حضرت مصلح موعود ؓ

آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(مسٹر ساگر چند بیر سٹرایٹ لاء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی نصائح فرمودہ 6؍ دسمبر 1919ء بیت المبارک قادیان)

مسٹرساگر چند بیرسٹر ایٹ لاء نے ولایت سے واپسی پر 6؍ دسمبر 1919ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے بیت المبارک قادیان میں شرفِ ملاقات حاصل کیا۔ اس موقع پر حضور نے انہیں جو نصائح فرمائیں وہ 11؍ دسمبر 1919ء کے الفضل میں شائع ہوئیں جو بعد میں انوار العلوم کی جلد 4؍ کی زینت بنیں۔
حضورِ انور نے مسٹر ساگر چند کو مذہب کو پرکھنے کے لیے تحقیق کرنے کا فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ ‘کسی عقیدہ کو جبرًا قبول یا ترک کرنے پر کسی انسان کو مجبور کرنا بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ عقیدہ جو دل سے نہ مانا جائے اور جس کی بنیاد دلائل پر نہ ہو ماننے کے قابل نہیں۔’آئندہ چند شماروں میں ان نصائح کوبالاقساط قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ مدیر

معمولی ابتدائی گفتگو کے بعد حضورنے فرمایا:

روحانی اور ایمانی ترقی کا وقت

اب جبکہ آپ ولایت سے واپس آگئے ہیں آپ کی روحانی اور ایمانی ترقی کا وقت ہے۔ جو لوگ وہاں جاتے ہیں ان میں سے بہت سے اپنے پہلے مذہب کو بدل دیتے ہیں۔ کتنوں پر وہاں کی آزادی کا اثر پڑتا ہے اور کتنوں ہی پر وہاں کی موجودہ عیسائیت اپنا اثر کرتی ہے اور بہت سے وہاں کے تمدن میں جذب ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ لوگ وہاں سے واپس آتے ہیں تو ان کے پرانے تعلقات پھر ان کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔

یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دو چیزیں ہیں جو انسان پر بہت مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ (1) تعلقات جن کو غالباً انگریزی میں ایسوسی ایشن کہتے ہیں اور دوسری چیز جذبات اور احساسات جن کو انگریزی میں فیلنگز (FEELINGS) کہتے ہیں، اثر انداز ہوتے ہیں۔

جذبات کا اثر

وہ بڑے بڑے کام جو یوں محنت اور مشقت سے نہ ہوسکیں مگر جب جذبات کو ابھار دیا جائے تو فورًا ہو جاتے ہیں۔ تمام علوم اور ہنر اور تحقیقاتیں جذبات کے مقابلہ میں بسا اوقات دھری رہ جاتے ہیں۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ حکومتوں نے جذبات کے ماتحت پلٹے کھائے ہیں مثلاً دلی کی حکومت کا آخری چراغ جب گُل ہوا تو اس وقت ایک ایسا وقت بھی آیا کہ انگریزیوں کی پوزیشن سخت نازک ہوگئی تھی۔ بادشاہ کی بیگم جس کا نام زینت محل تھا کہتے ہیں کہ اگر اس کے مکان کے سامنے توپ خانہ رکھا جاتا اور وہاں سے گولہ باری کی جاتی تو امید کی جاتی تھی کہ انگریزی فون کو سخت نقصان پہنچتا مگر بادشاہ کی بیگم جو در پردہ انگریزوں کی ہم خیال اور ان سے متفق تھی۔ کیونکہ اس کو امید تھی کہ جو تغیر ہوگا وہ اس کے بیٹے کے لیے مفید ہوگا جب توپ خانہ وہاں رکھا گیا تو بیگم نے کہامجھے غشی آنے لگی ہے گولہ باری نہ کرو۔ بادشاہ خود اس کے پاس گیا اور کہا کہ یہ وقت نہایت نازک ہے ہمارے افسر کہتے ہیں کہ یہ ایسا عمدہ موقع گولہ باری کے لیے ہے کہ ہمیں یقیناً فتح ہوگی۔ بادشاہ کی بیگم چونکہ دل میں اَور ارادہ رکھتی تھی اس نے بادشاہ سے کہا کہ اچھا گولہ باری ہو مگر پہلے آپ اپنے ہاتھ سے مجھے قتل کر دیں۔ بادشاہ اس جذبہ محبت سے مغلوب ہوگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خاندان ہمیشہ کے لیے مٹ گیا۔ تو جذبات کا اثر علم پر، تجربہ پر، سب پر غالب آتا ہے اور اگر دنیا میں دیکھا جائے تو کثیر حصہ گناہوں کا محض جذبات کے ماتحت ہی ہوتا ہے مثلاً شہوت سے تعلق رکھنے والے گناہ یا رشوت ستانی وغیرہ تمام جذبات کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ایک شخص جانتا ہے کہ رشوت بری چیز ہے لیکن وہ دیکھتا ہے کہ بیوی کی پرورش میرے ذمہ ہے اور میرے بچے اس سے پرورش پائیں گے۔ پس یہ جذبہ غالب آتا ہے اور اس کے اس علم پر پردہ پڑ جاتا ہے جو اس کو رشوت کی برائی کے متعلق ہوتا ہے۔ اس طرح فیلنگز (جذبات) علم اور تجربہ پر غالب آجاتے ہیں۔

تعلقات کا اثر

دوسری بات تعلقات اور علاقے ہوتے ہیں جن کا اثر انسان پر پڑتا ہے اور ان علاقوں کا اثر درحقیقت عادت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک انسان جب وطن سے دور ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ عادات جو اس کو پڑی ہوئی تھیں فراموش ہوتی جاتی ہیں لیکن جب وہ واپس اپنے وطن کی طرف آتا ہے تو ان گلیوں کو دیکھ کر جن میں وہ پھرتا تھا اور ان آدمیوں کو دیکھ کر جن میں وہ رہتا تھا طبیعت خود بخود ان عادات کی طرف لوٹتی ہے جن میں وہ اس وقت مبتلاتھا جس وقت ان گلیوں اور ان آدمیوں کے ساتھ اس کا تعلق تھا چنانچہ خواہ کتنا عرصہ ایک انسان اپنے وطن سے دور رہا ہو جس وقت اپنا وطنی آدمی اسے مدت کے بعد نظر آوے تو بے اختیار اسے اپنی زبان یاد آجاوے گی۔ اگر وہ مہمان ہے تو ویسے کھانے تیار کرا کے اسے کھلائے گا کیونکہ عادات اس تحریک سے پھر آگے آجاویں گی۔ تو ایک چیز کو دیکھ کر جس سے انسان وابستہ رہا ہو پرانی آرزوئیں اور تمنائیں اور عادتیں اور جذبات عَود کر آتےہیں۔ پس آپ کے لیے اصل فیصلہ کا وقت یہی ہے جب آپ ہندوستان میں آگئے ہیں۔ مجھے تو اب معلوم ہوا ہے کہ آپ کے والد صاحب زندہ ہیں وہ بھی آپ کے لیے ایک کشش ہیں ان پرانے خیالات کی طرف جن کو آپ ترک کرچکے ہیں۔

حقیقی تحقیقات اب ہوںگی

اس ملک میں آکر بھی اگر تمام علاقوں اور جذبات کے مقابلہ میں آپ کی پہلی تحقیق ثابت اور قائم رہی تب آپ کی تحقیق حقیقی تحقیق کہلا سکتی ہے اور آپ کا ایمان پختہ ایمان ہوگا۔ آپ کا پہلا نتیجہ اور فیصلہ میرے نزدیک یقینی نتیجہ نہیں کیونکہ جس وقت آپ نے وہ نتیجہ نکالا تھا اس وقت آپ کے مقابلہ میں یہ جذبات اور علائق نہ تھے جو اب ہیں۔ اس لیے وہی نتیجہ دائمی نتیجہ ہو گا جس پر ان علائق اور جذبات کے مقابلہ میں آپ پہنچیں گے۔

یک طرفہ فیصلہ

اگر آپ ان علائق اور ان جذبات کا مقابلہ کرسکے اور عادات قدیمہ پر غالب آگئے تب آپ کا نتیجہ اور فیصلہ درست مانا جائے گا لیکن جب تک یہ چیزیں آپ کے آگے نہ تھیں اس وقت کا فیصلہ تو اس ضرب المثل کا مصداق تھا کہ ‘‘تنہا پیش قاضی روی راضی آئی’’ (یہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح نے متبسم ہو کر فرمایا کہ) یہاں تو معاملہ اس کے بھی برعکس ہے کیونکہ آپ ‘‘تنہا پیش قاضی’’ نہیں گئے۔ بلکہ (قاضی عبداللہ صاحب کی طرف دیکھ کر جو پاس ہی بیٹھے تھے کہا کہ) قاضی آپ کے پاس گیا تھا دوسرے فریق کی سنی ہی نہیں۔ ہماری مبلغوں کی باتیں سنیں اور آپ نے سمجھا کہ یہ باتیں معقول ہیں۔ آپ نے ان کو قبول کر لیا لیکن ان کے مقابلہ میں دوسرا کوئی سنانے والا نہ تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ یک طرفہ ہے ۔پہلی باتیں جو آپ نے سنی ہوئی تھیں وہ اس عمر کی تھیں جس وقت کی سنی ہوئی باتیں چنداں یاد نہیں رہتیں۔ پس اس وقت مقابلہ نہ تھا۔ ہمارے مبلغوں نے آپ کو جو کچھ سنا دیا آپ نے اس کے مطابق فیصلہ کر لیا کہ یہ باتیں معقول ہیں، درست ہیں۔ اب آپ یہاں آئے ہیں اور یہاں فریق مخالف کے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی اپنے مذہب کی صداقت کے دلائل ہیں۔ اس لیے یہاں مقابلہ ہوگا۔ پھر اس وقت فیلنگز آپ کے سدراہ نہ تھے یہاں فیلنگز بھی ہیں پس وہ فیصلہ آپ کا یک طرفہ تھا اور اس فیصلہ کے قبول کرنے میں کوئی روک نہ تھی مگر اب کا فیصلہ زیادہ غور اور فکر کا نتیجہ ہوگا اور تمام روکوں کو مدنظر رکھ کر ہوگا اگر اب بھی اسی پہلے فیصلہ پر قائم رہے تب معلوم ہوتا کہ آپ نے پہلا فیصلہ بھی خوب سوچ سمجھ کر کیا تھا ورنہ ایک جلد بازی کا فیصلہ سمجھا جاوے گا۔

مشکلات کو مدنظر رکھ کر جو فیصلہ کیا جائے وہ حقیقی فیصلہ ہوتا ہے

درحقیقت جو فیصلہ بغیر راہ میں آنے والی مشکلات کو مد نظر رکھنے کے کیا جاوے وہ حقیقی فیصلہ نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس بات کو نہایت لطیف طور پر بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ (العنکبوت:3)کہ کیا لوگوں نے خیال کر لیا ہے کہ ان کے صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا۔
فتنہ کے معنے ہوتے ہیں آگ میں ڈال کر کھوٹے کھرے کوپرکھنا۔ جیسا کہ سونا آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس اسی طرح ایک شخص اگر ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو ایک آگ میں ڈالا جاتا ہے جو تعلقات اور جذبات کی آگ ہوتی ہے اگر اس آگ میں پڑ کر وہ سلامت نکلے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے تب ہم اس کو مومن کہیں گے۔ یہ فتنہ (آزمائش) میں پڑنے کا معاملہ آپ سے ولایت میں نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وہاں پر وہ لوگ نہ تھے جن سے آپ کا مذہبی تعلق ہوتا، نہ وہ چیزیں تھیں جن کو علائق کہتے ہیں اور نہ آپ کے جذبات ابھارنے کے سامان تھے کیونکہ وہاں کے لوگوں کے نزدیک جیسا اسلام غیر مذہب تھا ویسا ہی ہندوؤں کے مختلف مذاہب غیر۔ اور اگر وہ لوگ آپ سے نفرت کرتے بھی تو بھی آپ کہہ سکتے تھے کہ ان کی نفرت میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتی کیونکہ وہاں آپ کی اقامت عارضی تھی لیکن یہاں یہ بات نہیں کیونکہ یہاں پر وہ لوگ بھی ہیں جن سے آپ کا مذہبی اتحاد رہا ہے اور پھر آپ کے والد صاحب ہیں، بھائی بہن ہیں، دوسرے رشتہ دار ہیں، بیوی ہے۔ یہ وہ تمام باتیں ہیں جو عادات قدیمہ اور جذبات پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں۔ ان مختلف کششوں کے مقابلہ میں اگر آپ اسی نتیجہ پر قائم رہیں جو آپ نے نکالا ہے تو وہ درست ہوگا۔ ولایت میں تو یہ بات تھی کہ وہاں آپ خواہ کتنا ہی لمبا عرصہ رہے لیکن آپ کا یہ کبھی خیال نہیں ہوا ہوگا کہ وہ آپ کا وطن ہے اس لیے وہاں کے لوگوں کی مخالفت پر آپ کہہ سکتے تھے کہ ہم اپنے وطن میں چلے جائیں گے یا کسی اور جگہ چلے جائیں گے مگر یہاں کے لوگوں کی مخالفت پر آپ یہ کہہ کر دل کو تسلی نہیں دے سکتے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا کیونکہ آپ کو اسی ملک میں رہنا ہوگا۔ پس یہ مختلف فتنے ہیں، مختلف آزمائشیں ہیں اور مختلف امتحان ہیں۔ اگر آپ ان میں پورے اتریں تو البتہ آپ کا فیصلہ درست ہوگا۔ مسلمان سینکڑوں برس سے چلے آتے ہیں لیکن اسی قاعدہ کے مطابق جب ان کا امتحان لیا گیا تو بہت سے رہ گئے۔ رسول کریم ﷺ کے وقت میں عورتوں تک کو ایمان کا اظہار کرنے کی وجہ سے مخالفین کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچائی گئیں لیکن انہوں نے ان تمام کششوں اور تمام علاقوں اور جذبوں کو اسلام کے مقابلہ میں چھوڑ دیا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اسلام حق ہے۔

٭…٭(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button