از افاضاتِ خلفائے احمدیت

رمضان کے مہینہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکتیں اور حکمتیں وابستہ ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نےخطبہ جمعہ فرمودہ 24؍دسمبر 1965ء بمقام مسجد مبارک ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ البقرہ کی حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ولِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُ وَااللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo(البقرہ186۔ 187)

پھر فرمایا:۔

ان دو آیات میں جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنے کے فوائد اور جن طریقوں سے وہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں ان کے متعلق ہمیں ایک حسین رنگ میں تعلیم دی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے شَھْرُ رَمَضَانَ اس مہینے کا نام اسلام سے قبل ناتق تھا اسلام نے اس مہینے کو رمضان کا نام دیا ہے اور اس نام کے اندر اتنے وسیع معانی ہمیں نظر آتے ہیں کہ دل انہیں معلوم کرکے خداتعالیٰ کے کمال قدرت کو دیکھ کر اس کی حمد کے جذبہ سے بھر جاتا ہے۔

رمضان کا لفظ رَمَض سے نکلا ہے اور جب ہم رَمَض کے مختلف معانی پر غور کرتے ہیں تو اس کے بہت سے معنی ایسے ہیں جن کا ماہ رمضان سے تعلق واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جب عربی میں اَرْمَضَ الشَیْیَٔ کہا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اَحْرَقَہٗ اسے جلا دیا۔ اس لفظ میں سوزش کا تصور پایا جاتا ہے۔ اگر کہا جائے اَرْمَضَ الرَّجُلَ تو اس کے معنی ہوتے ہیں اَوْجَعَہٗ اس کو دکھ پہنچایا۔ تکلیف دی۔ جب ہم ان دو معانی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ماہ رمضان سے تعلق ہے۔ اس طرح پر کہ وہ لوگ جو دین اسلام کے منکر ہیں یا اسلام میں تو داخل ہیں لیکن ان کے اندر روحانی کمزوری ہے۔ وہ اس مہینہ کو محض دکھ اور درد، بھوک اور پیاس اور بے خوابی کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ انہیں اس میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کی برکات سے وہ کوئی حصہ لیتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کے جو نیک اور مومن بندے ہیں وہ اس مہینہ کی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے۔

رَمَضَ النَّصْلَ کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ تیر کے پھل کو، یا نیزے کے پھل کو یا چھری کے پھل کو پتھر پر رگڑ کر تیز کیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس مہینہ کے اندر اپنے سہام اللیل یعنی رات کے تیروں کو جو دعائوں کی صورت میں آسمان کی طرف چلا رہے ہوتے ہیں تیز کرتے ہیں اس طرح ان تیروں کا اثر اس ماہ میں بڑھ جاتا ہے۔ اور ان کی کاٹ تیز ہو جاتی ہے۔ اور جن اغراض کے لئے ان تیروں کو استعمال کیا جاتا ہے وہ اغراض اس ماہ میں بطریق احسن حاصل ہو جاتی ہیں۔

پھر لغت میں تَرَمَّضَ الصَّیْدَ کا محاورہ بھی لکھا ہے۔ یعنی جنونی شکاری شدت گرما کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گرمی کے وقت اپنے شکار کی تلاش میں نکلا۔ گویا اللہ تعالیٰ کا مومن بندہ بھوک اور پیاس اور دوسری سختیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے۔ گرمی کی شدت یا تکلیف، یا بھوک اور پیاس، یا بے خوابی وغیرہ اس کے راستہ میں روک نہیں بن سکتیں۔ اور وہ جو کچھ تلاش کرتا ہے اس کا مفہوم بھی ہمیں اسی لفظ سے ہی سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کا مطلوب ہرن اور تیتر کا شکار نہیں ہوتا۔

چنانچہ الرَّمْضُ کے ایک اور معنی عربی میں اَلْمَطَرُ یَاْتِیْ قَبْلَ الْخَرِیْفِ فَیَجِدُ الْاَرْضَ حَارَّۃً مُحْتَرِقَۃً (اقرب)ہیں یعنی وہ بارش جو گرمی کی شدت کے بعد اور موسم خزاں سے پہلے آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اور جب وہ نازل ہوتی ہے تو زمین پوری طرح تپی ہوئی اور جلی ہوئی ہوتی ہے لیکن جب وہ بارش نازل ہوتی ہے تو اس تپش کو دور کر دیتی ہے۔ اس جلن کو مٹا دیتی ہے اور سکون کے حالات پیدا کر دیتی ہے۔

تو یہاں سے واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہو سکتی۔ میرے اندر جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش نازل نہ ہو۔ پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہئے کہ وہ راتوں کے تیروں (دعائوں) کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنون سے بھی زیادہ جنون رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں نکل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہو گی اور میرے قرب کی راہیں ان پر کھولی جائیں گی۔

شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ۔فرمایا یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو بہت ہی برکتوں والا ہے۔ کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا یا جس کے بارے میں قرآن کریم نے تعلیم دی یا جس میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا۔

اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کے اندر تین باتیں بیان کی گئی ہیں :

اوّل یہ کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نزول قرآن کریم کی ابتدا ہوئی۔ احادیث اور دوسری کتب (تاریخ) سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے آخری حصہ میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ تو مہینے کا انتخاب اور پھر رمضان کے آخری حصہ کا انتخاب جو خدائے تعالیٰ نے کیا وہ بغیر کسی حکمت اور وجہ کے نہیں ہو سکتا۔
دوسرے اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کے یہ معنی بھی ہیں کہ اس کے بارے میں قرآن کریم نے تاکیدی اور تفصیلی احکام نازل کئے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کوئی حکم تاکید کے ساتھ نازل فرماتا ہے تو اس لئے نازل فرماتا ہے کہ اس حکم کو بجا لا کر بندہ اپنے ربّ کی بہت سی برکتوں کو حاصل کر سکے۔

تیسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں کہ بار بار سارا قرآن کریم نازل ہوتا رہا۔ کیونکہ احادیث میں یہ امر بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ ہر رمضان کی پہلی رات سے آخری رات تک حضرت جبریل علیہ السلام آنحضرتﷺپر نزول فرماتے اور اس وقت تک جتنا قرآن کریم نازل ہو چکا ہوتا۔ آپؐ سے مل کر اس کا دَور کرتے۔ اس طرح وہ نازل شدہ قرآن آپؐ پر پھر ایک دفعہ بذریعہ وحی نازل ہوتا اور ہر سال ایسا ہوتا تھا۔

بخاری میں یہ حدیث یوں درج ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَجْوَدَ النَّاسِ وَکَانَ اَجْوَد مَایَکُوْنُ فِی رَمَضَانَ حِیْنَ یَلْقَاہُ جِبْرِیْلُ وَکَانَ یَلْقَاہُ فِیْ کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْ رَمَضَانَ فَیُدَارِ سُہُ الْقُرْاٰنَ۔(بخاری باب کَیْفَ کَانَ بَدْئُ الْوحْیِ اِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ)

یعنی نبی کریمﷺتمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے۔ آپؐ کی جودوسخا کو کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا تھا نہ پہنچا اور نہ ہی آئندہ بھی پہنچے گا۔ لیکن آپؐ کی یہ سخاوت رمضان شریف کے مہینہ میں اور بھی بڑھ جاتی۔ اور وہ اس لئے کہ رمضان میں جبریل علیہ السلام نازل ہوتے فَیُدَارِسُہُ الْقُرْاٰنَاور آپؐ سے مل کر قرآن مجید کا دَور کرتے۔

ان دنوں جب آنحضرتﷺآسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو بارش کی طرح اترتے دیکھتے تو آپؐ کی سخاوت اور جُودو کرم میں بھی ایک تیزی پیدا ہو جاتی اور آپ ان ہوائوں کی نسبت بھی جو موسلا دھار بارش لاتی ہیں زیادہ سخی نظر آتے۔

اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ فرما کر گویا یوں کہا کہ اے میرے بندو!دیکھو یہ رمضان وہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تو اسی مہینہ میں شروع ہوا۔ دوسرے گیارہ مہینے بھی تو تھے ان میں بھی نازل کیا جا سکتا تھا مگر خداتعالیٰ نے اپنی بالغ حکمت اور اپنے کامل علم کی بناء پر نزول قرآن کریم کے لئے اسی مہینہ کو چنا اور اسی میں اس کے نزول کی ابتدا ہوئی۔

پھر کتنی تاکید کے ساتھ، کتنی حکمتیں بیان کرنے کے بعد اور کتنے دلائل دے کر اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حکم دیا کہ رمضان کے مہینے میں روزے رکھو اور عبادات پر زور دو تا الٰہی فضلوں کے تم وارث بنو۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری نگاہ میں اس مہینے کی اتنی قدر ہے کہ میں ہر سال اس مہینہ میں جبرئیل کو بھیجتا ہوں تاکہ وہ آنحضرتﷺسے مل کر قرآن کریم کا دَور کرے۔

پس ان باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ کتنی برکتیں ہیں جن کا تعلق اس مہینہ سے ہے اور تمہیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے کہ تم ان برکات سے زیادہ سے زیادہ فیض حاصل کر سکو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن جو رمضان کے مہینہ میں اترنا شروع ہوا اور پھر بار بار اس میں نازل ہوتا رہا۔ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں جس کے لئے اس مہینہ کو چنا گیا ہے۔ بلکہ ھُدًی لِّلنَّاسِ یہ وہ پہلی کامل شریعت ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بطور ہدایت بھیجی گئی ہے۔

ھدایۃکے ایک معنی اس الٰہی شریعت کے ہیں جو انبیاءُ اللہ اپنے ساتھ لے کر دنیا کی طرف آتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب رمضان کے مہینہ میں اُتری ہے۔ ھُدًی لِّلنَّاسِیہ تمام بنی نوع انسان کو قیامت تک بحیثیت ایک شریعت کاملہ فائدہ اور برکت پہنچاتی رہے گی۔

ایک معنی ھدایۃ کے یہ بھی ہیں کہ یہ کتاب بنی نوع انسان پر ٹھونسی نہیں گئی بلکہ اس میں انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق لوگوں کو عبادات اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کا طریق بتایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ شریعت جو انسان کے لئے نازل کی گئی ہے وہ اس کی استعدادوں، صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مدّنظر رکھ کر نازل کی گئی ہے۔ اور قیامت تک انسان میں جو جو نئی سے نئی قابلیتیں پیدا ہوتی رہیں گی وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔ کیونکہ ہم عالم الغیب ہیں۔ اس لئے آج کے انسان سے لے کر اس آخری انسان تک جو اس دنیا میں پیدا ہو گا۔ اور ملکِ عرب سے لے کر تمام ان ملکوں کی اقوام تک جو اکنافِ عالم میں آج موجود نہیں یا آئندہ پیدا ہوں گی ان سب کی صلاحیتوں اور استعدادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے یہ عظیم الشان کتاب بنی نوع انسان کے ہاتھ میں دی ہے۔

تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ وہ قرآن ہے۔ اتنا عظیم الشان قرآن کہ جس کا تعلق ہم نے ماہِ رمضان کے ساتھ بڑی مضبوطی سے قائم کر دیا ہے۔

پھر ھُدًی لِّلنَّاسِمیں یہ بھی فرمایا کہ قرآن کریم صرف انسانی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق ہی نہیں بلکہ اس میں ایک یہ بھی خوبی پائی جاتی ہے کہ بندے کی ہدایت کو درجہ بدرجہ بڑھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ جس طرح ایک طالب علم پہلی جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ دوسری جماعت میں بیٹھے اور دوسری جماعت کا نصاب ختم کرنے کے بعد وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ تیسری جماعت میں بیٹھے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے جو نیک بندے ہیں جب وہ ہدایت کے ایک درجہ پر پہنچتے ہیں اور الٰہی احکام کو بجا لاتے ہوئے اپنے آپ کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ اس درجہ کی ہدایات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں تو اللہ تعالیٰ ان کے درجہ کو اور بلند کر دیتا ہے اور ہدایت کی نئی راہیں ان پر کھولتا ہے۔ تو ہدایت کے معنوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مزید ہدایت کی جو خواہش یا استعداد پیدا ہو جاتی ہے اس کے مطابق مزید ہدایت کے سامان بھی اس میں موجود ہیں۔

پس فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں بلکہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ صرف ایک دفعہ ہدایت دے کر پھر پیچھے ہٹ کر کھڑی نہیں ہو جاتی بلکہ ہمیشہ تمہیں اس کی ضرورت رہتی ہے۔ جتنی جتنی تم ایمان اور عرفان میں ترقی کرتے جاتے ہو۔ قرآن کریم تمہیں اس سے آگے ہی راستہ دکھاتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ تمہاری انتہائی منزل ابھی نہیں آئی۔ آئو میں تمہیں اس سے بھی آگے لے جائوں۔ پھر وہ تمہارا ہاتھ پکڑتا ہے اور اگلی ہدایات کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور اپنے قرب کی نئی راہیں تم پر کھولتا ہے۔

تو فرمایا کہ اتنی عظیم الشان کتاب کو ہم نے رمضان شریف میں نازل فرمایا ہے۔ ھُدًی لِّلنَّاسِمیں ایک بڑا زبردست دعویٰ پیش کیا گیا ہے۔ فرمایا کہ اب یہی ایک کتاب ہے جس پر عمل کرکے تمہارا انجام بخیر ہو سکتا ہے اور تم جنت موعودہ کو پا سکتے ہو۔

دنیا کی دوسری تعلیمیں فلسفیانہ ہوں یا مذہبی، ان کے اندر کچھ ایسی باتیں تو ضرور پائی جاتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے ہم اس دنیا میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن یہاں فرمایا کہ قرآن کریم کے علاوہ دنیا میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جو انسان کی ضرورتوں کو اس طور پر پورا کر سکے کہ اس کی اُخروی زندگی بھی اس کے لئے جنت بن جائے۔ یہ صرف قرآن کریم ہی ہے جس کے ذریعہ انسان کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اس کو جنت نصیب ہوتی ہے۔

پھر فرمایا وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی یعنی جب قیامت تک تمام بنی نوع انسان کے لئے یہ قرآن مجید ہدایت ہے۔ اور دوسری جگہ ہمیں اسلامی تعلیم میں یہ بھی ملتا ہے کہ انسان اس دنیا میں نسلاً بعد نسلٍ ہر لحاظ سے ترقی کرتا چلا جائے گا۔ اس کا علم بھی، اس کی عقل بھی اور اس کا انداز فکر بھی ترقی کی راہ پر چلتا چلا جائے گا۔ تو آخر ایسا زمانہ آ جائے گا کہ جب انسان یا انسانوں میں سے اکثر حصہ محض دین العجائز پر قانع نہیں رہے گا بلکہ وہ کہے گا کہ ہم نے مان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور کہ اس پر ہمیں عمل بھی کرنا ہے لیکن ہمیں تسلی نہیں جب تک کہ ہمیں اس حکم کی حکمتیں نہ بتائی جائیں اور دلائل نہ سمجھائے جائیں وغیرہ وغیرہ گویا اس میں ایک پیشگوئی بھی مضمر تھی۔

تو فرماتا ہے کہ اس تعلیم میں جہاں جہاں دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کے عقلی دلائل بھی پیش کر دئیے گئے ہیں۔ جہاں کہیں حکم دیا گیا ہے ساتھ ہی اس کی حکمتیں بھی بیان کر دی گئی ہیں۔ انسانی دماغ خواہ ترقی کی کتنی منازل طے کرتا چلا جائے خواہ کتنے ہی بلند مقام پر پہنچ جائے۔ بہرحال وہ قرآن کریم کا محتاج رہے گا۔
وَالْفُرْقَانِ اور اس قرآن میں ایسے نشانات اور دلائل رکھے گئے ہیں جو حق اور باطل کے درمیان امتیاز قائم کر دیتے ہیں حتیٰ کہ کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ خود انہی آیات میں اللہ تعالیٰ نے قبولیت دعا کا ذکر کیا ہے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے باطل ٹھہر ہی نہیں سکتا۔

الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رمضان میں روزے اس لئے فرض کئے گئے ہیں کہ تم سہام اللیل (دعائوں) کے پھلوں کو تیز کرو اور اپنے مطلوب (رضاء الٰہی) کی تلاش میں نکلو۔ پیاس اور بھوک کو برداشت کرو۔ اور بے خوابی کو خداتعالیٰ کا فضل سمجھو۔ کیونکہ یہ ایسا برکتوں والا مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کریم جیسا کلام الٰہی نازل کیا گیا ہے۔ اس لئے فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ تم میں سے جو شخص بھی بلوغت، صحت اور حضر میں یہ ماہ پائے وہ اس کے روزے رکھے۔

شَھِد کے ایک معنی ہیںعَایَنَہُ وَاَطَّلَعُ عَلَیْہِ کہ اس کا معائنہ کیا اور اس پر اطلاع پائے۔ یعنی ہم نے جو اس روزہ کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ اگر تم ان کا اچھی طرح مطالعہ کرو اور ان پر اطلاع پائو تو پھر تمہیں اس ماہ کے روزے پوری طرح اور مقرر کردہ شرائط کے مطابق رکھنے چاہئیں بلکہ تم خود بخود اس کے روزے رکھو گے سوائے اس کے کہ کوئی روحانی کمزوری تم میں موجود ہو۔

آگے فرمایا یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی نہیں چاہتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو تنگیاں تمہیں نظر آتی ہیں کہ صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑنا جس کی وجہ سے بھوک اور پیاس لگتی ہے۔ پھر سخت گرمی کے موسم میں اور سخت سردی کے موسم میں کچھ اور تکالیف پیش آتی ہیں۔ فرمایا یہ جو تکالیف تمہیں پیش آتی ہیں یہ محض عارضی اور وقتی ہیں۔

اتنا پیارا خدا اتنا پیارا ربّ جس نے قرآن کریم جیسی اعلیٰ تعلیم تم پر نازل کی اور بے شمار دنیوی نعمتوں سے تمہیں محض اپنے فضل سے نوازا، وہ ہرگز پسند نہیں کرے گا کہ وہ تمہیں ان تکالیف میں اس لئے مبتلا کرے کہ تا تمہیں دکھ پہنچائے۔ نہیں بلکہ وہ تو تمہارے لئے آسانی پیدا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اگر تم ان خفیف سی وقتی تکالیف کو برداشت کر لو گے تو ان کے بدلے میں وہ تمہیں وہ انعام اور اکرام بخشے گا کہ انہیں پا کر تمہیں یہ دکھ، دکھ ہی نظر نہ آئے گا۔ پھر فرمایا وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ ۔اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ہم نے تم پر روزے فرض کئے تو یہ حکم بھی دیا کہ سارے رمضان کے روزے رکھو تا کہ تم اس کی گنتی کو پورا کرو۔ اگر صرف یہ حکم ہوتا کہ روزے رکھو تو کوئی بیس دن کے روزے رکھتا۔ کوئی دس دن کے، کوئی رمضان کے مہینے میں رکھتا کوئی دوسرے مہینوں میں۔

پس ہم نے رمضان میں روزے رکھنے کا اس لئے حکم دیا تاکہ اُمّت مسلمہ ساری کی ساری اس سارے مہینے میں روزے رکھے اور ان اجتماعی برکات سے فائدہ اٹھائے جو اجتماعی عبادات سے تعلق رکھتی ہیں۔

دوسرے اس کے معنی یہ ہیں اور یہ زیادہ لطیف ہیں کہ جو زندگی تمہیں دی گئی ہے اسے تم پورا کرو۔ اس کا کمال تمہیں حاصل ہو۔ اس میں اشارۃً ہمیں بتایا کہ اگر کسی شخص کے پاس مثلاً سَو روپیہ ہے۔ اگر اس میں سے بیس روپے گم ہو جائیں یا چوری ہو جائیں اور باقی وہ خرچ کرے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے تمام سَو روپیہ خرچ کیا ہے کیونکہ اس کے پاس خرچ کرنے کے لئے تو صرف اسّی روپے رہ گئے تھے سَو کا سَو روپیہ وہی خرچ کرتا ہے جس کے پاس وہ سَو کا سو روپیہ موجود بھی ہو۔

فرماتا ہے کہ تم میں سے ہر ایک کو ہم نے ایک پیمانہ کے مطابق عمر دی ہے اور ہم نے تم پر دینی فرائض اس لئے واجب کئے ہیں تاکہ تم اپنی عمر کو پوری طرح گزار سکو اور اس کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ ایک شخص کی عمر سَوسال ہو اس میں سے بیس سال اس نے دنیا کی لہو و لعب میں ضائع کر دیئے ہوں تو حقیقتاً اس نے سَو سال کی زندگی نہیں گزاری کیونکہ بیس سال اس نے مردہ ہونے کی حالت میں گزارے ہیں۔ سَو سال کی عمر پانے والا سَو سال کی زندگی اسی صورت میں صحیح طور پر گزارتا ہے جس صورت میں کہ اس نے ساری زندگی اپنے اللہ کی اطاعت میں گزاری ہو۔ جس شخص نے اپنی زندگی کے چند لمحات یا زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے پہلو تہی کرتے ہوئے، اس سے منہ موڑتے ہوئے، نیک نیتی اور اخلاص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گزارا ہو اس کی عمر کا وہ حصہ ضائع ہو گیا۔ اور نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اپنی پوری عمر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کی تھی وہ حقیقتاً اس نے اس دنیا میں گزاری کیونکہ یہاں کی پیدائش کا ایک مقصد ہے اور جو حصہ عمر اس مقصد کے خلاف خرچ ہوتا ہے وہ عمر ضائع جاتی ہے۔

پس فرمایا کہ اگر تم ماہ رمضان کی برکات سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہتے ہو اور اس کے لئے اپنی عمر کو خرچ کرتے ہو تو دیگر برکات کے علاوہ تمہیں ایک یہ برکت بھی حاصل ہو گی کہ تمہیں اللہ تعالیٰ دوسری نیکیاں کرنے کی بھی توفیق دے گا اور اس مہینہ کے بعد جو گیارہ ماہ اَور تمہاری زندگی میں آنے والے ہیں وہ بھی حقیقی معنی میں تم خدا کی راہ پر خرچ کرنے والے ہو گے۔

تو جو شخص رمضان شریف کو نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ گزارتا ہے تو بقیہ سال کے گیارہ مہینوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کی توفیق پاتا ہے اور اس طرح اس کی ساری زندگی نیکیوں میں گزرتی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی ساری عمر اس مقصد کے لئے گزاری جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا۔

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مہینہ میں میں تم پر اتنی روحانی نعمتیں اور برکتیں نازل کروں گا کہ تم اپنے آپ کو مجبور پائو گے کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کرتے پھرو اور پھر تم قربانی کے ہر موقع کو تکلیف اور دکھ نہیں سمجھو گے بلکہ فضل الٰہی جانو گے وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ اور یہ فضل تم پر اس لئے بھی نازل ہوں گے کہ تمہارے دل اس کے شکر سے بھر جائیں اور جس مومن کا دل اس کے شکر سے بھر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور دَور اس کے لئے شروع ہو جاتا ہے کیونکہ خداتعالیٰ خود فرماتا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراھیم:8)یعنی میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔

پس جب اللہ تعالیٰ کا انعام نازل ہوا اس لئے کہ اس نے ہماری حقیر سی کوشش کو قبول فرما لیا تو اس کے نتیجہ میں ہمارے دل میں شکر کے جذبات پیدا ہوئے۔ فرمایا لَاَزِیْدَنَّکُمْ کہ میں تمہیں اور نیکیوں کی توفیق بخشوں گا۔ پھر اس کی وجہ سے اور شکر کے جذبات پیدا ہوں گے۔ گویا اس طرح ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اسی تسلسل اور مخلصانہ نیت کی وجہ سے اُخروی زندگی محدود اعمال کے باوجود ابدی زندگی ہوجائے گی۔

پھر فرمایا۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ کہ جب میں نے اپنے بندوں کو یہ بتایا کہ تم پر بڑے انعامات نازل ہوں گے بڑا فضل نازل ہو گا اور تم خدا کے مقرب بن جائو گے تو اس پر میرے بندے کہیں گے کہ ہمارا ربّ تو محض کبریائی ہے۔ محض پاکیزگی ہے۔ رفیع الدرجات ہے۔ تمام صفاتِ حسنہ سے متصف ہے کمال تام اسی کو حاصل ہے اور وہ اتنا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ اس کی رفعتوں تک ہمارا تخیل بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اس کی رفعتوں کی کوئی انتہا ہے۔ لیکن جب ہم اپنے کو دیکھتے ہیں تو اپنے کو خطا کار، گنہگار اور نہایت ضعیف پاتے ہیں۔ اس طرح ہمارے درمیان اور ہمارے ربّ کے درمیان لامتناہی فاصلے پائے جاتے ہیں۔ کیا ہماری حقیر کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے؟

فرمایا۔ جب میرے بندے تجھ سے اس معاملہ کے متعلق سوال کریں تو تم انہیں کہہ دو کہ بے شک تم کمزور بھی ہو۔ تم گنہگار بھی ہو۔ تم خطار کار بھی ہو۔ میں تمام بلندیوں کا مالک اور تمام رفعتیں میری طرف ہی منسوب ہوتی ہیں لیکن میری ایک اور صفت بھی ہے اور وہ یہ کہ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا (الزمر54:) کہ اگر میں چاہوں تو مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہونے کی وجہ سے اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو بخش بھی دیا کرتا ہوں اور جب گناہ میری مغفرت کی چادر کے نیچے چھپ جائیں تو پھر میرے اور تمہارے درمیان جو گناہوں کے فاصلے ہوں گے وہ مٹ جائیں گے اور میں خود آسمانوں سے اتروں گا اور تمہارے قریب آ جائوں گا اور تمہیں اپنا مقرب بنا لوں گا۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ اور اس کی علامت یہ ہو گی کہ تم دعا کرو گے تو میں اسے قبول کر لوں گا تاکہ دنیا یہ نہ کہہ سکے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا جو قرب حاصل ہے وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے کی برکت سے حاصل ہوا ہے یہ محض تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اس قرب کی دلیل مہیا کرنے کے لئے میں تمہاری دعائوں کو قبول کروں گا تاکہ دنیا یقین کر لے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو، واقعی سچا ہے۔ اگر تم گریہ وزاری اور عجز و انکسار اور تذلّل کے ساتھ میرے سامنے جھکتے رہو گے تو دنیا اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کے نظارے بھی دیکھتی چلی جائے گی۔
دعا اور قبولیت دعا کے متعلق ہمیں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا ربّ ہماری دعائیں قبول تو کرتا ہے لیکن اپنے فضل اور اپنی مرضی سے۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ ہمارا غلام ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) اس کا فرض ہے کہ ہماری دعا کو اس رنگ میں قبول کرے جس رنگ میں کہ ہم چاہتے ہیں۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ وہ تو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور وہ محض اپنے فضل سے نہ کہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے ہمارے لئے قرب کی راہیں کھولتا ہے اور ہماری دعائوں کو قبول کرتا ہے۔ چونکہ وہ علاّم الغیوب ہے۔ ہم نہیں جانتے مگر وہ جانتا ہے کہ جو دعا ہم اپنے لئے جس رنگ میں مانگ رہے ہیں وہ ہمارے لئے اچھی بھی ہے یا نہیں۔ تب بعض دفعہ وہ ہماری دعائوں کو قبول کرتے ہوئے ہمارے لئے خیر کی راہیں اس طرح کھول دیتا ہے کہ جو ہم نے مانگا تھا وہ نہیں دیتا اور جو ہم نے نہیں مانگا تھا وہ ہمیں دے دیتا ہے۔

پھر وہ ہمارے اخلاص اور محبت کے دعویٰ کی آزمائش بھی کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے دعویٰ میں سچے بھی ہیں یا نہیں۔ پھر بسا اوقات ہماری دعا اور قبولیت دعا کے درمیان بڑا زمانہ گزرتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں اس کے متعلق ایک بڑا لطیف نوٹ دیا ہے۔ فرمایا :-

’’غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلائوں اور مشکلات میں بھی اپنے ربّ کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کے بعد نصرت آتی ہے اور ان ابتلائوں کے آنے میں پھر یہ ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے‘‘۔
پھر فرمایا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ کہ دعا کا نشان دیکھ کر مومن بندوں کو یقین کر لینا چاہئے کہ میں نے جو احکام بھی ان کے لئے آسمان سے نازل کئے ہیں وہ ان کی بہتری کے لئے ہی ہیں۔ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ چاہئے کہ وہ میری توحید پر ایمان لائیں اور میری صفات کی معرفت حاصل کریں اور تخلّق باخلاق اللہ کی طرف وہ متوجہ ہوں اور اس کی توفیق انہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے۔ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ کہ وہ ہدایت پر استقامت سے قائم ہو جائیں۔
رُشد کے معنی ہیں نیکیوں پر دوام۔ اور یہ بڑی ضروری چیز ہے جو شخص چند روزہ نیکیوں کے بعد پھر اپنی زندگی کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں گزارتا ہے وہ اس کے فضلوں کو کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے رشد کی ضرورت ہے اور رُشْد کے معنی عربی زبان میں یہ ہیں کہ ہدایت پا گیا اور اس پر قائم رہا۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے ہدایت کے سامان بھی مہیا فرمائے ہیں اور پھر تم ماہ رمضان میں قبولیت دعا کے نمونے بھی دیکھتے ہو لیکن اگر تم مستقل طور پر میری اطاعت کو اختیار نہیں کرو گے تو میرے فضل بھی تم پر مستقل طور پر نازل نہیں ہوں گے اور نہ ہی تمہارا انجام بخیر ہو گا۔ انجام بخیر اسی کا ہوتا ہے جو اپنی زندگی کے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پررکھے۔

الغرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دو چھوٹی سی آیات میں جو حکمت اور ہدایت کی باتیں بتائی ہیں اس سے جو نتیجے نکلتے ہیں ان میں سے اوّل تو یہ ہے کہ رمضان شریف کا قرآن مجید کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس لئے رمضان شریف میں تلاوت قرآن مجید بڑی کثرت سے کرنی چاہئے۔ ہمارے بعض بزرگ تو ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں نبی کریمﷺکی احادیث کے جمع کرنے میں گزار دیں۔ لیکن جب رمضان آتا تو وہ حدیث کا سارا کام بستوں میں لپیٹ دیتے اور کہتے کہ اب یہ قرآن مجید پڑھنے کا مہینہ ہے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کئی ایک تو ایک ایک دن میں قرآن کریم کا دور ختم کرتے یعنی رمضان شریف کے ایک مہینے کے اندر وہ تیس دفعہ قرآن کریم کو پڑھتے۔

دوسری بات یہ کہ جب قرآن ھُدًی لِّلنَّاسِ ہے۔ اور اس میں بَیِّنَاتِ ہدایت بھی درج ہیں اور پھر وہ الفرقان بھی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم تلاوت کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات پر غور کریں اور فکر اور تدبّرسے کام لیں اور ساتھ ہی دعا بھی کریں کہ اے اللہ! ہمیں علم قرآن عطا کر اور اس کے حقیقی معنی سمجھا۔
تیسری بات جو بیان ہوئی ہے۔ وہ فَلْیَصُمْہُ ہے۔ کہ اس مہینے کے روزے رکھے۔ یہ ایک حکم ہے۔ کسی کو سمجھ آئے یا نہ آئے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ مسلمان کا اتنا تو ایمان ضرور ہوتا ہے کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ اور اس میں روزے رکھنے کا حکم ہے۔ اس لئے روزے رکھنے چاہئیں۔
چوتھی بات یہ کہ جو شخص سفر پر ہو یا بیمار ہو تو وہ اتنے دن کے روزے بعد میں رکھے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ جو سفر پر ہو یا بیمار ہو اور وہ روزے نہ رکھ سکے تب وہ ان روزوں کو پورا کرے۔ تو ان الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی سے بیماری میں روزہ رکھ لیتا ہے یا سفر میں روزہ رکھ لیتا ہے تو قرآن کریم کی اس آیت پر تبھی وہ کار بند رہ سکتا ہے کہ ان روزوں کے باوجود کسی اور وقت میں روزے رکھے۔ کیونکہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ روزے چھوٹیں تب اور وقت میں روزے رکھو۔ قرآن کریم نے تو صرف یہ فرمایا ہے کہ جو دن رمضان کے ایسے آئیں جن میں تم بیمار ہو یا سفر میں ہو تو ان دنوں کے روزے تم نے دوسرے دنوں میں رکھنے ہیں۔ مگر بہانہ جُو بھی نہیں بننا چاہئے۔ بات یہ ہے کہ سفر کے متعلق بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ’’جی اَج کل دے سفر دا کی اے۔ بڑا آرام ہے ریل وچ بیٹھے ایتھوں اوتھے پہنچ گئے‘‘ لیکن اگر روزہ رکھنا عبادت ہے۔ تو عبادت خواہ جونسی بھی ہو۔ اسے ہم نے اس کی پوری شرائط کے مطابق ادا کرنا ہے۔ مثلاً قرآن کریم کا پڑھنا، نوافل ادا کرنا، رات کو جاگنا، دن کو بھوکے اور پیاسے رہنا۔ پھر بری عادتوں کو چھوڑنا اور کئی نیکیوں کے کرنے کا اپنے ربّ سے وعدہ کرنا۔ وغیرہ کئی چیزیں ہیں جن کا تعلق رمضان کے مہینے سے ہے۔ سو اگر رمضان کی عبادت کما حقہ ہم نے ادا کرنی ہے تو یقینی بات ہے کہ چاہے ریل کا سفر ہو۔ یا ہوائی جہاز کا ہم اس عبادت کو سفر میں یا بیماری میں کما حقہٗ ادا نہیں کر سکتے۔ ایک شخص بیماری کی وجہ سے مثلاً نوافل ادا نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی رات کو دعا کرنے کا موقع پاتا ہے۔ تو ایک طرح اس نے اس عبادت سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھایا۔ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہی تو روزے کا مقصد نہیں کہ صبح صبح کسی کو اس کے گھر والے اٹھائیں۔ یا سوئے سوئے اس کے منہ دودھ کا پیالہ یا ہارلکس کا ایک گلاس ڈالدیں اور پھر وہ لیٹ جائے اور سارا دن سوتا رہے اور پھر شام کے وقت اس کو افطاری کے لئے اٹھا دیا جائے۔ یہ کوئی روزہ نہیں۔ نہ یہ رمضان کی عبادت کہلائے گی۔بہرحال بہانہ بھی نہیں کرنا چاہئے۔ کہ کسی طرح روزے کو چھوڑ دیا جائے۔ بیماری کے متعلق تو بہانہ بنانا آسان ہے اس لئے بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے یہ صرف ڈاکٹر ہی فیصلہ دے سکتا ہے۔ کہ یہ بیماری ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے روزہ چھوڑا جائے۔ بعض بیمار ایسے ہوتے ہیں کہ بظاہر چنگے بھلے معلوم ہوتے ہیں چلتے پھرتے بھی ہیں لیکن ڈاکٹر یہ فیصلہ دے دیتا ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔ مثلاً ایک شخص بلڈ پریشر کا بیمار ہے۔ اور ڈاکٹر کے نزدیک اس کا روزہ رکھنا اس کے لئے خطرناک ثابت ہو حالانکہ وہ چلتا پھرتا ہو گا۔ باتیں بھی کرتا ہو گا۔

اسی طرح بعض ایسی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں کہ ڈاکٹر یہ فیصلہ دے کہ اس بیماری میں روزہ رکھنا مضر نہیں بلکہ مفید ہو گا۔ پس ہمیں بہانہ بنا کر روزہ نہ چھوڑنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں اور نہ کسی کی حالت چھپی ہوئی ہے۔ ہم اس کے ساتھ فریب یا چالاکی سے کام نہیں لے سکتے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان سے جو کل شروع ہو گا اور اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی توفیق بخشے اور جب اس کی رحمت جوش میں آئے۔ تو ہمارے گناہوں کی طرف وہ نہ دیکھے۔ بلکہ اپنی رحمت کے جوش میں ہم پر رحمت کے بعد رحمت، فضل کے بعد فضل اور برکت کے بعد برکت نازل کرتا چلا جائے۔ اور وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کی عبادت پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں اور ہمیں ثباتِ قدم عطا فرمائے۔ اور ایک دفعہ ہمارے دلوں میں اپنی محبت کی چنگاری جگا کر پھر اسے کبھی نہ بجھنے دے بلکہ یہ آگ بڑھتی ہی چلی جائے۔ اے اللہ!ایسا ہی کر!آمین۔

(خطبات ناصر۔ جلداوّل صفحہ54تا66 )

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button