حضرت مصلح موعود ؓ

جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں(قسط نمبر 3 آخری)

عورتوں کی ذمہ داری

ہماری جماعت کی عورتیں بھی، مرد بھی، بچے بھی، نوجوان بھی، ایک ذمہ داری اپنے اوپر رکھتے ہیں، لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عورتیں کہہ دیتی ہیں دین کی خدمت مردوں کا فرض ہے۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ آج عورتیں بھی آئیں تاکہ ان کے کانوں میں یہ بات ڈال دی جائے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے جس طرح مرد جواب دہ ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں۔ اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ساری ذمہ داری مردوں پر ہی ہے۔ دین کے معاملہ میں مرد اور عورتیں دونوں یکساں جواب دہ ہیں۔ ا س لئے ضروری ہے کہ دین کی اشاعت میں دونوں حصہ لیں۔ اور جب تک دونوں حصہ نہ لیں۔ اس وقت تک خدا تعالیٰ کی پوری برکت ان پر نازل نہیں ہوسکتی۔ اس کی بہت اچھی مثال گاڑی ہے۔ جب تک دونوں گھوڑے متفق ہو کر اسے نہ کھینچیں وہ نہیں کھنچ سکتی۔ اسی طرح مرد و عورت کا حال ہے۔ مرد خواہ کتنا کمانے والا ہو اگر بیوی فضول خرچ ہو تو کچھ نہیں بن سکتا۔ اسی طرح اگر مرد سست اور کاہل ہو تو بیوی خواہ کتنی ہوشیار ہو کچھ نہیں بنا سکتی۔ یہی حال دینی معاملات کا ہے۔ جب تک عورت اور مرد دونوں مل کر ان کو سرانجام نہ دیں وہ اچھی طرح پورے نہیں ہوسکتے۔ پس جہاں دین کی خدمت کرنا مردوں کا فرض ہے وہاں ان کی عورتوں کا بھی فرض ہے اور انہیں چاہیے کہ مقدور بھر ضرور اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کریں۔

بچوں کی ذمہ داری

اسی طرح بچوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ دین کی خدمت سے غافل نہ رہیں۔ بے شک ان کے پڑھائی کے دن ہیں۔ بلکہ کھیل کے دن ہیں اور جو لڑکا طالب علمی کے زمانہ میں کھیل چھوڑتا ہے۔ وہ نادانی کرتا ہے بلکہ ورزش کرنا تو طالب علمی کے زمانہ کے ختم ہونے کے بعد بھی صحت کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ مجھے یہ بیماریاں اسی وجہ سے پیدا ہوئیں کہ میں کثرت کام کی وجہ سے ورزش کا خیال نہ رکھ سکا۔ تو کھیلنا اور ورزش کرنا بھی ضروی ہے حضرت صاحب کو خواہ کتنا کام ہوتا۔ نمازیں جمع ہوتیں۔ مگر آپ سیر کے لئے ضرور جاتے۔ بلکہ ایک دن میں دو دفعہ صبح و شام جاتے۔ میں نے آپ کی اس سنت کے خلاف کر کے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اس لئے نوجوانوں کو کہتا ہوں۔ من نہ کر دم شما حذر بکنید۔ میں نے کام کی کثرت کی وجہ سے ورزش کرنا چھوڑا۔ مگر پھر ایسی حالت ہوگئی کہ کام کرنا بالکل ہی چھٹ گیا اور ایک وقت تو میری یہ حالت تھی کہ میں اکیلا بآسانی اتنا کام کرسکتا تھا جتنا چار مضبوط آدمی کرسکتے ہیں۔ مگر پھر یہ حالت ہوگئی کہ میں کسی کتاب کا ایک صفحہ بھی نہ پڑھ سکتا تھا کہ چکر آنے شروع ہو جاتے اب جبکہ سیر شروع کی ہے تو گو پہلی سی طاقت نہیں ہے۔ مگر پھر بھی بڑا فرق ہے اور معلوم ہوگیا ہے کہ نیچر کے قواعد کی پابندی بھی ضروری ہے۔ تو لڑکوں کے لئے کھیل بھی ضروری ہے۔ مگر ان کا بڑا فرض یہ ہے کہ وہ دینداری کا اعلیٰ نمونہ بن کر دکھائیں کیونکہ وہ ایسے لوگوں میں رہتے ہیں جو کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں اگر یہ اپنا اعلیٰ نمونہ نہ دکھائیں گے تو دوسرے کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو زندہ خدا کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی ایسی حالت ہے تو ہمیں خدا کو مان کر کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

خلاصہ تقریر

پس میں اپنی جماعت کے تمام لوگوں کو خواہ وہ بچے ہیں یا جوان یا عورتیں نصیحت کرتا ہوں کہ ا پنے نمونہ سے اور اپنی کوشش سے دین کی اشاعت میں لگ جائیں۔ چونکہ آج میرا ارادہ ہے کہ اس وقت جو گاڑی جاتی ہے اس پر جاؤں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ پھر یہاں آنے کا موقع ملے یا نہ ملے یا اس طرح سمجھانے کا موقع ملے یا نہ ملے، اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ جن کو کام کرنے کے لئے کوئی درجہ دیا گیا ہے دوسرے اس درجہ کے لحاظ سے انہیں دیکھیں اور وہ اپنے اندر ایسی تواضع اور انکساری پیدا کریں جیسی کہ اس درجہ کے لئے ضروری ہے۔

مخلوق خدا سے ہمدردی کرو

اسی طرح میں عورتوں، مردوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ صدقہ اور خیرات اور دوسرے طریقوں سے غریبوں، محتاجوں کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ میرے نزدیک وہ عورت یا مرد مسلمان نہیں جس کے دل میں کسی غریب کو دیکھ کر درد نہیں ہوتا۔ اور مصیبت زدہ کو دیکھ کر دکھ نہیں محسوس ہوتا۔ جس شخص کی نظر اپنے ہی دکھ درد تک محدود ہو۔ وہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ مسلم کے معنے خدا کی آنکھ ہیں اور خدا کی آنکھ صرف مسلمانوں کے ہی دکھ درد کو نہیں دیکھتی بلکہ تمام مخلوق کو دیکھتی ہے۔ پھر مسلم کے معنے خدا کا ہاتھ ہیں اور خدا کا ہاتھ صرف مسلمانوں کے لئے دراز نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر ایک انسان کے لئے دراز ہوتا ہے۔ پھر مسلم کے معنی خدا کا پاؤں ہیں اور خدا کا پاؤں صرف مسلمانوں کی طرف نہیں بڑھتا۔ بلکہ سکھ، ہندو، عیسائی سب کی طرف بڑھتا ہے۔ پس مسلمان اور مومن وہی کہلا سکتا ہے جسے ہر ایک انسان کے دکھ اور مصیبت کے دور کرنے کی فکر ہو۔ لیکن اگر کسی میں خدا تعالیٰ کی تمام مخلوق کے لئے تواضع اور ہمدردی نہیں تو اس کا اسلام ناقص ہے۔

تبلیغ کی رفتار تیز کرو

پھر میں کہتا ہوں مرد مردوں میں اور عورتیں عورتوں میں تبلیغ دین کریں وقت گزر رہا ہے۔ مگر کام جس رفتار سے ہونا چاہیے اس سے نہیں ہو رہا۔ بیشک ہماری جماعت کی ترقی ہو رہی ہے۔ لیکن آج ہم جس طاقت اور قوت سے کام کر رہے ہیں۔ اس سے اگر زیادہ پیدا کر لیں تو کل بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ پس عورتیں اور مرد پہلے اپنی درستی کریں اور پھر دوسرے لوگوں تک دین کو پہنچائیں۔

خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو

خصوصاً میں طالب علموں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں خاص طور پر دین کی محبت پیدا کریں اور اپنی حالتوں کو بہت زیادہ اچھا بنائیں۔ خود خداتعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں گاڑلیں کیونکہ محبت ہی قدرت کلام اور شان و شوکت اور اثر کو پیدا کرتی ہے۔ پس طالب علم خاص طور پر خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں۔ اور ایسی محبت پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے۔ جب یہ حالت ہو جائے گی تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے اندر ایسی روشنی اور ایسا نور پیدا ہوجائے گا کہ کسی سے کوئی بات منوانے میں انہیں رکاوٹ پیش نہ آویگی اور کوئی علم ایسا نہ ہوگا جو اسلام کے بُطلان کے لئے نکلا ہو اور وہ اسے پاش پاش نہ کردیں۔ مجھے محبت کے متعلق اپنا ایک بچپن کا رؤیا یاد ہے میری اس وقت کوئی گیارہ بارہ برس کی عمر تھی۔ میں نے دیکھا ایک سٹیچو ہے۔ جیسا کہ امرتسر میں ملکہ کا سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اس کے اوپر ایک بچہ ہے جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بلاتا ہے۔ اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے۔ جس کے کپڑوں کے ایسے عجیب و غریب رنگ ہیں جو میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ اس نے چبوترے پر اتر کر اپنے پر پھیلا دئے اور نہایت محبت سے بچہ کی طرف جھکی ہے۔ وہ بچہ بھی اس کی طرف اس طرح لپکا ہے جس طرح ماں سے محبت کرانے کے لئے لپکا کرتا ہے اور اس نے اس بچہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا ہے اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے

LOVE CREATES LOVE

محبت محبت کو کھینچتی ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ بچہ عیسیٰ ہے۔ اور وہ عورت مریم۔ تو محبت ہی محبت کو کھینچتی ہے پس تم خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کر لو جب ایسا کر لوگے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارے اندر نور کی کھڑکی کھل گئی ہے گو پہلے چھوٹی سی ہوگی مگر جوں جوں خدا تعالیٰ کے جلال اور شان پر نظر پڑتی جائے گی وہ بھی فراخ ہوتی جائے گی جب تمہاری یہ حالت ہو جائے گی تو مداری تو فریب سے روپیہ نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں مگر تمہارے اندر وہ ایسی کھڑکی کھل جائے گی کہ جو علم تم سے کوئی مانگے گا تم اسی سے نکال کر دکھا دو گے اور لوگ حیران رہ جائیں گے۔ میں اس امر کا تجربہ کار تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ مجھے کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ کسی نے اسلام پر کوئی نئے سے نیا اعتراض کیا ہو اور مجھے اپنے دل کی تھیلی سے اس کا جواب نہ مل گیا ہو۔ مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس اعتراض کا جواب ہے یا نہیں مگر جب میں اس میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو نکل ضرور آتا ہے اور یہ خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنے کا نتیجہ ہے۔

اس نصیحت پر جس میں مَیں نے طالب علموں کو زیادہ تر مخاطب کیا ہے۔ میں آج کی تقریر ختم کرتا ہوں کہ ابھی مجھے گاڑی پر جانا ہے۔

٭…٭…(انوار العلوم جلد 5)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button