الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

…………………………

حضرت میاں عبدالکریم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27دسمبر 2012ء میں مکرم منظور احمد شادصاحب نے اپنے والد محترم حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کا ذکرخیر اُن کے توکّل علی اللہ کے حوالہ سے کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نے حضرت سید محمود احمد شاہ صاحبؓ (یکے از 313؍اصحاب) کی تبلیغ کے نتیجہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کی سعادت اُس وقت حاصل کی جب حضور مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے گئے۔ آپؓ میں توکّل علی اللہ قابل رشک حد تک موجود تھا۔ اس سلسلہ میں چند مثالیں پیش ہیں۔

1) خاکسار کے بھتیجے عزیز مکرم منور احمد خورشید (سابق مبلغ سلسلہ گیمبیا اور سینیگال) بچپن میں ایک دفعہ شدید بیمار ہو گئے کہ بظاہر بچنے کی امید نہ تھی۔ باہر کھیتوں میں پیغام بھیج کر وہاں سے حضرت والد صاحب اور بھائی صاحب کو بلالیا گیا۔ حضرت والد صاحب نے بھائی صاحب اور بھابھی صاحبہ سے کہا کہ ہم اسے خدا تعالیٰ کو دے دیتے ہیں وہ بچالے گا ورنہ ہم اُس کی رضا پر راضی ہیں۔ بھابھی صاحبہ نے کہا: مَیںسمجھی نہیں۔ فرمایا: اس کی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی زندگی وقف کر دی گئی۔ ابھی یہ ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک قریبی گاؤں عالمگڑھ کے رہنے والے ڈاکٹر خدابخش صاحب گلی سے گزرتے ہوئے دکھائی دئے۔ جب انہیں بچے کا بتایا گیا تو انہوں نے بچے کا معائنہ کیا اور دوا دی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بچہ صحتیاب ہو گیا۔

2) گندم کی بوائی کے دن تھے۔ ایک بار رات کو دیر سے زمینوں سے آئے تو گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہل کا پھالا (جس سے گندم کی بوائی کی جاتی ہے)کہیں راستے میں گرگیا ہے۔ صبح حسب معمول نماز تہجد کے بعد زمینوں پر جانے کے لئے تیار ہوئے تو والدہ صا حبہ نے کہا، پھالا تو آپ کے پاس ہے نہیں، بوائی کس طرح کریں گے۔ فرمایا: عبدالکریم کا پھالا اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ والدہ صاحبہ ازراہ مذاق کہنے لگیں، چلیں آج دیکھتے ہیں میرے آنے تک کتنی زمین کی بوائی کا کام کرلیتے ہیں۔ جب والدہ صاحبہ دوپہر کا کھانا لے کر گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ واقعی آپ کافی بوائی کر چکے تھے۔پوچھنے پر کہ پھالا کہاں سے ملا، آپ نے بتایا کہ رات کو جب میں گھر آرہا تھاتو پھالابند کی مغرب کی جانب گرگیا تھا۔ اس وقت چاند مشرق کی طرف تھا۔ اس لئے اندھیرے میں پڑا رہا اور کسی کو نظر نہیں آیا۔ صبح سویرے جب مَیں گھر سے نکلا ہوں تو چاند مغرب کی طرف آچکا تھا اور پھالا دُور سے چمکتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے میرے پھالے کی حفاظت بھی فرمائی اور میرے اُس کو دیکھنے کا سامان بھی فرمادیا۔

3) جب میری عمر سات آٹھ سال ہوگی تو مویشیوں میں بیماری پھیل گئی جس سے سارے علاقہ میں بہت نقصان ہوا۔ ایک روز مَیں نے دیکھاکہ ساتھ والے ڈیرے کے لوگ مویشیوں کو کہیں لے کر جا رہے ہیں۔ میرے پوچھنے پر بتایا جو مویشی پیر صاحب کی پگ (پگڑی) کے نیچے سے گزر جائیں گے وہ نہیں مریں گے۔ دُور سے مَیں نے دیکھا کہ دو آدمی ایک پگڑی لئے کھڑے تھے اور لوگ اس کے نیچے سے مویشیوں کو گزار رہے تھے۔ مَیں بھی اپنے مویشی لے کر چل پڑا۔ والد صاحب نے دیکھ لیا اور پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ مَیں نے بتایا تو آپ نے فرمایا: واپس لے آؤ ہمارے مویشی نہیں مریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اردگرد کے ڈیرے والوں کے اکثر مویشی مر گئے لیکن ہمارا ایک جانور بھی نہیں مرا۔

4) یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ نے نئی نئی بیعت کی تھی۔ اس وقت ہمارے گھر میں تین افراد تھے اور تینوں کا تعلق مختلف فرقوں سے تھا۔ دادا جان وہابی، دادی جان بریلوی خیالات کی تھیں جبکہ والد صاحب نے احمدیت قبول کرلی تھی۔ دادی جان کاعقیدہ تھا کہ اگر بھینس شیردار ہوتو پہلے تین روزکا دودھ استعمال نہیں کرنا چاہئے ورنہ بھینس مرجاتی ہے۔ ایک بار جب ہماری بھینس شیردار ہوئی تو والد صاحب نے دادی جان سے کہا مَیں دودھ دوہتا ہوں آپ بوہلی پکائیں تاکہ محلے میں تقسیم کریں۔ دادی صا حبہ نے مخالفت کی۔ لیکن والد صاحب نے دودھ دوہا اور خو د ہی چولہے پر رکھ دیا۔اس پر دادی صا حبہ نے والدصاحب کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تم ہمارے گھر کیا بے دین پیدا ہوگئے ہووغیرہ۔ اللہ تعالیٰ بھی کوئی نشان دکھانا چاہتا تھا کہ اچانک بھینس گری اور تڑپنا شروع کردیا۔ اس پر تو دادی جان نے انتہا کر دی۔ حضرت والد صاحب نے چھری تیز کی اور کہا کہ اسے مَیں حرام موت نہیں مرنے دوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ! اگر آج بھینس مر گئی تو ان لوگوں کے نزدیک حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت مشکوک ہو جائے گی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بھینس اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اس کے بعد ایک لمبا عرصہ ہمارے گھر میں رہی۔

…*…*…*…

مکرم ریاض احمد بسراء صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق مکرم ریاض احمد بسراء صاحب ابن مکرم چوہدری منیر احمد بسراء صاحب کو 18؍اکتوبر 2012ء کو گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 26؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

حضورانور نے فرمایا کہ شہید مرحوم 1958ء میں گھٹیالیاں کلاں تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے۔ گاؤں میں جس طرح بعض دشمنیاں چلتی ہیں، ان کی دشمنیاں چل رہی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی اور بعض دوسرے عزیزوں کو بھی پہلے شہید کیا گیا تھا۔ اُن کی دشمنیاں چل رہی تھیں اور بظاہر لگتا ہے کہ یہ براہ راست اُس میں Involve نہیں تھے لیکن جماعتی خدمات اور ایک رعب کی وجہ سے وہاں کے علاقہ کے بعض لوگ ان کے کافی خلاف تھے اور خاص طور پر کچھ مولوی اس علاقہ میں اب نئے آئے ہیں جنہوں نے ان کے دشمنوں کو بھڑکایا کہ ذاتی دشمنی کو اب جماعتی رنگ دو اور اب ان کو شہید بھی کردو گے توکوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا، فوراً کہہ دینا کہ یہ کیونکہ قادیانی تھا اس لئے ہم نے مار دیا۔ بہرحال 18؍اکتوبر کو نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد یہ کچھ دیر وہاں ڈیوٹی دینے والے خدام کے پاس بیٹھے رہے اور اُس کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ راستہ میں بعض نامعلوم افراد نے پکڑ کر فائر کیا جس کے نتیجہ میں ان کی وفات ہوگئی۔

شہید مرحوم جماعتی کاموں میں بہت فعّال تھے۔ چار سال قائد مجلس گھٹیالیاں کے فرائض سرانجام دئیے۔ چھ سال تک ناظم عمومی رہے اور بوقت شہادت بطور سیکرٹری امور عامہ گھٹیالیاں خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انصاراللہ کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے۔ جماعت کے لئے بڑی غیرت رکھنے والے تھے اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ان میں خوب تھی۔ خلافت سے محبت کرنے والے تھے۔

شہید مرحوم حضرت چودھری غلام رسول بسراء صاحبؓ کی نسل میں سے تھے۔ کافی عرصہ قبل کسی جھگڑے کی وجہ سے ان کی خاندانی دشمنی پیدا ہوگئی تھی جس کی بِنا پر 2001ء میں اِن کے خاندان کے دو افراد قتل کردیئے گئے تھے۔ پھر اِن کے خاندان کے ایک فرد نے مخالف فریق کے ایک شخص کو قتل کردیا۔ بعدازاں دونوں خاندانوں میں صلح ہوگئی۔ آجکل شہید مرحوم چونکہ گھٹیالیاں کی احمدیہ مسجد کے کیس میں عدالت میں پیش ہوتے تھے اس لئے معاندین کو بہت کھٹکتے تھے۔ اور معاندین اِن کی پرانی خاندانی دشمنی کو ہوا دے رہے تھے کہ یہ بدلہ لینے کا اچھا وقت ہے اور یہ کہ اگر پکڑے گئے تو یہی کہہ دیں کہ احمدی ہونے کی وجہ سے مارا ہے۔ بہرحال قاتل کو پولیس نے پکڑ لیا ہے۔

شہید مرحوم موصی تھے۔ آپ کی تدفین ربوہ کے عام قبرستان میں ہوئی۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ شگفتہ متین صاحبہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں۔ ایک بیٹا عزیزم طلحہ ریاض جامعہ احمدیہ جونیئر سیکشن میں زیرتعلیم ہے۔

…*…*…*…

محترم وسیم احمد قمر صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ ط۔وسیم صاحبہ نے اپنے خاوند مکرم وسیم احمد قمر صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔

مکرم وسیم احمد قمر صاحب 25؍اگست 1961ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ریلوے میں IT کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروگرامر تھے۔ صرف پچاس سال کی عمر میں 21؍نومبر 2011ء کو برین ہیمرج کی وجہ سے وفات پائی۔ آپ کے والد اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔

مرحوم نیک اور ایماندار انسان تھے۔ نماز کے پابند اور خوبصورت آواز میں قرآن کی تلاوت کرنے کے عادی تھے۔ اپنے چاروں بچوں کو خود قرآن کریم کا دَور مکمل کروایا۔ روزہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ ہمہ وقت درودشریف اور دعائیں پڑھنے میں مصروف رہتے۔ لیلۃالقدر بھی دیکھنی نصیب ہوئی۔ تین سال پہلے خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ خود بھی رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رِبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ اور سورۃ الم نشرح پڑھو اور بیوی بچوں سے بھی کہو۔

28؍مئی 2010ء کو آپ بھی دارالذکر میں موجود تھے۔ اُس دن آپ کے ایک بھائی اور ایک بھانجے نے وہاں شہادت پائی۔ کہتے تھے کہ کسی نے آپ کو چابی دی کہ تہ خانے میں چلے جاؤ۔ جب مسجد میں گرینیڈ پھٹے تو آپ کے سر سے پاؤں تک کانچ ہی کانچ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے خراش بھی نہیں آنے دی۔

دفتر میں آپ کی ایمانداری کی وجہ سے بہت عزّت ملی۔ آپ کی وفات پر کئی افسران نے فون کرکے کہا کہ مرحوم تو ایک فرشتہ تھے اور اُن کی تیار کی ہوئی رپورٹس پر ہم آنکھیں بند کرکے دستخط کردیتے تھے۔

آپ نہایت شفیق باپ اور بااعتماد شوہر تھے۔ اپنے والدین اور بھائی بہنوں سے بہت محبت کرتے۔ سسرالی رشتہ داروں کی بھی بہت خدمت کی۔ وفات سے کچھ ماہ قبل چند خوابیں دیکھیں تو اُس کے بعد سے خاموش ہوگئے تھے اور ایسا اظہار تھا کہ اب وقت قریب آگیا ہے۔

…*…*…*…

محترم سعید احمد ملک صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم نور الٰہی ملک صاحب اپنے بھائی مکرم سعید احمد ملک صاحب ابن مکرم ملک محمد شفیع صاحب کا ذکرخیر کرتے ہیں جو 3؍فروری 2012ء کو وفات پاگئے اور ربوہ کے عام قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

مکرم سعید احمد ملک صاحب دفتر AG پنجاب میں اسسٹنٹ اکاؤنٹس آفیسر ملازمت کرتے رہے۔ بہت مخلص اور خلافت سے انتہائی محبت کرنے والے تھے۔ خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنتے، ایم ٹی اے دیکھتے اور الفضل کے بارہ میں تو اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ میرے بعد بھی اس کو جاری رکھنا اور بِل میری فیملی پنشن سے ادا کرتے رہنا۔ اپنے حلقہ کے قریباً بیس سال سیکرٹری مال رہے۔ انصاراللہ میں بھی ریجنل سطح پر شعبہ مال میں اور بطور آڈیٹر خدمت کی توفیق پائی۔ آپ بہت مہمان نواز اور ہمدرد تھے۔ چونکہ ایسے دفتر میں تھے جو ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کا تعیّن کرکے منظوری دیتا تھا اس لئے آپ اپنے دفتر کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے معاملات میں اُن کی بھرپور مدد کرتے۔ ایک شخص جو پہلے بہت پریشان ہوچکا تھا جب اُس کا کام آپ کے ذریعہ ہوگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے اپنی والدہ کی قبر کا بتائیں، مَیں وہاں دعا کروں گا کہ اُس نے آپ جیسے غمخوار کو جنم دیا۔

اسی طرح ایک معاند کے خاندان کا ایک فرد جب فوت ہوگیا تو اُس کی بیوہ کی پنشن منظور کرواکر آپ نے پنشن بُک اُن کے گھر تک پہنچادی۔ اس کے بعد وہ خاندان احمدیت کی تعریف میں رطب اللسان ہوگیا۔

اسی طرح ایک احمدی دوست نے اپنی پنشن منظور کروانے کے لئے آپ کو کچھ رقم دی کہ شاید اس کی ضرورت پڑے۔ آپ نے اُس دوست سے کہا کہ اس رقم سے مسجد کے لئے کوئی چیز لے دیں، پنشن انشاء اللہ بغیر کوئی پیسہ دیئے منظور کروادوں گا۔

…*…*…*…

مکرمہ عائشہ رانجھی صاحبہ

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میںمکرم ماسٹر احمد علی صاحب نے اپنی والدہ محترمہ عائشہ رانجھی صاحبہ کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارا گاؤں ادرحماںؔ حضرت مولوی شیرعلی صاحبؓ اور آپ کے والد حضرت مولوی نظام دین صاحبؓ کے احمدیت قبول کرنے کے بعد احمدی ہوگیا تھا۔ سارا گاؤں لنگاہ قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ 1925ء میں میری والدہ کسی غیرقوم سے ہمارے قبیلہ میں آنے والی پہلی خاتون تھیں اور رانجھہ قوم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے عائشہ رانجھی کہلائیں۔

میرے والد میاں تاج دین صاحب ایک خوش شکل اور خوش اخلاق انسان تھے جو اُس وقت اللہ کو پیارے ہوگئے جب میری عمر صرف چار سال تھی۔ ایک بھائی مجھ سے چھوٹا تھا۔ میری والدہ نے میری تعلیم و تربیت کا فریضہ نہایت صبرواستقامت سے ادا کیا۔ وہ حسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کے زیور سے آراستہ تھیں۔ رمضان میں ہمارے قبیلہ کی مستورات میری والدہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہوجاتی تھیں۔ چند غیرازجماعت عورتوںکو قرآن مجید پڑھنا بھی سکھایا۔ آپ صحتِ تلفّظ اور حُسنِ قراء ت سے تلاوت کیا کرتی تھیں۔ گہرا دینی علم رکھتی تھیں۔ میری ماں کو شرعی اور فقہی مسائل ازبر تھے۔ انہوں نے دینی علم اپنے نانا سے حاصل کیا تھا جو گہرا دینی علم رکھنے والے بزرگ تھے۔

آپ بہت غریب پرور تھیں۔ چند غریب لوگ ہمارے ہاں سے لسّی لینے آتے تو میری والدہ لسّی میں کسی قدر مکھن بھی رکھ دیتیں۔ اگر کوئی مسافر گاؤں کی مسجد میں شب بسر کرتا تووہ میرے ہاتھ اُس کو چُپڑی روٹی اور گُڑ بھجوادیتیں۔ فصل گھر آتی تو چند مسکینوں کو بھی دانے دلوائے جاتے۔ میری تعلیم کے لئے خاص اہتمام کیا۔ سیم نالہ راستہ میں پڑتا تھا۔ ایک گھوڑی خریدی تاکہ سیم کے ٹھنڈے پانی سے گزرنے میں آسانی ہو۔ اُسی گھوڑی پر مجھے گاؤں سے تیرہ میل دُور امتحان سنٹر میں لے کر آئیں۔ ہم دونوں بھائیوں کی صحت کا خیال یوں رکھا کہ ہمیشہ شیردار بھینس کا انتظام رکھا۔

1947ء میں میری والدہ اپنے اکلوتے اور جوان بھائی کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرسکیں اور ذہنی توازن درست نہ رہا۔ تاہم سیّدالاستغفار، سورۃ الملک، سورۃ یٰسٓ اور سورۃ الدخان جو اُنہیں ازبر تھیں، ایسی حالت میں بھی سُنا سکتی تھیں۔ جب میں نے ربوہ میں مکان بنالیا تو یہاں کا ماحول اُنہیں اتنا پسند آیا کہ گاؤں سے مستقل میرے ہاں آگئیں۔ نماز جمعہ میں شمولیت کے لئے تیار ہوکر پہلی اذان سے پہلے ہی مسجد اقصیٰ میں جا بیٹھتی تھیں۔ نظام وصیت میں شامل تھیں۔ 1985ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔

…*…*…*…

محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍اکتوبر2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میںمکرم شعیب احمد ہاشمی صاحب نے اپنی خالہ اور خوشدامن محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ بنت حضرت سیّد سردار حسین شاہ صاحبؓ (سابق افسر تعمیرات ربوہ) کا ذکرخیر کیا ہے۔

محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ کے دادا مکرم سیّد عارف حسین شاہ صاحب دنیاوی لحاظ سے بڑے صاحب ثروت اور وسیع جائیداد کے مالک تھے۔ شہر ’’عارف والا‘‘ کا نام اُن کے نام پر رکھا گیا تھا۔ لیکن وہ احمدیت سے محروم رہے تاہم اُن کی اہلیہ محترمہ احمدی ہوگئی تھیں۔ اسی طرح آپ کے نانا حضرت سیّد محمد اشرف شاہ صاحبؓ اور اُن کے بھائی بھی اصحابِ احمد میں شامل تھے۔

مرحومہ کا نکاح 1959ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مکرم مرزا رفیق احمد صاحب ابن حضرت مرزا قدرت اللہ صاحبؓ کے ساتھ پڑھایا تھا۔ آپ کے سسر پنجابی زبان کے مشہور شاعر حضرت میاں ہدایت اللہ صاحبؓ کے بیٹے تھے۔ حضرت میاں ہدایت اللہ صاحبؓ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قریبی تعلق حضورؑ کے دعویٰ سے بھی پہلے سے تھا اور اُن کے بارہ میں حضورؑ نے یہ ارشاد بھی فرمایا تھا کہ ان کی وصیت کی کیا ضرورت ہے، یہ تو مجسّم وصیت ہیں۔

محترمہ سیّدہ فریدہ انور صاحبہ نماز روزہ کی انتہائی پابند، قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور ہر وقت قرآن و حدیث کی دعائیں پڑھنے والا وجودتھیں۔ چندہ جات شوق سے ادا کرتیں اور ذاتی پیسے جمع کرکے مختلف تحریکات میں قربانی پیش کرنے کے علاوہ غرباء کی مدد کیا کرتیں۔ مسجد بیت الفتوح کی تعمیر کے لئے تحریک ہوئی تو آپ کے پچاس ہزار روپے بینک میں جمع تھے، سب ساری رقم آپ نے پیش کردی۔ نیکی کا کام کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتیں۔ اگر کسی بچی پر کوئی ظلم ہوتا ہوا دیکھتیں تو اُس کی ہرممکن اور علی الاعلان مدد کرتیں اور اُسے اپنی بیٹی بنالیتیں۔ غرباء اور ضرورتمند آتے تو کئی بار اپنے گھر کا سامان بھی اُنہیں دے دیتیں۔ بارہا گھر کے برتن اور کوئی فرنیچر مختلف گھروں میں بھجوادیئے لیکن خدا کے فضل سے آپ کے گھر میں کبھی کوئی تنگی محسوس نہیں ہوئی۔ کئی لوگ قرضہ لیتے لیکن آپ کبھی واپسی کا تقاضا نہ کرتیں۔

ظہرو عصر کی نماز کے لئے مرکز آپ کا گھر تھا۔ گھر کے دو کمروں میں MTA کا انتظام کر رکھا تھا، ایک کمرہ مردوں کے لئے اور دوسرا عورتوں کے لئے مخصوص تھا۔ بعض لوگ جو چندہ نادہندگان تھے، اُن کو آپ کے سپرد کردیا جاتا اور آپ کا حسن سلوک اور خداداد رعب ایسا تھا کہ وہ لوگ بقایا بھی ادا کرنا شروع کردیتے۔ عورتوں کو صحت سے متعلق مشورے دیتیں، کئی ضرورتمند خواتین علاج کے لئے اور ٹیکے وغیرہ لگوانے کے لئے آپ کے ہاں آیا کرتیں۔ ہر شخص جو خواہ ضرورت کے تحت آپ کے گھر آتا یا جماعتی مہمان ہوتا، اُس کی تواضع ضرور ہوتی۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں سے نوازا۔ آپ خود بھی پردہ کی پابند تھیں اور اپنی بچیوں کی بھی بہت عمدہ تربیت کی۔

…*…*…*…

مکرم ٹھیکیدار محمدشفیع سڈل صاحب

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ نومبر و دسمبر 2012ء میں مکرم محمد ظفراللہ صاحب نے اپنے دادا محترم ٹھیکیدار محمدشفیع سڈل صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو ریلوے کے پُل بنانے کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ آپ کوٹلی لوہاراں کے رہنے والے تھے جو سیالکوٹ سے قریباً آٹھ میل کے فاصلہ پر تھا۔

مکرم ٹھیکیدار محمد شفیع سڈل صاحب نے خلافتِ اُولیٰ کے دوران احمدیت قبول کی۔ خواجہ کمال الدین صاحب کے زیراثر ہونے کی وجہ سے خلافت ثانیہ کی بیعت کچھ عرصہ کے بعد کی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جوانی میں ہی آپ نے وفات پائی۔ اُس وقت آپ کا بڑا بیٹا محض چودہ پندرہ سال کا تھا۔ آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آپ کے دوست حضرت حاجی محمدموسیٰ صاحبؓ (نیلاگنبدلاہور والے) آپ کو ملنے کوٹلی لوہاراں پہنچے تو اُنہیں آپ کی وفات کا علم ہوا۔ نیز یہ بھی پتہ چلا کہ مرحوم کے کارندوں اور رشتہ داروں نے وہ سب کچھ خردبرد کرلیا تھا جس کے لئے اُنہیں مرحوم کے وارثان کے دستخط کی ضرورت نہیں تھی۔ البتہ وہ رقم محفوظ رہی جو ابھی حکومت سے لینی تھی۔ اسی طرح جو لوگ آپ کے زیراثر احمدی ہوئے تھے، اُن میں سے بھی اکثر اپنے ایمان پر قائم نہ رہ سکے حتّٰی کہ آپ کے دو بڑے بیٹوں کی منگنیاں بھی احمدیت کی وجہ سے ختم کردی گئیں۔ جب حضرت حاجی صاحب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی مرحوم کے بڑے بیٹے سے طے کردی۔ آپ نے ایسا غالباً اس لئے بھی کیا کیونکہ مرحوم کی اہلیہ نے احمدیت قبول نہیں کی تھی اور اُن کا خیال تھا کہ اگر دونوں بیٹے عارضی طور پر کہہ دیں کہ ہم احمدی نہیں ہیں تو بعد میں کون پوچھتا ہے۔

حضرت حاجی صاحب کی بیٹی مریم جب اس گھر میں بہو بن کر آئیں تو اگرچہ وہ شہر کی رہنے والی تھیں اور باہم دونوں خاندان ہم کفو بھی نہیں تھے لیکن اُن کی وجہ سے اس گھر میں دین نہ صرف قائم رہا بلکہ مضبوط بھی ہوا۔ حضرت حاجی صاحب نے اپنے داماد کو لاہور بلاکر اُنہیں ٹھیکے لینے اور کام مکمل کرنے میں مدد دی۔ اس طرح یہ خاندان ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔

مکرم ٹھیکیدار محمد شفیع سڈل صاحب بہت مخلص احمدی تھے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر گاڑی میں ایک بوگی ریزرو کروالیتے کہ جو بھی جانا چاہتا ہے وہ آجائے۔ آپ درپردہ بہت سے غرباء کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کی وفات پر بعض بیواؤں نے رو رو کر کہا کہ انہیں اپنی بیوگی کا احساس اب ہوا ہے۔ مرحوم نے اپنے ہر بیٹے کے علاوہ دونوں سوتیلے بھائیوں کے لئے بھی اپنی گِرہ سے مکانات بنوائے اور اپنی اولاد کی طرح اُن کا بھی خیال رکھا۔

…*…*…*…

جزائر کُک (Cook Islands)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اکتوبر2012ء میں ایک مختصر معلوماتی مضمون بحرالکاہل میں موجود جزائر کُک کے بارہ میں شامل اشاعت ہے۔

جزیرہ آک لینڈ (نیوزی لینڈ) کے شمال مشرق میں اڑہائی ہزار کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع یہ آٹھ بڑے اور سات چھوٹے جزائر کا مجموعہ ہے۔ یہ جزائر 20 لاکھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ ان جزائر کا کُل رقبہ 290 مربع کلومیٹر اور آبادی قریباً 20 ہزار ہے۔ یہاں ہر سال قریباً دو لاکھ سیاح آتے ہیں جن کے لئے کچھ خوبصورت باغات اور بلندعمارتوں میں ہوٹل تعمیر کئے گئے ہیں۔

یہ جزائر قریباً دو ہزار سال قبل ہونے والی زمینی تبدیلی کے باعث وجود میں آئے تھے۔ ان جزائر کی سیاحت سب سے پہلے ہسپانوی اور پُرتگالی جہازرانوں نے کی۔ 1773ء میں برطانوی بحری کپتان جیمز کُک نے ان جزائر کو دریافت کیا اور اِنہیں Harvey Islands کا نام دیا۔ 1888ء میں اِن جزائر کو برطانیہ نے حاصل کرکے اپنے زیرحفاظت علاقہ قرار دے دیا اور ان کو کُک جزائر کا نام دیا۔ 1901ء میں یہ جزائر نیوزی لینڈ میں شامل کردئے گئے۔ اِن جزائر میں 1970ء میں پہلا انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنایا گیا۔ اس خطّہ کی اپنی حکومت اور اپنی زبان ہے البتہ ہر جزیرے کی ثقافت دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ ان جزائر میں بارشیں کثرت سے ہوتی ہیں لیکن عام طور پر موسم خوشگوار رہتا ہے۔

…*…*…*…

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میںمکرمہ عارفہ حلیم صاحبہ کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ امریکہ کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

نئے دن کا نیا سورج یہی پیغام لایا ہے
خلیفۂ وقت کو لے کر مبارک وقت آیا ہے
زہے قسمت وہ آئے ہیں نیا احساس لائے ہیں
محبت کا خزینہ ایک اُن کے ساتھ آیا ہے
نگاہیں منتظر تھیں اور تھی یہ آرزو اُن کی
ہمارا پاسباں آئے جسے دل میں بسایا ہے
فلک بیتاب جھکنے کو زمیں بیتاب ملنے کو
قدم بوسی کو حاضر ہے ہوا ، پیغام آیا ہے
خلافت ایک بندھن ہے وفا کی پاسداری کا
فلاحِ قوم ہے اس میں یہ ہم نے راز پایا ہے
محبت ہے خدا تو پھر محبت کی قسم لے لیں
خلافت سے چمٹ جانا محبت نے سکھایا ہے

جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ اگست و ستمبر 2012ء میں مکرم لطف الرحمٰن محمود صاحب کا خوبصورت کلام شامل اشاعت ہے جو زیارتِ حرمین الشریفین کے پس منظر میں کہا گیا ہے۔ نظم میں شامل دو مقامات کا تعارف نیچے درج ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

تیراؐ مولد ، تیراؐ مسکن ، تیراؐ مدفن دیکھا
وجۂ تکوینِ دو عالم کے فسانے کا متن دیکھا
حراؔ دیکھ کے یاد آئی حدیثِ اِقْرَا
باطنِ ثورؔ میں جلوۂ لَاتَحْزَنْ دیکھا
دامنِ اُحدؔ میں مرقدِ حمزہؓ کے قریب
حجلۂ حُورِ شہادہ کے تجمُّل کا پھبن دیکھا
شمیسیؔ کی فضا ، تجھ پہ فدا جان کے تُو نے
حزبِ رضواں کا وہ عہدِ کُفر شکن دیکھا
کس طرح کروں آج مَیں ذکرِ مقامِ غرقدؔ
ہے یہ وہ خاک جہاں خُلدنشینوں کا نشیمن دیکھا

………………………

نوٹ:1۔ حدیبیہ کے مقام کو (جہاں صحابہؓ نے آنحضورﷺ کے دست مبارک پر بیعت رضوان کی تھی) آجکل شمیسیؔ کہتے ہیں۔
2۔ جنت البقیع کا تاریخی نام غرقدؔ ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button