یادِ رفتگاں

چوہدری محمد علی صاحب مضطرؔ (مرحوم)

(آصف محمود باسط)

یہ 1990 ءکی بات ہے۔ میں ربوہ میں نووارد تھا۔ کراچی سے میٹرک کر کے ربوہ پہنچا تھا۔ اس سے پہلے ربوہ میں میرا قیام پیدائش کے چند ماہ بعد سے لے کر سات سال کی عمر تک رہا تھا۔ اس کے بعد ہم والدِ محترم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب کے ساتھ زیمبیا چلے گئے۔ 1987 میں واپسی ہوئی تو مجھے کراچی میں رکنا پڑا۔ والد اور والدہ ربوہ میں مقیم رہے۔ میٹرک کیا اور کالج میں داخلہ لینے کے لئے ربوہ آگیا۔ اگرچہ بچپن کا ابتدائی حصہ ربوہ میں گزرا تھا اور ربوہ کی بہت سی حسین یادیں اس دور کی بھی تازہ تھیں، مگر ہوش کی حالت میں ربوہ سے ملاقات کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ہر شہر کی طرح ربوہ کی بھی ایک اپنی شخصیت تھی جو ہر نو وارد کو فوراً کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ربوہ میں خلافت کے ہجرت کر جانے کے زخم ابھی تازہ ہی تھے۔ اور اس زخم کی جلن ربوہ کی شخصیت کا ایک حصہ تھی۔مسجد مبارک میں خاص اہتمام سے نمازِ مغرب کے لئے بالخصوص دور نزدیک سے جمع ہونے والوں کے ہجوم اس زخم کا پتہ دیتے تھے، اور ’’تُوں نئیں تے تیریاں یاداں سہی‘‘کی کیفیت کےمظہر تھے۔ ربوہ کی گلیوں میں کئی احساسات تھے جو دھڑکتے تھے۔جدائی کا احساس، ہجر کا کرب، وصل کی امید ۔مجھ نووارد کا جس ربوہ نے استقبال کیا وہ ان احساسات سے معمور تھا۔انہی دنوں روزنامہ الفضل ربوہ میں ایک غزل شائع ہوئی۔ اس کے مطلع نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔

کس کی یاد آگئی ناگہاں شہر میں

رُک گئے کرب کے کارواں شہر میں

یہ تو بعینہٖ اس کیفیت کی عکاسی تھی جس کیفیت کو میں ربوہ کے نام سے جاننے لگا تھا۔ کرب کے کارواں ربوہ کے گلی کوچوں میں واقعۃً ایسے ہی رقص کرتے تھے۔اس شعر نے دل کو بہت زور سے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ادب میں سماجی کیفیات کے اظہار کو دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اور شاید اسی دن سے ادب کی یہ اہمیت دل میں راسخ بھی ہو گئی۔ جیسے عجلت کے مارے لوگ ناول شروع کر تے ساتھ ہی آخر پر جاکر دیکھ لیتے ہیں کہ مرکزی کردار زندہ رہا یا مر گیا، میں نے بھی اسی عجلت سے باقی تمام اشعار کو چھوڑ کر آخر پر شاعر کا نام دیکھا۔ ’’چوہدری محمد علی ‘‘۔ میں انہیں نہیں جانتا تھا۔ میں تب ویسے بھی کم ہی کسی شاعر کو جانتا تھا۔خیر! ناواقفیت کے باعث میرے لئے یہ نام بے معنی ٹھہرا۔ مگر شعر کے اندر زندگی کی ایسی رمق میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔شعرو ادب سے واقفیت یوں بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ تھی تو بس اس قدر کہ جب زیمبیا روانہ ہوئے تو میری والدہ نے پاکستان کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو کی نصابی کتب رکھ لیں، جن سے وہ مجھے اردو لکھنا پڑھنا سکھاتیں۔ زیمبیا میں قیام کے پانچ سالوں میں سے پہلے سال دو سال ہی میں یہ کتب میں کئی مرتبہ پڑھ بھی چکا تھا اور املاء وغیرہ کے سلسلہ میں لکھ بھی چکا تھا۔ کتابیں اَزبر ہونے کے ساتھ ساتھ غیردلچسپ بھی ہوچکی تھیں۔ لہٰذا والد صاحب کو یہ طریقہ سوجھا (اللہ انہیں بہت جزا دے) کہ روزنامہ الفضل جو باقاعدگی سے مشن ہاؤس میں آتا ہی تھا، اس سے اردو پڑھنے اور لکھنے کی مشق کی جائے۔تو اردو ادب سے پہلے تعارف کا ذریعہ الفضل بنا۔ اس سے پہلے پانچویں جماعت تک کی کتب میں مضامین یا منظوم کلام جس سطح کے ہوتے ہیں وہ سبھی جانتے ہیں۔ سو الفضل نے ایک انجانی دنیا کا دروازہ کھولا اور وہ دنیا تھی جماعت احمدیہ کا دبستان۔شاعری والد صاحب اسی سے پڑھاتے بھی اور لکھواتے بھی، مگر اس کی گہرائی سے واقفیت کم عمری کے باعث کم کم ہی ہو پائی۔ مگر اس روز الفضل میں یہ جو شعر پڑھا، اور جو زور سے دل کو لگا، اس میں اس بنیاد کا ضرورایک اہم کردار تھا۔
خیر، میں نے شاعر کے نام کو نظر انداز کیا اور اگلے اشعار پڑھنے لگا۔ اب آپ بھی میرے ساتھ ہجر زدہ ربوہ کی سردیوں کی ایک دوپہر کی نرم گرم دھوپ میں بیٹھ کر اگلے اشعار ملاحظہ فرمائیں

لے گیا اپنے ہمراہ سب رونقیں

وہ جو تھا اک حسیں نوجواں شہر میں

وہ جہاں بھی رہے مسکراتا رہے

کہہ رہے ہیں یہ خالی مکاں شہر میں

شہر کا ناز تو شہر سے جا چکا

کس لئے آئے ہو اب میاں! شہر میں

آخری شعر پرتو واقعی میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔یوں لگا کہ شعر کا مخاطب میں ہوں جو اس ہجرت زدہ شہر میں منہ اٹھا کر چلا آیا ہوں۔ دل پر ایک عجیب اداسی کی کیفیت غالب آگئی۔ ان دنوں میں مسجد مبارک میں مغرب کی نماز باقاعدگی سے ادا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ شام ڈھلے مغرب کی نماز کے لئے مسجد مبارک پہنچا تو نماز سے پہلے صف میں قبلہ رُو کھڑے ہوئے باہر قصرِ خلافت پر نظر پڑی۔ اس روز پڑھا ہوا وہ شعر کسی عفریت کی طرح میرے ذہن پر سوار ہو گیا۔

وہ جہاں بھی رہے مسکراتا رہے

کہہ رہے ہیں یہ خالی مکاں شہر میں

یہ خالی مکان تو جانے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔مکان یہ تو کہہ ہی رہا تھا کہ وہ جہاں بھی رہے مسکراتا رہے، مگر ساتھ ساتھ جانے والے سے گویا یہ سوال بھی کررہا تھا کہ اب میں کبھی مسکراؤں گا بھی کہ نہیں؟ ساتھ ربوہ کی ڈھلتی ہوئی شام اور کہیں دُور چکّی کے کُوکنے کی آواز بھی شامل کر لیں، تو آپ اس اداس کیفیت کو شاید سمجھ سکیں۔

الفضل ہمارے یہاں روزانہ آتا تھا اور روزانہ اسے پڑھنے کا اہتمام بھی ہمیشہ نظر آیا۔ ایک تو گھر میں یہ رحجان تھا جس نے مجھے بھی الفضل کا باقاعدہ قاری بنا دیا اور ایک سبب یہ بھی شاید ہو کہ اس دور میں وقت گزارنے (یا ضائع کرنے) کے ذرائع کی اس قدر بہتات نہ تھی جو آج ہماری نوجوان نسل کو میسر ہے۔ پھر ربوہ کی گرمیوں کی طویل، نہ ختم ہونے والی دوپہروں میں ایسا نوجوان جو کراچی جیسے سبک رفتار شہر سے آیا ہو، اسے نیند کا نہ آنا کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ سو الفضل ان صحرابدوش دوپہروں کا ساتھی بن گیا ۔ اب یہ تھا کہ الفضل کھول کر سب سے پہلے صفحہ نمبر 2 پر جاکر وہاں چھپی ہوئی غزل یا نظم پڑھی جائے۔ مصلح الدین راجیکی، روشن دین تنویر، خواجہ ظہورالدین اکمل، مختار شاہجہان پوری، سلیم شاہجہان پوری، عبدالمنان ناہید، میر اللہ بخش تسنیم، عبیداللہ علیم اور ایسے ہی بہت سے نابغہ روزگار شعرا سے بنیادی تعارف الفضل کے اسی دوسرے صفحہ سے حاصل ہوا۔ کسی شاعر کے تصور کے ساتھ ربوہ کے موسمِ گرما کی طویل دوپہر منسلک ہو کر رہ گئی، کسی کے ساتھ گرما علی الصبح کا وقت جب صحن میں بچھی چارپائیوں پر دھوپ آنے میں ابھی کچھ وقت ہوتا وابستہ ہو گیا، کسی کے ساتھ ربوہ کی موسمِ سرما کی نرم ملائم دھوپ کا تصور جڑ گیا اور کسی کے ساتھ ربوہ کی رات کا وہ پہر چپک کر رہ گیا جب بجلی چلے جانے کے باعث لالٹین جل رہی ہوتی۔ مگر ایک نام جس کے ساتھ ربوہ کا ہر پہر چسپاں ہو گیا اور آج تک چسپاں ہے، وہ نام تھا چوہدری محمد علی مضطر۔

اب شعر کی جو کچھ سمجھ بوجھ حاصل ہو گئی، تو اس اجنبی کے کلام کا اور بھی لطف آنے لگا۔ کسی بھی وقت پڑھ لو، کہیں بھی پڑھ لو، کسی بھی پہر میں پڑھ لو، یہ کلام یکساں لطف دیتا اور کبھی کوئی شعر غیر ضروری نہ لگتا۔ ہر شعر اپنے اندر شعریت اور تغزل کا بھرپور جہاں لئے ہوئے ہوتا۔

ایک روز مجھے اس اجنبی شاعر نے چونکا دیا۔ ایک غزل شائع ہوئی اور ہر شعر ایسا جیسے سانس لیتا ہو۔ جیسے زندہ ہو۔ جیسے کسی نے اس میں زندگی کی روح پھونک دی ہو۔ پھر پڑھنے والے کی عمر نوجوانی کی اس منزل پر ہو جہاں تخیلات کے سائے اس کے ذہن کے قرطاس پر عجیب نقش ونگار بناتے ہوں، ایسے میں اس نوجوان کو ان اشعار نے کس طرح وارفتگی کا شکار کیا ہوگا، آپ خودان مصرعوں اور اشعار کو پڑھ کر اندازہ کر لیں۔ آغاز ہی کیسا تخیلاتی ہے

’تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا‘

اور پھر یہ کہ

کھٹکھٹانے پر بھی وا نہ دل کا دروازہ کیا

ہم نے ہر حالت میں اپنے آپ سے پردہ کیا

لوگ دیواروں کے رستے انجمن میں آ گئے

خود بھی رسوا ہو گئے اوروں کو بھی رسوا کیا

پھر اس نوجوانی کی عمر میں جہاں دین اوردنیا کے خطوط ایک دوسرے کو کاٹتے بناتے گزرتے ہوں، وہاں یہ شعر کیسا دل میں اترا ہوگا

تیری دنیا دائرہ در دائرہ در دائرہ

دائروں کے دیس میں ہم نے سفر تنہا کیا

یہ شعر اس عمر میں سمجھ میں نہ آیا مگر ایسا پسند آیا کہ دل میں گھر کر گیا کہ

رات کو شیشہ دکھا کر شہر کی تصویر لی

دور تک کھڑکی کے رستے چاند کا پیچھا کیا

اور یہ شعر تب بھی بہت بڑا شعر معلوم ہوا مگر آج تو اور بھی عظیم لگتا ہے کہ
تم تو اک پتھر گرا کر مسکرا کر چل دئیے

وقت کا ویران سینہ دیر تک گونجا کیا

جب اگلے شعر پر پہنچا تو دل اداس ہو کر رہ گیا۔ کیسی کربناک تنہائی میں لکھا گیا ہو گا یہ شعر:

آہٹیں درّانہ در آئیں سسکتی ہانپتی

میں نے جب ویران کمرے میں ترا چرچا کیا

اس شعر کو پڑھ کر میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ یہ آدمی، جس کا نام چوہدری محمد علی مضطر ہے، اب میرے لئے اجنبی نہیں۔ میں اسے جانتا تو نہیں مگر جاننا چاہتا ضرورہوں۔سو میں اس آدمی کی کھوج میں نکل کھڑا ہوا۔

جیسا کہ ذکر ہوا، مَیں ان دنوں ربوہ میں نو وارد تھا۔ ربوہ کی ہر چیز مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس شہر کی ہر ادا نرالی اور دلربا تھی۔ میں نےاتنی بڑی تعداد میں بزرگوں کو ایک ہی شہر میں رہتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ کہیں حضرت مسیح موعود ؑ کے پوتے ہیں، کوئی آپ ؑ کا نواسہ ہے، کوئی آپ ؑ کے خاندان کا بچہ ہے، کہیں کوئی صحابی ہے۔ کہیں نذیر احمد مبشر صاحب جیسا دعاگو انسان جو ساری عمر عجیب و غریب حالات میں افریقہ میں تبلیغِ اسلام کر کے آیا ہے۔ دوست محمد شاہد نامی ایک بزرگ ہیں جو جماعت احمدیہ کی تاریخ مرتب کررہے ہیں۔ احمد علی شاہ صاحب جیسا بزرگ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اپنی تقریر سے مسجد کے در و دیوار ہلا دیتا ہے۔ مجھے یہ سب عجیب و غریب دنیا کے باسی لگتے۔ میں اپنے والد صاحب سے ان بزرگوں کے بارہ میں پوچھتا رہتا، وہ مجھے بتاتے رہتے۔ کچھ زیادہ تعارف حاصل ہو جاتا تو انہیں ملنے چلا جاتا اور خود پر فخر کرتا کہ ایک باکمال آدمی سے ملنے کی سعادت حاصل ہو گئی۔

سو چوہدری محمد علی صاحب کے بارہ میں بھی معلوم کرنا چاہا کہ یہ کہاں کے رہنے والے ہیں۔ پتہ چلا کہ ربوہ ہی میں رہتے ہیں۔ کہاں رہتے ہیں؟ جواب ملا کہ دارالصدر میں جو ایک بڑی سی لال کوٹھی ہے، جو حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی کوٹھی کہلاتی ہے، اس میں کہیں رہتے ہیں۔یہ سوال میں نے گرمیوں کی ایک دوپہر میں پوچھا تھا۔ میں نے قصد کر لیا کہ میں ان سے ضرور ملوں گا اور آج ہی ملوں گا۔مگر اس روز دوپہر ڈھلنے ہی میں نہ آتی تھی۔ ذرا سورج شام کی طرف چلنے لگا تو میں نے اپنا سائیکل اٹھایا اور اس کوٹھی کے گیٹ پر جا موجود ہوا۔

بڑا سا سلیٹی رنگ کا گیٹ ایسے بند تھا جیسے کبھی کھلا ہی نہ ہو۔ اس پر کچھ ایسا کنڈا وغیرہ بھی نہیں تھا جو ربوہ میں عام طور پر گھروں کے بیرونی دروازوں پر لٹکا ہوتا ہے۔ ہاتھ زور زور سے مار کر دستک دی مگر اتنی بڑی کوٹھی میں آواز کسی کو نہ گئی۔بلکہ اس دستک کو شاید میرے علاوہ کسی نے سناہی نہ ہوگا۔پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ جس آدمی نے یہ لکھا ہے کہ کھٹکھٹانے پر بھی وا نہ دل کا دروازہ کیا، وہ اپنے گھر کا دروازہ بھی مجھ پر وا نہ کرےگا۔لیکن میں نے بھی ضد پکڑ لی۔ گیٹ کو کھولا تو گیٹ بڑے آرام سے کھل گیا۔ سامنے کے بارآمدوں میں دھوپ میں نہائے پودے ابھی سستا نے لگے ہی تھے۔ ان کے علاوہ وہاں کوئی نہ تھا۔ برآمدے میں دروازے اور کھڑکیاں مقفل تھیں اور ایسے مقفل تھیں جیسے بقول فیض کہہ رہی ہوں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔میں ٹہلتا ہوا کوٹھی کے عقب میں جا نکلا۔ یہاں ایک دروازے میں کچھ زندگی کی رمق نظر آئی۔ جیسے یہاں سے کوئی آتا جاتا ہو۔ میں نے اس دروازہ پر دستک دی۔ ساتھ ہی آواز آئی’’کون؟؟‘‘ آواز میں ایک عجیب کڑک تھی۔ مجھے لگا کہ میں نے کسی ویران کمرے میں عجیب آہٹوں کا چرچا کر دیا ہے۔ کسی کی تنہائی میں مخل ہونے کا احساس ہوا۔ کچھ یہ خوف اور کچھ یہ کہ مجھے’’چوہدری محمد علی‘‘ کسی شاعر کا کم اور کسی وڈیرے کا نام زیادہ لگتا تھا۔ دل تو چاہا کہ بھاگ کھڑا ہوں۔ مگر عجیب بے تمیزی لگے گی اور یہ کہ دروازہ کھٹکھٹا کر بھاگ کھڑے ہونے والے بچوں کی تو خوب شامت بھی آیا کرتی ہے۔ پھر آواز آئی ’’کون؟؟‘‘ اب آواز نسبتاً زیادہ قریب تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا کہوں۔ نام بتاؤں؟ مگر انہیں میرا کیا پتہ۔ خیر ڈرتے ڈرتے جواب دیا ’’چوہدری صاحب کو ملنا ہے‘‘۔ اب جو جواب آیا وہ بہت ہی محبت میں ڈوبا ہوا تھا۔’’آجاؤ آجاؤ، دروازہ کھلا ای اے‘‘ (پنجابی کی لطافت میں گندھا ہوا جملہ)۔

دروازہ کھولا تو سامنے سیڑھیاں تھیں اور اوپر ایک بزرگ آدمی ہاتھ میں کوئی کتاب اور اپنی عینک لئے، تہمد باندھے کھڑے تھے۔ انہوں نے سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے پوچھنا شروع کر دیا کہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ خیریت ہے؟میں نے اپنا نام بتایا، اپنے والد صاحب کے نام سے تعارف کروایا تو یہ بزرگ قادیان کی گلیوں میں جا نکلے۔اپنےکشادہ سینہ سے لگایا اور بتانے لگے کہ ’’آپ کے دادا جان کی تو مسجد مبارک کے بالکل ساتھ ہی دوکان ہوا کرتی تھی‘‘۔ اپنے کمرے میں لے گئے۔ بڑی محبت سے بیٹھنے کے لئے کہا۔ پھر کہا کہ وہ سامنے فریج ہے، جو جی چاہیں وہاں سے خود لے لیں، تکلف نہیں کرنا۔ مگر میں نے حکم عدولی کرتے ہوئے تکلف کیا اور کہا کہ مجھے کچھ نہیں کھانا، بس آپ سے ملنا ہی تھا۔ مگر انہوں نے خود اٹھ کر ایک سیب نکالا ، اسے چھیلا اور طشتری میں رکھ کر میرے سامنے رکھ دیا۔مجھے اس سیب سے کچھ غرض نہیں تھی۔ میں ان کے اشعار کی تعریف کرنا چاہتا تھا، مگر اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا تعریف کروں۔ چھوٹا منہ بڑی بات ۔ بس اتنا کہا کہ آپ کے شعر پڑھ کر بہت مزہ آتا ہے۔میں نے انہیں بتایا کہ سبھی شعر بہت اچھے لگتے ہیں مگر آج آپ کے یہ شعرپڑھے ہیں۔ ہر مصرعہ دامن پکڑ لیتا ہے۔ کہنے لگے مثلاً؟میں نے کہا مثلاً یہ کہ

آہٹیں درّانہ در آئیں سسکتی ہانپتی،

میں نے جب ویران کمرے میں ترا چرچا کیا

محترم چوہدری صاحب پر رقّت طاری ہو ئی۔ ان کی ٹھوڑی کپکپانے لگی۔ میں سخت گھبرا گیا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ چوہدری صاحب ہیں ہی نہیں اوراب انہیں یہ بتانا نہیں آرہا۔ یا انہیں یہ صدمہ پہنچا ہے کہ یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ گلی محلہ کےلونڈے میرے شعروں پر تبصرے کرتے پھریں۔مگر یہ رقت بہت جلد دور ہوگئی اور چوہدری صاحب بہت محبت سے گفتگو کرنے لگے۔ یہ تو بعد میں (مگر بہت جلد)معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب نہایت رقیق القلب ہیں اور رقت کی یہ کیفیت ان پر کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ بالکل جیسے آہٹیں چوہدری صاحب کے کمرے میں درانہ در آتی ہیں، اسی طرح یہ کیفیت بھی چوہدری صاحب کے دل پر درانہ در آتی ہے اور کسی بھی وقت آجاتی ہے۔

خیر، اس روز ملاقات بہت ہی دلچسپ رہی۔ چوہدری صاحب نے میری تعلیم کے بارہ میں پوچھا۔ ٹی آئی کالج کے نام پر پھر رقت کا غلبہ ہوا۔ فلسفہ کے مضمون کے نام پر بھی چوہدری صاحب آب دیدہ ہو گئےکہ یہ ان کا مضمون تھا۔ پھر ٹی آئی کالج کی بات ہو اور چوہدری صاحب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؒ کا ذکر نہ کریں، یہ تو ممکن ہی نہیں تھا۔ اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کا ذکرہو اور چوہدری صاحب کو رقت نہ آجائے، یہ بھی ممکن نہیں تھا۔ سو اس روز میں چوہدری صاحب کے یہاں کیا گیا،بقولِ غالب، گویا دبستاں کھل گیا۔ چوہدری صاحب تو اپنی ذات میں ایک ادارہ نکلے۔ پھر چوہدری صاحب کے کمرے بلکہ پورے مکان کے درودیوار پر تنہائی کی گھنی بیل چڑھی ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ ملاقاتیں بڑھیں تو معلوم ہوا کہ جیسے گھر کی بیرونی دیواروں پر چڑھی ہوئی بیل بعض اوقات کسی درز سے گھر کے اندر بھی آنکلتی ہے، اسی طرح کمرے اور گھر کے در ودیوار پر لپٹی یہ بیل چوہدری صاحب کے اندر سرایت کر چکی تھی اور اندر بھی اتنی ہی گھنی تھی۔کمرہ میں چوہدری صاحب تھے، کتابیں تھیں، ایک چھوٹا سا ٹی وی تھا، چھوٹا سا فریج تھا۔ ان چیزوں کے علاوہ جس چیز نے اس کمرے میں سب سے زیادہ جگہ گھیر رکھی تھی، وہ وہ تنہائی تھی جو کمرہ میں بال کھولے پڑی تھی اور بَین کرتی تھی۔

اُس روز کے بعد سے چوہدری صاحب میرے لئے اجنبی نہ رہے۔ کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات تمام اجنبیت کے احساس کو مٹا دیتی اور اُنس کو جنم دےدیتی ہے۔ آپ نہ صرف دیر تک ایسے آدمی کے پاس بیٹھے رہنا چاہتے ہیں بلکہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ آپ انہیں بہت دیر سے جانتے ہیں۔ اس پہلی ملاقات کے بعد چوہدری صاحب میرے ذہن میں اکیلے نقش نہیں ہوئے، بلکہ ان کے ساتھ ان کی تنہائی بھی نقش ہو کر رہ گئی۔ آج بھی، یعنی ستائیس برس کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی چوہدری صاحب میرے ذہن میں ایک دوئی کے طور پر نقش ہیں۔

اس ایک ملاقات کے بعد مجھے چوہدری صاحب کے مجموعہ کلام کی جستجو ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اس درویش کا کوئی مجموعہ نہیں۔ جو لکھا ہے وہ جہاں تہاں بکھرا پڑا ہے۔ مگر کالج کے اوقات کے بعد (بلکہ کالج کے اوقات کے دوران بھی) خلافت لائبریری جا نکلنا میرا پسندیدہ مشغلہ تو تھا ہی۔ سو ایسے اوقات میں پرانے الفضل وغیرہ سے چوہدری صاحب کے کلام کو تلاش کیا کرتا اور پڑھا کرتا۔ میں چاہوں تو بھی محترم سلطان صاحب ، محترم حبیب الرحمن زیروی صاحب اور برادرم محترم صادق صاحب کے اس احسان کو نہیں بھلا سکتا کہ انہوں نے مجھے میری اس غیرذمہ دارانہ عمر میں بھی لائبریری کے تمام گوشوں میں رسائی دے رکھی تھی۔سو چوہدری صاحب کا کلام الفضل کے کئی سالوں پر بکھرے اوراق پریہاں وہاں ملتا رہا۔ یوں اس عظیم شاعر سے واقفیت بڑھتی گئی۔ اگرچہ یہ بزرگ شخص مجھے ہمیشہ مل بھی لیتا تھا، مگر اصل تعارف کا ذریعہ یہ شاعری ہی بنی۔

انہی دنوں میں ان کے نظم ’’تنہائی‘‘ نظر سے گزری۔ یہ نظم مجھے اس لال کوٹھی کے سنسان ویران برآمدوں اور غلام گردشوں میں لے گئی جہاں چوہدری صاحب فروکش تھے۔ مجھے وہ پہلی ملاقات کی روپہلی شام یاد آگئی۔ اس روز اگرچہ چوہدری صاحب نے کوئی کلام تو نہیں سنایا تھا، مگر زبان حال سے یہی نظم تھی جسے چوہدری صاحب جی رہے تھے۔ اُس دن ان کی آنکھوں میں یونہی تولگا تھا کہ جیسے

تنہائی میں جل اٹھے ہیں یادوں کے فانوس

اور جب آپ ٹی آئی کالج کے برآمدوں اور راہداریوں کا ذکر کر رہے تھے تو آپ نے یہی تو کیا تھا کہ

حال کے گلشن میں لا رکھا ماضی کا تابوت

اور جب آپ اپنے قبول احمدیت کا احوال اور حضرت مصلح موعود ؓ کا ذکر کر رہے تھے تو یہی کیفیت تو تھی کہ گویا

وقت کا سینا کھود رہے ہیں لمحوں کے مزدور

اور پھر یہ بھی تو ہوا تھا کہ آپ بولتے جاتے اور میرے دل میں آپ کی توقیر بڑھتی جاتی۔ توقیر اور محبت بڑھتے بڑھتے وہ وقت بھی تو اسی ملاقات میں آیا تھا کہ میرے اندر سے آواز آئی تھی کہ

لفظوں کے درویش کھڑے ہیں، اٹھ عزت سے مِل

مجھے آپ کی رقت کو دیکھ کر یوں بھی لگا تھا کہ جیسے:

دشت کے سینے میں برپا ہے تنہائی کا شور

اور جب میں باہر نکل رہا تھا تو یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں میں نے اس ٹھہرے ہوئے پانی میں یادوں کا طوفان برپا کر کے اس معصوم روح پر کوئی ظلم تو نہیں کر دیا۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس ملاقات میں

وقت کی نیلی جھیل میں اُٹّھا لمحوں کا طوفان

انسانوں سے آن ملے ’’ہیں‘‘ پھر واپس انسان

صحرا کے سینے میں جاگے آس کے نخلستان

دشت میں آندھی آئی، تنہائی ، تنہائی

یہ ملاقات جب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی تو عجیب حالت تھی۔ مجھے تو گویا تاریخ کی ایک کتاب مل گئی۔ احمدیہ دبستانِ شاعری کا نصاب مل گیا تھا۔ چوہدری صاحب پر کئی بار رقت آئی اور چلی جاتی رہی۔ اور پھر یوں ہوا کہ

خموش بیٹھے ہیں دونوں اجاڑ کمرے میں

نہ میزبان نہ کچھ میہمان بولتا ہے

میں نے اجازت چاہی اور دوبارہ حاضر ہونے کی اجازت لے کر اس تنہائی زدہ کمرہ سے نکل آیا۔
ایک روز کالج کے لئے نکلنے لگا تو دیکھا الفضل میں چوہدری صاحب کی غزل چھپی ہے۔ پہلے نہ پڑھی تھی۔ الفضل ساتھ کالج لے گیا۔ کالج میں وقفہ کے دوران کینٹین پر بیٹھ کر الفضل کھولا اور یہ غزل پڑھنے لگا۔ ہر شعر لطف دیتا رہا، مگر ایک شعر نے یوں چونکا دیا جیسے اچانک آپ کی آنکھوں کے سامنے حادثہ ہو جائے۔ شعر تھا کہ

حادثہ ہو جائے شہرِ ذات میں

اس ٹریفک میں ٹھہر جاؤں اگر

شعر نہ صرف بہت گہرا، بہت خوبصورت تھا بلکہ معنی کے انوکھے جہان لئے ہوئے تھا۔ پھرایک اور بات جس نے لطف دیا وہ یہ تھی کہ اس میں اردو زبان کی کم مائیگی کی طرف بھی اشارہ تھا۔ انگریزی میں تو ہر سال ایک ضخیم لغت شائع ہوتی ہے جس میں صرف وہ الفاظ شامل ہوتے ہیں جو اس سال کے دوران انگریزی کے دامن میں سمٹ آئے اور اس زبان کا حصہ بن گئے۔ اردو زبان کو ایسے محسن کم کم میسر آئےجو اس کی نشوونما کی فکر کرتے۔ یہ زبان آج زندہ ہے تو صرف اس لئے کہ اس زبان میں مسیح پاک ؑ نے بہت کچھ تحریر فرمادیا۔ ورنہ اس کے زندہ رہنے کےسب ذرائع خود اس زبان سے محبت کے دعویداروں نے مسدود کر دئیے ہیں۔ ٹریفک کے لفظ کا واقعی اردو میں کوئی مترادف نہیں۔ اورایسا عظیم حادثہ بے ہنگم ٹریفک ہی میں ہو سکتا تھا، سو چوہدری صاحب نے کر دکھایا۔ اس شعر سے چوہدری صاحب کا ایک اور شعر یاد آگیا:

میری قسمت کی لکیریں دیکھ کر کہنے لگا

یہ لکیریں مل گئیں تو حادثہ ہو جائے گا

یہ آدمی کیسے حادثوں میں سےگزرا ہوگا کہ ہر موڑ ہر چوک پر اسے حادثوں کے اندیشے گھیر لیتے ہیں۔ مجھے بڑا تجسس ہواکہ کبھی ان حوادث کا ذکر چوہدری صاحب خود ہی کر دیں۔ ان حوادث کا ذکر چوہدری صاحب نے متعدد ملاقاتوں میں گاہے گاہےکیا۔ کبھی ایک حادثہ، کبھی دوسرا، کبھی تیسرا بیان کرتے۔ مگر یہ حادثے کیا تھے۔ یہ سب آپ کےمحبوبوں کے بچھڑ جانے کے واقعات تھے۔

لڑکپن کا زمانہ تھا تو آپ کے بھائی کی جو آپ سے کچھ ہی چھوٹے تھے اور آپ سے بہت قریب تھے، ناگہانی طور پر وفات ہو گئی۔ چوہدری صاحب بتایا کرتے کہ اس صدمہ سے نکلتے نکلتے انہیں کئی ماہ لگ گئے۔ نہ سکول جانے کی ہوش، نہ کھانے پینے کی تمنا۔یہ بھائی گویا آپ کا ہمزاد تھا ۔انہوں نے زندگی کو اپنے اس پیارے بھائی کے بغیر کبھی تصور نہ کیا تھا۔ مگر جب دنیا اس کے بغیر آپ کے سامنے منہ کھولے کھڑی ہو گئی تو آپ کو اس سنگلاخ راستہ پر خود ہی قدم اٹھانا پڑا۔ زندگی کے تپتے صحرامیں چلتے ہوئے انسان کو جہاں دور کہیں رفاقت کے نخلستان نظر آتے ہیں، چوہدری صاحب کوہمیشہ ان کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ محض سراب تھے۔اور ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا۔ جس رفاقت کے سہارے انسان اپنی ذاتی زندگی کے روز و شب کو سہل بناتا ہے، وہ چوہدری صاحب کو کبھی میسر نہ آسکی۔چوہدری صاحب کا کمرہ ٹی آئی کالج کے احاطہ میں ہو،ہاسٹل سے متصل ہو، یا جماعت کے کسی کوارٹر میں ، یا بعد میں سر ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی میں، اس کمرہ میں آپ کو صرف تنہائی کی رفاقت نصیب ہو سکی۔

اٹھتے اٹھتے نقاب چہروں کے

ڈھل گئے آفتاب چہروں کے

بہت سی طویل ملاقاتوں میں بھی چوہدری صاحب اس ویران کنویں کے پاس سے گزارتے مگر کبھی آگے بڑھ کر نہ خود اس میں جھانکتے، نہ جھانکنے دیتے۔ ایسے مقامات پر چوہدری صاحب کی رقت ایک دیوار کا کام کرتی اور چوہدری صاحب تنہائی کے اس نگر کے پاس سے تیزی سے خود بھی گزر جاتے اوردوسرے کو بھی گزار دیتے۔ بقول فراز

کر گیا میرے تیرے قصہ میں

داستاں گو یہاں وہاں سے گریز

سو یہ جو شعر تھا کہ حادثہ ہوجائے شہر ذات میں، اس ٹریفک میں ٹھہر جاؤں اگر،تو چوہدری صاحب کو اس ٹریفک سے عملاً بچتے ہوئے بھی دیکھا ۔

پھرایک روزآپ احمدیت میں داخل ہو گئے۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ایک روز احمدیت ان کے دل میں داخل ہو گئی۔ انہیں حضرت مصلح موعود ؓ جیسےمحسن اور شفیق محبوب کی محبت نصیب ہوئی۔ یہ محبت عشق کی حدوں میں جا نکلی اور چوہدری صاحب کے دل کی ویران سرائے میں ایک دیا روشن ہو گیا۔

ایک روز الفضل میں چوہدری صاحب کی ایک غزل چھپی۔ میں گرمیوں کی صبح میں اپنے گھر کے دالان میں بچھی چارپائی پر بیٹھا یہ غزل پڑھ رہا تھا کہ میرے والد صاحب نے کہا کہ ’’تم چوہدری صاحب کو ملتے رہتے ہو۔ کبھی ان سے پوچھنا کہ ان کے اس شعر کا کیا مطلب ہوا جو اس غزل میں شامل ہے

خدا نے عقل بھی دی ہے، اسے ارادہ بھی

جو میری مانے ، کسی سے بھی مشورہ نہ کرے

کیونکہ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ کسی کا مشورہ نہ مانے، اور پھر مشورہ دے بھی رہے ہیں۔ مَیں چوہدری صاحب سے جب ملا تو پوچھ ہی لیا۔ کہنے لگے کہ ’’بھئی! Poetic license بھی تو ہوتا ہے۔ شاعر استعمال نہ کرے تو کون کرے؟‘‘۔ یہ اصطلاح میرے لئے نئی تھی۔ چوہدری صاحب کے کلام کامطالعہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب اس لائسنس کا استعمال بے دریغ فرماتے ہیں۔محبوب سے محبت کا اظہار کرنا ہو، دشمن کو منہ توڑ جواب دینا ہو، یا حسبِ ضرورت کہیں یونہی چٹکی ہی بھرنی ہو، یہ لائسنس محترم چوہدری صاحب دل کھول کر استعمال کرتے۔اس لائسنس کے استعمال کے نمونے کچھ تو اس مضمون میں آجائیں گے، کچھ آپ خود چوہدری صاحب کے کلام میں سے تلاش کریں تو زیادہ لطف حاصل کرسکتے ہیں۔

چوہدری صاحب بیک وقت کئی محبتوں میں گرفتار تھے۔وہ جو شاعر نے کہا کہ

ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ

آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تُو تھا

تو چوہدری صاحب بھی حضرت مسیح موعود ؑکی محبت میں بےتحاشہ گرفتار تھے۔ باقی محبتیں اسی ایک سرچشمہ سے پھوٹی تھیں۔مجھے یہ دعویٰ کرنے میں ذرہ بھی تامل نہیں کہ اگر حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ، پھر اس دعویٰ کے زمانہ، اس دعوے کی نوعیت، آپؑ کے مقام اور منصب ، اور اس دعویٰ سے برپا ہونے والے انقلاب،سب کو کسی نے صرف ایک شعر میں بیان کیا ہے تو وہ چوہدری صاحب کے علاوہ اور کوئی نہیں

اُترا تھا چاند شہرِ دل وجاں میں ایک بار

اب تک ہیں آنگنوں میں اُجالے پڑے ہوئے

سبحان اللہ! یعنی رات کا وقت تھا، تبھی تو چاند نکلا تھا۔ اور چاند خود روشنی نہیں دیتا بلکہ سورج سے لی ہوئی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔پھر یہ کہ ایسا اُمّتی نبی تو ایک بار ہی آنا تھا۔ اورپھر یہ کہ جس جس آنگن میں اس کی روشنی اتری تھی، وہ آج بھی منور ہیں۔تغزل، شعریت، تلمیح، استعارہ، تشبیہ۔ یہ شعر اپنے اندر فنِ شعر گوئی کے سبھی محاسن لئے ہوئے ہے۔

غرض،حضرت مسیحِ موعودؑ اس لشکرِ محبوبیت میں پیش امام تھے، پھر صفِ اول میں تمام خلفاء تھے۔ حضرت مصلح ِ موعود ؓ پیش امام کے پیچھے مگر پہلی صف سے آگے کھڑے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ پہلی صف کے ساتھ ساتھ دیگر تمام صفوں میں بھی نظر آتے تھےکہ چوہدری صاحب نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ حضرت مرزا ناصر احمد ؒ کے ساتھ کئی حیثیتوں میں بھی گزارکر پھر انہیں خلیفۃ المسیح کی حیثیت میں قبول کیا تھا۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے بابرکت دور کا ذکر ہے۔ محبوبوں کی ان صفوں میں خلیفۃ المسیح الرابع کی جگہ تو تھی، مگر ہجرت کر کے بہت دور جاکر آباد ہو گئے تھے۔ یہ ہجر کا دکھ چوہدری صاحب کی ہڈیوں تک میں اتر چکا تھا

لے گیا اپنے ہمراہ سب رونقیں

وہ جو تھا اک حسیں نوجواں شہر میں

چوہدری صاحب کی محبتوں کا تذکرہ چل رہا ہے تو ان کی ایک اور محبت کا مشاہدہ کرنے کا مجھے موقع ملا۔ میں کبھی کبھی چوہدری صاحب کے دفتر واقع بیت الاظہار میں حاضر ہوجایا کرتا تھا۔ چوہدری صاحب ہمیشہ شفقت کا سلوک فرماتے اور پاس بٹھا لیا کرتے۔ اسی طرح ایک روز چوہدری صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ آپ کے دفتر میں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) تشریف لائے۔حضرت صاحبزادہ صاحب ان دنوں ناظر تعلیم تھے۔ چوہدری صاحب دفعتاً اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا اور چہرہ پر ایک عجیب محبت کا رنگ نظر آنے لگا۔آنکھوں کی رکھوالی کرتی سیاہ عینک کے پیچھے چھپی آنکھیں تو نظر نہ آئیں مگر آنکھوں کے گردونواح محبت کے اس نور سے منور ہوگئے جوآپ کی آنکھوں میں پھیل گیاتھا۔حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کا اتفاق اس سے پہلے ہوچکاتھا، مگر بہت کم۔ وہی جو محبت تمام خاندانِ حضرت مسیح موعودؑ کے لئے ربوہ کے اس نووارد کے دل میں تھی، وہ حضرت مسیح موعودؑ کے اس فرزندِ جلیل کے پاس بھی لے گئی تھی۔ اس وقت تک صاحبزادہ صاحب کا تاثر صرف اس قدر تھا کہ بہت کم گو مگر نہایت خوش مزاج ہیں۔سچ پوچھیں تو میں جتنے بزرگوں سے ملنے کے لئے حاضر ہوتا، وہ سب بہت محبت سےملتے تھے مگر صاحبزادہ صاحب(ایدہ اللہ تعالیٰ)نے میری کم عمری کے باوجود جس طرح رک کر مجھ سے بات کی تھی، میری بات سنی تھی، اس توجہ کا دل پر گہرا نقش تھا۔مگر بات اس سے آگے نہ بڑھی تھی۔ مگر اب جو چوہدری صاحب کو اس محبت بلکہ عقیدت سے آپ کو ملتے ہوئے دیکھا تو دل پر گہرا اثر ہوا۔ دل میں خیال آیا کہ پوچھوں کہ کیا حضرت صاحبزادہ صاحب سے آپ کا کوئی خاص تعلق ہے؟ مگر چوہدری صاحب کی بزرگی اور میری کم عمری ہمیشہ یوں براہِ راست سوالات پوچھنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہی۔ ایسی بات ہمیشہ کسی بہانے سے پوچھنی پڑتی۔ سو میں نے پوچھا کہ چوہدری صاحب، یہ صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ہیں نا؟ جواب میں چوہدری صاحب نے حسبِ عادت ایک کتاب کھول لی اور صاحبزادہ صاحب کا تفصیلی تعارف کروایا۔ یہ بھی بتایا کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب تعلیم الاسلام کالج میں زیر تعلیم تھے تو کچھ عرصہ چوہدری صاحب کو انہیں پڑھانے کا موقع بھی ملا۔ مگر اس جملہ میں جو احتیاط تھی، وہ چوہدری صاحب کے ادیب ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ ادیب بھی وہ جو حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کے بچے بچے سے محبت میں مبتلا ہے۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں ان کا استاد تھا، یا یہ کہ یہ میرے شاگرد تھے۔ اس بارہ میں صرف ایک جملہ کہا اور وہ یہ کہ کچھ دیر مجھے بھی ان کی کلاس کو پڑھانے کا موقع ملا۔ میرے لئے یہ بات اور بھی متاثر کرنے والی تھی۔ اگرچہ حضرت صاحبزادہ صاحب بھی محترم چوہدری صاحب سے بہت محبت اور عزت سے ملے تھے، مگر چوہدری صاحب کے انداز میں بھی ایک عجیب احترام کا رنگ نمایاں تھا۔ایسے جیسے کسی زمانہ میں خود صاحبزادہ صاحب کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے رہے ہوں۔ یہ شعر تو بعد میں پڑھا کہ

شرم سی کچھ ، حجاب سا کچھ ہے

قرب بھی بے حساب سا کچھ ہے

مگر اس کا عملی رنگ اس روز نظر آیا۔ چوہدری صاحب کے دل میں یوں تو خاندانِ مسیح موعود ؑ کے چھوٹے بڑے ہر فرد کی محبت ٹھاٹھیں مارتی رہتی تھی، مگر اس ملاقات کا عجیب رنگ تھا۔ مجھے یقین ہے کہ محترم چوہدری صاحب کو اس قیمتی ہیرے کی وہ جہات بھی نظر آتی تھیں جو تب تک عام آنکھ نے نہ دیکھی تھیں۔ اور پھر جب حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) خلافت کےمرتبہ جلیلہ پر متمکن ہوئے تو چوہدری صاحب نے اپنی اس جوہر شناسی کا یوں اظہار بھی کر دیا کہ

جس حُسن کی تم کو جستجو ہے

وہ حسن، ازل سے باوضو ہے

اور چوہدری صاحب جس طرح آپ سے ملے تھے، اس کا عملی رنگ تو اس روز دیکھ ہی لیا تھا، مگر اس عقیدت اور احترام کے پیچھے کارفرما راز جب خدا نے دنیا پر افشا کر دیا تو آپ نے اسے یوں کہہ بھی دیا کہ

خاموش! مقام ہے ادب کا

آقا مرا محوِ گفتگو ہے

کوئی اور استاد ہوتا تو اپنے عالی مرتبت شاگرد کے ذکر پر اپنے تعلق کا نہایت بھونڈا اظہار بھی کرسکتا تھا، یہ کہہ کر کہ میں ان کا استاد ہوں، یا یہ کہ یہ میرے شاگرد رہے ہیں۔ مگر چوہدری صاحب اپنے قد کو اس طرح اونچا کرنے کے قائل نہ تھے۔ چوہدری صاحب کے سامنے تو بلکہ اگر کوئی کہہ دیتا کہ آپ حضرت خلیفہ رابع ؒکے استاد رہے ہیں تو چوہدری صاحب محاورۃً نہیں حقیقۃً دست بستہ ہو جاتے۔ رقت طاری ہو جاتی، کبھی دونوں ہاتھ جوڑتے ، کبھی کانوں کو ہاتھ لگاتے۔ یہ چوہدری صاحب کی عقیدت تھی جو شریعت سے اچھل کر طریقت کی وادیوں میں انہیں لے جایا کرتی۔

محبت کے اظہار میں چوہدری صاحب کے رنگ ایسے ہی تھے۔ بے تحاشگی اور وارفتگی اس اظہار کے نمایاں رنگ تھے۔ بزرگانِ سلسلہ سے محبت کااظہار اگرچہ اپنا الگ رنگ ہی رکھتا تھا، مگر عام آدمی سے بھی اظہارِ محبت بے تحاشا کرتے اور کھل کر کے کرتے۔ عام آدمی ہر خلافِ معمول بات کو سمجھ نہ پائیں تو اس کا استہزا کرکے اپنی کم فہمی پر پردہ ڈالتے ہیں۔ چوہدری صاحب کا اظہارِ محبت بھی معمول ، اور یوں عام عقل سے ، بالاتر تھا۔مگر اس محبت کا خمیر جماعت احمدیہ کی محبت ہی سے اٹھا تھا۔نوجوانوں میں انہیں جماعت احمدیہ کا آنے والا کل نظر آتا۔ وہ جانتے تھے کہ چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں، ہم نہیں ہوں گے۔ مگر تب یہ نوجوان توہوں گے۔ سونوجوان نسل سے محبت اور قرب کا اظہار دراصل ان نوجوانوں کی آنکھوں سے جماعت احمدیہ کے تابناک مستقبل کو دیکھنے کی ایک آرزوہی تھی۔ محبوبوں کی اس جماعت میں رہنا چوہدری صاحب کا محبوب مشغلہ تھا۔ بقول عبیداللہ علیم صاحب

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

سو چوہدری صاحب بھی اُس دنیا میں رہنا پسند کرتے تھے۔ جو اُن کے ساتھ محبت کے اس خواب نگر میں رہنا پسند کرتا، چوہدری صاحب اس سے بھی محبت کرنے لگتے

کیسے کیسے خوبرویوں سے ملاقاتیں رہیں

آنکھ کُھل جاتی تو ان چہروں کو کیونکر دیکھتے

اور پھر آپ کی صحبت سے فیضیابی میں ایک بڑا فیض یہ بھی تھا کہ انسان خود بھی چوہدری صاحب کے محبوبوں کے اس لشکر کی محبت میں مبتلا ہو جاتا، اور یہ مشاہدہ تجربہ کی سطح تک آجاتا

تجربہ تم کو بھی ہو جاتا عذابِ دید کا

تم اگر ان فاصلوں کو اپنے اندر دیکھتے

ہر کوئی اپنا نظر آتا تمہیں بھی عشق میں

اُٹھ کے سینے سے لگاتے جس کو مضطر دیکھتے

اور پھر یہ محبت چوہدری صاحب سے محبت کا باعث بن جاتی

محبت ہو گئی ہے تجھ سے مضطرؔ

تو کس محبوب کا نوکر رہا ہے

یہ تو چوہدری صاحب کے دن کا احوال تھا۔راتوں کا احوال تو یا وہ خود جانتے تھےیا ان کا خدا۔ مگر یہ رنگ آپ کے اشعار میں در آتا۔ مگر یہ احوال بھی خال خال ہی کسی کو نظر آیا۔ چوہدری صاحب نے اپنے دن پر بھی چہروں کی چادر تان رکھی تھی۔ جو پاس بیٹھتا، اسے چوہدری صاحب کے محبوبوں کے چہرے ہی نظر آتے۔ لوگ چوہدری صاحب کے بعض اشعار کو مزاحیہ شعر خیال کر بیٹھتے، جب کہ ان میں بھی ایک درد چھپا ہوتا۔ مثلاً ایک شعر جس کو لوگ بڑے وثوق سے مزاحیہ شعر خیال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ

اَکّھاں دی رکھوالی رکھ

پاویں عینک کالی رکھ

چونکہ چوہدری صاحب کی آنکھیں روشنی سے حساس تھیں، لہذا آپ مستقل کالی عینک پہنے رہتے۔ یہاں تک کہ رات کی مجالس میں بھی آپ کالی عینک میں دیکھے جاتے۔ اسی کالی عینک کی مجبوری(اور شاید عادت بھی) کے باعث لوگوں نے اس گہرے شعر کو محض مزاحیہ خیال کر لیا، ورنہ خیال کی سطح پر یہ شعر بہت اونچا ہے۔ اسی طرح وہ جو چوہدری صاحب نے لکھا کہ

اوڑھ کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا

اس سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ چوہدری صاحب خود ایک سے زیادہ چہرے اوڑھ کر اپنا کام نکالا کرتے۔ بلکہ میں نے تو اس شعر کو یوں سمجھا کہ آپ ان چہروں کے ہجوم میں کھو کر اپنے دکھوں اور غموں سے بے نیاز ہو جایا کرتےجو اس ہجوم میں نظر آنے والے چہرے تھے۔اس ہجوم میں آپ کے محبوب جابجا کھڑے تھے۔ خیر، عرض یہ کررہا تھا کہ چوہدری صاحب نے اپنےدن اور دل کے احوال سے کم ہی کسی کو خبر دی۔ کچھ تو آپ خود بھی کوشش کرتے کہ آپ سے ملنے والے اس دشت کی سیاحی کی فرمائش نہ ہی کریں، اور کچھ آپ سے ملنے والے اور آپ کو جاننے والےبھی جانتے تھے کہ چوہدری صاحب اپنی تمام تر شفقتوں کے باوجود برہم بھی بڑے زور سے ہوتے۔پھر ’’چوہدری‘‘ صاحب کی آواز کی کڑک انسان کو ہلاکر رکھ دیتی۔سو آپ کی دائرہ در دائرہ در دائرہ دنیا میں سفر کرنے کے متمنی بعض دائروں سے دور رہنے ہی میں عافیت جانتے۔مگر اس برہمی کا بھی عجیب رنگ ہوتا کہ اس میں بھی چوہدری صاحب کی بزرگانہ شان نظر آتی۔ جس سے برہم ہوتے وہ تو کڑک دار آواز سن کر اپنی راہ لیتا، مگر جو بعد میں بیٹھے رہ جاتے وہ چوہدری صاحب کو ٹوٹتے بکھرتے اور کرب میں مبتلا ہوتے دیکھتے۔جس سے ناراض ہوتے اس کی محبت چوہدری صاحب کے بہت بڑے دل کی کسی درز سے رسنے لگتی اور برہمی کو دھو ڈالتی۔ اور وہ جو چوہدری صاحب کی ڈانٹ فصیح و بلیغ انگریزی میں سن کر گیا ہوتا، اسے بھی دور رہ کر کہاں چین آتا۔ وہ خود بھی جلد واپس آنکلتا، ورنہ چوہدری صاحب اسے خود بلا بھیجتے۔ پھر اسے ساتھ لگاتے، رقت کا غلبہ ہوجاتا، کسی ماں کی طرح اسے خوب چمکارتے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ شخص چوہدری صاحب کی انگلی تھامے ٹی آئی کالج کی راہداریوں یا وادیٔ نیلم کے سبز ہ زاروں یا باسکٹ بال کے کورٹ میں کھڑا جماعت احمدیہ کی تاریخ کو چوہدری صاحب کی آنکھوں بلکہ عینک سے دیکھ رہا ہوتا۔

بہر حال ، بات چل رہی تھی چوہدری صاحب سے کُھل کر ملنے اوران کے روز وشب کا احوال جاننے کی۔ اس بات کو آپ ہی کے ایک شعر پر ختم کر تا ہوں :

میں اپنے آپ سے بھی کُھل کے مل نہیں سکتا

اگرچہ اِس کا کیا بارہا ارادہ بھی

بعض باتوں کا وہ اکثر کہتے کہ کبھی پھر بتاؤں گا۔ یہ شاید چوہدری صاحب کا حُسنِ گریز تھا:

وہ دل کی بات تھی، کُھل کر زباں پر آ نہ سکی

اگرچہ اس نے کیا بار بار وعدہ بھی

بات چل رہی تھی رات کے پوشیدہ احوال کی جو شعروں میں ڈھل کر سامنے آگیا ورنہ پوچھنے کی ہمت بھلا کون کرتا۔

جاگ اے شرمسار! آدھی رات

اپنی بگڑی سنوار آدھی رات

رات کو شیشا دکھا کر شہر کی تصویر لی

دور تک کھڑکی کے رستہ، چاند کا پیچھا کیا

آدھی رات کے آنسو ڈھل

ڈھل! میری تقدیر بدل

شب ہائے بے چراغ کی کوئی سحر بھی ہو

اے لمحۂ فراق ، کبھی مختصر بھی ہو

راتوں کو اٹھ کے آنکھ کا آبِ حیات پی

ان خشک سالیوں میں سرِ پُل سراط پی

زہرِ غم حیات بھی پینے کی چیز ہے

اس کو بھی آزما، اسے بھی آج رات پی

پس،راتوں کو اکیلے ہوتے تو شاید اپنے ہی شعر پر عمل کرتے ہوں گے کہ

تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے

کڑا تھا وقت توہنس کر گزار دینا تھا

پھر اپنے رب کے سامنے شرمساری کا نیم شبی اظہار اوراپنے آپ سے ملنے کی آنکھ مچولی میں نیند آجایا کرتی ہوگی

رات غم کی داستاں ، ہم بھی نہ مضطر سُن سکے

بات لمبی ہو رہی تھی، نیند نے غلبہ کیا

تو بات یہ تھی کہ آپ کے دل کے ہرگوشے تک ہر کسی کو رسائی نہیں تھی، بلکہ خود چوہدری صاحب بھی بعض گوشوں تک نہ جاتے ہوں گے۔ شاید اسی خیال سےکہ کہیں جائے حادثہ پر جاکر(بلکہ جائے وقوعہ پر) دوبارہ حادثہ ہی نہ پیش آجائے۔

لکھنے بیٹھا ہوں تو چوہدری صاحب کی محبتوں کے کیا کیا رنگ ہیں جو یاد آتے جارہے ہیں۔ مگر سب تونہیں لکھے جا سکتے، ایک تو اس لئے کہ مضمون طویل ہوتا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اگر چوہدری صاحب زندہ ہوتے تو بعض گوشوں پر قلم اٹھانے پر مجھ سے(ایک دفعہ پھر) برہم ہو جاتے۔ ایک دفعہ پھر اس لئے کہ میں نے بھی چوہدری صاحب کی برہمی کا رنگ قریب سے دیکھا۔

ایک بار کچھ احباب نے ربوہ کے ڈگری کالج کے باغات میں چوہدری صاحب کے ساتھ ایک شام منانے کا پروگرام بنایا۔تیاری مکمل ہوگئی تو چوہدری صاحب کو لینے کوئی صاحب اپنی کار پر گئے۔ جلد واپس آکر انہوں نے بتایا کہ چوہدری صاحب تو کسی طور آنے کو تیار نہیں۔سخت برہم بھی ہیں۔ دوست احباب نے مجھے کہا کہ جا کر منانے کی کوشش کروں۔ میں نے اپنی پرانی سی سائیکل پکڑی اور چوہدری صاحب کو منانے ان کی کوٹھی پہنچ گیا۔ان دنوں چوہدری صاحب اوپر والے کمرے کو چھوڑ کر اسی کوٹھی کے نچلی منزل کے ایک کمرے میں سکونت اختیار کر چکے تھے۔

نہیں اتنی ہمت کہ در کھٹکھٹاؤں

اگرچہ درِ یار تک آگیا ہوں

مگر ہمت تو کرنا ہی پڑتی ہے۔ میں نے دروازہ پر دستک دی۔اللہ جانے کس کیفیت میں بھرے بیٹھے تھے۔ کڑک دار آواز آئی ’’کون؟؟؟‘‘۔ میں نے جب جواب دیا تو اور بھی کڑک دار آواز اور اس سے بھی کڑک پنجابی میں فرمایا کہ ’’میں کہہ دِتّا اے کہ مَیں نئیں آنا۔۔سمجھ نئیں آندی؟؟‘‘۔ بحث کرنے کا تو یارا تھا نہیں۔ اچھے بچوں کی طرح ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر پلٹا اور ابھی گیٹ کے قریب پہنچا تھا کہ پیچھے سے چوہدری صاحب نے اپنی کھڑکی سے زور سے آواز دی۔ ’’ٹھہر جاؤ!! میں آریا واں‘‘۔سو اس روز خاکسار کو جماعت احمدیہ اور اردو زبان کے دبستانِ شاعری کے اس عظیم شاعر کو اپنے پرانے سائیکل پر، (انہی کے جتنی وزنی، یعنی خاصی وزنی، بیاض سمیت) ڈگری کالج تک لانے کا موقع ملا۔

چوہدری صاحب کی رگوں میں لہو کی بجائے کئی جذبوں کے کئی رنگوں کی قوسِ قزح دوڑتی تھی۔ مگر جو جذبہ سب جذبات کا سردار تھا، وہ اس ہجر کے درد کا جذبہ تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح کے ہجرت کر جانے کے باعث نہ صرف آپ کے اندر اُگ آیا تھا بلکہ ایک ایسا تناور درخت بن گیا تھا جسے گھر میں بڑے شوق سے بویا جاتا ہے، مگر پھر پھلنے پھولنے پر اس کی جڑیں خود اپنے ہی گھر کے در و دیوار اور بنیادوں کو ہلانے لگتی ہیں۔

1984 ء کی ہجرت نے جماعت احمدیہ کی دنیائے شعر وسخن کو ایک الگ رنگ دے دیا۔ ہر شعر ہر مصرع ہجرت کے درد میں کلبلاتااور سسکتا ہوا۔ ہر دوسرا آدمی شاعر بھی بن گیا۔ اس ہجرت پر کیا کچھ نہیں لکھا گیا، مگر چوہدری صاحب نے اس ہجرت اور اس ہجر میں جو کچھ لکھا، وہ دنیائے ادب کے شہ پارے ہیں۔ ہجر کا مضمون اوراپنے فنا ہوجانے کا مضمون اس سے بہتر کیا کوئی باندھے گا۔

وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر

میں سایہ ہوں دیوار تک آگیا ہوں

پھر اپنے آپ کو تسلی بھی آپ ہی دے لیتے:

کبھی تو اُس سے ملاقات ہو گی جلسہ پر

کبھی تو آئے گا وہ وصل کے مہینوں میں

نادان اسے بھی چوہدری صاحب کا حسنِ طلب خیال کرتے رہے، مگر اس سادہ سی بات کو نہ سمجھ سکے کہ اس میں چوہدری صاحب کے لندن جانے کا ذکرنہیں بلکہ ربوہ کے ان جلسوں کا ذکر تھا جن کی شمع ِمحفل دور افتادہ زمینوں کی طرف ہجرت کرگئی تھی۔ سو یہ ہجر چوہدری صاحب کو بری طرح لاحق تھا، اور آپ اسے اپنی گفتگو، اپنے اشعار اور اپنے تخیلات میں تادیر دہراتے نہ تھکتے۔پھر یہ ہجر بھی ایسے میں لاحق ہوا ہو کہ جب اک آگ غمِ تنہائی کی ان کے سارے بدن میں پھیل چکی تھی۔

چوہدری صاحب سے ملاقاتوں میں زیادہ وقفہ تب آنے لگا جب میں یونیورسٹی میں پڑھنے لاہور چلا گیا۔ مگر جب جب ربوہ جانا ہوتا، چوہدری صاحب سے ملاقات کی کوشش ضرورکرتا۔ ربوہ جاکر ان سے ملاقات نہ ہو سکتی تو اس کی دو ہی وجوہات ہوتیں۔ یا تو یہ کہ چوہدری صاحب گوجرہ گئے ہوتے، یا میری کوتاہی اَور بہت سے ضروری کاموں کی طرح اس کام کی راہ میں بھی حائل ہو جاتی۔ورنہ چوہدری صاحب نے ہمیشہ بانہیں کھول کر استقبال کیا اور کبھی مصروفیت کا عذر تک نہ کیا۔

2002 ء میں خاکسار لندن آگیا۔ پھر پانچ سال کا طویل عرصہ چوہدری صاحب سے کوئی ملاقات نہ ہو سکی۔ رابطہ کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ چوہدری صاحب کی صحت کے خراب ہونے کی خبریں آنے لگیں۔پھر ایک روز چوہدری صاحب کا مجموعہ کلام ’’اشکوں کے چراغ‘‘ شائع ہو کر لندن پہنچ گیا۔ یوں کئی روز چوہدری صاحب سے غائبانہ ملاقات رہی۔ اتنے میں پانچ سال کا عرصہ گزرگیا اور مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا۔ رات کو ربوہ دارالضیافت پہنچا تھا۔ صبح صبح چوہدری صاحب کو ملنے کے لئے حاضر ہو گیا۔سنا تھا کہ چوہدری صاحب بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ مجھے ڈر تھا کہ شاید چوہدری صاحب پہچان بھی نہ پائیں گے۔ اگر مجھے پہچان نہ پائے تومجھے کس قدر صدمہ ہوگا، میں بات کیا کروں گا، اتنی لمبی غیر حاضری کی کیا توجیہ دوں گا۔ ان اندیشوں سے الجھتا ان کے دفتر میں حاضر ہو گیا۔ چوہدری صاحب بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا تو اچانک اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ پا س بلا لیا۔ گلے سے لگا لیا۔ اور پھر وہی رقّت۔ مگر اس رقت کی بھی تو سمجھ نہ آتی تھی کہ واقعی پہچان لیا ہے یا کسی اور کیفیت میں رقت طاری ہے۔ بہت پیار سے گلے لگائے لگائے کہنے لگے’’میرا مجموعہ جدوں شائع ہو ریا سی، میرا دل کرداسی کہ تسی وی ہندے‘‘۔میں سر سے پاؤں تک خوش ہو گیا۔چوہدری صاحب نے مجھے پہچان لیا تھا۔ مجھے بتانے لگے کہ تم سے کبھی کبھی ایم ٹی اے پر ملاقات ہو جاتی ہے۔ پھر میرے اہل خانہ کا پوچھتے رہے۔نہیں کیا تو اتنی لمبی غیر حاضری کا گلہ نہیں کیا۔ بڑے آدمی جو تھے۔ میرے پاس بھی اس غیرحاضری کی معذرت کرنے کی کوئی توجیہہ تھی نہ ہمت۔ پھر اور بہت سی باتیں کرنے کو جی چاہتا تھا مگر ایک بات نے طبیعت ایسی اداس کی کہ اجازت لے کر اٹھ کر چلا آیا۔

آپ کے دفتر کے ایک کارکن آپ کے پاس ایک خط دستخط کروانے کے لئے لے کر آئے۔ وہ چوہدری صاحب کو بتاتے رہے کہ دستخط کہاں کرنے ہیں، مگر چوہدری صاحب کا قلم صفحہ پر اِدھر اُدھر کچھ تلاش کرتا پھرا۔ پھر کارکن نے معین جگہ پر انگلی رکھ کر انہیں منزل دکھائی تو چوہدری صاحب نے بدقت وہاں پر دستخط کردئیے۔ دستخط کرتے ہوئے رعشہ سے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ مجھے لگا کہ چوہدری صاحب کسی روز اپنی ذات کے ٹریفک میں ٹھہر گئے ہوں گے۔ یا پھر ہاتھ کی لکیریں باہم ٹکرا گئی تھیں۔ وہ حادثہ جس سے چوہدری صاحب بچتےپھرتے تھے، پیش آچکا تھا۔حادثہ نے کیسی شکست و ریخت برپا کر دی تھی۔ میں بھی ایک حادثہ کے چشم دید گواہ کی طرح سکتہ کے عالم میں ان کے دفتر سے نکل آیا۔

پھر 2009ء میں وصل کے مہینے آئے تو چوہدری صاحب سے جلسہ سالانہ یُوکے پر ملاقات کا سبب پیدا ہوا۔ چوہدری صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ چوہدری صاحب اور بھی کمزور ہوچکے تھے۔ مگر ایک شاخِ نہالِ غم، جسے دل کہیں سو وہ تب بھی ہری تھی۔ یہ شاخ تھی خلافت سے دیوانگی کی حدوں تک پہنچا ہوا عشق۔ حضور کے نام پر، حضور کی شفقت کے ذکر پر، صرف لفظ ’’حضور‘‘ کہہ کر ہی آپ کا پورا وجود جذبات کے طوفانِ بادوباراں کی زد میں آجاتا۔ پورا وجود رقت سے کپکپا اٹھتا۔ آنکھیں ہمیشہ کی طرح سیاہ عینک کے پیچھے تھیں۔ اس ملاقات کے دوران سوچا کہ شاید اس کالی عینک کو پہننے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ ہر وقت امڈتے اس طوفان کو دیکھ نہ لیں۔یہ ایک دیوار تھی جو لوگوں کو انجمن میں آنے سے روکتی تھی، مبادا خودبھی رسوا ہوں اور چوہدری صاحب کی صیغۂ رازمیں رکھے جذبات کو بھی رسوا کریں۔
پھر 2015ء میں جلسہ پر ان سےملاقات کی امید بندھی۔ خبر آئی کہ محترم چوہدری صاحب جلسہ پر تشریف لائیں گے۔میں نے سوچا کہ اس مرتبہ تو ہم کیمرہ چلا کر رکھ چھوڑیں گے اور چوہدری صاحب بولتے جائیں گے۔ اس مرتبہ کوئی پروگرام نہیں صرف آپ کی گفتگو ریکارڈ کریں گے۔ آپ کی زندگی کے ماہ و سال کیمرہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قید کر لیں گے کہ آئندہ نسلوں کی امانت ہے اور ان تک پہنچنا ضروری ہے۔ مگر محترم چوہدری صاحب کی بجائے یہ خبر آگئی کہ چوہدری صاحب ضعف کے نتیجہ میں گر کرشدید چوٹ لگوا بیٹھے ہیں اور سفر ممکن نہیں۔ پھر ایک روز چوہدری صاحب کے انتقال کی خبر آگئی۔ جلسہ میں کچھ ہی دن باقی تھے۔ سو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے افتتاح کے روز ارشاد فرمودہ خطبہ جمعہ میں آپ کے انتقال کا اعلان فرمایا۔ آپ کے اوصافِ حمیدہ بیان فرمائے اور قریباً تیس ہزار مقتدیوں نے اپنے امام کے پیچھے محترم چوہدری صاحب مرحوم کی نمازِ جنازہ ادا کی۔

چوہدری صاحب نے لکھ تو دیا کہ ’کبھی تو اس سے ملاقات ہو گی جلسہ پر‘ مگر یہ ملاقات ایسی بھی ہوگی، یہ شاید آپ کو معلوم نہ تھا۔یا شاید معلوم ہی تھا، جبھی تو ہر بار، ہر مشاعرہ میں یہ مصرع پڑھتے ہوئے جذبات کے ریلے آپ کو بہا لے جایا کرتے۔

مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کی خبر ضرور دی ہوگی کہ آپ کا جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح نے ہزاروں لوگوں کی جماعت کے ساتھ پڑھا ہے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اپنے مولا سے یہ خبر سُن کرچوہدری صاحب فرطِ جذبات سے روپڑے ہوں گے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button