تعارف کتاب

‘‘درّثمین فارسی’’

(فرخ سلطان محمود)

سرورق : درِّ ثمین فارسی۔ (حصّہ اوّل و دوم)
مصنّفہ : فارسی منظوم کلام سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ
پبلشر : لجنہ اماءِاللہ ضلع کراچی
شائع شدہ : لندن
ایڈیشن : اوّل
تاریخ طباعت: جولائی 2018ء
تعداد کُل صفحات (دونوں حصّے) : 690
قیمت: £15.00 پندرہ پاؤنڈ سٹرلنگ (برطانیہ میں)

ہمارے آقا و مولا اصدق الصادقین سیّدنا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے قیامت تک رونما ہونے والے اہم واقعات کے حوالہ سے جو کچھ بھی فرمایا وہ اپنی تمام تر شان کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آیت کریمہ وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ…… کے حوالہ سے ایک ایسی ہی عظیم الشان خبر آپﷺ نے مسلمانوں کو حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دی تھی جو اپنے وقت پر نہایت شان و شوکت کے ساتھ پوری ہوئی اور مذہب اسلام کی صداقت پر گواہ ٹھہری۔

سیّدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اگرچہ فارسی الاصل تھے لیکن چند صدیاں پہلے آپؑ کا خاندان مغل فاتحین کے ہمراہ ہجرت کرکے ہندوستان پہنچا اور پھر پنجاب میں آبسا۔ کئی نسلیں ہندوستان میں ہی پیدا ہوئیں اور یہیں پروان چڑھیں۔ تاہم جیسا کہ رؤسائے ہند کے خاندانوں میں مروّجہ علوم کی تحصیل اور دیگر فنون و حکمت کی تربیت کی طرف خاص توجہ دی جاتی تھی، کچھ ایسا ہی طریق اس معزّز خاندان میں بھی جاری تھا۔ چنانچہ حضورعلیہ السلام نے اپنے بچپن میں ہی جن چند مروّجہ علوم کے حصول کی توفیق پائی ان میں فارسی زبان بھی شامل تھی جسے مغلیہ سلطنت میں سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل رہا تھا۔ نیز حکمت، جو آپؑ کا خاندانی پیشہ تھا، چند اساتذہ سے کسب فیض کیا اور اتنی مہارت حاصل کی کہ بے شمار مخلوقِ خدا کو اس منفعت بخش علم سے فائدہ پہنچایا۔ تاہم آپؑ کی زندگی چونکہ ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد (یعنی اسلام کے دفاع) کے لئے وقف ہوچکی تھی اور آپؑ حقیقی معانی میں تلمیذالرحمٰن تھے چنانچہ خداتعالیٰ نے خود آپؑ کی علمی، لسانی اور عقلی استعدادوں کو درجۂ کمال تک پہنچایا حتّٰی کہ آپؑ مسیح الزمان اور مہدی دوراں کے عظیم الشان مناصب پر فائز ہوکر آسمانِ روحانیت کے بھی ایسے درخشندہ آفتاب قرار پائے جس کی شش جہت پھیلنے والی نورانی کرنوں سے آپؑ کے ادنیٰ غلاموں نے بھی کماحقّہٗ استفادہ کیا جو علم و حکمت کی مختلف شاخوں (ادب، سائنس، قانون، حکمت اور زبان و بیان) میں دنیا کے جیّد اساتذہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔

جہاں تک زیرنظر مجموعہ کلام ‘‘درّثمین فارسی’’ کا تعلق ہے تو امرواقعہ یہی ہے جیسا کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود فرمادیا ہے کہ ؎

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدّعا یہی ہے

پس یہی وجہ ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس علیہ السلام کا منظوم کلام مقصدیت کے حوالہ سے اپنی انتہا پر دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ مقصد صرف ایک ہی ہے یعنی دعوت الی اللہ۔ چنانچہ حضور علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:

‘‘اشعار میں اپنے مضامین کو بیان کرنے کی ہمیں ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض طبائع اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو نثر عبارت میں ہزار پیرایۂ لطیف میں کوئی صداقت بتائی جائے وہ نہیں سمجھتے لیکن اسی مفہوم کو ایک برجستہ شعر میں منظوم کرکے سنایا جاوے تو شعر کی لطافت ان پر بہت اثر کرجاتی ہے۔ شعر کو سن کر پھڑک اُٹھتے ہیں اور حق کو شعر کے ذریعہ فورً اقبول کرلیتے ہیں… اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہمیں اشعار کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اکثر لوگوں کو بہت کچھ دلائل دے کر سمجھایا گیا مگر کارگر نہ ہوئے لیکن جب انہوںنے اشعار پڑھے تویہ اشعار انہی منکرین پر بہت اثر کرگئے اور فورًا انہوں نے حق قبول کرلیا۔’’

(اخبار الحکم قادیان۔ مؤرخہ 28؍اگست 1938ء)

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سارا علم کلام -خواہ وہ کسی بھی زبان (اردو، عربی یا فارسی) میں ہو (نیز منثور کلام ہو یا منظوم کلام) – سارے کا سارا، خداتعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت اور اس کی مدحت، قرآن کریم سے انتہا درجہ کی عقیدت اور بے پایاں محبت، آنحضرت ﷺ کے ساتھ غیرمعمولی اظہارِ وفا اور جذباتِ عقیدت، مذہب اسلام کی بے مثال صداقت اور دیگر مذاہب پر اس کی سبقت، حسنات کی ترغیب اور وعظ و نصیحت نیز انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہی عبارت ہے۔ چنانچہ ‘‘درّثمین’’ فارسی میں شامل ہرشعر دل کی گہرائیوں سے نکلا انہی مضامین میں ڈوبا محسوس ہوتا ہے۔

فارسی زبان میں حضوراقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پاکیزہ منظوم کلام باوجود قلیل المقدار ہونے کے ایسے لطیف اور سحرآگیں اثرات کا حامل ہے کہ عوام النّاس تو اپنے ذوق کے مطابق اس سے لطف اندوز ہوتے ہی ہیں اہل زبان بھی اس پر فریفتہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت حضرت عبیداللہ بسملؓ کی بھی تھی جن کا شمار اپنے وقت کے چوٹی کے فارسی دان شعراء میں ہوتا تھا۔ اور جن کے کلام کو دیکھ کر مملکت ایران کے ملک الشعراء سنجرؔ نے بے ساختہ کہا تھا: ’بخدا! اس نے مجھ سے بہتر کہا ہے‘۔ حضرت عبیداللہ بسملؓ کی بعض تصانیف سکول اور یونیورسٹی کے نصاب میں بھی شامل رہیں لیکن وہ خود نہ صرف سیّدنا حضرت اقدس علیہ السلام کی غلامی میں آنے کو باعث عزّ و فخر خیال کرتے رہے بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عطافرمودہ لقب ‘‘فردوسی ثانی’’ پر تاعمر نازاں رہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی منظوم کلام کے حوالہ سے ایک اور دلچسپ روایت کا بیان بھی موزوں معلوم ہوتا ہے۔ حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانویؓ کا تعلق افغانستان کے شاہی خاندان ‘درّانی’ سے تھا۔ آپؓ کا خاندان کابل سے ہجرت کرکے لدھیانہ آبسا تھا جہاں آپ نے پہلے حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانویؓ کی صحبت اختیار کی اور پھر وہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشّاق میں شامل ہوگئے۔ بیعت کرنے والوں میں آپؓ کا نمبر نواں تھا اور حضور علیہ السلام نے آپؓ کو اپنے 313؍ اصحاب میں بھی شامل فرمایا تھا۔ 1891ء میں لدھیانہ میں اپنے قیام کے دوران حضرت اقدس علیہ السلام نے آپؓ کو امام الصلوٰۃ مقرر فرمایا اور آپؓ کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حضرت شاہزادہ صاحبؓ نے خود کو تبلیغ کے لئے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش کیا تو حضورؓ نے آپؓ کو ایران جانے کا ارشاد فرمایا۔ 12؍جولائی 1924ء کو آپؓ روانہ ہوئے اور مشہد سے ہوتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں تہران پہنچ گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی روانگی سے قبل رؤیا میں دیکھا تھا کہ آپؓ ‘خانقاہ درویش’ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی اشعار پڑھ کر سنارہے ہیں اور وہاں موجود درویش وجد کی حالت میں جھوم رہے ہیں۔ چنانچہ تہران پہنچ کر سب سے پہلے آپؓ نے ‘خانقاہ درویش’ کا پتہ لگایا۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے درویش وہاں بیٹھے ہیں۔ سلام مسنون کے بعد آپؓ نے اشعار پڑھنے شروع کردیے۔ شعر سن کر درویش جھومنے لگے۔ پھر آپؓ نے اُنہیں دعوت الی اللہ کی اور اُن میں ‘‘دعوت الامیر’’ کے نسخے تقسیم کئے۔ بعدازاں اپنی کمزوری اور بڑھاپے کے باوجود، مخالفین کی طرف سے شدید مصائب کا سامنا کرتے ہوئے گرانقدر خدمت کی توفیق پائی جس کے نتیجہ میں اہل فارس میں سے کئی سعید روحوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں آنے کی سعادت حاصل کی۔ آپؓ نے 23؍فروری 1928ء کو تہران میں ہی وفات پائی اور وہیں تدفین ہوئی۔
سیّدنا حضور علیہ السلام کا مطمحٔ نظر کبھی یہ نہیں رہا کہ آپ اپنی نظم و نثر سے زبان دانی کا اظہار کریں یا دوسروں کو مرعوب کرنے کے لئے فصاحت و بلاغت کا شاہکار کلام کہیں۔ تاہم امر واقعہ یہ بھی ہے کہ جس زبان میں بھی آپؑ کے رَشحات قلم علمائے عصر تک پہنچے وہ آپؑ کے کلام کو پڑھ کر برملا یہ اقرار کرتے نظر آئے کہ اس کلام کی ہر ایک سطرزبان و ادب میں ممتاز مقام پر فائز ہے اور کسی ایسے صاحبِ عرفان وجود کے حسّاس دل کی صدائے فقیرانہ ہے جس کے قلبِ صافی میں موجزن محبتِ الٰہی، عشقِ رسول اور کلام اللہ کی بے پایاں چاہت کی حرارتِ ایمانی کے نتیجہ میں اُٹھنے والے بخارات جب بارانِ رحمت بن کر قاری کے شعور پر اُتر کر اُسے بھی عشق و وفا کے ویسے ہی جذبات سے آشنا کرتے ہیں تو قاری بھی اُن روحانی تجربات سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے جہاں آدمیت اور روحانیت کے اتّصال کا نازک رشتہ محسوس کیا جاسکے۔

گزشتہ ایک صدی میں درّثمین فارسی کے متعدّد ایڈیشنز طبع ہوچکے ہیں تاہم گزشتہ سال لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی نے اس مجموعۂ کلام کو نہایت دیدہ زیب گیٹ اَپ کے ساتھ شائع کرنے کی توفیق پائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلند پایہ منظوم کلام کی شوکت اور اس میں بیان فرمودہ مضامین کی عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس پُرکشش انداز میں یہ پاکیزہ کلام زیبِ قرطاس کرنے کی سعی کی گئی ہے وہ یقیناً اُس دلی محبت کا آئینہ دار ہے جو حضور علیہ السلام اور آپؑ کے انقلاب آفریں علم کلام کے لئے آپؑ کے غلاموں کے دلوں میں موجزن ہے۔

فارسی زبان سے شناسائی نہ رکھنے والوں کے لئے بھی یہ ایڈیشن ایک گرانقدر تحفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ طرز تحریر خوبصورت، صاف اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ نقل صوتی (Transliteration) کی موجودگی فارسی زبان میں موجود منفرد لذّت سے قاری کو لطف اندوز کرتی چلی جاتی ہے۔ عبارت کی سیٹنگ اور ڈیزائننگ (یعنی کمپوزنگ) بہترین ہے، منفرد آرٹ ورک اور شاندار گرافک ڈیزائننگ کے ساتھ عمدہ سفید کاغذ کا استعمال، رنگین طباعت اور دیدہ زیب ٹائٹل کی Hard coverکے ساتھ پیشکش میں جدید طباعت کے تمام اعلیٰ معیار ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ تمام تر ظاہری خوبیوں سے مرصّع، دو جلدوں پر مشتمل یہ مجموعۂ کلام سلیس اور رواں اردو ترجمہ (جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ جیسے صاحبِ عرفان کی شاندار کاوش ہے) اور 70سے زائد صفحات پر مشتمل فرہنگ (Glossary) کو بھی کتاب کے آخر میں شامل کرکےقاری کے لئے حتّی المقدور آسانی پیدا کی گئی ہے۔ اسی طرح سارا مواد مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ گویا ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں سے اعلیٰ درجہ پر فائز، شستہ زبان و ادب کا مرقّع اور علوم و معرفت سے بھرپور یہ ایک شاہکار مجموعہ کلام ہے۔

690 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو دو حصوں میں پیش کیا گیا ہے۔ جلد اوّل ابتدائی 341 صفحات پر مشتمل ہے ۔ جو فارسی منظوم کلام اس میں شامل ہے اسے بنیادی طور پر تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کا باقاعدہ آغاز سیّدنا حضرت اقدس علیہ السلام کے الہامی اشعار سے کیا گیا ہے جن کی تعداد 55 ہے۔ بعدہٗ 97 منظومات درج ہیں اور پھر 82؍ اشعار اس مجموعۂ کلام کی زینت ہیں۔ نیز چند فارسی شعراء اور اساتذہ کے وہ اشعار بھی اس مجموعہ کلام میں شامل ہیں جو حضورعلیہ السلام نے اپنی کتب میں متفرق مقامات پر نقل فرمائے ہیں۔

جماعت احمدیہ کے ایک بزرگ فارسی دان حضرت عبدالحق رامہ صاحب رضی اللہ عنہ نے ‘‘درّ ثمین فارسی کے محاسن’’ رقم کرکے آنے والی نسلوں پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ مذکورہ کتاب online بھی دستیاب ہے۔ آپ پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اس بے نظیر کلام کے ظاہری اور باطنی محاسن پر تاحال کسی صاحبِ ذوق نے قلم نہیں اٹھایا۔ حالانکہ کسی فصیح و بلیغ کلام کو پوری طرح سمجھنے اور اس سے حظّ اٹھانے کے لئے فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے بھی اس کے محاسن سے واقفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ علمِ بلاغت کے قواعد اور تفاصیل کے مرتّب کرنے کی ایک بڑی غرض یہی ہے کہ اُن کے ذریعہ سے اساتذۂ فن کے کلام کو کماحقّہٗ سمجھ کر اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اور یہ امر حضرت اقدسؑ کے کلام کے متعلق تو اَور بھی ضروری ہے کیونکہ آپؑ کا کلام فصاحت و بلاغت میں لاثانی ہے۔ اور اتنا حسین اور پُراثر اور دلگداز ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ کلام ایک مؤیّد من اللہ ہستی کا ہے جسے خود ذاتِ باری تعالیٰ نے ‘سلطان القلم’ کا خطاب عطا کیا۔ نیز الہاماً بتایا گیا:

در کلام تو چیزیست کہ شعراء را دراں دخلے نیست

یعنی تمہارے کلام میں ایک ایسی چیز بھی ہے جس میں شعرا کو کوئی دخل نہیں۔

اس درّثمین میں ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں حضرت اقدس کی بعثت کی غرض (یعنی احیائے اسلام) اور اس کی تکمیل کے ذرائع کو مکمل اور مؤثر طریق پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً بعثت رسل، امکانِ وحی و الہام، ضرورتِ امام، مجدّدین کی آمد، تبلیغِ ہدایت، مخالفینِ اسلام کے اعتراضات کے جواب اور سب سے بڑھ کر عرفانِ الٰہی کے حصول کے طریق۔ غرض احیائے اسلام کے متعلق کوئی ضروری موضوع ایسا نہیں جس پر اس درّثمین میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو۔ گویا یہ درّثمین حضرت اقدس علیہ السلام کی تعلیم کا مکمل خلاصہ ہے۔’’

دُرّثمین فارسی قادرالکلامی کا شاندار نمونہ ہے اور فصاحت و بلاغت میں لاجواب ہے بلکہ اس میں پایا جانے والا تصوّف انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے جو اس کلام کو دیگر شعراء کے کلام سے ممتاز کرتا ہے۔ مضامینِ تصوّف کے حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں کہ؎

تو بِرُوں آزِ خود ، بقا اِین است
تو درو مَحوْ شَو ، لِقا اِین است

(تُو اپنے آپ سے باہر نکل یہی بقا ہے۔ اور اُس (محبوبِ حقیقی) میں محو ہو جا، یہی لقا ہے۔)

اور پھر یہ بھی کہ ؎

آنکہ در عِشقِ اَحَد ، محو و فناست
ہرچہ زُو آید زِ ذاتِ کِبریاست

(جو خدائے واحد کے عشق میں محو و فنا ہے، اس سے جو کچھ سرزد ہوتا ہے وہ ذاتِ کبریا کی طرف سے ہی ہے۔)

امرواقعہ ہے کہ جس طرح رسول کریم ﷺ کے اُمّی ہونے کے باوجود کوئی اَور انسانی کلام آپؐ کے کلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آنحضرتﷺ کی متابعت میں یہ شرف حاصل ہوا کہ کلام اللہ اور قولِ رسولﷺ کے بعد آپ کا کلام ایک ایسی نمایاں شان اور عظمت کا حامل نظر آتا ہے جس کا تائیدالٰہی کے بغیر لکھنا اور کہنا ناممکن ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ معجزہ کے طور پر خداتعالیٰ کی تائید سے انشاپردازی کی ہمیں طاقت ملی ہے تا معارف و حقائق قرآنی کو اس پیرایہ میں بھی دنیا پر ظاہر کریں اور وہ بلاغت جو ایک بیہودہ اور لغو طور پر اسلام میں رائج ہوگئی تھی اس کو کلام الٰہی کا خادم بنادیا جائے۔’’ (نزول المسیح صفحہ 59)

اس کلام میں یہ خصوصیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے کہ حضورعلیہ السلام نے ایک جری پہلوان کی طرح اسلامی عقائد کا دفاع کیا ہےاور پورے وثوق اور جرأت کے ساتھ اسلامی عقائد پر اپنے لازوال ایمان کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہوئے دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ خصوصاً ایسے مضامین جن کے منکرین مسلمانوں میں بھی عام دکھائی دیتے تھے۔ مثلاً دعا کی قبولیت، امکانِ وحی و الہام، فرشتوں، جنت دوزخ اور یوم آخرت کے حوالہ سے عقائد باطلہ کی بیخ کنی کرتے ہوئے اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا۔
چنانچہ الٰہی تائیدات کے ساتھ کہے گئے اس کلام میں بارہا حضور علیہ السلام نے اپنے آپ کو اسلام کے ایک جری پہلوان کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ چنانچہ قبولیتِ دعا کے بارہ میں آپؑ فرماتے ہیں ؎

ایکہ گوئی گر دُعا ہا را اثر بودے کجاست
سُوئے من بشتاب بنمایم ترا چوں آفتاب

(اے وہ شخص جو کہتا ہے کہ اگر دعاؤں میں اثر ہے تو بتاؤ کہاں ہے؟ تُو میری طرف دوڑ تاکہ مَیں تجھے سورج کی طرح وہ اثر دکھاؤں۔)

اسی طرح بڑی تحدّی کے ساتھ سیّدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے غلام صادق کے طور پر خود کو پیش کرتے ہوئے اپنے صاحبِ کرامت ہونے کا اعلان یوں فرماتے ہیں؎

کرامت گرچہ بے نام و نشان است
بیا بنگر ز غلمانِ محمدؐ

(اگرچہ اب کرامت مفقود ہوچکی ہے پھر بھی تُو آ اور اسے محمد ﷺ کے غلاموں میں دیکھ لے۔)

اسی طرح بشرطِ وفاداری و ثابت قدمی اپنی صحبت سے فیضیاب ہونے کی تلقین کرتے ہوئے ہستی باری تعالیٰ کے منکرین پر آپؑ نے یوں اتمامِ حجّت فرمائی ہے ؎

اے مزوّر گر بیائی سُوئے ما!
و ز وفا رخت افگنی در کوئے ما
و ز سرِ صدق و ثبات و غم خوری
روزگارے در حضورِ ما بری
عالمے بینی ز ربّانی نشاں!
سوئے رحماں خلق و عالم را کشاں

(اے کذّاب! اگر تُو ہماری طرف آئے اور وفاداری کےساتھ ہمارے کوچہ میں ڈیرے ڈال دے۔ اور اخلاص، ثابت قدمی اور دلسوزی کے ساتھ کچھ عرصہ ہمارے پاس گزارے۔ تو تجھے خدائی نشانوں کا ایک عالَم نظر آئے گا جو دنیا جہان کو اس رحمان خدا کی طرف کھینچے لیے جا رہا ہے۔)

خداتعالیٰ سے عشق اورآنحضورﷺ سے محبت کا جو دریا آپؑ کے قلبِ صافی میں رواں تھا، آپؑ کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں سے منتخب اشعار پیش کرکے اُس کا ایک نظارہ آپ کو دکھاتا ہوں۔ ذاتِ باری تعالیٰ سے اظہارِ عشق کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؎

محبت تو دوائے ہزار بیماری است
بروئے تُو کہ رہائی دریں گرفتاری است
پناہِ روئے تو جُستن نہ طورِ مستان است
کہ آمدن بہ پناہت کمالِ ہُشیاری است
متاعِ مہرِِ رُخِ تُو نہاں نخواہم داشت
کہ خُفیہ داشتنِ عشق تو ز غدّاری است
برآں سرم کہ سرو جاں فدائے تُو بکنم
کہ جاں بیار سپُردن حقیقتِ یاری است

(تیری محبت ہزار (یعنی بے شمار) بیماریوں کی دوا ہے، تیرے ہی منہ کی قسم کہ اسی گرفتاری میں اصل آزادی ہے۔ تیرے چہرے کی پناہ ڈھونڈنا دیوانوں کا کام نہیں کیونکہ تیری پناہ میں آنا تو بڑے ہوشیار لوگوں کا کام ہے۔ مَیں تیری محبت کی پونجی کو کبھی نہیں چھپاؤں گا کیونکہ تیرے عشق کو چھپانا بھی ایک قسم کی غدّاری ہے۔ مَیں اسی دُھن میں ہوں کہ سر اور جان تجھ پر قربان کردوں کیونکہ اپنے آپ کو محبوب کے سپرد کردینا ہی یاری کی حقیقت ہے۔)

اور درج ذیل اشعار میں پوشیدہ اُس عشقِ حقیقی کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں جو ہر لفظ سے عیاں ہے ؎

مرا نہ زُہد و عبادت ، نہ خدمت و کارے است
ہمیں مرا است کہ جانم رہینِ دلدارے است
چہ لذّت است بَرُویش کہ جان فِدایش باد
چہ راحتے است بَکویش اگرچہ خوں بارے است

(میرے پاس نہ زُہد ہے نہ عبادت نہ خدمت کا کوئی اَور کارنامہ۔ میرے لئے یہی کافی ہے کہ میری جان کسی محبوب کی گرویدہ ہے۔ اس کے چہرے میں کتنی لذّت ہے، میری جان اس پر فدا ہو۔ اس کی گلی میں کتنی راحت ہے اگرچہ وہاں خون برستا ہے۔)

اگرچہ حضور علیہ السلام کی کہی ہوئی متعدّد نعتیں بھی درّثمین کی زینت ہیں تاہم آپؑ کا دستور یہ بھی تھا کہ کسی بھی امر کا بیان ہو رہا ہو تو آپؑ اُس کا رُخ سرورکائنات ﷺ کی ذات مبارک کی طرف پھیردیتے تھے۔ گویا ؎

عاشق زار در ہمہ گفتار
سخنِ خود را کشد بجانبِ یار

(عاشقِ زار اپنی بات کا رُخ ہمیشہ اپنے محبوب کی طرف پھیر لیتا ہے!۔)

حضورعلیہ السلام کے بے مثال نعتیہ کلام میں سے ایک پُرمعارف نعت کے پہلے تین اشعار یوں ہیں ؎

در دلم جو شد ثنائے سرورے
آنکہ در خوبی ندارد ہمسرے
آنکہ جانِش ، عاشقِ یارِ اَزَل
آنکہ رُوحش ، واصلِ آں دلبرے
آنکہ مجذوبِ عنایاتِ حق است
ہمچو طِفلے پروریدہ ، در بَرے

(میرے دل میں اس شہنشاہ کی مدح جوش زن ہے کہ حسن و خوبصورتی میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ جس کی جان محبوبِ ازلی کی عاشق ہے۔ وہ جس کی روح کو اس دلبر کا وصل حاصل ہے۔ وہ جسے حق تعالیٰ کی عنایات نے اپنے اندر سمیٹ رکھا ہے اور ایک بچہ کی طرح خدا کی گود میں پَلا ہے۔)

آنحضورﷺ کے حسن و احسان نے تو آپؑ کو ایسا گرویدہ کرلیا تھا کہ گویا آپؑ کے رگ و پےَ میں سرایت کرچکا ہے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے حوالہ سے اپنی حیثیت کا تعیّن کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں ؎

جان و دِلم فِدائے جمال محمدؐ است
خاکَم نثارِ کوچۂ آلِ محمدؐ است
دیدم بَعَینِ قلب و شنیدم بگوشِ ہوش
در ہر مکان نِدائے جلالِ محمدؐ است
اِیں چشمۂ رواں کہ بخلقِ خُدا دِہَم

یک قطرۂ ز بحرِ کمالِ محمدؐ است

ایں آتشم زِ آتشِ مہرِ محمدی است

ویں آبِ من زِ آبِ زُلالِ محمد است

(میری جان اور دل محمدؐ کے جمال پر فِدا ہیں۔ میرا یہ خاکی جسم آل محمدؐ کے کوچہ پر قربان ہے، مَیں نے دل کی آنکھوں سے دیکھا اور عقل کے کانوں سے سُنا، ہر جگہ محمدؐ کے جلال کا شہرہ ہے۔ (معارف کا) یہ چشمہ رواں جو مَیں خلق خُدا کو پیش کرتا ہوں یہ محمدؐ کے کمالات کے سمندر میں سے محض ایک قطرہ ہے۔ میری یہ آگ محمدؐ کے ہی عشق (الٰہی) کی آگ (کا پرتَو) ہے، میرا یہ پانی (زندگی بخش تعلیم) محمدؐ کا ہی مصفّا پانی ہے۔)

قرآن کریم کے عشق کا انداز ملاحظہ کیجیے ؎

از نُورِ پاک قرآں صُبحِ صفا دمیدہ
بر غنچہ ہائے دِلہا بادِ صبا وزِیدہ
کیفیّتِ عُلُومش ، دانی ، چہ شان دارَد
شہدیست آسمانی از وحیٔ حق چکیدہ

(قرآن پاک کے نُور سے روشن صبح طلوع ہوگئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِصبا چلنے لگی۔ کیا تجھے معلوم ہے کہ اس کے علوم کی شان کیسی ہے، وہ آسمانی شہد ہے جو وحیٔ الٰہی سے ٹپکا ہے۔)

الغرض یہ ‘‘درّثمین’’ فارسی زبان میں علوم و معارف کا ایک بحرِ زخّار ہے جس میں سے انتخاب پیش کرنا بھی کارِدارد ہے اور تنگیٔ داماں بھی ملحوظ خاطر ہے۔ فی الحال اس تعارف کا اختتام ایک ایسے شعر پر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جو سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُس دل کی آواز ہے جس میں انسانیت کا درد سمٹ کر آپؑ کی زندگی کا مقصد متعیّن کرگیا تھا اور آپؑ کے غلاموں کی زندگی بھی اِس شعر کی عملی تفسیر بن جائے تو مقصدِ حیات حاصل ہوجائے۔ فرماتے ہیں ؎

مرا مقصود و مطلوب و تمنّا خدمت خلق است
ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

( میری زندگی کی سب سے بڑی تمنّا اور خواہش خدمت خلق ہے۔ یہی میرا کام ہے، یہی میری ذمہ داری ہے، یہی میرا فریضہ ہے اور یہی میرا طریق ہے۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button