متفرق مضامین

پاکستان میں مسلمان کہلانے کے لئے محض کلمہ طیّبہ کافی نہیں رہا

(طاہر احمد بھٹی۔جرمنی)

سوال یہ ہے کہ اگر ارکان اسلام میں سے کلمہ طیبہ پر اقرار اور ایمان کافی نہیں ہے تو اوائل اسلام سے لے کر پاکستان میں احراری مُلّانوں کے نئے بہروپ، تحریک ختم نبوت، تک لوگ صرف کلمہ کا اقرار کر کے ہی کیوں مسلمان ہو جاتے تھے؟

زندگی میں کئی بار رمضان کے روزے نہ رکھنے والا عرف عام میں مسلمان ہی کہلاتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں ایک،دو یا بعض دفعہ پانچوں نمازیں نہ پڑھنے والا بھی عیدین یا جمعہ کو مسلمان کے طور پر ہی جا شامل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی کٹوتی سے پہلے بینک سے پیسے نکال کر اگلے ماہ دوبارہ جمع کروانے والوں کو بھی غیر مسلم قرار نہیں دیا جاتا۔ اور حج بیت اللہ کی تو ویسے ہی ہر کسی کو توفیق اور موقع نہیں مل پاتا۔ لیکن اگر کوئی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ کا انکاری ہو تو اس کو عرف عام میں کوئی مسلمان نہیں سمجھتا۔
یہ ایک طے شدہ اور شائع و متعارف مسئلہ ہے کہ محمد عربی صلی اللہ و علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر اسلام قبول کرنے کا یہی طور رہا ہے تا وقتیکہ پاکستان میں آئینی ترامیم، خطبات اقبال اور فکر مودودی کی روشنی میں سعودی پالیسی کی آشیرباد کے ساتھ اس کو تبدیل اور ترک کرنے کا احمقانہ فیصلہ نہیں ہوا۔ اوردلچسپ بات یہ کہ خود سعودی عرب میں آج بھی ایسا کوئی سرکاری حلف نامہ رائج نہیں ہے۔

اب نوبت بایں جا رسید کہ مَیں اگر یہ حلفیہ اقرار دوں کہ میرا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ پہ پختہ اور کامل ایمان ہے تو مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مجھے’’ آئین اور قانون کی غرض سے‘‘ مسلمان نہیں تسلیم کیا جائے گا جب تک میں اس کے ساتھ:

اوّل:ختم نبوت پر غیر مشروط ایمان کا حلف نہ دوں۔

(قطع نظر اس کے کہ مجھے ختم نبوت کے معانی، تشریح یا اس پر آئمہ اسلام کے تاریخی اور تفصیلی مباحث اور موقف کا علم ہو یا نہ ہو!)

دوم:میں نامزد کر کے مرزا غلام احمد قادیانی، بانی جماعت احمدیہ کی تکذیب نہ کروں۔

(قطع نظر اس کے کہ مجھے ان کے دعاوی، دلائل اور نشانات کا بھی پتہ ہو یا نہ ہو مگر میں نے ان کو جھوٹا کہنا ہے اور دستاویزی حلف کے ساتھ کہنا ہے)

اور سوئم یہ کہ:مجھے آئندہ کسی بھی قسم کے مصلح، ریفارمر، یا مہدی اور مسیح موعود کی آمد کے امکان کا بھی انکار کرنا ہے۔

(جب کہ چودہ صدیاں میرے آباؤ اجداد کو اکناف عالم میں چودھویں صدی، امام مہدی،امام غائب اور مسیح کی آمدِ ثانی گھٹی میں پلائی جاتی رہی)

تو اَب منظر نامہ یہ بنا کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئینی طور پر ترمیم کر کے اور صدارتی آرڈیننس نافذ کر کے، کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ کو(نعوذ باللہ) غیرمؤثر اورInvalid کرنے کی ناپاک اور مذموم حرکت ہوئی ہے۔ اور عامّتہ الناس اس سے بے خبر تھے ، ہیں اور اگر بیدار نہ ہوئے تو رہیں گے۔

اس کو لفظی بازیگری نہ سمجھیں…کیونکہ یہ امر واقع ہے۔پاکستان میں کسی مسلمان یا کسی بھی غیر مسلم کے لئے اب قانون اور آئین کی تعریف کے مطابق محض کلمہ طیبہ کا اقرار مسلمان( یعنی سرکاری،قانونی اور آئینی اعتبار سے مسلمان) کہلانے کے لئے کافی نہیں رہا۔ اگر ہے تو اس حلف پہ مذکورہ بالا تین نکات پہ دستخط کئے بغیر مسلمان کا شناختی کارڈ، یا پاسپورٹ لے کے دکھائیں تو۔۔۔؟

فوج میں بھرتی ہونا، الیکشن میں حصہ لینا یا ملک کے کلیدی عہدے کا حصول تو بہت دُور کی بات ہے، وہ تو بقول شخصے، کب دادا مریں گے اور کب بیل بٹیں گے۔ آپ صرف عام مسلمان شہری کا شناختی کارڈ نہیں لے سکتے۔ اب لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ اس کے لئے پاکستان میں کافی نہیں رہا۔ اور مُلّانوں کی تو روٹی اور رزق اس سے بندھا ہے۔ دانشوروں کی عقل اور ارباب اختیار کی فراست بھی کہیں کھو گئی ہے کہ ان کو یہ نظر نہیں آتا۔ یا زیادہ درست یہ کہ دیکھتے ہوئے بھی چپ ہیں اور وقتی مفاد پہ دُور مستقبل کی قبریں کھود رہے ہیں۔

ایک مثال دور حاضر کی دے کر بات آگے بڑھاتے ہیں۔ چوہدری شوکت محمود ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، بعد از ریٹائرمنٹ قرآن حفظ کیا اور اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھاتے ہیں۔ جن دنوں ڈی سی اسلام آباد تھے اورF-10 میں ان سے کبھی ملنے چلا جاتا تھا کیونکہ شعری اور ادبی ذوق بھی کمال رکھتے تھے۔ موصوف نے بتایا کہ میں جب اسسٹنٹ کمشنر ہارون آباد تھا تو مقامی قبرستان میں احمدی کی تدفین پر جلوس نکلا۔ میں نے مولویوں اور احمدیوں کے صدر جماعت کو دفتر طلب کیا اور پوچھا کہ بتائیں مسئلہ کیا ہے؟ مولویوں نے کہا کہ یہ غیر مسلم ہیں اس لئے ان کی تدفین مشترکہ قبرستان میں نہیں ہونے دیں گے۔ میں نے احمدی صدر جماعت سے کہا کہ آپ کلمہ پڑھتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کلمہ سنایا جو یہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ ہی تھا۔ ترجمہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔ مولویان لپک کے بولے ۔۔۔۔۔۔اس نے ’آخری رسول ‘نہیں کہا۔ میں نے کہا کہ مولا نا صاحب! عربی کا کونسا لفظ ہے اس کلمے میں جس کا ترجمہ آخری ہے اور اس احمدی نے ڈنڈی مار کر وہ نہیں کہا؟ بولے ایسا لفظ تو نہیں مگر آخری کہیں گے تو مرزا جھوٹا ہو گا۔ جس کو یہ جھوٹا نہیں کہتے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحبان یہ کلمہ گو معزز زمیندار ہیں۔ اب اگر آپ نے کوئی پھڈّا کیا تو میں آپ کا ترجمہ تو ٹھیک نہیں کروا سکتا لیکن نقض امن میں آپ سب کو بند کر دوں گا۔ اور پھر وہ تدفین وہیں ہوئی…۔
لیکن پچھلے ہفتے ڈسکہ میں احمدی کی تدفین دوسرے گاؤں میں جا کر کرنا پڑی۔ وقت بہت بدل گیا ہے۔ اسلام اور شریعت محمدی کو پاکستان میں بطور خاص مولوی ہائی جیک کر چکا ہے اور ایسا ہوا ہے کم نظر اور ریڑھ کی ہڈی کے بغیر لیڈر شپ کی وجہ سے۔

ضمنی طور پر ایک اور گزارش بھی کر دوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو باقاعدہ وفد بن کے نام نہاد علماء نے کہا کہ ہم آپ کی غیر مشروط حمایت کریں گے بس آپ احمدیوں کو مسلم لیگ کی رکنیت سے نکال دیں۔ وہ قائد اعظم تھے، …۔ وہ دولتانہ، بھٹو،ضیاء،شریف برادران یا عمران خان نہیں تھے۔ قائد اعظم کا جواب تھا کہ جو خود کو مسلمان کہیں مَیں ان کو مسلم لیگ سے نہیں نکال سکتا۔ مگر یہ قولی جواب تھا۔ فعلی جواب یہ کہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کی صدارت کا عہدہ سر ظفراللہ خاں کو دیا اور آپ کے نیشنل آرکائیوز آف پاکستان والے اس سال کا ریکارڈ اور تصاویرذرا چھپا کے ہی رکھتے ہیں۔ گویا قائد اعظم کی غلطی پہ پردہ ڈالنے کی بچگانہ کوشش…!

رہا سوال دیگر مذکورہ بالا عمائدین کا!تو سنیں دولتانہ کے والد قادیان والوں سے رابطہ اور صاحب سلامت کو اعزاز سمجھتے تھے۔ بھٹو اور ابتدائی پیپلز پارٹی سر تا پا احمدیوں کی ممنون احسان تھی اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے۔ شریف برادران جب پاؤں جلتے تھے ایم ایم احمد صاحب کو پاکستان بلا کر مدد لیتے تھے اور سرکاری پروٹوکول تو راقم نے خود دیکھا ہے۔ عمران خان سے قائد اعظم جیسی استقامت اور اَپ رائٹ سٹینڈ لینے کی توقع رکھنے کے تصور سے بھی اُبکائی آتی ہے۔ موصوف کے فرشتوں کو بھی تصورِ خاتمیت کی خبر نہیں۔ لیکن عاطف میاں کے ایشو پر ان کی ہکلاہٹ اور مولوی کے سامنے ہکلاہٹ کے بعد وہ اس کے اہل نہیں کہ ان سے کوئی بڑا اقدام یا فیصلہ صادر ہو۔ پاکستانی معاشرت اور سیاست کے ڈوبتے ڈولتے عوام اگر ان پہ ہاتھ ڈالتے ہیں تو ان کی بے چارگی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن…مجموعی طور پر اس وقت لیڈر شپ کی جگہ ان لوگوں نے سنبھال رکھی ہے جن کے پیر جلیں تو وہ اپنے بچے پیروں تلے رکھنے سے بھی نہ ہچکچائیں۔ اقلیتوں اور ان کے حقوق کے لئے کھڑے ہونے والےاَور ہوں گے…مگر ان میں نہیں۔ اُن لوگوں کے چہرے اور چال ڈھال ہی اَور ہوتے ہیں۔ ابھی انفرادی روشنی کی مشعلیں جلائے رکھیں۔ اور مُلّائیت کا عفریت ’قادیانی قادیانی‘کرتا جب آپ اور آپ کی انسانیت پر اور عقائد پر حملہ آور ہو تو اس سے خود ہی بچیں۔ ارباب اختیار تو اس سے دم دارُو کروا کے اسمبلی جاتے ہیں۔اس وقت کلمے کا اقرار مولویت کے انکار کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گیا ہے اور آپ کو اپنی یہ جنگ خود لڑنی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button