یادِ رفتگاں

محترمہ صاحبزادی امۃالحئی صاحبہ

(امۃالباسط ایاز۔ لندن)

اہلیہ مکرم ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب

کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے

کہاں ہو تم کہ دل بے قرار آج بھی ہے


یہ شعرکس کا ہےمجھے نہیں معلوم۔ مجھے امۃالحئی کو یاد کرتے ہوئے یاد آگیا کہ یہ تو اُن پر چسپاں ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ جمعہ پڑھنے مسجد گئی تھی اور پھر رمضان کا جمعہ اور امۃالحئی صاحبہ کی اس شدّت سے آئی کہ یہ چند سطریں ان کی یاد میں بطور دعا لکھنے بیٹھ گئی ہوں۔ دو سال قبل دونوں میاں بیوی جو بے حد پیارا محبت بھرا جوڑا تھا بیت الفتوح میں اعتکاف بیٹھے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ آج2018ء کے رمضان میں ہمارے درمیان نہ ہوں گی مگر اُن کا وہی مسکراتا، خوبصورت چہرہ اور بڑی محبت سے سب سے ملنا اور سب گھر والوں کا حال احوال پوچھنایاد آ آ کر رُلاتا ہے۔ ابھی بہت کم دن ہوئے ہیں کہ وہ اپنی آخری منزل طے کرکے ربوہ بہشتی مقبرہ میں اپنے بزرگ والدین اور پیارے بھائی کے پاس جا سوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے۔ وہ ہم سب کو جو لندن کی لجنہ کی بہنیں ہیں اُن کے لئے گہرا خلا چھوڑ گئی تھیں۔ اتنی حسین یادیں، ڈیوٹیاں دینا مگر کبھی غصّہ نہ دکھانا بلکہ بڑے تحمّل سے اِدھر سے اُدھر تیز تیز چلتی چلی جارہی تھیں۔ بچّوں سے بے حد پیار کرتی تھیں بلکہ بچّوں کے بچّوں سے ہماری پیاری صدر صاحبہ لجنہ نےیُوکے جو اُن کی بھتیجی بھی تھیں، ہمیں بتایا کہ ہر جمعہ کو سارے خاندان کو اپنے گھر بلاتیں اور خود اپنے ہاتھ سے مزیدار کھانا بناکر کھلا تیں اور بہت خوشی محسوس کرتیں۔ فریحہ صاحبہ کہتی ہیں کہ میری درمیان والی بیٹی کو اُن کے ہاتھ کا بنا ہوا Pasta بہت پسند تھا۔ جب بھی وہ جاتی تو فرمائش کرتی کہ دادی جان مجھے تو بس Pasta ہی کھانا ہے۔ جبکہ سب افرادِ خانہ کے لئے الگ سے ڈشیں تیار کی ہوئی تھیں مگر پھوپھو ضرورجھٹ سے اُٹھ کھڑی ہوتیںا ور کچن میں جاکر میرے منع کرنے کے باوجود بھی اس کے لئے Pasta بناتیں۔ وہ بچّی بہت افسردہ اور غمزدہ ہے۔ پھوپھو کی بہت سی باتیں فریحہ صاحبہ نے بتائیں جن کا ذکر کرسکنا یہاں ممکن نہیں ہے۔

مَیں نے اور میرے میاں ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز صاحب نے حضور اقدس کی خدمت میں تعزیت کے خطوط ایک ساتھ ہی لکھے تھے جس کا جواب ہم دونوں کے نام ایک ہی خط میں آیا اور اس میں جو امۃالحئی صاحبہ کی خوبیوں اور نیکیوں کا ذکر حضوراقدس نے فرمایا ہے وہ مَیں جوں کا تُوں لکھ دیتی ہوں تاکہ آپ بھی اس پیاری جانے والی بہن کے لئے دعا کریں۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تحریر فرمایا:

’’آپ کے خطوط ملے جن میں آپ نے امۃالحئی بیگم صاحبہ کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے ۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ مرحومہ انتہائی مہربان، شفیق، خدمت گزار، نیک مخلص اور باوفا خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ایسے بے بہا خوبیوں کے مالک آئندہ بھی ہمیشہ عطا فرماتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو اُن کی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق دے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین‘‘۔

ماشاء اللہ واقعی ہماری بہن بڑی ہی خوش قسمت تھیں جن کا اتنا پیارا ذکر حضورانور نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضور کے غم کو بھی ہلکا کردے اور جماعت کو بہت زیادہ خوبیوں والے احمدی عطا کرے۔ آمین

بہت بہنوں نے اس بات کو یاد کرکے اُن کا ذکر کیا کہ امۃالحئی صاحبہ ہمیشہ جلسہ پر ڈیوٹیاں دیتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ مسکراتے ہوئے چہرہ سے اِدھر اُدھر تیز تیز چلتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ کبھی بھی چہرے پر غصّہ اور ماتھے پر بَل نہیں دیکھے۔

امۃالحئی صاحبہ کی طبیعت میں نفاست اور صفائی کا بڑا خیال رہتا تھا، نوکر کے ساتھ ساتھ کام کرنا اور کروانا پسند کرتی تھیں۔ اپنی بیماری کا عرصہ بڑے صبر اور ہمّت سے گزارا۔ ہماری لجنہ لندن کی روحِ رواں تھیں۔ مجھے یاد ہے جب وہ سند خوشنودی کے لئے دعوتِ لجنہ میں مدعو تھیں، مَیں ان کو جاکر ملی۔ میرے حال احوال پوچھنے پر بتایا کہ دیکھنے میں تو اچھی ہوں مگر ابھی تکلیف باقی ہے، دعاؤں میں نہ بھولیں، جاری رکھیں۔ یہ تھی میری اُن سے آخری ملاقات۔

پھر گھر پر کئی بار فون کیا مگر زیادہ بات نہ کرسکتی تھیں، کمزوری بڑھتی گئی اور آخر ہماری یہ بہن ہم سب کو چھوڑ کر اپنی آخری منزل کی طرف رخصت ہوگئیں۔ اِنَّالِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اب ہم کافی اداس ہیں اور اکثر مجلسوں میں آنکھیں اُن کو ڈھونڈتی ہیں اور وہ پیاری سی آواز بھی کانوں میں آتی ہے جو مجلس میں سٹیج پر آکر ماحول میں خاموشی اور منظّم ہونے کے لئے اعلان کرنا بڑا پیارا انداز ہوتا تھا اور محبت کا اظہار بھی ہوتا تھا اپنی لجنہ کی بہنوں کے لئے۔ جب ریجنل صدر تھیں اور پھر جب لندن Move ہوگئیں اور حلقے کی صدر منتخب ہوئیں تو بعض میری جاننے والی بہنوں کو عاملہ میں لیا اور کام سکھاکر اُن سے کام کروایا اور ثواب حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا۔ ان بہنوں نے مجھے خود آپ کی یہ انوکھی خوبی بتائی کہ ہمیں آج تک کسی نے لجنہ میں کوئی کام نہ دیا تھا اور اب ہم بہت خوش بھی ہیں اور باقاعدہ میٹنگز میں بھی جاتی ہیں اور بہت اچھی باتیں سنتی اور سیکھتی ہیں۔ صاحبزادی امۃالحئی صاحبہ کی بہت سی خوبیوں سے ہم نے استفادہ کیا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپنے والدین کی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی نے جہاں اپنے خاندان کو چھوڑ کر لندن اپنے میاں ڈاکٹر حامداللہ صاحب کے ساتھ زندگی کا لمبا عرصہ اتنی عمدگی اور حسن سلوک سے گزارا کہ باوجود زبان اور کلچر کے فرق کے پٹھان سسرال کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ امۃالحئی صاحبہ کو کروٹ کروٹ جنّت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور اُن کے بچوں کا خود حامی و ناصر ہو۔ عزیزہ عطیہ تو ربوہ سے آن کر اُن کی خدمت کے لئے پاس ہی رہی۔عزیزہ عینی بھی بہت غمزدہ ہے اور اپنی اُمّی کو بہت یاد کرتی ، دعا کرتی ہے۔ دونوں بیٹے اور بہوئیں اپنی اپنی جگہ اس صدمے کو دلوں میں لئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محترم ڈاکٹر حامداللہ صاحب کو اور سب عزیزوں کو، لواحقین کو صبرِجمیل عطا کرے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button