رشتہ دار ہیں ، طبعی محبت ابھرتی ہے اور وہ قرب ظاہری کے ساتھ باطنی قرب بھی چاہتی ہے ایسی حالت میں بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں ایسی بات کریں جس سے ہمارے متعلقین کو تکلیف پہنچے ۔ باپ کو رنج ہو ماں دکھ اٹھائے ۔آپ شادی شدہ ہیںاور بیوی کی محبت ایک فطری اور قدرتی محبت اور تقاضا ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جن کی فطرت مسخ ہو گئی سب انسانوں میں محبت ہوتی ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کے ماتحت ہوتی ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مدنی الطبع پیدا کیا ہے ۔ ہر شخص کا دوسرے شخص پر سہارا ہوتا ہے تو بالطبع انسان چاہتا ہے کہ کوئی دوست بنائے ۔ چونکہ انسان دوست بنانے میں غلطی کر سکتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے جذبات انسان میں رکھے کہ جن کے ہونے سے ایک مرد عورت کو اپنے لیے دوست اور غمگسار بنا لیتا ہے اور ایک عورت ایک مرد کو غمگسار بنا لیتی ہے پس بیوی کی محبت ایک فطری امر ہے جس کو بناوٹ سے تعلق نہیں۔ پس بیوی کی محبت بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ تمام تعلقات اور جذبات کسوٹی کی طرح ہیں۔ ان پر پرکھے جانے کے بعد دعویٰ ثابت ہو سکتا ہے ۔ سونا وہی قابل تسلی ہے جو کسوٹی پر لگانے سے خالص ثابت ہو ۔ جب انسان ان آزمائشوں میں پورا اترا اور ان باتوں نے اس پر کوئی اثر نہ کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاک ہو گیا اور اس وقت کہا جائے گا کہ اس میں ایمان پیدا ہو گیا ہے ۔ آپ کے لیے یہ امتحان اب شروع ہوا ہے پس آپ کو چاہیے کہ اب خاص طور پر ان تمام نتائج پر جرح کریں جو آپ نے اب تک نکالے ہیں ۔ اگر اب آپ کی جرح میں وہ تمام نتائج صحیح ثابت ہوں تو پھر وہ قابل قدر ہوں گے ۔

احتیاط ضروری ہے

یہ ہمارے شاہ صاحب (سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو مسٹر ساگر چند کے برابر ہی دائیں طرف بیٹھے تھے )جن سے شاید آپ کا اب تعارف ہو گیا ہو گا۔ ان کو میں نے تعلیم عربی کی تکمیل کے لیے مصر میں بھیجا تھا ۔ یہ تھوڑے عرصہ کے بعد مصر کو چھوڑ کر شام میں چلے گئے ۔ مجھے اس قسم کے حالات نظر آئے کہ ان کا شام میں جانا مضر تھا ۔ میں نے ان کو ملامت کے خطوط لکھے اور ان کے ساتھ جو دوسرے صاحب تعلیم کے لیے گئے تھے (یہ دوسرے صاحب جناب شیخ عبدالرحمٰن صاحب مولوی فاضل سابق لالہ شنکر داس لاہوری ہیں)ان کو لکھا کہ وہ فوراً وہاں جائیں اور ان کو شام سے لے آئیں لیکن اس عرصہ میں جنگ شروع ہوگئی اور وہ وہاں نہ جا سکے اور شاہ صاحب وہیں رہے جب یہ یہاں سے گئے تھے تو ایسی عمر میں گئے تھے کہ صحیح نتائج پر اعلیٰ طریق سے نہ پہنچ سکتے تھے ۔ انہوں نے وہاں علمی تحقیقاتیں کیں۔ خدا نے ان کو ذہن رسا دیا تھا ۔ علوم میں بہت جلد ترقی کر گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں یہ رتبہ دیا کہ آہستہ آہستہ وہاں کے گورنمنٹ عربی سلطانیہ کالج کے انٹرنل اسسٹنٹ ڈائرکٹر (مدیر داخلیہ)ہو گئے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کن کن حالات میں سے گزرے اور کن کن خیالات کا ان کو مقابلہ کرنا پڑا ۔ یہ جو کچھ بھی تھے بہر حال نسلی طور پر ان پر ہمارا حق تھا کیونکہ رسول کریمؐ نے فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش اس دین پر ہوتی ہے جو خدا نے اس کے لیے پسند کیا ۔ مگر اَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہ اَوۡیُنَصِّرَانِہ (مسلم کتاب القدر باب کل مولود یولد علی الفطرۃ ) بعد میں ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بناتے ہیں۔ اسی طرح چونکہ ان کے والدین خدا کے فضل سے احمدی ہیں ۔ اس لیے ہمارا ان پر احمدیت کا حق تھا لیکن جب یہ چھ سال کے بعد واپس آئے اور انہوں نے آتے ہی چاہا کہ میرے ہاتھ پر بیعت کریں تو میں نے ان کو روک دیا اور کہہ دیا کہ آپ ابھی ٹھہریں اور صبر کریں اور جو کچھ ہم کہتے ہیں ا س پر غور کریں اور جن خیالات پر آپ یہاں سے گئے تھے ان کو سوچیں اگر وہ باتیں اب بھی درست معلوم ہوں تو بعد میں آپ بیعت کر لیں۔ چنانچہ ایک یا ڈیڑھ مہینہ تک سوچتے رہے اور اس کے بعد انہوں نے کہاکہ میں اب کی تحقیقات کے بعد بھی اسی نتیجہ پر قائم ہوں جس پر پہلے تھا اس لیے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر میں نے ان سے بیعت لی۔

کسی عقیدہ پر انسان کو مجبور کرنا ا س پر ظلم ہے

درحقیقت یہ انسان پر ظلم ہے کہ اس کو کسی عقیدے پر مجبور کیا جائے اور اس کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ خوب غور کرے اور سوچے اور سوچ سمجھ کر کسی عقیدہ کو ترک کرے یا کسی کو قبول کرے اور اس پر قائم رہے ۔ اصل میں ایمان تب ہی پیدا ہوتا ہے جب یہ حالت ہو جائے کہ تمام دنیا کی محبتیں اور تمام دنیا کے علاقے اور تمام دنیا کی کششیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہو جائیں ۔ ایمان میں پوشیدگی کی ضرورت نہیں ۔ اگر کمزور ایمان ہو تو وہ تو شیشے کے برتنوں کی طرح ہے کہ جس کے ہر وقت ٹوٹنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے ۔ کچا برتن ایک مصیبت ہے اگر انسان اس مصیبت سے نجات چاہتا ہے تو اس کو آگ میں ڈال دے تا کہ وہ پختہ ہو جائے ۔

پس میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی تحقیقات کو دہرائیں اور دیکھیں کہ جس بات کو آپ نے علمی طور پر صحیح پایا تھا اب اس کے مخالف باتیں سن کر اور علاقوں کی موجودگی اور جذبات کے ابھرنے پر بھی آپ ان کو صحیح پاتے ہیں اور ان پر قائم رہنے کے لیے تیار ہیں یانہیں ؟اگر اس دوبارہ غور و غوض میں بھی آپ کو یہ نتائج صحیح اور یہ فیصلہ درست معلوم ہو اور آپ اس پر قائم رہنے کی جرأت اپنے اندر پاتے ہوں توپھر یہ ایک قابل قدر چیز ہو گی ۔ جہاں آپ نے پہلا فیصلہ کیا ہے اس ملک میں یہ جذبات اور تعلقات آپ کے آگے نہ تھے ۔ اب آپ جب ہندوستان میں آگئے ہیں تو وہ جذبات اور تعلقات بھی پیدا ہو گئے ہیں ۔ اس لیے آپ اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ اگر وہ تحقیقات صحیح ثابت ہوں اور آپ اس کے لیے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ تب آپ کی تحقیق آپ کے لیے بھی اور آپ کے دوستوں کے لیے بھی موجب تسلی اور باعث خوشی ہو گی ۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button