سیرت خلفائے کرام

خلافتِ ثانیہ کی کچھ یادیں

(سید ساجد احمد۔ امریکہ)

خاکسار 1948ء میں پیدا ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 1965ء میں رحلت فرما گئےجبکہ میری عمر کوئی سترہ سال تھی۔ گویا مجھے ہوش سنبھالنے سے لے کر کوئی سترہ سال کی عمر تک آپؓکا مبارک دَور دیکھنے کی توفیق حاصل رہی۔ اس زمانہ میں جماعت کے اکثر اجلاس تلاوتِ قرآن کریم کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معروف اشعار سے شروع ہوتے تھے جو ہر بچے، جوان اور بوڑھے کے زبان زدِ عام تھے۔

لختِ جگر ہے میرا، محمود بندہ تیرا
دے اس کو عمر و دولت، کر دور ہر اندھیرا

دن ہوں مرادوں والے، پُر نور ہو سویرا
یہ روز کر مبارک، سُبحانَ مَن یَّرانی

خدا کا کیسا محبوب انسان تھا کہ جس کے لئے خداوندِ کریم نے اپنی جناب سے یہ انتظام فرمایا تھا کہ اُسے مسیح پاک کی مبارک زبان سے نکلی دعائیں اس کثرت سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمدیوں کی زبانوں سے بلند اور مترنم آواز میں ملتی تھیں اور ہزاروں سامعین توجہ، شوق اور دلی محبت سے ان دعاؤں کو سنتے اور ساتھ ساتھ اپنے دلوں میں دہراتے تھے اور دل و جان سے آمین کہتے تھے۔

میرے دادا سید محمد یوسف شاہ صاحب نے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنی زندگی خدمتِ دین کے لئے وقف کردی اور موجودہ مسجد اقصیٰ ربوہ کے قریب مکان بنایا تھا۔ ان دنوں اس مکان کے دائیں پلاٹ میں ابھی مکان نہ بنا تھا اور پیچھے بھی جگہ خالی تھی اور مسجد اقصیٰ بھی ابھی نہیں بنی تھی۔ گھر کا پچھواڑہ موجودہ مسجد اقصیٰ کی طرف تھا۔ پچھلی دیوار کے ساتھ مرغیوں کا ڈربا تھا جو رات کے آخری لمحوں میں اکثر جنگلی بلوں کا نشانہ بنتا تھا۔ ڈربے کے پاس ہی چنبیلی اپنی خوشبو سے ماحول معطر رکھتی تھی۔ میرے دادا صبح سویرے فجر سے پہلے اٹھ کر اونچی آواز میں اوپر والی نظم میں سے دعائیں پڑھتے تھے۔ فجر کی نماز سے پہلے محلے کے بچے صلِّ علیٰ نبینا، صلِّ علیٰ محمد کا ورد کرتے ہوے گلیوں سے گذرتے تھے کہ لوگ الصلوٰۃ خیر من النَّوم کا احساس دلوں میں لئے اپنی قریبی مسجد میں نمازِ باجماعت کے لئے بر وقت پہنچ جائیں۔

میرے دادا جان کو دفتر جائیداد صدر انجمن احمدیہ میں مختارِ عام کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل تھی اور آپ اکثر اس سلسلے میں سفر پر جاتے تھے۔ میرے والد سید سجاد حیدر صاحب اپنی ملازمت کی وجہ سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہے۔ ہم جب بھی اپنے عزیزوں کو ملنے یا سالانہ جلسے پر ربوہ جاتے تو دار الرحمت شرقی میں سیّد منزل میں ہی رہتے۔

کبھی کبھی دادا جان کی عمر رسیدہ پھوپھی صاحبہ سیالکوٹ سے تشریف لاتیں اور انہیں اپنی بیٹی کو ملنے جانا ہوتا تو انہیں دار الصدر لے جانے کی سعادت میرے سپرد ہوتی۔ باوجود بڑھاپے کے سفید برقعہ پہنتیں۔ اگر کوئی کہتا کہ اس عمر میں پردے کی کیا ضرورت ہے تو کہتیں کہ جو چہرہ پہچان کی ساری عمر نہیں دکھایا اب کیوں دکھاؤں۔

مجھے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا ایک منزلہ مختصر گارے کا بنا مکان یاد ہے کہ مَیں اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ سادہ سا چھوٹا کچا مکان کچی سڑک پر تھا۔ مجھے ڈاکخانے کی کچی عمارت بھی کچھ یاد ہے۔ سارے رستے کچے تھے۔ دھول اڑتی تھی اور دھول ہی میں بے فکر چلتے پھرتے تھے۔ ان دنوں میری عمر تو بہت چھوٹی تھی اس لئے مجھ سے تو کوئی صلاح نہ لیتا تھا لیکن میں سب کچھ دیکھتا اور سنتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں باتیں ہوتی تھیں کہ پرانی عمارتوں کو بطور یادگار رہنے دیا جائے یا گرا دیا جائے مگر بعض لوگ کہتے کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ یہ شرک کا باعث نہ بن جائیں۔

مجھے ایک جلسے پر جانا بھی یاد ہے۔ بہت لوگ تھے۔ اس زمانے میں سب سفید لباس ہی پہنتے تھے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مختصر تقریر فرمائی جس کے کافی الفاظ مجھے یاد ہوتے تھے لیکن اب امتدادِ وقت نے فراموش کرا دیے ہیں مگر یہ یاد ہے کہ آپ نے قادیان کا اور قادیان دوبارہ جانے کا ذکر فرمایا اور اس بارے میں دعا کی تحریک فرمائی۔ جہاں میں اپنے ابا جان کے ساتھ کھڑا تھا وہاں سے سب نظارہ خوب اچھی طرح نظر آرہا تھا۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو دیکھنے بھی گئے۔ ایک لمبی قطار تھی جو ایک دروازے میں سے گذرنے کے بعد آہستہ آہستہ ایک تنگ رستے میں داخل ہو رہی تھی۔ دائیں اور بائیں اینٹوں کی پکی دیواریں تھیں۔ دائیں طرف خدا کا بہت ہی پیارا شخص ایک بہت ہی سادہ سی چارپائی پر لیٹا تھا۔ آپ کا مبارک چہرہ گزرنے والوں کی طرف تھا۔ چہرے پر رونق اورطمانیت تھی۔ آپ کا ایک یا دونوں گھٹنے اوپر اُٹھے تھے، ہاتھ میں الفضل پکڑا تھا اور اس پر آپ کی نظر تھی اور ہم قریب سے خاموشی سے دعائیں کرتے اور آپ کو دیکھتے گذرتے جاتے تھے۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک کھلی جگہ کچے میدان میں حضرت قمر الانبیا رضی اللہ عنہ کھڑے تھے اور آپ سے مصافحہ کرنے والوں کی ایک قطار لگی تھی جس میں مَیں اور میرے پیارے ابا جان کھڑے ہوگئے اور باری آنے پر مصافحہ کا شرف حاصل ہوا۔

جب میں دوسری، تیسری یا شاید چوتھی جماعت کا طالبِ علم تھا تو مجھے کچھ عرصہ ربوہ سکول جانے کا موقع بھی ملا۔ یہ سکول دار الرحمت میں ریلوے سٹیشن اور نصرت مسجد کے درمیان کچے بازار کے پاس ایک عمدہ عمارت میں تھا۔ جن سکولوں سے میں یہاں آیا تھا وہاں تو مٹّی سے اٹے ٹاٹوں پر بیٹھتے تھے۔ یہاں تو بیٹھنے کے لئے میز کرسی تھی اور اساتذہ بہت محنتی، سختی سے قواعد پر عمل کرانے والے مگر دل کے حلیم اور ہمدرد تھے۔ یہاں تھوڑے عرصے میں ہی مَیں نے بہت سی ایسی باتیں سیکھیں جنہوں نے مجھے ربوہ سے پاکستان کے دوسرے سکولوں میں جانے کے بعد اساتذہ اور طلبا کی نظر میں امتیاز بخشا۔

میں اکال گڑھ موجودہ علی پور چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں چھٹی یا ساتویں جماعت میں طالبِ علم تھا۔ ہماری چھوٹی سی جماعت تھی۔ ایک گھر کی نچلی منزل کے ایک کمرے میں اکٹھے ہو تے تھے۔ یومِ مصلح موعود آنے والا تھا۔ اس کا پروگرام بننے لگا تو حاضرین سے پوچھا گیا کہ کون کس موضوع پر کچھ تیار کرے گا۔ میں چھوٹا بچہ تھا۔ میں نے کہا کہ میں آخر میں وہ بات کہوں گا جو کسی نے نہ کہی ہو اور بیان سے رہ گئی ہو۔ ابا جان کو کتابوں اور علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا اور گھر میں پڑھنے کو بہت کتابیں تھیں جن میں سے زیادہ تر احمدیت کے متعلق تھیں۔ ان میں ’الموعود‘ کتاب بھی تھی جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر اپنے آپ کو پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہونا بیان فرمایاہے۔ میری عمر کے لحاظ سے یہ کافی ضخیم کتاب تھی جسے میں اس سے قبل بھی کبھی کبھی پڑھتا رہتا تھا اور پیشگوئی کی عظمت پر حیران ہوتا تھا کہ کیسے ایک پسرِ موعود کی اتنی نشانیاں معین کی جاسکتی ہیں اور پھر اتنی خوبی سے پوری ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم صرف اس ایک پیشگوئی پر ہی غور سے نظر کریں تو حضرت مسیح موعودؑ کے مقام کی عظمت روزِ روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتابوں میں یہ خوبی ہے کہ وہ بڑی آسان زبان میں اس طرح لکھی گئی ہیں کہ بڑے مشکل علمی مسائل بھی سہل معلوم دیتے ہیں اور آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔ میں نے اس کتاب یعنی ’الموعود‘ کا مطالعہ اس نظر سے کرنا شروع کردیا کہ ہر بات کو سمجھ جاؤں تا کہ جلسے کے دن جو بات رہ جائے اسے بیان کر سکوں مگر چند روز بعد کتاب گم ہو گئی اور بڑی پریشانی کا سامنا پڑ گیا۔ مگر میں سوچتا رہا اور مختلف کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا کہ مجھے تفسیرِ کبیر سے ہی ایک ایسی بات مل گئی جس کے متعلق میرا خیال ہو گیا کہ کسی اور کے ذہن میں نہیں آئے گی۔ چنانچہ جلسے کے دن اپنی باری آنے پر میں نے کہا کہ حضرت آدم سے لے کر آج تک جن خلفاء کے حالات کا ہمیں علم ہے اگر ہم ان پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر خلیفہ انسانیت کو ایک نئی سمت لے کر جاتا ہے جس کا ادراک کئی دفعہ اس خلیفہ کی زندگی میں ہوتا ہی نہیں لیکن اس کی سمجھ بعض دفعہ اس کی زندگی میں ہی آ جاتی ہے۔ اسی طرح ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی پر آپ کی زندگی میں ہی نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح آپ انسانیت کو ایک نئی سمت لے کر جا رہے ہیں اور بعض باتوں کا آپ کے اس جہان سے گذر جانے کے بعد دنیا کو علم ہو گا۔ آج آپ کے اس دنیائے فانی سےگذر جانے کے پچاس سال بعد ہی جب کہ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم صرف اس بات پر ہی غور کریں کہ آپ کی جاری کردہ تحریکِ جدید کے ذریعے سے ہی کس طرح دنیا بھر میں مسجدیں بنی ہیں، مراکزِ تبلیغ قائم ہوئے ہیں اور اسلام پھیلا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس تحریک نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا ہے کہ ’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘ اسی طرح نظر فرمائیں تحریکِ وقفِ جدید پر اور جماعت میں مختلف تنظیمی ادارے جو آپ نے قائم فرمائے اور ذیلی تنظیمیں تشکیل دیں کہ ان کے اثرات کیسے جاری و ساری اور دائمی ہیں اور وہ کیسے دنیا کی حالت سال بسال بدلتے چلے جائیں گے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں موجودہ خلفاء کے خطبات کی طرح آپ کا خطبہ بھی الفضل میں چھپتا تھا۔ جن مسجدوں میں مَیں جمعہ پڑھنے جاتا تھا ان میں نمازِجمعہ پر یہی خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ جن دوستوں کی الفضل تک رسائی تھی وہ خطبہ اپنی سہولت کے مطابق بھی پڑھ سکتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے کیسٹ ٹیپ کا سلسلہ شروع فرمایا اور پھر آپ نے مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور اب تو موبائل فون اور انٹرنیٹ نے خطبے تک پہنچ بہت ہی آسان کر دی ہے۔
الفضل بھی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی جاری فرمایا تھا جس کے ذریعے احمدیہ خلافت کی آواز ہر احمدیہ خلافت کے زمانے میں نہ صرف مسیح پاک کے پروانوں تک بلکہ حق کی متلاشی ہر سعید روح تک حقیقی اسلام کا پیغام پہنچتا رہا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری دنوں میں بھی میں ربوہ میں تھا۔ اس سے تھوڑا عرصہ ہی قبل داداجان اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔ سب لوگ بڑے الحاح سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی صحت کے لئے دعائیں مانگتے تھے لیکن یہ دنیا فانی ہے اور ہر کسی نے چھوٹی یا لمبی عمر پاکر آخرِ کار اس جہان کو الوداع کہہ دینا ہے۔ ریلوے لائن کے ساتھ والی چھوٹی مسجد بشیر ہمارے گھر کے قریب تھی، وہاں جا کر لمبی نمازیں ادا کرتے اور لمبے سجدوں میں اپنے محبوب امام کی صحت و شفا کے لئے دعائیں کرتے لیکن ایک روز وہ خبر آگئی جس کا ہمیں دھڑکا لگا تھا، حضرت مصلح موعودؓ  کی وفات کا اعلان ہو گیا!! دنیا بھر سے لوگ ربوہ آنے شروع ہو گئے۔ مجلسِ انتخاب خلافت مسجد مبارک میں جمع ہوئی اور لوگ باہر نئے خلیفہ کے انتخاب کا اعلان سننے کو جمع ہو گئے۔ میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ انتظار میں دعائیں کرتا کھڑا رہا۔ ہم مسجد کے احاطے سے باہر کھڑے تھے۔ خلافت ایک مقدس مقام ہے اور خدا تعالیٰ اپنی حکمت اور اپنے عالمگیر منصوبوں اور ارادوں کے مطابق اس امانت کو اپنے ایک بہادر، قوی اور امین شخص کو چن کر سونپ دیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں فتح و ظفر کی کنجیاں تھما کر اپنے فرمانبردار فرشتوں کو اس کی حمایت کی فضا پیدا کرنے کے اہم کام پر مقرر فرما دیتا ہے۔ ہمارے عزیزوں کے ذہنوں میں میرے دادا جان کا یہ کہنا پہلے سے جاگزین تھا کہ میرے بعد (حضرت) میاں ناصر (احمد، خلیفۃالمسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ) کا خیال رکھنا، سو جب تک خدا نےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جا نشین کو اس جہاں میں رکھا میں نے اپنے دادا جان کی نصیحت پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔

جب بھی حضرت مصلح موعودؓ کی یاد آتی ہے، آپؓ کے لئے خود آپ ہی کی زبان سے سکھائی ہوئی دعا دل کی گہرائیوں سے ابل پڑتی ہے:

اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

آمین اللہم آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button