متفرق مضامین

’’یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا‘‘

(نصیر احمد حبیب۔ لندن)

ہر چند کہ فلسفی اور مؤرخ وِل ڈیوراںWill Durantنے یہ وسوسہ ڈالا کہ ایک سہمے ہوئے شخص کے جینیاتی نظام میں ذہانت کے کیا امکانات پوشیدہ ہوسکتے ہیں لیکن دل پندار کا صنم کدہ ویران کیے ہوئے سیرِکوہِ طور پر آمادہ ہوگیا۔ ہم نے اس کاروبارِ شوق میں مکالماتِ فلاطون کو حسبِ توفیق کھنگالا نیز تھوڑی دُور ارسطو کے ساتھ بھی گئے لیکن یہ خبر نہ ہوسکی

’’پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‘‘

عالم تنزیہ کا عالم تشبیہ سے کیا رشتہ ہے؟ کیا انسان کے وجود میں ان کا ظہور ایک حادثہ ہے؟ کیا ان کی بنیاد حقیقت و مجاز کے تعلق پر استوار ہے؟ روح و مادہ بعد مشرقین ہیں یا ایک ہی سکّہ کے دو رُخ۔ دل کےخوش رکھنے کو یہ خیال آرائیاں تو خوب تھیں لیکن زندگی کے غبارِ وحشت میں کب تک کوئی خیالِ طرّہ لیلیٰ کرتا۔ مغربی کلچر کی فاؤسٹین (Faustian) روح نے زندگی کا لحظہ لحظہ دگرگوں کردیا۔ ہم درد و سوز و آرزومندی کی متاع لیے اس کوچے میں جانکلے لیکن زندگی کے پیچاک کو سلجھانے کی کوشش میں فلسفیوں نے اس کے تارِ وجود میں ایسی گرہوں کا اضافہ کردیا کہ گرہ کشاہ ہاتھ بھی عاجز آگئے۔ ہم اس مجلس سے نمناک اُٹھے اور مجذوب فرنگی نٹشے (Nietzsche) کے حضور دو زانو ہوکر بیٹھ گئے جو رزم اور بزم میں فولاد ہی فولاد تھا۔ جس نے راہ حیات میں لطفِ خرام کو دائرہ در دائرہ قرار دیا۔ لیکن ان دائروں میں سفر کرتے ہوئے دل یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا

’’شکنِ زُلفِ عنبریں کیوں ہے‘‘

اسی اثناء میں سُرخ آندھی چلی اور ہم اس کی زد میں آگئے۔ ہم کوئی خواجہ بلند بام تو نہیں تھے لیکن حساب دیے بغیر نہ بچ سکے۔ وہ تو خدا خیر کرے وقت کے ساتھ ساتھ طرّہ پر پیچ و خم کے جب خم نکلے تو قامت کی درازی کا بھرم کھل گیا۔

سچ پوچھئے تو اس موقع پر سارتر (Sartre) کے دام ہمہ رنگ کا اسیر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ بھلا انسان کوئی ایسی شے تو ہے نہیں جسے ڈاکخانہ کی مہریں لگاکر مخصوص خانوں میں رکھا جائے۔ اس موقع پر جوہر و عرض کی بحث چلی اور پہلی مرتبہ جُز کو کُل پر برتری ظاہر ہوئی اور ذرّہ ذرّہ اپنی خودنمائی کی شہادت دیتے ہوئے روکشِ خورشید عالم تاب نظر آنے لگا۔ اور ہمیں Deterministic کی بجائے Accidental حوالہ راز و نیازِ آشنائی کے لیے زیادہ معتبر لگا۔ اور ایک مشہور فلسفی کی بات یاد آئی:

Great Tao is like aboat that drifts. It can go this way, it can go that.

لیکن مَیں نامراد دل کی تسلی کا کیا کروں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جوہر پر عرض کی فضیلت سے The Manکی بجائے A Man کو مرکزِ نگاہ بنانے سے گلشن کا کاروبار تو چل نکلتا ہے لیکن اس کا کیا کریں کہ زمین اپنی ہزار رنگا رنگی کے باوجود سورج کے گرد گھومنے پر مجبور ہے۔ اب یہ ہمارا حجاب تھا یا سیماب آسا طبیعت کہ ہمیں کوئی تو پابستہ گیسوئے سنبل نظر آیا اور کوئی سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود۔

اب سوچتے ہیں کہ ہوریس (Horace) نے آوڈس (Odes) سنانے سے قبل جو فرومایہ اور کم نظر ہجوم کو اپنے حلقہ سخن سے اٹھادیا تھا وہ شاید اتنا غلط بھی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ بھی نٹشے (Nietzsche) کی طرح اپنے سخن کے موتی معذوروں کی نذر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عالم یاس کی اِس نیم شبی میں یہ الفاظ بادِ صبح گاہی کی صورت ایک نیا پیغام دے گئے:

’’اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔ مَیں کیا کروں اور کس طرح اس خوش خبری کو دلوں میں بٹھادوں۔ کس دف سے مَیں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے۔‘‘

ہم کشاں کشاں اس جادہ راہِ لقا پر ہولیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سرمدی نغمے کی لَے پر سارا مجمع عالمِ وجد میں آگیا۔ لیکن اس سفرِ جنوں میں ؎

جنیاں تن میرے تے لگیاں
تینوں اِک لگے تے تُو جانے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button