سیرت خلفائے کرام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات

(عطاء الوحید)

’’اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بارہ میں بتایا گیا تھا کہ وہ ’’قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان‘‘ ہوں گے۔ چنانچہ آپؓ کے وجود میں یہ پیشگوئی اس طرح بھی پوری ہوئی کہ آپؓاللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کی بدولت اور اس کی قربت کے صدقے ایک انتہائی مستجاب الدعوات وجود تھے۔ ذیل میں حضورؓکی معجزانہ قبولیت دعا کے چند واقعات بطور مشتے از خروارے پیش ہیں۔

دونوں آنکھیں درست ہوگئیں

مکرم فتح محمد صاحب حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیںکہ 1917ء کا واقعہ ہے مجھے ککر وں کی تکلیف تھی ۔ایک رات مجھے سخت تکلیف ہوئی اور میں ساری رات نہ سوسکا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓکوبلایا۔حضرت میر صاحب تشریف لائے او راپنے ہاتھوں سے دوائی لگاکر چلے گئے او رشدتِ بیماری کا مجھ سے یا میری بیوی سے ذکر نہ کیا۔ البتہ گھر جاکر حضرت امیر المومنین حضر ت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضر ت اماں جان ؓسے ذکر کیا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ توقریبًا ضائع ہوچکی ہے اورآنکھوں کی پتلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے اور آنکھ کے اندر سفیدی نظر آتی ہے۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضر ت اماں جانؓ کے دلوں میں درد اور ترحُّم پیداہوااور اسی وقت میرے لئے دعا کی اور رات حضر ت امیرالمومنین ؓ نے رؤیامیں دیکھاکہ میں حضورکے سامنے بیٹھاہوں او رمیری دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں۔ یہ رؤیاحضور نے صبح ہی حضرت اماں جانؓکو سنایا توحضرت اماں جانؓ اسی وقت خوش خوش ہشاش بشاش ہمارے گھر تشریف لائیں اور میرے گھر آکر مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ جلد صحت دے گا اورحضرت میر صاحب کی رپورٹ اور حضر ت امیر المومنینؓ کے رؤیا کا ذکر کیا اورفرمایااب اللہ تعالیٰ کاخاص فضل ہوگااور صحت ہوجائے گی۔

بعد میں حضرت میر صاحبؓ خود تشریف لائے اور آنکھ کا معائنہ کرنے کے بعد سخت حیرت ہوئی کہ ایک رات میں زخم کا8/7حصہ مندمل ہوگیاہے۔ اس کے بعد بیماری گھٹنی شروع ہوئی او ر میری دونوں آنکھیں درست ہوگئیںاو راللہ تعالیٰ نے ایک لمباعرصہ خدمتِ سلسلہ کا موقع دیا۔ باوجود ہندوستان کے بعض ایسے علاقوں میں کام کرنے کے جہاں لو اور دھوپ سے آنکھوں کے خراب ہونے کا خدشہ تھا میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں۔

(نصرت الحق صفحہ40)

ہم دعا کریں گے

مکرم میاں فضل الٰہی صاحب احمدی آف لالہ موسیٰ کی اہلیہ بعض نسوانی بیماریوں کی وجہ سے بیمارہوگئیں۔ ایام ماہواری کی بے قاعدگی ، لیکوریا، قلتِ دم وغیرہ بیماریوں نے ان کو گھیر لیا۔مکرم فضل الٰہی صاحب اس کی تفصیل اس طرح بیان فرماتے ہیں:جب بیماریوں نے طول کھینچاتومیں نے بہت سے ماہر ڈاکٹروں اورلیڈی ڈاکٹروں سے ان کا علاج کروایالیکن افاقہ نہ ہوا۔بعض لیڈی ڈاکٹروں نے معائنہ کے بعد بتایاکہ میری اہلیہ کے رحم میں نقص واقع ہوگیاہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ سلسلۂ تولید بندہوجائے گا۔میں نے اس فکر میں حضر ت سیدناخلیفۃ المسیح الثانیؓکو دعاکے لئے متواتر خطوط لکھے۔ ان کے جواب میں حضرت مصلح موعود ؓنے ازراہ شفقت تحریر فرمایا کہ ان شاء اللہ ہم دعا کریں گے لیکن آپ بچہ دانی کی اصلاح کے لئے جوان بکری کی بچہ دانی کی یخنی صبح شام دودفعہ ہفتہ عشرہ تک اپنی بیوی کو استعمال کروائیں۔ چنانچہ میں نے حضور کی ہدایت کے مطابق استعمال کروائی۔ اس کے بعد جب لیڈی ڈاکٹر کومعائنہ کروایا گیاتووہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بچہ دانی بالکل درست او رصحیح ہے اور اس میں کوئی نقص باقی نہیں رہا۔اور اس کے بعد میاں فضل الٰہی صاحب کی اہلیہ کے گھر کئی تندرست بچے تولد ہوئے ۔فالحمد للہ علی ذلک

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ115)

ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعا کرتے ہیں

حضرت مولاناغلام سول صاحب راجیکی ؓ حیات قدسی میں رقم طراز ہیں 1943:ء کا واقعہ ہے کہ میں تپِ محرقہ میں سخت بیمار ہوگیااو رعلاج کے باوجود بخار میں دن بدن زیادتی ہوتی گئی۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود میرابخار نہ اترا۔بخار کے ساتھ ہی اسہال بھی شروع ہوگئے اور ضعف اور کمزوری کی وجہ سے میں اکثر بے ہوش رہتا۔ یہاں تک کہ ایک دن غلطی سے میری موت کی افواہ بھی شہر میں پھیل گئی۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓنے جب میری حالتِ نازک دیکھی توآپؓ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حضور ڈلہوزی پہنچے او ر اس حقیر خادم کے لئے درخواستِ دعا کی۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم سب مولوی صاحب کی صحت کے لئے دعائیں کررہے ہیں۔چنانچہ سیدناحضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور آپ کے اہلِ بیت کی دردمندانہ دعائیں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کو کھینچنے کاباعث بنیں اور میں روبصحت ہونے لگا۔

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ27)

اور نزع کی سی کیفیت وارد ہوگئی

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ حضر ت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کاایک اور واقعہ تحریر فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے مجھ (حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی) پر بے حدونہایت احسان ہوئے۔ 3نومبر 1957ء کوبندش بَول سے بیمار ہوکر کوئی ایک ماہ سے اوپر شدید بیمار رہا۔ایک وقت مجھ پر ایسا آیاکہ میری آنکھیں پتھر اگئیںاور نزع کی کیفیت وارد ہوگئی۔ چھت کی ایک کڑی پر میری نظر تھی لیکن حرکت نہ کرسکتاتھا۔ میرے تمام بیٹے خدمت میں مصروف تھے۔حضرت مصلح موعودؓ،حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت مرزاشریف احمد صاحبؓ اور دوسرے بہت سارے بزرگ میرے حق میں دعائیں کرتے تھے۔ حضرت مرزابشیر احمد صاحبؓ کا منشاء تھاکہ لاہور لے جاکر میو ہسپتال میں علاج کرایاجائے۔ پسرم عزیز محمد احمد سلمہٗ نے عرض کیاکہ اڈہ بس تک لے جانے پر ہی اباجان کی وفات ہوجائے گی۔
ایک روز میاں غلام محمد صاحب اختر عیادت کے لئے آئے۔ میری حالت بہت نازک تھی۔میں نے چشم پرآب ہوکر کہاکہ حضرت مصلح موعودؓکی خدمت میں حاضر ہوں تومیری طرف سے بعدالسلام علیکم عرض کریں کہ بادشاہوں کے ہاں شادی وغیرہ خوشی کی تقریبات پر قیدی رہاکئے جاتے ہیں۔حضور کے خاندان میں بھی ایک ایسی تقریب ہے۔ میں مرض کا اسیر ہوں۔ دعا کر کے مجھے مرض سے آزاد کرائیں۔ اختر صاحب نے بعد میں بتایاکہ جب میں نے پیغام عرض کیاتوحضو رکے چہرہ سے یوں معلوم ہوتاتھا کہ حضور نے دعاکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قبولِ دعا کایہ نشان دکھایاکہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے آلہ کے ساتھ پیشاب خارج کیاجاتاتھا اس واقعہ کے بعدمجھے خیال آیاکہ خود پیشاب کرکے دیکھوں۔ میری حیرت کی انتہانہ رہی جب کہ پیشاب خودہی خارج ہوگیا اور بعدازاں باقاعدہ آنے لگا۔فالحمد للہ علی ذلک۔میرے دل پر یہ غالب اثر ہے کہ یہ حضو ر کی قبولِ دعا کانشان تھاجس میں دوسرے بزرگوں کی دعائیں بھی شامل تھیں۔

(اصحاب احمدجلد3صفحہ142-141)

موت ٹلتی نہیں مگردعا سے

حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحب آف سکندرآباد الحکم قادیان کی ایک اشاعت میں تحریر فرماتے ہیں:

1918ء میں مَیں نے اپنے لڑکے علی محمدصاحب اور سیٹھ الٰہ دین ابراہیم بھائی نے اپنے لڑکے فاضل بھائی کو تعلیم کے لئے قادیان روانہ کیا۔علی محمدنے 1920ء میں میٹرک پاس کرلیا۔ان کو لنڈن جاناتھا۔دونوں لڑکے مکان واپس آنے کی تیاری کر رہے تھے کہ یکایک فاضل بھائی کو ٹائیفائیڈ (typhoid)بخار ہوگیا۔نورہسپتال کے معزز ڈاکٹر جناب حشمت اللہ خان صاحبؓاور حضرت خلیفہ رشید الدین صاحبؓنے جو کچھ ان سے ہوسکا کیا۔طبیعت درست بھی ہوگئی مگر بدپرہیزی کے بعد پھر ایسی بگڑی کہ زندگی کی کوئی امید نہ رہی۔جب یہ خبر حضر ت امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکو پہنچی توحضور خود بورڈنگ تشریف لائے اور بہت دیر تک دعافرمائی۔ اس کے بعد طبیعت معجزانہ طور پرسدھرنے لگی اور خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے فاضل بھائی کو نئی زندگی حاصل ہوگئی۔یقیناًحضرت رسول کریم ﷺ نے یہ جو فرمایاکہ موت نہیں ٹلتی مگر دعا سے۔یہ حقیقت ہم نے صاف طور پر اپنی نظر سے دیکھی ۔(الحمدللہ)

(الحکم 26دسمبر1939ء صفحہ37)

اب کوئی علاج نہیں سوائے دعاکے

حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی الٰہ دین صاحبؓتحریر فرماتے ہیں کہ:

میری تیسری لڑکی عزیزہ ہاجرہ بیگم کے پیٹ میں یکایک در د ہوگیا ہم نے اپنے قریب رہنے والے سرکاری خطاب یافتہ ڈاکٹر کوجو آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں بلوایا۔انہوں نے دیکھ کر کہاکہ لڑکی کے پیٹ میں پیپ ہوگیاہے فورًا آپریشن کرکے نکال دیناچاہئےورنہ جان کا خطرہ ہے۔دسمبر کا مہینہ تھا مجھے قادیان جلسہ سالانہ پر دوایک روزمیں جاناتھااور یہاں یہ حالت ہوگئی۔پھر ہم نے یہاں کے ہاسپٹل کے بڑے یورپین ڈاکٹرکو بلوایا اس نے خوب معائنہ کیااور کہا کہ نہ پیپ ہے اور نہ آپریشن کی ضرورت۔ہم سب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور خداتعالیٰ کا شکر اداکیامگر وہ ڈاکٹر اپنی رائے پر ہی اڑارہاکہ پیپ یقیناہے فورًا آپریشن کی ضرورت ہے اس کے بغیر اگر یہ لڑکی بچ جائے تو میں اپنی ڈاکٹری چھوڑدوں گا۔مگر ہم نے اس کی کوئی پروا نَہ کی ۔ میں دوسرے دن قادیان روانہ ہوگیا۔وہاں سے واپس آنے تک لڑکی اچھی رہی۔مگر اس کے بعد یکایک لڑکی کی ناف میں سوراخ ہوگیا او را س قدر پیپ نکلاجس کی کوئی حد نہیں۔ہم نے پھر اسی ڈاکٹر کو بلوایاجس نے کہا تھاکہ پیپ ہے۔اب ہم آپریشن کے لئے بھی رضامند ہوگئے مگر ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکی کی حالت نازک ہوگئی ہے اب آپریشن کا وقت نہیں رہا۔اب یہ کیس hopeless ہوگیا ہے۔ہم نے دیکھااب کوئی علاج نہیں سوائے دعاکے۔میں نے فورًا ایک تار حضرت امیر المومنین کی خدمت میں اور دوسر االفضل کو روانہ کیااور پھر ایک بارحضور کی دعا کا معجزہ دیکھاکہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے لڑکی صرف ایک معمولی سی دوائی سے صحت پاگئی۔الحمدللہ ثم الحمدللہ

(الحکم 28دسمبر1939ء صفحہ37)

ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد ہی نہ رہی

الحکم کی ایک اشاعت میں ایک واقعہ اس طرح درج ہے:دسمبر 1937ء میں حضرت خلیفہ نورالدین صاحبؓکو پھر کاربنکل کاحملہ ہوگیااور قابل ڈاکٹروں برکت رام ایم ۔ بی (لنڈن )او ربلونت سنگھ صاحب آر۔سی ۔ایس۔ای کے زیرِ علاج تھے۔ دونوں نے مرض کی رفتار کودیکھ کر آپریشن کا متفقہ مشورہ دیااو رکہاکہ اب سوائے آپریشن کے لئے تیار نہ تھے آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکی خدمت میں بیماری کی اطلاع بذریعہ تاردی گئی اور دعا کی درخواست کی گئی حضور ؓنے ارشاد فرمایاکہ آپریشن نہ کرائیں او ر زخم کو گلیسرین وغیرہ نئے طریقِ علاج سے صاف کیا جاتارہا۔ جس سے خلیفہ صاحب بکلی صحت یاب ہوگئے اور دونوں ڈاکٹروں کی حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی۔یہ محض حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعا کا اثر تھا۔

(الحکم 7تا14نومبر 1939ء صفحہ7)

اچھا دعا کروں گا

مکرم سید اعجاز احمد شاہ صاحب انسپکٹر بیت المال تحریر فرماتے ہیں:

1951ء کاواقعہ ہے کہ میں ربوہ میں تھا۔مجھے برادرم سید سجاد احمد صاحب کی طرف سے جڑانوالہ سے تارملا کہ والد صاحب کی حالت نازک ہے جلد پہنچو۔نماز مغرب کے قریب مجھے تار ملا۔مغرب کی نماز میں نے حضور خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی اقتدامیں گھبراہٹ کے عالم میں اداکی۔جب حضور نماز پڑھاکر واپس جانے لگے تومیں نے عرض کیا۔جڑانوالہ سے چھوٹے بھائی کا تار ملاہے اباجی کی حالت نازک ہے۔کل صبح جاؤں گا۔حضور نے فرمایااچھا دعا کروں گا۔حضور پرنور کے ان چارلفظوں میں وہ سکینت تھی کہ بیان سے باہر ہے۔اگلی صبح کو جڑانوالہ پہنچا۔والد صاحب محترم چارپائی پر حسبِ معمول پان چبارہے تھے۔بھائی سے شکوہ کیاکہ تم نے خواہ مخواہ تار دے کر پریشان کیاتواس نے کہاکہ کل مغرب کے بعد سے اباجی کی حالت معجزانہ طور پر اچھی ہونی شروع ہوئی اور خطرے سے باہر ہوئی ورنہ مغرب سے پہلے سب علاج بیکار ہو کر حالت خطرے والی اور ازحد تشویشناک تھی۔

(روزنامہ الفضل17اپریل1966 ء)

نہ ہی وہاں گلٹی تھی نہ ہی دردتھا

مکرم محمد عمر بشیر صاحب تحریرفرماتے ہیں:

1945ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓکراچی تشریف فرماتھے۔ان دنوں میرے والدین بھی ڈھاکہ سے کراچی آئے ہوئے تھے۔حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔میرے والدصاحب کوگلے میں کئی دنوں سے سخت تکلیف تھی وہاں کے احمدی او رغیر احمدی معروف ڈاکٹروں کو د کھا یا۔ ہر ایک نے اس تکلیف پر تشویش کا اظہار کیااور کہاکہ آپریشن کے بغیر کوئی علاج نہیں ہے او رآپریشن بھی کم کامیاب ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں سخت فکر لاحق ہوئی ۔ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے او ردعا کی درخواست کی۔حضور نے فرمایا اچھا میں دعا کروں گا۔والدہ صاحبہ نے اسی وقت حضور سے کہاکہ حضور ان کو یہاں تکلیف ہے۔حضور نے جب نظر اٹھائی اور گلےکودیکھاتووالدہ صاحبہ کہنے لگیں حضو رابھی دعا کریں۔حضور مسکرا دیے اور دعا کی۔ خداشاہد ہے کہ اسی وقت حضورؓنے توجہ فرمائی اور ابھی والدہ صاحبہ اور والد صاحب حضورکی کوٹھی سے باہر گئے ہی تھے کہ والد صاحب کہنے لگے کہ مجھے آرام محسوس ہوتاہے اور جب گلے پر ہاتھ رکھ کر دیکھاتونہ وہاں گلٹی تھی اور نہ ہی دردتھا۔

(روزنامہ الفضل مورخہ19اپریل1966ء)

اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کو مکمل صحت دے گا

مکرم شیخ فضلِ حق صاحب واہ کینٹ سے تحریر فرماتے ہیں:

1948ء میں میری اہلیہ بہت ہی بیمار ہوگئی۔بیماری طوالت پکڑنے لگی۔سول ہسپتال راولپنڈی میں ڈاکٹر ملک عبدالحق صاحب کو دکھایاانہوں نے ٹیکے تجویز کئے۔ ان دنوں انجیکشن بہت ہی مہنگے آتے تھے۔ 50؍ روپے کا ایک ڈبہ تھاجس میں 5 ٹیکے ہوتے اور صبح شام لگتے تھے۔تانگے کاکرایہ الگ۔اس طرح پر چار پانچ سو روپے خرچ ہوگئے۔ مالی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکو خط لکھاکہ صحت ومشکلات کے لئے دعاکریں۔ میرے پاس صرف30؍ روپے رہ گئے تھے اور ٹیکہ کاڈبہ50؍ روپے کا آتاتھا۔مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ میں بڑا پریشان تھاکہ ایک دم لیڈی ڈاکٹر نے کہاکہ ایکسرے کرالیں پھر مزید علاج کے لئے بتایاجائے گا۔ دوسرے دن میں اہلیہ کو لے کر ہسپتال گیاتاکہ ایکسرے کا نتیجہ دیکھاجاسکے اور اسی دن حضو ر کا لفافہ ایک بجے کی ڈاک میں ملاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اہلیہ کومکمل صحت دے گا اور دیگر مشکلات بھی حل کرے گا۔ کوئی فکر نہ کریں۔ دل کو بڑی تسلی ہوئی۔ایکسرے دیکھ کر لیڈی ڈاکٹر صاحبہ نے کہاکہ آپ کی اہلیہ بالکل ٹھیک ہیں آپ کو مبارک ہو۔یہ سن کرمیری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ سب کچھ حضو رکی دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے۔

(روزنامہ الفضل 28اپریل1966ء)

ایک ٹکڑابادل کا نمودار ہوگیا

حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ صاحبؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے متعلق ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں:
سرینگر کشمیر اور اسلام آباد کے درمیان بذریعہ کشتی سفر ہورہاتھا۔ ایک مقا م پر پہنچنے پر معلوم ہواکہ دریاسے آدھ ایک میل کے فاصلے پر پورانے کھنڈرات نکالے جارہے ہیں۔جن سے بہت سی عجیب معلومات حاصل ہورہی ہیں۔ حضور بھی دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے ۔جاتے ہوئے توکچھ زیادہ معلوم نہ ہوا۔ واپسی پردھوپ کی سخت شدت محسوس ہوئی اور سفر نسبتًا لمبا بھی ہوگیاتھا کیونکہ کشتی چلتی ہوئی اوپر نکل گئی تھی۔ میرے دل میں فکر پیداہوئی کہ مباداشدت دھوپ کی وجہ سے حضو رکو سر درد وغیرہ کے عوارض نہ لگ جائیں۔زیادہ وقت نہ گزراتھاکہ ایک ٹکڑابادل کا سورج کی ٹکیاکے سامنے نمودار ہوگیا۔جس کی وجہ سے خداکے فضل سے تیز دھوپ بند ہوگئی۔ یہ خدائی چھتری تائید الٰہی سے تھی۔

(الحکم 14دسمبر1939ء صفحہ4،5)

اللہ تعالیٰ نے میری ہر دعا کو قبول فرمایاہے

حضرت ابوالمبارک محمد عبداللہؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکی دعاکے نتیجے میں غیرمعمولی نصرت الٰہی کاتذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’سال1925ء میں ایک دفعہ دومہینوں کی اکٹھی تنخواہ ملی جو میں نے قادیان آکر اپنے والدین کوپیش کر دی۔ اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکی بعد نماز عصر بیت الاقصیٰ میں تقریرتھی میں بھی گیا۔ حضورؓ نے فرمایاکہ جماعت پر خاصہ قرض ہوگیاہے او رملازمو ں کی دو د و ، تین تین ماہ کی تنخواہ رکی ہوئی ہے۔ حضو رنے اس ضمن میں خاص چندہ کی تحریک فرمائی ۔ میں مخمصے میں پڑگیا۔دونوں ماہ کی تنخواہ تووالدین کو دے چکا اور مانگنے میں شرم محسوس کرتا تھا ۔ شام کو آیا تو میرے (سوتیلے )والدصاحب نے پوچھا کہ حضورنے اپنی تقریر میں کیا فرما یا ہے؟ میرے بتانے پر انہوں نے فورًا ایک ماہ کی تنخواہ( 52روپے سے زائد تھی) حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے واپس کر دی۔ میں نے اگلے دن وہ رقم حضو ر کو ایک رقعہ کے ساتھ بھجوادی جس میں بعض امور کے متعلق دعاکے واسطے درخو ا ست کی ہوئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد حضو رنے فرمایاکہ اس موقع پر جس جس آدمی نے چندہ دیاہے اور دعاکے لئے لکھاہے۔میں نے ایسے ہر آدمی کے لئے دعاکی ہے او رمیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری ہردعا کو قبول فرمایاہے۔میں نے جن امور کے لئے حضو ر کودعاکی درخواست کی تھی ان میں ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ کاحصول تھاجو سِول سرجن گورداسپور سے حاصل کرناتھا۔ کیونکہ میری تنخواہ پچیس روپے سے زیادہ تھی اس وجہ سے محکمہ نے میرا اسسٹنٹ سرجن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ نا منظور کردیاتھا۔ اس ضمن میں میں نے اپنے استاد بابومحمد طفیل صاحب سے گزارش کی کہ وہ کسی سفارش کا بند و بست کردیں انہوں نے معلوم کیاکہ سول سرجن سفارش سے چڑجاتا ہے۔

میں نے اﷲ تو کل ہیڈماسٹر سے سول سرجن کے نام برائے حصول میڈیکل سرٹیفکیٹ ایک خط حاصل کیا او ربعد دوپہر گورداسپور پہنچا۔ وہاں میری کوئی واقفیت نہ تھی۔اللہ کے فضل سے ایک رئیس نے میری مہمان نوازی کی۔ اس رات خواب میں مجھے حضرت مولوی سیدمحمد سرور شاہ صاحب ملے۔ میںسمجھ گیاکہ میڈیکل سر ٹیفکیٹ والا کام ہوجائے گا۔صبح سول سرجن کے دفتر گیا ۔ وہاں سکھ چپڑاسی نے بیٹھنے کے لئے کرسی لا دی۔سول سرجن نوبجے آیا۔ میراتیسرا نمبر تھا۔ سول سرجن نے مجھے انگریزی میں پوچھاکہ تم کہاں سے آئے ہو۔جب میں نے کہاقادیان سے توعلمی باتیں کرنے لگ پڑا اور بڑاخوش ہواکہ اہلِ قادیان بڑاعلمی شغف رکھتے ہیں۔ اس طرح آدھ گھنٹہ بیت گیا۔آخر میں مجھ سے کہنے لگاکہ تم کیا چاہتے ہو؟تومیں نے کہامیڈیکل سرٹیفکیٹ دے دیں۔ میں نے اس سکھ چپڑاسی کو 2 ، 4 روپے بطور نذرانہ دینے چاہے لیکن اس نے صاف انکار کردیا۔ اس طرح یہ کام بغیر رشوت اورسفارش کے ہوگیااور حضو رخلیفۃ المسیح الثانیؓ کا یہ فرمان کہ خاص چندہ دہندگان کے متعلق میری تمام دعائیں اللہ تعالیٰ نے قبول کرلی ہیں۔ پو ر ا ہو گیا ۔ فالحمد للہ علی ذالک

(حیات ابوالمبارک صفحہ54تا58)

دعاکرنے پر وہ روپیہ آیاتھا

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓکو حضرت مصلح موعودؓ نے تحریر فرمایا:

مکرمی۔السلام علیکم۔آپ کی طرف سے 100روپیہ پہنچ گیاتھاجزاکم اللہ احسن الجزا۔ آپ کی اہلیہ کی طرف سے بھی دس روپے پہنچ گئے۔جزاکم اللہ احسن الجزاء چونکہ اس وقت روپے کی خاص ضرورت تھی اور خداتعالیٰ سے دعاکرنے پر وہ روپیہ آیا تھا اس لئے خاص طور پر دعاکی گئی۔

(اصحاب احمد جلد 3 صفحہ126)

اللہ تعالیٰ نے سب ظلمتیں دور فرمادیں

حضرت ابوالمبارک محمد عبداللہ صاحبؓحضرت مصلح موعودؓکی قبولیتِ دعا کا ایک واقعہ کچھ اس طرح تحریر فرماتے ہیں:

پسرور میں پہلے چھ مہینے سخت پریشانی میں گزرے۔ گھر آرام وسکون کی جگہ ہوتاہے لیکن وہاں بھی بیوی کی بیماری زیادہ پریشان کردیتی جوڈیرہ بابانانک میں ہی دوسال سے بیمار تھی۔ بچوں کو وقت پر روٹی نہ ملتی تھی ۔ ڈیرہ بابا نانک سے پسرور آنے سے پہلے میں نے حضور مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی تھی او رانہوں نے تسلی دی تھی کہ میں دعا کروں گا۔میں پسرور آکر بھی اس’’درد منداں دے دردیا‘‘کو لکھتارہااور ان کی طرف سے جواب بھی آتا رہا۔ ایک دن خواب میں دیکھاکہ اخبار الفضل آیاہے اور اس میں لکھاہے فسیکفیکھم اللہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب ظلمتیں دور فرمادیں۔ان دنوں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب گجرانوالہ میں بطورسول سرجن تعینات تھے۔ ان سے حضرت اماںجان کے گھر رہنے کی وجہ سے بچپن سے ہی شناسائی تھی۔ان کی خدمت میں حاضر ہواانہوں نے بعض طبی ٹیسٹ کرنے کے بعد بتایاکہ میری بیوی کے گردے میں پتھری ہے۔ بعد میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتارہااور ان کے طبی مشورے میری بیوی کے علاج میں بہت ممد ثابت ہوئے۔

(حیات ابوالمبارک صفحہ72)

باعزت بری کردیا

بابو اللہ بخش صاحب ریلوے گارڈ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بابو فقیر علی صاحبؓنور پور روڈ سٹیشن (ضلع کانگڑہ)پر متعین تھے۔ ایک سب ڈویژنل آفیسر کے عہدہ پر متعین شخص وہاں سے تین چار سٹیشن تک روزانہ بلا ٹکٹ سفر کرتا تھا آپ نے اس سے کرایہ چارج کرلیااو رآئندہ اسے اس طرح سفر کرنے سے سختی سے منع کیا۔ اس نے مشتعل ہوکر پہلے آپ کے گھر چوری کروادی پھر ایک تانگہ والے سے تحصیلدار کی عدالت میں آپ کے خلاف استغاثہ دائر کرادیا کہ فلاں روز سیر کے دوران بابوصاحب نے مجھے بلاوجہ گالیاں دیں او رمجھے مار پیٹ کی۔ تحصیلدار بھی با بو صاحب کامخالف تھا ۔آپؓنے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا ۔آپؓنے دعا کی نیز مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور (سرگودھا)کو اپنا وکیل مقرر کرنے کا مشورہ دیا اورفرمایاکہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ تحصیلدار کے تبادلہ کے احکام صادر ہوگئے اور ا س نے یہ سوچ کر کہ مقدمہ توجھوٹاہی ہے ۔نیا تحصیلدار اسے ضرور خارج کردے گا میں ہی کیوں نہ خار ج کر دوں۔آپ کو باعزت بری کردیا۔

(اصحاب احمد جلد3صفحہ56،57)

مخالفیں کے منہ بند ہوجائیں

مکرم فتح محمدصاحب تحریرفرماتے ہیں:

1921ء میں جب میں خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوا اور میرے ساتھ ہی ہمارے گاؤں مٹھیانہ ہوشیار پور کے چار اَور افراد بھی احمدیت کے حلقہ بگوش ہوگئے توگاؤں بلکہ علاقہ بھر میں ہماری مخالفت شروع ہوگئی۔ جگہ جگہ ہمارئے خلاف چرچا ہونے لگا۔بحث مباحثہ ہوتا رہتا تھا اور اختلافی مسائل پرگفتگو شروع رہتی۔جب دشمن ہمارے اعتراضات کے جواب دینے سے عاجز آگئے اوراپنے عقائد کی کمزوری ان کونظرآنے لگی توگاؤں کے بوڑھوں نے یوں کہنا شروع کردیا’’کیا ہواکہ یہ لوگ مرزائی ہوگئے ہیں، ان کو ملتی تولڑکیا ں ہی ہیں‘‘۔ اتفاق سے ہم پانچوں کے ہاں جواس وقت تک احمدی ہوئے تھے لڑکیاں ہی لڑکیا ں تھیں۔ نرینہ اولاد کسی ایک کے پاس بھی نہ تھی ۔ اس بات کا میرے دل پربڑا صدمہ ہوااو رمیں نے اسی صدمہ کے زیر اثر اپنے پیارے امام حضرت مصلح موعودؓکے حضور نہایت عاجزی سے دعاکی درخواست کی کہ حضو رہم سب کے ہاں نرینہ اولاد ہونے کی دعاکریں۔ تااس بارہ میں بھی مخالفین کے منہ بند ہوجاویں۔ حضور نے جواب دیاکہ خداوند تعالیٰ آپ سب کو نرینہ اولاد دے گا ۔ چنانچہ حضور پرنور کی دعاسے خداوند تعالیٰ نے ہم سب کو نرینہ اولاد سے نوازا۔

(روزنامہ الفضل 28؍اپریل 1966ء)

تھوڑے دنوں بعد دریانے پلٹا کھایا

خداتعالیٰ کے پیاروں کی دعاؤں سے دریابھی کس طرح اپنے رخ پھیر لیاکرتے ہیں ۔اس ضمن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دعااور اس کی قبولیت کاذکرکرتے ہوئے حضرت چوہدری غلام محمدصاحبؓصحابی حضرت مسیح موعودؑتحریرفرماتے ہیں:

میں تحصیل نکودر میں موضع برہمیان ارائیں قوم کے گاؤں میں عرصہ تک رہا۔ وہاں ایک مسجد تھی۔ عام طورپر لوگ نماز پڑھتے تھے ۔رات کے کسی حصہ میں میں جب بھی مسجد میں گیا تومیں نے کسی نہ کسی کو نمازپڑھتے یاوضوکرتے پایا۔مسجدکبھی خالی نہ ہوتی تھی ۔ میں اکثرنماز کے لئے وہاں جاتااورلوگوں کو اپنے مطلب کی باتیں سناتا۔ مولوی لوگ بھی اکثر وہاں پندونصیحت کے لئے آتے لوگوں کووعظ سناتے۔میر امکان بھی مسجد کے نزدیک تھا میں بھی اکثر ان کاوعظ سننے کے لئے مسجد میں چلاجاتا۔ میں مولوی صاحبان سے تبادلۂ خیالات کے لئے لوگوں کو بلاتا مگر کوئی ادھر توجہ نہ کرتا۔ تاہم میں تبلیغ ضرور کرتا۔آخرخدا نے ان لوگوں کو آن پکڑا۔ یوں ہو اکہ دریا نے ان کو گھیرا۔ دریا زمین کو گرانے لگا۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ زمینداروں کے نقصانات کو دیکھ کر لوگ تڑپ رہے تھے۔ گلیاں اورمکانات لکڑیوں سے اٹے پڑے تھے کیونکہ جہاں دریاڈھالگاتالوگ درخت کاٹ کاٹ کر لے آتے۔ مَیں اکثر نمازوں کے لئے مسجد جاتا تو لوگوں کوقادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓسے دعاکرانے کے لئے کہتا۔لوگ کہتے اگر ہم قادیان گئے تودوسرے لوگ ہمیں کافر کہنے لگیں گے۔میں کہتا تم اپنی مرضی دیکھو۔ آخردوآدمی میرے پاس آئے کہ ہم کودعاکے لئے خط لکھ دو۔ وہ لے کر چلے گئے۔جالندھر شہر میں ان کی رشتہ داری تھی وہ پہلے دن رات جالندھر میں رہے۔ دوسرے دن نمازِظہر سے پہلے قادیان پہنچ گئے اورحضرت صاحب کو میرا عریضہ دے دیا اور خود زبانی بھی عرض کیاکہ حضور ہمارے لئے دعاکریں ۔ حضور پُرنورؓ نے فرمایا کہ جب میں نماز پڑھانے کے لئےمسجدمیں آیاکروںاونچی آوازسے ضرور یاد کرادیاکرنا۔ ظہر، عصر،مغرب، عشاء ان کے لئے دعاہوئی۔وہ رات کو سوگئے۔ ان کو دریا کے نقصان سے بچاؤ کی اطلاع خواب کے ذریعے مل گئی۔پھر کیا تھا صبح کی نماز کے لئے وہ مسجد میں آئے توحضرت اقدس کو اپنا خواب سنایا کہ ہمارا تویقین ہوگیاہے کہ حضور پُرنور کی دعامنظور ہوگئی ہے۔ہمیں جانے کی اجازت دے دیں ہمیں بڑی فکرہے۔ اجازت لے کر وہ گھر واپس لوٹے توراستے میں جوکوئی ان سے ملتا۔ان کوالٹی خبر سناتا مگر ان کا یقین کم نہ ہوا۔سیدھے مسجد میں پہنچے انہوںنے قسم کھائی اور ساراحال سنایا۔ حضرت اقدسؓسے دعاکرانے اور اپنے خواب اوریقین کا حال سنایا۔ لوگوں نے راستہ میں ہی اورگاؤں کے نزدیک ہمارے خواب کے برخلاف بہت کچھ کہہ ڈالا۔ اس پر ہم مسجد میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہوکر قسم کھائی کہ ہمارا خواب جھوٹانہیں ہوسکتا۔ اب تم لوگ بتاؤ کہ ہمار ا خواب جھوٹاہے یاسچاہے۔ تولوگوں نے برملا کہاکہ جس وقت کی تم بات کرتے ہو اس لمحے سے ایک تولہ بھر مٹی بھی دریا نے نہیں گرائی۔پھر کیا تھا ساراگاؤں کا گاؤں بن بلائے میرے مکان پرآگیا۔اور کہاکہ تم حضور پُرنور کوعرض کرو کہ ان کی دعاکے طفیل دریا نے اب ایک تولہ بھی زمین نہیں گرائی۔ہم عاجزوں کے لئے دعاکریں کہ دریاہم سے دور چلاجائے اور ہماری جو زمین گرائی ہے اس سے بہتر زمین اپنے پیچھے چھوڑ جائے۔میںنے سب گاؤں کے انگوٹھے لگواکر حضورپرنور مصلح موعودؓکی خدمت میں سب حال عرض کرکے دعاکے لئے درخواست کی۔ حضور نے ازراہِ غرباء پروری جلد ہی جواب سے مشرف فرمایاجس کی اطلاع لوگوں کو کرادی گئی ۔تھوڑے دنوں بعد دریا نے پلٹاکھایا اور ان کی زمینیں چھوڑ کر تین میل پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی اطلاع حضورپُرنورکی خدمت میں ارسال کردی گئی۔

(حضرت چوہدری غلام محمدخان گرد اور قانونگو صفحہ31،32)

انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی

حضرت ڈاکٹر محمدصادق صاحب تحریرفرماتے ہیں:

خلافت ثانیہ کاابتدائی زمانہ تھا۔میرے والدمرحوم جناب منشی امام الدین صاحبؓان دنوں موضع لوہ چپ میں جوقادیان سے چار میل کے فاصلہ پرجانب غرب واقعہ ہے ملازم تھے۔ پاس ایک گاؤں بھاگی ننگل ہے۔ وہاں ایک شخص لچھمن سنگھ رہتاتھا جوابھی تک زندہ ہے۔ اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن اس نے کہاکہ میرے لئے اپنے حضرت صاحب سے دعا کروائیں کہ خدا مجھے لڑکا دے دے۔ اگر مرزاصاحب سچے ہوں گے تومیرے ہاں اولاد ہوجائے گی۔ والدصاحب مرحوم ومغفور قادیان آئے۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے حضورسار اواقعہ عرض کردیا۔حضور نے فرمایامیں دعاکروں گا اور انشاء اللہ اس کے ہاں اولاد ہوگی۔ والدصاحب نے اسے یہ خوشخبری سنادی کچھ عرصہ کے بعدا س کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کانام اوردھم سنگھ ہے۔یہ لڑکا میٹرک پاس کر چکاہے اور اپنے گاؤں میں پہلا نوجوان ہے جس نے اتنی تعلیم حاصل کی ہے۔

(الحکم جوبلی نمبر20 دسمبر 1939ء جلد نمبر42)

لکھ دومیں نے دعاکردی

حضرت قدرت اللہ سنوری صاحبؓحضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی قبولیت دعا کانشان تحریر فرماتے ہیں:
ریاست پٹیالہ تحصیل سرہند میں ایک سکھ ذیلدار میرا سخت مخالف تھا پہلے وہاں تحصیلدار اورافسر مال دونوں مسلمان تھے وہ تبدیل ہوکر سکھ افسر مال آ گیا۔ ذیلدارنے اس کو بہت بھڑکایا اس افسر مال نے نمبردار کے ذریعہ مجھے پیغام بھجوایاکہ اس کو کہہ دو ملازمت ترک کرکے چلا جاوے ورنہ اس کو سخت سزادی جائے گی۔ میںنے نمبردار سے پوچھا ۔ اس نے کیالفظ کہے تھے؟ اس نے بتانے سے انکار کیا کہ اسی سے پوچھو۔ مجھے بیہودہ باتیں کرنے سے شرم آتی ہے۔ میں نے اصرار کیا آپ مجھے وہ لفظ بتائیں۔ اس نے کہاکہ یوں کہاتھا۔اس سورمسلے کوکہہ دوکہ چلاجاوے۔ میں نے اس نمبردار کوکہاکہ آپ یہ یاد کرکے جاویں اورافسر مال صاحب سے کہہ دیں کہ قدرت اللہ نے عرض کیاہے فکیدونی فلا تنظرون جس قدر داؤ کرنے ہیں کرلو۔میں ملازمت ازخود ترک نہیں کروں گااو ریہ جو آپ نے ’’سور مسلا‘ ‘ فرمایاہے میں اس کا جواب کوئی نہیں دیتاکیونکہ آپ میرے آفیسر ہیں۔ ہاں اگر میرا خدا چاہے تووہ خود جواب دے سکتاہے۔ ظہر کا وقت تھا میں نے نماز ادا کی اوراس میں دعاکی۔

دعاکرنے کے بعدحضر ت مصلح موعودایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے نام ایک خط لکھا اوریہ سارا واقعہ تحریر کیا اوریہ خط ایک زمیندار کے ہاتھ میں دے کر اس کو اپنے گھوڑے پر سوارکرکے تقریبًا پندرہ میل کے فاصلہ پراپنے خسر چوہدری کریم بخش صاحب کے پا س بھجوایا اور ان کو خط لکھ دیاکہ آپ آج ہی آدھی رات کی ریل گاڑی سے سوار ہوکر میراخط لے کر بٹالہ جائیں اور بٹالہ سے قادیان پہنچ کر میرا خط حضور کی خدمت میں پیش کردیں اوراس خط میں میں نے یہ سار اواقعہ حضور کی خدمت میں لکھ دیا کہ مجھ کو ایسا کہاہے ۔وہ خط چوہدری صاحب کے پا س پہنچا وہ اسی رات ریل پر پہنچ گئے۔جب وہ مسجد مبارک میں داخل ہوئے اس وقت تکبیر ہورہی تھی۔ چوہدری صاحب نے نہایت سرعت کے ساتھ بڑھ کرنماز شروع ہونے سے پہلے میراخط حضور کی خدمت میں دے دیا۔ حضورنے نیت باندھنے سے پہلے ہی وہ خط پڑھ لیا اورپچھلی طرف مڑ کر چوہدری صاحب سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ ان کو لکھ دو میںنے دعاکردی ۔ چنانچہ اس خط کا جواب مجھے اس وجہ سے دیر سے ملاکہ میری رہائش دیہات میں تھی وہاں ہفتہ وار ڈاک جاتی تھی ۔مگر دعاوالے دن کی شام کو ہی افسر مال صاحب دورے پر چلے گئے وہاں جاتے ہی رات کو ہیضہ ہوگیا۔ قے دستوں میں بھرے ہوئے تحصیل میں لائے گئے۔ وہاں سے رتھ میں پٹیالہ کو روانہ ہوئے۔جب میرے حلقہ کی حد میں آئے فو ت ہوگئے۔

(تجلی ٔ قدرت صفحہ44،45)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button