متفرق مضامین

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا(Friday The 10th)والا رئویا

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے یورپ کے مختلف ممالک کے دورہ کے دوران 27؍ تا 29؍ دسمبر 1984ء کو فرانس کا پہلا دورہ فرمایا۔ اگرچہ اس سے قبل 1982ء میں یہاں باقاعدہ طور پر جماعت کا قیام عمل میں آ چکا تھا لیکن جماعت کا اپنا کوئی مشن ہاؤس یا مسجد نہ تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس دورہ کے دوران SARCELLES کے مقام پر ایک ہوٹل LES FLANDES میں قیام فرمایا۔ اس وقت افراد جماعت احمدیہ فرانس کی کُل تعداد ساٹھ کے قریب تھی۔ جماعت نے اس موقع پر پریس کے نمائندگان کو دعوت دی تا کہ اس ذریعہ سے حضرت خلیفۃ المسیح کے اپنے الفاظ میں  میڈیا کے توسّط سے اہلِ فرانس تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ سکے۔ لیکن ایسا ہو اکہ پریس کا کوئی بھی نمائندہ وہاں نہیں آیا۔ حضور رحمہ اللہ کے قیام کے دوران اس ہوٹل میں نمازوں کی ادائیگی، افرادِ جماعت سے ملاقاتوں اور مجالس عرفان کا سلسلہ جاری رہا۔ اس عرصہ میں 28؍ دسمبر 1984ء کا جمعہ حضور نے پیرس میں ہی پڑھایا اور 29؍ دسمبر کو Lille, Valencien تشریف لے گئے اور وہاں جماعت کے تمام افراد کو شرفِ ملاقات بخشا اور پھر وہاں سے لندن تشریف لے گئے۔

28؍ دسمبر 1984ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے اپنے ایک تازہ کشف کا ذکر فرمایا جو غیرمعمولی طور پر حیرت انگیز پیغام اپنے اندر رکھتا تھا۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ چند دن پہلے …کی بات ہے کہ بعض اطلاعات کے نتیجہ میں شدید بے چینی اور بے قراری تھی اور ’’ظہر کے بعد مَیں سستانے کے لئے لیٹا ہوں تو میرے منہ سے جمعہ جمعہ کے الفاظ نکلے اور ساتھ ہی ایک گھڑی کے ڈائل کے اوپر جہاں دس کا ہندسہ ہے وہاں نہایت ہی روشن حروف میں دس چمکنے لگا۔ اور خواب نہیں تھی بلکہ جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ تھا۔ اور وہ جو دس دکھائی دے رہا تھا باوجود اس کے کہ وہ دس کے ہندسہ پر دس تھا جو گھڑی کے دس ہوتے ہیں۔ لیکن میرے ذہن میں وہ دس تاریخ آ رہی تھی کہ Friday the 10th۔ یہ انگریزی میں مَیں یہ کہہ رہا تھا۔ Friday the 10th۔ اور ویسے وہ گھڑی تھی اور گھڑی کے اوپر دس کا ہندسہ تھا۔ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سا جمعہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے یہ روشن نشان عطا فرمانا ہے۔ مگر ایک دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا، ہر دفعہ یہ ہواہےکہ جب بھی شدّت کی پریشانی ہوئی ہے جماعت کے متعلق، اللہ تعالیٰ نے مسلسل خوشخبریاں عطا فرمائیں۔‘‘

اس ضمن میں حضورؒ نے فرمایا کہ

’’اس سے چند دن پہلے رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے بار بار خوشخبریاں دکھائیں اور چار خوشخبریاں اکٹھی دکھائیں۔ جب میں اٹھا تو اس وقت زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ شعر تھا کہ؎

غموں کا ایک دن اور چار شادی

فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ‘‘

حضور رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’… چار خوشخبریاں دکھانے کی حکمت یہ ہے کہ ایک غم پہنچے گا تو خدا تعالیٰ چار خوشخبریاں دکھا ئے گا اور دشمنوں کوبہر حال ذلیل کرے گاکیونکہ اس وقت جماعت کی حالت سب سے زیادہ دنیا کی نظر میں گری ہوئی ہے۔ کلّیتہً بیچار گی کا عالم ہے اور کامل بے اختیاری ہے۔یہ وقت ہے خدا کی طرف سے خوشخبریاں دکھانے کا۔ اور یہ وقت ہے ان خوشخبریوں پر یقین کر نے کا ۔آج جو اپنے خدا کے دئیے ہوئے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، آج جس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں ہے، وہی ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے۔ وہی ہے جس کو دنیا میں غالب کیا جائے گا اور اسے خدا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ کیو نکہ جو تنزّل کے وقت اپنے خدا کی باتوں پر ایمان اور یقین رکھتا ہے اور اس کے ایمان میں کوئی تز لزل نہیں آتا اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے لئے ایسے کام دکھاتی ہے کہ دنیا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔

…اگر آج آپ نے خدا پر اپنے ایمان کو کمزور کردیا ،اگر آج خدا کے وعدوں پر آپ کو شک پیدا ہونے شروع ہوگئے تو کل اگر تقدیر بگڑی توآپ اس تقدیر کو بگاڑنے والے ہوں گے۔ اس لئے اپنے یقین کی حفاظت کریں اور جہاں تک آپ کا بس چلتا ہے تدبیر کا بھی ہر طریق اختیار کریں۔

…اس لئے جتنا دشمن جماعت احمدیہ کی مرکز یت پر حملہ کرنے کے لئے کو شش کررہا ہے یا حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اسی حد تک اس کا جماعت کی طرف سے برعکس ردّعمل پیدا ہونا چاہئے۔ چنانچہ میں نے جماعت کو بارہا یہ تو جہ دلائی ہے کہ جب یہ آپ کی زندگی پر حملہ کر رہے ہیں، یہ آپ کو نیست ونابود کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اوریہی منصوبے بنارہے ہیں تو اس کا ردّ عمل یہ ہونا چاہئے کہ اس قوت کے سا تھ آپ ابھریں اور بڑھیں اور پھیلیں کہ دشمن کلّیتہً خائب و خاسر اور نامراد ہو جائے۔ حسرتوں کے سوا اُس کے ہاتھ کچھ نہ آئے ۔ ایک جگہ جماعت کو دباتے ہیں تو دس جگہ آپ پھیل جائیں۔ ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو احمدی بنائیں۔ ایک ملک میں جماعت احمدیہ کی مسجدوں کو ویران کیا جاتا ہے تو ہزاروں، ملکوںمیں،جماعت احمدیہ مسجدیں بنائے ۔ یہ جواب ہے ایک زندہ قوم کا۔ یہ جواب ہے ایک صاحب ایمان قوم کا۔ اس لئے مَیں بار بار جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کررہا ہوں اور خدا کے فضل سے بعض ممالک میں بہت ہی اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں ‘‘۔

آپؒ نے احباب جماعت فرانس کو تبلیغ کی طرف خصوصی توجہ دلاتے ہوئے جہاں اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ بعض احمدی اللہ کے فضل سے حرکت میں آ گئے ہیں۔ وہاں آپؒ نے فرمایا کہ:

’’لیکن بحیثیت جماعت، زندہ فعّال جماعت کے طور پر منصوبہ بنا کر اہلِ فرانس کو اسلام میں داخل کرنے کے وہ آثار ابھی ظاہر نہیں ہوئے جن کی مَیں آپ سے توقع رکھتا ہوں۔‘‘

اسی طرح آپؒ نے فرمایا:

’’ہر احمدی اپنے اوپر فرض کر لے کہ مَیں نے ضرور یہاں احمدیت کا پودا لگانا ہے اور صرف پاکستانیوں میں کام نہ کریں۔ ان کا بھی حق ہے، ان میں بھی بے شک کام کریں۔ لیکن کوشش یہ کریں کہ اہلِ فرانس سے آپ کے تعلّقات ہوں اور فرانسیسیوں تک آپ پیغام پہنچائیں۔‘‘

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودوہ 28؍ دسمبر 1984۔ خطباتِ طاہر جلد 3صفحہ 777 تا 781)

سورۃ الجمعہ کی تفسیر اور فرائیڈے دی ٹینتھ کی تشریح

10؍ مئی 1985ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے گلاسگو(سکاٹ لینڈ) میں جماعت کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا۔ خطبہ جمعہ میں حضورؒ نے سورۃ الجمعہ کی آیات 10 تا 12 کی تلاوت کی اور پھر ان کی نہایت پُر معارف تفسیر بیان فرمائی۔ اس خطبہ میں حضور رحمہ اللہ کے سالِ گزشتہ کے اس کشف کا بھی ذکر ہوا جو آپ نے فرانس میں دیکھا تھا اور جس کا ذکر آپ نے 28؍ دسمبر 1984ء کے خطبہ میں فرمایا تھا۔ Friday the 10th کے حوالہ سے حضورؒ نے اس کی مختلف توجیہات و تشریحات کا بھی اس خطبہ میں ذکر فرمایا۔ ذیل میں اس خطبہ کے بعض حصّے درج کئے جاتے ہیں۔

حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’یوں تو ہر جمعہ بہت مبارک ہوتا ہے اور مومن کی زندگی کے لئے ایک خاص برکتوں کا دن ہے۔ جمعہ کے ساتھ بہت سے فضل وابستہ ہیں ۔ بہت سی برکات جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اور آنحضرتﷺ کے ارشادات کے مطابق جمعہ کے دن ،جمعہ کے بعد اور سورج غروب ہونے سے پہلے بعض ایسی گھڑیاں بھی آتی ہیںکہ جن کونصیب ہو جائیں ان کے مقدر جاگ اٹھتے ہیں۔ ایسی گھڑیاں بھی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طور پر دعائیں مقبول ہوتی ہیں۔ حدیث میں جو یہ خوشخبری دی گئی ہے اس کی بنیاد بھی سورۂ جمعہ میں موجود ہے فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ ۔ یہاںاللہ کے جس فضل کا ذکر ہے اسی کی تشریح آنحضرت ﷺنے فرمائی ہے۔ اگرچہ بظاہر عام دنیا کے کاروبار اور دنیا کی منفعتیں مراد لی جاتی ہیں اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فضل سے مراد تجارتوں کے منافع ہیں۔لیکن ہر گز ایسا نہیں۔ وہ بھی اس آیت کا ایک منطوق ہے مگر بہت معمولی۔ اس آیت کااصل منطوق وہی ہے جس کا ذکر آنحضرت ﷺ کی تفسیر میں ملتا ہے کہ جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا نزول ہوتا ہے ۔دراصل جو فضل مراد ہیں وہی فضل اور اس کے ساتھ وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ جوڑا گیا ہے کہ پھر کثرت کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرو ،اس کا ذکر کرو،تاکہ تم غیر معمولی طور پر فلاح پائو۔

بہر حال جمعہ کا دن کسی پہلو سے بھی دیکھیں بہت ہی با برکت دن ہے اور مومن کی زندگی میں ہر ہفتہ ایک نئی تازگی کا پیغا م لے کر آتا ہے ۔

جماعت احمدیہ سکاٹ لینڈ کے لئے یہ جمعہ خصوصیت کے ساتھ بہت مبارک ہے کیونکہ آج ہم جس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں جو ہم نے خالصۃًلِلہ،اللہ کی رضا جوئی کی خاطر بہت مدت کے انتظار کے بعد حاصل کی ہے ۔جماعت احمدیہ سکاٹ لینڈ میں بڑی دیر سے یہ کمی محسوس ہوتی رہی کہ کوئی ایسا مرکز نہیں جہاں بیٹھ کر اپنی اجتماعی زندگی کو ترتیب دے سکیں اور اس علاقہ کو ایسی مرکزیت عطا ہو جائے جہاں جماعت اکٹھی ہو اور پھر مل کر خدا کی رضا کی خاطر ، اس کے دین کی ترقی کے لئے منصوبے بنائیں اور اس مرکز کے گرد ہماری اجتماعی زندگی گھومنے لگے ۔‘‘

حضورؒ نے فرمایا:

’’…جمعہ اور خوشخبریوں کی باتیں ہو رہی تھیں اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ یہ جمعہ اتفاق سے ایسا ہے کہ آج دس تاریخ کو ہو رہاہے۔ یعنی آج مئی کی دس تاریخ ہے اور جمعہ بھی ہے اور جب میں یورپ کے سفر پر تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کشفی نظارہ دکھایا تھا کہ سامنے ایک گھڑی ہے جس پر صرف دس کا عدد بہت نمایاں اور روشن ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے اور جس روز یہ نظارہ دیکھاوہ بھی جمعہ کا دن تھا یا ایک دن پہلے کی بات ہے۔ مگر بہرحال میری زبان پر یہ جاری ہو تا ہے FRIDAY THE 10TH۔ اس پر مجھے تعجب بھی ہوتا ہے کہ The 10th سے مراد بظاہر تو تاریخ لگتی ہے اور گھڑی پر تاریخ تو نہیں لکھی گئی وہ توگیارہ سے پہلے دس کا جو مقام ہوتا ہے عین اسی مقام پر دس کا عدد روشن ہے جو تاریخ کے طور پر نہیں بلکہ وقت کے طور پر ہے۔ لیکن میں کہہ کیا رہاہوں۔ اس پرچونکہ اختیارنہیں تھایعنی باوجود اس کے کہ ذہن اس حد تک کام کررہا تھا ،اس وقت یہ پتہ تھا کہ یہ گھڑی کا ہندسہ ہے، تاریخ نہیں ہے۔ لیکن منہ پر جو الفاظ جاری تھے ان پر کوئی اختیار نہیں تھا ۔اور میں یہ کہہ رہا تھا کہFRIDAY THE 10TH۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ جماعت کے لئے بہت بڑی خوشخبری عطاکی جارہی ہے۔ بہر حال میں نے اس کا ذکر خطبہ میں کیا تو متفرق رنگ میں اس کی تعبیریں کی جانے لگیں۔ اوّل تو خود مجھے تعجب تھا کہ اگر تاریخ مراد ہو تو پھر گھڑی پر دس کے عدد کے طور پر کیوں بنائی گئی ہے۔ لیکن دل میں یہ تسلّی تھی کہ اللہ تعالیٰ جب بھی اس کی تعبیر ظاہر فرمائے گا اس وقت بات سمجھ میں آ جائے گی۔ لیکن اس وقت سے لے کر اب تک جماعت کی طرف سے مختلف رنگ میں مسلسل اس کی تعبیر یں ہو رہی ہیں اور بعض لوگ تو اپنی تعبیر پر ایسی بناء کرتے ہیں کہ شرطیںتک لگا دیتے ہیں اور پھر مجھے بھی لکھ دیتے ہیں ۔…بہر حال اس کی مختلف تعبیریں جو مجھ تک پہنچی ہیں ان میں سے چند قابل ذکر میں آپ کو بتاتا ہوں ۔

جب دورہ سے واپس آرہے تھے تو جلنگھم میں قیام کے دوران ایک گھر میں ایک صاحب نے اپنی ایک رؤیا بتائی جس میں خدا تعالیٰ نے چاند کی دسویں کی خوشخبری دی ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ جب مجھے کسی عزیز نے فون پر یہ اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ کشفی نظارہ دکھایا ہے تو مجھے اپنی رئویا یا د آگئی اور مَیں یہ سمجھتا ہو ںکہ اس سے چاند کی دسویں تاریخ مراد ہے۔ نہ کہ انگریزی مہینوں کی دسویں ۔ میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ بے شک یہ مراد لیں کیونکہ خدا نے آپ کو ایک رئویا دکھائی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہو۔ لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ تعبیر ظاہر نہ فرمادے اس وقت تک ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ایک بات بہر حال یقینی ہے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہوگی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا ۔ اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی د ے گا کہ ہاں یہ بات پوری ہوگئی۔

پھر بعض لوگوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم نے حساب کیا ہے کہ یہ تاریخ مئی کی دسویں بنتی ہے یعنی آج ۔تو میںنے کہا کہ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔ اگر یہی دسویں ہو تو میرے لئے اس سے بہتر اورکیاہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ کشف جلدی پورا فرمادے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تو سال نہیں بتایا صرف تاریخ ہی بتائی ہے۔ تو خداتعالیٰ کرے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ اسی مئی کی دسویں کو وہ خوشخبری کا دن بنادے۔ لیکن جہاں تک نظارے کا تعلق ہے مَیں نے جو دیکھا بعینہٖ وہی آپ کو کھول کر بتادیا ہے۔ اس سے کیا مطلب ہے؟ اس کی تعبیر کیا ہو سکتی ہے؟ یہ سوچنے والی باتیں ہیں۔ لیکن تعبیر پر بناء رکھتے ہوئے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی تعبیر کے تعلق میں کسی نے تو یہ لکھا کہ سال کا نہ ہونا ایک انذار کا پہلو بھی رکھتا ہے ۔دیکھئے جتنے دماغ ہیں وہ مختلف رنگ میںکا م کرتے ہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ آپ کی واپسی پر کئی سال لگیں گے ورنہ خدا تعالیٰ جس طرح بعض اوقات بتا دیتا ہے کہ چند سالوں میں یہ واقعہ ہو گا یا فلاں سال ہو گا اس کی بجائے دن بتا دیا ہے اور سال کا اخفاء رکھ لیا ہے تو یہ طریق ہے یہ بتانے کا کہ ابھی کچھ وقت لگے گا تاکہ صدمہ نہ پہنچے ۔اس لئے بڑی نرمی سے آپ کو بتایا گیا ہے جس طرح کہ ایک پیار کرنے والی ماں بچے کوکوئی خبر دیتی ہے اس طرح آپ کو یہ خبر دی گئی ہے لیکن اخفاکے ساتھ۔ اب ایک دماغ اس طرف بھی چلا گیا ۔

جو سب سے زیادہ دلچسپ اور عرفان کا پہلو رکھنے والی تعبیر مجھے ملی ہے ۔وہ لاہور کے ایک دوست کی ہے جو بڑے ذہین او ر فہیم انسان ہیں اور ایسے معاملات پر غور کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے مجھے یہ لکھا کہ میں نے بہت غور کیا ہے اور میری توجہ ا س طرف گئی ہے کہ یہاں نہ ظاہری تاریخ کا ذکر ہے اور نہ ظاہری جمعہ کا ذکر بلکہ سورئہ جمعہ کا ذکر ہے اور سورئہ جمعہ کی دسویں آیت بتائی گئی ہے ۔
FRIDAYانگریزی میں جمعہ کا نام ہے اور Verse ,The 10th(آیت)کو بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور چونکہ سورئہ جمعہ بارہ آیات پر مشتمل ہے اس لئے یہ گھڑی کے ساتھ عین مطابقت کھا تی ہے کیونکہ اس کے بھی بارہ اعداد ہوتے ہیں۔ اور اگر دسویں آیت دکھانی مقصود ہو تو توجہ مبذول کروانے کے لئے گھڑی کا دسواں حصہ روشن دکھایا جائے گا۔ تو انہوں نے کہا یہ باقاعدہ ٹیلی (telly)کر رہا ہے ورنہ گھڑی کی صورت میں تاریخ دکھانے کی کو ئی سمجھ نہیں آتی ،اگر تاریخ مراد ہو، تو ایک تعبیر یہ بھی کی گئی۔
مَیں نے جب غور کیا تو اس میں مجھے کافی گہرائی نظرآتی ہے اگر چہ آپ کی طرح میری خواہش بھی یہی ہے کہ کسی معین تاریخ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غیرمعمولی نشان ظاہر ہو اور پھر اس کے نتیجے میں خداتعالیٰ ان لوگوںکے لئے بھی جو کم فہم ہیں اور ظاہری چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہدایت کو قبول کرنے کا رستہ پیدا کر دے۔ یہ خواہش تو میری بھی ہے اور تعبیر کا یہ پہلو بھی قابل غور ضرور ہے کیونکہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ ایک خوشخبری کو ایک سے زیادہ رنگ میں بھی پورا کر دیتا ہے ۔بہر حال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سورئہ جمعہ کے ساتھ تو جماعت احمدیہ کا بہت گہرا تعلق ہے۔ اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی اور سورت سے جماعت احمدیہ کا براہ راست اتناگہرا تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہوئی۔ وَاٰخَرِیْنَ  مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْکا ذکر ہے، ان آخرین کا جو صحابہ سے نہیں ملے تھے لیکن ایک دن انہوں نے مل جاناتھا۔ اس مضمون کا ذکر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں :؎

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

اس مصرع کی بنیاد بھی اسی سورئہ جمعہ پر ہے ۔ چنانچہ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ سورئہ جمعہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے۔نہ صرف ایک عام تعلق بلکہ کئی رنگ میں تعلق رکھتی ہے اس لیے اگروہاں( کشف میں) Fridayسے سورئہ جمعہ مراد ہو اوردس سے مراد دسویں آیت ہو تو یہ کوئی بعید کی بات نہیں ہے ۔یہ محض کوئی ذوقی نکتہ نہیں بلکہ ایک گہرا عارفانہ نکتہ ہے ۔
سورئہ جمعہ کے تعلق کو آپ دیکھیں تو اس سلسلہ میں سب پہلے آپ کو لفظ جمعہ پر غور کرنا ہوگا۔ جمعہ دراصل اجتماع یعنی اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں ۔اس میں جمع کا مضمون پایاجاتا ہے ۔ یہ وہ سورت ہے جس میں کئی قسم کی جمعیں اکٹھی ہو گئیں اور جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے جمعہ کے ساتھ فضل بھی وابستہ ہیں۔اور وہ فضل کیاکیا ہیں ؟اس کی ادنیٰ شکلیں بھی خدا تعالیٰ نے سورئہ جمعہ میں بیان فرمادی ہیں اور اعلیٰ شکلیں بھی۔ اور یہ سورہ ان سارے فضلوں کو بھی جمع کرنے والی ہے ۔ اس میں جمع کی کئی شکلیں موجود ہیں۔ مثلاً وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوااللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ  کا ایک عام معنیٰ یہ ہے کہ جب تجارت چھوڑ کر خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہو تو ذکر کے بعد دوبارہ تجارتیں شروع کردو تو تمہیں ان میں فائدہ پہنچے گا۔ اللہ فضل عطا فرمائے گا۔اور ایک اَور فضل کا بھی اس میں ذکر ہے۔ یہ انتہائی فضل ہے جسے فضل نبوت کہا جاتا ہے ۔چنانچہ بعثت ثانیہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔یہ جو آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے۔ فرمایا یہ اللہ کا فضل ہو گا اور وہ فضل جسے چاہے گا عطا فرمائے گا اورخدا تعالیٰ عظیم فضلوں والاہے۔ تو فضل کے دو کنارے بیان فرمادئیے۔ ایک عام فضل جو دنیا کی تجارتوں کے ذریعے دنیا کے رزق کی صورت میں انسان کو ملتا ہے ۔ ایک وہ فضل جس کی انتہا نبوت ہے اور ان سارے فضلوں کو سورئہ جمعہ نے اپنی ذات میں اکٹھا کرلیا۔ دونوں کا ذکر فرما دیا۔
پھر سورئہ جمعہ کے ذریعے تمام دنیا کا اجتماع جو حضرت محمد مصطفی ﷺکے جھنڈے تلے ہو ناہے ، …اس کی خوشخبری بھی دے دی گئی۔ کیونکہ مفسرین کی بھاری اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھاکہ وہ تمام دنیا کے ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کو غالب کردے گا، یہ وعدہ مسیح اور مہد ی کے زمانے میں پورا ہونا ہے اور اس سورت میں جب آنحضرت ﷺکی بعثت ثانیہ کا ذکر آیا تو وہ مہدی کی شکل میں ہی آیا ہے۔

پس یہ سورت عجیب طور پر جمع کے مضمون کوجمع کر رہی ہے ۔ مہدی کے ذریعے تمام عالم کو جمع کیاجائے گا اور وہ جو تحریک چلائے گا اس کا بھی اس سورت میں ذکر موجود ہے۔ اور زمانوں کو بھی جمع کردیا جائے گا ۔تیرہ سو سال کے فاصلے بیچ میں حائل ہوں گے لیکن ایک عجیب واقعہ ہو گا کہ اگلا زمانہ پچھلے زمانے سے جمع ہو گا ۔خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضل جمع ہوں گے۔ اس زمانے میں دنیاوی ترقیات بھی اتنی عظیم الشان ہوں گی کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے گی ۔ رزق کی بھی ایسی فراوانی ہو گی کہ حیرت ہوگی کہ انسان کو اتنا وسیع رزق بھی مل سکتا ہے اور بعض فضل ڈھونڈنے والے اپنے فضل کے تصور کی انتہا یہی سمجھیں گے کہ بس یہ دنیا کا رزق مل گیا ہے یہی اللہ کا فضل ہے۔ اور کچھ اور لوگ ہوں گے جو رضائے باری تعالیٰ کو فضل سمجھیں گے اور اس طرف اِبتغاء کریں گے اور دنیا کے رزق کو چھوڑ دیں گے اور اب خدا کے فضل کو اس کی رضا میں ڈھونڈیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی راہ میں کوئی روک نہیں رکھے گا ۔ان پر بھی بے انتہا فضل نازل فرماتا چلا جا ئے گا یہاں تک کہ ان میں سے ایسے بھی ہوں گے جو محمد مصطفی ﷺ کے غلام کامل کا درجہ پالیں گے اور انہیں مہدویت اور مسیحیت عطا ہو گی اور پھر خدا تعالیٰ ان کاذکر کرکے فرماتا ہے ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ ۔ اے فضل کے ڈھونڈنے والو!اے فضل کے متلاشیو!یہ ہوتا ہے فضل۔ تم کیوں ادنیٰ ادنیٰ باتوں پر راضی ہو گئے۔تم کیوںدنیا کی نعمتوں کو فضل قرار دے کر اس سے تسلی پاگئے ہو ۔فضل کا ایک یہ بھی مفہوم ہے، ایک یہ بھی بلندی ہے۔ اس کی طرف بھی تودیکھو۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ ۔ اس کو کہتے ہیں اللہ کا فضل۔ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ جسے چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے۔

پس سورئہ جمعہ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اس میں ہر قسم کی خوشخبریاں عطا کر دی گئی ہیں ۔ آپ کے ذریعے زمانے کی تقدیر بدلی جائے گی ۔ آپ کے ذریعہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے گا اور ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی ۔ اس اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی جس کا ذکر سورئہ جمعہ میں ملتا ہے ۔ آپ کے ذریعے مختلف زمانے اکٹھے کر دیئے جائیں گے۔ اور انسانوں کو ہر قسم کی نعمتیں اور رحمتیں عطا کی جائیں گی ۔ کتنی عظیم الشان سورت ہے اور کتنا اس میں ذکر ملتاہے۔ لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے :

يٰاَ يُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلٰى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
(سورۃ الجمعہ 10)

کہ جب تمہیں جمعہ کے دن بلایا جائے ،جمعہ کے دن سے مراد اگر ظاہری جمعہ کا دن لیا جائے تو یہ بھی درست ہے ، ہر ہفتہ آپ کو بلایا جاتا ہے۔ لیکن یہ سورت جن وسیع معانی میں جمعہ کا ذکر کر رہی ہے اگر ان معنی میں آپ اس پر غور کریں تو اس آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اے ایمان والو! جب خدا کی طرف سے ایک بلانے والاتمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی آواز دے او رجب یہ آواز دے کہ آئو اور میرے ذریعہ زمانوں کو بھی اکٹھا ہو تے دیکھو۔ اس وقت تجارتوں کو ترجیح نہ دو۔ اس کی آواز پر دنیا کے منافع کی قدر نہ کرو۔ اس کی اس آواز پر دنیا کے مقابل پر ان سب کو تج کرکے اس کی طرف دوڑے چلے آئو ،اس کی آواز پر لبّیک کہو۔ اگر تم دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کے منافع کی پرواہ نہیں کرو گے تو پھر ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم تمہیں فضلوں سے محروم نہیں کریںگے۔ اس آواز کو قبول کرنے کے بعد تم دنیا میں پھیل جائوگے۔ جب تم اپنا فریضہ ادا کردو گے، جب تم سب کچھ خدا کے حضور پیش کردو گے پھر فرمایا فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ، قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب عبادت کے تقاضے پورے ہو جائیں، جب تم اپنی نیتیں پوری کر دکھائو گے اور لبّیک کہہ دو گے۔ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔ پھر خدا تعالیٰ تمیں تمام دنیا میں پھیلا دے گا، زمین کے کناروں تک تمہیں پہنچائے گا ، وہاں دنیا کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کروگے اوردین کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کروگے ۔ بظاہر تم دنیا کے کاموں کے لئے بھی نکلو گے لیکن اللہ کے ذکر کے ساتھ نکلو گے۔اگر تم صنّاع ہو تو صنّاعی کے ساتھ ذکر الٰہی بلند کر رہے ہو گے۔ اگر تم تاجر ہو تو اپنی تجارتوں کے ساتھ ذکر الٰہی بلند کر رہے ہو گے۔ اگر تم ڈاکٹر ہو تو اپنی ڈاکٹری کے ساتھ ذکر الٰہی بلندکر رہے ہو گے۔ اگر تم سائنسدان ہو تو سائنس کے کاموں کے ساتھ ذکر الٰہی کو بلند کر رہے ہوگے۔ غرضیکہ تمام دنیا میں ذکر پھیلانے کا ایک ذریعہ یہ ہو گا۔
پس اس آیت میں کئی قسم کے وقف کا ذکر ہے ۔ ایک وقفِ خاص بھی مذکور ہے کہ دنیا کے سب کام کلّیۃً چھوڑ کر جب آواز آئے تو اپنی ساری زندگی خدا کے حضور پیش کر دو۔ دوسرا وقفِ عام کا بھی ذکر ہے کہ یہ فیصلہ کر لو کہ مَیں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔ دنیا کو چھوڑ کر دین کی آواز پر لبّیک کہنے کا یہ مطلب ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں ان میں یہ داخل ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔

تو اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر بلانے والا تمہیں عظیم جمعہ کے لئے بلائے توتم یہ فیصلہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو کہ ہم دنیا کو ترک کردیں گے اور جب بھی دین کے ساتھ مقابلہ ہو گا تو دین کو ترجیح دیںگے۔ فرمایا جب تم یہ عہد کرکے اس کے حضور حاضر ہو جائو گے پھر تمہیں اس شرط کے ساتھ اجازت مل جائے گی کہ چونکہ تم سب کچھ خداکو دے بیٹھے ہو اب تمہارا کچھ نہیں رہا۔ اس لئے اب تم جائو اور پھیلو اور دنیا کے کام بھی کرو لیکن اس عزم کے ساتھ کہ دنیا کے کاموں کے ساتھ ذکر الٰہی کو نہیں بھولنا بلکہ اسے غالب رکھنا ہے۔

اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ۔ اللہ کے فضل کو ڈھونڈو ۔ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا۔ وَابْتَغُوْاکے ساتھ كَثِيْرًا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن وَاذْكُرُوا اللهَ کے ساتھ كَثِيْرًا کا لفظ استعمال فرمایا۔ دنیا کے کام کرو مگر ذکر الٰہی غالب رہے ۔ اللہ کی محبت اور پیا ر تمہارے دنیا کے ہر ایک کام پر چھا جائے اور اسے مغلوب کرلے۔ چونکہ اِبتغائِ فضل دنیا کے معنوں میں بھی مراد ہے اس لئے میںیہ معنی لے رہا ہوں کہ دنیا کے کاموں میں خدا کافضل ڈھونڈو لیکن کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے، اس کثرت کے ساتھ کہ تمہاری دنیا کی جستجو پر غالب آجائے ۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم الشان فتوحات عطافرمائے گا ۔اس وقت بھی یہی ہورہا ہے ۔

اِس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ دونوں قسم کے وقف پورے کررہی ہے ۔ ایسے بھی ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے سب کام چھوڑ کر اپنے آپ کو کلیۃً خدمت دین کے لئے پیش کردیا ہے اور اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا۔ اگر جماعت ان کو چپڑاسی لگاتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے بھی رحمت اور فضل کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔ اگر جماعت انہیں مبلغ لگاتی ہے تو اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اگر ماتحت لگاتی ہے تو تب بھی شکر کرتے ہیں، اگر حاکم اورا فسر بناتی ہے تب بھی شکر کرتے ہیں۔ شکر اس بات پرنہیں کرتے کہ انہیں کیا بنایا گیا ہے۔ شکر اس بات پر کرتے ہیں کہ ہر حالت میںان کو قبول کرلیا گیا ہے اور انہیںاس فوج میں داخل کرلیا گیا جس کا سورئہ جمعہ میں ذکر ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر خدا کے حضور حاضر ہو جائو۔ اور ان میں لکھو کھہاایسے بھی ہیں جیسا کہ آپ میں سے اکثریت یہاں ایسی ہے جو اپنے دنیا کے کاموں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اپنے وطن سے دُور سکاٹ لینڈ میں۔ کبھی آپ بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔کہ اللہ کے فضلوں کی تلاش میں اتنی دور نکل جائیں گے۔ لیکن خدا نے انتظام کردیا۔ آپ جیسے کروڑوں اور لوگ ہیں جو اپنے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ لیکن ان میں اور آپ میں کتنا فرق ہے۔ وہ دنیا کمانے کے لئے آئے اور دنیا کماکر واپس چلے جاتے ہیں ۔پھر آپ بظاہر دنیا کمانے کے لئے آئے ہیں مگر چونکہ آپ نے ہر جگہ ذکر الٰہی کو غالب رکھا ہوا ہے اور ہر جگہ آپ خود بھی ذکر الٰہی کرتے ہیں اور اس کو آگے پھیلاتے بھی جاتے ہیں۔ ذکر الٰہی خود بھی کرتے ہیںاور ذکر الٰہی کرنے والے بھی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا کے اس مفہوم کو آپ ادا کررہے ہیں ۔ پس اس قسم کے بھی واقفین ہیں اور یہی نظام ہے جس کی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ذریعے رکھی گئی تھی اور جس کے نتیجہ میں سب دنیا نے فتح ہونا ہے ۔

پس یہ جو اشارہ ہے کہ جمعہ اور دس۔ یعنی Fridayکے معنی اگر سورئہ جمعہ کے لئے جائیں اور 10thسے مراد دسویں آیت مراد لی جائے تو اس میں ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہمیں ملتی ہے کہ وہ وقت بطور خاص آگیا ہے جبکہ آپ نے دنیا کو کلیۃً ترک کرنے کے فیصلے کر لینے ہیں، جب اپنے عزم دہرانے ہیں، جب اس عہد بیعت کی تجدید کرنی ہے کہ ہم ہر گز کسی قیمت پر بھی اپنی دنیا کو اپنے دین کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے ۔ جہاں تک ہمارے نفوس کا تعلق ہے ہم سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اگر ہمیں اجازت ملتی ہے تو ہم دوسرے کام بھی کریں گے مگر اس عہد کے ساتھ کہ دوسرے کاموں پر ذکر الٰہی کو ہمیشہ غالب رکھیں گے۔ کثرت کے ساتھ ذکر کرتے چلے جائیںگے اور خدا کے فضل کی تلاش کرتے چلے جائیں گے۔اب ذکر کے ساتھ جب آپ خدا کے فضل کے مضمون کو ملاتے ہیں تو فضل کامضمون عام دنیاوی معنوں کے سوا دوسرے معنی بھی اختیار کر لیتا ہے ۔

وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ کا حکم عام دنیا کے انسانو ں پر بھی لگتا ہے ۔ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کی چیزیں تلاش کرو، دنیا کے رزق تلاش کرو،دنیا کے عہدے تلاش کرو، دنیا کی ترقیات تلاش کرو لیکن جب خدا کے بعض بندے ذکر الٰہی کو ساتھ شامل کر لیتے ہیں تو وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيْرًاکے ساتھ اس فضل کا مضمون وسیع ہو جاتا ہے ۔ ا س صورت میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس دنیا میں ہی اپنے دین کی سعادتیں بھی ڈھونڈلو ،اسی دنیا میں اپنے بلند دینی اور روحانی مراتب بھی تلاش کرو کیونکہ تم ذکر الٰہی ساتھ ساتھ کرتے چلے جارہے ہو ۔ خدا کا فضل محدود صورت میں تم پر نازل نہیں ہو گا ۔ تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے بھی خدا کے ولی پیدا ہوں گے۔ تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے عظیم الشان روحانی بندے پیدا ہوں گے۔ تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے خدا کے ایسے ایسے پیارے پیدا ہوں گے کہ ان کو وہ ساری دنیا پر ترجیح دے گا۔ اپنے علاقے کے قطب و غوث اور ولی پیدا ہوں گے ۔اگر وہ ذکر الٰہی کو کثرت سے ادا کرنے کے عہد پر پورا اترتے ہیں تو ان کا فضل لا متناہی ہو جائے گا ۔ جو فضل وہ تلاش کرتے ہیں وہ محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی حدیں پھیل جائیںگی۔ دنیا پر بھی پھیل جا ئیں گی اور دین پر بھی پھیل جائیں گی۔ اس نقطہ نگاہ سے آپ اللہ تعالیٰ کے اس منشاء کو پورا کرنے کی سعی کریں۔ منشا ئے الٰہی یہ ہے کہ آج جماعت جس دور میں داخل ہوئی ہے اس میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر کثرت کے ساتھ ہمیں اپنی طاقتوں کو اور اپنے ان تمام قویٰ کو جسمانی یا روحانی یا ذہنی قویٰ ہوں ان ساری طاقتوں کو جو خدا نے ہمیں عطا فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیں۔ دنیا کمائیں اس شرط کے ساتھ کہ دین اس پر غالب رہے ۔ یہ ایک خاص وقت آگیا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ جماعت کو دنیا میں پھیلا دے گا اور دنیا کی ہر قوم کے اوپر، دنیا کے ہر دین پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قوم اور آپؐ ہی کے دین کو غالب فرمادے گا۔

پس یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ ہم آج اس جمعہ پر یہ عہد کریںگے۔ اس جمعہ پر یہ ارادے لے کر پھر دنیا میں پھیلیںگے ۔ اگر خدا کا منشاء اس کشفی نظارے سے یہی ہے کہ جماعت سے مزید قربانی چاہتاہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مزید قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمارہا ہے تو ہم حاضر ہیں اس کے لئے بھی جو ہم سے چاہتا ہے ہم حاضر ہیں ہمار ا کچھ بھی اپنا نہیں ۔ ہم اسی کی خاطر زندہ رہیں گے اور اسی کی خاطر مریںگے لیکن اپنے اس عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کہ جب تک تمام دنیا پر محمد مصطفی ﷺ کی بادشاہی کو غالب نہ کر دیں اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔اب ایک ملک نہیں ہے جس کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرناہے ، دوچار یا پچاس یاسو ملک نہیں ہیں، ساری دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں چھوڑ نا جہاں ہم نے اسلام کو غالب کرکے نہیں دکھانا۔ کوئی ملک بھی ایسا نہیں رہنے دینا جس کے ہر حصہ پر اسلام کو غالب نہیں کرنا۔ اتنے بڑے کام کو ہم نے سرانجام دینا ہے ۔

…احمدی کو ازسرنو زندہ احمدی بنانے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور پھر ان سب کو تبلیغ میں جھونکنا اور پھر ان سے نئے نئے کام لینا اور پھر عظیم الشان فتوحات کی توقع رکھنا اور دعائیں کرنا کہ اللہ وہ دن ہمیں دکھابھی دے بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں۔ توآج اس افتتاح پر ان سارے امور کو مدّنظر رکھ کر آپ دعائیں کریں اور یہ فیصلہ کرکے یہاں سے اٹھیں کہ سکاٹ لینڈ کو آپ نے فتح کرناہے۔ یہ درست ہے آپ مٹھی بھر ہیں۔ بہت تھوڑے ہیں۔ آپ کے مقابل پر بہت وسیع علاقہ ہے لیکن یہ کام آپ ہی کے سپرد ہے۔ سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے سکاٹ لینڈ کے احمدی نے اٹھنا ہے،… ہر ملک کے احمدی باشندے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو فتح کرے۔ اور یہ کام ہے اگر آپ بلند ارادے اور ہمت کے ساتھ اس کام کو شروع کردیں اور دعائوں سے غافل نہ ہوں تو یہ کام آسان ہوجائے گا‘‘ ۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ مئی 1985ء بمقام گلاسگو (سکاٹ لینڈ)۔ خطباتِ طاہر جلد 4 صفحہ 425 تا 445)

ایک نشان اور قوم کو انتباہ

حضور رحمہ اللہ کے خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍ مئی 1985ء میں ایک دفعہ پھر Friday the 10th کے کشف کا ذکر ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس حوالہ سے فرمایا:

’’آج صبح تہجد کے وقت فون کی گھنٹی بجی توپتہ چلاکہ کراچی سے فوری ٹیلی فون ہے جس میں یہ بتایاگیاکہ کراچی میں محکمہ موسمیات (جس میں بین الاقوامی ماہرین موسمیات بھی شامل ہیں) کی طرف سے ایک ایسی تنبیہ کی گئی ہے جوعام طورپر پاکستان کے جغرافیائی حالات میں نہیں کی جاتی اوراس لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی واقعہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں کراچی کے ساحل کی طرف ایک نہایت ہی خوفناک سمندری طوفان بڑی تیزی سے بڑھ رہاہے جس کے متعلق یہ خیال کیاجاتاہے کہ جمعہ کے دن صبح دس بجے وہ کراچی کے ساحلی علاقے کوHit کرے گا۔اس قسم کے سمندری طوفان مشرقی بنگال میں توآتے رہتے ہیںاوروہ لوگ ان سے واقف بھی ہیں۔ایسے طوفانوں میں لکھوکھہاجانیں ضائع اوراربوں کی جائیدادیں تلف ہوتی رہتی ہیں لیکن کراچی کے ساحلی علاقوں کے لئے یہ ایک بالکل اجنبی اورانوکھاواقعہ تھا اس لئے تمام نیوی کو Alert (الرٹ) کردیاگیا۔شہری دفاع کے تمام ادارے اوررضاکار اس طرف متوجہ ہوئے۔ رات کے پچھلے حصہ اورصبح کے پہلے حصہ میں ساحلی علاقوں سے آبادی کا انخلاء ہوا۔ خصوصًا ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی سے جوبہت دور دور تک پھیلی پڑی ہے اس کے کئی Phases ہیں،اس میں لاکھوں آدمیوں کا انخلاء کروایاگیا۔ڈیفنس کی نصف سے زائد آبادی اپنے مکان خالی کرگئی اوراتنی افراتفری میں یہ واقعہ ہواکہ کسی کواپناسامان لے جانے کی بھی ہوش نہ تھی۔…یہ وہ کیفیت تھی جس میں آبادی کا انخلاء عمل میں آیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اورپیشتر اس کے کہ یہ طوفان کراچی میں دور دور تک پھیلے ہوئے ساحلی علاقوں میں تباہی مچاتااللہ تعالیٰ نے اس کا رخ پھیر دیا اوریہ بلاٹل گئی ۔

جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس واقعہ کو ایک غیرمعمولی اہمیت بھی حاصل ہوگئی۔کراچی کی جماعت خاص طور پراس لئے بھی پریشان تھی کہ اگرچہ آج یہاں جمعہ کا دن رمضان کی گیارہویں تاریخ ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کا دن آج رمضان کی دسویں تاریخ ہے۔ اوراس سے پہلے ایک خطبہ میں جو میں نے گلاسگو میں دیا تھااس میں بھی میں نے جماعت کو مطلع کیا تھا کہ بعض ایسی رئویا معلوم ہوتی ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے Friday The 10th کاجوکشفی نظارہ دکھایا تھااس کاتعلق بعید نہیں کہ چاند کی راتوںسے ہو۔چنانچہ اس خطبہ کے بعد اس عرصہ میںپاکستان سے ایک دوست ڈاکٹر طارق صاحب نے ایک اورعجیب اور بڑی دلچسپ رئویالکھ کربھجوائی۔اس کا بھی اس سے تعلق معلوم ہوتاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ایک رات میں بہت ہی پریشان ہوااورخداکے حضور بہت رئویااوردعائیں کیںکہ ابتلاء کے یہ دن کب کٹیں گے اورکیاہوناہے کچھ توپتہ لگے۔کہتے ہیں میں نے اس رات رئویامیں جو نقشہ دیکھاہے اس کی مجھے کچھ سمجھ نہیںآئی کہ یہ ہے کیا؟لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ کورئویا کی تعبیریں بتادیتاہے اورآپ کاتعلق ہے جماعت کے معاملات سے اس لئے میں آ پ کو لکھ رہاہوں۔چنانچہ وہ رئویایہ تھی کہ ایک کاغذپر ایک طرف ایک چوکھٹابناہواہے اس کے اوپرکی طرف دس کا ہندسہ لکھا ہوا ہے اورنیچے قمرلکھاہواہے اوربائیں طرف ایک لمباچوکھٹاہے اوراس کے اندر تاریخیں لکھی ہوئی ہیں یاہندسے لکھے ہوئے ہیںاوراکتیس پرجاکروہ شمارختم ہوجاتا ہے اوراکتیس کا ہندسہ نمایاںچمک رہاہے۔انہوں نے اس کی کوئی تعبیرنہیںلکھی اورنہ ان کا ذہن اس طرف گیامگر چونکہ Friday The 10th والے کشف سے مجھے اس کاتعلق معلوم تھا۔اس لئے واضح طورپرمجھے یہ سمجھ آئی کہ 31؍مئی کو چاند کی دسویں تاریخ ہے اوردن جمعہ کا ہے اوراس جمعہ کے روزکوئی ایساواقعہ رونما ہونے والاہے جس کاتعلق اس کشف سے بھی ہے اوراس رئویاسے بھی ہے ۔چنانچہ اس خیال سے میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو پہلے ہی متوجہ کردیاتھاوہ نظررکھیں کہ 10؍رمضان کو کیاغیرمعمولی واقعہ پیش آتاہے۔ہمارے عزیزسیفی(صاحبزادہ مرزا سفیراحمد صاحب داماد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع) خود ساری رات بیٹھے رہے اور ریڈیو چلاکرخبریں سنتے رہے لیکن عجیب واقعہ ہواکہ جوفون ان کے نام آناتھا وہ غلطی سے میرے نام آگیا اوریہ اطلاع پہلے مجھے ملی بجائے اس کے کہ ان کوملتی۔
اس واقعہ میں کئی اسباق پنہاں ہیں۔ایک یہ کہ یہ توبہرحال پختہ بات ہے کہ یہ ایک ایسا غیرمعمولی واقعہ ہے جواس علاقہ میں دسیوں سالوں میں بھی کبھی رونمانہیںہوااورپھرجمعہ کے دن اوررمضان المبارک کی دس تاریخ کو رونماہواہے۔ان حقائق کو دنیامٹانہیں سکتی،کوئی ان کوغلط نہیں کر سکتا ۔ لیکن ایک خطرہ پیداہوااورٹل گیا۔خواہ وہ کتناہی غیرمعمولی خطرہ تھالیکن بہرحال ٹل گیا۔اس کاکیانتیجہ نکلتاہے یااس کاکیا نتیجہ ہمیںنکالنا چاہئے۔ یہ دیکھنے والی بات ہے ۔میرے ذہن میں اس کے کئی نتائج آتے ہیں جن کے بارہ میں مَیں احباب جماعت کو مطلع کرناچاہتاہوں۔

پہلی بات تویہ کہ اگر چہ یہ رئویا اس واقعہ پرچسپاں ہوتی نظر آرہی ہے اوریہ ایک غیرمعمولی بات ہے لیکن یہ ضروری نہیںہواکرتاکہ ایک ہی دفعہ ایک بات پوری ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف سے بعض ایسے کشوف اورالہامات ہوتے ہیں جوباربارتکرارکے ساتھ پورے ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی پتہ چلتاہے کہ بعض نشان پیچھے پڑجانے والے ہوتے ہیںاوروہ باربار پورے ہوتے ہیں ۔پس ایک تویہ امکان بھی ہے ۔اس کے علاوہ بھی اگر خداتعالیٰ چاہے توزیادہ وضاحت کے ساتھ اس نشان کو پورافرماسکتاہے۔

دوسرے جب ہم اس واقعہ پر غورکرتے ہیں تو کئی سبق ملتے ہیں۔ پہلایہ کہ خداتعالیٰ جب کسی قوم کو پکڑنے کا فیصلہ کرتاہے تواس کی پکڑکے رستے بہت ہیں۔بسااوقات وہ ایسے رستہ سے بھی پکڑتاہے جس کی قوم توقع ہی نہیں کرسکتی،وہم وگمان بھی نہیں کیاجاسکتاکہ اس طرف سے بھی کوئی واقعہ رونماہوگا۔
1974ء کے فسادات کے بعدقوم مختلف ابتلائوں میں باربار پکڑی گئی۔ مثلاً بلوچستان کی خشک پہاڑیوںپرغیرمتوقع بارش کے نتیجہ میں سندھ میں ایک ایساسیلاب آیاتھاجس کا آدمی وہم وگمان بھی نہیں کرسکتاکہ بلوچستان کے خشک پہاڑسیلاب کا موجب بن جائیں گے۔ لیکن بلوچستان کے پہاڑوں کے سیلاب کی وجہ سے سندھ کا بہت ساعلاقہ تباہ ہوا۔چنانچہ اخباروں میںاس بات کی نمایاںسرخیاںلگیں۔پس اللہ تعالیٰ کی جب پکڑآتی ہے تو معلوم بھی نہیں ہوتاکیونکہ اس کی پکڑکے مختلف رستے ہیں۔وہ قادروتوانا خداہے۔ وہ اپنی قدرت کے نشان دکھاتاہے اورزمین کی ہرچیز کو جب چاہے وہ امرفرماسکتاہے۔ تب وہ جگہ جو امن کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے خطرہ کاموجب بن جاتی ہے ۔ اس لئے خداتعالیٰ جب کسی کو پکڑنے کا فیصلہ کرلے توپھرکوئی آدمی امن میں نہیںرہ سکتااوریہ مضمون بھی قرآن کریم کی مختلف آیات میں بڑی وضاحت سے بیان کیاگیاہے۔خداکی تقدیرسے تم کس طرح امن میں رہ سکتے ہو۔وہ تو پابندنہیںہے۔ وہ جس طرح چاہے تمہیں پکڑنے کافیصلہ کرلے تو پھر تمہارے لئے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔

اس نہایت مہیب خطرہ کے ایک دم ظاہر ہونے اورپھراس کے ٹل جانے میں ایک خوشخبری بھی ہے اوروہ یہ کہ خداتعالیٰ عذاب دینے میں خوش نہیں ہے۔وہ تنبیہ فرماتاہے اورخطرات سے متنبہ کرتاہے اورقوم کو استغفار کا موقع دیتاہے۔اگرقوم ا ستغفار کرے اورتوبہ کرے اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے تواللہ تعالیٰ اس بات میں راضی نہیں ہے کہ لوگوں کو ہلاک کرے۔ اور وہ پکڑمیں ڈھیلاہے اورنرمی کرتاہے۔ یہاں تک نرمی کرتاہے کہ بسااوقات انبیاء بظاہر جھوٹے ہوتے دکھائے دے رہے ہوتے ہیں اوردنیاکوان کی تضحیک اورتمسخرکاموقع مل جاتاہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی اپنی پکڑ میں نرمی اورغیرمعمولی مغفرت کاسلوک فرماتاہے۔پس اگریہ وہی نشان ہے جس کا خداتعالیٰ نے وعدہ فرمایاتھاتواس میں جماعت کے لئے بھی اورقوم کے لئے بھی ایک بہت ہی خوشخبری کاپہلوہے کہ قوم کے لئے ابھی نجات کی راہ باقی ہے۔مہیب خطرات کا ایک نمونہ دکھا دیا گیا ہے لیکن اگرقوم نے استغفار سے کام لیا اورتوبہ کی توہرگزبعیدنہیںکہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو بچائے اوریہی ہم بھی چاہتے ہیں اوراسی کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔

اوراس سے سبق کا تیسرا پہلو یہ نکلتاہے کہ تنبیہ موجود ہے اورنمونہ دکھادیاگیاہے کہ اگرتم باز نہیں آئوگے توپھرخداتعالیٰ تم سے کیا سلوک فرمائے گا۔اب معاملہ وہاں تک جاپہنچاہے کہ جہاںقومی عذابوںکے ذریعہ اورباربارسزائوںکے ذریعہ پکڑے جائوگے۔اگرتم توبہ اوراستغفار سے کام نہیںلوگے اورتکبرمیں اسی طرح مبتلارہوگے اور خدا تعالیٰ کے پاک بندوںسے تمسخراوراستہزاء کرنے سے باز نہیں آئوگے توپھریہ ایک معمولی سانمونہ ہے جوتمہیں دکھادیاگیاہے۔ پھرآئندہ تمہارے لئے اسی قسم کا خداکاسلوک ظاہرہونے والاہے۔ لیکن جب وہ ایک دفعہ ظاہرہوجاتاہے توپھراس کے بعد کوئی روک نہیں،کوئی ہاتھ نہیںہے جواسے چلنے سے روک رکھے۔خداکی چکّی ہے جب چل پڑتی ہے توپھرکوئی اسے روک نہیں سکتا۔ اس لئے یہ سارے نشانات یاایسے اسباق ہیںجواس واقعہ پرغورکرنے سے ہمیں ملتے ہیں۔‘‘

(ماخوذ از خطبہ فرمودہ 31؍ مئی 1985ء۔ خطباتِ طاہر جلد 4 صفحہ 490 تا 494)

فرائیڈے دی ٹینتھ کے دو نشان

پھر 21؍ جون 1985ء کے خطبہ جمعہ میں حضور رحمہ اللہ نے (فرائیڈے دی ٹینتھ) Friday the 10th کے دو نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’گزشتہ سال کے آخر پر سفر یورپ کے دوران اللہ تعالیٰ نے جو کشفی نظارہ دکھا یا تھا جس میں جمعہ کے روز ایک ڈائل کی شکل میں ’’10‘‘کا ہندسہ چمکتا ہوااور نبض کی طرح دھڑکتا ہو ا دکھایا گیا تھا اور اُس پر میں یہ کہہ رہا تھا کہ Friday the 10th۔باوجو د اس علم کے کہ یہ ’’10‘‘وقت کا ہندسہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تابع زبان سے یہی فقرہ جاری ہو ا Friday the 10th۔

اس کی جماعت کی طرف سے تشہیر بھی کی گئی اور اندازے بھی لگائے گئے۔ کئی قسم کے خطوط آئے اور 10؍مئی جو جمعہ کا روز تھا اس پر جماعت نگاہیں لگائے بیٹھی رہی لیکن اس روز کچھ نہیں ہوا اور اطلاعات کے مطابق بعض علماء نے یہ کہا کہ اب ہم 17؍مئی کو اس کچھ نہ ہونے کا جشن منائیں گے۔ لیکن اس کے بعد بھی ایک جمعہ آنے والا تھا جو رمضان المبارک کا، پاکستان کے لحاظ سے دسویں رمضان المبارک کا جمعہ بنتا تھا۔ اور جیسا کہ بعض دوسرے احباب کو بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی 10 کی خبر دی تھی اور مجھے اطلاعیں دے چکے تھے اس لئے ہمیں اس کا انتظار تھا دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس تاریخ کو اپنی کیا تجلّی دکھاتا ہے؟

چنانچہ دس کی صبح کو جو خبریں آنی شروع ہوئیں تہجد کے وقت سے اس کے متعلق میں پہلے جماعت کو اطلاع دے چکا ہو ں اور گزشتہ کسی خطبہ میں مَیں نے یہ بتایا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا نشان ایک رنگ میں اس روز پورا ہوگیا۔ لیکن بعد کی جو آنے والی اطلاعیں ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک رنگ والی بات نہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ بیان فرمودہ خبر پوری ہوئی۔ اور اس کے اَور بھی بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں۔ چنانچہ جو اطلاعیں ہمیں ملی تھیں و ہ تو احباب جماعت کراچی کی طرف سے اس وقت کی اطلا عیں تھیں۔ لیکن بعد کے اخبارات کے جو تراشے موصول ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان سے اس خبر کی غیرمعمولی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس واقعہ کا غیر معمولی پَن بھی واضح ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگ جواحمدیت کے شدید معاند ہیں ان کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اقرار کروایا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں،یہ کوئی حادثاتی بات نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ ایک بڑی بھاری تنبیہ ہے۔
اور اس کے علاوہ پاکستان کی شمالی سرحد پر بھی ایک واقعہ رونماہوا جس کو غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اسے بھی ایک آنے والے خطرے کے نشان کے طورپر پیش کیا گیا اوریہ واقعہ بھی دس جمعۃ المبارک رمضان شریف ہی کو ہوا۔

چنانچہ جو اخبار کے تراشے آئے ہیں ان میں اس موضوع پربڑے بڑے مضامین چھپے ہیں،شہ سرخیاں جمائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی بہت ہی غیرمعمولی اور نہایت ہی خوفناک واقعہ تھا۔

’’جنگ لنڈن ‘‘نے تو یہ خبر اس سرخی کے تابع شائع کی کہ کراچی میں طوفان کے خطرے نے افراتفری مچادی۔ساحلی علاقوں کے لوگوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل بھاگی۔ ’’ڈان‘‘(Dawn) نے شہ سرخی جمائی’’Cyclone Threat‘‘اور اس پر ایک لمبی خبر شائع کی جو ایک صفحہ پر نہیں بلکہ دوسرے صفحہ پر بھی جاری رہی اور اسی طرح ایک مضمون شائع کیا جس کے اوپر یہ عنوان لگا تھا Panic Grips Krachi اور ان دونوں مضامین کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھوکھہا آدمی متاثر ہوئے تھے اور اپنا سب کچھ گھروں پر اسی طرح چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تمام ذرائع کوبروئے عمل لاکر حکومت کو بڑی محنت کے ساتھ ان علاقوں کی نگرانی کروانی پڑی۔ تمام نیوی کی کشتیاں ،پولیس کی کشتیاں جو نیول پولیس کی کشتیاں ہیں وہ سارے علاقے میں پھیل گئیں اور پولیس بھی گشت کرنے لگی۔ لیکن اتنی Panicتھی کہ چور بھی وہاں باقی نہیں رہے۔ وہ بھی بھاگ گئے۔ ورنہ عموماً تھوڑی Panicکے وقت توچوروں کی موجیں ہوجایا کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کوئی بات نہیں دیکھی جائے گی۔بالکل اسی طرح گھر چھوڑ کر لو گ بھاگے ہیں،نوکر تک بھی چلے گئے اور کوئی چوری کا واقعہ نہیں ہوا۔اس سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا کا خوف بھی طاری تھا اس وقت دلوں پراور یہ بھی پتہ چلا کہ کثرت کے ساتھ اذانیں دی جانے لگیںاور اذان دینا یہ عموماً علامت ہے ہمارے ملک میں بہت بڑا خطرہ او ر اس پر استغفار،ایسے موقع پر اذان دی جاتی ہے اور استغفار کی علامت ہے۔ اس لئے لوگ سمجھتے ہیں جب اذان دی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی عذاب مقدر ہے وہ ٹل جائے گا ۔

جماعت احمدیہ کے ایک شدید مخالف پروفیسر عبد الغفور صاحب جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ’’جنگ لا ہور‘‘ 2؍جون نے یہ سرخی جمائی کہ وہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ طوفان کا رخ نہ موڑتے تو ہمارا کیا حشر ہوتا ‘‘۔اور اس طوفان پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں یعنی یہ ’جنگ‘ ان کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ انہوں نے لکھا ’’کراچی چھوٹا پاکستان ہے لیکن لبنان اور بیروت بن رہا ہے جو مارشل لاء کے اس دور کا ثمرہ ہے‘‘ ۔پھر انہوں نے کہا کہ’’ مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی اس لئے حمایت کی تھی کہ بھارت میں ان کے جان ومال خطرے میں تھے‘‘۔انہوں نے کہا ’’بھارت میں اب بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ اب پاکستان میں بھی شہریوں کے جان ومال محفوظ نہیں‘‘۔ اوریہ وہی صاحب ہیںجن کے نزدیک جماعت احمدیہ کے جان ومال کی کوئی قدر اور کوئی قیمت نہیں ہے انسانی نگاہوں میں، نہ خدا کی نگاہ میںاوربے دھڑک یہ لوگ تیاریاں کر رہے ہیں، کرتے رہے ہیں جماعت اسلامی کے کارندے اور فسادات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور پچھلے جو 74ء کے فسادات تھے ان میں تو تمام قصبات میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے احرار کے علاوہ وہ جماعت اسلامی کے کارندوں نے ادا کیا تھا۔ اور اب جب کہ خدا کی پکڑ کو اپنے سامنے دیکھا تو اس وقت ان کو خیال آیا کہ پاکستان میں لو گوں کے جان ومال محفوظ نہیں ہیں۔یہ اللہ کی تقدیر ہی بتائے گی کہ خدا کی پکڑ کس کے جان ومال کو خطرہ لاحق ہونے کے نتیجے میں آتی ہے ،جو پاکستان میں عام دستور چل رہا ہے وہ تو سال ہاسال سے اسی طرح چل رہا ہے۔ان کو تو خدا نے خبر نہیں دی کہ یہ دس جمعہ کو کوئی واقعہ ہونے والا ہے۔جن کے جان ومال کی خدا کو قدر تھی،جن کے جان ومال پر خدا کے پیار کی نظر تھی ان کے امام کو بتایا ہے کہ دس جمعہ کو ایک بہت بڑا خطرہ یا نشان ظاہر ہونے والا ہے جو تجلی کے رنگ میں ہو گا کیونکہ وہ چمکتا ہوا ہندسہ تھا جو باربار دل کی طرح دھڑک رہا تھا۔

ایک اور شدید معاند احراری اخبار ’’لولاک ‘‘جو جماعت احمدیہ کی مخالفت پروقف ہے، حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کے خلاف انتہائی گند بولتا ہے، وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا اور ادارتی سرخی اس نے جمائی ’’خدائی وارننگ‘‘اب یہ بھی تصرف الٰہی ہے کہ جماعت کے جان ومال اور عزت کی دوبڑی دشمن جماعتیں ایک جماعت اسلامی اور ایک جماعت احرار ان دونوں کے منہ سے خدا نے یہ اقرار کروادیا کہ یہ دس تاریخ کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک غیرمعمولی نشان ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وارننگ ہے۔

اور پھر ا س اداریہ میں ’’لولاک‘‘ کے مدیرلکھتے ہیں۔

’’ہمیں باربار سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسے خدائے بزرگ وبرتر کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اہل کراچی کو آپس کی سرپھٹول اور باہمی مخاصمت چھوڑکر خداتعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالانا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا عہد کرنا چاہئے ۔وہ خوش قسمت ہیںکہ ایک بڑی آزمائش سے بچ گئے۔ یہ سمندری طوفان ان کے لئے خدائی وارننگ ہے‘‘۔

حضورؒ نے فرمایا:

یہ تو پاکستان کے جنوب میںواقع ہونے والا ایک نشان تھا۔ اب شمال کی خبر سنیں وہاں کی اطلاعات کے مطابق جو اخبارات میں بڑی بڑی نمایاںسرخیوں کے طورپر شائع ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ مضامین بھی آئے۔ 31؍مئی بروز جمعہ دس رمضان المبارک کو افغانستان کے Mig21 ہوائی جہازوں نے چترال میں دروش کے مقام پر جو چترال کا دوسرا بڑا شہر ہے ایک بھر پور حملہ کیا۔ اسمبلیوں اور اخباروں میں خوب شوراورغوغا اورنالہ و فریادکئے گئے۔ صوبہ سرحد کے اخباروں نے شہ سرخیاں جمائیں۔ صوبہ سرحد کے گورنراور وزیراعلیٰ وہاں پہنچے۔ یعنی یہ کوئی معمولی عام بمبا ر ی کا واقعہ نہیں تھا بلکہ غیرمعمولی قومی سطح کی اہمیت کا واقعہ تھا اور اس کے بعد صدر ضیاء الحق صاحب خود وہاں پہنچے اوروہاں جاکر انہوں نے جو بیان دیاہے اخباروں میںوہ شائع ہوچکا ہے ۔چنانچہ صدرضیاء الحق صاحب کو بھی آپ جانتے ہیں کوئی جماعت کے ہمدردوں میں سے نہیں ہیں ۔تو حکومت کی سطح پر جو شرارت کروانے والے لوگ ہیں ان کو بھی خدا نے نشان دکھایا اور ان سے اقرار کروایا کہ دس رمضان کا جو جمعہ ہے یہ تمہارے لئے ایک تنبیہ کے طورپر آیا ہے اور اس کو نظر انداز نہ کرو ۔انگلستان کی ٹیلی ویثرن جو ITVکہلا تی ہے اس نے بھی ایک خاص رنگ میں اس خبر کو دکھا یا۔ جنرل ضیاء الحق صاحب کی تصویر بھی دکھائی اور یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے بار ڈرکے نزدیک روس نے بمباری کی ہے جو غالباًافغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب تھی۔ یہ کہنے کے بعد نیوز کاسٹرنے یہ فقرہ بولا General Zia of Pakistan flew himself to examine bomded area and it was on the Friday the 31st of May اب یہ فقرہ کہنا It was on the Friday 31st of Mayیہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے نمایاں طور پرنکلوایا اور اس دن کو غیرمعمولی اہمیت دی گئی۔

پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی انتظار میں لگے ہوئے تھے، دیکھ رہے تھے اور ان کا دل چا ہتا تھا کہ کچھ ظاہر ہواور ہم اپنے دوستوں اور ان لوگوں میں جن میں تشہیرکرچکے ہیں ان کو کہہ سکیں کہ دیکھو یہ خدا کی طرف سے ایک نشان تھا جو ظاہر ہوگیا۔ اس لئے دشمن کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کی خوش فہمیاں تھیں Wishful Thinking.تھی۔چاہتے تھے کہ کچھ ہوجائے۔ کچھ ہوا اورانہوں نے کہہ دیاکہ دیکھوہو گیا ہوگیا۔ لیکن ضیا ء الحق صاحب تو نہیں چاہتے کہ کچھ ہو جائے۔ ’’لولاک‘‘ کے مدیر تو نہیں چاہتے تھے کہ کچھ ہو جائے۔ جماعت اسلامی کے سربراہ تو نہیں چاہتے تھے کچھ ہو جائے ۔ان کی تو نگا ہیں خدا نے دس مئی پر ہی مر کوز رکھیں اور وہ بھو ل ہی گئے کہ دس رمضان کا بھی ایک جمعہ آنے والا ہے ۔ اگر ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آجاتی کہ جماعت احمدیہ اسے خدا تعالیٰ کے ایک نشان کے طور پر پیش کرے گی تو شاید قیامت بھی ٹوٹ پڑتی تو وہ منہ سے کچھ نہ بولتے یا اپنے قلم سے کچھ نہ لکھتے ۔تو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک واضح نشان تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں پورا بھی ہوا اورایک رنگ میںعذاب ٹل بھی گیا ۔‘‘

اسی طرح آپؒ نے فرمایا:

’’دس جمعۃالمبارک رمضان شریف میں جو واقعہ رونما ہوا ہے اس کے یہ پہلو کھل کر اب سامنے آگئے ہیں۔ اول اِن نشانوں کا ایک سلسلہ جاری ہوا ہے جو وہیں رُک جانے والا نہیں اور جب میں غور کرتا ہوں اس نظارے پرجو میری آنکھوں کے سامنے ابھی بھی اُسی طرح روشن ہے کہ گھڑی کا دسواںہندسہ دھڑک رہا تھاروشن الفا ظ میں۔ روشنی، تجلّی کا بھی نشان ہو تی ہے اور رحمت کا بھی نشان ہوا کرتی ہے۔ یعنی روشنی بعض دفعہ عذاب کی تجلّی کا بھی نشان ہوتی ہے اور بعض دفعہ تبشیر کی تجلّی کا بھی نشان ہوتی ہے۔ تو اس ہندسے کا دھڑکنا بتا تا ہے کہ یہ ایک دفعہ ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ اس کا آغاز دسویں جمعہ کو جو چاند کی دسویں ہوگی اس سے ہوگا۔ اس جمعہ کو یہ بات شروع ہو جائے گی اور پھر یہ نشان دھڑکے گا اور باربار رُونما ہوگا۔ اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ اس لئے ہو گا تاکہ قوم میں جو لوگ ہدایت پانا چاہتے ہیں، جن کے مقدر میں ہدایت ہے ان کو خدا تعالیٰ اس کا موقعہ عطا فرمادے ۔دوسرا مَیںاس سے یہ سمجھا ہوں کہ پاکستان کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے کہ کہاں کہاں سے وہ خطرے ہیں۔

ایک پاکستان کو جنوب سے خطرہ درپیش ہوگا اور جس طرح سمندری طوفان کی صورت میں یہ تنبیہ کی گئی بعید نہیں کہ وہ خطرہ سمندر ہی کی طرف سے درپیش ہو۔ وہ کس شکل میں ہوگا؟ یہ ہم ابھی نہیں جانتے۔ جب ظاہر ہوگا تو خدا تعالیٰ کی تقدیر خود کھول کر بتا دےگی۔ لیکن جو خطرہ جنوب سے پاکستا ن کو پیش آنے والا ہے وہ سمندر سے تعلق رکھنے والا خطرہ مجھے معلوم ہوتا ہے کیونکہ سمندر کی ایک غیرمعمولی حرکت کے ذریعہ خدا نے اس تجلّی کو ظاہر فرمایا جو عموماً اس علاقے میں دیکھی نہیں جاتی جو جغرافیہ کی تاریخ کے لحاظ سے ایک بالکل اجنبی بات تھی۔

اور شمالی سرحد سے ہوائی خطرہ ہے پاکستان کو ۔ گو آسمانی نشان کے طورپر تو دونوں ہی نشان ظاہر ہوں گے۔ لیکن اس کا ظاہر ی فضا میں بھی آسمان سے تعلق معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ خطرہ ایک ہوائی حملہ کی صورت میں ظاہر ہو ا تھا۔ پس یہ باتیں تو ہم بہت کھل کراب دیکھ رہے ہیں کہ یہ مراد تھی اور آنے والے وقت نے یہ بات واضح کردی کہ یہی رنگ ہے اس پیشگوئی کا اورا بھی یہ ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہوئی ہے۔
اس کے بعد میں جماعت کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ بہت سے کراچی کے دوستوں نے جو خطوط لکھے ان میں اگرچہ بھاری اکثریت نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ نشان ظاہر تو ہوا مگر اس نے نقصان نہیں کیا اور ہم بہت خوش ہیں کہ لاکھوں جانیں بچ گئیں کیونکہ اندازہ یہ تھا کہ اگر یہ واقعۃً پوری طرح خطرہ در پیش آجاتا تو معمولی نقصان نہیں تھا بلکہ لکھوکھہا جانیں تلف ہو سکتی تھیں۔ پچاس فٹ اونچی سمند ر کی لہر تھی جو تقریباً سومیل فی گھنٹہ کی رفتار سے کراچی کی طرف بڑھ رہی تھی اور یہ جو اخبارات میں نے دیکھے ہیں ان میں لکھا ہے کہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ سومیل یا اس سے زائد اس کے پیچھے رہ گئی تھی جب رخ پلٹا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ صرف پچاس میل قریب آکریعنی نصف گھنٹہ کا فرق رہ گیا تھا تو پھر وہ مڑی ہے اور جوتنبیہات کی گئیں ان میں صبح دس بجے کے وقت اس کا پہنچنا بھی بتا یا گیا تھا کہ اگر یہ پہنچ جا تا تو صبح دس کے لگ بھگ اس نے کراچی کو Hit کرنا تھا۔ اب پچاس فٹ اونچی سمندری لہریں جو سو میل کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہوں اس نے تو کراچی کے میل ہا میل تک کلیۃً صفایا کر دینا تھا۔ اس علاقے سے نا م و نشان شہر کے مٹ جانے تھے ۔تو اس لئے جو سمجھ دار ہیںجو صاحب دل لوگ ہیں وہ مجھے خط لکھتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے فضل فرمایا اور ایک نشان پو را بھی فرمادیا، ہماری سرخروئی بھی کردی اور بنی نو ع انسان کو ایک بڑے دکھ سے بھی بچا لیا۔ لیکن بعض نوجوان بیچارے جو یہ حکمتیں نہیں سمجھتے یا پوری تربیت نہیں رکھتے، بہت چند ہیںگنتی کے ، مگر انہوں نے یہ لکھا کہ اللہ میاں نے جب یہاں تک پہنچا دیا تھا تو آگے تک جاتے کیا تکلیف تھی۔ پچاس میل رہ گیا تھا۔ خدا کو آگے کیا حرج تھا آگے کر دیتے تو پھر ذرا اور ہوتا ۔ان کو اندازہ نہیں کہ دکھ کیا چیز ہے اور قومی دکھ کیسے کیسے خوفناک نتائج پید ا کرتا ہے۔ اور ان کو پتہ نہیں کہ اللہ رحیم وکریم ہے۔ نشانا ت ظاہر ہوتے ہیںاورہمیشہ ہوتے رہیں گے لیکن جن کی خاطر نشان ظاہر ہوتے ہیں ان کا دل نشانات کے ظاہر ہونے سے زیادہ قوم کی ہمدردی میں مبتلا ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا یہ طریق تھاجوصحابہ کی روایات سے ثابت ہے کہ بعض موقع پر جب ایک شدید معاند کی ہلاکت کی آپ نے خبر دی اور وہ دن قریب آرہا تھا تو صحابہ ساری ساری رات اٹھ کر روتے اور گر یہ و زاری کرتے تھے کہ اے خدا یہ نشان ظاہر فرمادے۔ پکڑا جائے،پکڑا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو پتہ چلا تو آپ ؑ نے فرمایا کہ میں تو رات بھریہ دعائیں کرتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بچالے۔ نہ پکڑا جائے ،نہ پکڑا جائے، نہ پکڑا جائے اور ہدایت نصیب ہو جائے۔ ‘‘

حضورؒ نے فرمایا:

’’غور کریں کہ یہ معمولی بات نہیں ۔دسمبر کے آخر پر ایک عاجز بندے کو خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ دس جمعۃ المبارک کو کچھ ہونے والا ہے۔ کس کے اختیار میں ہے۔ ہم تو ایسے بے اختیار لو گ ہیں کہ پر دیس میں نکالے گئے اور کوئی اختیار نہیں ہے ۔وہاں کے حالات پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ سمندر کی طاقتوں پر کوئی اختیار نہیں۔ لوگ ہنسنے اور مذاق اڑانے کے لئے تیار بیٹھے تھے ، بے بس تھے اورایک لمحہ کے لئے میرے دل میں خیا ل آیا کہ اگر میں اس کا اعلان کر دوں تو بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے بعض دفعہ وہ نشانوں کو ٹال بھی دیتاہے۔ جماعت پہلے ہی دکھوں میں مبتلا ہے، لوگ ہنسیں گے اور مذاق اڑائیں گے۔ لیکن اس وقت میرے دل نے مجھے بتایا کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے۔ خدا کی مرضی ہے وہ بتائے اور نہ پورا کرے ۔انبیاء کی شان کے مطابق غلاموں کو بھی وہی رنگ اختیار کرنے چاہئیں اس لئے وہ اس بات سے نہیں ڈرتے تھے کہ دنیا مذاق اڑائے گی یا نہیں اڑائے گی۔ کیا کہے گی؟ بے پر واہ ہو کر ناممکن باتیں کہہ دیا کرتے تھے اور بظاہر کوئی امید نظرنہیں آتی تھی۔ … جو خدا نے مجھے دکھایا امانت کے طورپرمیں نے جماعت کے سامنے پیش کر دیا اور جو ظاہر ہوا ہے یہ …شمال سے بھی ظاہر ہونا، جنوب سے بھی، سمندر سے بھی اور ہوا سے بھی اور پھر معاندین احمدیت کا اس کو نشان اور تنبیہ قرار دے دینا، اب جو چاہیںکر لیں۔ اب یہ قلم سے نکلی ہوئی تحریر یں اور زبان سے نکلے ہوئے کلمات اب واپس نہیں لے سکتے ۔

اس لئے خدا کانشان تھا جو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور ہمارے دل اس کے لئے شکر اور حمد سے لبریز ہیں۔ مگر ساتھ میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ دعائیں کریں اور استغفار کریں اور قوم کا برا نہ چاہیں۔‘‘

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ جون 1985ء۔ خطباتِ طاہر جلد 4 صفحہ 551 تا 561)

فرائیڈے دی ٹینتھ کے تناظر میں تاریخی اہمیت کی حامل خوشخبریاں

حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ اپریل 1987ء میں Friday the 10th کے حوالہ سے فرمایا:
’’ہم جو Friday The 10th خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خبر ملی تھی اسے خواہ مخواہ محض انذاری خبر بنائے ہوئے ہیں حالانکہ خدا کی طرف سے توکوئی شرط نہیں تھی کہ یہ انذاری خبر ہے اور جو چمک دکھائی گئی ہے بار بار کی وہ ا س کو دونوں طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ انذار کی بھی چمک ہوتی ہے اور خوشخبریوں کی بھی چمک ہوتی ہے۔ تومیرے دل میں یہ بات خدا تعالیٰ نے گاڑ دی ہے کہ جمعہ جو Friday The 10th آنے والا ہے اس میں ہی آئندہ کسی Friday The 10th میں جماعت کے لئے ویسی ہی خوشخبری بہت بڑی دکھائی جائے گی ۔‘‘

حضورؒ نے اس خطبہ جمعہ میں تبلیغ و دعوت الی اللہ کی مہم میں عطا ہونے والی بعض کامیابیوں اور خوشخبریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’ایک سب سے بڑی خوشخبری ابھی آپ کو بتانے والی باقی ہے۔جس کا تعلق Friday The 10th سے ہے ۔ ایک بہت بڑے مسلمان راہنما کہ جن کا اتنا وسیع اثر ہے کہ کروڑوں مسلمان ان کی عزت و احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کئی کتب لکھیں۔ بہت بڑے عالم دین ، کئی زبانوں کے ماہر اور بہت بارسوخ انسان ۔ ان سے کچھ عرصہ پہلے جمعرات کی شام کو ملاقات مقرر ہوئی تھی۔ لیکن یہ بھی عجیب تصرف ہے اللہ تعالیٰ کا کہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتے ہوتے جب تک جمعہ شروع نہیں ہوگیا وہ ملاقات بھی شروع نہیں ہوئی۔

میں اس سلسلے میں فکر مند تھا اس نقطہ نگاہ سے کہ یکطرفہ باتیںانہوں نے احمدیت کے متعلق سنی ہوں گی اور چونکہ ان سے ملاقات اس نقطۂ نگاہ سے بڑی اہم ہے کہ بہت بڑی تعداد جو کروڑوں کی تعداد ہے مسلمانوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہمیں سہولت ہوجائے گی اگر ان پر نیک اثر پڑے۔ تو فکر مند بھی تھا، دعا بھی کی تھی اور اس مجلس میں اپنے دو احمدی دوستوں کو بھی شامل کیا تاکہ ان کی بات کا بھی اچھا اثر پڑے۔ جب وہ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو عین سورج غروب ہوا جب تو اس وقت اتفاق ایسا ہوا۔ اتفاق نہیں بلکہ تصرف کہنا چاہئے کہ میں سات بجے سے انتظار کررہا تھا مگر آٹھ بجے سے پہلے ملاقات نہ ہوسکی جو سورج غروب ہوا اور جمعہ کا دن شروع ہوا۔ ملاقات کے دوران یہ نظر آیا کہ انہوں نے جماعت کے متعلق دوسروں سے باتیں سنی ہوئی تھیں۔ جماعت کے متعلق کوئی علم نہیں اور ان کا رویّہ بھی درمیانہ ساتھا کیونکہ شریف انسان تعلیم یافتہ اس لئے وہ بغض کا اظہار تو بہر حال نہیں کررہے تھے۔ لیکن ایک خشک ساجس طرح ہوتا ہے کوئی قلبی تعلق نہ ہو، کوئی دلچسپی نہ ہو۔ لیکن رفتہ رفتہ پھر باتیں شروع ہوئیں، تفصیل سے سارے مسائل ان کے سامنے میں نے بیان کئے۔ جماعت کیا ہے؟کیا کررہی ہے؟ اورامام مہدی کا ذکر کیا، دعویٰ کیا ہے؟ دوسرے مسلمان کیوں مخالف ہیں؟ اور انہوں نے …اشارہ اس طرح کیا کہ دلیل بھی ہونی چاہئے۔ تو میں نے پھران کو ایک دو دلائل دیئے اور اس دوران ان کی شکل تبدیل ہونی شروع ہوئی۔ یعنی محبت کے واضح آثار پیدا ہونے شروع ہوئے اور دیکھتے دیکھتے یوں لگا کہ جس طرح دل پگھل جاتا ہے ایک آدمی کا اوروہ بڑے کم گو ہیں، دو باتیں انہوں نے کہیں۔ ایک یہ کہی کہ میں اپنی یہ خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا کیونکہ کانوں سے سنی ہوئی باتیں بسا اوقات جھوٹی نکلتی ہیں ۔ جب تک آنکھیں نہ دیکھ لیں اس وقت تک انسان کو صحیح پتا نہیں لگ سکتا اور آج مجھے خدا نے یہ موقع دے دیا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں اور خود پتا کرلوں کہ آپ کیا لوگ ہیں۔دوسرا ایک بڑی معنی خیز فقرہ انہوں نے کہا جس سے مجھے بہت ہی امیدپیدا ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک لمبے عرصے سے میں اسلام کا تاریخی مطالعہ کررہا تھاآنحضرتؐ کے زمانے سے لے کر اب تک کااور میں نے ہر طرف نظردوڑائی اور خوب چھان پھٹک کی ، سب تلاش کی لیکن جس چیزکی مجھے تلاش تھی مجھے ملی نہیں ۔ آج مجھے وہ مل گئی ہے… بیعت تو انہوں نے نہیں کی لیکن اتناحیرت انگیز فقرہ تھا ایک کم گو، اتنے بڑے عالم اور اتنے بڑے لیڈر کے منہ سے نکلا ہوا اتنا معنی خیز ہے کہ اس وقت مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہی وہ خوشخبری تھی جو پیر کے دن۔…خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ Friday The 10th صرف جلال نہیں لے کے آئے گابلکہ جمال لے کے بھی آئے گااور احمدیت کی ترقی کے لئے انشاء اللہ نئے نئے دروازے کھولے گا۔‘‘

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ اپریل 1987ء خطباتِ طاہر جلد 6 صفحہ 253 تا 256)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button