از افاضاتِ خلفائے احمدیت

روزوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہونی چاہئیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نےخطبہ جمعہ فرمودہ 31؍دسمبر 1965ء بمقام مسجد مبارک ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

آج میں ماہ رمضان کی عبادات فرائض اور نوافل کے متعلق کچھ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتا ہے۔

اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِ کُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَاعَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حتَیّٰ یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلی الَّیْلِ وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُاللّٰہِ فلَا تَقْرَبُوْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰـتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ۔

(البقرہ188:)

اس آیہ کریمہ میں روزہ کے متعلق ایک بڑے حسین پیرایہ میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ خداتعالیٰ کی نگاہ میں صوم (روزہ) کسے کہتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں روزہ رکھنے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانے کی اجازت ہے۔

عرب کے دستور کے مطابق اور ان کے خیال کی رو سے روزے کے دنوں میں ایسا فعل رات کو بھی جائز نہیں خیال کیا جاتا تھا فرمایا وہ تمہارے لئے ایک قسم کا لباس ہیں۔ یعنی تقویٰ کا ایک پیرہن تم ان کے ذریعہ حاصل کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی ان کے لئے تقویٰ کا پیرہن ہو۔ گویا تم ایک دوسرے کے لئے تقویٰ اللہ کے بعض تقاضوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنتے ہو۔

اس کے بعد فرمایا عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ (الایہ)کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے یہ حق تلفی کرنے کے معنی نئے ہیں۔ کیونکہ پہلی بار غالباً حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر میں یہ معنی بیان فرمائے ہیں۔ ورنہ پہلے مفسر اس کا کچھ اور ہی ترجمہ و تفسیر کیا کرتے تھے۔

تو فرمایا مجھے معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے اور جہاں تک تسکین نفس کی تمہیں اجازت دی گئی ہے۔ تم اس سے بھی پرہیز کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر اس نے اپنے فضل سے اپنا یہ حکم تمہارے لئے کھول کر بیان کر دیا۔ اور عَفَا عَنْکُمْ اس طرح تمہاری حالت کی اصلاح کر دی اور تمہاری عزت کے سامان کر دئیے۔

یہاں خداتعالیٰ نے ایک بنیادی اصول کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ خداتعالیٰ کی رضا کی راہوں کی تعیین اگر بندہ اپنے طور پر کرنے لگے۔ تو وہ اپنے حقوق بھی تلف کر جاتا ہے اور دوسروں کے حقوق کا تو کہنا ہی کیا۔ اس لئے دین کے معاملہ میں یہ ضروری تھا کہ قرب کی راہوں اور شریعت کے اصول کی تعیین آسمان سے وحی الٰہی کے ذریعہ کی جائے۔ ورنہ انسان غلطیاں کرے گا۔ اور اپنے بھی اور دوسروں کے حقوق بھی تلف کر دے گا۔

تو فرمایا فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ اسی لئے ہم نے تمہارے حقوق کی حفاظت کے لئے اس شریعت کو نازل کیا ہے اور تمہارے فائدے کے لئے ہی سب احکام اُتارے گئے ہیں۔ پس اب تم بلاخوف لَوْمَۃَ لَائِمِ اپنی بیویوں کے پاس جائو۔ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر کیا ہے۔ اس کی جستجو کرو۔

وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ کے دو اور معنی بھی ہیں۔ اوّل بغی کے معنی طلب کرنے کے ہوتے ہیں اور کتاب ان فرائض کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو وحی کے ذریعہ بطور شریعت انسان کو دیا جاتاہے۔

فرمایا کہ تم روزے اس نیت سے رکھو۔ یا یہ کہ ہم نے روزوں کو تم پر اس لئے فرض کیا ہے کہ تا تم یہ سبق سیکھو کہ کتاب اللہ (یعنی آسمانی شریعت) کو اور اس کے تمام احکام کو اپنا مطلوب بنانا ہے۔ گویا وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض تمہارے لئے مقرر کئے ہیں۔ ان کو اپنا مطلوب اور مقصود بنائو۔ (اس کی قدرے زیادہ تفصیل میں آئندہ جا کر بیان کروں گا۔ جہاں روزہ کی حکمت بیان کی جائے گی)۔

تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کے دو حصے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اس بنیادی اصل کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا۔ کہ ہم نے روزے کو اس لئے فرض کیا ہے تا تم یہ سمجھ لو اور خوب پہچان لو کہ تمہاری ترقیات کے لئے یہ ضروری ہے کہ تم سب فرائض کو اپنی زندگی کا مقصود اور مطلوب ٹھہرائو۔ ابتغاء کا ایک اور مفہوم بھی چسپاں ہو سکتا ہے۔ وہ مفہوم ہے تجاوز کر جانا۔

یہ تجاوز کبھی بُرا ہوتا ہے کبھی اچھا یہ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے تو یہاں فرمایا وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْکہ اگر تم مقامِ محمود کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو فرائض تک ہی نہ ٹھہر جانا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھنا اور نوافل کے ذریعہ مقامِ محمود کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ اسی لئے رمضان کے روزوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نوافل جیسا کہ میں بعد میں بتائوں گا بیان فرما دئیے ہیں۔

تو وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْکے تیسرے معنی یہ ہیں کہ تم فرائض کے علاوہ نوافل کی طرف بھی متوجہ رہنا۔ اس کے بغیر تمہیں مقامِ محمود حاصل نہیں ہو سکتا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کھائو اور پیئو یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے اس کے بعد صبح سے رات تک روزوں کی تکمیل کرو۔

ماہ رمضان کے ساتھ جو فرض تعلق رکھتا ہے وہ ہے روزہ رکھنا۔ اب یہاں ہمیں یہ بتایا کہ روزہ صبح سے لے کر شام تک رکھنا ہو گا اور اس روزے کے وقت میں جہاں کھانے پینے سے رُکنا ہو گا وہاں جنسی تعلقات سے بھی احتراز ضروری ہو گا۔

ہر مومن بالغ اور عاقل کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ رکھے اگر وہ بغیر جائز عذر شرعی روزہ نہیں رکھے گا تو وہ خداتعالیٰ کے نزدیک گنہگار ٹھہرے گا۔

یہاں میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سحری کے کھانے کو آخری وقت میں زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اور افطاری کو پہلے وقت میں۔ زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ تَسَحَّرْ نَامَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَ الْاَذَانِ وَالسَّحُوْرِ قَالَ قَدْرُ خَمْسِیْنَ اٰیۃ

(بخاری بَابُ قَدْرِکُمْ بَیْنَ السَّحُوْرِوَصَلَاۃِ الْفَجْر)

رمضان کے مہینے میں ہم نے آنحضرتﷺ کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا۔ اس کے بعد آپ نماز فجر کے لئے باہر تشریف لے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ سحری کے کھانے اور نماز صبح کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ انہوں نے کہا بس اتنا ہی جس میں قرآن کریم کی پچاس آیات پڑھی جا سکتی ہوں (یہ بھی ایک بڑا پیارا طریق بیان ہے کہ وقت کو منٹوں کی بجائے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کے ساتھ بیان کیا جائے۔ یہ بات بتاتی ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کا کتنا عشق تھا)

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ حضرت بلال محتاط قسم کے آدمی ہیں ابھی پو نہیں پھوٹتی کہ اذان دینے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے جب بلال اذان دے رہا ہو تو کھانا پینا نہ چھوڑا کرو اور انتظار کیا کرو کہ حضرت ابن اُمّ مکتوم (جو ایک نابینا صحابی تھے) اذان دیں وہ اسی وقت اذان دیتے تھے جب انہیں چاروں طرف سے آوازیں آتیں کہ فجر ہو گئی ہے۔ اذان دو۔ ان کی اذان کی آواز جب کان میں پڑے تو پھر سحری چھوڑ دو۔

کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ ان دونوں اذانوں میں کتنا فرق تھا اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اتنا ہی فرق تھا کہ بلال اذان بند کرتے اور ابن اُمّ مکتوم اذان شروع کرتے۔

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سحری کا کھانا بالکل آخری وقت میں آنحضرتﷺکو پسند تھا۔

افطاری کے متعلق آپ کا یہ ارشاد ہے کہ بالکل پہلے وقت میں کر لینی چاہئے۔ چنانچہ بخاری شریف میں روایت ہے۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ

(بخاری بَابُ تَعْجِیْلِ الْاِفْطَارِ)

کہ میری اُمت کے لوگ بھلائی کو اس وقت تک حاصل کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ افطاری پہلے وقت میں کیا کریں گے۔
اس کے ایک لطیف معنی شارحین حدیث نے یہ کئے ہیں کہ حضورعلیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ جب تک لوگ میری سنت پر عمل کرتے رہیں گے ان کا بھلا ہو گا۔ میں پہلے وقت میں افطاری کرتا ہوں اور جب تک میری امت میری سنت کی تابع رہے گی اور میری سنت پر عمل کرے گی اس وقت اللہ تعالیٰ کی بڑی برکتیں بھی اسے حاصل ہوتی رہیں گی۔

پس اوّل وقت میں افطاری اور آخری وقت میں سحری کھانا بڑی برکت کا موجب ہے کیونکہ نبی اکرمﷺکی سنت ہے۔ ہمیں اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے تا اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی برکات سے نوازتا چلا جائے۔
پھر روزے کی عبادت کے متعلق جب ہم مزید غور سے کام لیتے ہیں تو ہمیں ایک اور لطیف بات معلوم ہوتی ہے۔ اس عبادت میں ہمیں کھانے پینے سے روکا گیا ہے اور کھانے پینے پر ایک فرد کی بقاء کا انحصار ہے کیونکہ کوئی شخص کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

پھر ہمیں جنسی تعلقات سے بھی روکا گیا ہے اور جنسی تعلقات پرنسل کی بقاء کا انحصار ہے۔ اس کے بغیر نسل انسانی جاری نہیں رہ سکتی۔ اگر دنیا کے سارے لوگ وہ کیفیت اپنے پر وارد کر لیں جو روزہ کے وقت ایک روزہ دار کی ہوتی ہے تو یقینًا یہ دنیا اسی نسل میں ختم ہو جائے۔

تو بنیادی چیز جس کا اقرار اللہ تعالیٰ نے روزہ کے ذریعہ ہم سے لیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی اور اپنی نسل کی زندگی۔ اے خدا!تیرے حوالے کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ان چیزوں سے بھی روکا گیا ہے جن پر ہماری زندگی کی بقاء کا انحصار ہے اور اس چیز سے بھی روکا گیا ہے جس پر ہماری نسل کی بقاء کا انحصار ہے گویا ہم سے خداتعالیٰ یہ اقرار کرواتا ہے کہ ہمارا سب کچھ تیرا ہو گیا۔ تو اگر کہے تو ہم بھوکے پیاسے مرنے کے لئے تیار ہیں۔ اور تو اگر چاہے اور تیری رضا اسی میں ہو تو ہماری نسلیں بھی تجھ پر قربان۔

پس یہ ایک بنیادی منشاء ہے جس کے گرد قرآن کریم اور اسلامی شریعت کے تمام احکام چکر لگاتے ہیں اسی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی عبادتوں کا تو اپنا اپنا ثواب ہے۔ لیکن روزہ میرے لئے ہے۔ اور میں خود روزے دار کی جزاء ہوں۔ اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔

غرض ماہ رمضان کے روزے جو ہم پر فرض کئے گئے ہیں ان کے ذریعہ دراصل ہم سے عملاً یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ ہماری زندگی بھی تیری راہ میں قربان اور ہماری نسل بھی تیری راہ میں قربان۔ اور اسی وجہ سے نبی اکرمﷺنے یہ فرمایا ہے کہ جس شخص نے روزہ کی اس روح کو نہیں پایا اسے یاد رکھنا چاہئے کہ خداتعالیٰ تمہیں بھوکا پیاسا نہیں رکھنا چاہتا۔ نہ اسے اس سے کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی غرض۔

پس اس روزے کے پیچھے جو روح ہے اسے پیدا کرو۔ آپؐ نے فرمایا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ

(بخاری بَابُ مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ)

کہ جو شخص کذب (جھوٹ) کو نہیں چھوڑتا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ زُوْر کے ایک معنی ’’حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف مائل ہو جانا‘‘ کے بھی ہیں۔
تو اس حدیث کے یہ معنی ہوں گے کہ جو شخص جھوٹ کو نہیں چھوڑتا۔ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اور شریعت حقہ کے تقاضوں کی بجائے باطل کے شیطانی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے تو اسے روزہ رکھنے سے کیا فائدہ؟ خدا کو تو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔ دراصل ترک طعام اور ترک شہوت کے پیچھے جو روح ہے اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ایک مومن کا فرض ہے۔

اسی طرح نبی کریمﷺنے فرمایا اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلَا یَرْفُثْ وَلاَ یَجْھَلْ

(بخاری کتاب الصوم باب ھَلْ یَقُوْلُ اِنّی صَائِمٌ اِذَا شَتَمَ)

(یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے ایک لمبی حدیث کا) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو تمہارے لئے ڈھال بنایا ہے اور تمہاری نجات کا راز اور تمہاری نسلوں کی بقاء کا سر اس بات میں ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو اور اپنی نسلوں کی تربیت کو اپنے مولا کی مرضی کے تابع بنائو۔ (فَلَا یَرْفُثْ)اور اپنے منہ سے جاہلیت کی زبان باہر نکال پھینکو۔ اور اپنے جو ارح کو زمانۂِ جاہلیت کی بداعمالیوں سے پاک کرو۔ (وَلاَ یَجْھَلْ)اور آنے والی نسلوں کیلئے نیک نمونہ قائم کرو۔ اگر تم روزے کو اپنے لئے ڈھال نہیں بنائو گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے کبھی بچ نہیں سکو گے۔

پس محض روزہ رکھنا کافی نہیں بلکہ اتنی دعائوں کے ساتھ، اتنی نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ اور اتنی بے نفسی اور فنا کی حالت میں روزہ رکھنا چاہئے کہ ہمارا روزہ اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت حاصل کر لے۔ اگر ہمارا روزہ خدا کے حضور قبولیت حاصل نہ کرے تو پھر یہ درحقیقت وہ روزہ نہیں جس کا حکم خداتعالیٰ نے دیا تھا بلکہ محض بھوک اور پیاس برداشت کرنا ہے۔

پس روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی گردن اور اپنی نسل کی گردن خدا کی آخری اور کامل شریعت قرآن کریم کے جوئے کے نیچے رکھ دے۔ اسی لئے نفلی عبادت جو رمضان سے خاص طور پر تعلق رکھتی ہے۔ وہ تلاوت قرآن کریم کی کثرت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس پر شاہد ہے کہ اس ماہ میں قرآن کریم کو کثرت سے پڑھنا چاہئے حضرت جبرائیل رمضان کے مہینے میں ہر رات زمین پر نزول فرماتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر قرآن کریم کا دور کرتے اور ہر رمضان میں ایسا ہوتا رہا۔ تا اُمت مسلمہ جان لے کہ رمضان شریف میں قرآن کریم بکثرت پڑھنا چاہئے۔ پھر چونکہ روزے کی حکمت اور اصل غرض یہ ہے کہ انسان کو یہ تعلیم دی جائے کہ وہ اپنی گردن خدا کی مرضی کے جوئے تلے رکھ دے اور خدا کی مرضی کا علم ہمیں قرآن کریم کے سوا ہو نہیں سکتا تھا۔ اس لئے ضروری ہوا کہ قرآن کو پڑھا جائے اور پڑھنے سے مراد صرف الفاظ ہی کی تلاوت نہیں بلکہ جسے خدا توفیق بخشے اور علم و فراست عطا فرمائے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے مطالب پر غور کرے اور وہ پڑھے تو اس نیت سے پڑھے کہ اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اگر نیت یہ ہو کہ محض الفاظ کو دہرا دینا ہے عمل ضروری نہیں تو ایسا شخص قرآن کریم سے کوئی برکت حاصل نہیں کر سکتا۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں میں بعض کمزوریاں دیکھیں تو فرمایا کہ قرآن کریم تو اس لئے نازل ہوا تھا کہ اس پر عمل کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس کی تلاوت کو ہی سارا عمل سمجھ لیا ہے یعنی سمجھتے ہیں کہ صرف یہ کافی ہے کہ قرآن کریم کو پڑھ لیا جائے اور یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ جو احکام قرآن کریم نے ہمیں بطور اوامر یا نواہی دئیے ہیں ان پر عمل بھی کیا جائے۔

نبی اکرمﷺکی طرف یہ حدیث بھی منسوب ہوتی ہے کہ آپؐ نے فرمایا تھا: اَفْضَلُ عِبَادَۃ اُمَّتِیْ تِلاَوَۃُ الْقُرْاٰنِ کہ’’ میری اُمت کی سب سے بڑی فضلیت رکھنے والی عبادت تلاوت قرآن ہے‘‘۔

مذکورہ حدیث کے یہی معنی ہیں کہ قرآن کریم کو پڑھا جائے پھر اس کو سمجھا جائے اور پھر سمجھ، طاقت اور استعداد کے مطابق اس پر عمل بھی کیا جائے۔

بہرحال یہ ایک نفلی عبادت ہے جس کا رمضان کے ساتھ خاص تعلق ہے۔

ایک اور نفلی عبادت جس کا رمضان سے تعلق ہے وہ رمضان میں رات کو اٹھنا اور نماز تہجد ادا کرنا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺنے فرمایا :

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ

(بخاری کتاب الصوم بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ)

کہ جو شخص بھی رمضان کی راتوں میں اُٹھتا اور نوافل ادا کرتا ہے۔ اور اپنے ربّ کے حضور عاجزی کے ساتھ جھکتا اور اخلاص اور تضرع کے ساتھ اس سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ خدائے غفور و رحیم اس کی خطائوں کو معاف کرے اور روحانی ترقیات کے دروازے اس پر کھول دے تو آنحضرتﷺکے ارشاد کے مطابق اس کے سارے پچھلے گناہ جو اس نے اس وقت تک کئے ہوں معاف کر دئیے جائیں گے۔

یہاں میں مختصراً آنحضرتﷺکی نماز تہجد کے متعلق کچھ بتا دینا چاہتا ہوں۔ کیونکہ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو ان تفاصیل کا علم نہیں رکھتے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عموماً باقاعدگی کے ساتھ گیارہ رکعت بمع وتر پڑھا کرتے تھے پھر احادیث میں اختلاف ہے۔ بعض میں ہے کہ آپؐ دو دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت پڑھ لیتے۔
لیکن بعض روایات میں ہے کہ چار چار رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے۔ پھر تین رکعتیں پڑھ لیتے (وتر کی) اور بعض روایات میں گیارہ سے کم رکعتیں پڑھنے کا ذکر بھی ہے۔ تو میں ’’عام طور پر گیارہ رکعتیں‘‘ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ بعض روایات میں جو اختلاف ہے وہ وقت کے تقاضوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے لیکن عام روایت یہی ہے۔

آنحضرتﷺیہ نوافل رات کے پچھلے حصہ میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ دوست جانتے ہیں کہ آنحضرتﷺکی رہائش ان حجروں میں تھی جن کے دروازے مسجد میں کھلتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ پچھلی رات نمازِ تہجد کے لئے مسجد میں تشریف لے آئے کچھ لوگوں نے جو حضورﷺ کو دیکھا تو انہوں نے بھی حضورﷺ کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ اگلے روز کچھ اور لوگوں کو پتہ چلا کہ آنحضرتﷺرات کو نمازِ تہجد مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ تو وہ بھی آ گئے۔ تیسری یا چوتھی رات مجمع اور بھی بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں کہ مسجد کھچا کھچ بھر گئی۔ اس رات آپؐ باہر نہ نکلے اور اپنے حجرے میں نماز ادا کر لی۔ اور صبح فرمایا کہ اگر اس طرح روایت اور سنت بن جاتی کہ تہجد کے وقت نماز باجماعت ادا کی جائے تو میری اُمت کے بہت سے لوگوں کے لئے یہ مصیبت ہو جاتی۔ کیونکہ فرائض میں سے شمار کی جانے لگتی۔ (کس قدر ہمارا خیال رکھنے والی تھی وہ مقدس روح؟؟ اللہ تعالیٰ کے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں سلام ہوں اس پر!!!)فرمایا آج میں اس لئے نہیں آیا کیونکہ یہ نوافل ہیں فرائض میں سے نہیں۔ چنانچہ بعد میں اسی پر عمل ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی گزر گیا اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ کا بھی ایک حصہ گزر گیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۶ حدیث نمبر ۲۶۷)

ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ چکر لگا رہے تھے آپ نے عشاء کے بعد دیکھا کہ کوئی شخص اکیلے نماز نفل ادا کر رہا ہے۔ اور ایک جگہ چار پانچ آدمی اکٹھے ہو کر ایک قاری کے پیچھے نماز ادا کر رہے۔ کچھ اور لوگ بیس منٹ آدھ گھنٹہ پیچھے آئے اور انہوں نے علیحدہ نماز شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر آپ نے خیال فرمایا کہ یہ لوگ مختلف ٹولیوں میں پہلے وقت جو نماز ادا کر رہے ہیں تو کیوں نہ میں انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں؟ چنانچہ آپ نے ایک قاری کو امام مقرر کیا اور فرمایا کہ اگر تم نے اصل وقت چھوڑ کر ہی یہ نوافل ادا کرنے ہیں تو اپنی اجتماعی روح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قاری کے پیچھے آ کر نماز ادا کر لیا کرو۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ بہتر وقت وہی ہے جس میں آنحضرتﷺیہ نوافل ادا فرمایا کرتے تھے یعنی رات کا پچھلا پہر۔

(مؤطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ فی رمضان باب ماجاء فی قیام رمضان)

تو پہلے تہجد کی نماز رات کے پچھلے حصہ میں پڑھی جاتی لیکن جائز ہے کہ رات کے پہلے حصہ میں بھی یہ نوافل ادا کر لئے جائیں اور اصل یہی ہے کہ انسان نوافل کو علیحدہ تنہائی میں ادا کرے کیونکہ نوافل کی بہت سی برکات کا تعلق خاموشی تنہائی اور پوشیدگی سے ہے اور جو شخص واقعی اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہو وہ اپنے اس پیار کا اظہار لوگوں کے سامنے نہیں کیا کرتا۔

اس لئے یہ نماز گھر میں تنہائی میں پڑھنی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس میں دقت محسوس کرے تو پورے ثواب سے محروم ہونے کی بجائے یہ بہتر ہے کہ وہ عشاء کے بعد ان نوافل کو ادا کرے اس طرح ایک حد تک اسے بھی ثواب حاصل ہو جائے گا۔

ایک اور چیز جس کا تعلق ماہ رمضان سے ہے وہ لیلۃ القدر کی تلاش ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا تَحَرُّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِیْ الْعَشْرِا لْاَ وَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ

(بخاری کتاب صلاۃ التراویح بابُ تَحَرَّیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ)

کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَہٗ وَاَحْیٰی لَیْلَہٗ وَاَیْقَظَ اَھْلَہٗ (بخاری بابُ الْعَمَلِ فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ رَمَضَانَ)کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آ جاتا تو آپ اپنی کمر کس لیتے یعنی معمول سے زیادہ مجاہدات کیلئے مستعد اور تیار ہو جاتے۔ گو ویسے بھی آپؐ بڑے اہتمام سے رات کو نوافل ادا کیا کرتے لیکن جب رمضان کے آخری دس روز شروع ہو جاتے تو آپؐ مجاہدات کا اور زیادہ اہتمام فرماتے۔

وَاَحْیٰی لَیْلَہٗ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رات کو زندہ رکھتے۔ اس میں ہمیں اشارۃً یہ بتایا گیا ہے کہ زندگی کی وہی گھڑیاں زندگی کہلانے کی مستحق ہیں جو خداتعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں گزریں۔ جو زندگی اس کی اطاعت میں نہ گزرے بلکہ اس سے بغاوت میں گزرے وہ تو موت سے بھی بدتر ہے۔
لیلۃ القدر کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ علماء نے اس کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں میں اس وقت تفصیل میں نہیں جا سکتا بہرحال وہ ایک رات ہے جس میں خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی گھڑی مقدر کی ہے کہ جس میں اگر کسی کو صحیح رنگ میں دعا کرنے کی توفیق مل جائے اس کی نیت بھی خالص ہو اور محض خداتعالیٰ کی رضا مطلوب ہو اور دعا قبول بھی ہو جائے تو وہ گھڑی اتنی عظیم الشان ہے کہ خدائے تعالیٰ کی تقدیروں کو بھی بدل دیتی ہے۔

تو نبی اکرمﷺنے فرمایا کہ رمضان کی جو آخری دس راتیں ہیں ان میں اس گھڑی کی تلاش کرو۔ اَور اَور امور سے توجہ ہٹا کر معمول سے زیادہ خدائے تعالیٰ کی عبادت میں لگ جائو تا خدا کے فضل سے تمہیں لیلۃ القدرکی یہ گھڑی نصیب ہو۔

ایک اور نفلی عبادت جس کا تعلق رمضان سے ہے وہ صدقہ و خیرات ہے۔ نبی کریمﷺکے متعلق بخاری میں یہ ذکر ہے کہ آپؐ بڑے سخی تھے اور بڑی سخاوت سے کام لیتے تھے۔ دراصل جس وجود کا سارا بھروسہ اور توکل اپنے اس ربّ پر ہو جس کے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی اس کو اس بات کا فکر نہیں ہوتا کہ میرے گھر میں کوئی چیز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کی تمام ضروریات کا کفیل تو خود اس کا خدا ہوتا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کَانَ اَجْوَدُ مَا یَکُوْنُ فِیْ رَمَضَانَ کہ ماہ رمضان میں حضورﷺ اپنے معمول سے بھی زیادہ سخاوت برتا کرتے تھے۔

پس ہمیں بھی رمضان میں صدقہ و خیرات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ فی الحقیقت یہ سبق ہمیں خود رمضان کے ذریعہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے جو بھائی بھوکے اور پیاسے ہیں ان کا ہم پر حق ہے کہ ان کی مدد کریں اور ان کی طرف توجہ کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ دیں۔

نیز دعائوں پر بھی بہت زور دینا چاہئے۔ اور قرآن شریف کی تلاوت کثرت سے کرنی چاہئے۔ اور یہ بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں رمضان کی آخری دس راتوں میں لیلۃ القدر کی خاص گھڑی میسر آجائے اور خدا کرے کہ ہم اس گھڑی میں صرف اپنی ذات کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے دین کے لئے بھی اس سے مانگیں اور اس گھڑی میں ہمارے منہ سے یہ الفاظ نکل رہے ہوں کہ اے خدا!اسلام کا غلبہ تو مقدر ہو چکا ہے لیکن تو ہم پر یہ فضل فرما کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنی آنکھوں سے اسلام کو ساری دنیا پر غالب ہوتا دیکھ لیں۔ آمین۔

(خطبات ناصر جلد اوّل صفحہ 68تا78 )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button