حضرت مصلح موعود ؓ

دس دلائل ہستی باری تعالیٰ (قسط نمبر 4۔ آخری)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

دلیل نہم:۔ نویں دلیل قرآن شریف سے وجودِباری کی الہام معلوم ہوتی ہے۔ یہ دلیل اگرچہ میں نے نویں نمبر پر رکھی ہے لیکن درحقیقت نہایت عظیم الشان دلیل ہے جو خدا تعالیٰ کے وجود کو یقینی طور سے ثابت کردیتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (ابراہیم28:) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس دنیا اور اگلی دنیا میں پکی باتیں سنا سنا کر مضبوط کرتا رہتا ہے۔ پس جب کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہم کلام ہوتا رہتا ہے تو پھر اس کا انکار کیونکر درست ہوسکتا ہے اور نہ صرف انبیاء اور رسولوں کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے بلکہ اولیاء سے بھی باتیں کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے کسی غریب بندہ پر بھی رحم کرکے اس کی تشفی کے لئے کلام کرتا ہے۔ چنانچہ اس عاجز سے بھی اس نے کلام کیا اور اپنے وجود کو دلائل سے ثابت کیا۔ پھر یہی نہیں بعض دفعہ نہایت گندے اور بدباطن آدمیوں سے بھی ان پر حجت قائم کرنے کے لئے بول لیتا ہے۔ چنانچہ بعض دفعہ چوہڑوں چماروں کنچنیوں تک کو خوابیں اور الہام ہوجاتے ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ وہ کسی زبردست ہستی کی طرف سے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان میں غیب کی خبریں ہوتی ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوکر بتا دیتی ہیں کہ یہ انسانی دماغ کا کام نہ تھا اور نہ کسی بدہضمی کا نتیجہ تھا اور بعض دفعہ سینکڑوں سال آگے کی خبریں بتائی جاتی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ موجودہ واقعات خواب میں سامنے آگئے اور وہ اتفاقاً پورے بھی ہوگئے۔ چنانچہ توریت اور قرآن شریف میں مسیحیوں کی ان ترقیوں کا جن کو دیکھ کر اب دنیا حیران ہے، پہلے ذکر موجود تھا اور پھر صریح لفظوں میں تفصیل کے ساتھ۔ بلکہ ان واقعات کا بھی ذکر ہے جو آئندہ پیش آنے والے ہیں۔ مثلاً اِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (التکویر5:) یعنی ایک وقت آتا ہے کہ اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور حدیث مسلم میں اس کی تفسیر یہ ہے وَلْیَتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْھَا یعنی اونٹنیوں سے کام نہ لیا جائے گاچنانچہ اس زمانے میں ریل کے اجراء سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ ریل کے متعلق نبی کریم ﷺ کے کلام میں ایسے ایسے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ریل کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ کلام نبوت میں بھی سواری (مراد) ہے جو حبس ماء (steam) سے چلے گی اور اپنے آگے دھوئیں کا ایک پہاڑ رکھے گی اور سواری اور باربرداری کے لحاظ سے حمار کی طرح ہوگی اور چلتے وقت ایک آواز کرے گی وَغَیۡرُذٰلِکَ۔

دوم:۔ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر11:) یعنی کتابوں اور نوشتوں کا بہ کثرت شائع ہونا۔ آجکل بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میںکثرت اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضروت نہیں۔

سوم:۔ اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (التکویر8:) نوع انسان کے باہمی تعلقات کا بڑھنا اور ملاقاتوں کا طریق سہل ہوجانا کہ موجودہ زمانے سے بڑھ کر متصور نہیں۔

چہارم:۔ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفۃُ (النّٰزِعٰت6:) متواتر اور غیرمعمولی زلزلوں کا آنا یہاں تک کہ زمین کانپنے والی بن جائے۔ سو یہ زمانہ اس کے لئے بھی خصوصیت سے مشہورہے۔

پنجم:۔ وَاِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوْھَا (بنی اسرائیل59:) کوئی ایسی بستی نہیں جس کو ہم قیامت سے پہلے پہلے ہلاک نہیں کریں گے یا کسی حد تک اس پر عذاب وارد نہیں کریں گے۔ چنانچہ اسی زمانہ میں طاعون اور زلزلوں اور طوفان اور آتش فشاں پہاڑوں کے صدمات اور باہمی جنگوں سے لوگ ہلاک ہور رہے ہیں اور اس قدر اسباب موت کے اس زمانہ میں جمع ہوئے ہیں اور اس شدت سے وقوع میں آئے ہیں کہ اس مجموعی حالت کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔ پھر اسلام تو ایسا مذہب ہے کہ ہر صدی میں اس کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو الہام الٰہی سے سرفراز ہوتے رہتے ہیں اور خارق عادت نشانات سے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک قادرو توانا، مدبّر بالارادہ ہستی ہے۔ چنانچہ اس زمانہ کے مامور پر نہایت بے بسی و گمنامی کی حالت میں خدا نے وحی نازل کی یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِنَ النَّاسِ (دیکھو براہین احمدیہ مطبوعہ 1881ء صفحہ 241۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 267 حاشیہ) کہ ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ایسی کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے۔ مگر چاہئے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے، بدخلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی ملاقاتوں سے تھک نہ جائے۔ ایک شخص ایک گائوں میں رہنے والا جس کے نام سے مہذب دنیا میں سے کوئی آگاہ نہ تھا، یہ اعلان کرتا ہے پھر باوجود سخت مخالفتوں اور روکوں کے ایک دنیا دیکھتی ہے کہ امریکہ اور افریقہ سے لے کر تمام علاقوں کے لوگ یہاں حاضر رہتے ہیں اور آدمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب سے مصافحہ و ملاقات کرنا معمولی آدمی کا کام نہیں ایک مقتدر جماعت اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر یہاں رہنا اختیار کرتی ہے اور قادیان کا نام تمام دنیا میں مشہور ہوجاتا ہے۔ کیا یہ چھوٹی سی بات ہے اور یہ ایسا نشان ہے جسے معمولی نظر سے ٹال دیا جائے؟

دوم:۔عیسائیوں میں سے ڈوئی نے امریکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے یہ ناپاک کلمات شائع کئے کہ ’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں وہ دن جلد آئے کہ اسلام دنیا سے نابود ہو جائے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ اے خدا اسلام کو ہلاک کر‘‘۔ تو صرف یہ حضور مسیح موعود ہمارے امام علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اس کے مقابلہ میں اشتہار دیا کہ اے شخص جو مدعی نبوت ہے آ اور میرے ساتھ مباہلہ کر۔ ہمارا مقابلہ دعا سے ہوگا اور ہم دونوں خدا تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو شخص کذاب ہے وہ پہلے ہلاک ہو (ٹیلیگراف5؍جولائی1903ء) لیکن اس نے رعونت سے کہا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ میں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا۔ اگر میں اپنا پائوں ان پر رکھوں تو ان کو کچل کر مارڈالوں۔ (ڈوئی کا پرچہ دسمبر1903ء) مگر حضور نے فرمایا تھا اور اسی اشتہار 23؍اگست1903ء میں شائع کیا تھا کہ اگر ڈوئی مقابلہ سے بھاگ گیا تب بھی یقیناً سمجھو کہ اس کے صیحون پر جلد آفت آنے والی ہے۔ اے خدا اور کامل خدا، یہ فیصلہ جلد کر اور ڈوئی کا جھوٹ لوگوں پر ظاہر کردے۔ پھر اس کے بعد معزز ناظرین سنو کیا ہوا۔ وہ جو شہزادوں کی زندگی بسر کرتا تھا جس کے پاس سات کروڑ نقد تھا، اس کی بیوی اور اس کا بیٹا دشمن ہوگئے اور باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولد الزنا ہے۔ آخر اس پر فالج گرا پھر غموں کے مارے پاگل ہوگیا۔ آخر مارچ 1907ء میں بڑی حسرت اور دکھ کے ساتھ جیسا کہ خدا نے اپنے مامور کو پہلے اطلاع دی اور جیسا کہ حضرت اقدس نے 20؍فروری 1907ء کے اشتہار میں شائع فرمایا تھا۔ خدا فرماتا ہے کہ ’’میں ایک تازہ نشان ظاہر کروں گا۔ جس میں فتح عظیم ہوگی۔ وہ تمام دنیا کے لئے ایک نشان ہوگا۔‘‘ ہلاک ہوکر خدا کی ہستی پر گواہی دے گیا۔ یہ عیسائی دنیا، پرانی دنیا، نئی دنیا دونوں پر حضور کی فتح تھی۔

سوم:۔اس ملک میں آریوں کا زور ہے۔ ان کا زعیم لیکھرام تھا، رسالہ کرامات الصادقین مطبوعہ صفر 1311ھ میں یہ پیشگوئی درج کی کہ لیکھرام کی نسبت خدا نے میری دعا قبول کرکے مجھے خبر دی ہے کہ وہ چھ سال کے اندر ہلاک ہوگا اور اس کا جرم یہ ہے کہ وہ خدا کے نبیﷺ کو گالیاں دیتا تھا اور برے لفظوں کے ساتھ توہین کرتا تھا۔ پھر 22؍فروری 1893ء کے اشتہار میں اس کے مرنے کی صورت بھی بتا دی۔ عِجْلٌ جَسَدٌ لَّہٗ خُوَارٌلَّہٗ نَصَبٌ وَعَذَابٌ یعنی لیکھرام گوسالہ سامری ہے جو بےجان ہے اور اس میں محض ایک آواز ہے جس میں روحانیت نہیں۔ اس لئے اس کو عذاب دیا جاوے گا جوگوسالہ سامری کو دیاگیا تھا۔ ہر ایک شخص جانتا ہے کہ گوسالہ سامری کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا اور پھر جلایا گیا اور دریا میں ڈالا گیا تھا۔ پھر 2 ؍اپریل 1893ء کو آپ نے ایک کشف دیکھا۔ (دیکھو برکات الدعا کا حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ 33) ایک قوی مہیب شکل جو گویا انسان نہیں ملائک شداد اور غلاظ سے ہے، وہ پوچھتا ہے کہ لیکھرام کہاں ہے۔ پھر کرامات الصادقین کے اس شعر سے دن بھی بتا دیا۔

وَبَشَّرَنِیْ رَبِّیْ وَقَالَ مُبَشِّرًا
سَتَعْرِفُ یَوْمَ الْعِیْدِ وَ الْعِیْدُ اَقْرَبُ

یعنی عید سے دوسرے دن ہفتہ والے دن اور ؎

الا اے دشمنِ نادان و بے راہ
بترس از تیغِ برانِ محمدؐ

پانچ سال پہلے شائع کرکے قتل کی صورت بھی بتا دی۔ آخر لیکھرام 6؍مارچ 1897ء کو قتل کیا گیا اور سب نے متفق اللفظ مان لیا کہ یہ پیشگوئی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر اللہ کی ہستی کے لئے حجت ناطقہ ٹھہری پس الہام الٰہی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے خدا کا انکار کرنا نہایت بے حیائی بے شرمی ہوگی۔

دلیل دہم:۔ دسویں دلیل جو ہر ایک نزاع کے فیصلہ کے لئے قرآن شریف نے بیان فرمائی ہے۔ اس آیت سے نکلتی ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت70:) یعنی جو لوگ ہمارے متعلق کوشش کرتے ہیں، ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیتے ہیں اور اس آیت پر جن لوگوں نے عمل کیا وہ ہمیشہ نفع میں رہے ہیں۔ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا منکر ہو اُسے تو ضرور خیال کرلینا چاہئے کہ اگر خدا ہے تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگی پس اس خیال سے اگر سچائی کے دریافت کرنے کی اس کے دل میں تڑپ ہوتو اسے چاہئے کہ گڑگڑا کر اور بہت زور لگا کر وہ اس رنگ میں دعا کرے کہ اے خدا! اگر تو ہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں تو غیرمحدود طاقتوں والا ہے۔ تو مجھ پر رحم کر اور مجھے اپنی طرف ہدایت کر اور میرے دل میں بھی یقین اور ایمان ڈال دے تاکہ میں محروم نہ رہ جائوں۔ اگر اس طرح سچے دل سے کوئی شخص دعا کرے گا اور کم سے کم چالیس دن تک اس پر عمل کرے گا تو خواہ اس کی پیدائش کسی مذہب میں ہوئی ہو اور وہ کسی ملک کا باشندہ ہو، ربّ العالمین اس کو ضرور ہدایت کرے گا اوروہ جلد دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے رنگ میں اس پر اپنا وجود ثابت کردے گا کہ اس کے دل سے شک و شبہ کی نجاست بالکل دور ہوجائے گی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس طریق فیصلہ میں کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہوسکتا پس سچائی کے طالبوں کے لئے اس پر عمل کرنا کیا مشکل ہے؟

فی الحال ان دس دلائل پر ہی میں اپنا مضمون ختم کرتاہوں اور گو قرآن شریف میں اَور دلائل بھی ہیں لیکن میں سردست انہیں پر اکتفا کرتا ہوں۔ اگر کوئی اس پر غور کرے گا تو انہیں دلائل میں سے اس کے لئے اَور دلائل بھی نکل آئیں گے۔ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ۔

آخر میں ان احباب سے جن کے ہاتھ میں یہ پمفلٹ پہنچے، استدعا کرتا ہوں کہ اسے پڑھنے کے بعد کسی اور ایسے دوست کو دے دیں کہ جس کے لئے اسے مفید سمجھیں۔

(تشحیذ الاذہان مارچ 1913ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button