حضرت مصلح موعود ؓ

جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں (قسط نمر 2)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ

کام کرنے والوں کا فرض

اسی طرح جن لوگوں کے سپرد کام ہو مثلاً یہاں کی جماعت کا امیر مقرر ہے اور اس کے ماتحت اور کام کرنے والے ہیں۔ ان کا بھی فرض ہے کہ وہ یہ نہ کہیں کہ ہم چونکہ افسر بنائے گئے ہیں، اس لئے ہم ہی اپنی ہر ایک بات منوائیں گے۔ اپنی بات منوانے کا بہترین طریق یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی بھی مان لی جائے۔ اپنی ہی بات منوانے کا وہی موقع ہوتا ہے جبکہ انسان دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ سمجھتا ہو کہ میں اس کے خلاف مان ہی نہیں سکتا۔ ورنہ تھوڑا بہت نقصان اٹھا کر بھی دوسروںکی بات مان لینی چاہیے تاکہ دوسروں کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے۔

مختلف طبائع کا خیال رکھنا ضروری ہے

اسی طرح آپس کے معاملات کے متعلق یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ طبائع مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ بعض سخت ہوتی ہیں اور بعض نرم۔ جو سخت ہوتی ہیں انہیں تھوڑی سی بات پر بھی ٹھوکر لگ جاتی ہے۔ تو دوسروں کے ساتھ سلوک اور معاملہ کرتے وقت ان کی طبائع کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ انتظام قائم رکھنے کے لیے اسلام میں امیر رکھا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ جس طرح وہ کہے اسی طرح کرو۔ لیکن معاملہ اور سلوک کرنے میں امیر کا یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو حقیر اور ادنیٰ سمجھے۔ حتیٰ کہ محمد ﷺ کو بھی یہ حق نہیں کہ کسی کو حقیر سمجھیں۔ کُجا یہ کہ ان کے خلفاء میں سے کسی کو یہ حق ہو۔ اور پھر کجا یہ کہ ان کے خلفاء کے غلاموں کے غلاموں کو یہ حق ہو۔ تو خود نبیوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ دوسروں کو حقیر سمجھیں۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نبیوں کو ایسا کرنے سے خود بچاتا ہے۔ اور ان کے وہم و گمان میں بھی کسی کی تحقیر نہیں آتی۔

جس پر خدا احسان کرتا ہے وہ اَور جھکتا ہے

تو خدا تعالیٰ جس کو بڑا بناتا ہے وہ خود سب سے نیچے ہو کر رہتا ہے۔ کیونکہ جس کو خدا تعالیٰ کوئی درجہ دیتا ہے اس پر احسان کرتا ہے اور احسان ایک بوجھ ہوتا ہے اور بوجھ سے گردن اونچی نہیں ہوا کرتی بلکہ نیچی رہتی ہے۔ ایک ایسا شخص جس پر خدا تعالیٰ کوئی احسان کرتا ہے اور وہ تکبر کرتا ہے اس کے تکبر کرنے کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ یا تو وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا ہے میرا حق تھا یا یہ کہ وہ اس کو اپنے لیے عزت ہی نہیں سمجھتا۔ لیکن یہ دونوں دھوکے ہیں اور سخت خطرناک دھوکے ہیں جن کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا اَور کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر جگہ کے کارکنوں اور خصوصاً لاہور کے کارکنوں کو جو اس وقت میرے مخاطب ہیں چاہیے کہ تواضع اور فروتنی اختیار کریں اور خیال کریں کہ چونکہ ان کے نام کے ساتھ امیر یا سیکرٹری یا محاسب یا امین یا اور کوئی نام لگ گیا ہے اس لیے وہ اور بھی گِر کر رہیں۔ تاکہ دوسرے لوگوں کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسی کی وجہ سے ان میں تکبر پیدا ہوگیا ہے۔

اسلامی مساوات کی شان

دیکھو! اسلامی مساوات کی بھی کیا شان ہے۔ ایک طرف تو ایک شخص کو بڑھا کر اس درجہ پر پہنچا دیا کہ ہر ایک کو جو اس کے ماتحت کیا گیا ہے اس کے احکام کی اطاعت کرنی چاہیے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کے نزدیک گنہگار ہے اور دوسری طرف معاملات میں اس کو اتنا نیچے لاتا ہے کہ کہتا ہے اسے غریب سے غریب انسان کی بھی عزت اور توقیر کرنی ہوگی۔ اور اس کا قدرتی درجہ جس سے وہ عام طور پر فائدہ اٹھاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ امیر ہے اور اس وجہ سے اس کی خاص پوزیشن ہے۔ اس کو بھی چھڑا دیتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ ہے۔ ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور آکر کہتا ہے کہ اے عمر! میری بڑی ذلت کی گئی۔ انہوں نے پوچھا کس نے کی۔ اس نے کہا عمرو بن عاص کے بیٹے نے۔ انہوں نے پوچھا کس طرح۔ اس نے کہا گھوڑ دوڑ ہو رہی تھی۔ میرا گھوڑا اس سے آگے بڑھنے لگا تھا کہ اس نے مجھے کوڑا مار کر کہا کہ میں شریف ہوں کیا تو شریف سے بھی بڑھنا چاہتا ہے۔حضرت عمرؓ نے کہا عمرو بن عاص کو بلاؤ۔ جب وہ آئے تو پوچھا کیا تمہارے بیٹے نے اس شخص کو کوڑا مارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ تحقیقات کی جائے۔تحقیقات کی گئی تو بات صحیح نکلی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عمرو بن عاص کے بیٹے کو یہ سزا دی کہ جس کو اس نے کوڑا مارا تھا اسی کے ہاتھ میں کوڑا دیا اور کہا کہ مار شریف ابن شریف کو جب وہ مار چکا تو حضرت عمرؓ نے کہا کیا خدا نے جن کو آزاد کیا ہے تم ان کو غلام بناتے ہو۔ یہ ہے اسلامی مساوات۔

یک جہتی کی بنیاد کیا ہے؟

پس ہماری جماعت میں جو لوگ کام کرنے والے ہیں دوسروں پر فرض ہے کہ وہ جو حکم دیں اس کے ماتحت کام کریں۔ لیکن حکم دینے والوں کا یہ فرض ہے کہ کسی پر ایسا بوجھ نہ رکھیں جسے وہ اٹھا نہیں سکتا اور ماتحت کام کرنے والوں کا فرض ہے کہ جن کو کوئی عہدہ دیا گیا ہو ان کی پوری پوری عزت اور توقیر کریں کیونکہ جن کاموں پر انہیں مقرر کیا گیا ہے وہ عزت چاہتے ہیں۔ پھر افسروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان کے ماتحت کیے گئے ہیں ان کی تواضع کریں کہ یہ ان کے کام کے سرانجام پانے کے لیے ضروری ہے۔ پس یہ وہ احکام ہیں جن کا آپ لوگوں کو سنانا ضروری تھا کہ جن کے سپرد کوئی کام کیا گیا ہے۔ ان کی اطاعت کی جائے سوائے کسی صاف شرعی حکم کے خلاف حکم کے۔ اور جن کے سپرد ہیں ان کو چاہیے کہ دوسروں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھیں اور دوسرے ان کی پوری اطاعت کریں۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی سیکرٹری یا محاسب یا اور کوئی عہدہ دار درجہ کے لحاظ سے چھوٹا ہو۔ مگر اس کے احکام کی انہیں اطاعت کرنی چاہیے۔ کیونکہ جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے وہ چھوٹا نہیں ہے یہ ہے وہ چیز جس پر اسلام ہر ایک مومن کو قائم کرنا چاہتا ہے اور یہی ہے وہ چیز جو اخوت اور یک جہتی کی بنیادوں کو استوار رکھتی ہے اور جب تک کوئی قوم اس پر قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اسلام کے حقیقی فوائد حاصل نہیں کرسکتی۔

لاہور میں تبلیغ کی ضرورت

اس کے بعد میں لاہور کی جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں تبلیغ میں بہت سستی ہے۔ اگر ہر شخص اپنا یہ فرض قرار دے کہ میں سال میں کم از کم ایک شخص کو احمدی بناؤں گا تو ایک سال میں کتنے آدمی بڑھ سکتے ہیں۔ مگر اب تو یہ ہوتا ہے کہ کسی سال ایک بھی آدمی داخل نہیں ہوتا جو کہ بہت ہی افسوس کی بات ہے۔

تبلیغ کرنا ہر ایک احمدی کا فرض ہے

ہر ایک احمدی یہ تو سمجھتا ہے کہ تبلیغ ہونی چاہیے لیکن صرف یہ سمجھنے سے تبلیغ نہیں ہوجاتی۔ بلکہ تبلیغ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ ہر ایک احمدی محسوس کرے کہ مجھے تبلیغ کرنی چاہیے۔ اب تو تبلیغ کرنا ہر شخص دوسرے کا فرض سمجھتا ہے اور اس طرح کوئی بھی اس فرض کو ادا نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسا ایک مجمع میں آواز دی جائے کہ پانی لاؤ۔ اس کے جواب میں ممکن ہے کہ ہزار آدمی کے مجمع میں سے کوئی بھی نہ اٹھے اور ہر ایک یہ خیال کرے کہ اور کوئی اٹھے گا۔ لیکن اگر کسی کا نام لے کر کہا جائے کہ پانی لاؤ تو وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوگا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک شخص یہ سمجھے کہ تبلیغ کرنا اور احمدیت کو پھیلانا جماعت فرض ہی نہیں ہے بلکہ فرداً فرداً بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے اور ہر ایک کو یہ خیال ہونا چاہیے کہ میں سال میں کم از کم ایک شخص کو احمدی بناؤں گا۔ اگر یہ خیال کر لیا جائے تو بہت عمدگی سے تبلیغ کی جاسکتی ہے۔ پس اس کے لیے پورے طور پر کوشش کرو تاکہ یہاں کی جماعت ترقی کرے۔ یہ ایک مرکزی جگہ ہے۔

لاہور میں مضبوط جماعت کی ضرورت

اگر یہاں ہماری مضبوط جماعت قائم ہو جائے تو پھر سارے پنجاب کا فتح کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے کیونکہ تمدنی طور پر سارے علاقہ پر لاہور کا اثر ہے۔ یہی دیکھ لو پنجاب میں سیاسی خیالات پھیلانے والا کونسا مقام ہے؟ یہی لاہور۔ جب یہاں کے لوگوں میں سیاسی معاملات کے متعلق جوش پیدا ہوگیا تو سارے صوبہ میں پھیل گیا۔ پس جو مقام کسی صوبہ کا دارالامارت ہوتا ہے۔ اس سے سارے صوبہ کے لوگوں کا بہت تعلق ہوتا ہے کوئی مقدمات کے لیے آتا ہے۔ کوئی سفارشوں کے لیے آتا ہے کوئی افسروں سے ملنے کے لیے آتا ہے۔ کوئی ملازمت کے لیے آتا ہے۔ کوئی تجارت کے لیے آتا ہے کوئی اور فوائد حاصل کرنے کے لیے آتا ہے۔ پس اس شہر میں اگر ہماری مضبوط جماعت ہو جائے اور ایسی مضبوط ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو دوسروں سے الگ اور نمایاں طور پر نظر آجائے۔ دینی کوشش اور سعی کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے بھی۔ مثلاً جس بازار میں کوئی جائے۔ اور پوچھے یہ دکان کسی کی ہے۔ تو اسے بتایا جائے کہ فلاں احمدی کی ہے اور اگر کوئی پوچھے یہ کونسا وکیل ہے تو اسے بتایا جائے فلاں احمدی وکیل ہے۔ اسی طرح ہر پہلو اور ہر رنگ میں ہماری جماعت کے لوگ ہر ایک شخص کو نمایاں طور پر نظر آنے لگیں تو انشاء اللہ سارے صوبہ میں ہماری بہت جلد ترقی ہوسکتی ہے۔

خاص فیضان کا زمانہ

ان خاص نصیحتوں کے بعد میں مردوں اور عورتوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خاص فیضان کے خاص اوقات مقرر ہوتے ہیں۔ اگر وہ وقت جو کسی فیض کے حاصل ہونے کے لیے مقرر ہو۔ یونہی نکل جائے تو پیچھے کچھ نہیں بنتا۔ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار انسان ایسے ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ ایک صحابیؓ نے کہا یا رسول ؐ اللہ میں بھی ان میں شامل ہوں گا آپؐ نے فرمایا ہاں۔ پھر دوسرے نے کہا یا رسولؐ اللہ میں بھی۔ آپ نے فرمایا وہ وقت گزر گیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 271) تو خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے لیے خاص وقت مقرر ہوتے ہیں۔ اس زمانہ میں جبکہ لوگ دین کو چھوڑ چکے اور اس سے نفرت کرتے بلکہ اس پر ہنسی اڑاتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے ایک رسول کو بھیج کر ہماری اصلاح کی اور ہماری ترقی کے لیے دروازے کھول دئے اس کے متعلق خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے دروازے روز روز نہیں کھلا کرتے تیرہ سو سال کے طویل عرصہ کے بعد ایک رسول کو دیکھنے کی صورت پیدا ہوئی ہے۔ دیکھو دنیا میں جب کوئی نئی چیز نکلتی ہے تو کس قدر شوق اور خوشی سے اس کو دیکھا جاتا ہے۔ فونو گراف اور گرامو فون جب نکلے تو پہروں لوگ ان کو دیکھنے کے لیے کھڑے رہتے۔ لیکن ان سب سے بڑی چیز بلکہ اس سے بڑی کوئی ہے ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص پیغام لے کر آئے اس کے لیے تو ہر ایک عورت، مرد، بچے، بوڑھے، نوجوان اور نو عمر کا فرض تھا کہ اس کی آواز کو سنتا اور اس کی قدر کرتا۔ لیکن افسوس! دنیا کے اکثر لوگوں نے قدر نہ کی۔ اب اگر ہماری جماعت بھی جس کو خدا تعالیٰ نے قدر کرنے کی توفیق دی ہے وہ بھی اسے پہچاننے کے باوجود قدر نہ کرے تو کس قدر افسوس اور رنج کا مقام ہوگا۔ خدا تعالیٰ کا وہ برگزیدہ انسان تو گزر گیا لیکن چونکہ ابھی زمانہ قریب ہے اس لیے اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل ہو رہے ہیں۔

خدا کا خاص فضل

میں تو اپنی ذات کو دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ اگر کوئی اجنبی آئے اور مجھ سے ان باتوں کو سنے جو خدا تعالیٰ مجھ پر کھولتا ہے تو سمجھے کہ یہ بڑا عالم ہے۔ لیکن میں اپنے علم اور اپنی پڑھائی کو خوب جانتا ہوں۔ میں دس سال سکول میں پڑھتا رہا ہوں لیکن مجھے یاد نہیں کہ میں کسی سال بھی پاس ہوا اور کسی مضمون میں بھی پاس ہوا۔ انٹرنس کے امتحان میں دو تین مضامین میں پاس ہوا تھا جن میں سے ایک عربی تھا۔ یوں میں کبھی اردو میں بھی پاس نہیں ہوا تھا۔ پھر میں حضرت مولوی صاحب کے پاس پڑھنے بیٹھا۔ مولوی صاحب نے بخاری پندرہ دن میں مجھے پڑھائی اور وہ اس طرح کہ فرماتے سناتے جاؤ اگر میں کچھ پوچھتا تو فرماتے پوچھو مت پڑھے جاؤ اسی طرح ایک دو اور کتابیں پڑھیں اور صرف و نحو کی چھوٹی سی کتاب پڑھی گویا ظاہری طور پر میں نے کچھ نہیں پڑھا۔ مگر میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام پر حملہ کرنے والا خواہ کسی علم کا ماہر ہو اور اس علم کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو وہ اعتراض کر کے دیکھ لے۔ اگر اسے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ میں اس سے زیادہ اس علم کو جانتا ہوں تو پھر اعتراض کرے۔ لیکن یہ میری پڑھائی اور میری محنت کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ اس مقام اور رتبہ کی وجہ سے ہے جس پر مجھے کھڑا کیا گیا ہے۔
پھر مجھے لکھنے اور اس سے زیادہ بولنے کی بہت کم عادت ہے۔ کوئی ایک گھنٹہ میرے پاس بیٹھا رہے میں اس سے کوئی بات نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ سمجھتے ہوں گے کہ میں تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہوں۔ مگر میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ سوجھتا نہیں۔ اور تقریر کرنے کے لئے تو میں کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ میں خطبہ کو پڑھنے کے لئے جا کر کھڑا ہوتا ہوں لیکن یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا کہنا ہے۔ پھر تشہد پڑھتا ہوں مگر معلوم نہیں ہوتا کیا کہوں گا۔ پھر سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں۔ اس وقت بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیا بیان کروں گا۔ پھر میں بولنا شروع بھی کر دیتا ہوں اور تین چار منٹ تک بولتا جاتا ہوں۔ پھر پتہ نہیں ہوتا کہ کیا کہوں گا۔ اس کے بعد جا کر اصل مضمون سوجھتا ہے۔ ہمیشہ تو نہیں اکثر دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھڑے ہوتے ہی مضمون سمجھا دیا جاتا ہے ایک دفعہ تو قریب تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑتا کیونکہ دیر تک بولتا رہا مگر یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کہہ رہا ہوں۔ آخر اس حالت سے اس قدر وحشت ہوئی کہ بے ہوش کر گرنے لگا۔ مگر اس وقت معلوم ہوا کہ یہ تو دراصل فلاں مضمون کی تمہید تھی اور پھر میں نے ایسا اعلیٰ مضمون بیان کیا کہ میں خود حیران تھا۔

زمانہ کا اثر

تو اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا خاص فیضان نازل ہو رہا ہے اور یہ مت سمجھو کہ یہ ہمیشہ رہے گا۔ رسول کریم ﷺ کا زمانہ نہ رہا تو کون کہہ سکتا ہے کہ کل کیا ہوگا۔ دیکھو حضرت ابوبکرؓ کا زمانہ حضرت عمرؓ کے وقت نہ تھا۔ اور حضرت عمرؓ کا زمانہ حضرت عثمانؓ کے وقت نہ تھا اور حضرت عثمانؓ کا زمانہ حضرت علیؓ کے وقت نہ تھا۔ بیشک حضرت ابوبکرؓ خود بھی کامل انسان تھے مگر ان کے زمانہ کو جو فضیلت حاصل ہے اس کی وجہ یہ بھی تو ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زیادہ قریب تھا۔ پھر اس میں شک نہیں کہ حضرت عمرؓ کا درجہ حضرت ابوبکرؓ سے کم تھا اور حضرت عثمانؓ سے زیادہ۔ اس لئے وہ حضرت ابوبکرؓ جیسا انتظام نہ کرسکے۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی نسبت حضرت عمرؓ کا زمانہ رسول کریم ﷺ سے زیادہ دور تھا۔ یہی حال حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا تھا۔ بیشک ان کا درجہ اپنے سے پہلے خلیفوں سے کم تھا۔ لیکن ان کے وقت جو واقعات پیش آئے۔ ان میں ان کے درجہ کا اتنا اثر نہیں تھا۔ جتنا رسول کریمؐ کے زمانہ سے دور ہونے کا اثر تھا۔ کیونکہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے وقت زیادہ تر وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم ﷺ کی صحبت اٹھائی تھی۔ لیکن بعد میں دوسروں کا زیادہ دخل ہوگیا چنانچہ جب حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فساد نہ ہوتے تھے۔ جیسے آپ کے وقت میں ہو رہے ہیں تو انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ ابوبکرؓ اور عمرؓ کے ماتحت میرے جیسے لوگ تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں۔ تو لوگوں کی وجہ سے زمانہ میں بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔

موجودہ زمانہ کی قدر کرو

پس تم لوگ اس زمانہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھو اور یہ مت سمجھو کہ تم پر کوئی بوجھ پڑا ہوا ہے۔ بلکہ یہ سمجھو کہ تمہیں دین کی خدمت کا موقع ملا ہوا ہے۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے وقت کے گزر جانے پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی افسوس کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو کھانسی کی بیماری ہو اور وہ سنگترہ مانگے تو نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر وہ مر جائے تو پیچھے افسوس کیا جاتا ہے کہ ہم نے کیوں نہ اسے سنگترہ دے دیا۔ پس جب نادانی کی باتوں پر بعد میں حسرت اور افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے تو ایسی باتوں پر کیوں افسوس نہ ہوگا جو اپنے اندر بہت بڑی حقیقت اور صداقت رکھتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جب یہ زمانہ گزر جائے تو کوئی کہے کاش! میں اس وقت اپنا سب کچھ خدا کے لئے دے دیتا اور خود ننگا پھرتا۔ تو انسان کو چاہئے کہ کام کرنے کے وقت یہ نہ دیکھے کہ میں نے کتنا کام کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھے کہ اگر یہ وقت ہاتھ سے جاتا رہا تو پھر کس قدر مجھے حسرت اور افسوس ہوگا۔

پس ہماری جماعت کے خواہ مرد ہوں خواہ عورتیں ان کو میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت جو فیضان الٰہی ہو رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اب یہ زمانہ جو تیرہ سو سال کے بعد آیا ہے پھر کب آئے گا۔ خدا تعالیٰ کے نبی عظیم الشان انسان ہوتے ہیں۔ وہ روز پیدا نہیں ہوا کرتے۔ پس تم لوگ اس زمانہ کی قدر کر کے دین کی خدمت کرنے کی کوشش کرو۔ تاکہ خدا تعالیٰ کی اس بارش سے تمہارے گھر بھر جائیں جو دنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس نے نازل کی ہے اور اس نور سے بھرپور ہو جاؤ جس کے پھیلانے کا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے۔

(باقی آئندہ……)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button