سیرت النبی ﷺ

اسماءُ النَّبیﷺ فی القرآن (قسط نمبر 3)

(حافظ محمد نصراللہ جان۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

9۔اَلْاُمِّی ﷺ:

سید الانبیاء ، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں ’’اَلْاُمِّی‘‘ کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔

سورة الاعراف آیت 159میں اس طرح آپؐ کا ذکر مبارک آیا:

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهٖ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهٗ أُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۔

ترجمہ: جواس رسول نبى اُمّى پر اىمان لاتے ہىں جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجىل مىں لکھا ہوا پاتے ہىں وہ ان کو نىک باتوں کا حکم دىتا ہے اور انہىں بُرى باتوں سے روکتا ہے اور اُن کے لئے پاکىزہ چىزىں حلال قرار دىتا ہے اور اُن پر ناپاک چىزىں حرام قرار دىتا ہے اور اُن سے اُن کے بوجھ اور طوق اتار دىتا ہے جو اُن پر پڑے ہوئے تھے پس وہ لوگ جو اس پر اىمان لاتے ہىں اور اسے عزت دىتے ہىں اور اس کى مدد کرتے ہىں اور اس نور کى پىروى کرتے ہىں جو اس کے ساتھ اتارا گىا ہے ىہى وہ لوگ ہىں جو کامىاب ہونے والے ہىں ۔

اور اسی سورة کی آیت 160میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح یاد فرمایا:

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهٗ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهٖ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمة:تُو کہہ دے کہ اے انسانو! ىقىناً مىں تم سب کى طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے مىں آسمانوں اور زمىن کى بادشاہى ہے اس کے سوا اور کوئى معبود نہىں وہ زندہ بھى کرتا ہے اور مارتا بھى ہے پس اىمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبى اُمّى پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر اىمان رکھتا ہے اور اُسى کى پىروى کرو تاکہ تم ہداىت پا جاؤ ۔

اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو حصول علم کے دنیاوی ذرائع سے استفادہ کے لحاظ سے تو ’امی‘ قرار دیتا ہے لیکن اپنی کتاب مجید میں واضح فرماتا ہے وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (النساء 114:)ترجمة: اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتارے ہىں اور تجھے وہ کچھ سکھاىا ہے جو تو نہىں جانتا تھا اور تجھ پر اللہ کا فضل بہت بڑا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو نہ صرف کتاب عطا فرمائی بلکہ حکمت بھی عطا فرمائی۔ آپ ﷺکو وہ علوم سکھائے جو آپﷺ پہلے نہیں جانتے تھے۔دنیا میں کسی بھی شخص پر ایسا فضل نہیں نازل ہوا۔

’’اگرقرآن کریم آپ ﷺ کے بارہ میں فرماتا ہے وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ(النساء 114:) تو ہمیں آپ ﷺ کی زندگی میں یہ صداقت اس طرح چمکتی ہوئی نظر آتی ہے کہ آپ کے عاشق صادق علیہ السلام بے ساختہ کہتے ہیں امی و درعلم و حکمت بے نظیر۔ آپ کو ماضی کے انبیاء اور امتوں کا علم بھی دیا جاتا ہے سارے عالم کی رونمائی کے لئے زندگی کی ہرشاخ کے بارہ میں آپ کو علوم سے پر کیا جاتا ہے اور آج تک ہونے والے آئندہ کے واقعات اور غیب کی خبریں بھی آپ کو بتائی جاتی ہیں اور ہستی باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ کا جو علم آپ کو عطا ہوا اس کے متعلق آپ خود فرماتے ہیں اَنَااَعْلَمُکُم بِاللّہِ‘‘(کان خلقہ القرآن جلد اول صفحہ48)

خالق کائنات کاآپ ﷺ کو تمام جہانوں کے علوم ظاہر ی وباطنی عطاکرنے کا بیان آپ ﷺ اس طرح فرماتے ہیں:

’’میں نے اپنے رب عز وجل کو خوبصورت ترین شکل میں دیکھا اوراس نےمجھ سے پوچھا کہ ملأِ اعلیٰ کس بارہ میں بات کررہے ہیں۔میں نے کہا تو ہی بہتر جانتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھی اور میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینہ میں محسوس کی اور جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے مجھے اس کا علم ہوگیا۔(دارمی، ترمذی)

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جن کی خدمت کے لئے سارے علوم اور ان علوم کی ترقیات وقف ہیں، جن کی آمد سے اس وقت کے علوم ایک نئے دور میں داخل ہوئے جس کی ایک جہت قلم اور کاغذ کے دور کا باقاعدہ آغاز تھا، بلکہ لاتعداد نئے علوم کی ابتدا ہوئی۔ آپ ﷺ کو ’’امی ‘‘کا لقب دینے کی حکمت قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمائی ہے:

مَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (العنْكبوت 49:)

ترجمة: اور تُو اس سے پہلے کوئى کتاب نہىں پڑھتا تھا اور نہ تُو اپنے داہنے ہاتھ سے اُسے لکھتا تھا اگر اىسا ہوتا تو جھٹلانے والے (تىرے بارہ مىں) ضرور شک مىں پڑ جاتے۔

یعنی قرآن کریم جیسی عظیم الشان علوم سےپُر عالی مرتبہ کتاب، معجزات اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے صادر ہونے والے معارف اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سب خالق کائنات کی طرف سے ہے۔ اس میں کسی انسانی علم کی ملونی نہیں ہے۔ کوئی بھی انسان خواہ کس قدر بھی عالم و فاضل ہو اس کے مقابل کلا م اور تعلیم نہیں لاسکتا۔ آپﷺ کے عاشق صادق علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

’’پھر جب ہم ایک طرف ایسے ایسے معجزات قرآن شریف میں پاتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امیت کو دیکھتے ہیں او راس بات کو اپنے تصور میں لاتے ہیں کہ آپؐ نے ایک حرف بھی کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا اور نہ آپؐ نے طبعی اور فلسفہ سے کچھ حاصل کیا تھا بلکہ آپ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے کہ جو سب کی سب امی اور ناخواندہ تھی اور ایک وحشیانہ زندگی رکھتی تھی اور باایں ہمہ آپ نے والدین کی تربیت کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا۔ تو ان سب باتوں کو مجموعی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر ایک ایسی چمکتی ہوئی بصیرت ہمیں ملتی ہے اور اس کا علمی معجزاہ ہونا ایسے یقین کے ساتھ ہمارے دل میں بھر جاتا ہے کہ گویا ہم اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کودیکھ لیتے ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ229)

10۔ مُذَکِّرﷺ:

اللہ تعالیٰ نے اس نام سے آپ ﷺ کو قرآن کریم میں ایک مرتبہ سورة الغاشیہ میں یاد فرمایا ہے۔ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ (الغاشيہ 22:)۔مذکر اسم فاعل کا صیغہ ہے جس میں مداومت پائی جاتی ہے۔’’ ذکر ‘‘ عربی زبان میں نصیحت کو بھی کہتے ہیں اور عزت و شرف کے سامان کو بھی کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے مذکر کے معنی نصیحت کرنے والے اورعزت و شرف کے سامان بہم پہنچانے والے کے بھی ہیں۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ نے نصیحت کے تمام سامان اختیار فرمائے۔ کھانے کی دعوت پہ ، گھر کو جاکر، محفلوں، میلوں، بازاروںمیں جا جاکر تبلیغ کی۔ تکالیف اٹھائیں ، صعوبتیں برداشت کیں۔ خاک و خون میں لت پت بھی ہوئے لیکن نصیحت نہ چھوڑی۔اسی بے چینی کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء 4:)کہ (اے نبی ﷺ) کىا تو اپنى جان کو اس لئے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہىں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم اور اسلام جیسی نعمت عظمیٰ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ بنی نو ع انسان کے لئے بھیجی۔ ایسی نعمت جو خَیْرٌمِمَّا یَجْمَعُوْنَ (ان سب چیزوں سے بہتر جو وہ جمع کرتے ہیں) ۔جس کی پیروی اور اطاعت اُمیوں کو سردار اور بادشاہ بنانے والی ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مبارک تو تمام بنی نوع کو اس الٰہی شجر کے سایہ میں لانے کو بے تاب تھا۔ لیکن خالق کائنات ان لوگوں کے بارہ میں جن کےدلوں پر پردے تھے فرماتا ہے إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص 57:) ىقىناً تُو جسے چاہے ہداىت نہىں دے سکتا لىکن اللہ جسے چاہے ہداىت دے سکتا ہے اور وہ ہداىت پانے کے اہل لوگوں کو خوب جانتا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ خطبہ جمعہ فرمودہ 20 ؍جولائی 1984ءکو فرماتے ہیں:

’’چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا: فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ – لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُسَيْطِرٍ (الغاشية 22-23)کہ اے محمد ﷺ سب دنیا کا سردار ہے تو لیکن تجھے داروغہ نہیں بنایا صرف نصیحت کرنے والا بنایا ہے نہ زبردستی تو ان کو تبدیل کرے گا نہ تیری جواب طلبی کی جائے گی کہ کیوں تو نے زبردستی نہیں کی ۔مصیطر کے دونوں معنی ہیں۔ ‘‘

آپ ﷺ کی نصیحت کرنے کا انداز بھی بہت پُرحکمت تھا۔ بعض مرتبہ مومنوں کو یہ خطرہ ہوتا تھا کہ کوئی نیک کام ان کے لئے بوجھ کا باعث نہ بن رہا ہو ۔ ایسے رنگ میں دانائی کے ساتھ نصیحت فرماتے کہ اگر کچھ ملال بھی ہوتا تو بشاشت میں بدل جاتا۔ حضور ﷺ کی ہنگامی فوری کاموں کی مصروفیت کی وجہ سےنماز میں کچھ تاخیرہوگئی اور عورتوں بچوں کو نیند آنےلگی تو جب حضورؐ نے نمازپڑھی تو فرمایا ذرا ٹھہرو اور خطبہ ارشاد فرمایا جس کامضمون تھا کہ دیکھو کرہ ٔ ارض پر ایک متنفس بھی نہیں جواس وقت عشاء کی نماز پڑھ رہا ہو۔ جنہوں نےنماز پڑھنی تھی وہ پڑھ کر سوگئےساری سطح زمین پر تم لوگ وہ خوش قسمت ہو جو اس وقت اللہ کے ذکر میں مصروف ہیں۔پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ جب گھر گئے تو بشاشت سے انکے دل بھرے ہوئے تھے۔

ایک صحابی عمر و بن تغلب کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے پاس کچھ مال آیا۔ حضور ﷺ نے کچھ لوگوں کو اس مال میں سے دیا اور کچھ لوگوں کو اس میں سے حصہ نہ ملا۔ جن میں سےبعض کو کچھ ملال پیدا ہوا۔ حضور ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایاکہ خدا کی قسم کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا اورجس کو میں چھوڑ رہا ہوں اس سےمجھ کو اس کے مقابلہ میں جس کو دیتا ہوں زیادہ پیار ہوتاہے لیکن بعض لوگوں کو دیتا ہوں کیونکہ ان کے دلوں میں کچھ بے صبری اور بے چینی پاتا ہوں۔ اور جن کو میں نہیں دیتا ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر مجھے اعتماد ہوتاہے اور ان لوگوں میں سے عمر و بن تغلب بھی ہیں۔ عمر و بن تغلب کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اس فقرہ سے مجھے سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی بڑھ کر خوشی ہوئی۔

( کان خلقہ القرآن حصہ اول صفحہ 118)

آپ ﷺ کےکلام ، نصیحت میں معجزانہ تاثیر تھی۔ حضرت مسیح امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کرلو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی سےتو ہمارے نبی ﷺ کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہےکیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپ ﷺ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئےہوا کہ آپ کے قول و فعل میں پوری مطابقت تھی‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 42-43)

آپ ﷺ مخاطَب کا معیار، اس کی ذہنی سمجھ بوجھ، تقویٰ کو دیکھتے ہوئے نصیحت فرماتے تھے۔ کسی شخص نے جہاد کی اجازت مانگی تو میدان کارزا ر میں جانے کی اجازت فرمائی۔ کسی نے اجازت مانگی تو فرمایا کہ ماں کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔


’’ اگر قرآن کریم کہتا ہے فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ -وَإِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ (الزخرف 44-45) کہ اس کلام کو جو آپ پر وحی کیاجارہا ہے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو کہ وہ آپ کے لئے اور آپ کی قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ذریعہ وہ قوم جو دنیا کی سب سے ذلیل قوم سمجھی جاتی تھی عزت و شرف کے بلند معیار پر پہنچ گئی اور تمام متمدن دنیا کی استاد بن گئی۔

(کان خلقہ القرآن حصہ دوم صفحہ56 )

11۔ اَلْمُزَمِّلُﷺ:

سورة المزمل کے آغاز میں اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کو يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (اے اچھى طرح چادر مىں لپٹنے والے!)کہہ کر پکارتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ لفظ ’’مزمل ‘‘ کی لغوی تفصیل اس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’جب ہم عربی لغت دیکھتے ہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تین حروف ز۔م۔ل میں جمع کرنے یا اٹھانے کے معنے پائے جاتے ہیں اور کپڑے سے انہیں تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ قبیلہ کو زملہ کہتے ہیں اور زمل القوم بھی مستعمل ہوتا ہے۔ تو ان الفاظ میں اٹھانے ، لینے، کسی کے پیچھے چل پڑنے اور کسی چیز کو جمع کر لینے کے معنے پائے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ان کا کوئی ایسا مادہ نہیں جس میں کپڑا اوڑھنے کا مفہوم پایا جاتا ہو۔ کپڑا اوڑھنے کے معنی اتحاد اور اشتراک کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کپڑا جسم کے ساتھ لپیٹا جاتا ہے۔ مگر دراصل مزّمل کے معنی ہیں جس نے کچھ اکٹھا کرنا اور جمع کرنا ہو۔ اور یہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے۔ کہ اے وہ شخص جو قوموں کو جمع کرے گا ۔ اور گرے ہوؤں کو اُٹھائے گا گویا اصل معنی مزّمل کے یہی ہیں۔ کہ اے قوموں کے جمع کرنے والے اور مختلف نسلوں کو اکٹھا کرنے والے۔(درس القران فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مورخہ 18 اپریل 1928ء، مطبوعہ الفضل قادیان مورخہ15 مئی 1928ء)

آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد اور آپ ﷺ کی کامیابی کی پیشگوئی اس نام نامی میں کس خوبصورتی سے فرمادی گئی ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کے متعلق کلام الٰہی ظھر الفساد فی البر و البحر کا نقشہ کھینچتی ہے۔ یہ فساد صرف ظاہری اور مادی دنیا میں برپا نہ تھا بلکہ روحانی اور مذہبی عالم بھی اپنی رونقیں کھو بیٹھا تھا۔ امت موسویہ مغضوب علیھم اور مسیحی الضالین ٹھہر چکے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر مذاہب یعنی ہندو مت، بدھ مت ، آتش پرست وغیرہ تو اپنی اصل سے اس قدر دور جاچکے تھے کہ اصل تعلیم کے نشانات بھی معدوم تھے۔

آپؐ کی آمد کے چند سالوں میں ہی ایسا تزکیہ دیکھنے میں آیا کہ اس الٰہی آواز پر لبیک کہنے والوں کو گناہوں سے نفرت ہوگئی۔ جن بیٹیوں کی پیدائش پر بے عزتی محسوس کرتے ہوئے چہرے سیاہ ہوجاتے تھے، ان کو ایسے حقوق دیئے گئے کہ جنگوں میں ، سفروں میں، مشوروں میں حج میں ، فتوحات وغیرہ میں ساتھ ساتھ رہیں۔ پھر کہا گیا کہ آدھا دین عائشہ ( رضی اللہ عنھا)سے سیکھو۔جس طرح پانچ اوقات میں مے نوشی ہوتی تھی، اب نماز ادا ہونے لگی۔ راتوں کو بے ہودہ مجالس میں بیٹھنے والے تہجد کے وقت خد ا کے حضور سجدہ ریز ہونے لگے۔ فحش شاعری کہنے اور سننے والے کلام الٰہی کے عاشق ہوگئے۔ سورة البقرہ کو سن کر شعر وشاعری سے ہی توبہ کرنے کی مثالیں بھی سامنےآئیں۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:

’’وہ رات جو عرب میں اس وقت جاری ہوئی جب آنحضرتﷺ کا زمانہ تھا اس میں یہ ساری کیفیات اپنی انتہاکو پہنچی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم 42:)جہاں تک جرائم کا اور خد ا تعالیٰ سے دوری کا تعلق ہے خشکی بھی گندی ہوگئی تھی اور تری بھی گندی ہوگئی یعنی مذاہب کی دنیا بھی تباہ ہوچکی تھی اور غیر مذہبی دنیا بھی تباہ ہو چکی تھی اور ایک طرف جرائم مطالبہ کررہے تھے کہ خدا تعالیٰ اس دوسری تقدیر کو ظاہر کرے اور جرائم جو مطالبہ کرتے ہیں نئی تقدیر کا اس میں دونوں باتیں آجاتی ہیں ۔ اول یہ کہ جرائم زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اب بہت ہو چکی ہے اب وقت بدل دے ، اب مزید جرائم سے دنیا تباہ ہو جائے گی اور دوسری طرف جرائم زبان حال سے سزا کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں اور اس کے مقابل پر کچھ لوگ گریہ وزاری میں انتہا کردیتے ہیں خداکے حضور کہ اے خدا صبح کا منہ دکھا۔ اس وقت آنحضرت ﷺ نے جو دعائیں کیں وہی دعائیں تھیں، جو خدا کے فضل کو کھینچ لانے کا موجب بنیں اور اس کے نتیجہ میں پھر شریعت کا سورج طلوع ہوا ہے۔

( خطبہ جمعہ 22؍ جون 1984ء)

حضرت امام الزمان علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’جو لوگ دل و جان سے تیرے یا رسول اللہ غلام بن جائیں گے ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائیگا کہ جو ان کو غیراللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اس دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے۔ اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے انا الحاشر الذی یحشر الناس علی قدمی یعنی میں وہ مردوں کا اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں۔ واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مرچکی تھی اور خداتعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء ﷺ کو بھیج کر نئے سرے سے دنیا کو زندہ کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا۔ ‘‘(الحدید18:)

( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 193-194)

حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نہ صرف لوگوں کو نئی زندگی دینے والے تھے بلکہ قومو ں کو اور تمام اقوام عالم کو زندگی بخشنے والے تھے۔ آپ ﷺ کی نظر مبارک تقدیر بدل دینے والی تھی۔ آپ ﷺ کی قوت قدسیہ نے انہیں موت کے گڑھوں پر سے کھینچ کر زندگی کی راہوں پر گامزن کردیا۔

12۔ المُدَّثّرُﷺ :

سورة المدَثر کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (المدثر 2:) اے کپڑا اوڑھنے والے! کہہ کر مخاطب فرمایا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ درس القرآن الکریم میں بیان فرماتے ہیں:

’’ میرے نزدیک دثار کے معنے لحاف کے ہیں۔ اور لحاف انسان کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ جس طرح اس سے پہلی سورة میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلے الله علیہ و اٰلہ وسلم کو مزّمّل کہہ کر قراٰن کریم کو پیش کیا تھا کہ یہ لوگوں کو تیرے ہاتھ پر جمع کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہاں یہ بتایا ہے۔ کہ دنیا کی حفاظت کا سامان تجھے دیا گیا ہے۔ پس يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ کے یہ معنے ہوئے۔ کہ اے دنیا کی حفاظت کرنے والے۔ دثار ایسے کپڑوں کو کہتے ہیں۔ جو خاص موقعوں پر پہنے جاتے ہیں۔ یعنی جب سخت سردی ہو۔ بارش ہو۔ تو ایسے کپڑے پہنے جاتے ہیں تاکہ سردی سے جسم کی حفاظت ہو۔ پس دثار حفاظت پر دلالت کرتا ہے۔ اور انذار بھی حفاظت سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے معنی ہیں جو تباہی آنے والی ہے۔ اس سے بچ جاؤ۔ رسول کریم صلے الله علیہ و اٰلہ وسلم کے خدا تعالیٰ نے دو کام رکھے ہیں۔ ایک یہ کہ لوگوں کو ایک مقام پر جمع کرنا۔ اور دوسرا یہ کہ لوگوں کی حفاظت کرنا اور فتنہ سے بچانا۔ جمع کرنے اور تعلیم دینے کا کام خدا تعالیٰ نے مزمِّل میں بیان کیا اور حفاظت کرنے کا کام مدثر میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ-قُمْ فَأَنْذِرْ اے مدثر اُٹھ اور دنیاکو ڈرا۔ پھر اس آیت کے یہ معنے بھی کئے جا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلے الله علیہ و اٰلہ وسلم دنیا سے علیحدہ رہنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے متعلق لکھتے ہیں۔ ( مفہوم) کہ میں گوشہ تنہائی میں بیٹھا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ اسی طرح بیٹھا رہوں۔ مگر خدا تعالےٰ نے مجھے مجبور کر کے دنیا میں کھڑا کر دیا۔

پس اس آیت سے مُراد یہ ہے۔ کہ اے وہ جو گوشہ تنہائی میں بیٹھا تھا۔ اس گوشہ سے نکل ۔ اب وقت نہیں ہے کہ تو لحاف اوڑھے رہے۔ یعنی علیحدہ بیٹھا رہے۔

تو مدثر کے معنے لحاف اوڑھنے والے کے ہونگے۔ مگر مجازی معنے یہ لئے جائیں گے۔ کہ گوشہ تنہائی میں رہنے والا۔‘‘(درس القران فرمودہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مورخہ 26 اپریل 1928ء، مطبوعہ الفضل قادیان مورخہ29 مئی 1928ء)

تفسیر صغیر میں ان آیات کے فٹ نوٹ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

’’ … پس آنحضرت ﷺ کی شان کے مطابق یہی معنے ہیں کہ 1۔ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے۔ 2۔اے گھوڑے کے پاس کھڑے ہونے والے کہ حکم ملتے ہی اس پر سوار ہوجائے۔‘‘

سرکار دوجہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا جو بھی لمحہ دیکھیں تو وہ سرکار نہیں خادم کی طرح ہر دم امت کے لئےکوشاں نظر آتے ہیں۔ رات اللہ کے حضور لمبی تہجد جس کی گواہی قرآن کریم إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ (المزمل 21:) کے الفاظ میں دیتا ہے کہ ىقىناً تىرا ربّ جانتا ہے کہ تُو دو تہائى رات کے قرىب ىا اس کا نصف ىا اس کا تىسرا حصہ کھڑا رہتا ہے نىز اُن لوگوں کا اىک گروہ بھى جو تىرے ساتھ ہىں۔

اور دن کی بے انتہا مصروفیات کی گواہی ان الفاظ میں دیتا ہےإِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا (المزمل 8:) ىقىناً تىرے لئے دن کو بہت لمبا کام ہوتا ہے ۔

غار حرا کے گوشہ تنہائی کی عبادتوں سے نکل کر انذار و تبشیر اور اصلاح کے راستے پر چل نکلنا اور پھر اندھیری راتوں کی دعائیں اور دن کی تمام مصروفیات بنی نوع کی بھلائی کے لئے ہی تھیں۔ جگہ جگہ قرآن کریم میں آپ ﷺ سے قوم کی اصلاح کے لئے امور بیان فرمائے گئے۔ کہیں فرمایا کہ قرآن کے ذریعہ کوشش کرتے رہیں۔ کہیں فرمایا کہ قوم کی سخت باتوں کو نظر انداز کردیں۔ کہیں فرمایا کہ اپنے مشن پر ڈٹے رہیں اور ثابت قدمی سے دعو ت و تبلیغ میں لگے رہیں۔ خدا تعالی نے مومنوں کی فتح و نصرت کی پیشگوئیاں بھی کیں۔ دنیا و آخرت کے انعامات کے وعدے بھی کئے۔ مخالفین کی شکست کی یقین دہانی بھی کروائی اور یہ خوشخبریاں ، بشارتیں اور انذاری خبریں کچھ فوری دکھا دیں اور کچھ بعد میں دکھائیں۔ مومنوں کی فتح و نصرت اور مخالفین کی ذلت و شکست کے وعدے تو ہر دور میں پورے ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ان سب امور کا بیان صرف آپ ﷺ کے لئے نہیں تھا بلکہ تاقیامت متبعین کی اصلاح و عمل کے لئے مشعل راہ ہے۔

مکی زندگی جو تکالیف ، اذیتوں اور صعوبتوں سے عبارت ہے، جس میں متبعین کو کوئی دنیاوی فائدہ نظر نہیں آرہا تھا، ہر مسلمان ہونے والا تکالیف اٹھانے کی تیاری کرکے ہی مومنین کی جماعت میں شامل ہوتا تھا، ہم دیکھتے ہیں سینکڑوں صحابہ آپ ﷺ کے گرد جمع ہوگئے۔ یہ سب آپ ﷺ کی دعاؤں اور قوت قدسیہ کے طفیل تھا۔ کوئی بھی دنیاوی شخص مکی دور میں مسلمان ہونے والے صحابہ کے ایمان لانے پر کسی بھی دنیاوی مقاصد کے حصول کی نیت کا الزام نہیں لگا سکتا۔اسی طرح مدنی دَور میں اگرچہ مدینہ کے محدود علاقہ میں حکومت کا قیام عمل میں آیا لیکن کفار مکہ کی ریشہ دوانیاں شہر مدینہ، اس کے اردگرد رہنے والے یہود اور دیگر قبائل عرب سے ہوتے ہوئے اس وقت کی سپر پاور روم تک جاپہنچتی ہیں۔ غزوات بدر سے شروع ہوتے ہوئے احد، خندق اور پھر سپر پاور روم تک تبوک میں جاپہنچتے ہیں۔لیکن ایمان لانے والوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ بدر کے 313 احدمیں 1000 ہوجاتے ہیں۔ خندق میں تقریبا 2500 اور فتح مکہ کے دن دس ہزار قدوسیوں کا لشکر ساتھ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ’’المدثر‘‘ میں آنحضرت ﷺ کو جو پیغام دیا آپ ﷺ نے اس کا حق اد ا کردیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ ﷺ کو گوشہ نشینی سے نکلنے کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’انبیاء کی طبیعت اسی طرح واقع ہوتی ہے کہ وہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے۔ کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے۔ آپؐ عبادت کرنے کے لئے لوگوں سے دور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے۔ یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان اس میں جانے کی جرات نہ کرسکتا تھا۔ آپ ؐ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے نہیں پہنچے گا۔ آپ ؐ تنہائی کو چاہتے تھے ، شہرت کو ہر گز پسند نہیں کرتے تھے مگر خدا کا حکم ہوا يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ-قُمْ فَأَنْذِرْ۔ اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا کہ آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی اب چھوڑ دیں۔

( بدر جلد 3 نمبر 32۔ 24 اگست 1904ء)

آپ ﷺ کی اپنے مشن میں عظیم الشان اور بے نظیر کامیابی کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کرتے ہیں:


’’آنحضر تﷺ کی مبارک اور کامیاب زندگی کی تصویر یہ ہے کہ آپؐ ایک کام کے لئے آئے اور اسے پورا کرکے اس وقت دنیا سے رخصت ہوئے جس طرح بندوبست والے کاغذات پانچ برس میں مرتب کرکے آخری رپورٹ کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ اس دن سے لے کر جب -قُمْ فَأَنْذِرْ کی آواز آئی پھر اذا جاء نصر اللہ اور الیوم الکملت لکم دینکم ۔ کےدن تک نظر کریں تو آپ کی لا نظیر کامیابی کا پتہ ملتا ہے۔ ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ خاص طور پر مامور تھے…۔سچی بات یہی ہے کہ سب نبیوں کی نبوت کی پردہ پوشی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی۔‘‘

( الحکم جلد 6 نمبر 36 مورخہ 24؍ جولائی 1902ء)

تفسیر صغیر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بیان فرمودہ دوسرے معانی’’ اے گھوڑے کے پاس کھڑے ہونے والے کہ حکم ملتے ہی اس پر سوار ہوجائے‘‘ کی نظر سے دیکھیں تو آپ ﷺ کو اللہ کی راہ میں ہمہ وقت تیار پاتے ہیں۔ ایک مرتبہ مدینہ میں رات کے وقت شور کی آواز سنائی دی۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم گھبرا کر گھروں سے نکلے کہ دیکھیں کیا معاملہ ہوا ہے۔وہ ایام بھی سخت خوف کے تھے اور خطرہ تھا کہ دشمن ہی حملہ آور نہ ہوگیا ہو۔ ابھی صحابہ ؓ اپنے گھروں سے باہر ہی کھڑے تھے کہ ایک گھوڑ سوار کودیکھا جو تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ صحابہ ابھی ارادہ ہی کررہے تھے لیکن سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ مدینہ کے اردگرد جائزہ بھی لے چکے تھے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو تسلی دی کہ خوف کی کوئی بات نہیں۔

(صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر۔ باب اذا فزعوا باللیل)

جنگ احزاب کے اعصاب شکن ایام کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنین کو فتح عطا فرمائی۔ آپ ﷺ گھر تشریف لاکر اسلحہ وغیرہ اتار ہی رہےتھے کہ حکم الٰہی بنوقریظہ کی طرف کوچ کرنے کا ہو اجنہوں نے ان ایام میں بدعہدی کی تھی۔ آپ ﷺ فوری طور پر تیار ہوئے اور صحابہ کو حکم دیا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں ادا کی جائیگی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی ﷺ من الاحزاب۔۔) یہ فوری کوچ بھی اسم مبارک ’’ مدثر‘‘کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

بنو بکر اور بنو خزاعہ کی لڑائی کے بعد جب حدیبیہ کا معاہدہ قریش مکہ کی جانب سے ختم ہوگیا تو آپﷺ نے انتہائی رازداری کےساتھ تیاری کی اور مکہ کی طرف تیز ترین سفر کیا۔ یہانتک کہ اہل مکہ کو لشکر اسلام کی خبر اس وقت ہوئی جب یہ لشکر مکہ کےباہر خیمہ زن ہوگیا اور اگلی صبح مکہ میں داخل ہوکر فتح مبین حاصل ہوئی۔

…………(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button