سیرت النبی ﷺ

سخیوں کے سخی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا حاتم طائی کی اولاد سے حسن سلوک

(حافظ مظفر احمد)

قبیلہ طے کےحاتم طائی کا نام اپنی سخاوت کی وجہ سے ملک عرب میں مشہور و معروف تھااور اس کی سخاوت کے قصّے ضرب المثل اور زبان زدِ عام تھے۔بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعدحاتم نے اپنی دولتمند اورسخی والدہ کی آغوش میں تربیت پائی۔وہ بچپن میں ہی اپنا کھانا وغیرہ ساتھیوں کو دے دیا کرتاتھا۔دادا نے اونٹوں کی نگرانی کا کام اس کے ذمہ لگایا تو حاتم نے اجنبی مہمانوں کے لیے تین اونٹ ذبح کردئیے اور باقی ان میں تقسیم کرکے دادا کے سامنے فخریہ اظہارکیا کہ میں نے آپ کے خاندان کا نام دنیا میں روشن کر دیا ہے۔
حاتم کی دوسری شادی یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ سے ہوئی تھی۔دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے تھے جن میں سے بیٹی سفانہ اور بیٹے عدی کورسول اللہﷺ کے احسان کے صدقے قبول اسلام کی سعادت ملی۔
اس کی بیوی ماویہ سے حاتم کی غیر معمولی سخاوت کا کوئی واقعہ سنانے کو کہا گیا تو اس نے بتایا کہ قحط کا زمانہ تھا۔خود ہمارا گھرانہ حاتم سمیت فاقہ سے بدحال تھا کہ رات کے وقت ایک عورت نے آکراپنے بھوکے بچوں کے کھانے کے لیے فریاد کی۔حاتم نے اٹھ کر اپنا گھوڑا ذبح کر کے پہلے اسے کھانےکےلیےدیا۔پھراپنے بال بچوں کو بھی جگاکرکھلایااور جب تک اپنی قوم کے ایک ایک گھر میں جاکر وہ گوشت تقسیم نہ کر لیا،خود کھانا نہیں کھایا۔ (البدایہ والنھایہ جزء2 صفحہ214)

ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دعویٔ نبوت سے33 سال قبل حاتم طائی فوت ہوگیا اور رسول اللہﷺ کا زمانہ نہ پاسکا۔اگر وہ زندہ رہتا تو دیکھتا کہ اس شہ عرب کے جودوسخا کی بارش کسی ایک علاقہ پر نہیں بلکہ ساری دنیا اور ہرمذہب و ملّت کے لیے تھی کہ وہ رحمة للعالمین بن کر آئے تھے اور ان کی سخاوت اپنا نام روشن کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض للہ اور ہمدردیٔ خلق کی خاطرعام تھی کہ خود حاتم کا خاندان بھی اس سے محروم نہ رہا کہ عرب کے اس مشہورسخی کے خاندان پر بھی رسول کریم ﷺ کےبڑےاحسان ہیں۔

رسول اللہﷺ کی سخاوت کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ‘‘آپﷺ سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپؐ کی سخاوت رمضان کے مہینہ میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی، جب جبریل ؑ آپؐ سے ملاقاتیں کرتے تھے اس وقت آپؐ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔’’ (بخاری کتاب الصوم باب 7)

ماہ رمضان کی آمد آمد پر آپﷺ قیدیوں کو رہا فرما تے اورہر سوال کرنے والے کو عطا کرتے تھے۔ (شعب الایمان بیھقی جزء5 ص236)

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی سائل کا سوال پورا کرنے کا ارادہ فرماتے تو جواب میں ہاں فرماتے اوراگرآپؐ کا جواب نفی میں ہوتا تو خاموش رہتے- چنانچہ کبھی کسی کے لئے ‘‘نہ’’کا کلمہ آپؐ کی زبان پر جاری نہیں ہوا(یعنی کسی کو کبھی نفی میں جواب نہیں دیا)۔ (مجمع الزوائد للہیثمی جلد 9صفحہ 13 بیروت)

ایک دفعہ آپ ؐ کے پاس ایک شخص آیا، آپؐ نے بکریوں سے بھری ایک وادی اسے عطا فرما دی۔(مسلم کتاب الفضائل باب 14)دوسری روایت میں ہے کہاس نو مسلم عرب سردار نے آپ ؐ سے وادی کے درمیان زمین کا بھی مطالبہ کردیا- آپ ؐ نے زمین کی چراگاہیں اور بکریوں کے ریوڑ سمیت سب کچھ اسے عطاکر دیا ۔یہ واقعہ اس کے لئے معجزے سے کم نہ تھا۔وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا تو اس حیرت انگیز تاثر کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکاکہ اے میری قوم!تم سب مسلمان ہو جاؤ۔محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا دیتے ہیں کہ فقر و فاقہ سے بھی نہیں ڈرتے۔ (مجمع الزوائد للہیثمی جزء8 صفحہ572)

فتح مکہ اور فتح حنین کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جودو کرم کے ایسےحیرت انگیز نظارے دیکھےگئے جن کی نظیر نہیں ملتی۔آپ نےسردارِمکہ صفوان بن امیہ کوتالیف قلب کی خاطر سو اونٹ عطا فرمائے ، پھر سو اونٹ دئیے، پھر سو اونٹ دئیے (گویا تین صد اونٹ عطا فرمائے) صفوان خود کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب یہ عظیم الشان انعام عطا فرمایا اس سے پہلے آپ ؐ میری نظر میں سب دنیا سے زیادہ قابل نفرت وجود تھے لیکن جوں جوں آپ ؐ مجھے عطا فرماتے چلے گئے، آپ ؐ مجھے محبوب ہوتے چلے گئے یہاںتک کہ آپ ؐ مجھے سب دنیا سے زیادہ پیارے ہو گئے۔ (مسلم کتاب الفضائل باب 14)

الغرض ہمارے صاحب خلق عظیم آقاکے عالیشان جودوسخاکی کوئی نظیر نہیں۔ مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے

بہرایں خاتم شداست اُوکہ بجود
مثل اُو نے بُودنے خواہندبود

کہ رسول اللہؐ اس لئے خاتم (النبیین)ٹھہرے کہ جودوسخا میں نہ آپ ؐ جیسا کوئی ہوا ،نہ آئندہ ہوگا۔

آپؐ کے جودو سخا کےبے شمار واقعات میں سے اس وقت خاندانِ حاتم طائی پر احسان کے دلچسپ واقعات کا تذکرہ مقصود ہے:

فتح مکہ کے بعد جنگ حنین میں رسول اللہﷺ کو فتح حاصل ہوئی تو بے شمار بکریوں،اونٹوں وغیرہ کے مال غنیمت کے ساتھ چھ 6ہزار عورتیں ومرد قید ہوکر غلام بنے۔ ان قیدیوں میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی تھی۔ روایت ہے کہ ‘‘فتح حنین کے بعد جب حاتم طائی کے قبیلہ کے قیدی رسول کریمؐ کی خدمت میں پیش ہوئے تو ان میں ایک حسین و جمیل اور خوبصورت لڑکی بھی تھی۔راوی کہتا ہے کہ اسے دیکھتے ہی انسان اس پر فریفتہ ہوتا تھا میں نے دل میں سوچا کہ رسول کریمؐ سے عرض کروں گا کہ یہ مجھے عطا فرمادیں مگر جب اس لڑکی نے رسول کریمؐ سے گفتگو کی تو حسن و جمال سے کہیں بڑھ کر اس کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔اس نے کہا:اے محمدؐ!آپؐ ہمیں آزاد کر دیں تا قید کی ذلّت ہمارے دشمن قبائل کے لیے موجب شماتت نہ ہو۔خود میرا باپ دوسروں کی پناہ کا بہت احترام کرتا تھا۔قیدیوں کو آزاد کرتا تھا۔بھوکے کو کھانا کھلاتا تھا۔ننگے کو لباس مہیا کرتا تھا،مہمان کی مہمان نوازی کرتا اور کھانا کھلاتا تھا،سلام کو عام کرتا تھا اور کسی ضرورتمند کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتا تھا۔میرے اس عظیم باپ کا نام حاتم طائی تھا۔

نبی کریمﷺنے فرمایا:اے لڑکی!یہ تمام خوبیاں جو تم نے بیان کیں، ایک سچے مومن میں پائی جاتی ہیں۔کاش تمہارا باپ ہمارا زمانہ پاکر اسلام قبول کرنے کی توفیق پاتا۔ہم اس سے محبت و الفت سے پیش آتے اور اس پر بہت لطف و کرم کرتے پھر آپؐ نے فرمایا :اس لڑکی کو آزاد کر دو۔یہ اس باپ کی بیٹی ہے جو اعلیٰ اخلا ق پسند کرتا تھا اور خدا کو بھی عمدہ اخلاق بہت پسند ہیں۔ایک صحابی نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ!کیا خدا بھی اعلیٰ اخلاق پسند کرتا ہے؟ رسول کریمؐ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت بھی حسن خلق سے ملتی ہے۔‘‘ (دلائل النبوة للبیہقی جلد5 صفحہ341)

یوں حاتم طائی کی بیٹی کو دربارِ رسالت سے انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا گیا اور وہ مسلمان ہوکر واپس لوٹی۔

اس کے بھائی اورحاتم طائی کے بیٹے عدی کے ساتھ رسول اللہﷺکا حسن سلوک بھی کچھ کم نہیں۔وہ خودبیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کا سردار تھا اور عرب رواج کے مطابق مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کرتا تھا۔جب میں نے رسول اللہﷺ کی بعثت کے بارہ میں سنا تو مجھے یہ پیغام ناگوار گزرا۔اور میں نے اپنے ایک غلام چرواہے کو بکریاں چَرانے کے کام سے فارغ کرکے یہ نئی ذمہ داری سونپی کہ جب تمہیں اس علاقے میں محمدؐ کے لشکروں کے آنےکا پتہ چلے تو مجھے اس کی اطلاع کرنا۔ ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا کہ محمدؐ کے حملے سے بچنے کے لیے جو حفاظتی تدبیر تم نے کرنی تھی کر لو کیونکہ محمدؐ کے لشکر سر پر ہیں۔عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ منگوائے اور اپنے اہل و عیال کو ان پر سوار کیا اور ملک شام میں اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے پاس جاکر پناہ لی۔ میری ایک بہن اور کچھ دیگر رشتہ دارپیچھے رہ گئے تھے۔
بہن بیچاری پر یہ مصیبت گزری کہ وہ جنگ حنین میں قید ہوگئی۔جب قیدی رسول اللہﷺکے سامنے پیش ہوئے اور حضورؐ کو پتہ چلا کہ حاتم طائی کا بیٹا ملک شام کو بھاگ گیا ہے۔میری بہن(سفانہ) کاآپ سے تعارف ہوا تو اس کے ساتھ بہت احسان کا سلوک کیا اور اسے آزاد کرکے پوشاک، سواری اور اخراجات عنایت فرمائے۔
عدی بیان کرتے ہیں کہ بہن مجھے ڈھونڈتی ہوئی ملک شام آنکلی۔وہ مجھے کوسنے لگی کہ تم بہت ظالم اور قطع رحمی کرنے والےہو۔اپنی بہن اور رشتہ داروں کو پیچھے چھوڑ آئے۔میں نےنادم ہوکر معذرت کی۔وہ بہت دانا خاتون تھی۔میں نے اس سے پوچھا کہ اس شخص (محمدؐ) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا کہ میری مانو تو جتنا جلدی ممکن ہے ان سے جاکر ملاقات کرو۔ اگر تو وہ نبی ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو تمہارا ان کے پاس جلد جانا باعث فضیلت ہے اور اگر صرف ایک فاتح بادشاہ ہیں تو بھی تمہیں شاہی قربت نصیب ہوگی۔میں نے غور کیا کہ واقعی مشورہ تو بہت عمدہ ہے۔

اس طرح عدی کی بہن نے اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کیے بغیر حکمت عملی سے انہیں حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے آمادہ کر لیا۔

عدی کہتے ہیں میں مدینہ پہنچا اور اپنا تعارف کروایا تو حضورؐ نے مجھے اپنے ساتھ لیااور گھر جانے لگے۔راستے میں ایک کمزور بوڑھی عورت ملی، اس نے آپؐ کو روک لیا۔ آپؐ دیر تک کھڑے اس کی بات سنتے رہے۔میں نے یہ انکساری دیکھ کر دل میں کہا: یہ شخص بادشاہ تو نہیں لگتا۔پھر جب حضورؐ کے گھر پہنچا تو کمرے میں محض ایک گدیلا پڑا تھا جس کے اندر کھجور کی شاخیں بھری تھیں۔

حضورؐ نے اپنے دستِ مبارک سے اسے بچھا کر مجھے بیٹھنے کے لیے ارشاد فرمایا ۔مَیں نے عرض کیا کہ آپؐ اس پر تشریف رکھیں۔حضورؐ نے فرمایا کہ نہیں اس پر تو آپ ہی بیٹھیں گے اور خود حضرت محمد مصطفیٰﷺ زمین پر بیٹھ رہے۔ میں نے پھر سوچا کہ خدا کی قسم یہ تو بادشاہوں والی باتیں نہیں۔پھر حضورؐ مجھے بار بار فرماتے رہے کہ عدی تم اسلام قبول کر لو امن میں آجاؤ گے۔میں نے عرض کیا کہ میں پہلے سے ایک دین پر قائم ہوں۔آپؐ نے فرمایا : مجھے تمہارے دین کا تم سے زیادہ پتہ ہے۔میں نے تعجب سے پوچھا: مجھ سے زیادہ؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم فلاں عیسائی فرقہ سے ہونا!میں نے عرض کیا:جی ہاں۔آپ ؐنے فرمایا تم بطور عرب سردار قدیم دستور کے مطابق مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ بھی وصول کرتے ہو۔میں نےعرض کیا:جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:تمہیں پتہ ہے تمہارے دین کے مطابق یہ طریق جائز نہیں ہے۔میں نے عرض کیا :جی حضور۔

یہ سن کر میں نے دل میں کہا کہ خدا کی قسم! یہ تو اللہ کی طرف سے بھیجا گیا نبی معلوم ہوتا ہے جو یہ علم رکھتا ہے۔ پھر حضورؐ نے فرمایا:اے عدی! تمہیں اس دین میں داخل ہونے میں یہی روک ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ اس کی پیروی کمزور اور غریب لوگوں نے کی ہے جنہیں سارے عرب نے دھتکار دیا ہے۔خدا کی قسم! ان لوگوں میں مال کی اتنی کثرت ہوگی یہاں تک کہ مال لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ پھر فرمایا تمہارے اس مذہب کے قبول کرنے میں دوسری روک یہ ہوسکتی ہے کہ ہماری تعداد کم ہے اور دشمن زیادہ تو سنو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ دین غالب آئے گا اور ایک شتر سوار عورت تنہا عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بے خوف و خطر سفر کرے گی اور اکیلی بیت اللہ آکر طواف کرے گی۔پھر فرمایا:تمہارے اسلام قبول کرنے میں تیسری روک یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے پاس بادشاہت نہیں۔خدا کی قسم بڑے بڑے محلات مسلمانوں کے لیے فتح کیے جائیں گے۔ اسلام کی شوکت اور فتح کا یہ زمانہ بہت قریب ہے۔رسول اللہﷺ کی یہ مؤثر تبلیغ سن کر حاتم طائی کے بیٹے عدی نے بھی اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہﷺ کے غلاموں میں شامل ہوگیا۔ (السیرة الحلبیة جلد3 صفحہ225-226،بیروت)

رسول اللہﷺ نے عدی بن حاتم کو اپنی قوم کے صدقات(محاصل) پر عامل مقررفرمایا۔ (سنن الکبریٰ للبیھقی جزء7 صفحہ15)

عدی بن حاتم اپنی قوم کا معززسردار تھا۔رسول کریم ﷺ نے بھی ہمیشہ اس سےمحبت اور عزت کا سلوک فرمایا۔وہ خودرسول اللہﷺ کے شفقت و احترام کایہ ذکر بھی کیا کرتے تھے کہ میں جب بھی نبی کریمﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا۔آپؐ نےہمیشہ میرے لیے مجلس میں کشادگی پیدا کرکے جگہ بنائی یا جنبش فرمائی تاجگہ پیدا ہو۔ایک روز آپؐ کسی گھر میں تشریف فرماتھے جو آپؐ کے صحابہ سے بھرا ہوا تھا۔جونہی آپ کی نظر مجھ پر پڑی، آپؐ نے میرے لیے کشادگی پیدا کی اورمیں آپ کے پہلو میں جاکر بیٹھ گیا۔ (معرفة الصحابة لابی نعیم جزء4 صفحہ2191)

معلوم ہوتا ہے حاتم طائی کی سخاوت کی نیکی اور ادا اللہ تعالیٰ کو بھی ایسی پسند آئی کہ ان کی اولاد کو اسلام کی نعمت سے مالامال کردیا اور وہ رسول اللہﷺ کے احسانات کے مورد ٹھہرے۔

اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button