امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی ستمبر 2018ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

…ہمیں خواتین کا علیحدہ پردہ میں رہ کر اپنی کارروائی کرنا بہت پسند آیا ہے۔ بہت سارے لوگ شاید اسے منفی نظر سے دیکھیں گے مگر ہمیں بہت آزادی اور عزّت کا احساس ہوا ہے جو کہ مردوں کے ساتھ بیٹھنے سے نہیں ہوتا۔…مجھے حضور سے مل کر بہت خوشی ہو ئی ہے۔ میں حضور کی شخصیت سے بہت متاثر ہو ا ہوں۔ حضور نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والے ہیں۔ ان سے بات کر کے مجھے محسوس ہوا ہے کہ دل کی گہرائیوں سے وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔…اس جلسہ کے ذریعہ میں ایک نئی دنیا سے متعارف ہوا ہوں جس میں دنیا کے موجودہ مسائل کا حل موجود ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے ابھی اسلام سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ … احمدی مسلمانوں کا دوسروں کے لئے احترام خاص طور پر عورتوں کا احترام انتہائی متاثر کن ہے۔… اس جلسہ میں شرکت کے بعد مجھے معلوم ہو ا کہ زندگی کا مقصد ہم خیال لوگوں سے مل کے دوسروں کی خدمت کرنا ہے۔ …باقی تمام مسلمان صرف باتیں کرتے ہیں اورنفرتیں پھیلاتے ہیں۔ لیکن یہاں میں نے صرف محبّت،عزّت اور احترام دیکھا ہے۔

……………………جلسہ سالانہ جرمنی میں انڈونیشیا، جارجیا، لتھوانیا، لاتویا، سلووینیا، ایسٹونیا اور قزاخستان سے آنے والے وفود کی حضورِ انو رایّدہ اللہ سے ملاقات،

مختلف امور پر کئے جانے والے سوالات اور حضورِ انور کے بصیرت افروز جوابات

… … … … … … … …

9؍ ستمبر 2018ء بروز اتوار

(حصہ دوم ۔ آخری)

… … … … … … … …

جلسہ سالانہ کے حوالہ سےغیر از جماعت دوست اور نو مبائعین کے تاثرات

جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونے والے غیر از جماعت دوست اور بعض نو مبائعین حضور انور کے خطابات اور جلسہ کے انتظامات اور ماحول سے غیر معمولی متأثر ہوئے اور انہوں نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا۔ ان میںسے چند مہمانوں کے تأثرات ذیل میں درج ہیں۔

دو جرمن خواتین جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں:

ہمیں بہت خوف تھا کہ پہلی دفعہ مسلمانوں کے اجتماع میں شامل ہو رہی ہیں۔ ہمیں خواتین کے جلسہ گاہ میں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ خلیفۃ المسیح کی تقریر کا کچھ حصّہ سننے کا بھی اتفاق ہوا۔ ہم قدرے دیر سے پہنچے تھے۔

ہمیں خواتین کا علیحدہ پردہ میں رہ کر اپنی کارروائی کرنا بہت پسند آیا ہے۔ بہت سارے لوگ شاید اسے منفی نظر سے دیکھیں گے مگر ہمیں بہت آزادی اور عزّت کا احساس ہوا ہے جو کہ مردوں کے ساتھ بیٹھنے سے نہیں ہوتا۔

میں اسلام کو صرف ایک تشدّدوالا مذہب ہی سمجھتی تھی مگر یہاں آکر دیکھا کہ یہ سب باتیں غلط ہیں۔ خلیفۃالمسیح کی تقریر میں کسی قسم کے تشدّد یا انتقام کا پیغام نہیں تھا بلکہ خواتین کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف بڑے دھیمے لہجے میں توجہ دلا رہے تھے۔ مجھے اب افسوس بھی ہے کہ میں اسلام کو ایک جبر والا مذہب سمجھتی تھی۔ ہم دونوں اگلے سال پھر آئیں گی۔ خلیفہ کا خطاب بھی سنیں گی۔

ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہے کہ ہمیں بطور عیسائی جو عزّت اور احترام دیا گیا وہ عام مسلمانوں سے گفتگو کرتے ہوئے کبھی نہیں ملا۔ احمدیت ہی اسلام کی اصل شکل معلوم ہوتی ہے۔

ز…لتھوانیا سے آنے والے مہمان Mr. Jaronimas Laucius (محترم یارونیمس لاؤتسیس) اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں ایک writer ہوں اور میں یہاں اسلام کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے آیا ہوں۔ خدا کی واحدانیت کا درس جس انداز میں خلیفۃ المسیح نے دیا وہ بہت متاثر کن ہے۔ ان کے اس نکتہ نے کہ نا صرف عبادت کی جائے بلکہ خدا کو خوش کرنا مقصود ہونا چاہئے میرا دل جیت لیا۔ میں واپس جا کر جماعت کے بارہ میں اخباروں میں کالم بھی لکھوں گا اور اپنے میگزین کا ایک پورا شمارہ صرف جماعت کے بارہ میں شائع کروں گا۔ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ ایسا کرنے سے مجھے مخالفت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے لیکن میں حق کا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ میرا دل یہاں آکر نہایت خوش اور مطمئن ہوا ہے۔ میں خلیفۃ المسیح کے لئے اور جماعت کے لئے بہت نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔

ز…Mr. Tomas Cepaitis(مکرم تومس چیپائتس صاحب)نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

میں اس جلسہ کے ذریعہ پہلی مرتبہ حقیقی اسلام سے واقف ہوا۔ گو میں ہمیشہ سے ہی اسلام کے پیشواؤںکا احترام کرتا آیا ہوں اور مسلمانوں کے ساتھ یورپ میں رکھے جانے والے رویّہ کو دیکھ کر پریشان رہتا تھا اس جلسہ کے ذریعہ میں ایک نئی دنیا سے متعارف ہوا ہوں جس میں دنیا کے موجودہ مسائل کا حل موجود ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھے ابھی اسلام سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے حقیقی اسلام سے متعارف کروایا۔ خلیفہ صاحب سے ملاقات میں ان کی سادگی اور حسن کلام سے بہت لطف اندوز ہوا۔

ز…ایک مہمان Mr. Arturas Mirkevic (محترم آرتورس مرکیوتس صاحب)بیان کرتے ہیں: اس جلسے میں اسلام کو جاننے کے لئے بہترین مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ اسلام کے بارہ میں مطالعہ کے لئے بہت سی کتابیں بھی میسر ہیں۔ میں کچھ کتابیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں جن کو پڑھ کر میں اسلام کے بارہ میں اپنے علم کو مزید بڑھانے کی کوشش کروں گا۔

ز…Mrs. Indre Jasaite(محترمہ اندرے یاسائتے)صاحبہ بیان کرتی ہیں:اس جلسہ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی اور مجھے احساس ہوا کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ہم سب محبت اور انسانیت کے جذبے سے جڑے ہیں یہ اس جلسہ کا سب سے بڑا تحفہ ہے جو میں اپنے ساتھ لے کر جا رہی ہوں۔

ز…Mr. Dominykas Raudonius (دومنیکس راؤدونیس صاحب)اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: یہ جلسہ اسلام کی امن پسندی اور محبت کی عکاسی کرتا ہے میرے خیال میں ایسے جلسے اور زیادہ ہونے چاہئیں۔

ز…ایک اور مہمان Mr. Rimvydas Markevicius(محترم رمویدس مارکے وی چس صاحب)بیان کرتے ہیں:خلیفۃ المسیح کا دعا کرنے اور نماز پڑھانے کا انداز بہت متاثر کن ہے۔ اُن کی آواز میں نرمی ہے اور اُن کی آواز میں خدا کے لئے انتہائی محبت موجود ہے جو سننے والے کو دلی سکون بخشتی ہے۔ میں غیر مسلم ہوں اور مسجد میں جانے سے بہت گھبراتا تھا لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ ہر کوئی بلاتفریق مذہب آپ کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے۔ اب میں لندن جا رہا ہوں اور وہاں بھی احمدیوں کے ساتھ نماز ادا کرنے آپ کی مسجد جایا کروں گا۔

ز… ایک مہمان خاتون Mrs. Monika Gaidamaviciute(محترمہ مونیکا گائداماوی چیوتے صاحبہ)اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں: جب ایک پاکستانی دوست نے جلسے کی دعوت دی تو پہلے تو میں بہت ڈر رہی تھی کیونکہ بہت سے لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں لیکن میرے دل میں یہ خیال تھا کہ یہ جلسہ میرے لئے خاص ثابت ہو گا۔ اب میں یہاں موجود ہوں میرے ہر طرف مسلمان ہیں جو مجھے محبت ، عزم اور احترام سے مل رہے ہیں۔ احمدی مسلمانوں کا دوسروں کے لئے احترام خاص طور پر عورتوں کا احترام انتہائی متاثر کن ہے۔

ز…ایک دوست Mr. Aleksandras Sarapinas(محترم الیکساندرس ساراپینس) صاحب بیان کرتے ہیں:مجھے اس جلسہ میں بہت مزہ آیا۔ آپ کے خلیفہ صاحب کی تقاریر کا ہر لفظ واضح، عام فہم اور دل پر اثر کرنے والا ہے۔ وہ مسلمانوں اور تمام دنیا کو محبت کا درس دیتے ہیں۔ میں ان کی صحت و سلامتی کے لئے بہت دعا گو ہوں۔ خدا انہیں اپنے کام اسی طرح کرتے رہنے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین۔ میری بیٹی اور اس کا شوہر احمدی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ خلیفۃ المسیح ان کے لئے بہت دعا کریں۔

ز…ایک مہمان خاتون Mrs. Danguole Sarapiniene(محترمہ دانگوآلے ساراپی نی اِنے صاحبہ)بیان کرتی ہیں: احمدی مسلمان دوسروں کی عزت اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ احمدی اپنےمہمانوں کی خاص خدمت کرتے ہیں اور بچوں کو بڑوں کا ادب کرنا سکھاتے ہیں اور آپ بہت ایماندار لوگ ہیں۔ خلیفۃ المسیح اور دوسرے مقررین کی تقاریر سے اسلام کے بارہ میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔

ز…ایک مہمان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس جلسہ میں شمولیت سے اسلام کے بارہ میں سب خوف اور غلط فہمیاں دور ہو گئیں۔ در اصل آپ وہ لوگ ہیں جو امن لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ز…ایک مہمان نے کہا میں بہت متأثر ہوں کہ کیسے اتنی بڑی تعداد میں لوگ گرم جوشی اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ جلسہ نظم و ضبط اور خدمت خلق کی ایک عظیم مثال ہے۔

ز…ایک مہمان نے کہا میں بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اس جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ یہ جلسہ اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی تمام غلط فہمیوں کو دُور کرنے کا ذریعہ ہے۔

ز…ایک مہمان خاتون Mrs. Ieva Kerzaite (محترمہ ایواکیرزائتے) صاحبہ کہتی ہیں: جلسہ کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے میں جماعت کا ہی حصہ ہوں۔یہ جلسہ ہمیں برابری، محبت اور دوسروں کی خدمت کرنے کا سبق دیتا ہے۔ جس کا عملی مظاہرہ اسی جلسہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ز…ایک مہمان خاتون Mrs. Ruta Lovickaite (محترمہ رُوتا لووتسکائتے صاحبہ)بیان کرتی ہیں:اپنے حجم اور اہمیت کے لحاظ سے یہ جلسہ میری زندگی کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔ میں حیران ہوں کہ کس طرح رضاکار مسکراتے چہروں کے ساتھ سیکیورٹی کی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ دوسری ذمہ داریوں اور مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ز…Jamir Backrak Nomnoum صاحب جوکہ Telekom میں کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق سیریا سے ہے۔ انہیں جرمنی میں آئے تین سال ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں: جلسہ کی تقریر سُن کر میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ اور نظام بھی بہت اچھا تھا۔ اور بھائی چارہ بہت پسند آیا۔

ز…ایک میاں بیوی بلغاریہ سے آئے تھے۔ Mr. Borislav Naydenov and Mrs. Irina Naydenov اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں:انتظامات کو بہت پسند کیا۔ صفائی تھی۔ پانی اچھا تھا اور اس بات سے بہت خوش ہوئے کہ نئے تعلقات بنانے کا موقع ملا۔ تقاریر کو بھی پسند کیا کیونکہ دلائل بہت مضبوط تھے۔ حضور تمام مذاہب سے انصاف کرتے ہیں اور جو وہ کہتے ہیں وہ سچ ہے۔

ز…مکرم Yousuf Salib صاحب جوکہ لتھوانیا سے تشریف لائے تھے بیان کرتے ہیں: مَیں نے امسال جلسہ سالانہ میں پہلی مرتبہ شرکت کی ہے۔ اور مجھے احمدیوں میں بھائی چارہ دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ احمدی احباب بہت خوش اخلاق ہیں۔ اور مجھے یہاں آکر بہت اچھا محسوس ہوا۔

ز…جرمنی سے ایک مہمان مکرم Arber Brahimi صاحب کہتے ہیں: میں دنگ رہ گیا۔ کھانے کا انتظام بہت اچھا تھا۔ اچھی نصیحتیں ملیں کہ ہمیں مہاجرین کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ سب لوگ بہت مہمان نواز ہیں اور اچھے ہیں۔ بہت اچھے طریقے سے مجھے ڈیل کیا گیا ہے۔ ہمیں اسلام کے بارہ میں بہت اچھی اور پُر امن معلومات ملیں جو کہ ان سے بہت مختلف تھیں جو کہ ہمیں پیش کی جاتی ہیں۔

ز…کوسوو سے ایک مہمان مکرم Shamolli Bajram صاحب کہتے ہیں: مجھے سب کچھ بہت اچھا لگا۔ سب ٹھیک تھا۔ اور جو کہا سب سچ تھا۔ انتظامات زبر دست تھے۔

ز…مکرم ڈاکٹر ڈیٹلیف روزمن(Rösemann Detlev)جرمنی سے بیان کرتے ہیں: ان کو جماعت کا تعارف ایک احمدی فیملی سے ہوا۔ پہلے تو وہ اسلام سے خائف تھے، مگر جب ان کے اس احمدی فیملی سے روابط مضبوط ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان میں اعلیٰ قسم کے اخلاق ہیں، ہنس مکھ مزاج ہیں، خوش خلقی ان میں پائی جاتی ہے تو اس نے پوچھا کہ آپ ہیں کون؟ اس فیملی نے جواب دیا کہ ہم احمدی ہیں۔ اس پر سوال کیا کہ احمدیت کیا چیز ہے۔ اس طرح سے اس کے رابطے مزید احمدی احباب سے ہونے لگے اور اس کو معلوم ہوا کہ دوسرے مسلمان تو امن اور سلامتی کا نعرہ ہی لگاتے رہتے ہیں مگر جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس پیغام کو عملی جامہ پہناتی ہے۔

موصوف پھر اپنے بچوں کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آئے۔ حضورِ اقدس کے پُر نور چہرہ مبارک سے بہت متأثر ہوئے کہ اس میں ان کو سکون، قرار اور دل جمعی دکھائی دی اور اسی طرح حضورِ اقدس کا ٹھہر ٹھہر کر بات کرنا اِن کو بہت پسند آیا۔ جلسہ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ اور یہاں کا ماحول بھی بہت دوستانہ تھا۔

ز… جرمنی سے تعلق رکھنے والےڈاکٹر ڈیٹلیف گیورینگ (Detlev Görring)اپنے شہر کی پروٹسٹنٹ چرچ کے منتظم اعلیٰ ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمانوں سے بہت مختلف ہے۔ یہ امن کی تعلیم دیتی ہے۔ان کو جلسہ کا ماحول بہت پُر سکون معلوم ہوا۔ حضورِاقدس کے لجنہ کے خطاب سے وہ بہت متأثر ہوئے جس میں حضور اقدس نے عورتوں کی مختلف قربانیوں کا ذکر فرمایا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ گو کہ ہمیں جرمنی میں اب اتنے زیادہ مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا۔ جلسہ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ اسلام کے متعلق جو نمائش لگائی گئی تھی وہ بہت تاریخی تھی۔ اسی طرح ان کو یہ بات بھی محسوس ہوئی کہ جماعت اب میڈیا میں بہت نمایاں ہے۔

ز…مکرم Mammadou ba Cisse مالی کے شہری ہیں۔ جرمنی میں رہتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ: میری بڑی خواہش ہے کہ ایسے جلسوں میں بار بار شرکت کروں۔ لوگ بہت خوش مزاج اور خوش طبع تھے۔ جلسہ کا انتظام من کل الوجوہ بہت اچھا تھا۔ جو خلیفۂ وقت فرماتے ہیں اُن باتوں سے بالکل مختلف ہے جو میڈیا بتاتا ہے۔ دورانِ نماز حضور اقدس کی آواز نے میرے دل کو چھو لیا اور اتنے زیادہ لوگوں کا نماز پڑھتے وقت ایک ایسا پُر امن ماحول قائم کرنا عدیم المثال ہے۔

ز… Mrs. Trautzburg بیان کرتی ہیں: جلسہ سالانہ کے دن مجھے مکرمہ احمد صاحبہ نے مدعو کیا۔ میں بڑی خوشی سے شامل ہوئی اور اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ اتنی کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا گیا۔ موصوفہ نے مجھے بہت تفصیل کے ساتھ جملہ مسائل سمجھائے اور ان کی کوشش رہی کہ میں کسی طرح سے بھی اکیلا پن محسوس نہ کروں۔ میں بہت متاثر ہوئی ہوں اور خواہش کرتی ہوں کہ کاش آپ کے خلیفہ کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ غرض یہ ایک بہت دلچسپ اور پُر معارف جلسہ رہا۔

ز…مکرم Gehrt Hartjen صاحب جوکہ Religions for Peace کے صدر ہیں بیان کرتے ہیں کہ: جلسہ سالانہ ایک نہایت مؤثر اور دلچسپ event تھا۔ اس میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور میں یہاں کے نظم و ضبط پر بہت حیران ہوں۔

ز…Karl Heinz Bongarz صاحب بیان کرتے ہیں کہ: میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کی جماعت اتنی بڑی ہو گی۔ اس چیز نے مجھ پر بہت اثر کیا۔ مجھے جلسہ میں شمولیت بہت اچھی لگی۔ آپ کی جماعت انتہائی منظم ہے۔

ز…ایک پادری Dariuz صاحب بیان کرتے ہیں کہ: آپ کے خلیفہ کی تقریر بہت مؤثر تھی۔ مجھے جلسہ میں شامل ہو کر بہت اچھا لگا۔ مَیں اور میری اہلیہ آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ آپ کے خلیفہ عصر حاضر کے موضوعات پر گفتگو فرماتے ہیں۔ اور آپ نے عصر حاضر کے مسائل کے حال بیان فرمائے ہیں۔

ز…مکرم Khasib صاحب بیان کرتے ہیں کہ: میں نے جلسہ سالانہ جرمنی کارلسروئے میں شمولیت اختیار کی اور جلسہ سالانہ مجھ پر مثبت رنگ میں اثر انداز ہوا۔ آغاز سے اختتام تک بہت اچھے انتظامات تھے۔ اس سے قبل مجھے اس قسم کے پروگرام میں شمولیت کا موقع نہیں ملا۔ جلسہ سالانہ کا دوستانہ ماحول مجھے سب سے اچھا لگا۔ اس ماحول نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ میں نے فوراً اپنے حلقہ احباب میں اس کو بیان کیا۔ انتہائی لذیذ کھانے اور ہر قسم کی دیکھ بھال پر آپ کا مشکور ہوں۔ شکریہ شکریہ شکریہ۔ میں اگلے سالوں میں بھی جلسہ سالانہ میں شامل ہوں گا۔ اور آئندہ سال اپنے والدین کو بھی ساتھ لے کر آؤں گا۔

ز…جرمنی سے محترمہ Annette Sinn-Gründel پہلی دفعہ تشریف لائیں۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں: مہمانوں کے ساتھ دوستانہ رویہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئی۔ حضور کو اب تک ٹی وی سکرین پر دیکھا تھا۔ آج سامنے دیکھنے کا موقع ملا تو بہت خوشی ہوئی۔ خواتین کے لئے علیحدہ پردے میں انتظامات بہت پسند آئے۔ اس طرح خواتین آزادی سے اپنے پروگرام کر سکتی ہیں۔

… … … … … … … …

10؍ ستمبر 2018ء بروز سوموار

(حصہ اوّل )

… … … … … … … …

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ اور حضور انور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

مختلف ممالک سے آنے والےوفود سے ملاقاتیں

آج پروگرام کے مطابق مختلف ممالک سے آنے والے وفود کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقاتیں تھیں۔

انڈونیشیا کے وفد کی ملاقات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ دس بجکر 45منٹ پر مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں انڈونیشیا سے آنے والے وفد کی حضور انور سے ملاقات تھی۔ انڈونیشیا سے امسال جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر 95 ؍افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد آیا تھا۔ جس میں مرد حضرات اور خواتین شامل تھیں۔

حضور انور نے دریافت فرمایا: یہاں آپ کا بڑا وفد آیا ہے۔ یوکے جلسہ کی نسبت بڑا وفد ہے۔ جرمنی والوں نے آسانی سے ویزا دے دیا ہے۔

وفد کے ممبران نے بتایا کہ اس دفعہ انڈونیشین ترجمہ کا بہت اچھا انتظام تھا۔ محمود وردی صاحب انچارج انڈونیشین ڈیسک یوکے نے یہاں آ کر ترجمہ کی ذمّہ داری سنبھالی ہے۔ اور یہاں جرمنی جلسہ کے موقع پر پہلی دفعہ حضور انور کے خطبہ جمعہ اور خطابات کا Live انڈونیشین ترجمہ ہوا ہے۔

تاسک ملایا سے آنے والے ایک جماعتی عہدیدار نے حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے ایک اینٹ پیش کی اور بتایا کہ ہم وہاں کی پرانی مسجد میں توسیع کر رہے ہیں۔ تاسک ملایا وہی جگہ ہے جہاں 1945ء میں دس احمدی دوست شہید کئے گئے تھے۔ اب یہاں بڑی مسجد بنانی ہے جہاں ہزار کے لگ بھگ لوگ نماز ادا کر سکیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اینٹ اپنے دستِ مبارک میں لے کر دعا کی اور اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی اس اینٹ کے ساتھ مَس کی۔

وفد کے ممبران نے حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور انور ہمارے جلسہ سالانہ میں شمولیت فرمائیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا جب آپ انٹرنیشنل جلسہ کریں گے تو میں وہاں آؤں گا۔ ابھی آپ اپنے حالات کی وجہ سے ریجنل لیول پر جلسے کرتے ہیں۔ نیشنل لیول پر جلسہ نہیں ہوتا۔

سسٹر خدیجہ صاحبہ نے حضور انور کی خدمت میں نیشنل مجلس عاملہ اور لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا کی طرف سے سلام پہنچایا اور سب کے لئے دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا وعلیکم السلام۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔

ایک انڈونیشین بچی نے جو اس وقت جرمنی میں Kiel یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اپنی پڑھائی کے لئے دعا کی درخواست کی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا خدا تعالیٰ آپ کی خواہشات پوری فرمائے۔

بہت ساری خواتین نے باری باری حضور انور کی خدمت میں اپنے لئے، اپنی فیملی اور بچوں کے لئے دعا کی درخواستیں کیں اور حضور انور سے دعائیں حاصل کیں۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ میرے بچے وقف نو ہیں۔ میری ایک بیٹی یہاں جرمنی میں پڑھ رہی ہے۔ میرے بیٹے نے ہائی سکول کی تعلیم کے بعد میڈیسن میںجانا ہے۔ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں۔ ان سب کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ بچوں کو کامیاب فرمائے۔

ایک بزرگ دوست نے عرض کیا کہ میرے 16 پوتے پوتیاں، نواسے وغیرہ ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کب سب کو اکٹھے لا رہے ہیں۔

ملاقات کے آخر پر وفد کے تمام ممبران نے فیملی وائز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ ہر فیملی جب تصویر بنوانے کے لئے آتی تو جہاں مرد حضرات حضور انور سے شرف مصافحہ پاتے اور حضور انور کے دستِ مبارک پر بوسہ دیتے وہاں بعض خواتین اور بچیاں اپنے سر جھکاتیں حضور انور ازراہ شفقت اپنا دستِ مبارک ان کے سروں پر رکھتے اور دعاؤں سے نوازتے۔

انڈونیشین وفد کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کا یہ پروگرام گیارہ بجکر پندرہ منٹ تک جاری رہا۔

جارجیا کے وفد کی ملاقات

بعد ازاں ملک جارجیا (Georgia)سے آنے والے وفد نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت پائی۔

جارجیا سے 38؍افراد پر مشتمل وفد جلسہ جرمنی میں شامل ہوا۔ اس میں دو پادری صاحبان، دو مفتی صاحبان، شیعہ و سُنّی لیڈرز اور دیگر 30؍غیر از جماعت افراد شامل تھے۔

یہ جارجیا ملک سے پہلا وفد تھا جو جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوا۔

وفد کے ممبران نے حضور انور کی خدمت میںعرض کیا کہ ہم یہاں پر بہت خوش ہیں۔ یہاں ہمارا پہلا تجربہ ہے۔ ہم پہلی دفعہ جلسہ پر آئے ہیں۔ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا گیا ہے اور ہماری مہمان نوازی کی گئی ہے۔

مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے ایک جارجین دوست نے عرض کیا کہ ہمیں بہت خوشی ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی بھی جارجیا میں آئی ہے اور وہاں باقاعدہ جماعت نے اپنا مشن کھولا ہے۔ ہم جماعت کی طرف اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔

موصوف نے فریم کے اندر اپنے شہر کی ایک تصویر پیش کی اور کہا کہ یہ ایک سمبل (Symbol) ہے ہمارے تعلق اور محبت کا۔ آپ اسے قبول کریں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: تصویر دینے کا شکریہ اور جن خیالات کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کا بھی شکریہ!

حضور انور نے فرمایا تمام مسلمانوں کے لئے یہ ایک اصول ہے کہ سب باہم مل کر انسانیت کی بھلائی کی خاطر کام کریں اور معاشرہ میں امن، بھائی چارہ اور رواداری قائم کریں۔ یہ چیزیں اسلام کی تعلیم کی بنیاد ہیں کہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو پہچانیں اور اس کے حقوق ادا کریں اور خدا کی مخلوق کے حقوق ادا کریں۔ ہر بندہ دوسرے بندے کے حقوق ادا کرے۔

ایک خاتون نے عرض کیا کہ میں چرچ کی بشپ ہوں، میں بحیثیت بشپ آپ کی جماعت جرمنی کا دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ یہاں ہمارا استقبال کیا گیا اور ہمارا ہر طرح سے خیال رکھا گیا۔

ایک مہمان خاتون نے عرض کیا کہ خواتین کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔ ان کی جلسہ گاہ علیحدہ تھی۔ وہاں تقاریر بھی ہوئیں ۔ میں اس سے بہت متأثر ہوئی ہوں۔ حضور انور نے اپنے ایڈریس میں جو پیغام دیا ہے وہ سارے یورپ کے لئے بڑا اہم ہے۔ یہ ہر جگہ پہنچانا چاہئے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا ہماری کمیونٹی تو پہلے ہی امن، انصاف اور بھائی چارہ کا پیغام ہر جگہ پہنچا رہی ہے۔ آپ کی اپروچ بہتر ہے۔ آپ کے ریسورسز بہتر ہیں۔ آپ اس پیغام کو یورپ میں پہنچائیں۔ بحیثیت نان مسلم آپ کے الفاظ زیادہ اثر کرنے والے ہوں گے۔ تو آپ میری طرف سے سپوکس پرسن ہیں۔

ایک دوست نے عرض کیا کہ میں نے حضور انور کی تقاریر سنی ہیں۔ آپ کا پیغام بہت مؤثر ہے اور دنیا کے لئے ضروری ہے۔ میں باقاعدہ MTA سنتا ہوں۔ آج حضور کو پہلی دفعہ سامنے دیکھا ہے۔ اب ہم جماعت احمدیہ کے ساتھ جارجیا میں مل کر کام کریں گے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا آپ کا شکریہ۔

ایک مہمان نے عرض کیا کہ جلسہ کے انتظامات نے ہمیں بہت متأثر کیا ہے۔ حضور انور کی تقاریر سے میں بہت متأثر ہوا ہوں۔ تقاریر نے مجھ پر بہت اثر ڈالا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا: خدا تعالیٰ برکت دے۔ آپ یہاں جلسہ پر آئے اور یہاں وقت گزارا اور یہاں آکر آپ نے اسلام کی اصل تصویر دیکھی۔ جو اسلام ہم پیش کرتے ہیں وہ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا۔ اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیمات ہی ہم بیان کرتے ہیں۔ اب آپ کے لئے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسلام امن، سلامتی، محبت، بھائی چارے اور رواداری کا مذہب ہے۔ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

حضور انور کے دریافت فرمانے پر شیعہ اور سنّی مسلم کمیونٹی کے افراد نے بتایا کہ جارجیا میں آباد مسلم کمیونٹی کی تعداد نصف ملین کے لگ بھگ ہے اور ہم سب مل جل کر رہ رہے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: اب آپ دونوں نے اسلام کی اصل اور حقیقی تصویر دیکھ لی ہے۔ اور اس کا عملی نمونہ اور اظہار بھی دیکھ لیا ہے۔ اس زمانہ میں جماعت احمدیہ ہی ہے جو اسلام کی اصل اور حقیقی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔

جارجیا کے وفد میں شامل ایک مہمان جو پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہیں انہوں نے سوال کیا کہ آپ کی جماعت کا قیام جارجیا میں ہو گیا ہے۔ اس حوالہ سے آپ کی جارجین قوم سے کیا توقعات ہیں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مذہب دل کا معاملہ ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ لکھاگیاہے کہ ’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘ اس لئے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جب بھی کسی مذہب کا کوئی پیغام سنیں تو یہ کہنا نہ شروع کردیں کہ یہ سب جھوٹ اور فریب ہے بلکہ ایک دوسرے کی عزت کریں۔اسی طرح آپ اپنے اندر بھائی چارہ پیداکرسکتےہیں۔ یہی سب سے بنیادی چیز ہے جس کا اسلام ہر انسان سے تقاضاکرتاہے۔ اور اسی سے آپ دنیا میں امن کا قیام کرسکتے ہیں ۔ آج کل ’امن‘ دنیا کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ اس لئے اگر آپ امن چاہتے ہیں تو تمام مذاہب کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دوستانہ ماحول میں رہنا ہوگا۔ اورانہیں باتوں کی میں جارجین لوگوں سے توقع رکھتاہوں۔

جارجین وفد کے ممبران کے تأثرات

٭ اس وفد میں شامل ایک غیر احمدی مسجد کے امام Jambul Abduladze صاحب اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: میں جورجیاکی ایک مسجد کا امام ہوں اور میں احمدیہ جماعت کی دعوت پر جرمنی آیا ہوں۔ میں نے اسلام کے بارے میں بہت سی نئی چیزیں سیکھی ہیں جو میں پہلے نہیں جانتاتھا۔حضور کا ایک جملہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انسانیت کی مدد کریں۔ اسلام کا مذہب صرف اور صرف امن کا مذہب ہے۔ یہاں آکر ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیم معلوم ہوئی ہے۔

٭ ایک مہمان Lako صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ: میں پہلی دفعہ جلسہ سالانہ میں آئی ہوں اور مجھے یہ جلسہ بہت ہی پسند آیا ہے یہاں کی ہر ایک چیز مجھے بہت اچھی لگی ہے۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

٭ وفد کی ایک ممبر خاتون Irma Dimitradze صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ: میں آج عورتوں کے پروگرام میں شامل ہوئی ہوں اورمجھے حیرت تھی کہ عورتیں تمام پروگرام کیسے manage کریں گی۔ یہ بہت حیران کُن تھا کہ سیکیورٹی چیک بھی عورتیں خود ہی کررہی تھیں۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا اور میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

٭ ایک اور مہمان Eteri Kotrikadze صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ: میں پہلی دفعہ جلسہ پر آئی ہوں اور خلیفہ کی تقریر سے بہت ہی متاثر ہوئی ہوں۔ خلیفہ نے اسلام کے حقیقی پیغام کا ذکر کیا۔ میں اس بات پر بہت خوش ہوں اور میں آپ سب کو سلام کہتی ہوں۔

٭ وفد میں شامل ایک مہمان خاتون Rusudan Gotsiridze صاحبہ کہتی ہیں کہ:میںنےآج صبح عورتوں کا پروگرام دیکھا اور مجھے بہت ہی اچھا لگا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔سب سے اچھی بات جو میں نے دیکھی وہ تھی کہ خلیفہ اپنے ہاتھوں سے تعلیمی ایوارڈز دے رہے تھے۔

٭ وفد میں شامل ایک دوست محمد حسین اکبر صاحب اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: ہم بچپن سے سن رہے ہیںکہ کوئی مہدی آئےگا جو دنیاکو تبدیل کرے گا اور ہم اسی کے انتظار میں رہے۔ اب پہلی مرتبہ میں سن رہا ہوں کہ وہ مہدی جس کے ہم منتظر تھے وہ گزر بھی گیا ہے اور اب اس کے خلفاء کا سلسلہ جاری ہے۔ میں اب جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کروں گا اور مجھے امید ہے کہ مجھے اطمینان حاصل ہوگا۔

٭ جارجیا سے Bishop Malkhaaz صاحب بھی جلسہ پر شریک ہوئے تھے۔ یہ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:جماعت احمدیہ ہی وہ جماعت ہے جو تمام مذاہب کو آپس میں ملا سکتی ہے۔ جماعت احمدیہ ہی ہے جو بغیر کسی معاوضہ کے اپنی ساری توانائی امن و سکون کے لئے خرچ کرتی ہے۔ جماعت کا خلیفہ اس امن و سکون کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ میں پہلے بھی یو کے جلسہ پر آیا تھا اور اس وقت خلیفہ کی اقتدا ء میں نماز بھی ادا کی۔ میری بڑی شدت سے یہ خواہش تھی کہ میں خلیفہ سے دوبارہ ملوں۔ یہ خواہش اب پوری ہوگئی ہے اور میں بہت ہی خوش ہوں کہ میں جلسہ میں شامل ہوسکا ۔

جارجیا کے وفد کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے یہ ملاقات گیارہ بجکر چالیس منٹ تک جاری رہی۔ ملاقات کے آخر پر تمام ممبران نے باری باری حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

دیگر ممالک کے وفود کی ملاقات

اس کے بعد پروگرام کے مطابق لتھوانیا (Lithuania)، لاتویا(Latvia)، سلووینیا (Slovenia)، ایسٹونیا(Estonia) اور قزاخستان (Kazakhstan) سے آنے والے وفود نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

لتھوانیا سے پچاس افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جن میں چالیس غیر از جماعت دوست اور دس احمدی احباب تھے۔

ملک لاتویا (Latvia)سے 22 ؍افراد پر مشتمل وفد نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی۔ جبکہ سلووینیا (Slovenia)سے چھ افراد پر مشتمل وفد شامل ہوا۔

ایسٹونیا (Estonia) سے پانچ افراد پر مشتمل وفد نے اور ملک قزاخستان (Kazakhstan)سے سات افراد پر مشتمل وفد نے جلسہ میں شرکت کی۔

ان پانچوں ممالک سے آنے والے وفود کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجتماعی ملاقات ہوئی۔

حضور انور نے وفد کے ممبران کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔

٭ لتھوانین وفد میں شامل ایک مہمان جو پیشہ کے اعتبار سے رائٹر ہیں انہوں نے سوال کیاکہ جماعت احمدیہ اس وقت دنیا میں ایسا کیا کررہی ہے جس سے دنیا کے طبقات میں موجود فرق کو دور کیاجاسکے؟

اس کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:احمدیہ جماعت کا مشن ہی یہ ہے کہ بندے کو خدا کے قریب لانا اور اسے خداکی پہچان کروانا ہےاور دوسرا یہ کہ انسان کو انسانی اقدار کی پہچان کروانا۔ یہی اسلامی تعلیم کی بنیاد ہے اور اسی تعلیم کو جماعت احمدیہ دنیا میں پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا جماعت احمدیہ کے پیغام کو سنتی ہے اور appereciate کرتی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے اور اس کی مخلوق کے حقوق اداکروگے تو تم اللہ کی نظر میں بہتر ہوگے اور اللہ تم سے راضی ہوگا۔ قرآن نے یہ واضح کردیاہے کہ اگر تم بندوں کے حقوق ادانہیں کررہے تو بے شک تم جتنی چاہے نمازیں پڑھنے والے ہو، تمہاری یہ نمازیں تمہارے لئے ہلاکت ہوں گی اور یہ نمازیں تمہارے منہ پر مار دی جائیں گی۔بعض حالات میں انسانی حقوق عبادت سے بڑھ جاتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انہی چیزوں کے لئے ہم کوشش کررہے ہیں اور آج کل کی دنیا کے حالات کے پیشِ نظر ہم ساری دنیا کی اصلاح ایک دن میں نہیں کرسکتے۔ ہم کوشش جاری رکھیں گے اور اس کام کوآنے والی نسلوں تک جاری رکھیں گے یہاں تک کہ ساری دنیا اس چیزکو realise کرلے۔

٭ لتھوانین وفد میں شامل ایک دوست نے سوال کیاکہ ایک عیسائی ہونے کے ناطے ایک عیسائی کو مسلمانوں کے درمیان کیسے رہنا چاہئے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: عیسائیت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے، یہودیت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے ، اسلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیاہے، تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں۔ اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے خدا کو پہچاننا چاہئے اور اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا چاہئے نہ اُن تعلیمات پر عمل کرناچاہئے جنہیں مذاہب کے بعض علماء بگاڑ دیتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ ’اہلِ کتاب سے کہہ دو کہ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ۔ یعنی ایسی بات پر اکھٹے ہوجاؤجو تمہارے اور ہمارے درمیان common ہے۔ اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس اُس ذات پر یقین کرتے ہوئے اور اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہم سب اکٹھے مل کرکام کریں۔پس یہی وہ بنیادی تعلیم ہے جس کے مطابق ہم دنیا میں کام کررہے ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے ہمارے تمام مذاہب کے ساتھ اور دنیا کے ہر شریف آدمی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

٭ لتھوانین وفد میں شامل ایک خاتون نے سوال کیا کہ حضورانور نے جو غیرمسلم ممالک کے مختلف دورے کئے ہیں ان کے حوالہ سے حضورانور کاکیا تأثرہے ؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میں تو رہ ہی غیر مسلم ملک میں رہاہوں۔ میں سیریا یا عراق یا سعودی عرب سے تو نہیں آیا۔ اس لئے یہ جو غیر مسلم ممالک ہیں ، وہاں ابھی تک کم از کم مذہب کی tolerance موجودہے۔اورمیرا خیال ہے کہ جب تک یہ موجود رہے گی، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی بہتر رہیں گے کیونکہ یہ ہرمذہب کو کھل کر اپنے عقائد پر عمل کرنے اور ان کی تبلیغ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جس برداشت کا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پیداکرنے کا حکم دیاتھا اور آنحضرت ﷺ نے اس کا اظہارکیا تھا اُسی کی اس وقت اکثر مسلمان ممالک میں کمی ہے۔ پس اصل چیز یہی ہے کہ جن لوگوں میں یہ برداشت رہے گی اور جن میں انسانی اقدار رہیں گی وہی بہتر ہیں۔

٭ لٹویا کے وفد کی ایک خاتون نے سوال کیاکہ مرد اور عورت آپس میں ہاتھ کیوں نہیں ملاسکتے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہرمذہب کی اپنی تعلیم ہوتی ہے اور اسلامی تعلیم کے مطابق غیر مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ نہیں ملاسکتے۔ اور یہ حکم اس لئے نہیں ہے کہ عورت کی حیثیت کم ہے بلکہ بعض تحفّظات ہوتے ہیں اور عورت کی عزت قائم کرنے کے لئے اسلام نے اس چیز سے منع کیاہے۔ اور یہودی عورتوں کے لئے بھی یہی تعلیم ہے کہ ہاتھ نہیں ملانا۔ نہ مردوں نے عورتوں سے اور نہ عورتوں نے مردوں سے۔ اب امریکہ میں ہماری مسجد کے قریب ہی یہودیوں کا ایک synagogue بھی ہے وہاں یہودیوں نے ایک فنکشن کیااوروہاں کے ربائی نے کھل کر اعلان کیاکہ مجھ سے اگر کوئی عورت ہاتھ ملانا چاہے گی تو میں ہاتھ نہیں ملاؤں گا کیونکہ میرا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس کے خلاف کوئی نہیں بات کرتاکیونکہ یہودیوں کے خلاف بولنے سے قانونی جرم عائد ہوجاتے ہیں۔ ایک مرتبہ مجھے خود یہودی عورت ملی اور اُس نے مجھے بتایاکہ ہمارے مذہب میں بھی مرد سے سلام کرنا یعنی ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے صرف ہاتھ ملانے کے ایشو کو اتنا اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اور بھی تو کئی خوبیاں ہیں، ان کو کیوں نہ دیکھاجائے؟جہاں تک عورت کی عزت کا سوال ہے تو اگر کسی عورت کو ضرورت ہو یاکسی جگہ عورت مشکل میں گرفتار ہے تو میں اپنے متعلق یا اپنی جماعت کے متعلق کہہ سکتاہوں کہ سب سے پہلے ہماری جماعت کے ممبران ایسی عورت کی مددکیلئے آگے آئیں گے چاہے اس کواپنے ہاتھوںسے اُٹھاکرہی لے جاناپڑے۔ اور یہی عورت کی اصل عزت اور احترام ہے جو کرنی چاہئے نہ کہ صرف ہاتھ ملانے سے ہی عورت کی عزت قائم ہوتی ہے۔ اس بات کواب دنیا بھی realiseکررہی ہے۔ جو Hollywood میں واقعہ ہواہے اس کے بعد مردوں پر کتنے الزام لگناشروع ہوگئے ہیں؟یہاں جرمنی میں برلن میں عورتوں نے اپنا علیحدہ دفتر وغیرہ بنایاہے اور وہ کہتی ہیں کہ مرد غلط قسم کی حرکتیں کرتے ہیں اس لئے ہم نے اپنا علیحدہ ادارہ بنایاہے۔اس لئے اسلام نے جو تعلیمات دی ہیں وہ ہر برائی کے چھوٹے سے چھوٹے امکان سے بھی بچنے کے لئے دی ہیں۔ اس لئے ہم تو یہ سب عورت کی عزت قائم کرنے کیلئے کرتے ہیں نہ کہ اس کی عزت کم کرنے کے لئے۔

ممبران وفد کے تأثرات

٭ لتھوانیا سے آنے والے وفد کی ایک ممبر Leva Kerzaite صاحبہ نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:جلسہ کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے میں جماعت کا ہی حصہ ہوں۔ یہ جلسہ ہمیں برابری ،محبت اور دوسروں کی خدمت کرنے کا سبق دیتا ہے۔جس کا عملی مظاہرہ اسی جلسہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

٭ ایک مہمان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس جلسہ میں شمولیت سے اسلام کے بارے میں سب خوف اور غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ دراصل آپ وہ لوگ ہیں جوامن لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ میں بہت متاثر ہوں کہ کیسے اتنی بڑی تعداد میں لوگ گرم جوشی اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ جلسہ نظم وضبط اور خدمت خلق کی عظیم مثال ہے۔

لتھوانیا کے Valdon Idriziصاحب بیان کرتے ہیں کہ:پہلی دفعہ جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی۔ خلیفہ نے بڑی تفصیل سے اور انتہائی آسان الفاظ میں اور محبت سے اخلاق کے بارے میں مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ جو کہ کسی بھی معاشرے کے لئے بہت ہی عمدہ لائحہ عمل ہے۔

٭ لتھوانیا سے Thomas صاحب اور ان کے دوست پہلی مرتبہ جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:اتنے بڑے اجتماع کا مشاہدہ کر کے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ترجمہ کا معیار بہت اچھا تھا اور حضور انور کے خطبات سن کر بہت سرور ملا کیونکہ خلیفہ کی باتوں کی مثال نہیں ملتی ۔اور یہ تعلیم اس تعلیم کے بالکل مخالف ہے جو میڈیا میں آتی ہیں۔جلسہ کے تمام کارکنان بھی بہت اچھی طرح پیش آئے۔

٭ لتھوانیا سے Daila Umbrasiene صاحبہ بیان کرتی ہیں:آپ کی جماعت کی روایات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا آپ کے خلیفہ سے ملاقات نے بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ میں سب کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہی ہوں۔

٭ لتھوانیا سے ایک طالبِ علم Aurelija Einoryte صاحبہ بیان کرتی ہیں:میں اس جلسہ سالا نہ پر شرکت کی دعوت پر بہت شکرگزار ہوں۔ جلسہ کا ماحول بہت محبت والا اوردوستانہ ہے۔ ایک لمبے عرصہ سے میں زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ اس جلسہ میں شرکت کے بعد مجھے معلوم ہو ا کہ زندگی کا مقصد ہم خیال لوگوں سے مل کے دوسروں کی خدمت کرنا ہے۔

٭ ایک طالبِ علم Eimis Vengrauskas صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:اس جلسہ میں شامل ہوکر میں کہہ سکتا ہوں کہ جلسہ دراصل اسلام کی اصل تصویر دیکھنے کا موقع ہے جو کہ میڈیا دکھانےسے قاصرہے۔ میرے لئے سب سے متاثر کن بات لوگوں کا باہمی تعلق اور محبت اور ان کے ہر وقت مسکراتے چہرے ہیں ۔ آپ کے خلیفہ کی شخصیت نہایت متاثر کن ہے۔ وہ مجسم محبت ہیں اور ان کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ محبت کو جسم کی شکل میں دیکھ رہاہوں۔

٭ ایک طالبِ علم Saufe Bulavarte صاحبہ بیان کرتی ہیں:میرے لئے جلسہ میں شمولیت اور خلیفہ سے ملنے کا دوسرا موقع ہے۔یہ جلسہ میرے پہلے جلسہ سے بہتر ہے کیونکہ اس دفعہ میرے پاس اسلام کا علم پہلے سے زیادہ ہے۔ حضور کی کچھ تقاریر کا Lithuanian زبان میں ترجمہ کر نے کے بعد میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ وہ ایک ہدایت کی روشنی ہیں جو جتنا چاہے اس نور سےفائدہ اٹھا سکتا ہے۔

٭ ایک طالبِ علم Ausra Umbrasaite صاحبہ بیان کرتی ہیں:میں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہوئی ہوں اور میں نے یہا ں بہت کچھ سیکھا ہے۔ عصرِ حاضر میں اس طرح کے اجتماعات کی بہت اہمیت ہے کیونکہ عام طور پر لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارہ میں بہت سی غلط فہمیاں موجود ہیں ۔ جماعت احمدیہ کا یہ حسن ہے کہ دوسرے مذہب کے ماننے والوں کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل ہوتا دیکھ کر اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر نے کا بھی حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلم لوگوں کی دوریاں ختم ہو سکتی ہیں ۔ میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ مجھے جلسہ سالانہ میں بطور مہمان شمولیت کی توفیق ملی۔

٭ ایک طالبِ علم Jokubas Cepartis صاحب کہتے ہیں:جلسہ سالانہ میں شرکت کر کے مجھے لگ رہا ہے کہ میں اس جماعت کا حصہ ہوں، اب مجھے زندگی کا مقصد سمجھ آیا ہے۔ مجھے حضور سے مل کر بہت خوشی ہو ئی ہے۔ میں حضور کی شخصیت سے بہت متاثر ہو ا ہوں۔ حضور نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والے ہیں۔ ان سے بات کر کے مجھے محسوس ہوا ہے کہ دل کی گہرائیوں سے وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔ اسلام کی حقیقت کو میں نے پالیا ہے اور آج بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں۔ میں اکثر اوقات شکوک میں مبتلا رہتا تھا لیکن اب اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کر کےباقی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا۔

٭ لٹویا سے ایک میڈیکل کے سٹوڈنٹ Benjamin Karimصاحب لٹویا اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہونا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ یہ جلسہ اُن تمام لوگوں کا اجتماع ہے جو کہ مضبوط ایمان اور مطمئن روحوں کے مالک اور بھائی چارے والے پر امن لوگ ہیں۔ میرے لئے یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ کس طرح ہر کوئی محویّت کے ساتھ تقاریر سننے اور اپنے کام میں مگن تھا۔ حضورِ انور کو دیکھنا اور سننا بھی میرے لئے اعزاز تھا کہ کس طرح انہوں نے جرمنی میں مہاجرین کے معاملے اور اسلام کے بارہ میں لوگوں کے دلوں میں پائے جانے والےخوف کے متعلق بھی بات کی۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جماعت احمدیہ دنیا میں امن کا پرچار کر رہی ہےاور جرمن معاشرے میں دوستانہ ہمسائیگی اورخدمت پر زور دےرہی ہے۔مجھے یہ بھی حیرت ہوئی کہ کس طرح لوگ میری طرف آ رہے تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ میرے جذبات واحساسات کیا ہیں۔ فلاحی ادارے، بُک سٹور، ٹی وی سیٹلائیٹ، کھانا پینااور وہاں کے بازار، ہر چیز نے مجھے بہت متاثر کیا، یہ پاکستانی ثقافت کو جرمنی میں لانے کی ایک اچھی کوشش تھی۔ مجموعی طور پر مجھے اسلام احمدیّت اور پاکستانی ثقافت کو جاننے میں کافی مدد ملی۔

٭ لٹویا میں ایک غیر احمدی پاکستانی محمد جنید سلیمی صاحب ماسٹرز کی تعلیم حاصل کررہےہیں۔یہ بھی جلسہ پر شامل ہوئے اور اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں گزشتہ ماہ ہی سٹڈی ویزہ پر پاکستان سے لٹویا آیا ہوں۔مجھے بھی جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جو کہ شش و پنچ کے بعد میں نے قبول کرلی۔ جب میں جلسہ گاہ پہنچا تو وہاں انتظامیہ کو دیکھ کر میں بہت حیران ہوا کیونکہ وہاں بہت زیادہ لوگ تھے ۔انتظامیہ بڑی خوبصورتی اور سمجھداری سے سب کو سنبھال رہی تھی ۔جلسہ گاہ میں بہت سارے لوگ تھے جن میں کافی سارے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم مہمان تھے اور ان سب کو اس لئے دعوت دی گئی تھی تاکہ وہ دین اسلام کو آکر خود مشاہدہ کریں۔ میں نے اتنا پیار ،محبت، عزّت، احترام اور مہمان نوازی کبھی اپنی پوری زندگی میں کہیں نہیں دیکھی جتنی میں نے وہاں دیکھی اورمجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ اس سے تمام غیر مسلموں پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور وہ دین اسلام کی طرف آنے کی ضرور کوشش کریں گے۔میں کیونکہ احمدی نہیں ہوں اس لئے میرے دل میں بھی کچھ غلط فہمیاں تھیں جو ہر دوسرے فرقے والے مسلمان کے دل میں ہوتی ہیں۔ وہاں جب میں نے تقاریر سنیں اور وہاں پر لکھے ہوئے کلمات دیکھے اور نماز بھی پڑھی تو مجھے کوئی فرق نہیں لگا۔یہی سب کچھ ہم بھی کرتے ہیں اور یہی سب کچھ احمدی بھی کر رہے ہیں۔ ان کا کلمہ بھی وہی ہے،نماز بھی وہی اور قرآن بھی وہی۔ سب سے زیادہ قابل غور بات ختم نبوت تھی جس پر میں اب سوچنے پہ مجبورہو گیا ہوں کہ غورو فکر کروں کہ کیا میں اپنے فرقے کو سچا کہوں یا احمدی فرقےکو۔ سب سے بڑا فائدہ مجھے جلسہ پر آنے کا یہی ہوا ہےکہ میں نے احمدی لوگوں میں بیٹھ کر سب کچھ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے اور اب میں اپنے طور پراچھی طرح دیکھوں گا کہ اسلام اصل میں کیا ہے اور ختم نبو ت کیا ہے؟ مجھے حضور کی تقریر بہت پسند آئی،خاص کر آ خری دن والی۔جلسہ ختم ہونے کے اگلے دن میں نے اُن سے ملاقات بھی کی اور مجھے اُن سے مل کر بہت اچھا لگا۔ وہ بہت ہی خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔یہ چار دن میری زندگی کے بہت ہی اچھے دن تھے۔ باقی تمام مسلمان صرف باتیں کرتے ہیں اورنفرتیں پھیلاتے ہیں۔ لیکن یہاں میں نے صرف محبّت،عزّت اور احترام دیکھا ہے۔میرے ساتھ کچھ غیر مسلم دوست بھی تھے وہ مسلمانوں کے اِس رویّہ سے، اِس عزّت و احترام سے جو احمدیہ جماعت نے اُن کو دیا بہت زیادہ متاثر تھے۔ انتظامی ٹیم خواہ وہ کوئی بھی تھی، ہر کسی نے بہت پیار ، محبت،عزّت واحترام سے بات کی اور گائیڈ کیا اوراتنے بڑے جلسہ کو اتنی خوبصورتی سےمینج (manage) کیا۔ مہمانوں کی رہائش سے لے کرکھانے پینے اور ٹرانسپورٹ کے انتظام اور اِس کے علاوہ بھی ہر ضروری انتظام دیکھ کر میں جماعت احمدیہ سے بہت متاثر ہوا ہوں اور دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

٭ یونیورسٹی آف ایگریکلچر لٹویا کے ایک سری لنکن لیکچرار Lakmal Kularatne صاحب بھی جلسہ میں شریک ہوئے۔ یہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:سچّی بات یہ ہے کہ جب میں نے اس میں شمولیّت کا فیصلہ کیا تو مجھے تھوڑا سا خوف تھا کہ کہیں اس تقریب پر کوئی دہشت گردی کا حملہ نہ ہوجائے۔ مگر جب میں نے اس جلسہ کی سیکیورٹی دیکھی تو میں نے محسوس کیا کہ کوئی بھی اس پروگرام کو یا اس میں شریک کسی بھی فرد کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔میں اس پورے پروگرام کی سیکیورٹی کو بہت appreciateکرتاہوں۔ باوجود اس کے کہ میرے بہت سے سری لنکن مسلمان دوست ہیں مگر ایک بدھ گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے مذہب اسلام کے بارہ میں مجھے کوئی خاص علم نہیں تھا۔ جلسہ نے مجھے حقیقی اسلام کے بارہ میں تعلیم دی ہے اور دوسرے اسلامی گروپوں کے بارہ میں بتایا ہے، اسی طرح احمدیہ فرقہ اور دوسرے گروپوں کے درمیان فرق واضح کیاہے۔ اس تقریب سے جو بہترین چیز میں نے اخذ کی ہے وہ یہ ہے کہ احمدیہ جماعت ایک محبّت کرنے والی جماعت ہے میں اس کو بہت زیادہ سراہنا چاہتا ہوں۔

میں آپ کی جماعت کی انتظامی صلاحیّت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور یہ چیز واضح اشارہ دے رہی ہے کہ آپ لوگ دنیا کی درست سمت میں راہنمائی کرسکتے ہیں۔

٭ لٹویا سے ایک طالبہ Gloriya صاحبہ پہلی مرتبہ کسی اسلامی پروگرام میں شرکت کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:مجھے سب کچھ بہت اچھا لگا۔ کھانا بہت زیادہ لذیذ تھا۔ لوگ بہت خوش اخلاق تھے۔ ڈیوٹی پر مامور خواتین ہمیشہ مسکرا کر ملتی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ سب چھوٹے بڑے ماحول کو صاف رکھنے میں کوشاں تھے۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا۔ میں نے اپنے آپ کو بہت آرام دہ محسوس کیا۔ مجھے وہ نظارہ اچھی طرح یاد ہے جب میری نظر سکرین پر پڑی اور میں نے دیکھا کہ مردانہ مارکی میں سب لوگوں نے ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔اس کانفرنس میں شامل ہوکر اسلام کے بارہ میں میرے خیالات بالکل تبدیل ہوگئے ہیں۔ اور یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس دنیا کی بھلائی چاہتے ہیں۔

٭ مکینکل انجینئرنگ کے ایک انڈین طالبِ علم Vinayصاحب بھی جلسہ پر آئے تھے۔ یہ کہتے ہیں:میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسی یکجہتی اور ایسے خوبصورت انتظامات نہیں دیکھے۔ جو کچھ میں نے جلسہ میں مشاہدہ کیا ہے اُس نے مجھے بہت حیران اور متاثر کیا ہے۔ ترجمہ کا معیار بہت اعلی تھا اور اسی طرح جو کھانا فراہم کیا گیا وہ بھی اعلی درجہ کا تھا۔ ہر کسی نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ یہ پروگرام میری زندگی کا ناقابل فراموش حصّہ ہے۔

٭ لٹویا سے ایک اور انڈین طالبِ علم Omkar صاحب جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ کہتے ہیں:جلسہ میں شامل ہونا یقینًا اعزاز کی بات ہے۔ جلسہ میں شمولیت کا موقع ملنے پر میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت خیال کرتا ہوں۔ یہ اجتماعی کام اور انتظامات کا ایک بہترین نمونہ تھا۔ اس کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف ٹیمیں بڑی محنت و جانفشانی سے کام کررہی تھیں۔ ٹرانسپورٹ کی ٹیم نے شاندار کام کیا۔ اسی طرح رہائش اور کھانے کے انتظامات بھی بہت اعلی تھے۔ مجھے جلسہ میں شمولیت کا موقع دینے پر آپ کا بہت ممنون ہوں۔

٭ لٹویا سے ایک اور انڈین طالبِ علم Sanket صاحب کہتے ہیں:میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو کچھ میں نے جرمنی میں دیکھا وہ بہت حیران کن تھا۔ اس وقت تک مجھے احمدی مسلمانوں اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان فرق معلوم نہیں تھا۔ یہ لوگ بہت اچھے تھے اور ہمارے ساتھ انہوں نے بہت شفقت کا سلوک کیا۔ رہائش اور ٹرانسپورٹ کا انتظام بہت اچھا تھا۔ پروگرام کی اچھی بات یہ تھی کہ ہر ایک کو اس ہال میں ایک مناسب جگہ دی گئی۔ ہم انڈیا سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ہمارا اس طرح خیال رکھا کہ جیسے ہم بھی اُسی فیملی کا حصّہ تھے۔ مجھے سب کے سب پروگرام اور انتظامات بہت پسند آئے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ اس وسیع پروگرام کا ایک چھوٹا سا participant ہوں۔ آپ کا بہت شکریہ۔

٭ لٹویا کے وفد میں ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیکل کے طالبِ علم Alkanصاحب بھی تھے۔ یہ اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:یہ بہت ہی دلچسپ پروگرام تھا۔ ان تین دنوں کے دوران میں نے اسلام اور احمدیہ جماعت کے بارہ میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ خاص طور پر دنیا میں امن قائم کرنے کاتصورتمام تقاریر میں باربار دہرایا گیا۔ یہ پروگرام بہت ہی متاثر کُن تھا اور انتظامات بہت زبردست تھے۔

٭ لٹویا کے وفد میں شامل ایک لڑکی Anastasia صاحبہ نے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کے غیرمسلم مہمانوں سے خطاب کے حوالہ سے بیان کیا کہ: مجھے حضور انور کا خطاب بہت پسند آیا اور اُنہوں نے جو باتیں کی تھیں وہ بالکل درست تھیں اور مجھے بہت اچھی لگی ہیں۔

اس خطاب کے لئے یہ مردانہ جلسہ گاہ میں آئی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کا تمام وقت لجنہ مارکی میں ہی گزرا۔کہتی ہیں کہ:مردوں کے درمیان بیٹھے مجھے شرم آرہی تھی اور مجھے عجیب لگ رہا تھا کہ میرے سر پر دوپٹّہ نہیں ہے۔

٭ لٹویا سے Sabine صاحبہ بھی کسی مسلم پروگرام میں پہلی مرتبہ شریک ہورہی تھیں۔ یہ کہتی ہیں:یہ پروگرام بہت اچھا تھا۔ میں نے تمام sessions سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اسلامی کلچر اور مذہب بہت ہی خاص ہے اور لوگوں کے لئے خاص طور پر آیا ہے۔ مجھے خصوصًا کھانا بہت اچھا لگا۔ ہماری ہوٹل میں جو رہائش تھی وہ بھی بڑی خوبصورت تھی اور مجھے بہت پسند آئی ہے۔ تمام sessions میں کارکنان بہت ہی مددگار اور خیال رکھنے والے تھے۔ میرا سب سے پسندیدہ دن فرینکفرٹ شہر میں گزرا۔

٭ اسٹونیا سے ایک مہمان Rainer صاحب جلسہ پر تشریف لائے تھے۔ انہوں نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا:یہ میرا جلسہ سالانہ میں شمولیت کا چوتھا موقع تھا۔ ہر دفعہ جلسہ میں شامل ہوکر مختلف تاثرات ہوتے ہیں۔ اور نئے تجربات ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کئی نئی باتیں سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔پاکستانی اور دیگر احمدیوں کو جاننا اور ملنا ہر دفعہ دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ میں نے ایسی کوئی اور قوم نہیں دیکھی جو اتنی بڑی تعداد میں اکٹھی ہو ، اپنے روایتی لباس پہنے ہوئے ہو، اچھے اخلاق دکھا رہے ہوں۔ آج تک میری آنکھوں نے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والوں سے کوئی بُرا رویّہ سرزد ہوتے نہیں دیکھا۔

ایک اَور چیز جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ نماز کے پڑھنے کا طریقہ ہے۔ تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی بھی وہاں سے علیحدہ ہو کر اپنی نماز نہیں پڑھنا چاہتا۔ اتحاد کا کیا ہی اعلیٰ نمونہ ہے۔

یہ باتیں ایسی تھیں جنہوں نے مجھ پر بہت گہرا اثر ڈالا اور اسی وجہ سے میں نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران بیعت کرنے کی بھی سعادت حاصل کی۔ یہ اسٹونین قوم میں سے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والے پہلے فرد ہیں۔

٭ Roland Shavadzeصاحبہ بیان کرتی ہیں کہ:میں پہلی دفعہ جرمنی آئی ہوں یہ جلسہ مجھے بہت ہی اچھا لگا۔ یہاں کے لوگوں نے ہماری ہر طرح کی خدمت کی۔ ہماری بہت ہی اچھی مہمان نوازی کی گئی۔ یہاں تک کے لوگ میرا نام بھی نہیں جانتے تھے مگر پھر بھی بار بار مدد کرنے کے لئے حاضر ہوتے تھے۔

٭ ایسٹونین وفد کے ایک مہمان Giga Gegianidzeبیان کرتے ہیں کہ یہ پروگرام بہت ہی علمی اور پر معارف تھا اور لوگ بہت نیک اور مہمان نواز تھے۔ جب میں نے IAAAE کے پراجیکٹس دیکھے ہیں تو مجھے احساس ہوا ہے کہ کسی کو پانی دینا ہمارے لئے کتنا آسان ہے اس لئے میں ضرور ان غرباء کی مدد کرنے میں شامل ہوں گا اور اس تنظیم میں شامل ہوں گا۔

٭ ایک اور مہمان Giorgi Kopaelishvili صاحب بیان کرتے ہیں کہ؛جو پراجیکٹس یہاں IAAAE نے کئے ہیں مجھے بہت ہی پسند آئے ہیں۔ میں خود بھی انجینیئر ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں بھی اس تنظیم کے ساتھ مل کر خدمتِ انسانیت کا کام کروں۔

٭ شام سے تعلق رکھنے والے شیراز احمد صاحب تین سال سے سلووینیا میں مقیم ہیں۔ یہ سلووینیا سے جلسہ میں شرکت کرنے کے لئے آئے تھے۔ یہ جلسہ کے دوران بڑی دلچسپی سے پروگراموں میں شامل ہوتے رہے، جماعت کے بارہ میں بہت سے سوالات پوچھتے رہے ۔ عربی کتابیں بھی لیں اور ان کا مطالعہ بھی کیا اور کافی متاثر ہوئےلیکن حضور کے پیچھے نماز پڑھنے سے ہچکچاہٹ تھی۔ بہرحال انہوں نے جلسہ کے آخری دن حضور کے پیچھے ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں۔ جلسہ کے بعد انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

میرے لئے جلسہ کے تین دنوں میں سے آخری دن (جس دن حضور کی پیچھے نماز پڑھی تھی) سب سے اچھا اور بہتر دن تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو انہوں نے کہا کہ آج جلسہ کا سب سے اچھا دن اس لئے کہ آج میں نے حضور کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

جلسہ کے بعد سوموار کوسلووینین وفد کی حضور کے ساتھ ملاقات تھی۔ پروگرام کے مطابق ملاقات کے فوراً بعد سیر کے لئےروانگی تھی۔ لیکن انہوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ حضور کے پیچھے ایک اور بار نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نماز پڑھنے کیلئے دو گھنٹہ انتظار کیا اور نماز کے بعد سیر کیلئے نکلے۔

سلووینیا سے ایک کیتھولک خاتون Barbara Novak صاحبہ بھی جلسہ میں شامل ہوئیں۔ ان کی انسانی حقوق کی اپنی تنظیم ہے۔ان کا ایک پاکستانی غیر احمدی دوست ہے اور اس دوست نے ان کو جلسہ میں شامل ہونے سے منع کیا تھا اور جماعت کے خلاف بھی باتیں کی لیکن اس کے باوجود وہ شامل ہوئیں اور کہتی ہیں جب بھی میں اسلام کے بارہ میں بات کر تی ہوں تو ہمیشہ جماعت احمدیہ کا بتاتی ہوں کیونکہ مجھے صرف احمدیت میں زندہ اسلام نظر آتا ہے۔

٭ Pfarrer Darius صاحب بیان کرتے ہیں: خلیفہ کی تقریر بہت اچھی اور پُراثر تھی۔ مجھے یہاں آنا بہت اچھا لگا۔ میں اور میری بیوی بہت شکرگزار ہیں کہ ہمیں دعوت دی گئی۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ خلیفہ ان موضوعات کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ جو آج کے دور میں اہم ہیں اور انہوں نے ان مشکلات کے حل بیان کئے۔

٭ Ayvaz Mardanov بیان کرتے ہیں کہ: یہ بہت ہی خوبصورت جلسہ تھا میں تمام افراد کو سلام کہنا چاہتا ہوں۔ خلیفہ کے ساتھ ملاقات میرے لئے نہایت ہی اہم تھی اور میں اس کی اہمیت کو خوب سمجھتا ہوں۔ جو امن کا پیغام اپنے خطاب میں خلیفہ نے ہمیں دیا ہے ،یہ پیغام وقت کی ضرورت ہے اور اس پر عمل کرنابہت ہی ضروری ہے۔

٭ Zaza Mikeladze صاحب ملاقات کے بعد اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:یہ بہت ہی جذباتی میٹنگ تھی کیونکہ خلیفہ نے ہمارے ساتھ کھل کے بات کی اور اسلام کی حقیقی تعلیم واضح فرمائی۔یہ امور میرے لئے بہت ہی دلچسب تھے۔ میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔

٭ قزاخستان سے آنے والی ایک مہمان خاتون رشیدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں:میں جلسہ سے بہت متاثر ہوں۔ یہاں میری بڑے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ سب لوگ سلام کرتے اور مسکراتے چہروں سے ملتے تھے۔ ایسے لگتاتھاکہ جیسے صدیوں سے واقف تھے حالانکہ ہم پہلی بار مل رہے تھے۔ سب لوگ ایسے نظر آرہے تھے کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں اورا پنی زندگی سے خوش ہیں۔ یہ کیفیت اسی وقت ہوتی ہے جب انسان کو پتہ ہو کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔جب جلسہ ختم ہواتو میرا دل اُداس ہوگیا۔

حضورانور سے ملاقات کے دوران جو چیز مجھے سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہ تھی کہ حضورلوگوں کے ساتھ بہت ہی پیار اور شفقت سے پیش آتے ہیں اور جو لوگ مذہب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ان کو حضورتفصیل سے جواب دیتے ہیں اور لوگوں کے مسائل کو بہت توجہ سے سنتے ہیں۔ ان باتوں سے صاف واضح ہوتاہے کہ حضورلوگوں کی خاطر اپنی زندگی قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیارہیں اور یقیناً یہ صرف اللہ کا منتخب بندہ ہی کر سکتاہے اور اسی کی بساط میں ہے۔

٭ قزاخستان سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی دوست فانیر غلاموف صاحب بیان کرتے ہیں کہ: خاکسار اپنی اہلیہ کے ساتھ جلسہ سالانہ جرمنی میں شامل ہواہے۔ ہم دونوں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کرکے بہت خوش ہیں اور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت پاتے ہیں۔

جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہونے سے قبل ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے تھے لیکن دل میں ایک بے چینی کی سی کیفیت تھی اور سوچتارہتاتھاکہ میری وفات کے بعد میری فیملی کا کیا ہوگا؟ تاہم احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہونے کے بعد میری روح کو ایک سکون سا آگیا ہے اور میں اس یقین پر قائم ہوگیاہوں کہ اب میرے بچوں کے پاس ماں باپ ہیں اور حضورانور ایدہ اللہ سے ملاقات کے بعد اس بات پر میرایقین مزید پختہ ہوگیاہے۔

میں اور میری فیملی اللہ تعالیٰ کے بہت شکر گزارہیں کہ اس نے ہمیں زمانہ کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سےملاقات کی توفیق عطافرمائی۔

٭ قزاخستان سے تعلق رکھنے والے ایک مہمان داورن یشانوف صاحب بیان کرتے ہیں :خاکسار کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دوسری دفعہ ملاقات کا موقع ملا ہے ۔ میں نے لمبا عرصہ اس ملاقات کا انتظار کیا اور گزشتہ سال کے بعد ہی اس حسین لمحہ کا انتظار شروع کر دیا۔ جلسہ سالانہ پر بہت سے مہمان تشریف لائے تھے۔ مجھے اس جلسہ سے بہت ہی روحانی فوائد کے حصول کا موقع ملا۔ جب حضور انور خاکسار کے پاس سے گزرے اور پیار سے مسکرائے تو مجھے اس لمحہ نے خوشی سے مسحور کر دیا۔ میں نے زندگی بھر اتنی پیاری مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ خاکسار اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت ہی خوش قسمت تصوّر کرتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس بندہ کو جلسہ میں شمولیت کا موقع عطا فرمایا ہے ۔

٭ قزاخستان سے آنے والی ایک خاتون مکرمہ زاہدہ گلیامووا صاحبہ بیان کرتی ہیں : ہماری فیملی 20 سال سے احمدی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امسال پہلی بار حضورسے ملاقات کا شرف عطا فرمایا۔ جب میں نے حضور انور کو دیکھا تو میرا دل اتنی تیزی سے حرکت کرنے لگا کہ ابھی کچھ ہو جائے گا حالانکہ یہ صرف ایک گھبراہٹ تھی۔ میں بہت خوش اور خوش قسمت ہوں کہ ہمارا خواب پورا ہو گیا ہے ۔ میں اتنی خوش تھی کہ حضور انور سے دعا کی درخواست کرنا بھول گئی کہ وہ ہمارے مبلغین کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خدمت کی توفیق دیتا رہے اور وہ ہمیشہ ہمارے پاس رہیں۔

یہ ملاقات 12 بجکر 35 منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر ان پانچوں وفود کے تمام ممبران نے باری باری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

……………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button