الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

…………………………

سکھوں کے گردوارہ میں جمعہ کی نماز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2نومبر 2012ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب نے اپنی زندگی کا ایک یادگاری واقعہ بیان کیا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ ایک صدی قبل بھی قادیان اور اس کے نواحی علاقوں میں بلاتخصیص مذہب، باہمی احترام پر مبنی، بہت پُرامن ماحول قائم تھا۔ لوگ اچھی باتوں کو سنتے تھے اور ان کی قدر کرتے تھے۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 1924-25 ء میں مَیں اور میرا چھوٹا بھائی عبدالعزیز مرحوم اپنے گاؤں بھامبڑی کے پرائمری سکول میں پڑھا کرتے تھے جو سکھوں کے حلقہ میں تھا۔ ہماری اور سکھوں کی برادری ایک ہی تھی۔ بڑا پُرامن زمانہ تھا۔ باہمی مراسم بہت اچھے تھے۔ گاؤں کے نصف حصہ میں مسلمان بستے تھے اور دوسرے نصف میں سکھوں کی آبادی تھی۔ مسلمان اکثر اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ گاؤں میں صرف ہمارا گھر ہی احمدی تھا۔ ہمارا گاؤں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر ہے۔ ہمارے والد صاحب ہر جمعہ قادیان پڑھا کرتے تھے۔ کسی مجبوری کی وجہ سے اگر نہ جاسکتے تو ہم دونوں بھائیوں کو ساتھ لے کر گاؤں کی مسجد میں جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ گاؤں میں تین مساجد تھیں۔ اہلحدیث سارے ایک مسجد میں جمعہ ادا کرتے تھے۔ ہمارے حلقہ کی جو مسجد خالی ہوتی تھی، ہم وہاں جمعہ پڑھ لیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ جب ہمارے والد صاحب جمعہ کے لئے قادیان نہ جاسکے اور ہمیں مدرسہ سے ساتھ لے کر گھر آرہے تھے۔ راستہ میں سکھوں کا گردوارہ پڑتا تھا۔ جب ہم گردوارہ کے پاس سے گزر رہے تھے تو وہاں پر ہماری برادری کے سکھ سردار ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے والد چوہدری عبدالکریم صاحب کو دیکھ کرکہنے لگے میاں صاحب لڑکوں کو کہاں لے جارہے ہیں؟ والد صاحب نے کہا کہ آج میں جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان نہیں جا سکا، اب ہم اپنی مسجد جا کر جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔ سکھوں نے کہا کہ آج ہمارے گردوارہ کو رونق بخشیں اور اس میںعبادت کر لیں۔ والد صاحب نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ ہم نے ہاتھ منہ دھو کر نماز کے لئے تیاری کی۔ میرے چھوٹے بھائی عبدالعزیز نے اونچی سریلی آواز میں اذان کہی۔ سکھ دوست بھی ہماری عبادت کا طریق دیکھنے کے لئے ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ ہال کے ایک کونہ میں گرنتھ بھی رکھا ہوا تھا۔

والد صاحب نے دنیا کی بے ثباتی پر پندرہ بیس منٹ پنجابی زبان میں خطبہ دیا کہ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوتی ہے اور اگلے جہان کی کیفیت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ سب سے عقلمند وہ آدمی ہے جو اگلے جہان کے لئے تیاری کرتا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ اک نہ اک دن ہم سب نے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔
سکھ صاحبان خوش تھے کہ ہم نے اُن کے گردوارہ میں عبادت کی ہے اور خطبہ کی بھی تعریف کی کہ بہت اچھی نصائح کی ہیں۔

…*…*…*…

ہومیو ڈاکٹر محترمہ امۃ النصیر صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 نومبر 2012ء میں مکرم جمیل احمد انورصاحب مربی سلسلہ اپنی والدہ محترمہ ڈاکٹر امۃالنصیر صاحبہ (بنت مکرم محمد اسحاق ارشد صاحب آف احمدیہ ماڈرن سٹور گولبازار ربوہ) کا ذکرخیر کرتے ہیں جنہوں نے 29جنوری 2012ء کو وفات پائی۔

محترمہ امۃالنصیر صاحبہ 23 نومبر1951ء کو پیدا ہوئیں۔ آپ کُل آٹھ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بچپن سے ہی آپ کو علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ایم ایس سی کی۔ اس کے بعد ملازمت کا ارادہ کیا تو آپ کے والد صاحب نے کہا کہ مَیںنے تم لوگوںکو نوکریاں کرنے کے لئے نہیں پڑھایا، جاکر دین کی خدمت کرو یا بِلامعاوضہ تدریس کرلو۔ چنانچہ آپ نے لجنہ ہال ربوہ میں اعزازی خدمت بجالانا شروع کردی۔ 1978ء میں آپ کی شادی اپنے خالہ زاد مکرم اطہر احمد نظام صاحب سے ہوئی۔ شادی کے بعد بعض مشکل اور نامساعد حالات میں بھی آپ نے بڑے صبر اور شکر سے گزارہ کیا اور اپنے خاوند کی معین و مددگار بنی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ چھوٹے بیٹے مکرم حافظ عطاء الغالب صاحب فِن لینڈ میں نیشنل سیکرٹری تربیت کے طور پر خدمت بجالارہے تھے۔

مرحومہ میں خدمت دین اور خدمت انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ بیماروں کی خدمت کے لئے آدھی رات کو بھی اُٹھ جاتیں۔ آپ کا حلقہ احباب زیادہ تر غریب ، تنگدست اور پریشان حال لوگوں پر ہی مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اُن کی غمگساری اور خدمت کرنے کو کارِثواب جانتیں اور دردِ دل سے اُن کیلئے دُعائیں کرتیں۔

شادی کے بعد لاہور میں تدریس کے شعبہ سے منسلک رہیں اور ساتھ ساتھ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش رہیں۔ لاہور کے قریب قصبہ کوٹ عبدالمالک میں تقریباً گیارہ سال رہیں۔ وہاں پر قریباً دس سال صدر لجنہ رہیں اور اتنی محنت سے یہ خدمت بجالائیں کہ یہ مجلس دس سال پاکستان کی دیہی مجالس میں اوّل آتی رہی۔

مضمون نگار 1997ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو ایک سال بعد آپ کے گھر والے بھی ربوہ شفٹ ہو گئے۔ یہاں پر مرحومہ نے نصرت جہاں اکیڈمی میں تدریس شروع کی اور بعد میں طاہر ہومیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ ڈاکٹر بن کر خدمت کرنے کی خواہش بچپن سے ہی آپ کے دل میں تھی۔ اسی شوق کے پیش نظر اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔ خود بھی 1991ء میں DHMSکیا اور کوٹ عبد المالک میں اپنا کلینک بھی بنایا۔ ربوہ میں بھی طاہر ہومیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں خدمت کے بعد اپنا کلینک بھی بنایا جہاں نہایت معمولی قیمت پر ادویات تجویز کرتیں۔ بلکہ غریب مریضوں کی اپنی گرہ سے مدد بھی کرتیں۔ دستِ شفا عطا ہونے کے لئے خود بھی دعا کرتیں اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہتیں۔

چندہ جات میں بہت باقاعدہ اور اوّل وقت میں ادا کرنے والی تھیں۔ ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ کلینک یا کہیں سے بھی کوئی آمدن ہوتی تو اُس کا دسواں حصہ وہ ڈبہ میں ڈالتی جاتیں۔ اپنی زندگی میں ہی اپنی وصیت کا تمام چندہ اور حصہ جائیداد تک ادا کردیا۔ وقف جدید اور تحریک جدید اور ذیلی تنظیموں کے چندہ جات سال شروع ہوتے ہی خود دے کر آتیں۔ دیگر مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتی رہتیں۔ صدقات دینے کے علاوہ غریب بچیوں اور غریب لڑکوں کی شادی کے مواقع پر بھی حتی الوسع اُن کی مالی معاونت کرتیں۔ کوٹ عبد المالک کی مقامی مسجد میں عورتوں کے لئے ہال کی تعمیر شروع ہوئی تو اپنے کمزور مالی حالات کے باوجود آپ نے بیس ہزار روپے پیش کئے ۔ اپنے مرحومین کی طرف سے بھی اکثر چندہ جات کی ادائیگی کرتیں۔ اپنی آخری بیماری میں مضمون نگار کو بھی یہی نصیحت کی کہ مرحومین کی طرف سے چندہ جات کی ادائیگی کا کام جاری رکھنا۔

مرحومہ کو اپنے بچوں کی روحانی ترقی کی طرف ہروقت توجہ رہتی تھی۔ نمازوں کی ادائیگی، چندہ جات کی بروقت ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کا پوچھتیں۔ آپ سب بہنوں کو قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ آپ جہاں بھی رہیں، خواتین کو قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتی رہیں۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ گھر میں خطبہ جمعہ پوری خاموشی اور احترام سے سنا جاتا۔ حضور انور کی ہرتحریک اور ہر حکم پر صف اول میں شامل ہوکر اطاعت کرتیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر اس بات کا خصوصیت سے اہتمام ہوتا کہ حضور کے ارشادات کی خلاف ورزی نہ ہو اور کہیں کسی شادی پر ایسا ہوتے دیکھتیں تو سختی سے روکتیں۔

…*…*…*…

مکرم سعید احمد طاہر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16نومبر 2012ء میں مکرم کلیم احمد طاہر صاحب نے اپنے ایک مضمون میں مکرم سعید احمد طاہر صاحب (شہید لاہور) کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مَیں سعید سے 1995ء میں متعارف ہوا جب میری تقرری تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ ایک روز بہت ہی سادہ مگر پُرخلوص نوجوان مسجد میں آیا اور بتایا کہ وہ لاہور میں کام سیکھ رہا ہے۔ بعد میں سعید کے ساتھ رشتہ داری بھی ہوگئی۔ میرا مشاہدہ تھا کہ سعید بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ جب بھی تخت ہزارہ آتا تو ہردینی پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور دوسروںکو بھی تحریک کرتا۔ اس کی ڈائریوں میں کئی جگہ یہ دعا ملتی ہے کہ کہ خداتعالیٰ مجھے شہادت کی موت دینا۔ باجماعت نماز کا عادی تھا۔ اگر کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکتا تو گھر میں باجماعت ادا کرتا، فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کے التزام کی بھی پوری کوشش کرتا۔ ورکشاپ میں بھی قرآن کریم رکھا ہوا تھا۔ اپنی اہلیہ کو بھی نماز اور قرآن پڑھنے میں باقاعدگی اختیار کرنے اور دکھی لوگوں کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتا۔ سعید کی بہن بیان کرتی ہیں کہ میں حیران ہوتی تھی کہ بھائی کو کتنی بھی مصروفیت ہوتی، کتنے بھی تھکے ہوئے ہوتے، اتنے انہماک سے نماز پڑھتے کہ نہ ان کو کسی کی باتوں کی پرواہ ہوتی، نہ بچوں کا شور ڈسٹرب کرتا۔

شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ تخت ہزارہ میں ہائی سکول نہ تھا اس لئے سعید میٹرک کا امتحان دینے کے لئے اپنے چچا کے پاس لاہور آگئے مگر وہاں مناسب رویہّ نہ دیکھ کر اُن کے گھر کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے پھوپھی زاد بھائی کی فیکٹری میں کام شروع کردیا۔ ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے دو تین راتیں فٹ پاتھ پر گزاریں۔ جب اُن کے پھوپھی زاد بھائی کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے اپنی فیکٹری میں ہی رہائش دے دی۔ بعد میں سعید نے اپنی ورکشاپ کھول لی۔ ہماری شادی 2004ء میں ہوئی تھی۔ مَیں نے بہت قریب سے دیکھا کہ وہ بہت ہمدرد، نیک دل، جماعت سے اور خلافت سے والہانہ عشق رکھنے والے تھے۔ جماعت کی طرف سے کوئی بھی تحریک ہوتی یا حلقہ کا کوئی پروگرام ہوتا تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، مرکز سے کوئی مہمان آجاتا تو اس کی خدمت کی خاطر اپنے کام سے چھٹی کر لیتے۔ کئی بار قائد صاحب کا آدھی رات کو فون آجاتا کہ کسی مریض کو بلڈ کی ضرورت ہے تو اپنی نیند چھوڑ کر فوراً چل پڑتے۔ مَیں نے کئی بار کہا کہ آپ اتنا بلڈ دیتے ہیں بیمار نہ ہوجائیں تو وہ فوراً کہتے کہ اگر میرے چند قطرے خون دینے سے کوئی جان بچ جائے تو اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی اور یہ کہ بندہ خون دینے سے کمزور نہیں ہوتا۔

اہلیہ مزید بتاتی ہیں کہ سعید کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اکثر مربیان سے بھی اختلافی مسائل کے بارہ میں گفتگو کرتے رہتے۔ اکثر ایم ٹی اے دیکھتے اور کئی پروگرام ریکارڈ کرکے اپنی ورکشاپ پر جا کر دوستوں کو سنواتے۔ اپنے والدین کے بہت ہی فرمانبردار تھے اور اُن کی کوئی بات ٹالتے نہیں تھے اور صرف جی ہاں کہتے تھے۔ اپنی اکلوتی بہن کے بہت نخرے اٹھایا کرتے تھے، اُس کی شادی پر اپنے حالات کی وجہ سے کچھ زیادہ نہ کرسکے، بعد میں اللہ تعالیٰ نے کشائش عطا کی تو بہن کو تحفے دینے کے بہانے ڈھونڈتے۔ والدین میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو فوراً ان کو ہسپتال لے جاتے اور کوشش کرکے کسی بہت اچھے ڈاکٹر کو دکھاتے اور ان کو دوائی خود وقت پر اپنے ہاتھوں سے دیتے۔ اسی طرح اپنی ایک تایا زاد بہن کے ہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ ایک بار سعید کو معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ سے کپڑے دھوتی ہیں اور بہت تھک جاتی ہیں تو سعید نے ان کو ایک معقول رقم دی کہ آپ اپنے لئے واشنگ مشین خریدیں اور پھر دیکھاکہ ان کے گھر ٹی وی نہیں ہے تو ان کو ٹی وی خرید کردیا۔ سعید کا اپنے سسرال کے ساتھ بھی بہت اچھا برتائو تھا۔ شہادت سے تین ماہ قبل میرے والد صاحب کے لئے گھڑی خریدی اور ان کو جا کر بہت محبت سے تحفۃً پیش کی۔

سعید نے بہت خوش گوار عائلی زندگی گزاری۔ اپنی اہلیہ سے بہت محبت تھی اور ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خود ہی بہت خیال کرتا۔ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹا دیتا۔ اہلیہ کے بھائی کو اپنے پاس رکھ کر اس کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بہت کوشش کی۔

سعید کی بہن بیان کرتی ہیں کہ میری تین سالہ بچی آگ لگنے سے کافی جھلس گئی۔ مَیں نے بھائی کو نہ بتایا مگر ایک ہمسایہ نے سعید کو فون کرکے بتادیا۔ بھائی نے اُسی وقت ورکشاپ بند کی، ایک ڈاکٹر سے دوائیں پوچھ کر خریدیں اور پھر میری امی اور بھابھی کو لے کر رات ایک بجے میرے پاس گائوں پہنچے۔ بچی کو دوائی وغیرہ لگائی۔ اگلی صبح بچی کو ہسپتال لے گئے اور اس کا باقاعدہ علاج کروایا۔

سعید بہت ایماندار تھا۔ ایک بار کسی سابق وزیر کی گاڑی ورکشاپ پر آئی اور ڈرائیور نے بتایا کہ اس میں الیکٹرک سیٹ فِٹ کرنی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ بڑی بڑی ورکشاپوں والے تو اس میں ناکام ہی ہوئے ہیں اس لئے مالکان نے بیرون ملک سے کاریگر بلوانے کا سوچا ہے جس کا معاوضہ دو لاکھ روپے طے ہوا ہے۔ سعید نے اُس کو کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں۔ پھر چند دن سوچ بچار، محنت اور انٹرنیٹ کی مدد سے سعید نے وہ سیٹ فٹ کردی۔ لیکن معاوضہ صرف چھ ہزار روپے لیا اور بتایا کہ مَیں اپنی محنت کے صرف جائز پیسے لوں گا۔

…*…*…*…

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ مئی و جون 2012ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

مذہب کے نام پر جو زمانے میں جنگ ہے
ہر ایک نیک روح بہت اس سے تنگ ہے
کیوں ہیں خدا کے نام پہ خونخوار اس قدر
اِک دوسرے کی شکل سے بے زار اس قدر
حالانکہ انبیاء تو محبت ہیں پیار ہیں
منزل ہے ایک ، راستے گرچہ ہزار ہیں
سب میں خدائے پاک کا رنگِ ظہور تھا
شمعیں جُدا جُدا سہی ، پر ایک نُور تھا
تھی رُوح ایک ، جسم مگر بے شمار تھے
سب ہی خدائے پاک پہ دل سے نثار تھے
یونہی تھے سب رسول و نبی عاشقِ خدا
خلقِ خدا کے واسطے ہر آن تھے فِدا
سو اُن کے عاشقوں کو یہی طرز ہے روا
خوشبو خلوص و امن کی پھیلائیں جا بجا

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button