کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

یہ اللہ کی حکمت کے بھیدوں میں سے ہے کہ اس نے مجھے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا کیا تا میری پیدائش اس اعتبار سے آدم کی پیدائش کے مشابہ ہو جائے اور یہ حکمتوں والے اور طرح طرح کی صفات والے اللہ کی طرف سے ایک مقدر وعدہ تھا۔

’’ پس یہ اللہ کی حکمت کے بھیدوں میں سے ہے کہ اس نے مجھے چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا کیا تا میری پیدائش اس اعتبار سے آدم کی پیدائش کے مشابہ ہو جائے اور یہ حکمتوں والے اور طرح طرح کی صفات والے اللہ کی طرف سے ایک مقدر وعدہ تھا۔ اسی کی طرف اس نے اپنے قول وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (ایک دن خدا کا ایسا ہے جیسا تمہارا ہزار برس۔ (الحج : 48))میں اشارہ فرمایا ہے۔ یقینًا میری پیدائش کا زمانہ چھٹا ہزار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ پس اہل علم سے پوچھو۔ یہ بات تورات نے بھی بیان کی ہے جسے مسلمان بھی مانتے ہیں۔ جو کچھ ان اعداد و شمار کے برخلاف ہے وہ ہرگز نصوص صریحہ سے ثابت نہ ہے اور اسے اہل علم جانتے ہیں۔ پس ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ تورات کی بیان کردہ گنتی کا اور نبیوں کے اقوال کا انکار کریں۔ اور وہ اس کا انکار کربھی کیسے سکتے ہیں جب کہ قرآن نے اس کی مخالفت نہیں کی بلکہ سورۃ العصر نے اس کی تصدیق کی ہے۔ پس وہ کہاں بھاگیں گے ؟ بلکہ ارشاد خداوندی یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (وہ فیصلے کو تدبیر کے ساتھ آسمان سے زمین کی طرف اتارتا ہے۔ پھر وہ ایک ایسے دن میں اس کی طرف عروج کرتا ہے جو تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ (السجدۃ 6:))بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔[حاشیہ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تصریح فرمائی ہے اور اچھی طرح واضح کیا ہے کہ قرآن کی تبلیغ کے دنوں کے بعد گمراہی کا زمانہ ہے جو ہزار سال ہے اور اس کے بعد خدائے رحمٰن کا مسیح مبعوث ہو گا۔ اس واضح تعیین کے بعد جھگڑا ختم ہو گیا ۔ بالخصوص جب اس کے ساتھ اس ہزا ر سال کا ذکر ملایا جائے جو سابقہ نبیوں کی کتابوں میں آیا ہے۔ غور کر اور پھر غور کریہاں تک کہ تجھے یقین آجائے۔ کیا تُو ان کو نہیں دیکھتا جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو مصیبت میں ڈالا اور انہوں نے اپنی جماعت کے ساتھ بہت سے کیڑے مکوڑے ملا لئے اور دنیا کو بدعات سے زیروزبر کر دیا۔ اور انہوں نے چاہا کہ جھوٹی باتوں سے حق کی بیخ کَنی کر دیں اور انہوں نے روشن شریعت کو برباد کرنے کے لئے پانی کا دریا جاری کرنے کی طرح سونے کے پہاڑ خرچ کر دیئے۔ کیا پہلے دشمنوں میں ان کی مثال پائی جاتی ہے؟ یا اسلام پر اس جیسی مصیبت پہلے کبھی نازل ہوئی؟ آدم سے لے کر آخری وقت تک ان کے فتنوں جیسے فتنے تم ہرگز نہیں پائو گے۔ منہ] اور اس کے ساتھ (آیت) اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَکو ملا کر پڑھو۔ یہ آیت ہم نے سورۃ السجدہ سے لکھی ہے اور یہ سنت ہے کہ یہ سورۃ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں پڑھی جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سورۃ میں فرماتا ہے کہ اس نے فرقان حمید نازل کر کے امرِ شریعت کی تدبیر کی اور کلام مجید کے ذریعہ لوگوں کے لئے اُن کا دین کامل کر دیا۔ پھر اس کے بعد وہ زمانہ آئے گا جس کی گمراہی ایک ہزار برس تک ممتد ہو گی اور اللہ کی کتاب اس کی طرف اُٹھا لی جائے گی اور اللہ کا حکم اپنے دونوں پہلوئوں کے اعتبار سے اس کی طرف اُٹھا لیا جائے گا۔ یعنی اس میں اللہ کا حق بھی ضائع کیا جائے گا اور بندوں کا حق بھی۔ اور فساد کی آندھیاں اس کی دونوں قسموں پر چلیں گی۔ جھوٹ اور من گھڑت باتیں یعنی دجاّلی فتنے پھیل جائیں گے۔ فسق ، کفر اور شرک غالب آجائے گا اور تُو مجرموں کو اپنے رب سے اعراض کرتے ہوئے اور اس کے خلاف پشت پناہی کرتے ہوئے دیکھے گا۔ پھر اس کے بعد ایک اور ہزار آئے گا جس میں رب العالمین کی طرف سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور آخری زمانہ کے آدم کو بھیجا جائے گا تادین کی تجدید کرے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے جو اس آیت کے بعد ہے یعنی ارشاد الٰہی وَ بَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْن ۔(اور اس نے انسان کی پیدائش کا آغاز گیلی مٹی سے کیا۔(السجدۃ8:))یہ انسان ہی مسیح موعود ہے۔ اس کی بعثت ان صدیوں سے جو بہترین صدیاں تھیں، ایک ہزار برس گزرنے کے بعد مقدر کی گئی تھی اور اس پر گروہ انبیاء کا اتفاق ہے۔ عمران بن حصین سے صحیحین میں یہ روایت آئی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امّت کا بہترین حصہ میری صدی ہے۔ پھر وہ لوگ جو اُن کے قریب ہیں پھر وہ جو اُن کے قریب ہیں۔ پھر اُن کے بعد وہ لوگ ہوں گے جو گواہی دیں گے حالانکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی گئی ہو گی۔ وہ خیانت کریں گے اور انہیں امین نہ سمجھا جائے گا، نذر مانیں گے مگر پوری نہ کریں گے۔ ان میں فربہی آجائے گی۔ اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ وہ حلف اٹھائیں گے حالانکہ ان سے حلف کا تقاضانہ کیا گیاہو گا۔ پس اس حدیث سے ، جو کہ متفق علیہ ہے ظاہر ہے کہ جھوٹ کے غلبہ سے جو کہ دجاّلی صفات میں سے ہے، محفوظ زمانہ اور سچائی، نیکی اور پاکدامنی کا زمانہ سیدنا خیرالبریہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صدی سے تین صدیوں سے آگے نہ جائے گا۔ پھر اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا جیسے چاند کے چھپ جانے پر رات تاریک ہو جاتی ہے۔ اُس میں جھوٹ پھیل جائے گا اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے ہلاک ہونے والا ہلاک ہو جائے گا۔ ہرروز جھوٹ اور من گھڑت باتیں زیادہ ہوتی جائیں گی۔ پھر جب جھوٹ حدِّکمال کو پہنچ جائے گا تو ایک دن یہ دجاّل کے ظہور پر منتج ہو گا اور وہ اس ہزار (سال) کے آخری ایاّم ہوں گے جیسا کہ جھوٹ اور خود تراشیدہ باتوں کی ترقی کا سلسلہ اس کا متقاضی ہے اور جیسا کہ اللہ ذوالجلال کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کا مفہوم ہے۔ یہ زمانہ وہی زمانہ ہو گا جس میں اللہ کا امر اور ہدایت اس کی طرف چڑھ جائیں گے اور قرآن بلند آسمانوں پر اٹھا لیا جائے گا۔ رونما ہونے والے واقعات گواہی دے چکے ہیں کہ یہ بگڑا ہوا زمانہ ایک ہزار برس تک یعنی اس زمانہ تک پھیلا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ چھوٹا زہریلا سانپ بڑے زہرناک سانپ کی مانند ہو گیا۔‘‘

……………………………………………………………

(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 252تا257۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)

مزید پڑھیے:قرآن تمام برائیوں کو دلائل سے ردّ کرتا ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button