سیرت النبی ﷺ

قرآن مجید کی وحی اور آنحضرت ﷺ کے روحانی مشاہدات کا ایک نمونہ (تیسری قسط)

(حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ ویرانوں میں سے گزرے گا اوران سے کہے گا کہ اپنے خزانے نکال تو وہ نکالیں گے ۔آسمان سے کہے گا کہ برس اوروہ برسے گا جس سے بنجر زمین سرسبز وشاداب ہوجائے گی۔ہوائوں پر بھی اسے تسلط ہوگا۔اس کے پاس سامان خوردو نوش کی بہتات ہوگی۔ جو قوم اس کا کہامانے گی وہ خوشحال اورجو نہ مانے گی وہ قحط زدہ ہوجائے گی۔وہ زمین میں فتنہ وفساد مچائے گا ۔لوگوں کے مذہبی عقائد کو بگاڑے گا۔وہ مُردوں کو زندہ کردکھائے گا۔

[ٹھیک اس وقت جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں اخبار الفضل ؔ مورخہ01-02-1952مجھے ملا تو اچانک میری نظر شکاگو کی ایک خبر پر پڑی جوریڈیو پاکستان نے نشر کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص جو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مرگیا، پھر اسے بجلی کی رو سے پنتالیس منٹ بعد دوبارہ زندہ کیا گیا ۔اس سے قبل دوسری جنگ عظیم میں اسی قسم کا واقعہ ماہواری میگز ین (Digestنومبر 1946ء) میں شائع ہوا تھا۔ایک روسی جس کانام چراپانو (Cherapanou) تھا جنگ میں شدید زخمی ہوا اور بوقت آپریشن مرگیا ۔ڈاکٹروں نے تحقیق کے بعد اس کی موت کا اعلان کیا ۔یہ آپریشن اس ہسپتال میں کیا گیا جس میں پروفیسر ولادی میر نگووسکی (Velladi mir Negwusike )زندہ احیاء موتیٰ کا تجربہ کیا کرتا تھا ۔کتوں ،بلیوں،چوہوں اور خرگوشوں پر انہوں نے کئی تجربے کامیابی سے کئے ۔ خون، گلوکوز اور انڈرلین کا انجکشن خاص طریق سے اس تجربہ میں استعمال کیا جاتا تھا اور مصنوعی سانس سے پھیپھڑوں کو حرکت عمل میں لایا جاتا ۔چنانچہ ساڑھے چار منٹ کے عمل کے بعد مذکورہ بالا مردہ شخص دوبارہ زندہ ہوا۔ دل نے کام کرنا شروع کردیا اورساڑھے سات منٹ بعد پھیپھڑوں کا عمل بحال ہوا۔ ایک گھنٹہ کے بعد ہوش آنے پر اُسے یہ معلوم کرکے صدمہ ہوا کہ اس کی آنکھوں میں بینائی نہیں، لیکن چند دن کے علاج کے بعد بینائی بھی عود کر آئی اوروہ اچھا بھلا چلنے پھرنے لگا۔ لوگ اس سے جب دریافت کرتے تو وہ ان سے یہی کہتا کہ اسے ہوش آنے پر یہی محسوس ہوا تھا کہ گویا وہ سویا ہوا تھا اورجاگ پڑا ہے۔اس واقعہ سے منکرین حیات آخرت نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ روح اورمابعد الموت زندگی کا خیال یونہی ہے، اگرکچھ ہوتا تو یہ مردہ زندہ ہوکر حیات آخرت کے متعلق بیان نہ کرتا ۔ منکرین حیات آخرت کے اس استدلال کے بودا پن کو مطبوعہ کتاب ’’حیات الآخرت‘‘ میں واضح کیا جاچکا ہے ۔]

اورلوگوں سے کہے گا خدا کوئی نہیں بلکہ اپنی خدائی قدرت ان سے منوائے گا۔ان بیان کردہ اوصاف میں سے ایک ایک وصف عیسائی اقوام پرراس بیٹھتا ہے اوردیکھنے والے کو دجال کی شخصیت معین کرنے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ سورئہ کہف میں تو مذکور بالا الفاظ میں تفصیل نہیں۔ لیکن ان کی غیر معمولی ترقی،پھیلائو،عظیم الشان سلطنت اورقدرتِ خَلق واحیاء واماتت اورخارق عادت تصرفات کے بارے میں جو آیات بینات اس میں وارد ہوئی ہیں ان میں یہ سارا مفہوم پایا جاتا ہے جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے ۔

یہ بتایا جاچکا ہے کہ عیسائی قوموں کی ترقی کے تعلق میں سورئہ کہف میں دو انگورستانوں اور ایک کھیتی کی مثال میں ان کی سلطنت کے تین زمانوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس مثال میں یہ بھی فرمایا ہے کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُکُلَھَا وَلَمْ یَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْئًا وَفَجَّرْنَا بَیْنَھُمَا نَھَرًا وَکَانَ لَہٗ ثَمَرٌ فَقَال …(الکہف34:) یعنی دو باغوں میں سے ہرایک نے اپنا پھل دیا اوراس میں ان سے کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی۔ یعنی کھانے پینے کی ہرشے ان کے لئے مہیا کی گئی اوران باغوں کے درمیان ایک نہر جاری کی۔اوراسے پھل حاصل ہوا تو اپنے مال ودولت کی بہتات اورکثرت ِ نفری دیکھ کرا س باغ کے مالک کو گھمنڈ ہوا اورسمجھنے لگا کہ اب اس کا یہ باغ کبھی تباہ نہیں ہوگا اوراپنے ساتھی سے کہا وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً وَلَئِنْ رُّدِدْتُ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا (الکھف37:) میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کی گھڑی قائم ہوگی اوراگراپنے رب کی طرف میں لوٹایاگیا تو وہاں بھی اس سے بہتر انجام ہوگا۔اس پر اس کے ساتھی نے کہا ۔ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰکَ رَجُلًا (الکھف38:)کیا تو نے اپنے اس خالق کا انکار کیا ہے اوراس ذات کا ناشکر گزار ہوا ہے جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے اورپھر نطفہ سے اورپھر مرد کامل بنایا ہے۔(آیت محولہ بالا کی تشریح کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر شرح سورئہ کہف مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ)

اس آیت سے ظاہر ہے کہ عیسائی قوم اپنی حکومت اور طاقت کے گھمنڈ میں یہاں تک دلیر ہو جائے گی کہ خداتعالیٰ اورحیات آخرت کا انکار کردے گی اوراُن میں سے جس کے دل میں کچھ ایمان باقی ہوگا وہ بھی اپنے باطل عقیدہ کے باوجود یہ یقین رکھے گاکہ ان کی حالت بہتر ہوگی۔اورسورہ کہف کی ابتدائی آیات میں یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ عیسائی قوم کی دنیاخوبصورت ہوگی۔ مگر عمل صالح کے فقدان کی وجہ سے آخر وہ ویرانگی میں تبدیل ہوگی۔ اوراس سورۃ میں یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ وہ پیدائش عالم کی کُنہ اور اس کا سربستہ راز دریافت کرتے کرتے اس حدتک پہنچے گی کہ گویا وہ خود بھی خَلق اشیاء پر قادر ہے اوراپنے تئیں شریک باری تعالیٰ سمجھنے لگے گا جیساکہ دانیال نبی نے فرمایا تھاکہ شریعتوں کو بدل کر زمین پر ایک نیا نظام قائم کرے گا ۔لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوگا اورجلدہی آگ میں ہلاک کیا جائے گا جس سے اُن کے لئے کوئی جائے فرارنہ ہوگی۔ عیسائی اقوام کے اس قسم کے خیالات باطلہ اور ان کی تعلیوں کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ اُن کی نفی کر تااور فرماتا ہے مَآ اَشْھَدْتُّھُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَاخَلْقَ اَنْفُسِھِمْ وَمَا کُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا o وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَآئِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْھُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَھُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ مَوْبِقاً۔ (الکہف52:،53)

یعنی میں نے آسمان اورزمین کی پیدائش کے وقت انہیں تو موجود نہیں رکھاکہ وہ دیکھیں کہ یہ کیونکر ہوئی اورنہ اس وقت موجودرکھا جب ان کی جانوں کو پیدا کیاگیا اورنہ میں گمراہ کرنے والوں کو (کسی نظام کے) پیداکرنے میں اپنا مددگار بنانے والاہوں۔ اور جس دن اُن سے کہے گا پکاروان کو جن کے متعلق تمہاراخیال ہے کہ وہ میرے شریک ہیں تووہ انہیں پکاریں گے اوروہ انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اورہم ان کے درمیان ہی ہلاکت کاسامان کر دیں گے اوریہ مجرم یعنی خداتعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والے آگ دیکھیں گے اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں۔ پس وہ اس سے پیچھے ہٹنے کی جگہ نہ پائیں گے۔

الفاظ مَآ اَشْھَدْتُّھُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں جو نفی کی گئی ہے اس سے پایا جاتا ہے کہ ایک دن یہ خیال عیسائیوں کے سرمیں سمائے گا کہ انہوں نے پیدائش عالم کا راز دریافت کرلیاہے اوریہ کہ اس کی نقل کرنے پر بھی وہ قادرہیں اورایک نئی دنیا اورنیا نظام قائم کریں گے مگر اس میں وہ کامیاب نہیں ہوںگے۔ نئی دنیا اور نظام ہمیشہ آدم اوراس کی نیک ذریّت اورملائکۃ اللہ کے ذریعہ سے ہی قائم ہواکرتاہے نہ کہ شیطان اوران کی ذریّت سے۔یہ مضمون ہے سورۂ کہف کے ساتویں رکوع کا۔اور اس سیاق کلام میں آیت مَآ اَشْھَدْ تُّھُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ لَا خَلْقَ اَنْفُسِھِمْ وَمَاکُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًاکامفہوم از خود واضح ہوجاتاہے۔ یعنی یہ کہ اس آیت میں دراصل ان کے اس زُعمِ باطل کی تردید کی گئی ہے کہ وہ خَلق اورموت و حیات میں شریک باری تعالیٰ ہیں۔
اوراس آیت سے دجال کے خدائی دعویٰ کی حقیقت بھی آشکار ہوجاتی ہے جس کا ذکر احادیث مذکورہ بالامیں ابھی گذرچکا ہے ۔سورۂ کہف کی ان آیات بیّنات نے ضمناً یہ بھی بتادیا ہے کہ ان مدعیان شرکت باری تعالیٰ کو نئی زمین اورنیا نظام قائم کرنے کے مواقع میسر آئیں گے مگروہ ان سے فائدہ نہ اُٹھائیں گے اورانجام ان کی کوششوں کاآگ ہوگا جس سے بھاگنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔

آنحضرت ﷺ کو یہ بھی مشاہدہ کرایاگیاتھا کہ بُختیاونٹوں جیسے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ دجال کو اُٹھااُٹھا کرآگ میں پھینکیں گے اورہلاک کریں گے ۔

[ بختی اونٹوں کی مانند پرندوں والا نظارہ جو آپؐ کو دکھایاگیا اس کی تصدیق آج کل لڑاکے طیاروں کی صورت میں ہمارے مشاہدہ میں بھی آچکاہے ۔ایساہی جِمَالۃٌ صُفْر کی پیشگوئی ٹینکس (Tanks)پرصادق آتی ہے۔ دونوں کی آتشبازی ایک جہنم برپاکر دیتی ہے۔ ]

سورۃ المرسلٰت میں اللہ تعالیٰ صلیب پرستوں کے متعلق فرماتاہے اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ o لَّا ظَلِیْلٍ وَّلَا یُغْنِیْ مِنَ اللَّھَبِ o اِنَّھَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِo کَاَنَّہٗ جِمٰلَۃٌ صُفْرٌ o وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ (المرسلات31:تا35)یعنی چلوتین شاخوں والے سایہ کی طرف جونہ سایہ دینے والا ہے اورنہ وہ شعلہ زن آگ سے بچائے گا وہ ایسے شرارے پھینکے گا جو محلّوں کی ماند ہوں گے۔…

سورۂ کہف میں بالتکرارصلیب پر ستوں کی تباہی آگ سے ہی بتائی گئی ہے اوراس آگ کے متعلق آیت 41رکوع 5میں یہ بھی بیان کیاگیا ہے کہ وہ آسمان سے پھینکی جائے گی جو ان کے باغ کو ویران کردے گی۔یُرْسِلُ عَلَیْھَاحُسْبَاناً مِّنَ السَّمَآئِ فَتُصْبِحُ صَعِیْداً زَلَقًایعنی اللہ تعالیٰ ان کے باغ پر آسمان سے آگ چھوڑے گا تووہ ایسا چٹیل میدان بن جائے گا جس پر ٹھہرنا ممکن نہ ہوگا۔ (زَلَقًا کے معنی پھسلنے والا)عیسائی حکومتوں کی آگ والی یہ تباہی وہی ہے جس کا ذکر دانیال کی پیشگوئی میں بھی ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دکھایا گیا تھاکہ بختی اونٹوں کی مانند پر ندے دجال اور اس کے ساتھیوں کوآگ میں پھینک کر اُنہیں ہلاک کر رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ بنی نوع انسان کو پیش آنے والے فتنہ کے بارے میں سورۂ کہف کی آیات بینات میں جو انذار کیاگیاہے اوراس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعالم ملکوت میں جو مکاشفہ ہوا یہ انذار ومکاشفہ دونوں آپس میں مطابقت کھاتے ہیں اورآپؐ کایہ فرماناکہ جودجال کے فتنہ سے محفوظ رہنا چاہتاہے اس کو چاہئے کہ سورۂ کہف کی آیات کا مطالعہ کرے۔حضرت دانیال کی پیشگوئی کے متعلق میں نے حاشیہ میں مختصر ساذکر کیاہے اس کو بھی اگرسورۂ کہف کی پیشگوئی کے ساتھ ملحوظ رکھا جائے توہمیں وحی الٰہی کی ان واضح تجلیات اورمکاشفات سے یقینی طور پر ایک ایسے عالم کے وجود کا پتہ چلتاہے جو نہایت ہی لطیف اورنہاں درنہاںہے اور مادہ اورزمانہ کی حدود سے بالا تر ہے اور اس کے متعلق ہمیں اس دُنیا میں تمثلات یعنی صورتوں اورشکلوں اوراشاروں میں علم ہوتا ہے جو وسیع معانی ومعلومات پرحاوی ہوتے ہیں۔ اوریہ تمثلات خیالی نہیں بلکہ حقیقت اورواقعیت پر مبنی ہوتے ہیں۔

موعودہ بشارت کے متعلق آنحضرتﷺ کے مشاہدات وتصریحات

یہ حصۂ مضمون مکمل نہیں ہوگاجب تک کہ سورۂ کہف کی بشارت کے متعلق بھی آنحضرت ﷺ کے مشاہدات کانمونہ پیش نہ کر دیاجائے۔ سوال یہ اٹھایا گیا تھاکہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی حیات آخرت اورلقائے ربّانی کا ذکر کیاگیا ہے وہاں لامحالہ کسی نہ کسی مہتم بالشان پیشگوئی کا ذکر بھی موجودہے اوریہ کہ آنحضرت ﷺ کواس پیشگوئی کے متعلق نہ صرف وحی الٰہی کی تجلی واضح کلام میں ہوئی بلکہ اس کے علاوہ اس کا مشاہدہ بھی کرایا گیا ہے ۔اس تعلق میں مَیں نے سب سے پہلے سورۂ کہف کی تین پیشگوئیوں بَأسٌ شدید ،بشارت اورعیسائیوں سے متعلقہ انذار کا حوالہ دیا تھا۔ بأس شدید اورانذار کے متعلق ایک حدتک بیان کیا جاچکا ہے۔
اب میں ذیل میں بشارت والے حصہ کو لوں گا اوربتائو ں گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق بھی عینی مشاہدہ کرایا گیا تھا جس کا ثبوت نہ صرف آپ ؐ کے مستند اقوال سے ملتا ہے (جو صحاح ستّہ میں مروی ہیں)بلکہ واقعات کی تصدیق سے بھی آپ ؐ کا یہ مشاہدہ برحق ثابت ہوچکا ہے۔

یہ بتایا جاچکاہے کہ سورۂ مریم بھی سورۂ کہف کی طرح بشارت وانذا رکی حامل ہے۔اوراس تعلق میں دونوں سورتوں کی ہم معنی آیات کا مقابلہ کرکے ان کا نفس موضوع میں اشتراک بھی ثابت کیاجاچکاہے۔خود سورۂ مریم کا عنوان جو حروف مقطعاتکھٰیٰعٓصٓ سے شروع ہوتاہے وہ بھی اسی وحدت موضوع پردلالت کرتاہے۔
قرآن مجید کے بعض نسخوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ ان میں حروف مقطعات کی شرح بھی دی گئی ہے۔اس تشریح میں حرف ’’ک‘‘ سے مراد ’’کَذٰلک‘‘ بتائی گئی ہے جس کے معنی ہیں اسی طرح یا ایسا ہی۔لفظ کَذٰلک دلالت کرتا ہے کہ سورئہ مریم کا تعلق سورئہ کہف کے ساتھ ہے۔اوریہ کہ جو باتیں پہلی سورت میں بیان ہوئی ہیں اسی تسلسل میں سورئہ مریم کا بھی نزول ہے۔چونکہ سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ کی صفت وہابیت کا ذکر باربار دوہرایا گیا ہے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بالفاظ اِنَّہٗ کَانَ وَعَدُہٗ مَأْتِیًّا (الکھف62:)اور وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (الکھف65:)پختہ وعدہ کیا گیا ہے کہ تیرا رب تجھے نہیں بھولے گا اور تیرے ساتھ بھی اس قسم کی رحمت خاصہ کا سلوک کیا جائے گا جو سابقہ انبیاء کرام سے ہوا۔ یہ وعدہ ضرور پورا ہو کر رہے گا اس لئے مذکورہ بالا عنوان کٰھیٰعٓصٓ کے متعلق سمجھنا درست ہوگا کہ اس کے حروف قائم مقام ہیں جملہ کَذٰلِکَ الْوَھَّابُ یَبْعَثُ لَکَ وَعْدًا صَادِقًا یعنی اسی طرح خدائے وہاب تیرے لئے بھی مبعوث کرے گا یہ سچا وعدہ ہے ۔یہ جملہ اسی قاعدہ کی رو سے اخذ کیا جاسکتا ہے جس قاعدہ کی بناء پر حضرت ابن عباسؓ نے سورۃ البقرۃ کے عنوان الٓمٓ کے حروف مقطعات سے اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ کا جملہ اخذ کیا ہے ۔ ’الف‘ انا کا قائم مقام ہے اور ’لام‘ اللہ کا اور ’میم‘ اَعْلَم کا۔ یعنی میں اللہ سب سے بڑھ کر علم رکھنے والا ہوں ۔اسی طرح ’ھا‘قائم مقام ہے وَھَاب کا جو مبتدا ہے اور’ي‘ قائم مقام ہے یبعث کی جو خبر ہے اور صیغہ مضارع ہے اور ’عین‘ قائم مقام ہے وعدہ کی اور ’ص‘ قائم مقام ہے صادق کا اور یہ آخری جملہ آیت اِنَّہٗ کَانَ وَعَدُہٗ مَأْتِیًّا کا مترادف ہے جو سورہ مریم کے چوتھے رکوع میں ہے۔علاوہ ازیں سورہ مریم کے پہلے چار رکوع پر نظر ڈال کر دیکھیں کہ جملہ کَذٰلِکَ الوھّاب یبعث لک ان چار رکوع کے مضمون پر ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتا ہے یا نہیں۔نہ صرف یہی بلکہ آنحضرت ﷺ کی تصریحات سے بھی اس مضمون کی تصدیق ہوتی ہے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں اِنَّ اللّٰہَ یَبعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا (سنن أبی داؤد۔ کتاب الملاحم۔ باب ما یذکر فی قرن المائۃ) یعنی اللہ تعالیٰ اس اُمّت کے لئے ہر سوسال کے سر پر ایسا شخص ضرور بھیجے گا جو اس کے لئے اس کے دین کو از سر نَو تازہ کرے گا ۔آنحضرت ﷺ کی اس تصریح سے سورہ مریم کی آیات بیّنات کی نہ صرف تصدیق ہی ہوتی ہے بلکہ ایک زائد بات کا بھی علم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اس میں ایک صدی کا عرصہ بھی معین کیا گیا ہے جس کے خاتمہ پر دین اسلام کی تجدید اور آپ ﷺ کی امّت کی اصلاح کے لئے مجددبھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔سورہ مریم کے عنوان یا اس کی آیات بیّنات میں بظاہر کسی عرصہ کا تعین نظر نہیں آتا۔ مگر چونکہ واقعات نے اس تعین کی تصدیق کردی ہے اور ہر صدی کے سر پر کوئی نہ کوئی مجدد مبعوث ہوتا رہا ہے ۔

[۔ ملاحظہ ہوتفصیل مجددین حجج الکرامہ از صفحہ 135تا صفحہ 139۔اس کتاب کے مصنف نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم ہر صدی کے مجدد کا نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ چودھویں صدی میں ابھی دس سال باقی ہیں۔ اگر حضرت مہدی اورحضرت مسیح تشریف لائے تو وہ اس صدی کے مجدد اورمجتہد ہوں گے (صفحہ 139 مطبع شاہجہانی)]

اس لئے آپﷺ کی مذکورہ بالا تصریح کے متعلق دو صورتوں سے ایک صورت یقینی ہے۔ اول یہ کہ سورئہ مریم کے نزول کے ساتھ وحی خفی کے ذریعہ سے تفہیماً آپؐپر یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ وعدہ ہرصدی میں پورا کیا جائے گا یا اس سے علیحدہ آپؐ کو اس امر کا مشاہدہ کروایا گیا ۔بہرحال جونسی بھی صورت ہواس میں قطعاً شبہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی یہ تصریح سورئہ مریم کے عنوان اوراس کے موضوع کے مطابق ہے اورہمارے لئے اس لحاظ سے حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے کہ آپؐ کا یہ فرمودہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی پراُمّت اسلامیہ کے لئے مجدد بھیجتا رہے گا ہر صدی میں پورا ہوتا رہا۔ اوریہ خبرِ غیب ایک عالمِ غیب کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔

اس موعودہ بعثت کے تعلق میں مندرجہ ذیل باتیں ملاحظہ ہوں جن کا تعلق خاص کر سورئہ کہف والی بشارت سے ہے۔

(1)آپؐ نے فرمایا کَیفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ وَاِمَامُکُم مِنْکُمْ حَکَمًا عَدْلًا یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ۔۔۔ الخ (صحیح البخاری۔ کتاب أحادیث الأنبیاء۔ باب نزول عیسیٰ ابن مریم)

یعنی تمہاری کیسی حالت ہوئی (اطاعت کی یا انکار کی) جب تم میں ابن مریم نازل ہوگا اورتمہارے امام تم میں سے ہوں گے۔وہ اختلافات مٹانے میں بطور ثالث عادل کے ہوگا۔صلیب کو توڑے گا اورخنزیر کوقتل کرے گا۔

ایک دوسری مستندر روایت میں یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتلُ الدَّجَال مروی ہے بجائے یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرکے۔آنحضرت ﷺ کی یہ پیشگوئی نہایت مشہور ہے اورمتعدد راویوں نے قابل اعتبار سندوں سے اسے روایت کیا ہے۔یہ صحیح بخاری میں بھی مروی ہے اورصحیح مسلم اوردیگر صحاح ستہ میں بھی ۔ یہ تمام روایتیں نزول ابن مریم کے بارے میں متفق ہیں۔ نیز ابن مریم کی غرض بعثت کے متعلق بھی متفق ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اختلافات مٹائے گا، کسرصلیب کرے گا اورخنزیر ودجال کو قتل کرے گا۔آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ صلیب پرستی اوردجال کا آپس میں تعلق ہے اوراس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ کی یہ پیشگوئی بھی عالم الغیب کی اصطلاحات سے تعلق رکھتی ہے۔ کیونکہ اس کے الفاظ کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جاسکتا ۔ پیتل یا لوہے کی صلیب توڑنا تو کوئی بڑی مشکل بات نہیں کہ اس کے لئے ایک رسول بھیجا جائے اورنہ خنزیر کا شکار مراد ہوسکتا ہے ۔ایک نبی کو خنزیر کے شکار سے کیا واسطہ؟اس لئے الفاظ مذکورہ بالا کو عالم ملکوت کی مخصوص اصطلاحات کی روشنی میں دیکھنا پڑے گا۔عالم رؤیا میں اگر یہ دیکھا جائے کہ کوئی خنزیر کا گوشت کھارہا ہے یا خنزیر کی شکل میں ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ وہ شخص جسے ایسی حالت میں دیکھا گیا ہے عیسائی ہوجائے گا(تعطیرالانام)۔ واقعات نے بھی اس تعبیر کی تصدیق کی ہے۔غالباً یہ تعبیر اس لئے ٹھیک ہے کہ لَحْمَ الْخِنْزِیْر عیسائی قوم کا من بھاتا کھانا ہے۔ یا اس لئے کہ بعض صفتوں میں ان دونوں کا اشتراک ہے اوراس مشارکت ومماثلت ہی کی وجہ سے مستند احادیث میں کبھی یَکْسِرُالصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الدَّجَالَ اور کبھی یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ آیا ہے۔ اس لئے علمائے سلف میں سے جن علماء نے حدیث مذکور کے الفاظ کو کسر صلیب سے دین مسیحی کا ابطال اورقتل خنزیر سے خنزیر صفت قوموں کی ہلاکت مراد لی ہے۔

نہوںنے غلطی نہیں کی بلکہ درست سمجھا ہے کیونکہ اس عظیم الشان پیشگوئی کو ظاہری الفاظ پر محمول کرنا درحقیقت اس کی عظمت واہمیت کوگرانا ہے اورعالم ملکوت کی اصطلاحات کو بھی نظرانداز کرنا ہے۔

ان علماء میں سے قابل ذکر علامہ بدرالدین رحمۃ اللہ الیہ شارح صحیح بخاری ہیں۔ آپ کسر صلیب کے بارے میں لکھتے ہیں۔ فُتِحَ لِیْ ھُنَا مَعْنٰی مِنَ الْفَیْضِ الْاِلٰھِی وَھُوَاَنَّ الْمُرَادَ مِنْ کَسْرِالصَّلِیْبِ اِظْہَارُ کِذْبِ النَّصَاریٰ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری۔ کتاب البیوع۔ باب قتل الخنزیر) یعنی فیض الٰہی سے مجھ پر اس کا یہ مفہوم کھولا گیا ہے کہ کسر صلیب سے مراد عیسائیوں کے جھوٹ کا اظہار ہے ۔

علامہ حافظ حجر عسقلانی شارح بخاری نے بھی یہی مفہوم لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔’’ اَیْ یُبْطِلُ دِینَ النَّصْرَانِیَّۃِ‘‘ (فتح الباری جلد 6صفحہ491) یعنی وہ عیسائی دین کو باطل کردے گا ۔علامہ مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ نووی بھی انہیں معنوں کی تصدیق وتائید کرتے ہیں (ملاحظہ ہومرقاۃ جلد 5 صفحہ 352و نووی کی شرح مسلم صفحہ 87)

یہ سوال کہ آیا فی الواقعہ آپؐ کو عالم غیب میں ہی کوئی ایسا نظارہ دکھایاگیا تھا جس سے آپؐ نے یہ پیشگوئی اخذ کی؟صحیح بخاری کی روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے(جو بہت بڑے پایہ کے راوی ہیں)مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:۔

بَیْنَمَا اَنَا نَائِمٌ اَطُوْفُ بِالْکَعْبَۃِ فَاِذَا رَجُلٌ سِبْطَ الشَّعْرِ یَنْطِفُ- اَوْ یُھْرَاق – رَأسُہٗ مَائً ۔قُلْتُ مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوا ابْنُ مَرْیَمَ۔ ثُمَّ ذَھَبْتُ اَلْتَفِتُ فَاِذَا رَجُلٌ جَسِیْمٌ اَحْمَر جَعْدَ الرَّأْسِ اَعْوَرَ الْعَیْن کَاَنَّ عَیْنَہٗ عِنَبَۃٌ طَافِیَۃٌ۔قَالُوْا ھٰذَا الدَّجَالُ اَقْرَبُ النَّاسِ بِہِ شَبْھًااِبْنُ قَطَن رَجُلٌ مِنْ خَزَاعَۃَ۔

(صحیح البخاری۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال)

’’یعنی اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا بیت اللہ کا طواف کررہا ہوں۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص جس کے بال سیدھے ہیں ، سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔میں نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا ابن مریم ہیں۔ پھر میں نے جومڑ کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بھاری جسم کا، سر کے بال گھنگھریالے، یک چشم۔اس کی آنکھ ایسی تھی گویا دانہ انگور ہے جو ابھراہوا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے۔ شکل میں ابن قطن سے زیادہ مشابہ تھا۔اوریہ شخص ابن قطن خزاعہ قبیلہ میں سے ایک شخص تھا۔‘‘

اس روایت کی دوسری سند میں یہ الفاظ ہیں:۔

اَعْوَرَ عَیْنِ الیُمنٰی

(صحیح البخاری۔ کتاب الفتن۔ باب ذکر الدجال)

یعنی داہنی آنکھ سے کانا۔اس روایت میں لفظ نَائمٌ بتاتا ہے کہ آپؐ کو ابن مریم اوردجال کا نظارہ خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اس حصہ مضمون میں مجھے اس وقت اس امر سے بحث نہیں کہ مسیح ابن مریمؑ فوت ہوگئے یا زندہ ہیں۔آیا ان کا رفع ان کی روح کا تھایا جسم کااوریہ کہ ان کے جسمانی نزول کا آئندہ کوئی امکان ہے یا نہیں۔ اس قسم کی بحث سے میرے موضوع کا کوئی تعلق نہیں بلکہ مجھے یہ دکھانا اورثابت کرنا مقصود ہے کہ سورئہ کہف میں ایک بأس شدید اوربشارت کی جو خبر دی گئی ہے اورپھر اس تسلسل میں سورئہ مریم کی جوآیات بینات نازل ہوئی ہیں اس عظیم الشان خبر کے بارے میں آنحضرت ﷺ کو آئندہ کے واقعات کا عینی مشاہدہ بھی کرایا گیا تھا اوریہ مشاہدہ حق الیقین کا درجہ رکھتا ہے۔ایسا کامل یقین کہ حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھاکر فرمایا کہ ایسا ضرور ہوگا۔اس بارے میں آپؐ کے الفاظ جو امام بخاری ؓ اورامام مسلم ؓ نے نقل کئے ہیں یہ ہیں۔

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا یَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیُفِیْضُ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ اَحَدٌ حَتّٰی تَکُونَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا۔

(صحیح البخاری۔ کتاب أحادیث الأنبیاء۔ باب نزول عیسٰی ابن مریم علیھما السلام)

’’یعنی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ قریب ہے کہ ابن مریم حکم عدل ہوکر تم میں نازل ہوں ۔وہ صلیب کو توڑیں گے۔خنزیر کو قتل کریں گے اورجزیہ منسوخ کریں گے اورمال پانی کی طرح بہائیں گے۔ یہاں تک کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔‘‘
اس روایت کا آخری حصہ ان روایتوں سے ملتا جلتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ دجال کے قتل کئے جانے کے بعد دنیا میں کامل امن ہوگا اوریہ کہ زمین سے کہا جائے گا اُگا تو وہ اُگائے گی۔اوریہ کہ اپنی برکت لوٹا اورہرچیز میں برکت ہوگی ۔اس طرح اس روایت کی دوسری سندوں کے الفاظ میں بھی اسی قسم کے تاکیدی حلفیہ الفاظ ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ یہ پیشگوئی محض اس خواب والے مشاہدے کی بناء پر ہی نہیں کی گئی بلکہ اس کے علاوہ نزول ابن مریم اوراس کی عظیم الشان مہم کے متعلق وحی الٰہی کی بھی کوئی نہ کوئی واضح تجلی ہے جو آپؐ پر ہوئی ۔بے شک خانہ کعبہ کے طواف اوردجال کی وہاں موجودگی سے اس رؤیا کی یہ تعبیر کی جاسکتی ہے کہ دجال جو مظہر شیطان ہے جب بیت اللہ کا شیطانی اغراض سے قصد کرے گا تو ابن مریم اس کی حفاظت کریں گے اورشریعت اسلامیہ کو جس کا مرکز بیت اللہ ہے قائم کریں گے اوریہ کہ ابن مریم کا یہ طواف حفاظت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہوگا کیونکہ آپؐ نے اپنے تئیں بھی خواب میں طوافِ کرتے پایا ۔ آپ ؐ کے رئویا کی یہ تعبیر عالم ملکوت کی اصطلاح کی رُو سے نادرست نہیں۔


[۔ شیخ ولی الدین محمدؐ بن عبداللہ تبریزی کی قابل قدر تصنیف مشکوٰۃ کا حاشیہ اس تعلق میں ملاحظہ ہو۔ جہاں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رئویا آپؐ کے مکاشفات میں سے ہے اورابن مریم کے طواف سے مراد یہ ہے کہ وہ دین میں پیدا شدہ فساد کی اصلاح کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا جبکہ دجال اس میں بگاڑ پیدا کرنے کا ارادہ کرے گا۔]

مگر بایں ہمہ محض اس تعبیر کی بناء پر نزول ابن مریم کی پیشگوئی اس شدّو مدّ اورتفصیل سے کرنا غیر معمولی معلوم ہوتا ہے۔ جب تک کہ اس رؤیا کے علاوہ اس کے لئے کوئی واضح مشاہدہ یا وحی الٰہی کی کھلی کھلی تجلی نہ ہو۔ سورئہ مریم کی آیات بیّنات اوران کے سیاق وسباق پر نظر ڈالنے سے یہ بات یقینی ہے کہ یہی وہ عظیم الشان تجلی وحی ہے جس کی بناء پر ابن مریم کے نزول،کسرصلیب، نیز زلزلوں کے برپا ہونے اورجنگوں کے آتش خیزمحشر کے متعلق جس میں مسلمان بھی شریک ہونے والے ہیں پورے یقین اور وثوق سے خبر دی گئی ہے۔یہ عظیم الشان پیشگوئی جو درحقیقت مجموعہ اخبار غیبیہ ہے اس کی تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو۔

سورۃ مریم کی بشارتِ عظیم کا ماحصل

سورۂ مریم میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ ویسا ہی سلوکِ رحمت آنحضرت ﷺ سے کیا جائے گا جیسا کہ زکریا ؑ نبی سے ہوا ۔ جبکہ انہیں اپنے بعد کے آنے والے وارثوں کی وجہ سے خوف و قلق پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا :۔


وَإِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآئِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِرًا فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنْکَ وَلِیًّاo یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّاo (مریم6:،7)

یعنی مجھے ڈر ہے اپنے مابعد کے وارثوں کے متعلق اور میری بیوی بانجھ ہے ۔سو مجھے ایسا جانشین عطافرما جومیرا اور آلِ یعقوب کا وارث ہو۔

یہی شدید خوف اور غایت درجہ قلق آنحضرت ﷺ کو بھی ہوا۔ جب مسلمانوں کے متعلق آپ ؐ کو یہ بتایا گیا فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاo (مریم60:) یعنی ان (عبادالرحمن ) کے بعد ایسے نالائق لوگ جانشین ہوگئے جنہوں نے نماز ضائع کر دی ا ور شہوات کے پیچھے لگ گئے۔ ان کو عنقریب اپنی کجروی کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ یہی انذار وہ بأس شدید ہے جس کاذکر سورہ کہف میں ہوا اور آنحضرت ﷺ نے اپنے بعد تین صدیوں کو اچھی صدیاں قراردیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا اور بجائے خلافت راشدہ کے ایسی بادشاہت قائم ہوجائے گی جو رعایا کو کاٹ کاٹ کرکھائے گی ۔ اس بار ے میں آپ کے الفاظ یہ ہیں

۔ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ (سنن الترمذی۔ أبواب الشھادات۔ باب منہ)

یعنی سب سے بہتر صدی میری ہے ۔ پھر ان لوگوں کی جو معاً ان کے بعد ہوں گے اور پھر ان لوگوں کی جو معاً ان کے بعد ہوں گے ۔ یعنی تابعین اورتبع تابعین ۔ اور پھر جھوٹ پھیل جائے گا۔

اُمّت کے بگڑنے کے متعلق آنحضرت ﷺ کی تصریحات

اور پھر کھلے الفاظ میں فرمایا :۔

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ و ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْدَخَلُوْا فِیْ جُحْرِضَبٍّ لاتَّبَعْتُمُوْھُمْ قُلْنَا یَارَسُوْ لَ اللّٰہِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰاریٰ قَالَ فَمَنْ؟(مسلم کتاب العلم۔ باب اتباع سنن الیہود والنصاریٰ)

یعنی تم بھی ضرور ضرور ان لوگوں کے ر سم و رواج کی پیروی کرو گے جوتم سے پہلے ہیں ، بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے تو تم بھی ضرور ان کے پیچھے جائو گے ۔ ہم نے کہا۔ یا رسول اللہ کیا یہود اور نصاریٰ کی (پیروی کریں گے ؟)
فرمایا :۔ اور کس کی ۔

رح آپؐ نے مسلمانوں کے تفرقہ کے متعلق بھی بایں الفاظ خبر دی کہ :۔

لَیَأتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ کَمَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ حتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَنْ اَتٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی اُمَّتِیْ مَنْ یَّصْنَعُ ذٰلِکَ وَاِنَّ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلّۃً تَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النّارِ اِلَّا وَاحِدَۃً۔ قَالُوْا: مَنْ ھِیَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَااَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ۔ (سنن الترمذی۔ أبواب الایمان۔ ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ)

اور ایک دوسری روایت میں آخری الفاظ یہ ہیں :۔

ثِنْتَانِ وَسَبْعُوْنَ فِی النَّارِ ووَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَھِیَ الْجَمَاعَۃُ۔(سنن أبی داؤد۔ کتاب السنّۃ۔ باب شرح السنّۃ)

’’یعنی میری امت پر ویسا ہی زمانہ آئے گا جیسا بنی اسرائیل پر آیا ۔ ان میں ایسی مشابہت ہوگی جیسی ایک جوتی سے دوسری کو۔ یہاںتک کہ اگر ان میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہوا جس نے اپنی ماں سے کھلے طور پر بدکاری کی تو میری اُمت میں بھی ویسا شخص ہوگا جو ایسا کرے گا۔ بنی اسرائیل تو بہتّر فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ اور میری اُمّت تہتّر فرقوں میں بٹ جائےگی۔یہ سارے فرقے آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون ؟ فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ ؓ کے طریق پر ہوگا‘‘ ۔
دوسری حدیث کے آخری حصہ کا ترجمہ یہ ہے :۔

’’بہتّر فرقے آگ میں ہوں گے اور ایک جنّت میں اوروہ جماعت ہوگی‘‘ ۔

یہ دوسری روایت اس طرح ختم ہوتی ہے :۔

وَاِنَّہُ سَیَخْرُجُ فِیْ اُمَّتِیْ اَقْوَامٌ تَتَجَارَیٰ بِھِمْ تِلْکَ الْاَھْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الکَلَبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصَلٌ اِلَّادَخَلَہٗ۔ (مشکاۃ المصابیح۔ کتاب الایمان۔ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

یعنی میری امّت میں یقیناً ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ شہوتیں انہیں بے قابو اوربے بس کردیں گی جیسے سگِ دیوانہ کو اس کا دیوانہ پن بے بس کردیتاہے جو اس کے رگ و ریشہ اور جوڑ جوڑ میں اثرانداز ہوتا ہے۔

آنحضرت ﷺ کی یہ تصریح درحقیقت شرح ہے سورۂ مریم کی اس آیت کی ۔

فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا o (مریم60:)

آپؐ نے فرمایا:

یُوْشِکُ أنْ یَّأْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَ لَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلَّا رَسْمُہ‘ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَّھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الْھُدیٰ عُلَمَائُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَائِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔(مشکاۃ المصابیح۔ کتاب العلم)

’’عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اورقرآن کے صرف حروف ۔ا ن کی مسجدیں بلند اورخوبصورت ہوں گی مگروہ ہدایت سے خالی ہوں گی اوران کے عالِم آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ اُنہیں سے فتنہ پیدا ہوگااورانہیں میں لوٹے گا‘‘

یہ چند ایک حوالے جو اوپر دیے گئے ہیں قیاسی نہیں بلکہ عِلم غیب کی باتیں ہیں جو علیٰ وجہ البصیرت ،پورے یقین اور وثوق سے آپؐ نے فرمائیں ۔ یہاں تک کہ اس بار ے میں جو آپؐ کو مکاشفہ ہوااس کی بناء پر آپؐ نے تین صدیوں کی آخری حد بھی مقرر فرمادی کہ اس عرصہ تک مسلمان اچھے رہیں گے اور پھر فیج اعوج یعنی ٹیڑھا زمانہ شروع ہوگا۔

آنحضرت ﷺ کا اپنی اُمّت کے متعلق قلق

اس یقینی خبر پر آپ ؐکو جوقلق ہوا ہوگا اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ زکریاؑ کی جس حالت زار اور بے قراری کانقشہ سورۂ مریم کی ابتدائی آیات میں کھینچا گیا ہے آپؐ کا غم و اندوہ اس سے کم نہیں ہوسکتا ۔ آپؐ کی اُمّت تواپنی ہے۔ غیروں کی بے راہروی اورگمراہی پر آپؐ کا یہ حال تھا کہ اللہ تعالیٰ سورۂ کہف کی ابتدائی آیات میں فرماتا ہے:

فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًاo (الکھف7:)

کہ شاید تُو اپنے تئیں ان عیسائیوں کے پیچھے مارے غم کے ہلاک کردے گا کہ وہ اس نئی خبر کو نہیں مانتے جو ان کے متعلق بیان کی گئی ہے۔ جب عیسائیوں کی ہلاکت اور ان کے انجام کی خبر پرآپ ؐ کے غم و اندوہ کا یہ حال ہے تواپنی امت کے بگڑنے کے متعلق جو وحی ہوئی اس کی وجہ سے آپؐ کا کیا حال ہوا ہوگا؟
حدیث میں آتا ہے جب آپؐ بستر مرگ پر تھے اور بیماری کا غلبہ تھا ۔شدّت بخار کی وجہ سے کبھی کپڑا اپنے منہ پررکھتے اور کبھی اٹھاتے اورآپؐ کی زبان سے اپنی بیماری کی شدّت کے بارے میں سوائے کپڑا اٹھانے اور ڈالنے کے کسی قسم کااظہار نہ ہوا لیکن اپنی اُمّت کے متعلق فکر تھا کہ مسلمان کہیں آپ ؐ کی قبر کو عبادت گاہ نہ بنالیں ۔ جیسا کہ یہودیوں اورعیسائیوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادتگاہ بنالیا ہے ۔ آپؐ بار بار فرماتے :۔

لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِ ھِمْ مَسَاجِدَ (صحیح البخاری۔کتاب المغازی۔ باب مرضی النبی ﷺ)کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اورعیسائیوں کو اپنی رحمت سے دور کردیا۔ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔

آپ ؐ کی تیمارداری کرنے والے کہتے ہیں کہ آپؐ یہ الفاظ ہم مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لئے فرماتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم بھی اسی طرح کریں جس طرح انہوں نے کیا۔ ایسی شدید بیماری میں جس میں موت نظر آرہی ہو سوائے اپنے نفس کی تکلیف کے انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ لیکن آپؐ کی ذات جو رحمۃ للعالمین ہے، جس کا دل بنی نوع انسان کے لئے غایت درجہ شفقت سے لبریز تھا۔ آپؐ کا یہ حال ہے کہ اپنی بیماری کی شدّت میں اگرکوئی فکر وغم اور گھبراہٹ ہے تو یہ کہ آپ ؐ کی اُمّت کے قدم صراط مستقیم سے نہ اُکھڑ جائیں۔
حضرت زکریا ؑ کا ساسلوک اور اس کی وضاحت

سورۂ مریم کی آیات کے نزول پر یقیناً آپؐ کی حالت زکریاؑ نبی کی حالت سے کم نہ تھی بلکہ بہت بڑھ کر تھی ۔ یہ یقینی امر ہے کہ سورۂ مریم کی آیت ذِکْرُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا (مریم3:) میں آپؐ کو آنے والے بَأْسٍ شَدِیْدٍ (الکھف3:) کی خبر کے ساتھ یہ تسلّی بھی دی گئی ہے کہ تیرا رب تجھ سے اپنی رحمت کا ویسے ہی سلوک کرے گا جیسا کہ زکریاؑ نبی سے کیا اوریہ کہ بأس شدید کے ان ایّام میں وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (مریم65:) تیرا رب تجھے بھولنے والا نہیں۔

قدیم عہد نامہ کی آخری دو کتابوں میںسے پہلی کتاب زکریاؑ نبی کی ہے۔ اس کے پہلے باب میں ہی یہ ذکر پایاجاتا ہے کہ ربّ الافواج نے ان کو اپنے کلام سے تسلّی دی کہ بنی اسرائیل جو خدا کی راہ سے برگشتہ اوراس کی ناراضگی کا مورد ہوچکے ہیں اور اس وجہ سے زمین کے چاروں اطراف میں پراگندہ اورغیر قوموں کے ظلم وستم کا تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں۔ اب خداتعالیٰ نئے سرے سے ان پر دوبارہ نظرکرم فرمائے گا اور ان پر رحم کرکے اپنے مقدّس شہر میں ان کو پھرواپس لائے گا ۔ چنانچہ لکھاہے:

’’خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں رحمت کر کے یروشلم میں پھر آیا ہوں۔ اُس میرا گھر بنا لیا جائے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے اور ایک رسّی یروشلم پر کھینچی جائے گی۔ پھر چلّا کے کہہ کہ ربّ الافواج یوں فرماتا ہے کہ میرے شہر اقبال مندی سے پھر لبریز ہوں گے۔ کیونکہ خداوند پھر صیہون کو تسلی بخشے گا اور پھر یروشلم کو مقبول کرے گا۔ ‘‘

(زکریاہ باب 1 آیت 16، 17)

یہی مضمون آٹھویں باب کا ہے۔ یعنی یہ کہ خداتعالیٰ کے کلام نے زکریا ؑ کو یہ بشارت دی کہ بنی اسرائیل جو خداتعالیٰ کے غضب کے نیچے ہیں ان پر دوبارہ رجوع برحمت ہوگا۔

مسلمانوں کے لئے بھی برگشتگی ، تفرقہ، ابتلاء اور بأسِ شدید مقدر تھا جس سے نجات دینے کی بشارت جس طرح کہ سورۂ کہف کی آیاتِ بیّنات میں دی گئی اسی طرح سورۂ مریم میں بھی دی گئی ۔ اور اس نجات کی صورت و شکل کو واضح کیا گیا کہ وہ کیونکر ہوگی اور ان کے اس احیائے ثانی اور تجدید کی مناسبت سے ہی اس بشارت کو زکریاؑ نبی کے واقعہ سے شروع کیا۔ کیونکہ اس نبی سے جووعدہ کیا گیا تھا اس کی تکمیل ان کے بیٹے یحییٰ ؑاور ابن مریم ؑکے ذریعہ سے کی گئی۔ یہ انبیاء بنی اسرائیل کے دوسرے دور کے لئے بانی مبانی تھے۔ ان کا حوالہ دیتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ زکریا ؑ اور ان کے بیٹے اور مریم اور ابن مریم ؑکا سا سلوکِ رحمت آپ ؐ کی اُمّت کے دورِ ثانی میں کیاجائے گا۔ یہ تعلق ہے سورۃ مریم کا سورۃ کہف سے اور مسلمانوں کے دورِ ثانی سے تاکہ اس آیت کے ذریعہ سے کُنتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران111:) کی غرض و غایت پوری ہو ۔یہ غرض و غایت سطح زمین پراس دنیا میں اس آسمانی بادشاہت کا قیام ہے جس کے متعلق قدیم سے انبیاء پیشگوئی کرتے چلے آئے ہیں ۔ یسعیاہ ؑ فرماتے ہیں:۔

’’دیکھو تو سابق پیشگوئیاں برآئیں اور مَیں نئی باتیں بتلاتا ہوں ۔ اُس سے پیشتر کہ واقع ہوں میں تم سے بیان کرتاہوں۔ خداوند کے لئے ایک نیا گیت گائو ۔ اے تم جو سمندر پر گزرتے ہوا ور تم جو اس میں بستے ہو۔اے بحری ممالک اور اُن کے با شندو تم زمین پر سرتا سراُسی کی ستائش کرو۔ بیابان اور اس کی بستیاں قیدار (قریش) کے آباد دیہات اپنی آواز بلند کریں گے ۔ سلع کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے ۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں گے ۔ وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے۔ اور بحری ممالک میں اُس کی ثنا خوانی کریں گے … وہ پیچھے ہٹیں اور نہایت پشیمان ہوں جو کھودی ہوئی مورتوں کا بھروسہ رکھتے ہیں۔ اورڈھالے ہوئے بتوں کو کہتے ہیں تم ہمارے اِلٰہ ہو…دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا ہوں اور میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے میں نے اپنی روح اس پر رکھی۔ اورقوموں کے درمیان عدالت کو جاری کرائے گا…کہ دائم رہے ۔ اس وقت تک اس کا زوال نہ ہوگا۔ نہ مسلا جائے گا جب تک کہ راستی کو قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں…وہ شریعت کو بزرگی دے گا۔اورعزت بخشے گا‘‘۔

(یسعیاہ :باب42)

سورۃمریم میں حضرت زکریاؑ ،یحیٰی ؑاور عیسٰیؑ کی بعثت کا حوالہ کیوں دیا گیا ہے

حضرت زکریاؑ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی بعثت کی غرض بھی درحقیقت یہی تھی کہ بنی اسرائیل کے سارے گھرانوں کو اس عظیم الشان استقبال کے قبول کرنے کے لئے تیار کیاجائے جس کے مبارک ہاتھوں سے برّو بحر میں آسمانی بادشاہت قائم ہونے والی تھی اور ابدی شریعت نے بزرگی حاصل کرنی تھی ۔ چنانچہ یحییٰ علیہ السلام یسعیاہ ؑ کی یہی پیشگوئی دہراتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ تو بہ کرو۔ کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے ۔ یہ وہی ہے جس کا ذکر یشیعاہ نبی کی معرفت یوں ہواکہ بیابان میں پکارنے والے کی آواز آتی ہے کہ خداوند کی راہ تیار کرو ۔ اس کے راستے سیدھے بنائو ‘‘۔

متی باب3 آیت 3)

حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی بنی اسرائیل کے تمام قبائل میں چکرلگا کرانہیں اس قائم ہونے والی بادشاہت کے قبول کرنے کے لئے تیار کیا۔ اور جب آپؐ نے اپنے حواریوں کو منادی کرنے کی غرض سے باہر بھیجا تو انہیں یہی ہدایت کی کہ :’’چلتے چلتے یہ منادی کرنا کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے ‘‘۔

(متی باب 10 آیت 9)

اور اس مخصوص بشارت کو انہوں نے اپنی دعا کا حصہ بنادیا :۔

’’ تیری بادشاہت آئے۔ تیری مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوئی ہے زمین پر بھی ہو‘‘ ۔ (متی باب 6آیت 10)
اور فرمایا:۔

’’ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنائوں‘‘۔(لوقا باب 4آیت 43)

پس جس طرح کہ بنی اسرائیل کے احیاء کا دورِ ثانی اس منادی سے ہوا اسی طرح مسلمانوں کا دورِ تجدید بھی اسی غرض و غایت کے ساتھ شروع ہونے والا تھا کہ تا محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے قائم شدہ آسمانی بادشاہت دوبارہ قائم ہو جس کے لئے یہ ازل سے مقدّر تھا کہ وہ دجال کے ہاتھوں پامال ہونے کے بعد پھر سنبھلے اور بحال ہو اور پہلے سے بڑھ کر شان وشوکت کے ساتھ جلوہ افروز ہو تاکہ اس کے ذریعہ سے دنیا کی ساری قوموں کے درمیان عدالت جاری اور راستی قائم کی جائے اوربحری ممالک میں جہاں شریعت کو لعنت قراردیا گیا ہے اس کو بزرگی حاصل ہو ۔ اس غرض و غایت کی مناسبت ہی کی وجہ سے سورۂ کہف کے بعد سورۂ مریم کا نزول ہوا۔ا ور اس میں بنی اسرائیل کے احیاء کے دورِثانی کا ذکرکرتے ہوئے ان تین نبیوں کا ذکر مقدّم کیا گیا ہے جنہوں نے آسمانی بادشاہت کے قائم ہونے کی اس وقت منادی کی جب اس کازمانہ قریب آنے کو تھا ۔دانیال باب 2 آیت 44میں بھی اس بات کی صراحت ہے کہ رومی بادشاہوں کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تاابد نیست نہ ہوگی ۔ اوروہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی۔اور وہ ان سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تاابد قائم رہے گی ‘‘۔

اور اسی دانیال نبی نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ دجال حق تعالیٰ کے مقدسوں کو ابتلاء میں ڈالے گااور ان سے ان کی بادشاہت چھین لے گا لیکن آخر وہ ہلاک کیاجائے گا۔ یہ ایک اجمالی پیشگوئی تھی۔ اس پیشگوئی کی تفصیل سورۃ کہف اور سورۃ مریم میںدی گئی ہے۔ سورہ کہف کی ابتدائی آیات میں مومنوں کو بأس شدید سے آگاہ کیا اوریہ بشارت دی۔ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًا o مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًاo (الکھف3:،4)کہ ان کی محنت کا بدلہ دائمی ہے۔ یعنی جو آسمانی بادشاہت ان کے ہاتھ سے قائم ہوگی وہی تاابد قائم رہے گی ۔ اور اس کے ذریعہ سے شیطانی مملکتیں ٹکڑے ٹکڑے اور نیست و نابود کردی جائیں گی ۔

(ماہنامہ الفرقان۔ اگست ،ستمبر1953ءو فروری مارچ 1954ء)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button