رنگ و نسل کا فرق کس نے ختم کیا؟

(طارق حیات مربی سلسلہ شعبہ آرکائیو)

انسانی معاشروں میں رنگ ونسل کی آپسی بحث بہت ہی پرانی ہے۔جو عصر جدید میں بہت ہی گنجلک ہوتی جارہی ہے۔معروف برطانوی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ نے پاکستانی اخبارDawn کے نمائندہ قاسم معینی سے اپنے انٹرویو میں اسی مسئلہ پر تفصیلی بات کی اور بتایاکہ پوری دنیا میں انسانوں کی باہمی تفریق کا مرض اب ملک اورقومیت کے نام پر بہت زیادہ گہرا ہوتا جارہا ہے۔

(Dawn. EOS. Sunday, 7 October 2018 Page 5)

تاریخ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئی خطہ، یا رنگ، یا نسل یا قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ خود کو برتر سمجھ بیٹھتے ہیں اور اغیار پر ظلم و زیادتی کو جائز تصور کرلیتے ہیں۔ اس مکروہ احساس سے جہاں معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے وہاں ان کمتر سمجھے جانے والے طبقہ، قوم اور ممالک میں ہونے والے فکری و قلبی و نظری استحصال کو کسی بھی پیمانہ سے ماپا نہیں جاسکتا۔

اس تفریق کو کس مذہب نے عملا ختم کیا؟

اسلام اور عیسائیت کی مثالیں پیش ہیں:

بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ایک فرمان ہے کہ سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر ایک حبشی کو حاکم بنادیا جائے، جس کا سرچھوٹا ہو، گویا منکے کے برابر ہو۔

(صحیح بخاری، کتاب الآذان باب امامۃ العبدوالمولی۔ حدیث نمبر 693)

یوں حکم حکمرانی میں رنگ ونسل کو مقدم رکھنے کی سوچ کو کالعدم کردیا گیا۔ اسی تسلسل میں ایک اسلامی معاشرہ میں عام روزمرہ کے رہن سہن کا نقشہ یوں ابھرتا ہے : اسلام میں نماز باجماعت کی فرضیت سے انکارناممکن ہے، اور اسی اہم ترین رکن جس کی ادائیگی دن میں پانچ مرتبہ ہوتی ہے اور کسی بھی موسم، حالت میں اس کی معافی نہیں ہے، اس نماز کا اہتمام وانتظام، نماز کے لئے بلانا، دور نبوی ﷺ میں ایک حبشی غلام کے سپرد تھا،جس کو بانیٔ اسلامﷺ نے وہ عزت و مرتبہ عطا فرمایا کہ اسلامی معاشرہ میں عرب کے بڑے چھوٹے ان کو’’ سیّدنا بلال‘‘ کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

دوسری جانب چرچ آ ف انگلینڈ میں 30 نومبر 2005ء کو پہلی دفعہ کسی سیاہ فام کو آرچ بشپ کا عہدہ ملا۔یہ وہی چرچ آف انگلینڈہے جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اوراس کا آغاز دنیا کے بظاہر روشن خیال اور مہذّب ترین خطہ سے ہوا۔

عنوان میں درج سوال کے جواب اور مجموعی منظرکشی کے لئے ماہ نومبر کا ہی ایک واقعہ لکھتا ہوں۔ تاریخ کا ہر طالبعلم براعظم افریقہ کے باشندوں کو غلام بناکر نہایت بے دردی سے امریکہ کی آبادکاری کے لئے منتقل کیئے جانے کی داستان سے بخوبی واقف ہے۔

مختصرا لکھوں توہوا یوں کہ 29نومبر 1781ء کو ایک برطانوی بحری جہاز کی انتظامیہ کی طرف سے 133 سیاہ فام افریقی غلاموں کو سمندر برد کردیا گیا تاکہ یہ سفاک اور لالچی لوگ انشورنس کی رقم بٹور سکیں۔ ان ظالموں نے جہاز میں قید افریقی غلاموں کی انشورنس حاصل کر رکھی تھی۔ نیوی گیشن کی غلطی سے راستہ بھٹک گئے اور جب جہاز پر پینے کا پانی ختم ہونے لگا تو انہوں نے افریقی غلاموں کو ایک ایک کرکے سمندر برد کردیا تاانشورنس کے کلیم میں کہہ سکیں کہ یہ لوگ جہاز پر پانی کی قلّت کے باعث ہلاک نہیں ہوئے۔

یہ بہیمانہ واقعہ تاریخ میں Zong Massacre کے عنوان سے معروف ہے۔

چنانچہ اس جہازراں کمپنی اور انشورنس کمپنی کے مابین لمبی عدالتی جنگ چلی، باتوں سے باتیں نکلیں، اس واقعہ کی شدید مذمّت ہوئی،لمبا عرصہ تحقیقات ہوئیں، اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی انسداد غلامی کی تحریک چلی، ان افریقی غلاموں کا خون رنگ لایا اور یہ واقعہ بالآخر غلامی کی جدید شکلوں کے خاتمہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔

لیکن آج مشرق و مغرب کے حالات بتاتے ہیں کہ جدید دَور کی غلامی کے ساتھ ساتھ رنگ ونسل کے امتیاز کے خاتمہ کے لئے بہت سا کام ہونا ابھی باقی ہے۔

یاد رہے کہ انسانیت کا علمبردار دین اسلام رنگ ونسل کے فرق کو مٹانے کی بے مثال تعلیم پیش کرنے میں اور بانیٔ اسلام ﷺ اس تعلیم پر عمل کرنے اور اس کی ترویج میں سرخرو ہیں، جیسا کہ خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ:

کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضلیت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button