امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی و بیلجئم ستمبر 2018ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

… … … … … … … …

10؍ ستمبر 2018ء بروز سوموار

(حصہ سوم۔ آخری )

… … … … … … … …

البانیا کے وفد کی ملاقات

بعد ازاں پروگرام کے مطابق ملک البانیا (Albania) سے آنے والے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات شروع ہوئی۔

البانیا سے امسال 43 ؍افراد پر مشتمل وفد جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔

٭ ایک مہمان نے عرض کیا کہ میرے یہاں جلسہ پر آنے کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ میرے دو بیٹوں نے بیعت کی ہے میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس جگہ گئے ہیں اور جلسہ دیکھوں۔ دوسرا یہ کہ جرمنی ایک ترقی یافتہ ملک ہے اس ملک کو بھی دیکھوں۔

اب یہاں آکر میں نے دیکھا ہے۔ اب مجھے اپنے بیٹوں کے بارہ میں کوئی فکر نہیں ہے وہ دونوں صحیح جگہ پر گئے ہیں اور آپ کی جماعت کے ممبر ہیں اب میں بھی بہت جلد آپ کی جماعت کا ممبر بنوں گا۔ موصوف نے کہا کہ ہم ایسی جگہ سے آۓ ہیں جہاں ساٹھ سال تک مذہب پر پابندی تھی۔ اب نئی جنریشن نے اسے قبول کر لیا ہے۔ پرانی جنریشن کو کچھ وقت لگ رہا ہے۔ کمیونزم کی وجہ سےمذہب پر پابندی رہی ہے اس وجہ سے والد ابھی تک احمدیت نہ قبول کر سکے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔

٭ البانیا سے آنے والی ایک خاتون وکیل نے عرض کیا کہ جماعت احمدیہ البانیا کے کانسٹی ٹیوشن کے حوالہ سے کام کیا ہے اور اب میں جلسہ دیکھنے آئی ہوں۔ جلسہ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہے اور ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہوا ہے۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں اس بات سے بھی بہت متاثر ہوئی ہوں کہ کس طرح سب لوگ خلیفۃ المسیح کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے اور گریہ و زاری کر رہے تھے۔

میں امید کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے ساتھ میں بھی بہت جلد اس جماعت کا حصہ بنوں گی۔

٭ ایک احمدی نوجوان نے عرض کیا کہ میں دوسری مرتبہ جلسہ پر آیا ہوں۔ جب گزشتہ سال آیا تھا تو اُس وقت احمدی نہیں تھا۔ اب میں احمدی ہوچکا ہوں اور ایک احمدی کی حیثیت سے آیا ہوں اس وقت میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ پارٹ ٹائم فوٹو گرافی کرتا ہوں۔

٭ ایک شخص نے اپنے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوۓ عرض کیا کہ میرے لئے دعا کریں کہ میں ایک اچھا مومن بن سکوں اور روحانی طور پر اور عملی طور پر خدا کے قریب آسکوں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا : خدا آپ کی دعائیں اور خواہشات قبول فرماۓ۔

٭ البانیا سے آنے والے ایک احمدی دوست Bekimbici صاحب نے عرض کیا:

میں 2004ء میں بیعت کرکے احمدیت میں شامل ہواتھا۔ میں جرنلسٹ ہوں۔ جلسہ سالانہ میری زندگی کا بہت اہم event ہوتاہے۔ اتنا اہم کہ اس دفعہ میں اگست تک ایک اخبار میں کام کیاکرتاتھا اور وہ کام میں نے چھوڑا اور اس کے بعد مجھے کام کی تلاش میں تین ، چار آفرز ملیں اور میں نے سب کو یہی کہا کہ اگر مجھے کام پر رکھناہے تو 15؍ستمبر تک میرا انتظارکرنا ضروری ہوگا کیونکہ میرا ایک فریضہ ہے جس پر میں کام کو ترجیح نہیں دے سکتا اور وہ فریضہ یہ تھا کہ میں جلسہ سالانہ میں شامل ہوں۔ چنانچہ میں جلسہ سالانہ پر آیا ہوں اور مجھے امید ہے کہ واپس جاکر مجھے کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔ یہ میرا یقین ہے کہ اگر انسان محنت کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضرور کوئی کام مل جاتاہے ۔ بہرحال میں یہاں شامل ہواہوں اور جلسہ سالانہ میرے لئے ایک عظیم الشان پروگرام تھا۔ یہ تینوں دن میرے لئے متاثر کن تھے۔

کہنے لگے : میری نظر میں جلسہ سالانہ ایک روحانی غذاہے جس کیلئے مجھے ہر سال یہاں آنا چاہئے چاہے اس کیلئے انتہائی کوششیں بھی کرنی پڑیں۔ جلسہ کے علاوہ حضورکے ساتھ چوتھے دن جو ملاقات ہوتی ہے اس کی ایک اپنی اہمیت ہے اگرچہ وہ چند منٹ ہی ہوں۔ ملاقات میں ہم اپنے آقاکے ساتھ بیٹھ کربرکتیں حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اگلے سال مجھے یوکے کے جلسہ میں بھی شرکت کرنے کی توفیق ملے۔ میں یہ بھی کہنا چاہوں گاکہ جلسہ ہرسال بہتری کی طرف جارہاہے۔

البانیا کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے یہ ملاقات آٹھ بجے تک جاری رہی۔ بعد میں وفد کے ممبران نے تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

ہنگری اور کروشیا کے وفود کی ملاقات

اس کے بعد ملک ہنگری (HUNGARY) اور کروشیا(CROATIA) سے آنے والے وفود نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پایا۔

٭ ہنگری سے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک دوست آۓ تھے انہوں نے عرض کیا کہ بہت اچھی یادیں یہاں سے لے کر جارہا ہوں۔ آپ کا جلسہ بہت منظم تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو بہت ترقیات دے۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ یہ میرا جرمنی کا پہلا جلسہ سالانہ ہے۔ اس سے قبل میں تین دفعہ یوکے کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوچکی ہوں اور ایک دفعہ قادیان جلسہ میں شامل ہوئی تھی۔ یہاں اس جلسہ میں ہر انتظام بہت عمدہ تھا۔ رہائش، خوراک، صفائی، تقاریر، ہر پروگرام بہت منظم تھا۔ ہمیں خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے ایک ’حبل اللہ‘ چاہئے۔ آج احمدیت ہی ہے جو ہمیں یہ حبل اللہ دے رہی ہے۔ حضور انور پر بہت بوجھ ہے۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو چنا ہے۔ آپ نے یہ بوجھ برداشت کرنا ہے۔ ہم حضور کے لئے دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ حضور کے ساتھ ہو۔

میں ہر جگہ جلسوں میں مختلف قوموں کے لوگوں سے ملی۔ مختلف زبانیں بولنے والے لوگ تھے۔ ہر جگہ بڑا اچھا تجربہ ہوا۔ یوکے میں تو کھلی جگہ پر جلسہ ہوتا ہے اور عارضی طور پر ایک شہر بسایا جاتا ہے۔

٭ ہنگری سے ایک پروٹسٹنٹ چرچ کے پادری Gábor Tamás صاحب بھی جلسہ پر آئے تھے۔ یہ مذہبی کاموں کے علاوہ فلاحی کاموں میں بہت متحرک ہیں۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں تو عیسائی ہوں مگر آپ کے جلسہ پہ جاکر مجھے ایمانی تازگی ملتی ہے۔اور میں تازہ دم ہوکر لوٹتا ہوں۔یہ چارجنگ سارا سال کے کاموں میں مددگار ہوتی ہے۔ موصوف کی وجہ سے نہ صرف ان کے گاؤں بلکہ ان کے تمام حلقہ احباب میں واقفیت ہوئی اور جماعت کا پیغام پہنچانے کے نئے راستے کھلے۔

مبلغ سلسلہ ہنگری تحریر کرتے ہیں کہ:

چند ماہ قبل جب ان پادری صاحب کی والدہ کی وفات ہوئی۔ ہم چند خدام کے ساتھ جنازہ میں شرکت کے لئے ان کے گاؤں پہنچے۔ شدید سردی اور دھند کی وجہ سے سفر مشکل تھا۔ ہمیں دیکھ کر یہ بہت خوش بھی ہوئے اور حیران بھی۔ تدفین کے بعد دستور کے مطابق گاؤں کے کمیونیٹی ہال میں تعزیت کی تقریب ہوئی جس میں گاؤں کے کافی لوگ اور کچھ دوسر ے علاقوں سے آنے والے معززین بھی شامل تھے۔اس تقریب میں شکریہ ادا کرتے ہوئے سارے گاؤں کے سامنے کہا کہ احمدیہ مبلغ اور احمدیہ کمیونٹی ہی میرے دوست اور خیرخواہ ہیں۔جب میں بیمار ہوا، جب میراایکسیڈنٹ ہوا اور میں ہسپتال میں تھا تب صرف یہ جماعت ہی میرا حال پوچھنے آئی تھی۔ اب میری والد ہ فوت ہوئیں تو پھر بھی یہی جماعت ہے جو تعزیت کرنے آئی ہے۔ یہی لوگ میرے حقیقی دوست اور خیر خواہ ہیں۔ایسے مواقع پر میں نے کبھی اپنے کولیگز اور بزنس فرینڈز کو نہیں دیکھا۔ اس طرح گاؤں کے پچاس ساٹھ لوگوں کی توجہ ہماری طرف ہوئی اور ریفریشمنٹ کا سارا وقت جماعت کا تعارف کروانے کا موقع ملا۔

٭ ہنگری سے Várga András صاحب بھی جلسہ میں شریک ہوئے۔ یہ ریفیوجی کیمپ کے دفتر میں کام کرتے ہیں۔ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ جلسہ ایسا موقع ہے جیسا کہ انسان کسی عظیم الشان چیز کو دیکھے تو حیرانگی کے ساتھ ساتھ اندر سے کپکپی بھی طاری ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جب آپ لوگ نعرے لگاتے تو ایسا لگتا کہ ابھی امام حکم دے گا اور آپ لبیک کہتے ہوئے کچھ کر گزرو گے، جیسا کہ حکم کے منتظر بیٹھے ہو۔شروع میں تو بہت خوف محسوس ہوا۔ ہنگری میں ایسا مجمع تو دو ر کی بات، سو لوگ بھی ہوں تو ایک گھنٹہ میں ہی کوئی لڑائی ہوجائے۔لیکن ہزاروں افراد کا ایسا پرامن مجمع میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

٭ ہنگری سے سوشل ورکر Csicsek Agota صاحبہ بھی جلسہ میں شامل ہوئیں۔ یہ ہنگری میں نئے آنے والوں کے تمام ابتدائی کاموں میں مدد کرتی ہیں۔ کافی عرصہ سے ان کو دعوت دی جارہی تھی ۔ امسال جلسہ میں شریک ہوئیں۔ جلسہ کے حسن انتظام اور مہمان نوازی پریہ حضورِ انور اور جماعت کا شکریہ ادا کرتی رہیں۔ بارہا اس بات کا اظہار کرتی رہیں کہ اتنے منظم اور مہذب مسلمانوں کے اجتماع میں شرکت کا یہ پہلا موقع ہے۔

موصوفہ اپنے کام کی وجہ سے شہر کے تمام حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔اللہ کرےان کے توسط سے مزید رابطہ کی راہیں کھلیں۔

٭ ہنگری سے ایک ریفیوجی کیمپ کے مالی امور کی نگران Veszprémi Illona صاحبہ بھی جلسہ میں شریک ہوئی تھیں۔ انہوں نے جلسہ کے انتظامات وغیرہ دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ جلسہ کا اتنا زیادہ خرچ کیسے چلایا جاتا ہے۔ ان کو جماعتی خدمت اور چندوں کے نظام کا بتایا گیا۔جس پر یہ بہت حیران ہوئیں۔انہوں نے جلسہ کے حوالہ سے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

جلسہ ایک ایسی تقریب ہے جو انسان کو اندر سے دھو کر ہلکا پھلکا بنا دیتا ہے۔جیسے شروع میں بچے کو نہانے سے خوف آتا ہے۔مگر وہ اس کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ایسا ہی حال انسان کا جلسہ کو دیکھ کر ہوتا ہے۔

٭ ہنگری کے وفد میں یمن سے تعلق رکھنے والی ایک میڈیکل ڈاکٹر وفا حسن احمد صاحبہ بھی شامل تھیں۔ یہ جلسہ میں شامل ہوئیں تو بڑی پرجوش تھیں ۔ جلسہ کے دوسرے دن حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا لجنہ سے خطاب انہوں نے خواتین کی مارکی میں سنا۔ اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے مہمانوں سے خطاب کیلئے انہیں مردانہ ہال میں بھجوایا گیا۔ یہ کہنے لگیں کہ میں لجنہ مارکی میں ہی خوش تھی۔ مجھے واپس لجنہ کی طرف چھوڑنے کا انتظا م کردیں۔

٭ جامعہ احمدیہ جرمنی کے وزٹ کے دوران بڑے شوق سے لائبریری دیکھی اور بنیادی اسلامی کتب دیکھیں۔ باہر آکر کہنے لگیں کہ ہرآیت برموقع اور برمحل ہے اور ساتھ ہی جامعہ احمدیہ کی عمارت پر تحریر آیت کی طرف اشارہ کیا، وَاَشرَقَتِ الْاَرضُ بِنُورِ رَبِّھَا کہ دیکھویہ آیت کیسے بالکل صحیح جگہ پہ لکھی ہوئی ہے۔

ملاقات کےبعد کہنے لگیں کہ ابھی تشنگی باقی تھی میں اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔

مبلغ سلسلہ تحریر کرتے ہیں کہ موصوفہ تمام راستہ ان کی اہلیہ سے حضور انور سے ملنے کے آداب جانتی رہیں۔ اور یہ سوچتی رہیں کہ جلسہ کی کیا باتیں کرنی ہیں۔ ابھی سے اگلے سال کے پروگرام بنارہی ہیں کہ اپنی بہن اور بیٹے کو بھی لے کر آنا ہے۔

٭ کروشیا سے آنے والے ایک مہمان’آدم‘ صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: دونوں جلسہ یعنی یوکے اور جرمنی میں دو مختلف جگہوں پر مختلف انتظامات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس عمدہ طریق پر کارکنان اس جلسہ سالانہ کو چلاتے ہیں۔ ان انتظامات کو دیکھ کر میرے اندر بھی یہ جذبہ پیدا ہوا ہے کہ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لوں۔ خاص طور پر اطفال کو پانی کی ڈیوٹی دیتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ چھوٹے بچے اس عمر سے ہی کس اخلاص سے کام کرتے ہیں۔

٭ آدم صاحب کی اہلیہ ناصحہ صاحبہ بھی جلسہ پر آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں:

یہ میرا چھٹا جلسہ ہے اور تمام دنیا سے آئے ہوئے احمدیوں سے مل کر بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔جلسہ یقینی طور پر اسلام کی تعلیمات کو احسن رنگ میں پیش کرتا ہے اور ایک ایسی تصویر دکھاتا ہے کہ اگر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو کس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کیسی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

کروشیا سے ہی مشل صاحب بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔یہ غیر احمدی دوست ہیں اور جلسہ پر بطور مترجم ڈیوٹی دیتے رہے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جلسہ کے انتظامات دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس احسن طریق پر احمدی کارکنان جلسہ سالانہ کے انتظامات کو سر انجام دیتے ہیں۔ اسی طرح حفاظتی انتظامات کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔

ہنگری اور کروشیا کے وفد کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات آٹھ بجکر بیس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر ان دونوں وفود کے تمام ممبران نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آۓ۔ جہاں تین فیملیز نے حضور انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔

ان ملاقات کرنے والوں میں ملک آذر بائیجان سے ایک نومبائعہ آئتاج آزامادووا صاحبہ بھی شامل تھیں۔ جنہوں نے گزشتہ سال دسمبر 2017 ء میں بیعت کی تھی۔ وہ بیان کرتی ہیں:

جب حضور کا پہلے روز کا خطبہ سنا جس میں حضور انور نے بعض کمیوں کا ذکر کر کے تربیتی حوالہ سے بعض نصائح فرمائی تھیں۔ تو مجھے لگا کہ شاید تربیت کے حوالہ سے کچھ اچھی چیزیں دیکھنے کو نہ ملیں۔ لیکن یہ بات میری سوچ تک ہی رہی کیونکہ جلسہ کے آخر تک مجھے یہی محسوس ہوا کہ ہرایک حضور انور کے ارشادات پر سو فیصد عمل کر رہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کھانا کھلانا اور پھر وقت پر کھانا ملنا، کسی قسم کی کوئی دھکم پیل نہیں تھی۔ بعض غیر از جماعت بھی اس نظم و ضبط سے بہت متاثر تھے۔ پیارے حضور کی تقاریر میرے لئے مشعل راہ تھیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جو بھی صاحب عقل حضور انور کے خطابات سنے گا وہ ضرور اسلام کی خوبیوں کا قائل ہو جاۓ گا۔ روحانیت کا تجربہ کرنے اور اس میں ترقی کرنے کے لئے جلسہ سالانہ ایک IDEAL EVENT ہے۔

میں نے حضور انور کے چہرہ پر اور چہرے کے اردگرد نُور ہی نور دیکھا ہے۔ میں بہت خوش ہوں اور جذبات پر قابو نہیں رکھ پارہی۔

تقریب آمین

ملاقات کے اس پروگرام کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لاۓ جہاں تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔

حضور انور نے درج ذیل بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی۔

عزیزان رانا جاحظ احمد، مبشر احمد شابل، فرحان احمد قمر، اسمیر احمد خاں، احمد صفوان، ابراہیم سرویا، مشہود فاران شاہد، خالق احمد، عبد الاحد، ساحل اقبال، موحد احمد، جبریل توحید رانا، عامر احمد دانیال، سبطین احمد، شایان احمد، مسرور کاشف، نائل رحمان پاشا، مرزا مامون احمد، ذیشان علی سدھن، توحید احمد۔

عزیزات علیشہ منور سرویا، عامرہ ملک، فریحہ منور، عبیرہ صدیق، تحریم طاہر، عروسہ نعیم، عزیزہ زریش، سنبل احمد، تاشفہ مہک رضوان، انابیہ احمد، لنتہ احمد، ارمان خان، مناہل احمد۔

تقریبِ آمین کے بعد حضور انور نے نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

… … … … … … … …

11؍ ستمبر 2018ء بروز منگل

… … … … … … … …

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف ممالک سے موصول ہونے والی ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق ساڑھے دس بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج صبح کے اس پروگرام میں 41؍فیملیز کے 133 ؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ جرمنی کی پندرہ جماعتوں سے یہ فیملیز اور احباب ملاقات کے لئے پہنچے تھے۔

ان 41؍ فیملیز میں سے 23؍فیملیز ایسی تھیں جو درج ذیل 13ممالک سے جلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت کے لئے پہنچی تھیں اور آج ملاقات کی سعادت پا رہی تھیں۔

پاکستان، نائیجر، بلغاریہ، لائبیریا، نائیجریا، گیمبیا، بورکینا فاسو، UAE، ٹوگو (Togo)، تنزانیہ، کانگو کنشاسا اور تاجکستان(Tajikistan)۔

آج صبح کے اس سیشن میں درج ذیل بیس ممالک سے آنے والے 35 ؍مبلغین کرام نے بھی اپنے پیارے آقا سے انفرادی طور پر ملاقات کی سعادت پائی۔

کانگو برازاویل، پاکستان، نائجیریا، ٹوگو، یوگنڈا، نائیجر، یوکرین (Ukraine)، کینیڈا، بینن (Benin)، قزاخستان، بلغاریہ، رشیا، سیرالیون، مالی (Mali)، پرتگال، تنزانیہ، بورکینا فاسو، قرغیزستان، گھانا اور ماریشس (Mauritius)۔

علاوہ ازیں دیگر 19؍افراد نے بھی اپنے پیارے آقا سے ملاقات کا شرف پایا۔ ان احباب کا تعلق بلغاریہ، پاکستان، سینیگال، سویڈن، یوکرین، مالی اور فرانس سے تھا۔

اس طرح مجموعی طور پر 187 ؍افراد نے ملاقات کی سعادت پائی ۔ ان سبھی افراد اور فیملیز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت زیرِتعلیم طلباء و طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بجکر 45منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

تقریب آمین

دو بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے اور پروگرام کے مطابق تقریب آمین شروع ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل تیس بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سُنی اور آخر پر دعا کروائی۔

عزیزان عدیل احمد بٹ، رسب احمد سیال، عمر احمد نور، ماہد ارشد، عطاء الشافی رانا، معید احمد، دانش احمد، عیان احمد شاہ، مشہود احمد، نعمان عمر، ایقان احمد نورخالد، آیان احمد مجوکہ، لبیق عمران کاہلوں، عزیزم سرمد احسن، شعیر ارشاد، چوہدری صبیح احمد، شجیع احمد، ایقان احمد عادل۔

عزیزات منال احمد، تمثیلہ نفیس، نورالعین رانا، فریحہ علی پگراٹھ، ملیحہ احسان، صوفیہ ندیم، عزیزہ خرد جان، عزیزہ ہانیہ سطوت رانجھا،عزیزہ جازبہ بٹ، ثمرین احمد، عنایہ علیزہ نواز، ثوبیہ احمد۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے پانچ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور ’’فنانس کمیٹی جرمنی‘‘ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چندہ جات کی انکم، خرچ، ریزرو فنڈ اور مختلف مالی امور اور اسی سے متعلقہ معاملات اور ’’مساجد کی تعمیر‘‘ کے حوالہ سے اخراجات کا تفصیل سے جائزہ لیا اور کمیٹی کے ممبران کو مختلف انتظامی ہدایات دیں۔

یہ میٹنگ قریباً ڈیڑھ گھنٹہ یعنی شام سات بجے تک جاری رہی۔

وزیراعظم ساؤٹومے کے مشیر کی ملاقات

بعد ازاں ملک ساؤ ٹومے (Sao Tome) سے آنے والے مہمان Viluuildiley Barocca صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات حاصل کیا۔ موصوف اپنے ملک میں وزیراعظم کے ایڈوائزر برائے پارلیمنٹری افیئرز ہیں اور اللہ کے فضل سے احمدی ہیں۔

موصوف نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے میں کس طرح اپنی قوم کی خدمت کروں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ’’سیّد القوم خادمھم‘‘ ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھو اور خدمت کرو اور جماعت احمدیہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے زیادہ بہتر لیڈر بنو اور اپنی قوم کی خدمت کرو۔

موصوف کو حضور انور کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج مجھے یہ سعادت ملی ہے کہ بیعت کرتے ہوئے حضور انور کے دستِ مبارک کے نیچے میرا ہاتھ تھا۔ یہ میرے لئے بڑا جذباتی موقع تھا۔ ایک طرف حضور انور کا ہاتھ چھونے کی بڑی سعادت تھی تو دوسری طرف میں خدا تعالیٰ سے ایک وعدہ کر رہا تھا۔ مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ مجھ میں کوئی چیز مَر رہی ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے ایک چھوٹی سی موت میرے پر وارد ہوئی ہے۔ یہ کہتے ہوئے موصوف رو پڑے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے حوالہ سے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ حضور نے مجھے وقت دیا اور حضور انور کے قرب میں مَیں نے وقت گزارا۔ جبکہ ملینز کی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جو حضور انور کو صرف ایک نظر دیکھنے کے لئے ترستے ہیں۔ ویسے تو میں حضور انور کو پہلی دفعہ مل رہا تھا لیکن حضور کی محبت کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے میں کوئی غیر نہیں ان کا اپنا ہوں جو بڑے عرصہ کے بعد دوبارہ ملا ہے اور حضور اتنی محبت اور عاجزی سے ملتے ہیں کہ دوسرے انسان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ آپ سے محبت نہ کرے۔

حضور انور کے ہر ایک لفظ میں اتنا سبق ہے کہ انسان کا دل کرتا ہے کہ وہ خود کچھ نہ بولے اور حضور کے ارشادات سنتا رہے۔

حضور انور نے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ ساؤ ٹومے کے پرائم منسٹر ہیں۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ نہیں، مَیں پرائم منسٹر کا ایڈوائزر ہوں۔ اس پر حضورانور نے از راہ شفقت فرمایا پھر مستقبل کے پرائم منسٹر ہو۔ میں نے اس پوزیشن کے بارہ میں اس سے پہلے کبھی نہ سوچا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور کی مجھ سے بہت توقعات ہیں جن پر پورا اترنے کے لئے مجھے بہت جد و جہد کرنی پڑے گی۔

حضور انور نے یہ جو فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سید القوم خادمہم کو کبھی نہ بھولنا اور اس کو ہمیشہ پکڑے رکھنا۔ میری ساری زندگی کی تعلیم ایک طرف اور حضور انور کا یہ ارشاد ایک طرف جو ساری تعلیم پر بھاری ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے حضور کے ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔

فیملی ملاقاتیں

بعد ازاں پروگرام کے مطابق فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج شام کے اس سیشن میں جرمنی کی مختلف 27 ؍ جماعتوں سے 47 ؍فیملیز کے 163 ؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ علاوہ ازیں درج ذیل گیارہ ممالک سے آنے والے چودہ احباب نے بھی اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

Latvia، قطر، پاکستان، ناروے، گیمبیا، انڈیا، مالی(Mali)، غانا، کیمرون (Cameroon)، دوبئی اور اسٹونیا (Estonia)۔

جامعہ احمدیہ جرمنی کے طلباء دوران سال مختلف رخصتوں کے ایام میں لندن آ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پاتے رہے۔ لیکن جامعہ کے پچیس طلباء ایسے تھے جو اپنے امیگریشن سٹیٹس کی وجہ سے لندن کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔ آج ان 25 طلباء نے بھی پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

آج ملاقات کرنے والے سب احباب اور فیملیز نے اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت زیرِتعلیم طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجکر پچاس منٹ پر ختم ہوا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر مکرم منیر احمد بٹ صاحب مرحوم کی نماز جنازہ حاضرپڑھائی۔مرحوم کی10ستمبر 2018ء کو Offenbach جرمنی میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی تھے اور مکرم شاکر مسلم صاحب امیر و مبلغ انچارج نائیجر کے والد محترم تھے۔ وفات کے وقت عمر 75سال تھی۔ نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بچے سوگوار چھوڑے ہیں۔

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے اور نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد مکرم صداقت احمد صاحب مبلغ انچارج جرمنی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے درج ذیل پانچ نکاحوں کا اعلان کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز از راہ شفقت اس دوران تشریف فرما رہے۔

1۔عزیزہ انیلا صدف چوہدری بنت مکرم جمیل احمد چوہدری صاحب (جرمنی) کا نکاح عزیزم عطاء المنعم چوہدری ابن مکرم افتخار احمد چوہدری صاحب (جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

2۔ عزیزہ سما اکمل بنت مکرم محمد اکمل خان صاحب (جرمنی) کا نکاح عزیزم آصف انور ابن مکرم عباس انور صاحب (جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

3۔ عزیزہ کائنات محمود اعوان بنت مکرم خالد محمود اعوان صاحب(جرمنی)کا نکاح عزیزم کامران ناصر اشرف ابن مکرم محمد اشرف صاحب (جرمنی) کے ساتھ طے پایا۔

4۔ عزیزہ ماہم اعجاز بنت مکرم محمد اعجاز صاحب (جرمنی) کا نکاح عزیزم مبارک ڈوگر ابن مکرم مجید احمد ڈوگر صاحب (جرمنی)سے طے پایا۔

5۔ عزیزہ صباء اللہ بنت مکرم امان اللہ صاحب (جرمنی)کا نکاح عزیزمJonas Glanz ابن مکرم Anderas Glanz صاحب کے ساتھ طے پایا۔

نکاحوں کے اعلان کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ بعد ازاں حضور انور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

… … … … … … … …

12؍ ستمبر 2018ء بروز بدھ

… … … … … … … …

جرمنی سے روانگی اور آلکن بیلجیم میں ورود مسعود

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پانچ بجکر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

آج پروگرام کے مطابق فرینکفرٹ جرمنی سے برسلز (بیلجیم)کے لئے روانگی تھی۔ فرینکفرٹ ریجن اور ارد گرد کی جماعتوں سے احباب جماعت مرد و خواتین، بچے بوڑھے بڑی تعداد میں اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے صبح سے ہی بیت السبوح کے احاطہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز صبح دس بجکر پچاس منٹ پر اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے۔ چھوٹے بچے اور بچیاں گروپ کی صورت میں الوداعی نظمیں پڑھ رہے تھے۔ احباب جماعت دو رویہ قطار میں کھڑے تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز از راہ شفقت احباب جماعت کے درمیان کچھ وقت کے لئے رونق افروز رہے۔ ہر چھوٹے بڑے نے پیارے آقا کا دیدار کیا۔ خواتین ایک طرف کھڑی شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔

دس بجکر 55منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی اور قافلہ سفر پر روانہ ہوا۔ دونوں اطراف میں کھڑے احباب مرد و خواتین مسلسل اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے اپنے پیارے اور محبوب آقا کو الوداع کہہ رہے تھے۔ بہتوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جدائی کے یہ لمحات ان عشاق کے لئے بہت گراں تھے۔

آج پروگرام کے مطابق فرینکفرٹ (جرمنی)سے برسلز جات ے ہوئے جرمنی کا بارڈر کراس کرنے کے بعد بیلجیم کے شہر آلکن (Alken) میں ’’مسجد بیت الرحیم‘‘ کے افتتاح کا پروگرام تھا۔

فرینکفرٹ سے آلکن شہر کا فاصلہ 350کلو میٹر ہے۔ قریباً سوا تین گھنٹے کے سفر کے بعد جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی گاڑی شہر Alken کی حدود میں داخل ہوئی تو شہر کی پولیس نے قافلہ کو Escort کیا اور ساتھ ساتھ راستہ کلیئر کیا۔

دو بجکر دس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ’’مسجد بیت الرحیم‘‘ تشریف آوری ہوئی۔ مقامی جماعت اور بیلجیم کی دیگر جماعتوں سے آئے ہوئے احباب مرد و خواتین اور بچے اپنے پیارے آقا کی آمد کے منتظر تھے۔

جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے بڑے پُرجوش انداز میں استقبال کیا اور بچوں اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں اور خیر مقدمی گیت پیش کئے۔ ہر چھوٹا بڑا اپنے ہاتھ بلند کر کے حضور انور کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ خواتین شرفِ زیارت پا رہی تھیں۔

مکرم امیر صاحب جماعت بیلجیم ڈاکٹر ادریس احمد صاحب، مبلغ انچارج بیلجیم مکرم حافظ احسان سکندر صاحب اور مقامی جماعت کے مبلغ مکرم حسیب احمد صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ حاصل کیا۔

اس موقع پر شہر Alken کے میئر Mr. Marc Penxten بھی آئے تھے۔ موصوف نے حضور انور کا استقبال کرتے ہوئے حضور انور کو خوش آمدید کہا اور شرف مصافحہ کی سعادت پائی۔

موصوف حضور انور کی آمد سے 45منٹ قبل مسجد بیت الرحیم پہنچ گئے تھے۔ میئر نے کہا کہ میں آپ احمدی لوگوں کے بارہ میں جس سے بھی پوچھتا ہوں وہ سب آپ کے بارے میں اچھے تأثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ میں اپنے لئے اعزاز کی بات سمجھتا ہوں کہ مجھے مسجد کے افتتاح کے موقع پر یہاں آنے کی دعوت دی گئی۔ اور آج مجھے پہلی مرتبہ خلیفۃ المسیح سے ملاقات کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں آپ کے خلیفہ کے استقبال کے لئے یہاں حاضر ہوا ہوں اور اپنی ضروری میٹنگز چھوڑ کر یہاں آیا ہوں۔

حضور انور نے میئر صاحب سے فرمایا کہ آپ کے یہاں آنے کا بہت بہت شکریہ اور آپ کا یہاں مجھے receive کرنے کا بھی بہت شکریہ! اس پر میئر صاحب نے جواب دیا کہ یہ میرے لئے اعزاز اور خوشی کی بات ہے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب یادگاری تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک پودا لگایا۔ بعد ازاں مکرم میئر صاحب نے بھی ایک پودا لگایا۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے اپنی رہائشگاہ تشریف لے گئے۔

مسجد ’’بیت الرحیم‘‘۔ ایک تعارف

مسجد ’’بیت الرحیم‘‘ کی یہ عمارت 15؍اپریل 2016ءکو خریدی گئی۔ اس جگہ کا کُل رقبہ 15؍ہزار مربع میٹر ہے۔ بلڈنگ کے سامنے والے بلاک میں گراؤنڈ فلور پر ایک رہائشی حصہ تیار کیا گیا ہے۔ اسی حصہ میں حضور انور نے اپنا محدود قیام فرمایا۔ اس کے اوپر پہلی منزل پر مربی ہاؤس تیار کیا گیا ہے اور اس طرح دوسری منزل پر دو کمروں، کچن، باتھ روم، سٹنگ اور ڈائنگ روم پر مشتمل ایک گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔

درمیانی بلاک میں مردانہ مسجد ہال ہے جس کا رقبہ 250 مربع میٹر پر مشتمل ہے جس کی ایک دیوار اور چھت کا کچھ حصّہ شیشہ کا بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ روشن اور خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ ہال کے آخر پر نئے واش رومز بنائے گئے ہیں۔ مردانہ مسجد کے اوپر پہلی منزل پر ایک لائبریری اور خوبصورت ہال بھی موجود ہے۔

تیسرے اور آخری بلاک میں عورتوں کا ہال ہے اور بچوں والا ایک کمرہ بھی ہے۔ اس ہال کے آخر پر بھی نئے واش رومز بنائے گئے ہیں اور عورتوں کے اس ہال کے اوپر ایک بہت بڑا پروفیشنل کچن ہے جس میں ہزار ہا افراد کا کھانا بڑی آسانی سے پکایا جا سکتا ہے۔ اس کچن کے ساتھ Chiller Room ہے جس میں بڑی تعداد میں اشیائے خورونوش فریز کی جا سکتی ہیں۔

بیت الرحیم کی مرمت اور تیاری کے لئے مکرم امیر صاحب بیلجیم اور نیشنل سیکرٹری صاحب جائداد کی نگرانی میں تمام جماعتوں کے خدام، انصار اور اطفال نے وقار عمل کے ذریعہ رضا کارانہ طور پر اس کام میں حصّہ لیا اور بھرپور تعاون کیا۔

مسجد بیت الرحیم کے قطعہ زمین کا رقبہ بہت وسیع ہے۔ یہاں ڈیڑھ صد گاڑیوں کے لئے باقاعدہ پکّی پارکنگ موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑی گراؤنڈ بھی اس قطعہ زمین میں شامل ہے جہاں بوقت ضرورت سینکڑوں گاڑیاں پارک کی جا سکتی ہیں۔

یہ عمارت چار لاکھ 15ہزار یورو میں خریدی گئی اور اس کی رینوویشن اور فرنیشنگ پر قریبًا ایک لاکھ پچاس ہزار یورو کے اخراجات ہوئے ۔ اس عمارت کی رینوویشن کا قریباً 70 فیصد کام وقار عمل کے ذریعہ کیا گیا اور اس طرح قریباً ایک لاکھ بچاس ہزار یوروز کی رقم بچائی گئی۔

دو بجکر 40 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں جس کے ساتھ ہی اس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

مسجد کے افتتاح کے موقع پرحضورانور کا خطاب

تشہدو تعوذاور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

الحمد اللہ کہ آج اس شہر کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے یا ایک ایسا سنٹر عطا فرمایا ہے کہ جس کو آپ نے مسجد کی شکل دے دی۔ مساجد کی تعمیر کے بعد ایک احمدی اور ایک سچے مسلمان کا اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر عمل کرنے کا اظہار پہلے سے بہت بڑھ کر ہونا چاہئے تاکہ ارد گرد کے لوگوں کو اسلام کی تعلیم کا پتہ چلے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہی فرمایا ہے کہ جہاں اسلام کی تعلیم پھیلانی ہے، اللہ کا پیغام پہنچانا ہے وہاں مسجد بنا دو۔ پس مسجد بنانے کے بعد آپ لوگوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں۔ یہاں کے میئر صاحب بھی تشریف لائے اور انہوں نے جس انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا یہ ہمارے لئے قابل قدر ہے۔ عمومًا اسلام کے بارہ میں دنیا میں اورخاص کر مغربی دنیا میں بہت غلط خیالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت کا اور لوکل انتظامیہ کا تعاون کرنا ان کی طرف سے ایک بہت اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہے۔ اس کو قائم رکھنے کے لئے آپ احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

یہ ذمہ داریاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیان فرمائی ہیں اور اکثر میں بیان کرتا ہوں۔ آپؑ نے اپنی بعثت کا مقصد دو چیزوں کو قرار دیا۔ ایک یہ کہ بندہ اور خدا میں جو دوری پیدا ہو گئی ہے اس کو دور کرنا اور بندے کو اللہ کا حق ادا کرنے والا بنانا۔

اللہ تعالیٰ کا حق کیا ہے؟ یہی کہ اس کی عبادت کی جائے۔ا ور عبادت کا حق اس وقت ادا ہوتا ہے جب آپ نیک نیت ہو کر، خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے حاضر ہوں۔ ان لوگوں کی طرح نہیں کہ جن کے بارہ میں آتا ہے کہ ان کے لئے عبادت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ عبادت کے لئے بلاؤ، نیک کاموں کے لئے بلاؤ تو ان کے قدم بھاری ہو جاتے ہیں۔ پس خالص ہو کر اللہ کی عبادت کرنا ایک احمدی مسلمان کا بنیادی فرض ہے جسے ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل یہاں مغربی دنیا میں جہاں ہر قدم پر دنیاوی خواہشات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دنیاوی چکا چوند ہر سڑک کے ہر کونہ اور ہر گلی میں نظر آتی ہے، بازاروں میں نظر آتی ہے جہاں انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہٹ رہا ہے، مذہب سے دور ہٹ رہا ہے۔ اور حد سے زیادہ دنیا کے پیچھے پڑا ہوا ہے، ایسے میں اللہ کی عبادت کے لئے آنا ایک مسلمان کے لئے انتہائی ضروری امر ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ نے جو پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا وہ صرف اُس زمانہ کے لئے نہیں تھا۔ جیسا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ پانچ نمازوں کا حکم اُس دور کے مطابق تھا۔ آج کل تو اتنی مصروفیات ہیں، پانچ نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں۔ یہی قربانی ہے، جو اللہ کی خاطر آپ نے کرنی ہے۔ یہی اس عہد کی پابندی ہے جو آپ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ پس دنیا کو چھوڑ کر پھر اللہ تعالیٰ کے لئے حاضر ہونا ضروری ہے۔ مسجد کا مطلب ہی یہ ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کے لئے آئیں اور اکٹھے ہو کر، جمع ہو کر باجماعت نماز ادا کریں۔ اور مردوں کے لئے خاص کر یہ حکم ہے کہ وہ باجماعت نماز ادا کریں۔ یہ ان پر فرض ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز قائم کرنا اور با جماعت نماز ادا کرناہے پس اس مسجد کی تعمیر کا حق تبھی ادا ہو گا کہ جب آپ اس کا حق ادا کریں گے اور پانچوں وقت اس کو بھرا رکھیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

دوسرا مقصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے آنے کا انسانوں کے حق ادا کرنا تھا۔ انسانوں کا حق ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایک موقع پر تو یہ فرمایا ہے کہ بعض اوقات بندوں کے حق اللہ تعالیٰ کے حق سے اوپر ہو جاتے ہیں۔ یعنی اگر انسان کو ضرورت ہے ، انسانی جان کو خطرہ ہے، ایک طرف انسانی جان بچانی ہے اور دوسری طرف اللہ کا حق ادا کرنا ہے، نماز پڑھنی ہے یا کوئی اور حق ادا کرنا ہے، تو وہاں انسانی جان بچانا زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کا حق ہے اور اسی کا ثواب ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر بندوں کا حق ادا نہیں کیا جا رہا تو اللہ تعالیٰ ایسے نمازیوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ ان کی نمازیں ان کے منہ پرماری جاتی ہیں۔ کیونکہ بظاہر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے آئے ہیں لیکن وہ اس کی مخلوق کا حق ادا نہیں کر رہے۔ ان تمام باتوں پر عمل نہیں کر رہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ تو ایسی نمازیں پھر انسان کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے ہیں۔ آپس میں جماعت کے اندر بھی محبت اور پیار کو بڑھانا چاہئے۔رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا مقصد یہی ہے۔ اس میں مومنوں کی نشانی بتائی گئی ہے کہ وہ آپس میں محبت اور پیار سے رہنے والے ہیں۔ دنیا کو بتائیں کہ اخوت اور بھائی چارہ کیا ہوتا ہے۔ اگر آپس میں ہی محبت اور بھائی چارہ نہیں تو دنیا کو کیا سبق دیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کو اور وسیع کرتے جائیں۔ ہمسایوں کے حق ادا کرنے ہیں۔ اس کا بھی قرآنِ کریم میں بہت حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ مجھے اس شدت سے ہمسایوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ شاید وراثت میں بھی حقدار قرار دے دیئے جائیں گے۔ پس اپنے ہمسایوں کو بھی پہلے سے بڑھ کر یہ بتانا ہوگا اور اس کا اظہار کرنا ہوگا کہ ہم ہمسایوں کے حق ادا کرنے والے ہیں اور مجموعی طور پر اس سارے شہر کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ امن اور پیار اور محبت کی فضا قائم کرنے والے ہیں۔ پس ان امور کو اپنے سامنے رکھیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس مسجد کی تعمیر کے بعد یا اس جگہ کو مسجد میں بدلنے کے بعد اس کا نام تو آپ نے مسجد رکھ دیا ہے۔ اب اس کا حق تب ادا ہوگا جب اردگرد کے لوگوں کو پتہ چلے گا کہ اب یہاں آنے والے مسلمان، یہاں عبادت کرنے والے لوگ ہمارے لئے کسی مشکل کا باعث نہیں بن رہے، بلکہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر نے یہاں لوگوں کے دلوں میں ہمارے لئے پہلے سے بڑھ کر محبت پیار پیدا کر دیا ہے اور اس طرف توجہ دلائی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ کرے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنےو الے ہوں۔ اس مسجد کے حق ادا کرنے والے ہوں۔ پانچوں وقت یہ مسجد کھلی رہے اور اس مسجد کی آبادی بھی بڑھے۔ اسی طرح آپس میں پیار و محبت بھی پیدا ہو اور ارد گرد کے علاقہ میں بھی، شہر میں بھی، غیروں میں بھی یہ احساس پیدا ہو کہ آپ لوگ ان کا حق ادا کرنے والے ہیں، امن اور پیار کی فضا قائم کرنے والے ہیں۔ نہ کہ عام مسلمانوں کے بارہ میں جو تأثر ہے کہ یہ فساد اور فتنہ اور دہشت گردی کرنے والے ہیں ان کی طرح ہیں۔ بلکہ یہ وہ مسلمان ہیں جن کا کام صرف امن اور پیار قائم کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پیغام کو پہنچانے کی توفیق عطا فرماۓ اور اس علاقہ کے لوگوں کو بھی اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ اور جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ مسجد بنانے کے بعد تعارف کے ساتھ جماعت پھیلتی ہے۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ جماعت کے پھیلنے کے سامان پیدا فرمائے۔

خطاب کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

… … … … … … … …

بعد ازاں مکرم امیر صاحب جرمنی عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب، مبلغ انچارج جرمنی مکرم صداقت احمد صاحب، نیشنل جنرل سیکرٹری مکرم محمد الیاس مجوکہ صاحب، نائب جنرل سیکرٹری مکرم جری اللہ صاحب مبلغ سلسلہ اور مکرم حسنات احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ جرمنی نے اپنے خدام کی سیکیورٹی ٹیم کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔ جرمنی سے یہ احباب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو الوداع کہنے کے لئے قافلہ کے ہمراہ آئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد انہوں نے یہاں سے فرینکفرٹ واپس جانا تھا۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس عمارت کا معائنہ فرمایا:

حضور انور نے اس عمارت کے رہائشی حصّے دیکھے۔ لائبریری ہال کا بھی معائنہ فرمایا۔ بڑےکچن میں بھی تشریف لے گئے۔ اور معائنہ کے دوران ہدایت فرمائی کہ کچن میں جو ٹائلز لگی ہوئی ہیں یہ بھی تبدیل کروائیں۔نیز فرمایا کچن میں Aspirator بنائیں۔ اس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ یہ پہلے سے موجو د ہیں۔ ان کا الیکٹرک سسٹم تبدیل کر کے ان کو استعمال کریں گے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ پہلی منزل کی چھت کے ایک کھلے حصّہ میں تشریف لے آئے۔ اور مسجد کے قطعہ زمین کی حدود کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر امیر صاحب بیلجیم نے مختلف جگہوں سے نشاندہی کرتے ہوئے عرض کیا کہ کہاں تک جماعت کی جگہ، حَد بندی ہے۔

معائنہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے آئے۔

تین بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خواتین کے ہال میں تشریف لے آئے جہاں بچیوں کے گروپ نے دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔ خواتین نے شرف زیارت حاصل کیا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں مقامی جماعت کی عاملہ کے ممبران نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

حضور انور نے از راہ شفقت اس موقع پر فرمایا کہ جماعت کے سارے ممبران بھی آ جائیں۔ چنانچہ مقامی جماعتوں کے سب احباب نے اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

حضور انور نے از راہ شفقت بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

برسلز کے لئے روانگی

اس کے بعد پروگرام کے مطابق چار بجکر 40منٹ پر یہاں سے برسلز کے لئے روانگی ہوئی۔ یہاں سے برسلز کا فاصلہ 85کلو میٹر ہے۔

ایک گھنٹہ بیس منٹ کے سفر کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی چھ بجے احمدیہ مشن ہاؤس بیت السلام (برسلز)تشریف آوری ہوئی۔مقامی جماعت کے احباب مرد و خواتین اور نیشنل عاملہ کے ممبران نے اپنے پیارے آقا کا پُر جوش استقبال کیا۔

استقبال کرنے والے یہ سینکڑوں لوگ بیلجیم کی 13؍جماعتوں سے آئے تھے۔ ان میں عرب نو مبائعین بھی شامل تھے۔ ہر کوئی پیارے آقا کا دیدار کر کے خوشی و مسرّت سے معمور تھا۔ بچیاں استقبالیہ گیت پیش کر رہی تھیں۔

اِس موقعہ پر مشن ہاؤس کے علاقہ دلبیک (Dilbeek) کے پولیس چیف Jurgen Coomansصاحب اپنے ایک پولیس آفیسر کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ حضور انور نے ان دونوں مہمانوں کو شرف مصافحہ سے نوازا اور ان سے گفتگو فرمائی۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا اور رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔

پولیس چیف Jurgen Coomansنے کہا حضور انور امن کے قیام کے لئے جو کوشش کر رہے ہیں اور انسانیت کی بھلائی کے لئے جو کام کر رہے ہیں میں اس سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ حضور انور جب یہاں سے جلسہ کے لئے جائیں گے تو ہم پولیس Escort دیں گے۔

نمازوں کی ادائیگی کے لئے مشن ہاؤس کے بیرونی احاطہ میں مارکی لگائی گئی تھی۔

آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لے آئے اور جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے انتظامات کا جائزہ لیا۔ اور ان کی رہائش کے انتظامات اور کھانا کھلانے کے انتظامات کے بارہ میں دریافت فرمایا۔

انتظامیہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ یہاں مشن کے احاطہ میں رہائش کے لئے ایک علیحدہ مارکی لگائی گئی ہے اور کھانا کھلانے کے لئے ایک علیحدہ مارکی میں انتظام کیا گیا ہے۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انڈونیشیا کے جو مہمان جرمنی سے یہاں جلسہ کے لئے آ رہے ہیں ان کا انتظام کہاں کیا گیا ہے۔ اس پر حضور انور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی گئی کہ ان کا انتظام Antwerpenکے مشن ہاؤس میں کیا گیا ہے۔ یہاں سے 45؍کلومیٹر ہے۔ نصف گھنٹہ سے کم کا راستہ ہے۔

حضور انور نے خواتین کے انتظامات کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر رپورٹ پیش کی گئی کہ ان کی رہائش کے لئے مسجد کا لجنہ ہال اور مردانہ ہال دونوں مہیّا کئے گئے ہیں اور کھانے کے لئے علیحدہ مارکی لگا کر انتظام کیا گیا ہے۔ جلسہ گاہ میں بھی ان کے کھانے کا علیحدہ ہال میں انتظام کیا گیا ہے۔

کھانا پکانے کے حوالہ سے حضور انور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی گئی کہ چار ہزار افراد تک کھانا مہیّا کرنے کا انتظام ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو شامل کر کے تعداد یہاں تک پہنچ جائے گی۔ اس کے پیش نظر ہم نے انتظام کیا ہوا ہے۔

MTA انٹرنیشنل کی لندن سے آنے والی Van پارکنگ ایریا میں پارک کی گئی تھی۔ حضور انور نے MTA کے سٹاف ممبر اور یہاں کی انتظامیہ سے دریافت فرمایا کہ یہ یہاں محفوظ ہے؟ اس پر انتظامیہ نے بتایا کہ جماعت کی اپنے پارکنگ کے احاطہ میں ہے اور محفوظ ہے اور یہاں سیکیورٹی موجود ہے۔

جماعت بیلجیم نے یہاں مشن کے بیرونی احاطہ میں مستقل طور پر ایک چبوترا بنایا ہوا ہے۔ چاروں طرف سے اینٹوں کی پکی دیوار بنا کر درمیان میں مٹی ڈالی ہوئی ہے۔ حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ سٹیج کو مستقل طور پر بنایا ہوا ہے تو پھر اسکو پکّا کر لیں۔

اس موقع پر مربیان بھی موجود تھے۔ حضور انور نے مربیان کو نصیحت فرمائی کہ باقاعدہ ورزش کیا کریں تاکہ مستعدّی کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔

بعد ازاں سوا آٹھ بجے حضور انور نے مارکی میں تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائیں ۔ نماز کے بعد حضور انور اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button