الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

عیسائی راہب بحیرا کی گواہی

آنحضورﷺ کے بچپن میں عیسائی راہب بحیرا کی آپؐ کے حوالہ سے ایک ایمان افروز گواہی مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی مرتّبہ ایک کتاب سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جنوری فروری 2012ء کی زینت ائی گئی ہے۔

آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک قریباً بارہ سال تھی۔ آپؐ کے والدین اور دادا بھی وفات پاچکے تھے اور آپؐ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ رہتے تھے۔ جب ابوطالب ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہونے لگے تو آپؐ سے یہ جدائی برداشت نہ ہوئی اور آپؐ چچا سے لپٹ کر رونے لگے۔ خود چچا کا دل بھی اداس ہو رہا تھا چنانچہ انہوں نے آپؐ کو بھی اپنے ہمراہ لے لیا۔

قریش کا قافلہ جب شام کے جنوب میں واقع گاؤں بصریٰ میں پہنچا تو وہاں کی ایک خانقاہ (صومعہ) کے عیسائی راہب بحیرا کی نظر آپؐ پر پڑی تو اُس نے دیکھا کہ بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا آپؐ پر سایہ کیے ہوئے ہے تاکہ آپؐ کو دھوپ سے بچائے۔ اُس نے کشفاً یہ نظارہ بھی دیکھا کہ آپؐ کو دیکھ کر درخت اور پتھر سجدہ میں گرگئے ہیں۔ اُس کو اندازہ ہوگیا کہ موعود نبی کے بارہ میں سات پشتوں سے سینہ در سینہ جو پیشگوئی ہے کہ وہ قریش میں سے ہوگا، عین ممکن ہے کہ یہی بچہ ہو۔

اُس نے قافلے والوں کو دعوت پر بلایا تاکہ آپؐ کو اچھی طرح دیکھ سکے۔ جب سب لوگ دعوت پر آگئے تو اُسے وہ بچہ نظر نہ آیا۔ اُس نے پوچھا کہ کیا سب قافلے والے آگئے ہیں؟ تب اُس کو بتایا گیا کہ ایک بچہ سامان کی حفاظت کرنے والوں کے ساتھ پیچھے رہ گیا ہے۔ اُس نے اصرار کرکے آپ ؐ کو بلوایا اور قریب بلواکر آپؐ سے باتیں کیں، دونوں کندھوں کے درمیان ابھرے ہوئے گوشت ’’مہرنبوت‘‘ کو محسوس کیا جو آنے والے نبی کی ایک نشانی تھی۔ جب اُسے یقین ہوگیا کہ آپؐ ہی وہ موعود نبی ہیں تو ابوطالب سے پوچھا کہ اس بچے کا آپ سے کیا رشتہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ راہب کہنے لگا کہ اس کا باپ زندہ نہیں۔ ابوطالب بولے: ٹھیک ہے یہ میرا بھتیجا ہے۔ تب راہب نے ابوطالب سے کہا کہ آپ اس بچے کو لے کر فوراً واپس چلے جائیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ان نشانیوں سے اس کو پہچان لیں اور کوئی نقصان پہنچائیں۔

…٭…٭…٭…

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جنوری فروری 2012ء میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ رئیس مالیرکوٹلہ کا مختصر تعارف مکرم فخرالحق شمس صاحب کی حضرت نواب صاحبؓ کے حوالہ سے لکھی جانے والی کتاب سے شامل اشاعت ہے۔

حضرت نواب محمد علی خان صاحب یکم جنوری 1870ء کو اپنے والد محترم نواب غلام محمد خان صاحب کی چوتھی بیگم نواب بیگم صاحبہ بنت سردار خان صاحب کے بطن سے پیدا ہوئے۔ چھ سات سال کی عمر میں اُس زمانہ کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارہ ’چیفس کالج انبالہ‘ میں داخل کروائے گئے جہاں رؤسائے پنجاب کے بچے زیرتعلیم ہوتے تھے۔ آپ کے ساتھ ملازم، اتالیق، گھوڑے اور سواری الغرض کافی عملہ بھیجا گیا۔

آپ کا نکاح 14 سال کی عمر میں اپنی خالہ زاد مہرالنساء بیگم صاحبہ سے ہوا۔ 21 سال کی عمر میں تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں حضرت نواب صاحب نے حتی المقدور کسی قسم کی رسم نہ ہونے دی۔ آپ کو رسوم و بدعات سے سخت نفرت تھی۔

ابتدائی عمر میں آپ نے اپنے استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا۔ حضور علیہ السلام کا اُن دنوں کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ بعد میں 1889ء میں آپ نے حضرت اقدسؑ سے خط و کتاب شروع کی اور بعض سوالات کا اطمینان بخش جواب پانے کے بعد بِلاتأمّل بیعت کا خط لکھ دیا۔ رجسٹر بیعت میں آپ کا نمبر 210 زیر تاریخ 19؍نومبر 1890ء درج ہے۔ ابتداء میں آپؓ نے اپنی بیعت کو مخفی رکھا لیکن حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؓ کا اور آپؓ کے خاندان کا ذکر فرمادیا تو اس طرح آپؓ کی بیعت کا اعلان بھی ہوگیا۔ نومبر 1898ء میں آپؓ کی اہلیہ وفات پاگئیںتو حضور علیہ السلام کے مشورہ اور تحریک پر آپؓ نے اپنی اہلیہ مرحومہ کی چھوٹی بہن محترمہ امۃالحمید بیگم صاحبہ سے شادی کرلی۔ 1906ء میں آپؓ کی اہلیہ ثانی بھی وفات پاگئیں۔ ان کا جنازہ حضور علیہ السلام نے پڑھایا۔

اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت 17؍فروری 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ سے ہوگیا۔ اعلانِ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے کیا۔ اس حوالہ سے حضرت نواب صاحبؓ اپنی ڈائری میں رقمطراز ہیں:’’یہ وہ فضل اور احسان، اللہ کا ہےاگر مَیں اپنی پیشانی کو شکر کے سجدے کرتے کرتے گھساؤں تو بھی خداتعالیٰ کے شکر سے عہدہ برآں نہیں ہوسکتا۔ میرے جیسے نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور۔ یہ خدا کا خاص رحم اور فضل ہے۔ اے خدا! اے میرے پیارے مولیٰ! اب تُو نے اپنے مُرسَل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کو بھی نُور بنادے کہ اس قابل ہوسکوں‘‘۔

حضرت نواب صاحبؓ نے قادیان ہجرت کے بعد شروع میں دارالمسیح کے ساتھ دو کچے کمروں میں رہائش اختیار کی اور پھر قادیان کی آبادی سے باہر کوٹھی ’’دارالسلام‘‘ تعمیر کروائی جس میں باغ بھی لگوایا۔

حضرت نواب صاحبؓ فونوگراف قادیان لائے اور حضورعلیہ السلام کی نظم ؎

آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے

اور کچھ دیگر نظمیں اور تقریریں نیز غیرممالک میں تبلیغ کے لئے پیغام بھی ریکارڈ کیا گیا۔

حضرت نواب صاحب ایک علم دوست شخصیت تھے۔ آپؓ کا روپیہ ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ ہوا۔ آپ کو تعلیم کی عام ترویج کا بہت شوق تھا۔ مدرسہ احمدیہ کے لئے کئی مرتبہ مالی تعاون کیااور آپؓ ہی کی عالی ہمّتی سے قادیان میں کالج کا قیام ہوا۔ (حضرت نواب صاحبؓ کی مالی قربانیوں کے حوالہ سے ایک مضمون الفضل انٹرنیشنل 5؍جنوری 2007ء کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔)

حضرت نواب صاحبؓ کے اخلاق فاضلہ کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپ کسی پر اعتراض نہ کرتے، نہ گلہ شکوہ کرتے۔ غیبت نہ کرتے تھے اور نہ سنتے تھے۔ ادب اور حفظِ مراتب کے بے حد پابند تھے اور اکثر اپنی اولاد اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔

حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ تہجّد کی نماز میں آپؓ دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خداتعالیٰ کا نُور کمرہ میں نازل ہورہا ہے۔ بہت گریہ و زاری کرتے۔ تلاوت قرآن مجید کی کثرت کے باعث قریباً تمام قرآنی دعائیں یاد تھیں۔ احادیث کی بھی بہت سی دعائیں یاد تھیں جو اکثر پڑھا کرتے تھے۔
حضرت نواب صاحبؓ نے لمبا عرصہ علیل رہنے کے بعد 10؍فروری 1945ء کو بعمر 75 سال وفات پائی۔

…٭…٭…٭…

اصحاب احمد کی مہمان نوازی اور سخاوت

ماہنامہ ’’خالد‘‘ جنوری 2012ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض صحابہ کی مہمان نوازی اور سخاوت سے متعلق مکرم نداء الظفر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے میاں نجم الدین صاحب مہتمم لنگرخانہ کو ایک بار بلاکر فرمایا کہ ’’بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہےکہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔ سردیوں کا موسم ہے چائےپلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو۔ تم پر میرا حُسنِ ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو ان سب کی خوب خدمت کرو۔ اگر کسی کو گھر یا مکان میں سردی ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کردو‘‘۔

٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؒ کے ارشاد پر مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ نے یتامیٰ، مساکین اور طلباء کے لئے جماعت میں 2100 روپے چندہ کی تحریک کرتے ہوئے لکھا کہ ایک سو روپے حضورؓ نے اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کیا ہے۔

٭ جناب خان سعداللہ خان صاحب ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ 1917-18ء میں مجھے پندرہ یوم بطور مہمان حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ہاں قیام کا موقع ملا۔ رات کا کھانا کھاکر اُن کی بیٹھک میں سو جاتا تھا۔ صبح جب اُٹھتا تو میرے نزدیک میز پر پینے کے لئے پانی کا جگ، وضو کے لئے پانی کا لوٹا اور تولیہ موجود ہوتا جو حضرت میاں صاحب فجر کی نماز کے لئے مسجد جانے سے پہلے رکھ دیا کرتے تھے۔ بچپن کی لاپروائی میں کبھی خیال نہ آیا تھا کہ اتنا خیال کون رکھتا ہے۔ اسی طرح دوپہرکا کھانا ہم اکٹھے کھایا کرتے تھے۔ ایک دن مہمان خانہ میں پٹھانوں نے مجھےکھانے کے لئے ٹھہرالیا۔ چنانچہ مَیں نے کھانا کھاکر اُن کے ساتھ کافی وقت گفتگو میں مصروف رہا۔ پھر باہر نکلا تو بازار میں کسی نے بتایا کہ میاں صاحب کا ملازم مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ مَیں آپؓ کے گھر پہنچا تو دسترخوان پر کھانا پڑا تھا اور میاں صاحب مع ایک اَور دوست میرے انتظار میں بیٹھے تھے۔ مَیں نے سلام عرض کرکے کہا کہ مَیں نے تو روٹی کھالی ہے۔ آپؓ کے ماتھے پر کسی قسم کے ملال کے آثار نہ تھے، ہنس کر فرمایا کہ اب ہمارے ساتھ بھی شامل ہوجائیں۔ چنانچہ مَیں کھانے میں شامل ہوگیا لیکن بچپن کی لاپروائی کے باعث معذرت تک نہ کرسکا۔

٭ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ ہر مہمان کو اپنا رشتہ دار ہی سمجھتے۔ آپؓ شادی سے کچھ ہی عرصہ بعد قادیان آبسے تھے۔ جلسہ سالانہ پر بہت سے مہمان آپؓ کے ہاں ٹھہرتے جن کے لئے آپؓ ساٹھ ستّر بستروں کا انتظام سالہاسال تک کرتے رہے۔ ناشتہ لسّی وغیرہ سے کرواتے۔ کھانا لنگر سے آتا لیکن آپؓ مہمانوں کی ضروریات پتہ کرنے کے لئے بار بار پوچھتے رہتے۔کوئی بیمار ہوجاتا تو خود نُورہسپتال لے جاتے اور ڈاکٹر صاحب سے اپنی موجودگی میں نسخہ تجویز کرواتے۔ اگر فرصت نہ ہوتی تو ڈاکٹر کے نام خاص توجہ کے لئے رقعہ لکھ دیتے نیز پرہیزی کھانا اور دودھ وغیرہ کا انتظام گھر میں کرتے۔

٭ حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ نہایت اخفاء کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے آپؓ کی اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی۔ آپؓ کی وفات پر علم ہوا کہ کئی یتیم لڑکے اور بیوہ عورتیں ہر ماہ اپنی ایک مقررہ تاریخ پر رقم لینے کے لئے آیا کرتے تھے اور آپؓ کا یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ صدقہ و خیرات کے لئے قرض بھی لے لیتے تھے۔

…٭…٭…٭…

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ فروری 2012ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو ربوہ کی یاد میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

دن بھر دین کی خدمت ہے اور رات کو آہیں نالے ہیں
یہ نگری عاشق لوگوں کی یاں طَور طریق نرالے ہیں
ہے دل میں جوت محبت کی اور چہرے نُور کے ہالے ہیں
چھوٹی سی اِک بستی ہے ، پر لوگ بڑے دل والے ہیں

دن جلسوں کے یاد آتے ہیں دل کا درد بڑھاتے ہیں
یونہی پیدل چلتے چلتے آنسو اُمڈے آتے ہیں
ہم یادوں کے چُنگل میں یاں آتے ہی پھنس جاتے ہیں
سب گلیاں بازار یہاں کے اپنے دیکھے بھالے ہیں
چھوٹی سی اِک بستی ہے ، پر لوگ بڑے دل والے ہیں

ہر اِک عاشق قرآں کا ہے مولا کا گرویدہ ہے
بھولا بھالا چہرہ بھی یاں گرم و سرد چشیدہ ہے
سیدھے سادھے ہر بندے میں شیر یہاں خوابیدہ ہے
دل میں اناالحق کا نعرہ یہ مہدیؑ کے گھر والے ہیں
چھوٹی سی اِک بستی ہے ، پر لوگ بڑے دل والے ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button