یورپ (رپورٹس)

پندرھویں سالانہ پِیس سمپوزیم کا کامیاب انعقاد

(حامدہ سنوری فاروقی۔ یوکے)

جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیراہتمام طاہر ہال بیت الفتوح لندن میں 17مارچ 2018ء کو پندرھویں سالانہ پِیس سمپوزیم کا کامیاب انعقاد

550سے زائدغیراز جماعت و غیرمسلم مہمانوں کی تقریب میں شمولیت۔ مہمانوں میں برطانوی وزرا، اراکین پارلیمنٹ،

مختلف ممالک کے سفراء، مختلف شہروں کے میئرز اور متعدد سیاسی و سماجی حلقوں سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات شامل تھیں۔

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بصیرت افروز خطاب۔

(لندن) جماعت احمدیہ برطانیہ گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال ایک پِیس سمپوزیم منعقد کرتی ہے جس میں مرکزی خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ہوتا ہے۔ اس تقریب میں مختلف سیاسی، سماجی حلقوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور کئی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس موقع پر ایک پِیس ایوارڈ بھی جماعت احمدیہ یُوکے کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ امسال 17مارچ 2018ء کو پندرھواں پِیس سمپوزیم طاہرہال، بیت الفتوح میں منعقد ہوا جس میں ساڑھے پانچ سو سے زائد مہمان شامل ہوئے۔

تقریب کا آغاز تلاوت قُرآن کریم سے کیا گیا۔ بعدازاں امیر جماعت برطانیہ مکرم رفیق احمد حیات صاحب نے مہمانو ں کو خوش آمدید کہا اور اپنے مختصر ایڈریس میں کہا کہ انتہا پسندی اور شدّت پرستی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یکجہتی اور اتحاد ہی تما م مشکلات کا حل تلاش کرنے میں ممد ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد بعض معزز مہمانوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

Dr Aaron Rhodes نے جو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے مختلف اداروں کے سربراہ ہیں ، اس بات پر افسوس اور تشویش کااظہار کیا کہ جماعت احمدیہ جو انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے قیام کے لئے دن رات کوشاں ہے اسے انتہا پسند افراد اور حکومتوں کی طرف سے مخالفت اور ظالمانہ کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور ان کے حقوق تلف کئے جاتے ہیں۔

Dr Luigi de Salvia جو عالمی کانفرنس برائے امن کے یورپی حصہ کے صدر ہیں، نے کہا کہ پندرہ سال سے جماعت احمدیہ جو امن سمپوزیم منعقد کر رہی ہے وہ ہمارے اس بر اعظم کا اہم ترین اجلاس ہوتا ہے،جس میں اہم پیرایہ میں انسانیت کو در پیش اہم مسائل، خدشات اور اُن کا جامع حل پیش کیا جاتا ہے۔

Mrs Angelina Alekseeva نے بھی سمپوزیم میں شرکت کی۔ وہ اس سال کے احمدیہ امن انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر روشال (Dr Leonid Roshall )کی نمائندگی کر رہی تھیں۔اُنہوں نے حاضرین کو بتایا کہ ڈاکٹر روشال نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امن انعام کی ساری رقم ایک ایسے فلاحی ادارہ کو دیں گے جہاں ذہنی اور ریڑھ کی ہڈی میں نقائص کی وجہ سے تکالیف میں مبتلا بچوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہر شخص اپنے رنگ میں دُنیا میں قیام امن کے لئے کوششوں میں حصہ ڈالے۔

اس کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حاضرین سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ حضور نے سب سے پہلے حاضرین کو السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہٗ کا تحفہ پیش فرمایا۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ سب سے پہلے میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوںکہ وہ ہمارے اس امن سمپوزیم میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں۔

حضور نے فرمایا کہ گزشتہ پندرہ سال سے احمدیہ مُسلم جماعت یہ سمپوزیم منعقد کرتی آرہی ہے۔شائد کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہر سال اس سمپوزیم کو مُنعقد کرنے سے کیا فائدہ ہےجبکہ مسلمان ممالک میں اور غیر مُسلم ممالک میں امن کی صورتحال میں کوئی مُثبت فرق نہیں پڑابلکہ صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔دُنیا کا بیشتر حصہ باہمی تفرقہ ،نفرت اور نا انصافیوں کی لپیٹ میں ہے۔ معاشرہ طاقت کے مختلف سمتوں میں کھنچتے ہوئے دھڑوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔جنگیں کی جاتی ہیں اور آپس میں قومیں ایک دوسرے کو دھمکاتی ہیں۔غیر مساوی رُجحانات ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک دونوں ہی میں زور پکڑتے جارہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس صورتحال میں جب آپ کے دل میں شُبہات پیدا ہوں تو اس میں آپ حق بجانب ہیں۔مگر ہمارا مذہب ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ ہم دُنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو امن اور انصاف کی طرف بُلاتے رہیں۔خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ،طاقتور ہوں یا کمزور، مذہبی ہوں یا غیر مذہبی۔ اس وجہ سے ہم اپنا فرض نبھاتے چلے جائیں گے کہ ہم دُنیا کو اعلیٰ انسانی اقدار کی عظمت کی قدر و منزلت پہچاننے اور اپنانے کی ذمہ داری کا احساس دلاتے چلے جائیں۔ اسلام کی بُنیادی تعلیم ہی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے حقوق اوراُس کے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیں۔

حضورانور نے فرمایا کہ ان مختصر تمہیدی کلمات کے بعد میں آج بعض بہت اہم اُمور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں جو آج کی دُنیا میں شدید بے چینی پیداکر رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کی دُنیا میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بعض بڑی طاقتیں اور بین الاقوامی ادارے ایسے منصوبے بناتے ہیں جن سے وہ دُنیا بھر میں انسانوں کی زندگیاں بہتر کرنا چاہتے ہیں۔حالیہ زمانہ میں ایک مسئلہ جس پر بہت سے سیاستدان اور مفکرین اکٹھے ہو کر آواز بلند کر رہے ہیں اور احساس بیدار کر رہے ہیں ،وہ دُنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں اور توازن کے رُجحان اورخصوصیت سے فضا میں کاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یقینا ًموسمیاتی تبدیلیوں پر اثر انداز ہونے والے عوامل اور اس کُرہ ارض کی حفاظت بہت اہم اور قابل قدر اُمور ہیںمگر اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک اور خصوصا ًبین الاقوامی رہنما اس امر کا بھی احساس بیدار کریں کہ دُنیا میں بعض دوسرے مسائل بھی فوری توجہ کے لائق ہیں اور اسی شدّت سے توجہ طلب ہیں۔

دُنیاکے غُربت و افلاس میںگھِرے ہوئے اَن گنت انسان ماحولیات اور کاربن کے اخراج کے تناسُب کے بارہ میں سوچ نہیں سکتے کیونکہ ہر صُبح وہ آنکھ کھولتے ہیں تو اس فکر کے ساتھ کہ کیا آج وہ اپنے بچوں کو ایک وقت کی روٹی مہیا کر سکیں گے یا نہیں؟اُن کی معاشی بد حالی خوفناک صورتحال پیدا کر چکی ہے جس کی اذّیت کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔مثال کے طور پر دُنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں شہریوں کو پینے کاصاف پانی میسر نہیں ہےاور وہ چھپڑوں کا گندہ پانی پینے پر اور بُنیادی ضرورتوں کے لئے استعمال کرنے پرمجبور ہیں۔جبکہ وہ پانی بھی آسانی سے اُنہیں مہیا نہیں ہے۔عورتیں اور بچے روزانہ کئی کئی میل پیدل چل کربرتن اپنے سر پر اُٹھا کر وہ پانی اپنے خاندان کے افراد تک پہنچاتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ ہمیں ان مسائل پر ایک نگاہ ڈال کر یہ خیال نہیں کر لینا چاہئے کہ یہ دوسروں کے مسائل ہیں۔بلکہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ اس غُربت اور افلاس کے نتا ئج تمام د نیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا براہِ راست تعلق تمام دُنیا کے امن اور سلامتی سے ہے۔ جن بچوں کا سارا دن مشقت کے ساتھ چل چل کر اپنے خاندان کے افراد کے لئے پانی لانے میں گُزر جاتا ہے، ظاہر ہے کہ وہ اسکول نہیں جا سکتے اور نہ ہی کسی قسم کی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں جہالت اور غُربت نے اُنہیں اپنے نہ ختم ہونے والے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جو معاشرہ کے لئے شدید نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔ آج کی دُنیا میں اس غُربت و افلاس کی تکلیف زمانہ کے ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے، کیونکہ جنگوں کی تباہ کاریوں اور افلاس کی چکی میں پِسنے والے عوام بھی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ امیر اور طاقتور ممالک میں عوام کس آرام اور میسر سہولیات کے ساتھ زندگی گُزار رہے ہیں۔جب وہ دوسروں کو اس طریق پر رہتے دیکھتے ہیں تو معاشرہ میں انسانی حقوق میں یہ باہمی تضاد دلوں میں ردِ عمل پیدا کرتا ہے اور اُس کے اُوپر مزید نمک پاشی کرنے والے انتہا پسند عناصر ہیں جو جذبات کو انگیخت کرتے ہیں اور مالی معاونت اور بیوی بچوں کے لئے بہتر اور خوشحال زندگی کے نہ صرف خواب دکھاتے ہیں بلکہ اُس کے حصول کے لئے وعدہ کرتے ہیں۔اسی طرح غیر تعلیم یافتہ نوجوان اُن عناصر کے ہاتھ آجاتے ہیں، وہ اُن کی ذہنی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے کر اُن کے ذہنوں میں شدت پسندی کے رُجحانات اچھی طرح راسخ کر دیتے ہیں۔یہ شدت پسند عناصراکثر اس چیز سے فائدہ اُٹھاتے ہیں کہ اُن کے سربراہانِ مملکت نے عوام کے حقوق کو پسِ پُشت ڈال کر مایوس کُن صورتِ حال پیدا کی ہوئی ہوتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہےکہ ان جنگوں کی تباہ کاریوں اور غُربت و افلاس کی چکیوں میں پِسنے والی قوموں کے سر براہان بجائے اپنے عوام کی بہبودی کا خیال رکھنے اور اُن کی تکالیف دور کرنے میں کوشاں ہونے کےاکثر اپنی ذاتی ملکیتوں اور اونچی کُرسیوںاور طاقت برقرار رکھنے کے ذرائع کی طرف توجہ مرکوز کئے رکھتے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کے دلوں میں اپنے لیڈروں کے لئے غصہ اور نفرت جنم لیتی ہے اور وہ دُنیا کی بڑی طاقتوں کو اپنا دُشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔یہ ایسا المیہ ہے جس کی خوفناک باز گشت ہمیں مسلمان ممالک میں بھی نظر آ تی ہے۔ اپنے موروثی وطنوں میں اس شدت کی تکلیف دیکھتے ہوئے بعض مسلمان جنہوں نے باہر کے ممالک میں پرورش پائی ہے وہ شدت پسند عناصر کے زیرِ اثر آکر ذہنی تشنج کا شکار ہوئے ہیں اور اُنہوں نے مغربی ممالک میں خوفناک حملے کئے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ لہٰذا میں اس بات کو پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم سچے دل سے اپنی دُنیا کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک محفوظ معاشرہ چھوڑ کر جائیں تو ہمیں بھر پور کوشش کرنی ہوگی کہ تیسری دُنیا کے لئے معیار زندگی مُنصفانہ طرز پر قائم ہو۔غریب قوموں کو بجائے حقارت سے دیکھنے کے ہمیں چاہئے کہ ہم اُنہیں ا پنی انسانی برادری کا حصہ سمجھیں۔ وہ ہمارے بہن بھائی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لئے ہم جو مدد فراہم کریں ، یکساں مواقع اوراُمید افزا حالات پیدا کرنے میں جو معاونت کریں وہ حقیقت میں ہماری اپنی مدد ہوگی جس کے ذریعہ ہم دُنیا کا امن ممکن بنا سکیں گے۔ورنہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں غُربت اور تنگدستی کے منفی اثرات باقی تمام دُنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ مزید بر آں،حالیہ دہشتگردی کے واقعات اور مغربی ممالک کی طرف کثیر تعداد میں لوگوں کا ہجرت کرنے کا رُجحان،اور قوم پرستی کے خیالات کا مغربی ممالک کے وسیع حلقوں میں پھیل جانا۔ایسے عوامل ہیں جن سے دُنیا میں ایک تاریک دور کی یاد اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ یہ امر بھی فکر انگیز ہے کہ دائیں بازو کی شدت پسند تنظیمیں بلند و بالا آواز سے سُنی جانے لگی ہیں،اور سیاسی حلقوں میں بھی اُن کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا ہے۔ وہ لوگ بھی انتہا پسندہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ مُختلف قومیت یا رنگ و نسل یا عقیدہ رکھنے والے لوگوں کے خلاف معاشرہ میں زہر پھیلایا جا ئے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاقتور ممالک کے بعض رہنما اپنے بیانات میں بہت زیادہ قومی تشخص پر زور دینے لگے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے عوام سے یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ ہر دوسری چیز پر انہیں ترجیح دیں گے۔ میں اس چیز سے اختلاف نہیں رکھتا کہ حکومتوں اور قومی رہنماؤں کا اوّلین فرض اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔یہ بات اس حد تک درست ہے۔جہاں تک یہ رہنما انصاف کا دامن پکڑے رہتے ہیں اور دوسروں کے حقوق تلف نہیں کرتے اس وقت تک اپنے شہریوں کےمعیار ِ زندگی کو بہتر بنانا ان کے لئے بڑی خوبی کی بات ہے۔ مگر جو لائحہ عمل ایسی بنیادوں پر بنائے جائیں جس میں نفسا نفسی، لالچ اور دوسروں کے حقوق سلب کرنے کا رحجان ہو وہ غلط لائحہ عمل ہوتے ہیں اور دنیا میں تفریق اور خلفشار کا بیج بونے کا موجب بنتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اب میں ایک اور موضوع کی طرف آتا ہوں اور وہ ہے بین الاقوامی سطح پر ہتھیاروں کی تجارت۔ آج دنیا اپنے آپ کو ماضی کے ہر دور سے بڑھ کر مہذب گردانتی ہے۔ اس کے باوجود 2018 ء میں صورتحال یہ ہے کہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہےجن کا استعمال ہم صرف انسانیت سوز ہی گردان سکتے ہیں، جس کے نتیجہ میں ایسے ممالک ہیں جو کلّی طور پر تباہ و برباد اور نیست و نابودہوگئے ہیں۔ شام، عراق اور یمن جیسے ممالک میں ان کی اپنی حکومت کی طاقتیںاور باغی طاقتیں اور شدت پسند عناصر باہم ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ ان کے آپس کے انفرادی مفادات مختلف ہیں۔ مگر اس کے باوجود ایک چیز باہمی طور پر مشترک نظر آتی ہے اور یہ وہ ہتھیار ہیں جو ترقی یافتہ دنیا میں تیار کئے گئے ہیں۔ کھلے بندوں اور فخریہ طور پر بڑی طاقتیں ان ہتھیاروں کی تجارت کر رہی ہیں۔اور ان ہتھیاروں کے استعمال سےمعصوم انسانی جانوں کو تلف کرنے ، اپاہج کرنے اور بے رحمی کے گڑھوں میں بے دریغ دھکیلنے کا کام لیا جارہا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دکھ کی بات یہ ہےکہ اس قسم کی حکومتیں اپنی ساری توجہ اس بات پر مرکوز کئے ہوئے ہیںکہ ان کی معیشت کو فروغ ملے۔ اور ان کے ملک کی دولت میں حتی الامکان اضافہ ہو۔ بغیر ایک لمحہ کے لئے اس چیز پر غور کرنے کے کہ اس لائحہ عمل کے اپنانے سے دنیا میں کیا نتا ئج پیدا ہوتے ہیں۔ وہ بڑی بے تابی کے ساتھ اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسے معاہدے طے کرتے ہیںجن سے یہ تباہ کن ہتھیار بہترین قیمت پر بِک سکیں۔ جبکہ ان میں سے جب ایک ہتھیار بھی داغ دیا جاتا ہے تو وہ کسی معصوم یا گناہ گار میں تفریق نہیں کرتا۔ وہ نہایت فخر کے ساتھ ایسے ہتھیار بیچتے ہیں جو بچوں ، عورتوں یا معذوروں میں ذرہ برابر تمیز نہیں کرسکتے۔ بغیر کسی شرم کے یہ ہتھیار بیچے جاتے ہیں جو انسانی آبادیوں اور شہروں کو بلا تمیز و تفریق، نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو بیچنے والے ممالک کی معیشت کو وقتی فائدہ تو پہنچ جاتا ہے، مگر لکھوکھہا انسانوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگین ہوجاتے ہیں۔ اَن گنت معصوم بچے اپنے ماں باپ کو اس بربریت کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور وہ بے بسی کے ساتھ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اُن کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا کہ ان کے والدین کیوں ان سے چھن گئے۔ ہزاروں کی تعداد میں عورتیں بیوگی کی حالت میں رہ جاتی ہیں جن کی زندگی میں ہر امید چھن چکی ہوتی ہے اور وہ دنیا کی مختلف اذیتوں کا شکار بن جاتی ہیں۔

حضورِ انور نے استفہامیہ انداز میں فرمایا کہ اس تمام تباہی و بربادی سے کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے!؟ میں تو اس صورتحال سے نکلنے والی ایک ایسی بچوں کی کھیپ کا تصور کر سکتا ہوں جو اُن عناصر کے ہاتھ میں آ جائیں گے جو چاہتے ہیں کہ دنیا کے امن کو برباد کردیں۔

حضورِ انور نے فرمایاجب ایک چھوٹا بچہ یا جوانی میں قدم رکھنے والا بچہ ، یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے کہ اس کے ماں باپ سخت بربریت کے ساتھ اس سے چھین لئے جاتے ہیں، تو اس کے بعد اُس کا ردِ عمل دکھانے پر کون اُس کو الزام دے سکتا ہے۔ مَیں اس سے پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ انتہا پسند اُن بچوں اور نوجوانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں جو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب رہے ہوتے ہیں اور جنگوں کی تباہی و بربادی نے جن کے ذہنوں کو مسخ کردیا ہوتا ہے۔ یہ انتہا پسند ایسے نوجوانوں کو پھانسنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جن کے بارہ میں اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُن کےجذبات کو وہ آسانی سےانگیخت کر سکتے ہیں ، تا کہ اُنہیں بدلہ لینے پر اور خون بہانے پر آمادہ کرکے دہشت گردی کے منصوبوں میں استعمال کر سکیں۔ بجائے اس کے کہ یہ بچے سکول جائیں ، تعلیم حاصل کریں اور اچھے شہری بنیں جنہیں قوانین کا پاس ہو ، بچوں کی ایک پوری نسل کو صرف یہ تربیت مل رہی ہے کہ کس طرح گرینیڈ اور میزائل اور خودکش حملے کئے جائیں جن سے دنیا کا امن برباد ہوجائے۔ مزید برآں یہ کہ بعض ممالک بلاوجہ ہزاروں میل دور ہونے والے جھگڑوں میں ملوث ہوتے ہیں اور اپنے فوجیوں کے ذریعہ یا ہوائی حملوں کے ذریعہ دُوردراز کے ممالک پر حملے کرتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بہت سے واقعات سے یہ شہادت ملتی ہے کہ دنیا نے اپنی گزشتہ غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کئے۔ وسیع حلقوں میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ 2003ء میں لڑی جانے والی عراق کی جنگ غیرمنصفانہ تھی اور غلط شہادتوں پر مبنی تھی۔ اسی طرح لیبیا اندوہناک قسم کے فسادات میں گھر گیا ہے اور انتہا پسند عناصر کےپھلنے پھولنے کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ یہ صورتحال چند سال پہلے وقوع پذیر ہوئی جب مغربی طاقتوں نے لیبیا میں اپنے موقف کے مطابق اقدامات کئے۔ اس قسم کے نتائج کے باوجود بڑی طاقتوں نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا۔ بڑے بڑے شہر اور انسانی آبادیاں یک لخت زمیں بوس کردی گئیں۔ ہزاروں تعمیرات خاکستر کر دی گئی ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ شروع میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ بین الاقوامی برادری کی توجہ کا مرکز دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں اور یہ تمناکہ جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں وہ صاف و شفاف رہے۔کیا کوئی ایسا شخص ہے جو یہ خیال کرتا ہو کہ اس قدر شدید بمباری کا ماحولیات پر اثر نہیں ہوگا؟ مزید برآں اگر کبھی جنگوں سے تباہ ہونے والے ممالک میں امن کا قیام ممکن ہوسکا تو اُن کے شہر اور مکانات بنیادوں سے دوبارہ تعمیر کرنے پڑیں گے۔ اور یہ اپنی ذات میں ہی اس قدر عظیم تعمیراتی کام ہوں گے جن کے دوران نقصان دہ ڈیزل وغیرہ کے اخراج ماحول کی کثافت میں اضافہ کریں گے۔ ایک ہاتھ سے تو ہم اس کرّہ ارض کو محفوظ بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جب کہ دوسرے ہاتھ سے ہم بے دردی کے ساتھ اس کی تباہی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اِن تمام شواہد کی روشنی میں مجھے یقین ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ سب سے بڑی دلیل جو اسلحہ کے فروغ کے لئے دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلحہ کا حصول حملہ آوروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوتا ہے اور اس طرح امن کے قیام پر منتج ہوتا ہے۔ مگر حقیقت میں جیسے ہی ہم اپنے ٹیلیویژن آن کرتے ہیں اور لحظہ بھر کو خبریں دیکھتے ہیں تو فوراً یہ حقیقت رُونما ہوتی ہے کہ اس قسم کے دلائل غلط ہیں اوریہ ایک نظریاتی دھوکہ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ہزاروں معصوم بچے جو ان مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے دوران اپنے ماں باپ سے محروم ہوگئے یا اُن کے اپنے ہاتھ پاؤں یا دیگر اعضا ضائع ہوگئے ، اُن کو یہ منطق ہرگز قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ نہ ہی یہ دلیل اُن ہزاروں عورتوں کو قائل کر سکے گی جو اس دوران بیوہ کردی گئی ہیں اور نہ ہی اُن کروڑوں افراد کو جو اپنے ہنستے بستے گھروں سے محروم کردئیے گئے ہیں۔ اگر ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لئے ایک پُر امید زندگی چھوڑ کر جائیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو ایک پُرامن دنیا میں رہنے کی نوید دے سکیں تو ہمیں قطع نظر مذہب و عقائد کے اپنی ترجیحات کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ مادہ پرستی اور طاقت کا حصول ہماری ترجیحات پر حاوی ہو، ہر ملک و قوم خواہ امیر ہو یا غریب، اسے تمام دنیا کے امن اور سلامتی کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دینی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ اسلحے کی دوڑ میں شامل ہوں جو ہلاکت اور تباہی کا موجب بنے، ہمیں انسانیت کی حفاظت اور بچاؤ کی دوڑ میں شامل ہونا چاہئے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ بجائے اس کے کہ جنگ پر آمادہ ملکوں کی سرحدوں اور بندرگاہوں کو بند کیا جائے ، جس کے نتیجہ میں معصوم بچے فاقہ کشی کے عذاب میں مبتلا کردیئےجائیں اور بیمارعلاج سے محروم کردیئے جائیں۔ ہمیں اپنے دل ایک دوسرے کے لئے کھول دینے چاہئیں۔ ہمیں تقسیم کرنے والی دیواروں کو گرا دینا چاہئے، بھوک و افلاس اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کے لئے مددگاربن جانا چاہئے۔


حضورِ انور نے فرمایا کہ جہاں تک سیاسی دشمنی کا تعلق ہے امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین ہونے والا کوئی بھی جھگڑا دنیا کے امن کے لئے مستقل خطرے کا باعث ہے۔ اور دونوں کے درمیان ہونے والا کوئی بھی تنازعہ ، جنوبی کوریا، چین اور جاپان پر شدید طور پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔

حضور نے امریکہ اور شمالی کوریا کے صدران کے درمیان رابطہ کی کوششوں کے حوالہ سے فرمایا کہ ان کے درمیان اگر کوئی معاہدہ طے پا جائےتو خدا تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کتنا پائیدار ہوتا ہےکیونکہ فریقین میں گہری نفرت کی جڑیں موجود ہیں۔ جیسا کہ چند سال پہلےایران کے ساتھ جو ہری توانائی کا جو معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا اس پر ایران اور مغربی طاقتیں باہمی طور پررضامند تھیں مگر چند سال ہی گزرے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس معاہدہ کی حالت بھی نازک ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح اور بہت سے تنازعات ہیں جن کا لاوا آہستہ آہستہ سلگ رہا ہے اور ان کےکسی وقت بھی پھٹ پڑنے کا خدشہ رہتا ہے جس کے ہولناک نتائج کا تصور کرنا بھی تکلیف دہ ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہاں یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ امن کا قیام صرف اُس صورت میں ممکن ہے جب دلوں سے بغض اور عناد کو نکال باہر کیا جائے اور اُس کی جگہ ایک معاف کرنےکی روح پیدا کی جائے اور باہمی محبت اور صلہ رحمی کے روابط ایک دوسرے سےقائم کئے جائیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام کو عموماً انتہا پسنداور تشدد پسند مذہب خیال کیا جانے لگا ہے اور یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جن ممالک میں رہتی ہے، اُن کے وفادار نہیں ہیں یا معاشرہ میں ہم آہنگی کی بجائے بد امنی پھیلانے کا موجب ہیں۔ مَیں اِن الزامات کو غلط اور غیر منصفانہ سمجھتا ہوں اس کے باوجود کہ مسلمان کہلانے والے دہشت گرد، اسلام کا نام استعمال کرکے اپنی کارروائیاںکرتے ہیں ، مَیں نہیں سمجھتا کہ ہم اِس صورتحال میں مذہبی جنگ کا مشاہدہ کر رہے ہیں بلکہ حقیقت میں یہ جنگیں جو لڑی جا رہی ہیں اور مظالم جن کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ، علاقائی سیاست اور ذاتی مفادات پر مبنی ہیں۔نام نہاد جہادی شدت پسند اور انتہا پسند مولوی ، اسلام کے نام پر دھبہ لگاتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت جو پُر امن اور قانون کے تابع چلنے والے شہری ہیں اُن کی تمام کوششوں کو گزند پہنچانے کا باعث ہیں۔اسلامی نقطہ نگاہ نے کسی صورت میں بھی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی اور اس کی ہر شکل کو مسترد کیا ہے۔ قرآن کریم کی جو آیات آج کے اس اجلاس کے شروع میں تلاوت کی گئیں اُن میں اس کا واضح ثبوت موجود ہے۔ اِن آیات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں جو جنگیں لڑی گئیں اُن کا مقصد تمام مذاہب کا دفاع تھا اور یہ کہ عقائد کی آزادی کے حق کی حفاظت کی جائے۔ اِن آیات میں نہایت وضاحت سے کہا گیا ہے کہ گرجے، یہودیوں کے معابد، مندر اور مساجد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جس کو مَیں نے بار بار پیش کیا ہے اور اب بھی اُس کو دہراتا ہوں کہ جو شخص بھی انسانی آزادی کے اصولوں ، عقائد کی آزادی اور ضمیر کی آزادی کی خلاف ورزی کرتا ہے ، وہ اسلام سے بہت دور جا پڑا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں بھی بعض ایسے ہیں جو اس رائے کو مانتے ہیں اور اس کے صحیح ہونے کے بارہ میں آواز اٹھاتے ہیں۔ مَیں دیانتداری اور منصفانہ اصولوں کی اس خدمت پر ان کو داد دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر اخبار گارڈین کی حالیہ اشاعت میں ایک کالم چھپا ہے جس میں کالم نگار نے لکھا ہے’’ مسلمانوں میںدہشت گردی نہ تو پہلے اور نہ ہی اب اسلام کو فروغ دینے کاذریعہ ہے۔ اس کے پیچھےہمیشہ علاقائی حقوق ہتھیانا، قدرتی اور معاشی وسائل کی چوری اور بین الاقوامی مالی پالیسیوں کا عمل دخل رہا ہے ، جس کے نتیجہ میں ملکوں کے اندر مسلمان عوام غربت اور بدحالی میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں۔ ‘‘

حضورِ انور نے فرمایا کہ اِن الفاظ میںنام نہاد مسلمانوں کی دہشت گردی کے پیچھے کار فرما حقیقت کی بالکل صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، ایک قومی اخبار میں لکھتے ہوئے صحافی، پیٹر اوسبورن ، ایک ایسی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیںجس سے اختلاف کرنامشکل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ خاصی بڑی تعداد میں مسلمان ، مغربی خفیہ اداروں کی مداخلت کے نتیجہ میں انتہا پسندی کا رحجان پیدا کرتے جا رہے ہیں۔ اگر سب نہیں تو اُن میں سے بڑی تعداد اُس طرف جھکاؤ اختیار کر رہی ہے۔اس سلسلے میں یہ صحافی، ایک برطانوی خفیہ ادارے کے سابق افسر کے بیان کا حوالہ دیتا ہے جس نے کہا کہ ’’یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک جانب تو داخلی پولیس سروس اپنی تمامتر قوت سے ہمارے معاشرہ کی حفاظت کے لئے دہشت گردی سے لڑ رہی ہے ، جبکہ دوسری جانب ہماری اور امریکہ کی دفاعی ایجینسیوں کے بعض عناصرجہادیوں کی تربیت کرتے اور اُن کو اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں اور ان کی بعض دہشت انگیز سرگرمیوں میں تعاون کرتےرہے ہیں۔

علاوہ ازیں ، دی بوسٹن گلوب میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کولمبیا یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ کے ڈائریکٹر،پروفیسر Jeffry Sachs ،تحریر کرتے ہیں ’’متعدد مواقع پر سی آئی اے نے مشرقِ وسطیٰ کی حکومتوں کا استحکام درہم برہم کیا ہےاور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال میں امریکہ کا جو کردار رہا ہے اُس سے ذرائع ابلاغ کے اجارہ داروں نے صرفِ نظر کیا ہے۔ ‘‘
پروفیسرSachs تنازعات کے باہمی تعاون سے مل جل کر ان کے حل نکالنے کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں ’’امریکہ کو فوری طور پر مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی ختم کردینی چاہئے ،اور قوموں کاتحفظ اور تنازعات کاحل اقوامِ متحدہ کے اثر و رسوخ کےذریعہ طے کرنےچاہئیں۔‘‘

حضورِ انور نے فرمایا کہ غیر مسلموں کے لکھے ہوئے بھی بہت سے کالم حالیہ زمانہ میں شائع ہوئے ہیں جو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ داعش جیسے گروہ بیرونی امداد کے بغیر پنپ نہیں سکتے تھے۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ دخل اندازی کرنا ہمیشہ ہی غلط ہوتا ہےمگر ہر قدم منصفانہ اور برمحل ہونا چاہئے اور ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال دینا چاہئے۔

قرآن پاک کی سورہ نمبر 49۔ الحجرات آیت نمبر 10میں فرمان ہے کہ کسی بھی مداخلت کا مقصد ہمیشہ امن کا پائیدار قیام ہونا چاہئے اور مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں سےبھی انصاف کریں۔لہٰذا ، جہاں اسلام نے ، آخری حربے کے طور پر ابتدائی زمانہ کے مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت دی تھی ، وہاں انہیں یہ حکم بھی دیا تھا کہ جب امن قائم ہوجائے تو انصاف کے تقاضوں کو قائم رکھیں اور کبھی بھی ذاتی فائدہ کی طرف نہ جھکیں یا حد سے ہرگزآگےنہ بڑھیں۔

اسلامی تعلیم کی روشنی میں حضورِ انور نے فرمایا کہ یقیناً ، یہ بنیادی اورجامع رہنمااُصول آج بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کےلئے اُسی طرح فائدہ مند ہے کہ جہاں ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکنے کے لئے سختی کی ضرورت ہو ، تو وہاں طاقت کا استعمال جائز ہے لیکن اس موقع پر بدلہ لینے یا محکوموں کا مال لُوٹنے کی نیت شامل نہ ہو۔جب ایک مرتبہ ظالم امن کی طرف لوٹ آئے تواسلامی تعلیم یہ ہے کہ اُن کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی طور پر ان کے حالات سےکسی قسم کا فائدہ اُٹھانےکی اجازت ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو امن کے ساتھ باہم جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی اور ہمیشہ دوسروں کے بالمقابل اپنے حقوق کی قربانی دی۔بہت سے غیر مسلم مصنفین اور مفکرین ، جنہوں نے بنظرِ غور اسلام کا مطالعہ کیا ہے ، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے قوموں کو متحد کیا اور مذہبی آزادی کا عَلَم بلند کیا۔مثال کے طور پر ، آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سینئر ریسرچ فیلو، Peter Francopan، نے اپنی تصنیف ؛ The Silk Roadsمیں نبیٔ کریم ﷺ کا ذکر کیا ہے۔اس میں مصنف نے بیان کیا ہے کہ کیسے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے مختلف عقائد کے لوگوں میں یک جہتی اور باہمی گفت وشنید کو فروغ دیااوراس وقت کے عیسائی اور یہودی گروہوں سےمل جل کر کام کیا۔
وہ اُس وقت کے مذہبی گروہوں کے مابین مشترک اقدار کا ذکر کرتے ہوئےبیان کرتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات صلح پسندی پر مشتمل تھیں۔ایک موقع پر مصنف اس زمانہ کا ذکر کرتا ہے جب رسول اللہ ﷺ شہرِ مدینہ کے نظام کی قیادت پر متعین تھے۔ وہ لکھتےہیں

’’شہر (مدینہ) کے یہودی قائدین نے (حضرت) محمد(ﷺ)سے باہمی دفاع کے بدلے میں مدد کا معاہدہ کیا۔ اس کا اقرار ایک تحریری دستاویز میں درج کیا گیا جس میں تحریر تھا کہ مسلمان اب اور آئندہ اُن کے عقیدہ اور ان کی ملکیتوں کا احترام کریں گے۔‘‘

آگے وہ مزید لکھتےہیں

’’جیسے جیسے مسلمانوں کی طاقت بڑھی تو، (حضرت) محمد(ﷺ)اور ان کے اصحاب نے اپنی کوششوں میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو ہر قسم کے خوف سے آزادی حاصل رہے‘‘
حضورِ انور نے مزید فرمایا کہ ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام نےہمیشہ نہایت شدت کے ساتھ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مخالفت کی ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مَیں اِس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بعض مسلمانوں کے شر انگیز اقدامات نے معاشرہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے، مگرمیں یہ نہیں مانتا کہ آج کی دنیا میں موجود انتشار کے ذمہ دار صرف مسلمان ہی ہیں۔ بہت سے مبصرین اور نقاداب کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ بعض مخصوص غیر مسلم طاقتیں اور گروہ بھی امن کو تلف کرنے اورمعاشرتی یک جہتی کو ٹھیس پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اتنا کہنا کافی ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے لوگ اس سوچ کو اپنے ذہنوں سے نکال دیں کہ تمام دنیا کے مسائل کےذمہ دار صرف مسلمان ہی ہیں۔

مزید برآں ہم اب اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کو چاہئےکہ بجائےاپنی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی ترقی کو فوقیت دینے کے، وہ دنیا میں قیامِ امن اور انسانیت کی بھلائی کو ترجیح دیں۔

حضورِ انور نے پُر شوکت الفاظ میں فرمایا کہ اب دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے۔
حاضرین کو مخاطب کرتےہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک وسیع تر بین الاقوامی تناظر میں ، ہمیں اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ طاقت کے استعمال سے شاذہی کوئی پائیدارفائدہ ممکن ہوسکتا ہے۔چنانچہ شمالی کوریا، ایران ، یا کسی اور ملک سے واسطہ پڑنے پر بڑی طاقتوں کو چاہئے کہ احتیاط اور حکمت سے کام لیں اور کوشش کریں کہ ہر ایک کے تحفظات پر مفاہمت کی روح سےغور کیاجائے۔ جیسا کہ ایک کالم نگار جن کا مَیں ذکر کر آیا ہوں اُنہوں نے یہ بھی کہاکہ عالمی طاقتوں کو سفارتی ذرائع کو استعمال کر کے باہمی اُلجھنوں سے بڑھتے ہوئے دباؤکو کم کرنے کو فوقیت دینی چاہئے۔اُنہیں امن کے حصول کے لئے ایسےمذاکرات اور معاہدے کرنے چاہئیںجو ایک فریق کی جانب جھکاؤ نہ رکھتے ہوںبلکہ جو تمام فریقوں کے مسائل کوحل کریں۔ علاوہ ازیں جب امن قائم ہوجائے تو ہمیں گزشتہ دشمنیوں یانفرتوںکو بھلا کر ، ایک دوسرے کے جذبات کے احترام اور عزت نفس قائم رکھتے ہوئے آگے قدم بڑھانے چاہئیں۔

حضور انور نے فرمایا یہ میرا پختہ ایمان اور یقین ہے کہ بنی نوع انسان کی تاریخ میںدر گزر ، ظلم برداشت کرکے نیکی اور رحم کا عظیم ترین نمونہ ،بانیٔ اسلام ، محمد مصطفےٰ ﷺ کا ہے۔تیرہ سال تک آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کوایسے دردناک مظالم کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کا تصور بھی محال ہے۔اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالا گیا اور زبردستی مکّہ کے شہر سے ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کیا گیا۔ جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں۔ دہکتے ہوئے کوئلوں پر لمبے وقتوں کے لئے لٹا کر عذاب دیا جاتا تھا۔ او ر شدید ترین معاشرتی بدحالی کا شکار بنایا گیا۔ مسلمان خواتین کی ٹانگیں دو اونٹوں سے باندھ دی جاتی تھیں اور پھر اِن اونٹوں کو مخالف سمتوں میں دوڑایا جاتا تھا۔ اس بہیمانہ طریق سے اُن کے جسم چیر دئیےجاتے تھے۔ پھر بھی جب محمد رسول اللہ ﷺ فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے ، تو آپ نے بدلے میں خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں آپﷺ نے یہ فرمان جاری فرمایا کہ تمام مخالفین کو معاف کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ شدیدمظالم ڈھانے والے اور اسلام کی دُشمنی کرنے والے لوگ تھے۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلامی قانون کے تحت ، تمام لوگوں کو اپنے مذہب اور عقیدہ پر بغیر کسی مداخلت یا خوف کےعمل کرنے کی آزادی ہوگی۔صرف ایک شرط لازم تھی اور وہ یہ تھی کہ ہر شخص کو معاشرہ میں امن کے ساتھ رہنا ہوگا۔

آپﷺ نے ہدایت دی کہ بلا تفریق ِرنگ و نسل، تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جائے ا ور بہر صورت ہر فرد کی عزت برقرار رکھی جائے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا رہتی دُنیا کے لئےعظیم الشان مثالی نمونہ ہے۔ یہ عفو و درگزر اور انسانیت کے لئے رحم ایسا ہے جسے ہر مسلمان اور غیر مسلم کو آج کی دُنیا میںاختیار کرنا چاہئے۔یہ عفو اور نیک سُلوک کرنے کی وہ روح ہے جسے تمام قوموں کو، چاہے وہ چھوٹی ہوں یا بڑی، امیر ہوں یا غریب اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے تبھی پائدار امن کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

آخر پرحضورِ انور نے فرمایا کہ مَیں دل کی گہرائیوں سے یہ دعا کرتا ہوں کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے پر عائد ہونے والے فرائض کو پہچاننے لگیں ، تاکہ ہمارے بعد میں آنے والے ہمیں فخر اور شکر گزاری کے جذبے سے یاد رکھیں۔ آئیے آنے والے کل کی جانب دیکھتے ہیں نہ کہ محض آج کی جانب۔ آئیے ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو بچائیں۔ اللہ ہمیں دانشمندی، فہم، حکمت اوردانائی عطا فرمائے۔

آخر میں حضور انور نے حاضرین کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایامیں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ سب ہمارے ساتھ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘‘

تقریب کے آخر میں حضور انور نے دعا کروائی جس میں حاضرین نے اپنے اپنے طریق سے شرکت کی۔

بعدازاں تمام حاضرین نے عشائیہ میں شرکت کی۔ اس کے بعد بہت سے مہمانوں نے حضورانور سے فرداً فرداً مل کر سمپوزیم کے متعلق اپنے نیک جذبات کا اظہار کیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button