رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی، 8 ستمبر 2018ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

مستورات کے خصوصی سیشن اور جرمن مہمانوں کے ساتھ پروگرام میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے بصیرت افروز خطابات تعلیمی میدان میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات میں اسناد و میڈلز کی تقسیمجرمنی کی وفاقی وزیر قانون کا ایڈریس

8؍ ستمبر 2018ء بروز ہفتہ

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پچاس منٹ پر مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصّہ میں تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

آج پروگرام کے مطابق لجنہ جلسہ گاہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا لجنہ سے خطاب تھا۔

جلسہ گاہ مستورات میں خصوصی سیشن

آج لجنہ کے جلسہ گاہ میں صبح کے اجلاس کا آغاز دس بجے حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلّہا العالی کی زیر صدارت ہوا جو دوپہر گیارہ بجکر چالیس منٹ تک جاری رہا۔ اس سیشن میں تلاوت قرآن کریم اور اس کے اردو و جرمن ترجمہ کے علاوہ ایک اردو نظم اور چار تقاریر ہوئیں۔ جن میں دو اردو زبان میں اور دو جرمن زبان میں تھیں۔

پروگرام کے مطابق دوپہر بارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ ناظمہ اعلیٰ و نیشنل صدر لجنہ اماء اللہ جرمنی نے اپنی نائب ناظمات اعلیٰ کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا اور خواتین نے بڑے ولولہ اور جوش کے ساتھ نعرے بلند کرتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔

جرمنی کی وفاقی وزیر قانون کا ایڈریس

جرمنی کی وفاقی وزیر قانون محترمہ کترینہ بارلی صاحبہ (Katarina Baley)بھی اس اجلاس میں شرکت کے لئے آئی ہوئی تھیں۔

اجلاس کے باقاعدہ آغاز سے قبل موصوفہ نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:

’’جرمنی کے قومی پرچم کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کا پرچم بھی لگا ہوا ہے یہ بہت اہم بات ہے۔ یعنی یہاں دونوں کے لئے جگہ ہے۔ آپ کا یہ طریق کہ آپ لوگوں سے ملتے، بات چیت کرتے اور لوگوں کو حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ بد ظنیاں اور تحفّظات دور ہوں ، بہت درست اور صحیح طریق ہے۔ مذہب کی آزادی ہمارے دستور کا حصّہ ہے۔ اس وقت جرمنی میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس آزادی کی حفاظت کریں۔ یہ آزادی ہر جگہ نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کی جماعت کو اس بات کا علم ہے کہ یا تو مذہبی آزادی دی نہیں جاتی اور جہاں کاغذ پر دی جاتی ہے وہاں بھی عملی طور پر نہیں دی جاتی۔ مختلف ممالک میں آپ کی جماعت پر پابندیاں ہیں۔ ممبران کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے بلکہ وہ مظالم کا بھی شکار ہیں۔ آپ کی جماعت کی گفت و شنید، دلی کشادگی اور یہ ماٹو کہ ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ بہت اہم ہیں۔ اس زمانہ میں ہمیں جرمنی میں آپ جیسے لوگوں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘

موصوفہ کےایڈریس کے بعد لجنہ کے اس اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ درّ عجم ہیوبش صاحبہ نے کی۔ بعد ازاں اس کا اردو اور جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا گیا۔

اس کے بعد عزیزہ انیقہ شاکر باجوہ صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا منظوم کلام

خدا سے چاہئے ہے لَو لگانی

کہ سب فانی ہیں پر وہ غیر فانی

وہی ہے راحت و آرام دل کا

اُسی سے روح کو ہے شادمانی

کے منتخب اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے۔

تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات میں اسناد و میڈلز کی تقسیم

بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی 62 طالبات کو اسناد عطا فرمائیں اور حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلہا العالی نے ان طالبات کو میڈل پہنائے۔

تعلیمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ان خوش نصیب طالبات کے اسماء درج ذیل ہیں:

تقسیم ایوارڈز اور اسناد کی تقریب کے بعد بارہ بجکر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا:

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کی دنیا میں عموماً مذہب کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہے نہ مذہب کی تاریخ جاننے کی طرف زیادہ توجہ ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی دنیا میں یا مذہب کی تاریخ میں صرف مرد کی اہمیت ہے اور عورت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کو بعض اسلام مخالف لوگ یا مذہب مخالف لوگ زیادہ ہوا دیتے ہیں۔ خاص طور پر اسلام پر تو یہ اعتراض بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ عورت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور جو بھی اس کا کردار ہو یا اس کی قربانیاں ہوں ان کو مردوں سے کم درجہ پر رکھا جاتا ہے۔ مرد کے کردار اور کام کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے اور عورت کے کردار اور کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن جب ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا مذہب اور خاص طور پر اسلام، عورت کی دین کے لئے خدمات عورت کے دین کی ترقی کے لئے کردار، عورت کی دین کی خاطر قربانی کو مردوں کی خدمات، ان کے کردار، ان کی خدمات سے کم سمجھتا ہے یا اسلام میں کم سمجھا جاتا ہے یا کم اہمیت دی جاتی ہے تو جواب نفی میں ملے گا اور ہر علم رکھنے والی عورت یہ جانتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ایک مسلمان سب سے زیادہ تاریخی واقعاتی اور علمی حقائق کے لئے جس چیز پر یا جس گواہی پر ایمان اور یقین رکھتا ہے یا اس کو ایمان اور یقین کی حد تک مانتا ہے وہ قرآن کریم ہے اور اس میں بیان کردہ واقعات و حقائق ہیں اور قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی تاریخ میں عورت کا بڑا مقام ہے اور عورت کے قابل تعریف کاموں کی اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے اور بیان فرمایا ہے اور اِنہی قابل تعریف اور اہم کاموں کی وجہ سے عورت کو ان انعامات میں حصہ دار بنایا گیا ہے جن کاموں کی وجہ سے مرد اس کے اجر کے حق دار ٹھہرائے گئے ہیں یا نوازے گئے ہیں۔

پھر قرآن کریم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور آپ کی ہدایات عورت کی اہمیت اور اس کی تاریخی کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ پھر جماعت احمدیہ مسلمہ میں تو اسلام اور احمدیت کی تاریخ اس بات پر بھی گواہ ہے اور اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ عورت کے کردار اور قربانیوں کا کیا اہم مقام ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مرد کی قربانیوں اور دین کی خاطر اہم کردار کو مذہب کی تاریخ اور خاص طور پر اسلام میں محفوظ کیا ہے وہاں عورت کی قربانیوں اور کردار کو بھی کم نہیں سمجھا اور محفوظ رکھا ہے بلکہ ہم جائزہ لیں تو مذہب اسلام کی تو ابتدا ہی عورت کی قربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے رکھی اور اس بنیاد میں عورت کا حصہ شامل کیا گیا۔ قرآن کریم میں بھی یہ ذکر ہے اور حدیث میں بھی یہ تفصیل سے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رؤیا دکھایا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے اور کئی سال تک اکلوتے بیٹے تھے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام تو کئی سال کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ بہرحال حضرت اسماعیل علیہ السلام ابھی چند سال کے ہی تھے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خواب دیکھی اور اسماعیل علیہ السلام کو سنائی کہ میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ بتوں کو خوش کرنے کے لئے انسانوں کی قربانیاں بھی کیا کرتے تھے اور خصوصاً بیٹوں کو ذبح کرنا ایک بہت بڑی قربانی سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ انسانی جان کو بتوں پر قربان کرنے کا رواج تو ہے تو اس خواب کا مطلب ہے کہ میں بھی اس رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کروں اور یہی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے مجھ سے یہ ان کو خیال آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ذکر کیا تو جیسا کہ قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ اپنی رؤیا کو پورا کریں مجھے انشاء اللہ اس پر صبر کرنے والا پائیں گے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو باہر جنگل میں لے گئے اور الٹا لٹا دیا تا کہ ذبح کریں لیکن اُس وقت جب آپ ذبح کرنے لگے تو قرآن کریم میں بھی آتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ قد صدقت الرؤیا۔ یعنی جب تو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے تو تُو نے اپنی خواب پوری کر دی ہے اور یہ عمل صاف ظاہر کرتا ہے کہ تو عملاً اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے مگر اب تُو نے اسے ذبح نہیں کرنا اور آج سے مذہبی تاریخ میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آج سے انسانوں کو ذبح کرنے کا رواج ختم کیا جاتا ہے اور یہ طریق درست نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کے نئے طریق رائج ہوں گے جو اس قربانی سے بہت بلند ہیں اور مستقل قربانی کرتے چلے جانے والے طریق ہیں۔

چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ الہاماً فرمایا کہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے جائیں اور وہاں چھوڑ آئیں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے گئے۔ اس وقت وہاں میلوں تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ آپ اپنے ساتھ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجوروں کا ایک تھیلا لے کے گئے تھے۔ ان دونوں ماں بیٹے کے پاس وہ پانی اور کھجوروں کی تھیلی رکھ دی اور انہیں وہیں چھوڑ کر واپس چل پڑے۔ یہاں سے پھر اس مستقل قربانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک انسانی جان کی قربانی ختم کر کے شروع کروائی تھی۔ دراصل رؤیا میں اسی قربانی کا ذکر تھا نہ کہ چھری پھیرنے والی قربانی کہ ایسی جگہ چھوڑ آؤ جہاں نہ کھانے کو روٹی ملے نہ پینے کو پانی ملے گویا یہ تمہاری طرف سے ایک طرح سےذبح کرنا ہے۔ بہرحال جب واپسی کے لئے مڑے تو بیوی اور بیٹے کی محبت کی وجہ سے چند قدم جا کر مڑ کر دیکھنے لگے حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر چل پڑتے پھر رک کر دیکھنے لگتے۔ جب چند بار اس طرح مڑ کر دیکھتے رہے تو حضرت ہاجرہ جو بڑی فراست رکھنے والی خاتون تھیں انہیں خیال پیدا ہوا کہ آپ ہمیں یہاں چھوڑ کرکسی معمولی کام کے لئے نہیں جا رہے یا ادھر ادھر کوئی جگہ دیکھنے تلاش کرنے نہیں جا رہے بلکہ ضرور کوئی بات ہے کوئی راز ہے جو آپ ہم سے چھپا رہے ہیں۔ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے گئیں اور کہا کہ آپ ہمیں یہاں اکیلے چھوڑ کر جا رہے ہیں انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت ہاجرہ کچھ دور تک آپ کے پیچھے جا کر یہی پوچھتی رہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ حضرت ہاجرہ سمجھ گئیں کہ جذبات اور درد کی وجہ سے دل کے درد کی وجہ سے کوئی جواب نہیں دے رہے۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اے ابراہیم! آپ کس کے حکم سے ہمیں یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم جذبات کی وجہ سے کچھ بول تو نہ سکے البتہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کر دیا۔ اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اگر آپ ہمیں یہاں خدا تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں اگر خدا تعالیٰ نے کہا ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور یہ کہہ کر واپس چلی گئیں۔ یہ ایمان کا معیار تھا ان کا۔ آخر وہ تھوڑا سا پانی اور کھجوریں چند دنوں میں ختم ہو گئیں جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جب بھی کبھی پانی مانگتے یا کھانا مانگتے تو وہ کہاں سے دیتی میلوں تک آبادی کوئی نہیں تھی نہ کوئی انتظام ہو سکتا تھا آخر حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس اور بھوک کی وجہ سے بیہوش ہونا شروع ہو گئے۔ ہوش آتی تو پھر پانی مانگتے پھر غشی طاری ہو جاتی۔ ماں بیٹے کی حالت دیکھ کر گھبرا کر قریب جو دو ٹیلے تھے صفا اور مروہ وہاں جاتیں اور ادھر پانی یا کسی گزرنے والے قافلے کو تلاش کرتیں۔ پہلے صفا پر چڑھ جاتیں وہاں سے کچھ نظر نہ آتا تو مروہ پر دوڑ کر چڑھتیں دوڑ کرچڑھنے کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ دو ٹیلوں کے درمیان جو نیچی جگہ تھی وہاں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نظر نہ آتے تھے بے چین ہو کر اوپر چڑھتیں تاکہ بچے پر بھی نظر پڑتی رہے۔ جب آپ سات چکر لگا چکیں تو فرشتے کی آواز آئی کہ ہاجرہ جا اپنے بچے کے پاس اللہ تعالیٰ نے پانی کا انتظام کر دیا ہے چنانچہ جب آپ بچے کے پاس پہنچیں تو دیکھا جہاں بچہ تڑپ رہا تھا وہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس طرح وہاں پانی کی وجہ سے پھر قافلے ٹھہرنے شروع ہو گئے اور مکہ کی بنیاد پڑی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی دوبارہ بنیادیں رکھیں تو یہ دعا کی کہ اے خدا اس شہر کے رہنے والوں اور میری اولاد میں سے ایسا نبی مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے تیری کتاب سکھائے اس کی حکمتیں بیان کرے اور ان کے دلوں کا تزکیہ کرے انہیں پاک کرے ۔ یعنی مکہ کی جو بنیاد رکھی گئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے لئے تھی اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے۔ حضرت ہاجرہ اگر اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرتیں اور بچے کے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہ ہوتیں تو انہیں کبھی وہ مقام نہ ملتا جو آج ہر مسلمان کے دل میں آپ کا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پھر قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ملتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو گا۔ اور فرعون کیونکہ تم لوگوں کا دشمن ہے وہ اسے مارنے کا ارادہ کرے گا۔ اس لئے جب وہ پیدا ہو تو ایک ٹوکرے میں رکھ کر اسے دریا میں ڈال دینا۔ اور حضرت موسیٰؑ کی والدہ کو جو نیکی اورتقویٰ اور خدا تعالیٰ کی ذات پر توکّل تھا تو اس وجہ سے انہوں نے ایسا ہی کیا اور یہ پرواہ نہ کی کہ دریا میں میرا بچہ ڈوب بھی سکتا ہے یہ ٹوکرہ جنگلوں میں پتہ نہیں کہاں کہاں جا سکتا ہے کسی جانور کے ہتھے چڑھ سکتا ہے فرعون سے تو شاید بچے کو بچانے کی کوئی ترکیب ہو سکتی تھی دریا میں تو کوئی امکان نہیں تھا لیکن کامل توکل تھا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس لئے فوری تعمیل کی۔ یہ ایسا جرأت والا قدم ہے جو شاید کروڑوں میں ایک عورت بھی نہ کر سکے کہ صرف ایک خواب کی وجہ سے بچے کو دریا میں ڈال دیا بلکہ نسلوں میں بھی شاید کوئی ایسا شخص پیدا ہوجو یہ قربانی کر سکے لیکن انہوں نے کی اور اسی سے پھر حضرت موسیٰ بچے۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں ہی ایک اور عورت کا بھی قربانی کا ذکر ملتا ہے جو فرعون کی بیوی تھی جس نے پھر اس دریا میں بہتے ہوئے بچے کو فرعون کو کسی طرح قائل کر کے پرورش کے لئے لے لیا۔ فرعون کی بیوی بھی ہر وقت یہ دعا کرنے والی تھی کہ اے اللہ تو شرک کی ظلمت کو دور کر دے اور سچائی کو دنیا میں قائم کر دے۔ اب دیکھیں کہ بادشاہ کی بیوی ہے ہر قسم کے آرام اور آسائش میں رہنے والی ہے اور پھر فرعون جیسے شخص کے ساتھ رہنے والی ہے جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کرتا تھا لیکن فطرت کی نیکی اور جرأت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق نے ایسے حالات کے باوجود انہیں سب چیزوں کو ٹھکرا کر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنے کا درد پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس عمل کو سراہا اور ایسا مقام عطا کیا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کر دیا۔ اب یہ دونوں عورتیں بھی ایک مذہب کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کرنے والی تھیں۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے بھی بڑی قربانیاں کیں اپنے بیٹے کو صلیب پر لٹکتے دیکھا اور بڑی جرأت سے یہ نظارہ دیکھا۔ شاید ہی کوئی ماں ہو کوئی عورت ہو جو یہ نظارہ اس طرح دیکھ سکے اور قربانی کے لئے تیار ہو۔ غرض کہ مذہب کی تاریخ نے عورت کے مقام اور قربانیوں کو محفوظ کیا ہے۔

پھر اسلام کی تاریخ میں ہم مزید یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی وحی سے لے کر جب آپ نے دعویٰ کیا اور آپ کی مخالفت شروع ہوئی تیرہ سال تک شدید تکالیف میں آپ کا ساتھ دیا۔ ایک امیر ترین عورت جس نے نہ صرف اپنی تمام دولت اپنے خاوند کے سپرد کر دی بلکہ شعب ابی طالب میں سخت ترین حالات میں بھوکی پیاسی رہ کر قربانی کرتی رہیں اور یہ قربانی قریباً اڑھائی تین سال تک جاری رہی۔ اسی طرح اور مسلمان عورتیں بھی اس دَور میں تکلیف اور پریشانیوں سے گزری ہیں جن کی قربانیوں کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے۔

پھر اگر علم و معرفت کی باتوں کا ذکر ہو تو یہ نہیں کہ عورت کو جاہل بنا دیا اور صرف مردوں کو ہی علم و معرفت کا سمجھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی تاریخ نے عورت کی علم و معرفت کی باتوں کو بھی محفوظ کیا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی نے دین کا علم سیکھنا ہے تو نصف دین عائشہ سے سیکھو۔ یعنی میں نے اس کی ایسی تربیت کر دی ہے اس میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو چکی ہیں کہ دین کے مسائل اور خاص طور پر عورتوں کے مسائل عائشہ سے سیکھو۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری روایات عورتوں کے مسائل کے بارے میں بھی حضرت عائشہؓ سے ہمیں ملتی ہیں اور مردوں کی تربیت بھی حضرت عائشہ ؓنے کی ہے۔ قرآن کریم کو دیکھ لیں ہر جگہ مسائل کے بیان احکامات اور انعامات میں عورت اور مرد دونوں کا ذکر ہے۔ اگر مرد کی نیکی کا ذکر ہے تو عورت کو بھی نیک کہا گیا ہے مرد کی عبادت کا ذکر ہے تو عورت کو بھی عبادت کرنے والی کہا گیا ہے۔ جنت میں مرد جائیں گے تو عورتیں بھی جائیں گی جنت میں مرد اعلیٰ مقام حاصل کریں گے تو عورتیں بھی کریں گی۔ اگر کسی نیک مرد کی وجہ سے اس کی بیوی کم نیکی کے باوجود جنت میں جا سکتی ہے تو کسی اعلیٰ قسم کی نیکیاں کرنے والی عورت کی وجہ سے اس سے کم نیکی کرنے والا مرد بھی خاوند بھی اس کی وجہ سے جنت میں جا سکتا ہے۔ جنت میں اگر اعلیٰ مقام پر مرد اپنی نیکیوں کی وجہ سے ہوں گے جیسا کہ میں نے کہا تو اسی اعلیٰ مقام پر عورتیں بھی ہوں گی۔ پھر یہ بھی روایت ملتی ہے کہ ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مرد ہم سے زیادہ خداتعالیٰ کے مقرب ہیں کہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم نہ ہوں۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم بھی شامل ہو جاؤ۔ آپ نے انکار نہیں کیا چنانچہ جب وہ شامل ہوئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح ہوئی تو باوجود صحابہ کے یہ کہنے کے کہ اس نے تو اتنا حصہ نہیں لیا جنگ میں جتنا ہم نے لیا ہے اور ہم لڑے ہیں اس لئے اس کو مال غنیمت میں حصہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کو بھی مال غنیمت میں حصہ دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد یہ طریق بن گیا کہ مرد جب جہاد پر جائیں تو مرہم پٹی کے لئے عورتیں بھی ساتھ جائیں۔ غرض کہ عورتوں نے باہر نکل کر جہاد بھی کیا اور تمام خطرات کے باوجود مردوں کے ساتھ متفرق ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے جہاد میں جاتی بھی تھیں بلکہ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ فنون جنگ کی بھی انہوں نے تربیت حاصل کی۔ یہ سوچ ان کی تھی کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہم نے ہر قربانی کے لئے تیار ہونا ہے۔ دین کی اولین ترجیح تھی۔ دنیا کی خواہشات کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تھی ۔

پس آج بھی اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو دنیا کے چپّے چپّے پر پھیلانا ہے تو پھر ذاتی خواہشات کی قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اپنے خاوندوں اور اپنے بچوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنے ہوں گے کہ دین اول ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا سب سے اول ترجیح ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت سب سے اوّل ہے اور باقی محبتیں بعد میں ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

صرف بڑے اور اہم لوگوں کی مثالوں کو تاریخ نے محفوظ نہیں کیا بلکہ غریب اور بے بس لوگوں کی قربانیوں کو بھی اسلام کی تاریخ نے محفوظ کیا ہے۔ مثلاً لبینہ ایک صحابیہ خاتون تھیں بنو عدی کی ایک لونڈی تھیں اسلام لانے سے پہلے عمر انہیں اتنا مارتے تھے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے اور پھر دم لے کر انہیں مارنے لگ جاتے تھے۔ حضرت لبینہ سامنے سے صرف اتنا کہتی تھیں کہ عمر اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو خدا اس ظلم کو بے انتقام نہیں چھوڑے گا۔ یہ توکل تھا ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی۔ پھر زنیرۃ ایک خاتون تھی، بنو مخزوم کی لونڈی تھی اور ابو جہل نے اس بے دردی سے ان کو مارا پیٹا، منہ پر بھی مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں، نظر ختم ہو گئی۔ اسی طرح حضرت عمار کی والدہ حضرت سمیہ جو بوڑھی تھیں ان کی ران میں اسلام دشمنی کی وجہ سے ابوجہل نے اس طرح نیزہ مارا کہ ان کے پیٹ سے باہر نکل گیا اور شہید ہو گئیں۔ غرض کہ اور بھی بیشمار واقعات ہیں مسلمان عورتوں کی قربانیوں کے۔ یہ واقعات کیوں محفوظ کئے گئے اس لئے کہ بعد میں آنے والے اپنی تاریخ جان سکیں انہیں پتا چلے کہ خدا کی خاطر اور خدا کے دین کی عظمت کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور عورت اور مرد کی قربانیوں سے ہی قومیں بنا کرتی ہیں صرف مرد کی قربانی سے قومیں نہیں بنتیں نہ صرف عورت کی قربانی سے قومیں بنتی ہیں بلکہ دونوں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں اوران قربانیوں سے اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت بھی قائم ہوتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہم احمدی تو اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں جبکہ اسلام کی احیائے نو کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلائیں۔ جب آپ نے دعویٰ کیا تو مسلمانوں اور غیر مسلموں اور سب نے آپ کی مخالفت کی۔ مسلمان علماء نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر قتل کے فتوے دئیے کہ ایک تو آپ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو باقی مسلمان کہتے ہیں ہم کسی طرح ماننے کو تیار نہیں دوسرے تلوار کے جہاد کو اب اس زمانے میں غلط قرار دیا ہے تو آپ نے بڑا واضح فرمایا کہ میرا دعویٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں غیر شرعی نبی ہونے کا ہے۔ میں نے اگر نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو آپ کے غلام نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے غیر شرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے آپ کی شریعت کو پھیلانے کے لئے دعویٰ کیا ہے اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے دعویٰ ہے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو نبی اللہ کہا ہے اسی طرح جہاد کا جو تصور تم پیش کرتے ہو اس کی اس زمانے میں اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اسلام پر حملے اب کتابوں اور لٹریچر اور دوسرے ذرائع سے ہو رہے ہیں وہی ذریعہ تم استعمال کرو اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتاؤ اور یہی آنے والے مسیح موعود کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ اور جو جہاد ہے وہ اب تبلیغ سے اور لٹریچر سے اور دوسرے میڈیا کے ذرائع سے ہو گا اور اس میں مردوں کو بھی حصہ لینے کی ضرورت ہے اور عورتوں کو بھی حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بات کو نام نہاد علماء ماننے کو تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے انہوں نے احمدیوں پر ظلم کئے احمدیوں کو قربانیاں دینی پڑیں اور مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی جان مال کی قربانیاں دیں اور دین کی اشاعت کے لئے اپنے جذبات کی اور اپنی اولاد کی بھی قربانیاں دیں اپنے مال کی بھی قربانیاں دیں تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی وہ دنیا میں پہنچے۔ آج مردوں کے ساتھ احمدی عورتوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے دو سو دس سے زائد ممالک میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ آج اسلام کو اگر پرامن مذہب کے نام پر کہیں دنیا میں جانا جاتا ہے تو وہ احمدیت کی وجہ سے ہے۔ پس آپ لوگ جو آج یہاں میرے سامنے بیٹھی ہیں اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی احمدی مردوں اور عورتوں کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ احمدیت کا دنیا میں پھیلنا دنیا میں رہنے والی عورتوں اور مردوں کی قربانی کی وجہ سے ہے خاص طور پر جن جگہوں پر جن ملکوں میں احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں وہاں احمدی مردوں اور عورتوں دونوں نے قربانیاں دی ہیں۔ آپ لوگوں کا یہاں آنا ان عورتوں کی قربانی اور دین کی حفاظت کی وجہ سے ہے اور اب تک یہ قربانیوں کا سلسلہ چل رہا ہے بعض ایسی ایسی قربانیاں ہیں عورتوں کی کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بعض مثالیں میں عورتوں کی قربانیوں کی پیش کروں گا حیرت ہوتی ہے ان قربانیوںکو دیکھ کر۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا میں مختلف جگہوں پر یہ سلسلہ جاری ہے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور دین کی خاطر اپنے خاندانوں اور اپنے بچوں تک کی پرواہ نہ کرنے تک کی مثالیں ہیں۔ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی مثالیں ہیں مثلاً ڈاکٹر نورین صاحبہ تھیں پاکستان میں جن کی عمر صرف 28 سال تھی اور ان کے خاوند ڈاکٹر شیراز 37 سال کے تھے۔ دونوں اپنے اپنے فیلڈ میں میڈیکل کی فیلڈ میں شعبہ میں ماہر تھے ملتان میں انہیں صرف اس لئے شہید کیا گیا کہ یہ دونوں امام وقت کو ماننے والے تھے ظالمانہ طریق پر ان کا گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ پھر 2010ء میں جب دارالذکر اور ماڈل ٹاؤن میں ہماری مساجد پر حملے ہوئے ہیں بڑی تعداد میں احمدی شہید کئے گئے تو بعض نوجوان بچے بھی اس راہ میں قربان ہوئے اور اس پر ماؤں کے ردّ عمل یہ تھے کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں ایک ماں نے کہا کہ میں نے اپنی گود سے جواں سال بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا۔ ایک ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا تین بیٹیاں تھیں جو میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا وہ شہید ہوا تو ماں باپ نے کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرتی رہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت سب محبتوں پر غالب رہے۔ اسلام کی تعلیم کے حقیقی نمونے احمدی عورتوں میں نظر آتے ہوں۔ احمدیت کی خوبصورت تعلیم کا اظہار اپنے ہر قول و فعل سے کرنے والی ہوں۔ اور اس عملی اظہار کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتنے والی ہوں ۔ احمدیت کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوں۔ یہاں آ کر دنیا کی ہواو ہوس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی محبت کا جذبہ اس کے احکامات پر چلنے کا جذبہ ہر جذبے اور ہر خواہش پر حاوی ہو جائے۔ پس ان قربانی کے واقعات اور اپنی تاریخ کو صرف علمی اور وقتی حظ اٹھانے کے لئے نہ سنیں اور پڑھیں بلکہ یہ عزم کریں کہ ہم نے اپنے مقصد پیدائش کو پانا ہے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کو حاصل کرنے والا بنانا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بننا۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔

… … … … … …

[حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا مکمل متن الفضل انٹرنیشنل کی کسی آئندہ اشاعت میں طبع ہو گا۔انشاء اللہ]

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب ایک بجکر 45 منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

… … … … … …

اس کے بعد ممبرات لجنہ اور ناصرات کے درج ذیل مختلف گروپس نے اپنی اپنی زبانوں میں دعائیہ نظمیں اور ترانے پیش کئے۔ غانا، گیمبیا، جمائیکا، بوزنین، انڈونیشین، سپینش، عربی، میسیڈونین، ترکش اردو اور جرمن۔

… … … … … …

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کم عمر والے بچوں کے ہال میں تشریف لے گئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اپنے درمیان پا کر بچوں اور ان کی ماؤں کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ خواتین نے پیارے آقا کا دیدار کیا ۔

… … … … … …

بعد ازاں دو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق چار بجے سہ پہر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمن اور دوسری مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے مہمانوں کے ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کے لئے مردانہ جلسہ گاہ تشریف لائے۔ ان مہمانوں کے ساتھ یہ پروگرام کچھ وقت پہلے سے جاری تھا۔

اس پروگرام میں شامل ہونے والے مہمانوں کی تعداد 1021تھی۔ جرمنی کے مختلف شہروں سے آنے والے مہمانوں کی تعداد 525تھی جبکہ جرمنی کے علاوہ دوسرے یورپین ممالک بلغاریہ، میسیڈونیا، البانیا، بوزنیا، Kosovo، ہنگری، کروشیا، لتھوانیا، قازخستان، تاجکستان، اسٹونیا، سلووینیا، جارجیا وغیرہ سے 320 مہمان شامل ہوئے۔

عرب ممالک سے آنے والے مہمانوں کی تعداد 93 تھی۔ جبکہ افریقہ کے 13 مہمان اور ایشین ممالک سے تعلق رکھنے والے 70 مہمان اس پروگرام میں شامل ہوئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آمد کے بعد پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم صادق علی بٹ صاحب مربی سلسلہ نے کی اور بعد ازاں اس کا جرمن زبان میں ترجمہ پیش کیا۔
بعد ازاں چار بجکر آٹھ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےانگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ حضورانور کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش ہے:

جرمن مہمانوں کے ساتھ پروگرام میںحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطاب

تشہد و تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آ پ سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں ۔

کچھ عرصہ سے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں دائیں بازووالی پارٹیوں نے زور پکڑا ہے۔ اس پریشان کن رجحان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان قوموں کے مقامی باشندے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ محسوس کررہے ہیں جیسےانہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت ان کے حکمران اور حکومتیں نہیں کر پا رہیں۔ بے شک ان کی بے چینی کے بڑھنے کی ایک وجہ وہ تارکینِ وطن بھی ہیں جو حالیہ سالوں میں بہت سے یورپی ممالک میں آئے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

جرمنی بھی اسی صور ت حال کا شکا رہے، جس نے دوسرے ممالک کی نسبت پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد کو قبول کیا ہے۔ بہت سے مقامی لوگ خوفزدہ ہیں کہ اس کے نتیجہ میں معاشرے میں عجیب تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی قوم کے وسائل غیر منصفانہ طریق پر تارکین وطن کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے اصل مسئلہ اسلام ہے لیکن اس کے لیے Immigrant کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ درحقیقت تارکین وطن کی کثیر تعداد مسلمانوں کی ہے جو مشرق وسطیٰ کے جنگ سے متاثرہ ممالک سےفرار اختیار کر رہے ہیں۔ پس جب دائیں بازو والے امیگریشن قوانین کے خلاف ریلی کی کال دیتے ہیں تو ان کا اصل نشانہ اسلام ہی ہوتا ہے۔ ان کا مقصد ان ممالک میں مسلمانوں کے داخلے کو روکنا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : ایسے لوگ یہ نظریہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام مغربی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور یہ کہ مسلمان مغربی معاشرے میں ضم نہیں ہو سکتے، لہٰذا یہ دوسرے شہریوں کے لیے خطرہ ہیں۔ پھر بہت سے غیر مسلم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کا مذہب ہےاور خیال کرتے ہیں کہ وہ مسلمان جو ہجرت کر کے آرہے ہیں وہ شدت پسند اور مذہبی جنونی ہونگے، معاشرہ میں زہر پھیلائیں گے، تفریق پیدا کرینگےاور ان کی قوم کے امن اور بھلائی کو خراب کردینگے۔ یقیناً ایسی آوازیں اس ملک میں خاص طور پر مشرقی جرمنی میں بھی سنی گئی ہیں۔ اس لیے وہاں تحریکیں چل رہی ہیں اور کوششیں ہو رہی ہیں کہ مسجد کی تعمیر نہ ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

ہم احمدیہ جماعت اس قسم کی مخالفت سے محفوظ نہیں ہیں۔ جیسا کہ یہاں جرمنی میں بعض گروپس نے ہمارے خلاف سرگرم تحریکیں چلائی ہیں اور کوشش کی ہے کہ ہمیں نئی مسجد کی تعمیر سے روک سکیں۔ انہوں نے ہمارے خلاف بھی تحریک چلائی حالانکہ ہمارا ماٹو تو یہ ہےکہ ’محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں‘ اور ہماری جماعت گذشتہ ایک سو تیس سال سے دنیا بھر میں پیار، محبت اور ہم آہنگی پھیلانے میں پیش پیش ہے۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی ہم نے کوئی مسجد بنائی یا کہیں ہماری جماعت قائم ہوئی تو جلد ہی ہمسایوں کے خوف ہوا میں اڑ گئے۔ وہ جو پہلے ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے جلد ہی ہمارے مخلص دوست اور حمایتی بن گئے۔ ساری دنیا میں ہمارے ہمسائے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ احمدی مسلمان معاشرے میں امن پھیلانے والے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں امن ، بھائی چارے اور خدمتِ انسانیت کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ لیکن باقی مسلم دنیا کی سنگین صور ت حال کے پیش نظر احمدیہ مسلم جماعت کو بھی اس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

ایک اور اعتراض جو تارکین وطن کے وسیع پیمانے پر داخلے کے خلاف لوگ کرتے ہیں یہ ہے کہ پناہ گزین افراد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ رپورٹس کے مطابق ایک یورپی ملک میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات یا اسکی کوشش میں ملوث افراد میں زیادہ تناسب پناہ گزینوں کا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ اعدادوشمار کس حد تک درست ہیں، لیکن جب ایسی رپورٹس عام کی جاتی ہیں تو یہ دوسری قوموں کو بھی متأثر کرتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں مقامی لوگوں کے خوف اور خدشات بڑھتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

ایک اور پوائنٹ جس پر بہت سی پارٹیاں اور سیاستدان زور دیتے ہیں یہ ہے کہ تارکین وطن کو سنبھالنے کے لیے، ان کے روز مرہ کے اخراجات اور ان کی رہائش کے لیے حکومتوں کو بہت سا خرچ کرنا پڑتا ہے ، جس سے حکومتوں پر بوجھ پڑتا ہے اور بالآخر اس سے مقامی ٹیکس دہندگان متأثر ہوتے ہیں۔ وہ مقامی لوگ جو ایک ملک میں رہتے ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا یہ درست ہے کہ ان کے ٹیکس کا روپیہ بجائے ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر لگانے کے بیرونی پناہ گزینوں کو سیٹل کرنے پر خرچ کر دیا جائے؟ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ حقیقی مسائل ہیں اور تشویش کی اصل وجوہات ہیں، لیکن اگر انہیں عقلمندی سے حل نہ کیا گیا تو معاشرے میں تناؤ بڑھے گا۔ بلاشبہ جب بھی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوتی ہے تو وہاں امن و امان کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ یقیناً پناہ گزینوں میں ایسے بھی پوشیدہ عناصر ہوں گے جو بہت بڑے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ دن پہلے جرمنی میں مقیم ایک خاتون پناہ گزین کا انٹرویو لیا گیا۔ یہ عراق میں اغواء کی گئی تھی اور لونڈی بنا کررکھی گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اسے کس قدر خوف اور دھچکا لگا جب اس نے دیکھا کہ اسے اغواء کرنے والابھی جرمنی میں آزاد گھوم پھر رہا ہے اور وہ دہشت گرد تنظیم کا رکن جرمنی میں ظلم و تعدی کا شکار ہونے والوں کی آڑ میں داخل ہو ا ہے۔ یہ وہ بات ہے جس کے متعلق میں پہلے بھی خبردار کر چکا ہوں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ہر کیس کو انفرادی لحاظ سے جانچا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی شدت پسند دہشت گرد پناہ گزینوں کے روپ میں ہرگز داخل نہ ہونے پائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

بہرحال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم ممالک سے وسیع پیمانے پر ہجرت کا خوف کچھ حد تک منصفانہ ہے۔ لیکن ایک منصف مزاج ، عقلمند شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ تصویرکے دونوں رخ دیکھے اور مسلمانوں اور اسلام کے متعلق کوئی رائے جلد بازی میں قائم نہ کرے۔ صرف اس وجہ سے کہ کوئی شخص اسلام کو شدت پسندی کا مذہب کہتا ہے یا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، تو اس کا یہ دعویٰ اپنے اندر کوئی سچائی نہیں رکھتا، بلکہ یہ ضروری ہے کہ تمام حقائق کا حکمت و دانائی سے مکمل جائزہ لیا جائے۔ لہٰذا قبل اس کے کہ یہ نتیجہ قائم کر لیا جائے کہ اسلامی تعلیمات شدت پسندی کا عنصر اپنے اندر رکھتی ہیں، آپ کو چاہیے کہ اس کی مکمل تحقیق کرلیں اور دیکھیں کہ آخر سچ کیا ہے؟ اس کا جائزہ لیں کہ کیا چند نام نہاد مسلمانوں کا شر واقعی اسلامی تعلیمات کی وجہ سے ہے؟ سوچیں کہ کیا واقعی اسلام شدت پسندی کی اجازت دیتا ہے یا پھر ان لوگوں کے لئے سخت سزا تجویز کرتا ہے جو نفرت اور فساد پھیلاتے ہیں؟ کیا اسلام مسلمانوں کو مذہب کے نام پر ملکی قانون کو توڑنے کی اجازت دیتا ہے؟ اسلام مسلمانوں سے معاشرتی حسن سلوک کے بارہ میں کیا توقعات رکھتا ہے؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ ریاست پر بوجھ بنو یا پھر سخت محنت کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور ملک سے وفاداری اور معاشرے کی بہتری کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کا کہتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مسلمان جو غلط کام کرتے ہیں وہ اسلام سے متأثر ہو کرایسا کرتے ہیں تو پھر شاید یہ کہنا ٹھیک ہو کہ دائیں بازو والوں کے خدشات درست ہیں۔ لیکن اگر ایسے نام نہاد مسلمانوں کے اعمال کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہ ثابت ہوا تو پھران کے پاس کیا جوازہوگا؟ کون ذمہ دار ہوگا اگریہ ثابت ہوا کہ اسلام مخالف پارٹیاں صرف نفرت انگیز خرافات پھیلا رہی ہیں جن کی بنیاد حقائق کی بجائے صرف تصورات پر ہے؟
اس مختصر وقت میں میں کچھ نکات پیش کروں گا ،مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کوکچھ سوالات کے جواب جاننے میں مدد ملے گی اور آپ اصل اسلامی تعلیمات کے مغز کو سمجھ سکیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

سب سے پہلے اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جہاں انسان امن سے رہتا ہے وہاں اس پر فرض ہے کہ وہ دوسروں کے لئے بھی امن اور تحفظ کو یقینی بنائے۔ لوگ اکثر ان جنگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں لڑی گئیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام ایک خون بہانے والا مذہب ہے جو جبر اور زبردستی کی اجازت دیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ابتدائی تیرہ سال تک مسلسل انتہائی بہیمانہ ظلم و ستم برداشت کیا اور کسی قسم کی کوئی جوابی کارروائی نہیں کی۔تب جا کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دفاع کی اجازت دی ۔ اس اجازت کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ حج کی آیات 40 اور 41 میں ہے، جن کی ابھی میری تقریر سے پہلے آپ کے سامنے تلاوت کی گئی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو جن پر ظلم و ستم کیا گیا اور گھروں سے نکالے گئے ، اجازت دی گئی ہے کہ وہ مزید ظلم و ستم کا شکار ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں ۔ تاہم قرآن مجید مزید بیان کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں نے اپنے مذہب کا دفاع نہ کیا تو پھر کلیسا، مندر، راہب خانے ، مساجد اور تمام عبادت گاہیں بھی خطرے کا شکار ہو جائیں گی۔ اس لئے یہ اجازت تمام لوگوں کے حقوق قائم کرنے کے لئے دی گئی تا کہ وہ آزادی سے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ قرآن مجید میں سورۂ یونس آیت 100 میں اللہ تعالیٰ پیغمبرِ اسلام ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگروہ چاہتا تو اپنی مرضی سب پر مسلّط کر دیتا اور تمام لوگوں کو مجبور کر دیتا کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے آزادئ مذہب کو فوقیت دی۔ اسی طرح سورۂ کہف آیت 30 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ مسلمانوں کو کھلے عام اپنا پیغام پہنچانا چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے کہ اسلام سچا مذہب ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہر کوئی آزاد ہے چاہے تسلیم کرے یا انکار کر دے۔ آیتِ کریمہ یہ کہتی ہے کہ جو ایمان لائے یا کفر کرے اسے آزادی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید ان غیر مسلموں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ایک پرامن اور احسان کرنے والا مذہب ہے لیکن پھر بھی وہ ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امن اور بھائی چارہ کا راستہ اپنانے سے ان کے دنیاوی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح قرآن مجید کی سورۂ قصص آیت 58 میں بیان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ تمہاری ہدایت کی پیروی کریں تو وہ اپنی زمین پر سے اچک لئے جائیں گے۔

یہ اسلام کی اصل تعلیم ہے۔ یہ ہر مسلمان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ امن سے معاشرے میں رہے اور اس کی بہتری کے لئے مثبت حصہ ڈالے۔ بلا شبہ وہ مسلمان جو جہاد کا دعویٰ کرتے ہیں وہ اس سے غیر مسلموں پر حملہ کرنا مراد لیں یا پھر انہیں زبردستی اسلام میں داخل کرنا، یہ نظریہ بھی بالکل باطل ہے۔ اس عمل اور ایسے عقائد کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

ایک اور الزام جو اسلام پر لگایا جاتا ہےوہ عورتوں سے سلوک کے بارہ میں ہے۔ کچھ غیر مسلم یہ خوف رکھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے مغرب کی طرف ہجرت کی تو وہ مقامی خواتین کو اپنا شکار بنائیں گے اور ان سے بدسلوکی کرینگے۔ یقیناً کچھ پناہ گزین ایسے جرائم کے مرتکب بھی ہوئے ہیں اور یہ خوف اور بے چینی ان کے ایسے بے شرم رویوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔یہاں میں یہ قطعی طور پر بیان کر دوں کہ اگر کوئی عورت کے وقار کو مجروح کرتا ہے یا کسی بھی رنگ میں اس سے بدسلوکی کرتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم کے بالکل خلاف عمل کرتا ہے۔ اسلام ایسے رویے کو گناہ قرار دیتا ہے ایسے مکروہ اور بد اخلاقی کے جرم کی انتہائی سخت سزا تجویز کرتا ہے۔ مثلاً اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی ایسے جرم کا مرتکب ہو تو اسے سب کے سامنے کوڑے لگائے جائیں۔ اس لئے اگر آپ واقعی ایسے رویہ کا قلع قمع چاہتے ہیں تو ایسے مکروہ جرم کے مرتکب مسلمان کو اسلامی قانون کے مطابق سزا دیں۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ مغربی حکومتیں اس خیال سے اتفاق نہیں کریں گی،اور ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ تو ضرور اس کی مخالفت کرینگے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ پناہ گزینوں کو قبول کرنے میں ایک اور بڑا خدشہ یہ ہے کہ اس سے حکومت پربہت زیادہ مالی بوجھ پڑتا ہے۔ اس لیےکسی پناہ گزین کو کسی ملک میں استحقاق کے نظر سے داخل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سوچ سے داخل ہونا چاہئے کہ وہ اس ملک کے لئے کیا پیش کر سکتا ہے۔ میں پہلے بھی کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ پناہ گزین اس ملک کے مقروض ہیں جس نے انہیں پناہ دی ہے۔ انہیں متعلقہ حکومت اور عوام کا شکر گزار ہونا چاہیے اور اس کے عملی اظہار کے طور پر انہیں اپنا وقت صرف میزبان ملک سے فوائد اور الاؤنسز لیتے ہوئے ضائع نہیں کرنا چاہیےبلکہ جتنی جلدی ہو سکےانہیں معاشرے کا مفید وجود بننا چاہیے۔ انہیں اپنا روزگار حاصل کرنے کےلئے بھرپور محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں کام کرنا چاہئےخواہ بالکل معمولی کام ہی کیوں نہ ملے۔ اس سے نہ صرف ان کی عزت اور وقار قائم رہے گا بلکہ اس سے متعلقہ حکومت پر بوجھ بھی کم ہو گا اور مقامی لوگوں کی بے چینی بھی ختم ہوگی۔ ہر مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سےبہت بہتر ہے۔ بہت سے مواقع پر صحابہ رسول ﷺ کی لوگوں نے مدد کی کوشش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور زیادہ پسند کیا کہ وہ خودکما کر کھائیں۔ اگر پناہ گزینوں کو معمولی کام بھی دیا جائے جو ان کی قابلیت سے کمتر ہو تب بھی وہ کام کرنا چاہئے بجائے اس کے کہ حکومت ہی ان کی تمام ضروریات کو پورا کرتی رہے۔اگر وہ بوجھ ہی بنے رہیں تو پھر معاشرے میں مثبت حصہ نہیں ڈال سکتے، بلکہ بے چینی بڑھانے کا موجب بنتے رہیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

اس کے علاوہ اگر حکومت پناہ گزینوں کو کچھ فوائد اور مالی مدد فراہم کرتی ہے تو انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے مقامی لوگوں کی ضروریات زندگی نظر انداز نہ ہوں۔ کچھ ممالک میں پناہ گزین ٹیکس ادا کرنے والے باشندوں سے زیادہ مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس سے طبعی طور پر عوام میں بے چینی پیدا ہوتی ہےاور پھر اس کا ردّعمل بھی ہوتا ہے۔ اس لئے ہر حکومت کو دانشمندانہ اور منصفانہ پالیسیاں بنانی چاہئیں جس میں مقامی باشندوں اور پناہ گزینوں کی ضروریات کا برابر خیال رکھا جائے بلکہ مقامی باشندوں سے پناہ گزینوں کی نسبت زیادہ بہتر سلوک ہونا چاہیے۔ کچھ دن قبل پتا چلا ہے کہ جرمن حکومت ایک نئی پالیسی بنا رہی ہے جس میں پناہ گزینوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ جرمنی میں سیٹ ہونے سے قبل ایک سال کی کمیونٹی سروس کریں گے۔ کچھ ناقدین ابھی سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ صرف سستی مزدوری لینے کا بہانہ ہے ورنہ اس سے integration کے عمل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ جبکہ میرے خیال میں کوئی بھی جو اپنے معاشرے کی خدمت کررہا ہے وہ اس خدمت کے ذریعہ اس معاشرے میں integrateہو رہا ہے۔ یقیناً کمیونٹی سروس ایک مثبت ٹرم ہے کیونکہ اس سے یہ توجہ پیدا ہوتی ہےکہ معاشرے کی خدمت ہر شخص کا فرض ہے۔ اس لئے جرمن حکومت اس پالیسی پر تنقید کی بجائے تعریف کی مستحق ہے ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

صرف میزبان حکومت کی ہی ساری ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ تمام کمیونٹی سروسز مہیا کرے بلکہ اسے پناہ گزینوں کی اس طرح تربیت کرنی چاہیے کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے معاشرے کا مفید وجود بن سکیں۔ اگر پناہ گزینوں کے پاس روزگار کے لئے مناسب قابلیت نہیں ہے تو انہیں اس کی تربیت اور اپرنٹسز فراہم کرنے چاہئیں تاکہ وہ جلد از جلد قابلیت حاصل کر سکیں۔ ان کی تربیت کے لئے جو خرچ بھی ہو گا وہ ملک و قوم کے مستقبل کے لئے ایک قیمتی سرمایہ کاری ہو گی۔ جہاں تک سیکیورٹی کا پہلو ہے تو جن پناہ گزینوں کے متعلق یا ان کے ماضی کے بارہ میں کوئی شک ہو تو حکام کو ان کے بارہ میں چوکس رہنا چاہیے اور ان کی مسلسل نگرانی ہونی چاہیے یہاں تک کہ تسلی ہو جائے کہ وہ اب معاشرے کے لئے کسی قسم کے خطرے کا باعث نہیں رہے۔ کچھ اسے دوسروں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنے والی پالیسی خیال کرینگے لیکن معاشرے کو خطرات سے بچانا اور قوم کی سیکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانا کسی بھی حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

یقیناً اگر کوئی پناہ گزین شرارت یا فساد کی نیت سے آتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف عمل کرتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۂ بقرہ آیت 192 میں آتا ہے اگرچہ قتل کرنا یقیناًایک گھناؤنا جرم ہے لیکن بدامنی اور نفرت پھیلانا اس سے بھی بڑا جرم ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو قتل کرنا کوئی معمولی جرم ہے بلکہ یہ زور دینا مقصود ہے کہ معاشرے میں نفرت اور بد امنی پھیلانا زیادہ خطرناک ہے اور بالآخر یہ اشتعال انگیزی معاشرے کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ ایسے اختلافات اور جنگوں کا باعث بنتی ہے جس کا نشانہ بہت سے معصوم انسان بنتے ہیں اور ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں۔ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے باقی لوگ محفوظ رہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو تشدد اور شدت پسندی کو فروغ دیتا ہے؟ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام معاشرے میں بدامنی پھیلاتا ہے؟ کوئی کیسے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اسلام عورت کے وقار کو مجروح کرتا ہے؟ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے مال و دولت پر قبضہ کر لیں؟ جو کوئی بھی ان جرائم کا مرتکب ہو گا، چاہے وہ اس کا جواز اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں پیش کرے یا نہ کرے، وہ اس کی تعلیمات سے کوسوں دور ہے اور اپنی زیادتیوں کا خود ذمہ دار ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

اسلام ہر معاملہ میں مسلمانوں سے دیانتداری کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم کی سورۂ بقرہ آیت 189میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے کہ وہ کبھی دولت دھوکہ دہی سے حاصل نہ کریں بلکہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہرحال میں دیانت داری اختیار کریں کہ ہر کوئی ان پر اعتبار کر سکے اور سچ کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ اسی طرح سورۂ مطففین کی آیات 2 تا 4 میں مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے کہ تجارت اور کاروبار میں انصاف سے کام لیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جب لیتے ہیں تو پورا وزن تول کر لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم وزن تولتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کاروبار میں اپنے فائدہ کے لئے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں ان کے لئے ہلاکت ہےاوروہ آخر کار خائب و خاسر ہونگے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

سچ یہ ہے کہ اسلام نے معاشرہ کو ہر قسم کے ظلم اور ناانصافی سے محفوظ بنا دیا ہے۔ اسلام ہر فردِ معاشرہ کے جان و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس لئے یہ بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ لو گ پھر بھی حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارک پر الزامات لگاتے رہتے ہیں حالانکہ آنحضرت ﷺنے معاشرہ میں ایک منفرد روحانی اور اخلاقی انقلاب برپا کیا۔ تاریخ ِ انسانیت میں ہمیں کہیں ایسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی مثالیں نہیں ملتیں جیسی ابتدائی مسلمانوں نے قائم کیں۔ وہ دوسرے سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ دوسرے فریق کے حقوق متأثر نہ ہوں۔ مثال کے طور پر ایک دفعہ آنحضرتﷺ کے ایک صحابیؓ اپنا گھوڑا دو سو دینار کے عوض بیچنے بازار گئے۔ ایک اور صحابیؓ وہ گھوڑا خریدنے کے لئے آئےتو انہوں نے پہلے صحابی ؓ سے کہا کہ دو سو دینار اس گھوڑا کی قیمت بہت کم ہے اور اس کی اصل قیمت پانچ سو دینار ہونی چاہیے۔ پھر کہا کہ وہ کوئی خیرات نہیں لینا چاہتے، دستور کے مطابق سودا کرنا چاہتے ہیں اورپانچ سو دینار ہی دیں گے۔ اس پر گھوڑا بیچنے والے صحابی ؓ نے کہا کہ میں بھی کوئی خیرات نہیں لینا چاہتا اس لئے میں بھی اس کی مناسب قیمت دو سو دینار ہی لوں گا۔ لہٰذا ان کی بحث بجائے اپنا فائدہ سوچنے کے ، دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے لئے تھی۔ تصور کریں کہ اگر معاشرہ کے تمام افراد اس طرح زندگی بسر کریں تو وہ معاشرہ کتنا خوشحال ہوگا۔ ایسا معاشرہ جس میں ہر کوئی اپنے نفس کے فائدہ کی بجائے سب کی بھلائی کے لئے کام کر رہا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہو گا۔ اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اسلام کیا پیش کرتا ہے تو اسے ایسی بہترین مثالوں کو دیکھنا چاہیے نہ کہ ایسے لوگوں کو جو خود تفریق کا شکار ہیں اورناانصافی کرتے ہوئے عدم برداشت کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب، مسلمان اور غیرمسلم اپنے اعمال کے نتائج پر غور کریں۔ آج ہم بڑے فخر سے دنیا کے گلوبل ویلج اورتیز تر سفری سہولیات کا ذکر کرتے ہیں لیکن ان ترقیات کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ دنیا کے بارہ میں ہماری ذمہ داری اب پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں کہیں بھی لوگ اپنے وطن میں ظلم و ستم اور بربرّیت کا شکار ہوتے ہیں تو بین الاقوامی کمیونٹی کو چاہیے کہ ان کی مدد کریں۔ ترجیح اس بات کو دینی چاہیے کہ محارب گروہوں میں صلح کروا کر دیرپا امن قائم کیا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ہمیں اپنے دل ان لوگوں کے لئے وسیع کرنے چاہئیں جو واقعی متأثرہ ہیں۔ ایسے حقیقی پناہ گزینوں کو جو بلاوجہ ظلم و تعدی کا شکار ہوئے ہیں ہر گز ردّ نہیں کرنا چاہیے۔ کسی معاشرہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ ان معصوم لوگوں کو دھتکارے جو صرف پرامن طریقہ پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور اس ملک کے قانون کی پاسداری کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ بلکہ جن کی زندگیاں تباہ ہو گئیں، جنہیں تکالیف پہنچائی گئیں، جو بے کس اور بے یارو مددگار ہیں، ہمیں ان کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھانا چاہیے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

آئیں ہم انسانیت کو قائم کریں! آئیں ہم اپنی محبت و شفقت ظاہر کریں! آئیں ہم ان کی مدد کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور بوجھ بانٹیں جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے!دوسری طرف مہاجرین کی بھی نئے ملکوں میں ذمہ داریاں ہیں۔ان کا فرض ہے کہ اپنے نئے معاشرہ کے لئے مفید کام کریں اور اس میں integrateہونے کی پوری کوشش کریں۔ انہیں الگ تھلگ نہیں رہنا چاہیے اور نہ ہی مقامی لوگوں سے تعلق توڑنا چاہیے، بلکہ اپنے نئے گھر کی بہتری اورمسلسل ترقی کے لیےکام کرنا چاہیے۔ ہمیں باہم مل کر ایسے طریق ڈھونڈنے چاہئیں، جس سے مختلف پس منظر اور ثقافتوں کے لوگ مل جل کر اکٹھے رہ سکیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی طرح ہے، اس لئے اب ہم ماضی کے ادوار میں نہیں رہ رہے جہاں اگر ایک ملک میں کچھ ہوتا تھا تو صرف وہاں کی مقامی آبادی ہی اس سے متأثر ہوتی تھی یا زیادہ سے زیادہ اس کا اثر اس کے ہمسایہ ممالک تک جاتا تھا۔ اب ہم اس وقت میں رہ رہے ہیں جہاں کسی ایک ملک میں ہونے والے فساد اور تنازعہ کے نتائج باقی ساری دنیا کو متأثر کرتے ہیں۔ اس لئے بجائے ایک دوسرے سے خوفزدہ ہونے کے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ مسائل کو آپس میں برداشت اور محبت سے بیٹھ کر حل کریں۔ ہمارا مقصد اورہدف اس سے کم نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کے ہر گاؤں ، شہر اور ملک میں امن قائم ہو جائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :

احمدیہ مسلم جما عت کا ہمیشہ سے یہی نصب العین رہا ہے اور اس کے لئے ہم ہمیشہ کوشاں ہیں ۔ اس کے لئے بنیادی چیز امن ہے اوراس کے لیےضروری ہے کہ یہ پختہ عقیدہ ہو کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور اس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اس طرح ہم اسے پہچانیں گے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر انسانیت اس نتیجہ پر پہنچ جائے تو حقیقی اور دیرپا امن قائم ہو سکتاہے۔ افسوس کہ ہم اس سے الٹ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب آنے کی بجائے انسان امن قائم کرنے کے لیےصرف مادی ذرائع کو استعمال کررہاہے۔ دن بدن انسان مذہب اور روحانیت سے دور ہوتا جا رہا ہےاور اس کے نتائج بہت خوفزدہ کردینے والے ہیں۔ یہ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہی ہماری نجات کا ذریعہ اور واحد راستہ ہےجس کے ذریعہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر حقیقی امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہ میری شدید خواہش اور دعا ہے کہ دنیا اپنے پیدا کرنے والےکو پہچانے اور اس کی سچی تعلیمات کی پیروی کرے۔ آج مَیں درخواست کرتا ہوں کہ نفسانی اور سیاسی مقاصد کے حصول کی بجائے ہم بلا تمیز رنگ و نسل اور قوم کے تمام انسانوں کے حقوق ادا کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ انسان اور خدا کے درمیان خلیج ختم ہو جائے تب ہم دنیا میں حقیقی امن دیکھنے والے ہونگے۔ آپ سب کا بہت شکریہ ۔

… … … … … …

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب چار بجکر 45منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ نے دعا کروائی۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے آئے۔

……………………

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

پچھلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button