خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ22؍فروری 2019ء

بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت محترم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ عالمگیر میں یومِ مصلح موعود کے حوالہ سے ہونے والے جلسوں کا تذکرہ فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس پیشگوئی کے حوالے سے ہو رہے ہیں جس میں 20؍ فروری 1886ء کو آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر ایک موعود بیٹے کی خبر دی تھی۔ اس بیٹے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ اسے خاص خصوصیات کا حامل بنائے گا۔ وہ دین کا خادم ہو گا۔ لمبی عمر پائے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو آگے چلائے گا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور آپؑ کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ چنانچہ جو اس موعود بچے کی پیدائش مقررہ میعاد کے اندر 12؍جنوری 1889ء کو ہوئی اور اس کا نام مرزا بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا۔ آپؓکو اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے وصال کے بعد خلافت کی رداء پہنائی۔

ضورِ انور نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس پیشگوئی کی اہمیت اور اس کی سچائی کا تذکرہ فرمایا اور پھر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی سے آپؓ کے اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے بارہ میں ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ پیشگوئی ایک بیٹے کی پیدائش کی نہیں تھی بلکہ ایک ایسے عظیم الشان فرزند کی ولادت کی پیشگوئی تھی جس کے آنے سے ایک روحانی انقلاب کی داغ بیل ڈالی جانے والی تھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف تبلیغ رسالت کے اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی معمولی روح نہیں مانگی گئی تھی بلکہ ایک نشان مانگا گیا تھا جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصیات کے حامل بیٹے کی پیدائش کی خبر دی۔ ایک ایسے فرزند جلیل کی خبر دی گئی جو عمر پانے والا ہو گا۔ نہایت ذکی اور فہیم ہو گا۔ صاحب شکوہ و عظمت اور دولت ہو گا۔ قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا۔ کلام اللہ یعنی قرآن کریم کا نہایت گہرا فہم اس کو عطا ہو گا اور اس خدا داد فہم سے کام لے کر وہ قرآن کی ایسی عظیم الشان خدمت کی توفیق پائے گا کہ کلام اللہ کا مرتبہ دنیا پر ظاہر ہو۔ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ وہ عالم کباب ہو گا یعنی اس کے دور حیات میں ایسی عالمگیر تباہیاں آئیں گی جو سب دنیا کو بھون کر رکھ دیں گی۔ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔

چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایسی عالمگیر تباہیاں جنگوں کی صورت میں بھی آئیں اور آفات کی صورت میں بھی آئیں۔ پھر شہرت پانے کا جہاں تک تعلق ہے آپؓ نے اپنی زندگی میں دنیا کے مختلف ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچا کر زمین کے کناروں تک شہرت بھی پائی اور اس پیشگوئی کے حوالہ سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت مصلح موعود کی سیرت و سوانح کے حوالہ سے کچھ باتیں بیانفرمائیں۔

سب سے پہلے آپؓکی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ گھر میں تعلیم دینے کے لئے پیر منظور محمد صاحبؓ اور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے آپ کو کچھ دیر بالترتیب اردو اور انگریزی پڑھائی۔ حضورِ انور نے ’سوانح فضل عمر‘ کے حوالہ سے حضرت مصلح موعود کے اپنے الفاظ میں اس تمام امر کی تفصیل بیان فرمائی۔ حضورؓکی صحت چونکہ بچپن سے ہی بہت کمزور تھی اور آپ زیادہ دیر تک کتاب کو دیکھ نہ سکتے تھے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ جو آپ کے استاد بھی تھے کا طریق یہ تھا کہ آپؓکو اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے ’میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ۔‘ حضور کی آنکھوں پر بیماری کا حملہ اس قدر شدید تھا کہ حضور کی بائیں آنکھ کی بینائی بہت کم رہ گئی تھی۔ چنانچہ حضورؓ خود فرماتےہیں کہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے۔ میں راستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچا نا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضورؓکے اساتذہ سے فرما دیا کہ ’پڑھائی اس کی مرضی پرہو گی یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے۔ اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے۔‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر پر زور دیتے کہ حضرت میاں صاحبؓ قرآن کریم کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولانا نورالدین (خلیفۃ المسیح الاولؓ)سے پڑھ لیں۔ اس کے علاوہ حضورؑنے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔ ‘حضورِ انور نے حضرت مصلح موعودؓ کے حساب کے استاد ماسٹر فقیر اللہ صاحب کے حضرت مسیح موعودؑ کو شکایت لگانے کا واقعہ بیان فرمایا کہ آپؓ کبھی مدرسہ آ جاتے ہیں اور کبھی نہیں آتے۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا تھا کہ ’یہ بڑی اچھی بات ہے کبھی کبھی چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔‘

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی آنکھوں کی تکلیف کے علاوہ تلی بھی بڑھ گئی تھی اور ٹانسلز بھی تھے اور اس کے ساتھ ساتھ بخار بھی آتا تھا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ کے حضرت مصلح موعود کے بچپن میں ان کا اردو کے خط کا امتحان لینے اور پھر جوش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچنے کا واقعہ بیان فرمایا۔ جس پر حضور علیہ السلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کو بلوایا اورپھر حضرت مصلح موعودؓ کو چند سطور لکھ کر نقل کرنے کے لئے دیں جسے حضورؓ نے آہستہ آہستہ اور احتیاط سے نقل کر دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے ’مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔‘

حضرت خلیفہ اولؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کی تعظیم میں زور دے کر پہلے حضرت مصلح موعودؓ کو تین مہینے میں قرآن پڑھایا اور پھر بخاری بھی پڑھا دی۔ اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت حضورؓنے حضرت مولوی صاحبؓ سے شروع کر دی۔ غرض حضورؓکو حضرت مولوی صاحبؓ سے طب ،قرآن کریم کی تفسیر، بخاری اور چند عربی رسالے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی کُل دنیاوی تعلیم یہی تھی لیکن آپؓکی تقاریر، آپؓکے خطابات، آپؓکی تصانیف آپؓکی تفسیر قرآن اس بات کی گواہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو پڑھایا۔ یقیناً یہ اس پیشگوئی کی سچائی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی پہلی پبلک تقریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں 1906ء کے جلسہ سالانہ پر کی۔ اس تقریر کے علم و معرفت کا سامعین پر بہت اثر ہوا۔ حضورِ انور نے حضرت قاضی ظہور الدین اکملؓ کا اس معرکۃ الآراء تقریر پر تبصرہ بیان فرمایا نیز فرمایا کہ اس زمانے میں آپؓکی دینی سرگرمیاں اور جوش اور ذہنی و روحانی نشوونما یہ بتا رہی تھی کہ پیشگوئی کے الفاظ کہ ’وہ جلد جلد بڑھے گا‘ کے آپؓہی مصداق بننے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی دینی جوش کو محسوس فرمایا۔ آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں۔‘ حضورِ انور نے فرمایا کہ حضورؑ یقیناً یہ دعا اس لئے کرتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہی موعود بیٹا بنا دے اور اس پر اپنے فضلوں کی بارش کو تیز تر کر دے اور تمام خوشخبریاں اس کے حق میں پوری ہوں۔

حضورِ انور نے سوانح فضل عمر کے حوالہ سے حضورؓکی صغر سِنّی سے ہی تقریر و تحریر میں موجود پختگی کا ذکر فرمایا۔ پھر امرتسر سے قادیان آ کر ایک ہفتہ رہنے والے ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب کے تاثرات بیان فرمائے۔ اور پھر حضورؓ کی بچپن کی عبادتوں کے بلند معیار کے بارہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے الفاظ بیان فرمائے کہ ایک مرتبہ دس سال کی عمر میں حضورمسجد اقصی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے۔

پھر ایک نو مسلم عابد و زاہد اور صاحب کشف و الہام بزرگ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ کا بیان کردہ ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے رات مسجد مبارک میں عبادت کرنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ وہاں کوئی پہلے سے تضرّع اور ابتہال اور الحاح سے دعاؤں میں مگن ہے۔ اس کی دعاؤں میں اِس قدر تڑپ تھی کہ اِن پر بھی اثر طاری ہونے لگا اور انہوں نے دعا کی کہ یا الٰہی یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے ۔ بہت دیر بعد جب اس شخص نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ حضرت میاں محمود احمد صاحبؓ ہیں۔حضرت شیخ صاحبؓنے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا تو آپؓنے فرمایا کہ ’میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کر کے دکھا اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے۔‘

حضورِ انور نے اپنے خطبہ جمعہ کے اختتام پر تشحیذ الاذھان میں موجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک پُر اثر، جامع اور مفصل دعا کا ذکر فرمایا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ دعا 1909ء کی دعا ہے جبکہ حضورؓ کی عمر صرف 20 سال تھی۔ اس وقت بھی آپؓ کے دل میں دین کے لئے اور قوم کے لئے ایک درد تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کے اوپر ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور آپؐ کے غلامِ صادق اور مسیح موعود اور مہدی معہود کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے رات دن ایک کر کے اور اپنے عہد کو پورا کر کے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوئے۔ اور ہمیں آپؓکی اس درد بھری دعا کو سمجھنے اور کرنے اور احمدی ہونے کے مقصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


٭٭٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button