متفرق مضامین

لفظ ’مسجد‘ کے استعمال پر وفاقی شرعی عدالت میں بحث

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

لفظ ’مسجد‘ کے استعمال پر وفاقی شرعی عدالت میں بحث

گزشتہ مضمون میں یہ جائزہ پیش کیا گیا تھا کہ مخالفین ِجماعت ِاحمدیہ کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ احمدی پاکستان کے قانون کے مطابق مسلمان نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کے شعائر استعمال کرتے ہیں۔ اس سے ان شعائر کی توہین اور مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ لہٰذا ریاست پر لازم ہے کہ اُن کو اس فعل سے روکے۔ اس بارے میں پہلے ایک مضمون ’شعائر اللہ اور شعائر ِاسلامی۔ عدالتی فیصلے اور حقائق‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ جماعتِ احمدیہ کے مخالف طبقہ کی طرف سے یہ نکتہ بار بار اُٹھایا جاتا ہے اور عوام الناس کو یہ کہہ کر اشتعال دلایا جاتا ہے کہ احمدی شعائر ِاسلام کو استعمال کر کے ان کی توہین کر رہے ہیں اور گویا اس طرح نعوذُ باللہ اسلام کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور جماعت ِاحمدیہ کے خلاف فیصلے سناتے ہوئے بہت سی عدالتوں نے بھی اپنے تفصیلی فیصلوں میں اس بارہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ تعصب کی فضا خواہ کتنی ہی زہر آلود کیوں نہ ہو، کوئی انصاف سے بات سننے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو جماعت ِاحمدیہ کی طرف سے ہمیشہ یہی کوشش کی گئی ہے کہ سچی بات اور درست مؤقف متعلقہ اشخاص، متعلقہ اداروں اور عوام الناس تک پہنچا کر فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔

جہاں تک شعائر ِاسلام کے استعمال کا تعلق ہے اس پہلو سے جماعت ِاحمدیہ پر سب سے زہریلا وار جنرل ضیاء صاحب کا جاری کردہ آرڈیننس 20 تھا۔ اس وقت بھی یعنی 1984 میں جماعت ِاحمدیہ کے چند احباب نے اسے شرعی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ ان احباب میں سرِِفہرست مکرم مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ تھے جنہوں نے عدالت کے روبرو دلائل دئے تھے۔ ان کے علاوہ اس مقدمہ کے سائلین میں مکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ، مکرم مرزا نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم حافظ مظفر احمد صاحب بھی شامل تھے۔ مزید برآں علماء کی ایک ٹیم جس میں مکرم و محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب، مولانا جلال الدین قمر صاحب، مولانا محمد صدیق صاحب، مکرم شمس الحق صاحب، مکرم ملک مبارک احمد صاحب، مکرم نصیر احمد قمر صاحب اور مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب شامل تھے اس مقدمہ کی تیاری میں مدد کر رہی تھی۔ جنرل ضیاء صاحب کے آڑدیننس کے حوالے اس عدالت کے روبرو ’شعائر اللہ‘ یا ’شعائر ِاسلامی ‘ کے استعمال کے مسئلہ پر بھی بحث ہوئی۔ فیصلہ تو جو ہونا تھا وہ ہوا لیکن کم از کم مختصر طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ اس موقع پر ان احمدی احباب کی طرف سے کیا دلائل پیش کئے گئے؟ پڑھنے والے خود ہی ان کے بارے میں اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں۔

اس بارہ میں مکرم مجیب الرحمٰن صاحب کی کتاب ’امتناعِ قادیانیت آرڈیننس 1984۔ وفاقی شرعی عدالت‘ شائع ہو چکی ہے۔ دلچسپی رکھنے والے تفصیلات اس کتاب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

دلائل ازروئے قرآنِ کریم

جب عدالت میں بحث شروع ہوئی اور مکرم مجیب الرحمٰن صاحب نے اس بارے میں دلائل کو آگے بڑھانا شروع کیا تو شریعت کورٹ کے جج صاحبان میں سے جسٹس عبد القدوس قاسمی صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ کیا مسلمانوں کے شعائر غیر مسلموں کے ساتھ مشترک ہوسکتے ہیں؟ اس کا جواب مجیب الرحمٰن صاحب نے یہ دیا کہ ’ہوسکتے ہیں‘۔ مثلاََ داڑھی رکھنا اور ختنہ کرانا یہودیوں کے شعار میں بھی شامل ہے اور مسلمانوں کے شعار میں بھی شامل ہے۔ اس پر ایک اور جج مولوی غلام علی صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ اگر کوئی جعلی کرنسی چھاپ دے اور اصلی کرنسی جیسی ہو تو یہ دوسرے کے شعار استعمال کرنا نہیں ہوگا۔ اس پر مجیب الرحمٰن صاحب نے جواب دیا کہ ریال سعودی عرب کی کرنسی بھی ہے اور عراق کی بھی کرنسی ہے۔ دونوں اپنی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی جعلی نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے علاوہ دینی امور مثلاً اذان کو کرنسی یا دوسرے مادی امور سے تشبیہ دینا مناسب نہیں۔ مکرم مجیب الرحمٰن صاحب نے اس ضمن میں مزید دلائل کی بنیاد قرآن ِکریم کی درج ذیل آیت پر رکھی :

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمرٰن 65:)

ترجمہ: تو کہہ دے اے اہلِ کتاب! اس کلمہ کی طرف آجائو جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے۔ اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ یقیناََ ہم مسلمان ہیں۔

اس آیت ِکریمہ سے استنباط کرتے ہوئے مجیب صاحب نے کہا کہ قرآنِ کریم تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مشترک امور کی طرف دعوت دیتا ہے۔ کجا یہ کہ ان لوگوں کے مطابق قرآن ان کا استعمال ممنوع قرار دے کر قابلِ تعزیر جرم بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یہ نکتہ اُٹھایا کہ اپنے مذہب کے شعائر متعین کرنا ہمارا حق ہے۔ اور اپنے شعائر ہم خود طے کریں گے۔

(امتناع ِقادیانیت آرڈیننس 1984ء۔ وفاقی شرعی عدالت مصنفہ مجیب الرحمٰن صاحب۔ ناشر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز 2011ءص 23و69)

ایک اہم بحث جو اس سلسلہ میں کی گئی وہ لفظ ’مسجد ‘ کے استعمال کے بارے میں تھی۔ جنرل ضیاء صاحب کے آرڈیننس میں اس بات پر پابندی لگائی گئی تھی کہ احمدی اپنی مساجد کے لئے لفظ ’مسجد‘ استعمال کر سکیں۔ جماعتِ احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ نکتہ اُٹھایا جاتا تھا کہ مسجد شعائر ِاسلامی میں سے ایک ہے اور اس کا استعمال مسلمانوں سے مخصوص ہے۔ چونکہ ہم بزعمِ خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے چکے ہیں، اس لئے اُن کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی عبادتگاہ کے لئے لفظ ’مسجد‘ استعمال کریں۔ کیونکہ یہ معاملہ زیر ِبحث نہیں تھا اس لئے وفاقی شرعی عدالت میں مکرم مجیب الرحمٰن صاحب نے اس بحث کو نہیں چھیڑا کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ہےاور اس موضوع پر درج ذیل بنیادی سوالات اُٹھائے:

1۔ کیا کوئی ایسا شخص جو قرآنِ کریم کے نظام حیات کو اپنا لے۔ اس سے قرآنی اصطلاحات چھینی جا سکتی ہیں؟
2۔جب کوئی لفظ لغوی اور اصطلاحی معنوں میں ساتھ ساتھ استعمال ہو رہا ہو تو کیا اس کے استعمال پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟
3۔کیا مسجد کا لفظ خالصتاََ اصطلاحی طور پرمسلم معابد کے لئے مخصوص ہے یا اس میں کوئی استثناء بھی ہے؟ اور اگر کوئی مستثنیات قرآن و حدیث میں ملتی ہیں تو اس کا ماحصل کیا ہے؟
4۔ لغوی طور پر مسجد کا لفظ کن معابد کے لئے استعمال ہوا ہے؟

اس موقع پر عدالت میں بہت جامع اور علمی بحث پیش کی گئی۔ اس کی تفصیل تو کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ نکتہ تھا کہ خود قرآنِ کریم میں ’مسجد ‘کا لفظ اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان کی عبادتگاہ کے لئے استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل2:)

پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔ یقیناََ وہ بہت سننے والا اور بہت گہری نظر رکھنے والا ہے۔

جس وقت یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی، اُس وقت بیت المقدس میں مسلمانوں کی کوئی مسجد موجود نہیں تھی۔ اُس وقت بیت المقدس میں یہودیوں کا معبد موجود تھا۔ اور اس معبد کے لئے قرآن ِکریم میں ’مسجد‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

پھر سورہ کہف میں بیان کیا گیا ہے:

إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا۔ رَبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوْا عَلٰى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا (الكهف22:)

ترجمہ: جب وہ آپس میں بحث کر رہے تھے تو ان میں سے بعض نے کہا ان پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کرو۔ ان کا ربّ ان کے بارہ میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اُن لوگوں نے جو اپنے فیصلہ میں غالب آگئے کہا ہم تو یقیناََ ان پر ایک مسجد تعمیر کریں گے۔

یہ آیت اصحابِ کہف کے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ اسلام سے کافی پہلے کا ہے۔ اور ان لوگوں کی عبادتگاہ کے لئے قرآنِ کریم میں’مسجد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

احادیث ِنبویہ ﷺسے دلائل

پھر عدالت کے سامنے یہ تجزیہ پیش کیا گیا کہ کیا حدیث میں ’مسجد ‘کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادتگاہ کے لئے استعمال ہوا ہے یا دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کو بھی ’مسجد‘ کے نام سے موسوم کیا گیاہے؟ اس ضمن میں صحیح بخاری کی حدیث ہے:

’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے ایک کنیسہ کاذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ اس میں تصویریں تھیں۔ انہوں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان کا یہ حال تھا کہ ان کا کوئی صالح شخص فوت ہو جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی تصویریں بنا دیتے۔ یہ لوگ خدا کے نزدیک قیامت کے دن بد ترین مخلوق ہیں۔‘‘

(صحیح بخاری ۔ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجد۔کتاب الصلوۃ)

اس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود اور نصاریٰ کے معابد کے لئے ’مسجد ‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے باوجود اس کے کہ ان کے مذکورہ فعل کی مذمت کی جارہی ہے۔ اور صحیح مسلم میں یہ مضمون بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا حدیث صحیح مسلم کی ’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ‘ کے ’باب النہی عن بناء المساجد علی القبور واتّخاذ الصّور فیھا و النّھی عن اتّخاذ القبور مساجدا‘ میں بھی بیان کی گئی ہے۔

صحیح مسلم کے اس باب کی بعض اور احادیث ملاحظہ ہوں:

’’حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری میں جس سے آپؐ اُٹھ نہیں سکے فرمایا اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ وہ فرماتی تھیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کی قبر کو باہر کھلی جگہ بنا دیا جاتا مگر اس بات کا خدشہ ہوا کہ اسے مسجد نہ بنا لیا جائے۔‘‘

اس حدیث میں بھی یہود و نصاریٰ کی عبادتگاہ کے لئے ’مسجد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ اس طرح مسجد بنانے میں شرک کا پہلو پایا جاتا تھا۔

پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

ٍ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنالیا۔‘‘

پھر حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’سنو جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو مساجد بنا لیتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو مساجد نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے تاکیداََ منع کرتا ہوں۔‘‘

(صحیح مسلم۔ کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ۔ باب النہی عن بناء المساجد علی القبور واتّخاذ الصّور فیھا و النّھی عن اتّخاذ القبور مساجد)

ان حوالوں سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ قرآنِ کریم میں اور احادیث میں لفظ ’مسجد ‘صرف مسلمانوں کی عبادتگاہ کے لئے نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جب قرآن و حدیث میں باقی مذاہب کی عبادتگاہوں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے تو پھر کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر یہ پابندی لگائے کہ اس لفظ کو غیر مسلم یا جن کو ہم نے بزعمِ خود غیر مسلم قرار دیا ہے اپنی عبادتگاہ کے لئے نہیں استعمال کر سکتے۔ اسی طرح عربی لغت ’منجد ‘میں لفظ ’مسجد ‘کا مطلب سجدہ گاہ اور عبادت کی جگہ کے بیان ہوئے ہیں۔

عدالتی معاون کے نظریات

جب عدالت میں اس موضوع پر بحث ہو رہی تھی تو مورخہ 22جولائی 1984ء کو قاضی مجیب صاحب صدر شعبہ اسلامیات پشاور یونیورسٹی نے بطور عدالتی معاون اپنے دلائل پیش کئے۔ ان دلائل میں لفظ ’مسجد ‘کے استعمال کے بارے میں بھی دلائل شامل تھے۔ انہوں نے عدالت کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا کہ ’مسجد ‘کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اور اس کا مطلب صرف عبادت گاہ سمجھنا درست نہیں ہے۔ انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ قرآن ِ کریم میں لفظ ’مسجد ‘مختلف مذاہب کے معابد کے طور پر نہیں بلکہ اُن عبادتگاہوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں موجود تھیں اور مختلف انبیاء کے مراکز کے طور پر قائم کی گئی تھیں۔ [سورۃ کہف کی جس آیت کا حوالہ درج کیا گیاہے، اس سے یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ اصحابِ کہف نبی نہیں تھے۔ اسی طرح جن احادیث کا حوالہ درج کیا گیا ہے، ان سے بھی اس نظریہ کی تردید ہوتی ہے۔] اس پر عدالت کے چیف جسٹس جسٹس آفتاب نے کہا یعنی ایسے الفاظ آئے ہیں کہ سابق انبیاء کی عبادتگاہوں کے لئے لفظ مسجد استعمال کیا گیا ہے۔کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان تھے۔ اس پر قاضی مجیب صاحب نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ سورۃ الحج کی آیت 41 میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اور اس کی تائید میں جلال الدین محلی اور جلال الدین سیوطی کی تفسیر ’جلالین‘ کا حوالہ پیش کیا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس آیتِ کریمہ کا متن درج کرنا ضروری ہے۔

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلاَّ أَنْ يَقُولُوْا رَبُّنَا اللّهُ۔ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنصُرُهٗ۔ إِنَّ اللَهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (الحج40:)

ترجمہ: (یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے نا حق نکالا گیا محض اس بنا کر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کردئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے۔

اس دلیل کا لُبِّ لباب یہ تھا کہ اس آیت میں عیسائیوں اور یہود کی عبادتگاہ کے لئے ’مسجد ‘کے علاوہ دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور تفسیر ِ جلالین کا حوالہ دیا کہ اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :’بِيَعٌ‘ سے مراد نصاریٰ کی خانقاہیں اور عبادت گاہیں ہیں اور ’صَلَوَاتٌ‘سے مراد یہود کے معابد ہیں۔ اس کے بعد قاضی مجیب صاحب نے تفسیر مظہری کا حوالہ پیش کیا کہ ’مساجد ‘سے مراد مسلمانوں کی مساجد ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان دونوں تفاسیر میں بھی سورہ کہف کی آیت 22 کی تفسیر کرتے ہوئے اصحاب ِکہف کی یاد میں بننے والی عمارت کو ’مسجد‘ ہی کہا گیا ہے اگرچہ یہ واقعہ ظہورِ اسلام سے قبل کا ہے۔ قاضی مجیب صاحب کی دلیل میں نقص یہ تھا کہ مکرم مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ صاحب اور دیگر Petitioners نے یہ دعویٰ نہیں پیش کیا تھا کہ یہود و نصاریٰ کے معابد کے لئے ہمیشہ ’مسجد ‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی تھی کہ قرآن و حدیث میں ان مذاہب کی عبادت گاہوں کے لئے ’مسجد‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اور احادیث سے ثابت ہے کہ اپنی مبارک زندگی کے آخری دنوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مذاہب کی عبادتگاہوں کے لئے ’مسجد ‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس طرح قرآن و حدیث کی رو سے یہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو ’مسجد ‘کے نام سے نہیں پکارا جاسکتا۔

قاضی مجیب صاحب نے 23 جولائی کو ان دلائل سے دفاع کے لئے یہ مؤقف اپنایا کہ اسلامی اصطلاحات تین اقسام کی ہیں۔ عرفِ عام، عرفِ خاص اور عرفِ شرعی۔ اور بعض مواقع پر اسلامی اصطلاحات عام معنی سے ہٹ کر خاص معنوں میں محدود کر دی جاتی ہیں۔ مثلاً صلوٰۃ کا مطلب دعا ہے مگر اسے صرف نماز کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ اس قسم کی اصطلاحوں کے شرعی مفہوم کو عرفِ عام کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا انہوں نے عدالت کے سامنے اس مؤقف کا اظہار کیا کہ ’مسجد ‘کا لفظ اسلام میں جو اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس کے خلاف اسے کہیں اور استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

جماعتِ احمدیہ کی طرف سے قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ سے دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ اور ان میں سے چند حوالے درج کئے گئے ہیں۔ قرآنِ کریم کے دلائل کے جواب میں انہوں نے جو دلیل پیش کی اس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے اس بات کا کیا جواب دیا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کے مطابق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہود اور نصاریٰ کی عباد تگاہوں کے لئے ’مسجد‘ کا لفظ استعمال فرمایا تھا۔ چنانچہ قاضی مجیب صاحب نے بیسوی صدی کے ایک مصری عالم شیخ مراغی کی کتاب ’الزواج والطلاق فی جمیع الادیان‘ کا حوالہ دیا کہ اگرچہ دیگر ادیان کے فقہ اور فقہ اسلامی میں بعض الفاظ میں اتحاد ہے لیکن اس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دونوں الفاظ ایک ہیں۔

ان کی طرف سے پیش کی جانے والی دوسری دلیل کتاب ’اکفار الملحدین‘ سے تھی۔ ویسے تو کتاب کا نام ہی واضح کر دیتا ہے کہ اس کتاب کا مقصد کفر کے فتاویٰ کی ترویج تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ اسلام کے اساسی ارکان کی طرح اسلام کے دیگر احکام ہیں۔ ان کے مخصوص معانی ہیں۔ جو ان کو ان کے اصل معنوں سے نکال کر دوسرے معنوں میں استعمال کرے گا ملحد ہوگا۔ اب ’اکفار الملحدین ‘کے مصنف کا کچھ تعارف کروانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ کتاب انور شاہ کشمیری صاحب نے لکھی تھی۔ موصوف دیوبند میں مدرس تھے اور بعد میں صدر مدرس بھی مقرر ہوئے۔ ان کا سنِ وفات 1933ء ہے۔ اس کتاب کے میں موجود چند اور باتیں یہاں درج کردینا مناسب ہوگا تاکہ قارئین پر واضح ہو جائے کہ مصنف کتاب ھٰذا نے کسی کو بھی کافر قرار دینےکے لئے کس قدر ’سہولت‘ بہم پہنچائی ہے۔ انہوں نے مختلف کتب سے کافر قرار دینے کے عمل کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ چنانچہ اس کتاب میں لکھا ہے جو خضر کو نبی نہیں بلکہ ولی جانے وہ کافر ہے، ضروریاتِ دین کا منکر واجب القتل ہے، اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا حکم اہل ِ قبلہ حکمرانوں کے لئے ہے ، ضروریات ِ دین میں تاویل کرنا بھی کفر ہے،رافضی ، غالی شیعہ کافر ہیں، رافضی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبوّت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔
[اکفار الملحدین مصنفہ انور شاہ کشمیری صاحب ، مترجم محمد ادریس میرٹھی صاحب ، ناشرالبرہان پبلشرز اکتوبر 2001ء ص 77،91، 176،223،]

احمدیوں کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بطور دلیل پیش کئے گئے تھے اور قاضی مجیب صاحب اپنی طرف سے یہ برہانِ قاطع لے کر آئے کہ نہیں یہ صحیح نہیں کیونکہ نعوذ باللہ اسلام کی صحیح تعلیمات بانیٔ اسلام نہیں شیخ مراغی صاحب اور انور شاہ کشمیری صاحب ہی دے سکتے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ میں اس پہلو پر بحث

اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ شرعی عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس پہلو پر کیا روشنی ڈالی تھی ۔انہوں نے اس ضمن میں پہلا نکتہ یہ اُٹھایا تھا کہ احمدی وکیل مجیب الرحمٰن ایڈووکیٹ صاحب نے یہ نکتہ اُ ٹھایا کہ قرآ نِ کریم میں ‘مسجد کا لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گا ہ کے لئے استعمال نہیں ہوا تو ہم نے یہ سوال کیا کہ کیا گذشتہ چودہ سو سال میں غیر مسلموں کی عبادت گاہ کے لئے کہیں لفظ مسجد استعمال کیا گیا ہے؟ اس کا جواب انہوں نے پہلے نفی میں دیا پھر ایک تصویر مہیا کی جس میں کراچی میں یہودیوں کی عبادتگاہ پر مسجد بنی اسرائیل لکھا ہوا تھا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عدالت میں یہ ثابت کر دیا گیا تھا کہ قرآ ن ِ کریم میں یہ لفظ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال نہیں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہود و نصاریٰ کی عبادت گاہوں کے لئے لفظ مسجد استعمال کیا ہے تو پھر کوئی اور نظیر ڈھونڈنے کی ضرورت کیا پیش آ ئی تھی؟ پھر اس عدالتی فیصلہ میں لکھا ہے کہ :

The question whether places of worship of persons other than those who are followers of the Holy Prophet have been called in the Quran by the name of masjid is besides the point.

ترجمہ: یہ سوال کہ کیا قرآن ِ کریم میں لفظ ’مسجد‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے علاوہ کسی اور کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے؟ غیرمتعلقہ سوال ہے۔

اس جملے بھی عجیب منطق بیان کی گئی ہے ۔یعنی شرعی عدالت کا کام یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرے اور وہ اپنے فیصلے میں تحریر کر رہی ہے کہ اس موضوع پر آیات پیش کرنا غیر متعلقہ ہے! ان کا تو فرض تھا کہ سب سے زیادہ توجہ قرآن ِ کریم کی آیات کی طرف کرتے۔اس عجیب و غریب منطق کی توجیہہ اس فیصلہ میں یہ لکھی ہے :

Islam has been the divine religion from the very beginning, i.e. starting with Adam. If the word masjid has been used for the places of worship of those who belonged to the Ummah of some other Prophet and followed the then prevailing religion of Islam, it cannot be concluded that the name masjid was the name given to the places of worship of non-Muslims too.

ترجمہ: ابتدا سے یعنی حضرت آدم کے زمانے سے ہی اسلام آسمانی مذہب ہے۔ اگرمسجد کا لفظ ان لوگوں کی عبادت گاہوں کے لئے استعمال کیا گیاتھا جو کہ کسی اور نبی کی امت سے وابستہ تھے اور اُس وقت کے رائج اسلام کی پیروی کر رہے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غیر مسلموں کی عبادت گاہ کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

اس تحریر کا اصل میں کیا مطلب تھا اس پر تو شرعی عدالت کے جج صاحبان ہی روشنی ڈال سکتےہیں!
بہر حال پہلی بات تو یہ کہ اس کا زیر ِ بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ’عدالتِ عالیہ‘ کے مطابق جو لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں شامل ہوئے یعنی یہود وہ تو مسلمان کہلا سکتے ہیں ۔لیکن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے اور آپؐ کی لائی ہوئی کتاب کو ہر معاملہ میں آخری فیصلہ سمجھتے ہیں وہ مسلمان نہیں کہلا سکتے!

[اُس وقت یہ پابندی لگا دی گئی تھی کہ عدالت میں ہونے والی بحث کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہو۔ اور جماعت ِ احمدیہ کو بحث کی ریکارڈنگ بھی مہیا نہیں کی گئی تھی۔ اس لئے بحث کی تفصیلات مکرم یوسف سلیم شاہد صاحب اور مکرم یوسف سہیل شوق صاحب نے نوٹ کی تھیں ۔ اور اس مضمون کے لئے اسی سے استفادہ کیا گیا ہے۔]

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button