اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہمتفرق مضامین

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(ایک تجزیہ) (قسط نمبر 10)

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

عدالتی فیصلہ میں کلیدی اسامیوں کا ذکر

اسلام آبادہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ میں اس مسئلہ کا ذکر بار بار آیا ہے کہ احمدیوں کی فہرستیں بنانا ضروری ہے ورنہ یہ خدشہ ہے کہ احمدی یا دوسرے اقلیتی مسالک کے لوگ کلیدی یا حساس اسامیوں پر فائز ہو سکتے ہیں۔ خواہ اس مقدمہ میں درخواست گزاروں کی درخواستیں ہوں ، یا وکلا کے دلائل ہوں ، یا عدالت کی اعانت کے لئے طلب کئے گئے ماہرین کی آراء یا بحث ہو یا عدالت کا اپنا فیصلہ یا رائے ہو، یہ ذکر بار بار آتا رہا ہے کہ کلیدی یاحساس آسامیوں پر قادیانیوں کا تسلط پہلے بھی رہا ہے اور اب بھی یہ خدشہ موجود ہے کہ ان اسامیوں پر فائز ہو کر وہ ملک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

درخواست گزارو ں کا موقف

سب سے پہلے اس مسئلہ کا ذکر اللہ وسایا صاحب کی درخواست میں آیا۔ ان کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے:

"Direct the Respondent No.3 to maintain, henceforth, a separate database of individuals belonging to Qadiani group/Lahori group entering in civil service so that in future they may not be posted in offices involving sensitive matter/s.’’(page 3)

ترجمہ:مدعاعلیہ نمبر 3کو ہدایت کی جائے کہ وہ قادیانی / لاہوری گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے علیحدہ اعدادو شمار جمع رکھنے کا اہتمام کرے تاکہ انہیں ایسے عہدوں پر مقرر نہ کیا جائے جو حساس معاملات سے نمٹتے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس فیصلہ میں ’key posts‘اور’sensitive posts‘کا نام تو کئی جگہ آیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کہ حساس یاکلیدی ‘اسامیوں سے کیا مراد ہے؟

جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کی طرف سے یہ مطالبہ بہت پرانا ہے کہ احمدیوں کو کلیدی یا حساس اسامیوں پر نہ لگایاجائے۔ جہاں تک ان عہدوں کی تعریف کا تعلق ہے تویہ سوال 1953ءکے فسادات پر بننے والی تحقیقاتی عدالت میں بھی کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ موقف پیش کیا گیا تھا کہ’’کلیدی اسامی‘‘ سے مراد وہ عہدہ ہے جس کا کام پالیسی وضع کرنا ہو۔ لیکن جب ان سے یہ دریافت کیا گیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے علاوہ ، جو اُس وقت وزیر ِ خارجہ تھے ، اور کون سے احمدی کلیدی عہدے پر مقرر ہیں ۔ تو وہ کسی اور ایسے احمدی کا نام نہیں لے سکے جو اُ س وقت ایسے عہدے پر کام کر رہا تھا۔

[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ءصفحہ 262]

لیکن جیسا کہ گذشتہ قسط میں حوالے درج کردیئے گئے ہیں یہی مطالبہ 1984ءمیں بھی دہرایا جا رہا تھا۔لیکن اگر کوئی آدمی ریلوے سٹیشن پر کینٹین کا ٹھیکیدار بن جائے، تعلیمی ادارے میںورزش کرانے والا استاد بن جائے یا کسی ہسپتال کا ڈائریکٹر آف سرجری بن جائے تو اس پر بھی احتجاج کیا جا رہا تھا ۔اس قسم کے مطالبات میں،جن کا مقصد حقوق کو سلب کرنا ہو ، بعض اصطلاحات کا مفہوم مبہم رکھا جاتا ہے تا کہ وقت کے ساتھ ان کو حسب ِ منشا تبدیل کیا جاسکے۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ وسایا صاحب جو اس درخواست میںدرخواست گزار (W.P.NO. 3862/2017) ہیں انہوں نے عدالت میں یہ استدعا بھی کی ہے

“Direct the Respondent No.3 to bring on record a detailed report showing individuals/officers belonging to Qadiani group/Lahori group currently serving in the Federal Government with their respective portfolios;”(page 3&4)

ترجمہ: مدعا علیہ نمبر 3کو ہدایت کی جائے کہ وہ افراد /افسران جو کہ قادیانی /لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور وفاقی حکومت میں ملازم ہیں ، ان کی فہرست ان کے عہدوں سمیت تیار کر کے ریکارڈ پر رکھی جائے۔

یہاں پر مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ایسے احمدیوں کی فہرست تیار کی جائے جو کہ وفاقی حکومت میں ملازم ہیں۔ یہ فیصلہ بعد میں اپنی خواہش کے مطابق کیا جائے گا کہ کون کلیدی اسامی پر کام کر رہا ہے ؟اسی طرح درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے اس بات پر برہمگی کا اظہار کیا کہ جب عدالت نے اس کارروائی کے دوران establishment division سے استفسار کیا کہ کتنے قادیانی کلیدی اسامیوں (key posts) پر کام کر رہے ہیں تو ان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ یہ اعدادو شمار تیار نہیں کئے گئے۔ وکیل نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ علم نہیں کہ کتنے قادیانی بیوروکریسی میں شامل ہو کر اپنے مفادات کے لئے کام کر رہے ہیں۔[صفحہ 9و10]

مزید پڑھیے:

پاکستانی آئین احمدیوں کو آزادئ مذہب کی ضمانت دینے سے قاصر کیوں؟

عدالتی ماہرین کی رائے

یہ تو درخواست گذار کے وکیل صاحب کے دلائل تھے ۔ اس موضوع پر، ان ماہرین نے بھی جنہیں عدالت نے اپنی اعانت کے لئے طلب کیا تھا ، اظہار ِ خیال کیا ۔ چنانچہ ایک Amicus Curiaeحافظ حسن مدنی صاحب نے یہ رائے دی:

“Before induction of persons in sensitive institutions a thorough investigation about their faith may be conducted with the help of the religious experts and psychiatrists and for this purpose a Board may be constituted with the task of giving ideological verification.” (page 20)

ترجمہ: حساس اداروں میں رکھنے سے قبل امیدوار کے عقائد کے بارے میں دینی ماہرین سے اور ماہرین ِ نفسیات سے مکمل تحقیقات کر الینا ضروری ہیں۔اور اس غرض کے لئے ایک بورڈ بنانا چاہیے جو کہ نظریات کی تحقیقات کرے۔

ایک اور amicus curiaeاکرم شیخ صاحب نے بھی اس نظریہ کی تائید ان الفاظ میں کی :

"Yet, these laws and such amendments may be rendered more effective by bringing about administrative changes at the grassroots level, such as inserting a requirement to filing a declaration by the competing candidates for Civil Services posts and exams. Such a requirement is not entirely alien to our state institutions, as it is already a prerequisite for induction into the military service in Pakistan.”
(page 29)

ترجمہ: پھر بھی ان قوانین کو اور ایسی ترامیم کو زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے اگر نچلی سطح پر انتظامی تبدیلیاں کی جائیں۔ مثلاََ سول سروس کے عہدوں کے لئے منتخب ہوتے ہوئے یا سول سروس کے امتحان کے وقت ایک اظہار جمع کرانا ضروری قرار دیا جائے۔ ایسا نہیں کہ ہماری ریاست کے انتظام میں اس کی مثال موجود نہ ہو کیونکہ عسکری خدمات میں لئے جانے سے قبل اس کا جمع کرایا جانا ضروری ہوتا ہے۔
لیاقت علی خان صاحب کی اصل رائے کیا تھی؟

پھر اس بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اس فیصلہ میں تحریر کیا گیا ہے :

"Within a span of four years Mr. Liaqat Ali Khan came to know of the Qadianis prophecies and utterances regarding creation of an Ahmadiyya state in Kashmir and Baluchistan. In the wake of their policy and aspirations for a united India, he ordered the creation of Special Intelligence Cell to prepare list of Qadianis in sensitive postions and to keep an aye on their activities.” (page 46)

ترجمہ : چار سال کی مدت کے اندر اندر مسٹر لیاقت علی خان کو بلوچستان اور کشمیر میں اپنی ریاست بنانے کے بارے میں قادیانیوں کی پیشگوئیوں اور بیانات کا علم ہو گیا۔ اور اس بات کی وجہ سے کہ ان کی پالیسی اور امنگیں یہ ہیں کہ ہندوستان کو متحد کر دیا جائے لیاقت علی خان صاحب نے حکم دیا کہ انٹلیجنس کا خصوصی شعبہ قائم کیا جائے جو کہ ان قادیانیوں کی لسٹ بنائے جو کہ حساس عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔

پہلی بات یہ ہے کہ الزام تراشی کی جلدی میں دو عجیب و غریب متضاد الزام لگا دیئے گئے ہیں۔ اگر احمدی کشمیر اور بلوچستان میں اپنی علیحدہ ریاستیں بنانے کی سازش کر رہے تھے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ وہ متحدہ ہندوستان کے دوبارہ قیام کی سازش کر رہے تھے ۔ اگر احمدیوں نے کشمیر میں اپنی علیحدہ ریاست بنانی تھی تو پھر متحدہ ہندوستان بنانے کی سازش نہیں ہو سکتی تھی بلکہ ہندوستان کے زیر ِ انتظام کشمیر کے متعلق بھی یہ سازش تھی۔یہی ایک پہلو اس الزام کو غیر سنجیدہ الزام ثابت کر دیتا ہے۔ایک اور پہلو بھی قابل ِ غور ہے کہ اگر لیاقت علی خان صاحب کے نزدیک احمدی اتنی بڑی سازش کر رہے تھے تو پھر انہوں نے ایک احمدی کو اپنے آخری دم تک ملک کا وزیرخارجہ کیوں بنائے رکھا؟ اور جہاں تک اس افسانوی Special Intelligence Cellکا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا ثبوت دینا تو الزام لگانے والوں کا کام ہے ۔ اس کا ثبوت دیکھنے کے بعد ہی اس کے متعلق کوئی رائے دی جا سکتی ہے۔ اس وقت کا ریکارڈ تو اب declassifyبھی ہو چکا ہے ۔ اس لئے اس کا ثبوت نہ دینے کا کوئی عذر نہیں ہونا چاہیے۔البتہ پاکستان کے پہلے وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان صاحب کے متعلق جو ریکارڈ ہم نےدیکھا ہے ، اس کے مطابق آپ کو ایک طبقہ سے خدشہ تھا کہ وہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور وہ کون سا طبقہ تھا؟ یہ جاننے کے لئے ہم خود انہی کے الفاظ پیش کرتے ہیں ۔ یہ موقع بھی بہت اہم تھا۔ یہ موقع تھا جب پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں قرارداد ِ مقاصد پیش ہوئی ۔ اس موقع پر ایک معزز ہندو ممبر اسمبلی نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ چند تنگ نظر مولوی صاحبان ان کے پاس آئے اور اپنے شدت پسند نظریات کا اظہار کیا۔اس کے جواب میں لیاقت علی خان صاحب نے فرمایا :

"I can quite understand why this visit and why this handing over of this literature was done. There are some people who are out to disrupt and destroy Pakistan and these so called ulema who have come to you, they have come with that particular mission of creating doubts in your mind regarding the bona fides of the mussalmans of Pakistan. Do not for God’s sake lend your ears to such mischievous propaganda. I want to say and give a warning to this element which is out to disrupt Pakistan that we shall not brook it any longer. They have misrepresented the whole ideology of Islam to you. They are in fact enemies of Islam while posing as friends and supporters of Islam……………….

Sir, my friend that these people told him that in an Islamic state –that means a state which is established in accordance with this resolution-no Non-Muslim can be head of the administration. This is absolutely wrong. A non- Muslim can be the head of administration under a constitutional government with limited authority that given under the constitution to a person or an institution in that particular state.” (Constituent Assembly of Pakistan Debates, Vol 5 no. 5 p 12 th March 1949 p 94-95)

ترجمہ :میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ وہ ملاقات کرنے کیوں آئے تھے اور یہ لٹریچر کیوں دیا گیا تھا؟ بعض لوگ ایسے ہیں جو پاکستان کو منتشر اور تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ نام نہاد علماء جو آپ کے پاس آئے تھے وہ اسی مشن کے ساتھ آئے تھے تا کہ آپ کے ذہن میں پاکستان کے مسلمانوں کی حسن ِ نیت کے بارے میں شک ڈالیں۔ خدا کے لئے ان لوگوں کے شر انگیز پراپیگنڈا پر کان نہ دھریں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں اور اس طبقہ کو جو پاکستان کو منتشر کرنا چاہتا ہےیہ انتباہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اسے مزید برداشت نہیں کریں گے۔ان لوگوں نے آپ کے سامنے اسلامی نظریات کی غلط ترجمانی کی ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو اسلام کا دوست اور حمایتی ظاہر کرتے ہیں اور اصل میں اسلام کے دشمن ہیں…

جناب !میرے دوست نے بتایا کہ ان لوگوں نے انہیں بتایا کہ ایک اسلامی ریاست میں۔یعنی اُس ریاست میں جو کہ اس قرار داد کے مطابق وجود میں آئے گی۔کوئی غیر مسلم انتظامیہ کا سربراہ نہیں ہو سکتا ۔یہ بالکل غلط ہے۔ایک غیر مسلم آئینی حکومت میںانتظامیہ کا سربراہ ہو سکتا ہے۔ ان محدود اختیارات کے ساتھ جو کہ کسی ریاست کے آئین میں کسی شخص یا ادارے کو دیئے جاتے ہیں۔

یہ پاکستان کے پہلے وزیر ِ اعظم کا پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں بیان ہے۔اور لیاقت علی خان صاحب تو یہ اقرار کر رہے ہیں کہ مولویوں کا ایک طبقہ تنگ نظری کے خیالات کو پھیلا کر ملک کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اور وہ تو یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر پاکستان میں کسی شخص کو سربراہ حکومت بننے سے بھی نہیں روکا جا سکتا ۔ یہ دونوں باتیں اس عدالتی فیصلہ میں درج باتوں کی تردید کر رہی ہیں۔

ایک بے بنیاد الزام

اس فیصلہ کے صفحہ 49پر یہ مفروضہ درج ہے کہ احمدی کلیدی عہدوں پر کس طرح لگائے جاتے تھے ؟

"They collaborated both with the military rulers and the bureaucracy to get key posts in fast expanding economic institutions and public organizations.”

ترجمہ: انہوں نے [یعنی احمدیوں نے ] فوجی حکمرانوں اور بیورو کریسی کے تعاون سے پاکستان کے تیزی سے ترقی پانے والے اقتصادی اور پبلک اداروں میں کلیدی اسامیوں پر قبضہ کر لیا ۔

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کا تعلق جماعت ِ اسلامی سے رہ چکا ہے اور ان کے ٹکٹ پر ایک مرتبہ الیکشن بھی لڑا تھا گو کامیاب نہیں ہو سکے تھے ۔اور یہ یاد کراتے جائیں کہ جب جنرل ضیاء صاحب کی آمریت تھی تو جماعت ِ اسلامی شروع میں ان سے بھر پور تعاون کر رہی تھی اور ان کی کابینہ میں عہدے بھی قبول کر رہی تھی ۔ اس پس منظر کے باوجود جماعت ِ احمدیہ پر بغیر ثبوت کے یہ اعتراض ایک بے معنی دعوے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا، جس کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔

Owen Bennet Jonesاپنی کتابPakistan: Eye of the Storm میں لکھتے ہیں:

"Throughout his period in office Zia rewarded the only political party to offer him consistent support, Jamaat-e-Islami. Tens of thousands of Jamaat activists and sympathisers were given jobs in the judiciary, the civil service and other state institutions. These appointments meant Zia’s Islamic agenda lived on long after he died.” (Pakistan Eye of the Storm by Owen Bennet Jones , internet archives p 17)

ترجمہ : اپنے سارے دور میں ضیاء نے اُس ایک پارٹی کو یعنی جماعتِ اسلامی کو نوازا جس نے اسے مستقل مدد دی تھی۔جماعت ِ اسلامی کے ہزاروںحامیوں اور ہمدردوں کو عدلیہ میں ، سول سروس میں اور دوسرے ریا ستی اداروں میں ملازمتیں دی گئیں۔ضیاء کی موت کے بعد بھی اس نے ان کے اسلامی ایجنڈا پر عملدرآمد کرایا۔

اس پس منظر میں جماعت ِ احمدیہ پر یہ الزام ایک بے معنی الزام ہے کیونکہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کو آمریت کے دور میں سب سے زیادہ نوازا گیا تھا۔

اس فیصلہ کے صفحہ127پر لکھا ہے:

"That phenomenon of the infiltration of Qadianis by posing themselves as Muslims, in the State institutions and key posts, including the high Constitutional offices was to be addressed, effectively but no step were taken towards this direction, although the same has been the demand of the nation and mandate of 2nd Constitutional Amendment.”ـ

ترجمہ: قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے ریاستی اداروں اور کلیدی اسامیوں بشمول اعلیٰ آئینی عہدوںمیں سرایت کرجانے کے عمل کا مسئلہ حل ہونا چاہیے تھا لیکن اس سمت میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔اگرچہ دوسری آئینی ترمیم کے بعد سے یہ قوم کا مطالبہ رہا ہے۔

اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 168پر یہ مطالبہ بالکل ایک اور رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ عمل صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اسے آگے بڑھایا جائے گا اور ہراہم سرکاری اہلکار سے نہ صرف یہ دریافت کیا جائے گا کہ اس کا مذہب کیا ہے بلکہ ہر مسلمان اہلکار سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اس کا فرقہ کون ساہے۔ اور ایسا بڑے پیمانے پر کیا جائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے:

Every citizen of the country has right to know that the person(s) holding the key posts belongs to which religious community… (page168)

ترجمہ: ہر شہری کا یہ حق ہے کہ وہ یہ جانے کہ جو شخص کلیدی عہدے پر کام کر رہا ہے ، اس کا مذہبی گروہ کیا ہے؟

صرف حساس نہیں معزز اور آئینی عہدے پر بھی مقرر نہیں ہو سکتے

پھر اس فیصلہ میں احمدیوں کے بارے میں لکھا ہے :

"Due to their names they can easily mask their belief and become part of Muslim majority. Also they can then gain access to dignified and sensitive posts resulting in accumulation of all benefits.”(page169-170)

ترجمہ: اپنے ناموں کی وجہ سے وہ اپنے عقائد چھپاتے ہیں اور مسلم اکثریت کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اور معزز اور حساس عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

اس حصہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ عدالت کے نزدیک کسی اقلیت کے لئے معزز عہدے پر مقرر ہونا بھی ممنوع ہے اور وہ صرف غیر معزز اسامیوں پر ہی کام کر سکتے ہیں۔

پھر لکھا ہے :

"It is significant to prevent this situation because the appointment of a non Muslim on constitutional posts is against our organic law and rituals.”(page 170)

ترجمہ: اس صورت ِ حال کو روکنا ضروری ہے کیونکہ ایک غیر مسلم کا آئینی عہدوںپر فائز ہونا ہمارے organic law اور رسومات کے خلاف ہے۔

عدالتی فیصلہ آئین کی بنیاد کے خلاف

یہاں کلیدی اسامیوں کی جگہ ایک اور اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی’’ ‘آئینی عہدے‘‘’۔ اگر’’’آئینی عہدوں‘‘’ سے مراد وہ تمام عہدے ہیں جن کا ذکر پاکستان کے آئین میں ہے تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کے آئین کی رو سے صرف وزیر ِ اعظم اور صدر کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے ۔ اور باقی کسی عہدے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہو ۔ مثال کے طور پر وفاقی وزراء اور صوبائی وزراء کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔ اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ۔ سینٹ کے چیئر مین کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ۔ تمام عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ چیف الیکشنر کمیشنر ، چیئر مین پبلک سروس کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ یہ سب عہدے بھی تو آئین میں مذکور ہیں۔ جب یہ بات کی جائے رہی ہے کہ ان عہدوں پر کوئی غیرمسلم یا جسے پاکستان کا آئین غیر مسلم قرار دیتا ہے ان عہدوں پر مقرر نہیں ہو سکتا تو یہ بات بذات ِ خود پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات ماورائے آئین نہیں بلکہ خلاف ِ آئین ہے۔ کیونکہ پاکستان کا آئین یہ ضمانت دیتا ہےاور یہ ضمانت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 27[1] میں موجود ہے۔ اس آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں:

” کسی شہری کے ساتھ جو باعتبار ِ دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرری کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات ، جنس ، سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔”
اور آئین کی شق باب1 یعنی ‘بنیادی حقوق ‘ کے باب میں شامل ہے ۔ اور اس باب کا آغاز [یعنی آئین کے آرٹیکل 8کا آغاز]ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے:

1)کوئی قانون، یا رسم یا رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقص کی اس حد تک کا لعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو۔

2)مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو بایں طور عطا کردہ حقوق کو سلب یا کم کرے اور ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا جائے اس خلاف ورزی کی حد تک کا لعدم ہو گا۔
تو صورت ِ حال یہ ہے کہ آئین کی رو سے کوئی رسم یا رواج اس بنیادی حق کی راہ میں روک نہیں بن سکتا اور مملکت مستقبل میں بھی کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو اس شق کی خلاف ورزی کرے۔ اگر مملکت ایسا قانون بنا بھی دے تو وہ اگر ان حقوق سے متصادم ہو جن کا ذکر اس باب میں ہے تو وہ قانون اس حد تک کالعدم ہو گا۔اور اس پر عمل درآمد کرنا ایک غیر آئینی قدم ہو گا۔

درخواست گذاروں نے یہ درخواست دی ہے کہ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے علیحدہ کیا جائے، یا وکلاء یا Amicus Curiaeنے جو دلائل دیئے ہیں کہ احمدیوں کا کلیدی اسامیوں پر کام کرنا مناسب نہیں ہے اور خود انہوں نے اس عدالتی فیصلہ میں اس بات پر بار بار اظہار ِ تشویش کیا ہے کہ احمدی آئینی عہدوں پر یا کلیدی اسامیوں پر مقرر نہیں ہو سکتے۔

رواج اور Natural Lawکا سہارا

غالبًاجسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ درخواست اور ایسا کوئی بھی ممکنہ قدم کوئی آئینی جواز اپنے اندر نہیں رکھتا ۔یہ آئین کی ان شقوں کے خلاف ہے جن کے خلاف قانون سازی کا حق مملکت کے کسی ادارے کو نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس الجھن سے نکلنے کے لئے اور اس بات کا جواز پیدا کرنے کے لئے انہوں نے اس آخری حوالے میں لکھا ہے کہ اگر غیر مسلم آئینی عہدوں پر کام کرے تو یہ ہمارے Ritual [رسم یا رواج ] اور Natural Law کے خلاف ہو گا۔

یہاں اس بحث سے پہلے کہ Ritualاور Natural Lawکا مطلب کیا ہے اور اس موقع پر ان کا ذکر کرنا اپنے اندر کوئی قانونی معنی رکھتا بھی ہے کہ نہیں؟ ایک بنیادی سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی Ritualآئین کی بنیادی شقوں کے خلاف ہو تو کیا پاکستان میں آئین پر عمل ہو گا یا پھر ہر کوئی شخص اس بات پر آزاد ہے کہ وہ اپنی مقامی Ritual پر عمل کرتا رہے اور آئین کی خلاف ورزی کرے۔آئین ِپاکستان کا آغاز ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ کوئی رواج ان بنیادی حقوق کو ختم نہیں کر سکتا جو کہ بنیادی حقوق کے باب میں درج ہیں۔

اور جہاں تک اس فیصلہ میں Natural Laws کا تعلق ہے تو اس موضوع پر قدیم زمانے سے اب تک بہت بحثیں ہوئی ہیں۔ ارسطو اور افلاطون سے شروع ہوکر، پھر عیسائی راہب Aquinasسے آج کے فلاسفروں تک اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یہاں ان سب بحثوں کا خلاصہ بیان نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اس ضمن میں چند سوالات ضرور اُٹھتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پھر ہر فیصلہ کرنے والے کو اجازت ہو گی کہ وہ Natural Lawکا نام لے کر آئین کی خاص طور پر اُن شقوں کو جن کا تعلق بنیادی حقوق سے ہے کالعدم قرار دے دے؟ اگر ایسا کیا جائے گا تو پھر وہ دروازہ کھلے گا کہ کوئی بھی بنیادی انسانی حق محفوظ نہیں رہے گا۔دوسرا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آج پاکستان میں مذہب کو بنیاد بنا کر اور Natural Laws کا نام لے کر کچھ طبقات کو بنیادی انسان حقوق سے محروم کیا جاتا ہے تو پھر کیا ایسے ممالک میں جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں ، انہیں بھی یہ اختیار ہو گا کہ اپنے مذہب کو بنیاد بنا کر اور Natural Lawsکا نام لے کر مسلمانوں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کردیں ۔کیا یہ قابل ِ قبول ہوگا ؟

مولوی صاحبان آخر چاہتے کیا ہیں؟

یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب 1953ءکی تحقیقاتی عدالت میں مودودی صاحب نے اپنی تصورات کی ’’اسلامی ریاست‘‘ کے خدو خال بیان کئے تو یہ واضح ہوگیا کہ ان کی اس تصوّراتی ریاست میں غیر مسلموں کو دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیث حاصل ہو گی۔ اس پر عدالت نے ان سے سوال کیا

’’ اگر ہم پاکستان میں اس شکل کی اسلامی حکومت قائم کرلیں ۔ تو کیا آپ ہندوؤں کو اجازت دیں گے کہ وہ اپنے دستور کی بنیاد اپنے مذہب پر رکھیں ؟‘‘

اس پر مودودی صاحب نے جواب دیا :

’’یقیناََ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوںسے ملیچھوں اور شودروںسا سلوک کیا جائے ۔ ان پر منوکے قوانین کا اطلاق کیا جائے۔اور انہیں حکومت میں حصّہ اور شہریت کے حقوق قطعاََ نہ دیئے جائیں ۔‘‘

اور صدر جمیعت العلماء پاکستان نے بھی کہا کہ انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اگر ہندوستان میں مسلمانوںسے شودروں جیسا سلوک کیا جائے۔جماعت ِ اسلامی کے میاں طفیل محمد صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے کسی مسلمان شہری کو کسی عہدے کی پیشکش کرے تو اس مسلمان کو چاہیے کہ انکار کر دے۔

؎[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ءصفحہ245تا247]

ظاہر ہے کہ اگر اسی سوچ کو پروان چڑھایا جائے تو پھر دنیا بھر میں فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا اور خود مسلمانوںکے حقوق بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ قدیم زمانے میں جب انسانی حقوق کا شعور اتنا مستحکم نہیں ہوا تھا تو Natural Law کا نام لے کر کچھ طبقات کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جاتا تھا ۔ مثلا ارسطو نے اسی کو جواز بنا کر یونانی شہروں میں کثرت سے پائے جانے والے غلاموں اور ان کو اس پستی کی حالت میں رکھنے کو جائز بلکہ ضروری قرار دیا تھا۔افلاطون نے اسی کو بنیاد بنا کر بعض نسلوں اور شہروں کو بھی کمتر قرار دیا تھا۔ عیسائی راہب فلاسفروں میں سے Aquinasاور St. Augustineنے بھی اس قسم کے نظریات کو بنیاد بنا کر غلامی کا جواز پیدا کیا تھا۔

(http://www.bbc.co.uk/ethics/slavery/ethics/philosophers_1.shtml. accessed on 26.9.2018)

لیکن یہ فلسفہ قبل ِ مسیح ادوار میں یا ابتدائی عیسائی راہبوں کے دور میں تو قابلِ قبول ہو سکتا تھا کہ Natural Lawکا نام لے کر انسانوں کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے لیکن فی زمانہ اس فلسفہ کو بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے انہیں پامال کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا۔
جس طرح پاکستان کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب اپنے ایک فیصلہ میں لکھتے ہیں

"Fundamental Rights in essence are restraints on the arbitrary exercise of power by the State in relation to any activity that an individual can engage. . . . . Moreover, Basic or Fundamental Rights of individuals which presently stand formally incorporated in the modern Constitutional documents derive their lineage from an era traceable to the ancient Natural Law.”

(Muhammad Nawaz Sharif v. Federation of Pakistan (PLD 1993 SC 473-p 29)

ترجمہ : بنیادی حقوق کی روح یہ ہے کہ ریاست کو اپنے اختیار کے استعمال میں من مانی کرنے سے روکا جائے کہ وہ ایک فرد کی سرگرمیوںپر کوئی قدغن لگائے…مزید یہ کہ ایک فرد کے بنیادی حقوق جو آج باقاعدہ جدید آئین کا حصہ ہیں اصل میں قدیم Natural Laws سے اپنا وجود رکھتے ہیں۔

اس سے اگلی قسط میں ہم یہ جائزہ پیش کریں گے کہ کیا ایک ریاست یا ایک مملکت یا ایک پارلیمنٹ کے پاس غیر محدود اختیار ہے کہ وہ جس طرح چاہے قانون سازی کرے یا اس کی کوئی حدود ہیں؟کیا قانون ساز اداروں کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے کے قانون بنا سکیں ؟

……………………

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

پچھلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button