قرآن کریم

قرآن مجید کی پاک تاثیرات (پہلی قسط)

(عبدالرب انور محمود خان ۔ امریکہ)

(سعید فطرت لوگوں کی توحید اور اسلام کی طرف رہنمائی کے دلچسپ و ایمان افروز واقعات)

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ پاک کلام ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ متقیوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ (1)قرآن کریم میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنے کے سامان موجود ہیں۔ یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوق حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں۔صرف فلسفیانہ خیالات پیدا ہونا ان کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے۔ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ فطرت انسانی کو ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے۔‘‘
اس مضمون میں مندرج تمام کہانیاں اس حقیقت کی پرزور تائید کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ قرآن کریم فی الحقیقت فطرتِ صحیحہ رکھنے والوں کے لئے موجب ہدایت ہے۔

اس مضمون میں ایسے بعض نیک فطرت افراد کی زندگیوں کی وہ جھلکیاں پیش ہیں جن سے وہ توحید اور اسلام کی طرف مائل ہوئے اور ایک مکمل انقلاب ان کی زندگیوں میں آگیا اور اس کا باعث قرآن کریم کی چند آیات کا مطالعہ اور اس پرغور بنا اور وہ بلا تردّ د توحید حقیقی کے قائل ہوکر داخل اسلام ہوئے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

جب ایک عمومی نظر ان تمام افراد کے واقعات پر ڈالی جائے تو مندرجہ ذیل امور واضح طور پر سامنے آتے ہیں:۔

1۔ یہ تمام افراد اسلام قبول کرنے سے قبل انتہائی ذہنی دباؤ اورمشکلات میں تھے اور مذاہب سے تقریباً نا امید ہو چکے تھے کیونکہ کسی مذہب نے وہ ذہنی سکون ان کو نہیں پہنچایا جس کی وہ تلاش میں تھے۔

2۔ یہ تمام افراد دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کے وجود کے قائل تھے۔ اور یہ تصور رکھتے تھے کہ دعا کے ذریعے کوئی راستہ ان کے لئے استوار ہو جائے گا۔

3۔ یہ تمام اسلام قبول کرنے والے قرآن کریم سے مکمل طور پر نا بلد تھے۔ ان میں سے اکثر نے قرآن کریم نہ کبھی سنا تھا اور نہ دیکھا تھا۔

4۔ ان میں سے کچھ سخت معاندین اسلام تھے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں ہمہ تن مشغول تھے۔
5۔ ایک بڑا حصہ ان نئے مسلمانوں کا دنیوی تعلیم اور رتبہ میں چوٹی پر تھا۔ اعلیٰ ڈگریوں کے علاوہ انتہائی اعلیٰ عہدوں پر اور اہم آسامیوں پر فائز تھے۔

6۔ ان میں سے بعض بذریعہ رؤیائے صادقہ ان آیات کی طرف مائل ہوئے اور ایک فرد کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں نظر آئے اور سورۃ النبا کی آیات سمجھائیں۔

7۔ تقریباً تمام واقعات موجودہ سے واضح ہوتا ہے کہ ان نو مسلمین کو اسلام اور قرآن کے بارے میں جو باتیں چرچ کی طرف سے یا دیگر ذرائع سے بتائی گئی تھیں و ہ محض کذب اور افتراء تھا اور ان کا حقیقت ِ اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔

8۔ بعض پادریوں نے کرسمس کے MASS میں دوران خطاب بر ملا اسلام قبول کر لیا۔ اور لوگوں سے مزید خطاب جاری رکھنے کی معذرت کر دی۔

9۔ ایک کثیر تعداد میں ان نو مسلمین نے بعد از قبول اسلام انتہائی تکالیف اٹھائیں۔ بے گھر ہوئے، بیروزگاری برداشت کی یہاں تک کہ بعض نے اپنے بچے بھی اسلام کی راہ میں پیش کر دیئے اور ایک لحظہ کے لئے بھی اپنا ایمان نہیں کھویا۔

10۔ کئی افراد نے بعد از قبول اسلام محاسن قرآن کریم پر کتب تصنیف کیں۔ بعض نے blogs اور websites جاری کیں اور تقریباً سب کے سب اسلام کے دفاع کے لئے ایک آ ہنی دیوار بن گئے۔

11۔ کچھ نامور سائنسدان اپنی Professional Conferences میں مجمع کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر داخل اسلام ہوئے۔

12۔ ایک نو مسلم نے لکھا کہ میں نے دنیا کی تمام الٰہی کتب کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے اور ان کا موازنہ قرآن کریم سے ایسا ہی ہے جیسے کہ آفتاب کی روشنی کا دیا سلائی سے۔

13۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض آیات کا اثر مختلف علاقوں میں بسنے والوں پر اور مختلف زمانوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ انسانیت پر مختلف زبان بولنے والوں پر اور مختلف نسلوں کے افراد پر بالکل ایک ہی ہوا یعنی قبول اسلام۔ مثلاً 1400 سال بعد ایک بادشاہ پر جس آیت نے اثر کیا آج کی دنیا میں متعدد افراد پر اس آیت کا بالکل وہی اثر ہوا۔

14۔ بعض افراد نے کسی آیت سے متأثر ہو کر یہ لکھا کہ یوں لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے شروع سے یہ آیت میرے لئے اتاری تھی اور مجھے آج اس کا علم ہوا۔

15۔ ایک ماہر حساب دان نے یہ لکھا کہ جب بھی میں قرآن پڑھتا ہوں قرآن مجھے 101 فیصد جانتا ہے اور اگلی آیت ان شبہات کا ازالہ کر دیتی ہے جو دل میں پیدا ہوتے ہیں۔یہ ایک انتہائی عجیب کتاب ہے ایسا لگتا ہے کہ میں اس کا مطالعہ نہیں کر رہی بلکہ وہ میرا مطالعہ کر رہا ہے۔

16۔ پُر آشوب واقعہ 9/11 کے دوران ڈیوٹی پر فائز افراد نے اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک آیت قرآن پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔چنانچہ BBC نے یہ سرخی لگائی:

’’From Kabul to Kaba‘‘
یعنی کابل سے کعبہ تک۔

17۔ جس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانہء مبارک میں بعض افراد جنہوں نے اسلام قبول کیا انہی آیات کو سن کر عیسائی منادوں نے اپنے چولے اتار دیئے اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

18۔ بعض یہودیوں نے جو عہد نامہ قدیم کے ماہرین تھے قرآنی کلام سے مقابلہ کیا اور قرآن کریم کی عظمت کے بے اختیار قائل ہوگئے اور اسلام قبول کیا۔

ماخوذات

ان واقعات کے حصول کے لئے تعلیلی تحقیق کی گئی اور مندرجہ ذیل اقسام پر یہ ماخوذات مشتمل ہیں:
٭ پرنٹ میڈیا میں شائع شدہ کتب۔

٭ الیکٹرانک میڈیا میں شائع شدہ کتب (online)۔

٭ YouTube پر ریکارڈ کی ہوئی کہانیاں اور انٹرویو۔

٭ کتب احادیث اور اسلامی تاریخ۔

٭ مختلف اسلامی ویب سائٹس پر جاری کی جانے والی کہانیاں۔

٭ بعض افراد سے فون پر براہ راست رابطے کئے گئے۔ انہوں نے ای۔میل سے جواب دیئے۔

٭ سعودی عرب کی ایک تنظیم نے ای۔میل سے متعدد کہانیاں بھجوائیں۔ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کیا گیا۔

٭ بعض واقعات انٹرنیشنل اخبارات اور جرائد سے اخذ کئےگئے۔

٭ بعض افراد سے براہ راست گفتگو کر کے کہانی کی صداقت پر کھی گئی۔

٭ بعض احادیث کے حوالہ جات دئے گئے جو عرف عام میں نا معلوم ہیں۔

٭ سار ے حوالہ جات کو باریکی سے چیک کیا گیا اور ان کی صحت کی مقدور بھر کوشش کی گئی۔ بعض کتب مہیا ہیں مگر ان کے مطبع خانے قائم نہیں۔

نظم و ترتیب

ا ن واقعات کے دو حصّے بنائے گئے ہیں۔ پہلے حصّہ میں رسول مقبول ﷺ کی حیات مبارکہ کے دور کے جن افراد کے واقعات ملے ان کو جمع کیا گیا ہے۔ دوسرے حصّہ میں باقی تمام واقعات جو دور حاضر کے نو مسلمین کے ہیں، ان کو لکھا گیا ہے۔

اگرچہ قبول اسلام کے سینکڑوں محرکات ہیں۔ بعض اذان سن کر مسلمان ہوجاتے ہیں۔ بعض اسلامی تعلیمات مثلا ً حفظانِ صحت سے متاثر ہو کر، بعض نماز کی ماہیت اور اس کی ادائیگی کے زیر اثر۔ بعض دوسرے مسلمانوں کے عمدہ کردار سے متاثر ہوکر۔قطع نظر دیگر ذرائع یا محرکات کے اس مضمون میں صرف ان افراد کے واقعات شامل کئے گئے ہیں جوچند آیات پڑھ کر ، سن کر اور ان پر غور کر کے مسلمان ہوگئے۔
بعض ایسی آیات ہیں کہ متعدد افراد مختلف مقامات اور مختلف زمانوں میں بالکل یکساں طور پر ان سے متأثر ہوئے۔ ایسی آیات کے ضمن میں ان سب کی داستانیں یکے بعد دیگرے پیش کی گئی ہیں۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اپنی کتاب ’سرمہ چشم آریہ ‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہورہی ہے۔ کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اس میں درج نہ ہو۔ کوئی فکر ایسے برہان عقلی پیش نہیں کر سکتا جو پہلے ہی سے اس نے پیش نہ کی ہو۔ کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پُر برکت اثرلاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔ وہ بلا شبہ صفات کمالیّہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصطفّٰی آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارج ِ عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لئے درکارہے۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ صفحہ 23,24 حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 71۔72 حاشیہ)

1
سورۃ طٰہٰ آیات 15 تا 17
حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام

اِنَّنِیْٓ اَنا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآاَنَا فَاعْبُدْنِیْ۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْo(طٰہ15)

یقیناً میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر۔

اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَا دُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزٰے کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰیo (طٰہ16)

ساعت ضرور آنے والی ہے۔ بعید نہیں کہ میں اسے چھپائے رکھوں تا کہ ہر نفس کو اس کی جزا دی جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔

فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِھَا وَا تَّبَعَ ھَوٰہُ فَتَرْدٰیo(طٰہ17)

پس ہر گز تجھے اُس (کے تقاضے پورے کرنے) سے وہ نہ روک سکے جو اس پر ایما ن نہیں لاتا اور اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ورنہ تُو ہلاک ہوجائے گا۔

حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام انتہائی دلچسپ واقعہ ہے اور قرآن کریم کے دلکش اور دل پذیر اثر پرمہر صداقت ہے۔ تاریخ میں مندرجہ بالا آیات حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کا سبب بیان کی جاتی ہیں۔ تاریخ کے گہرے مطالعے سے ایک بات یہ سامنے آئی کہ ان آیات کی سماعت کے واقعہ سے قبل ایک اور واقعہ رُو نما ہوا جو کم بیان کیا جاتا ہے۔ پہلے ہم اس کم شنید واقعہ کو بیان کرتے ہیں اور پھر مندرجہ بالا آیت کے زیر اہتمام کھلم کھلا حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کی داستان قلم کریں گے۔

ورڈ پریس نے یہ لکھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب خانہ کعبہ تشریف لے گئے اور آنحضرت ﷺ کو مصروف عبادت دیکھا۔ آپ نے قریب جا کر سننے کی کوشش کی۔ حضور ﷺ سورۃ الحاقہ کی تلاوت فرمارہے تھے۔ حضرت عمر نے اسے سن کر کہا بخدا یہ تو عجیب شاعرانہ کلام ہے۔ جب انہوں نے یہ فقرہ کہا حضور ﷺ اس آیت پر پہنچے تھے کہ یہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کوئی شاعرانہ کلام نہیں اور بہت کم لوگ اس سے واقف ہیں۔ یہ سن کر انہوں نے یہ فقرہ از خود کہا کہ یہ کسی کاہن کا کلام ہوگا۔ حضور ﷺ نے اگلی آیت تلاوت فرمائی:

وَمَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔ یعنی نہ ہی یہ کاہن کا کلام ہے بلکہ یہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔ (الحاقۃ 42-43:)

اس پر حضرت عمر وہاںسے چلے گئے۔اپنی زندگی میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اس لمحہ اسلام میرے دل میں داخل ہو گیا تھا۔

اس واقعہ نے قرآن کریم کی عظمت کے ساتھ آنحضرت ﷺ سے نفرت بھی بے حد بڑھا دی۔اور ایک گر م شام کو رئوسائے قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ محمد ﷺکو جان سے ختم کردیاجائے۔ عمر نے فوراً اپنی خدمات پیش کردیں۔رئوسائے مکہ نے آپ کی یہ پیشکش قبول کرلی اور آپ کو اجازت دے دی کہ یہ کام کر دیا جائے۔
آنحضرت ﷺ اس وقت اَرقم کے گھر تھے۔ حضرت عمر نے وہاں جانے کا قصد کیا اور ننگی تلوار لے کر چل پڑے۔راستہ میں ان کی ملاقات نعیم بن عبداللہ سے ہوئی۔ جنہوںنے غضب سے بھرے ہوئے عمر سے پو چھا کہاں جاتے ہو؟ حضرت عمر نے بتایا کہ وہ محمد کو ختم کرنے جاتے ہیں۔ اس پر نعیم نے کہا قریش کے لوگ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔یہ نہ کرو۔اس پر حضرت عمر نے کہا لگتا ہے تم بھی مسلمان ہو چکے ہو۔ کیوں نہ تم کو پہلے ختم کردوں۔نعیم نے جواب دیا کیا میں تم کو بتائوں کہ تمہاری بہن اور بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ حضرت عمر اپنی بہن کے گھر چل پڑے اور دروازے پر دستک دی۔ ان کو تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ ان کی بہن نے دروازہ کھولا۔حضرت عمر نے نہایت غصہ سے دریافت کیا کہ کیا تم مسلمان ہو چکے ہو ؟ ان کے بہنوئی نے اثبات میں جواب دیا اور ان کو سمجھانے لگے۔ حضرت عمر کسی بیان کو پسند نہیں کرتے تھے اور آگے بڑھ کر ان پر وار کرنے کے لئے بڑھے۔اپنے شوہر کو بچانے کے لئے ان کی بہن درمیان میں آگئیں۔ اور ان کے چہرے پہ ہلکا اثر پڑا اور خون رواں ہو گیا۔انہوں نے حضرت عمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت جرأت سے کہا ہم مسلمان ہو چکے ہیں۔ جو کرنا ہے کرو اور کلمہ طیبہ پڑھا۔حضرت عمر نے اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھا اور اتنی جرأ ت کا مظاہرہ دیکھا تو ان کے مزاج میں ٹھنڈک آگئی اور انہوں نے اپنی بہن سے کہا مجھے وہ عبارت سنائو جو تم پڑھ رہے تھے۔ اس پر ان کی بہن نے کہا پہلے نہا کر آئو پھر اس پاکیزہ کلام کو سنو۔ وہ تیار ہوگئے تو انہوں نے سورۃ طہٰ کی آیات 15 سے 17 پڑھ کر سنائیں۔ حضرت عمر کے دل میں یہ آیات اتر گئیں اور انہوں نے اسلام قبول کرنے کا قصد کرلیا۔ وہ سیدھے دار ارقم پہنچے جہاں آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ صحابہ نے عمر کے ہاتھ میں تلوار دیکھی تو انہیں شبہ ہوا کہ حالات اب خراب ہو رہے ہیں۔آنحضرتﷺ کے ارشاد پر انہوں نے دروازہ کھول دیا۔حضرت عمر اندر تشریف لائے تو آنحضور ﷺ نے آپ کے آنے کا مقصد دریافت کیا تو حضرت عمر نے عرض کی کہ میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ اس پر آنحضرتﷺ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور صحابہ نے مل کر اَللہُ اَکْبَر سے اس کا جواب دیا۔

یہ واضح رہے کہ اس واقعہ سے چند روز قبل آنحضرتﷺ نے یہ دعاکی تھی کہ اے خدا ! مجھے دونوں عمروں میں سے ایک عمر عطا فرمایعنی عمرو بن ہشام ابو جہل یا عمر بن الخطاب۔ اللہ تعالیٰ نے کیسے پیارے رنگ میں حضورﷺ کی دعا سنی۔ سچ ہے

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گاانجام کار

(کہانی کا یہ حصہ رشید چوہدری صاحب کی تصنیف حضرت عمر فاروق ؓ سے لیا گیا ہے۔)

(https://invitation2islam. wordpress.com/2009/1028/how-umar-ibn-khattab- became-muslim)

2
سورۃ الانعام آیات 152 اور 153
حضرت اسعد بن زرارہ ؓ کی قبول اسلام کی دلچسپ داستان

قُلْ تَعَالَوْ ا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیکُمْ بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَلَا تَقْرَبُو ا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُو ا النَّفْس الَّتیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَo


ترجمہ: تُو (ان سے ) کہہ کہ آؤ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے میں پڑھ کر سناؤں۔ (اس کا حکم ہے) کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور والدین سے احسان کرو اور مفلس ہوجانے کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی۔ اور بدیوں کے قریب (بالکل ) نہ جاؤ۔ نہ ان میں سے ظاہر (بدیوں) کے نہ چھپی (بدیوں)کے۔ اور یہ کہ اس نفس کو جسے (قتل کرنا)اللہ نے منع فرمایا ہے (شریعت یا قانون کی) اجازے کے بغیر قتل نہ کرو۔ اللہ اس بات کا تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے تاکہ تم بدیوں سے رکو۔

وَلَا تَقْرَبُوْ ا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُو االْکَیلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo

ترجمہ: اور (یہ حکم دیتا ہے کہ) تم یتیم کے مال کے پاس اس کے جوانی کے پہنچنے تک بے احتیاطی سے نہ جاؤ۔ اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول دو۔ ہم کسی شخص کواس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیتے(یہ کہ) جب تم کوئی (بات) کہو تو گو وہ شخص (جس کے متعلق بات کہی گئی ہو) قریبی ہو انصاف سے کام لو اور اللہ کے عہد کو بھی (پورا) کرو۔ وہ اس (امر) کی تمہیں اس لئے تاکید کرتا ہے کہ تمیں نصیحت حاصل ہو۔

مندرجہ بالا آیات کی سماعت کے بعد قبیلہ خزرج کے چھ افراد فوری طور پر اسلام لے آئے۔ تفصیل اس اجمال کہ یہ ہے کہ مدینہ میں دو یہودی قبائل اوس اور خزرج کئی نسلوں سے خانہ جنگی کا شکار تھے کہ اچانک ایک قبیلے کے سربراہ اسعد بن زرارہ کے ذہن میںخیال آیا کہ کیوں نہ قریش سے مدد حاصل کی جائے۔ چنانچہ وہ اس غرض سے مکہ آئے اور رؤسائے قریش سے اپنا مدعا بیان کیا۔ عتبہ بن ربیعہ ، جو اُن کے دوست تھے، نے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ آجکل اپنے مسائل کا شکار ہیں اور ایک مشکل یہ آن پڑی ہے کہ ان کی قوم میں کے ایک شخص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور اس طور پر خاندان میں فساد پڑ رہا ہے۔ زمانہ حج کے علاوہ وہ شعب ابی طالب میں رہتا ہے لیکن حج کے زمانے میں ’حجر اسمٰعیل ‘ کے پاس رہتا ہے اور تمام لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیتا ہے۔ اس عرض حال کو سن کر زُرارہ نے ارادہ کیا کہ وہ مزیدکسی سے نہیں ملے گا اور واپسی کا قصد کیا لیکن واپسی سے پہلے زیارت خانہ کعبہ ضرور کرے گا۔ یہ چھ افراد کعبہ کی زیارت کے لئے گئے اور آنحضرت ﷺ کو صحن کعبہ میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ حضور ﷺ کی طرف گئے اور صبح بخیر کہہ کر مخاطب ہوئے۔ اس پر خدا کے رسول نے آپ کو توجہ دلائی کہ آپ کو ملاقات کا آغاز السلام علیکم سے کرنا چاہئے۔ پھر آپ نے اسلام کا تعارف کرایا اور سورۃ الانعام کی آیات 152-153 تلاوت کیں۔ ان سب نے غور سے یہ آیات سنیں اور پھر آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں مدینہ جانے سے پہلے اسلام قبول کر لینا چاہئے۔ چنانچہ ان چھ افراد نے حضور ﷺ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے ؓ اپنی تصنیف ’ سیرت خاتم النبین‘ میں اس واقعہ کا ذکر یوں کیا ہے:
’’ (خزرج کے ان افراد کو ) آنحضرت ﷺ نے مخاطب ہو کر فرمایا: کیا آپ لوگ میری کچھ باتیں سن سکتے ہیں‘‘ ۔

انہوں نے کہا: ہاں! آپ کیا کہتے ہیں؟

آپؐ بیٹھ گئے اور ان کو دعوت اسلام دی اور قرآن شریف کی چندآیات سنا کر اپنے مشن سےآگاہ کیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا یہ موقعہ ہے ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے سبقت لے جائیں۔ یہ کہہ کر سب مسلمان ہوگئے۔ ان اشخاص کے نام یہ تھے :

1۔ ابو امامہ اسعد بن زرارہ ؓ جو بنو نجّار سے تھے اور تصدیق کرنے میں سب سے اوّل تھے۔

2۔ عوف بن حارث ؓ۔ یہ بھی بنو نجار سے تھے جو آنحضرت ﷺ کے دادا عبدالمطلب کے ننھیال کا قبیلہ تھا۔

3۔ رافع بن مالک ؓ جو بنو زریق سے تھے۔ اب تک جو قرآن شریف نازل ہو چکا تھا اس موقعہ پر آنحضرت ﷺ نے ان کو عطا فرمایا۔

4۔ قطبہ بن عامر ؓ جو بنو سلمہ سے تھے۔

5۔ عقبہ بن عامر ؓ جو بنی حرام سے تھے۔

6۔ جابر بن عبداللہ بن رُمان ؓ جو بنی عبیدہ سے تھے۔

اس کے بعد یہ لوگ آنحضرت ﷺ سے رخصت ہوئے اور جاتے ہوئے عرض کی کہ خانہ جنگیوں نے ہمیں بہت کمزور کر رکھا ہے اور ہم میں آپس میں بہت نااتفاقیاں ہیں۔ ہم یثرب میں جا کر اپنے بھائیوںمیں اسلام کی تبلیغ کریں گے۔ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ہم کو پھر جمع کر دے۔ پھر ہم ہر طرح آپ کی مدد کو تیار ہوں گے۔ یہ لوگ گئے اور ان کی وجہ سے یثرب میں اسلام کا چرچا ہونے لگا۔‘‘

(از ’’سیرت خاتم النبینؐ‘‘ تحریرفرمودہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ جلد اول صفحہ 222)

پروفیسر انصارین کی تحقیق کے مطابق یہ آیات سورۃ انعام کی دو آیات 152,153 تھیں جو تازہ نازل ہوئی تھیں۔اگلے سال چھ افراد مکہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔اس طرح رفتہ رفتہ یثرب میں اسلام کی اشاعت شروع ہوئی۔

(یہ ان کی ویب سائٹ سے حاصل کیاگیا ہے جس کا لنک یہ ہے۔)

(http://imamreza.net/eng/ imamreza.php?print=1053)

3
سورۃ مریم رکوع نمبر 1-2
نجاشی بادشاہ ابی سینیا کا قبول اسلام

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )1)
میں اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے پرھتا ہوں

کٓھٰیٰعٓصٓ۔ )2)
ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا )3)
اے عالم و صادق خدا تو کافی اور ہادی ہے۔ اس سورۃ میں تیرے رب کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی۔

اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِیًّا )4)
اس وقت کہ جب اس نے اپنے رب کو آہستہ آواز سے پکارا۔

قَالَ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًا – (31)
(یعنی ابن مریم) نے کہا میںاللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب بخشی اور مجھے نبی بنایا

وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَاکُنْتُ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوۃِ ۔وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًا ۔ )32)
اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے۔اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کا تاکیدی حکم دیا ہے جب تک میں زندہ ہوں۔

وَّ بَرَّا بِوَا لِدَتِی وَلَمْ یَجْعلْنِیْ جَبَّا رًا شَقِیًّا ۔ )33)
اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا

وَالسَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیَّا ۔ )34)
اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

تخلیق انسانی کا ذکر کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے انسان کی تخلیق بہترین اجزائے ترکیبی سے کی ہے اور ان کو اپنی فطرت پر تخلیق کیا ہے۔جونہی قلب انسانی ساری آلائشوں سے صاف ہوکر خدا تعالیٰ کا پاک کلام سنتا ہے تو یک لخت وہ اس سے متاثر ہو کر سر تسلیم خم کر لیتا ہے۔رونا آنسوؤں کا یک بیک بہ پڑنا ہے۔ یہ اس قلبی کیفیت کی نشاندہی ہے جو الفاظ میں بیان کرنی اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اسی کیفیت کا نقشہ قرآن کریم نے خود کھینچا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّا عَرَفُوْ ا مِنَ الْحَقِّ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰ مَنَّافَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ o

اور جب وہ سنتے ہیں جو اس رسول کی طرف اتارا گیا تو تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں اس کی وجہ سے جو انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے پس ہمیں گواہی دینے والوں میں تحریر کر لے۔ (سورۃ المائدہ 84 :)

ابن ہشّام اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت نجاشی بادشاہ پر چسپاں ہوتی ہے جب جعفر بن ابو طالب ؓ نے سورۃ مریم کی آیات ان کے سامنے تلاوت کیں۔ چنانچہ وہ مزید اس کیفیت کو اس طرح لکھتے ہیں کہ بادشاہ کی ریش پر ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے۔ اور اس کیفیت کا مشاہدہ موجودتمام حاضرین نے کیا۔ ہر تاریخ نے اس کیفیت کو اسی طرح تحریر کیا ہے جو یہ آیت کریمہ بتلا رہی ہے۔

ابی سینیا کے بادشاہ کا قبول اسلام

جب آنحضور ﷺ نے دعویٰ نبوت فرمایا تو جن لوگوں نے حضور ﷺ کے پیغام کو سنا اور مسلمان ہوگئے ، مکّہ والوں نے بے دردی اور بہیمانہ طریق پر ان پر مظالم کی بوچھاڑ کر دی۔ تین سال خدا کے نبی کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیاگیا اور وہ کون سا ظلم تھا جو مسلمانوں پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ ان حالات میں آنحضرت ﷺ نے چند مومنین کو ایبی سینیا ہجرت کرنے کی یہ کہہ کر اجازت دی کہ وہاں کا بادشاہ ایک عادل بادشاہ ہے اور وہ آپ لوگوں سے مروّت کا سلوک کرے گا۔ چنانچہ 83 افراد پر مشتمل ایک قافلہ ایبی سینیا کی طرف ہجرت کر گیا۔ جب کفار کو اس قافلہ کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے اس قافلے کا پیچھا کیا۔ مگر جب تک وہ ان کے تعاقب کے لئے پہنچےوہ قافلہ ساحل سمندر سے روانہ ہوچکا تھا ۔ ان کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو انہوں نے دو افراد پر مشتمل ایک ٹیم ایبی سینیا کی طرف روانہ کی تا کہ بادشاہ سے کہہ کر قافلے کو واپس مکہ بھجوایا جائے۔ انہو ں نے بادشاہ کے لئے قیمتی تحائف کا اہتمام کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوگئے۔ انہوں نے بادشاہ سے کہا: ’’ یہ مکہ والے لوگ ہمیں چھوڑ کر آپ کے پاس پناہ لینے آئے ہیں۔ ان سب نے دین میں تفرقہ مچایا ہے۔ وہ بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں۔ اور یہاں بھی انہوں نے وہی برباد ی اور انتشار پھیلانا ہے جو وہ وہاں کرتے تھے۔ یہ عیسیٰ ابن مریم کو خدا کا بیٹانہیں مانتے اور کسی کے آگے یہاں تک کہ آپ کے آ گے بھی سر نہیں جھکاتے۔ ان کو ہمارے حوالے کر دیں یا واپس بھیج دیں۔‘‘

بادشاہ نجاشی نے جوابًا ترش لہجے میں کہا ’’ قسم خدا کی میں ان لوگوں کو زیرِنگوں نہیں کروں گا جو بے یار و مددگار ہیں اور میرے وطن میں پناہ گزیں ہیں۔ میں ان سے گفتگو کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔ اگر واقعتًا وہ ایسے ہی ہیں جیسے تم کہتے ہو تو اور بات ہے اور میں ان کو واپس بھیج دوں گا لیکن اگر اس کے بر عکس حقیقت نکلی تو میں ان کو نہ صرف پناہ دوں گا بلکہ ان کا پورا خیال رکھوں گا۔‘‘(ابن ہشّام)
بادشاہ نے مسلمانوں کے لیڈر کو بلایا اور جعفر بن ابوطالب ؓ مسلمانوں کے نمائندے کی حیثیت سے دربار میں حاضر ہوئے۔ نجاشی نے ان سے سوال کیا: ’’ کیا آپ کے پاس کوئی چیز خدا کی طرف سے ہے جو آپ پیش کرسکتے ہیں؟‘‘

جعفر ؓ نے اثبات میں سر ہلایا۔ نجاشی نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ اس بیان کو پڑھیں۔ جعفرؓ نے سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت شروع کی۔ بادشاہ کے آنسو جاری ہوگئے اور اس کی ریش پر گرنے لگے۔ اسی طرح تمام بشپس جو وہاں موجود تھے ان کی کتب کے اوراق بھیگ گئے۔

نجاشی نے کہا جو پڑھا گیا ہے اور جو مسیح لے کر آئے تھے وہ ایک ہی ہستی کی طرف سے ہے۔ تم دونوں جاسکتے ہو۔ خدا کی قسم میں ان کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ اور ان سے کوئی بے وفائی نہیں ہوگی۔
اس واقعے کے بعد کفار کے نمائندہ نے کہا کہ کل میں ان کے خلاف اور ثبوت مہیا کروں گا۔ دوسرے ساتھی نے اس کو منع بھی کیا مگر وہ باز نہ آیا اور اگلے دن پھر دربار میں حاضر ہوا اور کہا کہ ’’ یہ عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں خطرناک خیال رکھتے ہیں۔‘‘

بادشاہ نے دوبارہ مسلمان نمائندے کو بلایا۔ چنانچہ جعفرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے بادشاہ نے پوچھا کہ عیسیٰ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘ ۔ تو جعفرؓ نے کہا ہمارے نبی وہ کہتے ہیں جو خدا نے فرمایا اور سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت کی۔ ان کا ترجمہ یہ ہے:

ــ’’ یہ سن کر ابن مریم نے کہا میںاللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب بخشی اور مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں اس نے مجھے بابرکت (وجود) بنایا ہے اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کا تاکیدی حکم دیا ہے جب تک میں زندہ ہوں اور مجھے اپنی والدہ سے نیک سلوک کرنے والا بنایا ہے اور مجھے ظالم اور بد بخت نہیں بنایا اور جس دن میں پیدا ہوا تھا اس دن بھی مجھ پر سلامتی نازل ہوئی تھی اور جب میں مروں گا اور جب مجھے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا‘‘۔

نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا کہ جو تم نے بیان کیا ہے اس سے اس تنکے برابر بھی میں عیسیٰ علیہ السلام کو زائد نہیں سمجھتا۔ اس بیان پر نجاشی کے جرنیلوں نے تلملا کر کچھ نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ تو نجاشی نے ان کو کہا کہ ’ تم بے شک تلملاؤ‘ اور مسلمانو ں کو کہا کہ ’ تم میرے ملک میں محفوظ ہو اور امن سے رہو۔ اور جو تم پر لعنت بھیجے گا اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ایک سونے کے پہاڑ کے عوض بھی کوئی تمہارا با ل بیکا نہ کر سکے گا۔‘ کفارکو سارے تحائف واپس کر دیئے۔ اور ان سے کہا کہ ’ خدا نے مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی جب میری بادشاہت مجھے عطا کی ، جو میں تم سے رشوت لوں۔‘ اس پر وہ سب شرمندہ ہو کر اپنے تحائف واپس لے کر چلے گئے۔

(ابن اسحٰق محمدؐ کی سوانح عمری 153,154)

نجاشی کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تبلیغی خط

جعفربن ابو طالب ؓ نے بادشاہ کو آنحضرت ﷺ کا خط پیش کیا جو درج ذیل ہے

’’میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بن مانگے دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہ خط اللہ کے رسول محمد (ﷺ) کی طرف سے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام ہے۔

’اے بادشاہ ! آپ پر خدا کی سلامتی ہو۔ اس کے بعد میں آپ کے سامنے اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں۔ وہی زمین و آسمان کا حقیقی بادشاہ ببہے۔ جو تمام خوبیوں کا جامع اور تمام نقصوں سے پاک ہے۔ وہ مخلوق کو امن دینے والا اور دنیا کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ ابن مریم خدا کے کلام کے ذریعے مبعوث ہوئے اور اس کے حکم سے عالم وجود میں آئے جو اس نے مریم بتول پر نازل کیا تھا۔۔۔ اور اے بادشاہ ! میں آپ کو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ خدا کی اطاعت میں میرے ساتھ تعاون کریں اور میری اتباع اختیار کرتے ہوئے اس کلام پر ایمان لائیں جو مجھ پر نازل ہوا۔ کیونکہ میں خدا کا رسول ہوں اور اسی حیثیت میں آپ کو اور آپ کی رعایا کو خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ میں نے آپ کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے اور اخلاص اور ہمدردی کے ساتھ آپ کو صداقت کی طرف دعوت دی ہے۔ پس میرے اخلاص اور ہمدردی کو قبول کریں۔ میں(اس سے قبل) آپ کی طرف اپنے چچازاد بھائی جعفر اور ان کے ساتھ بعض دوسرے مسلمانوں کو بھجوا چکا ہوں اور سلامتی ہو ہر اس شخص پر جو خدا کی ہدایت کو اختیار کرتا ہے۔‘ ‘

جب آنحضرت ﷺ کا یہ خط نجاشی کو پہنچا تو اس نے اس کوآنکھوں سے لگایا اور ادب کے طریق پر اپنے تخت سے نیچے اتر آیا۔ اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے رسول ہیں۔ پھر اس نے ہاتھی دانت کی ڈبیہ منگوائی اور اس میں حضور ﷺ کا خط محفوظ کر کے رکھ دیا اور کہا میں یقین رکھتا ہوں کہ جب تک یہ خط ہمارے گھرانے میں محفوظ رہے گا، اہل حبشہ اس کی وجہ سے خیر و برکت پاتے رہیں گے۔ تاریخ الخمیس کا مصنف لکھتا ہے یہ خط آج تک حبشہ کے شاہی خاندان میں محفوظ ہے۔

(سیرت خاتم النبینؐ صفحہ 823-825)

بادشاہ نجاشی نے اس خط کا جو جواب لکھا وہ ذیل میں درج ہے:

’’ اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمٰن اور رحیم ہے۔یہ خط محمد ﷺ کے نام نجاشی اصمحہ کی طرف سے ہے۔یا رسول اللہ آپ پر سلامتی ہو۔ اور اس خدا کی طرف سے برکتیں نازل ہوں جس کے سو ا کوئی قابل پرستش نہیں۔
اور وہی ہے جس نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے۔ اس کے بعد یا رسول اللہ!آپ کا خط مجھے پہنچا۔ خدا کی قسم جو کچھ آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا ہے میں انہیں اس سے ذرہ بھر بھی زیادہ نہیں سمجھتا۔ اور ہم نے آپ کی دعوت حق کو سمجھ لیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے سچے رسول ہیں جن کے متعلق پہلے صحیفوں میں بھی خبر دی گئی تھی۔پس میں آپ کے چچا زاد بھائی جعفر کے ذریعے آپ کے ہاتھ پر خدا کی خاطر بیعت کرتا ہوں۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کی سلامتی ہو آپ پر اور اس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ ‘‘

آنحضرت ﷺ نے جو خط نجاشی کو لکھا اور نجاشی نے اس کاجو جواب دیا ان دونوں میں ایک خاص کیفیت پائی جاتی ہے جو اور کسی خط میں نظرنہیں آتی۔ایک طرف آنحضرتﷺ کے خط کے الفاظ اس امید سے معمور نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ آپ کی تبلیغ سے نجاشی ضرورمسلمان ہو جائے گا۔ اور دوسری طرف نجاشی کا خط اس حقیقت کا حامل ہے کہ گویا اس کی روح پہلے سے صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ بہر حال خدا تعالیٰ نے نجاشی کو اسلام کی توفیق عطا کی۔ اور یہ وہی نجاشی ہے جو 9ہجری میں فوت ہوا اور آنحضرتﷺ نے صحابہ سے یہ فرماتے ہوئے اس کی نماز جنازہ ادا کی کہ ’’ تمہارا صالح بھائی نجاشی حبشہ میں فوت ہو گیا ہے۔ آئو ہم سب مل کر اس کی روح کے لئے دعا کریں۔‘‘

(زرقانی جلد 3صفحہ 344,345 بخاری و مسلم نیز زرقانی جلد 3 صفحہ 366 )
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزابشیر احمدؓ صفحات 824-825)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button