خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 27؍ اپریل 2018ء بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

زشتہ دنوں جماعت کے ایک بزرگ اور عالم مکرم عثمان چینی صاحب کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو چین کے ایک دور دراز علاقے سے اپنی خاص تقدیر سے نکال کر پاکستان آنے اور احمدیت قبول کرنے اور دینی علم حاصل کرنے اور پھر زندگی وقف کرنے کی طرف رہنمائی کی اور توفیق عطا فرمائی۔

ان کے حالات اور ان کی زندگی اور خدمات اور سیرت کے بارے میں اتنا زیادہ مواد ہے کہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

میرے خیال میں خدام الاحمدیہ پاکستان یہ کام بہتر طور پر کرسکتی ہے۔ بہرحال اس وقت میں اس درویش صفت انسان،

جماعت کے بزرگ واقف زندگی، مبلغ سلسلہ، عالم، بلکہ حقیقت میں عالم با عمل اور ولی اللہ انسان کا کچھ تذکرہ کروں گا

جو واقفین زندگی اور مبلغین کے لئے بھی خاص طور پر اور عمومی طور پر ہر ایک کے لئے، ہر احمدی کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے

مکرم محمد عثمان چُو چنگ شی صاحب مرحوم کے خصائلِ حمیدہ کا تذکرہ اور نماز جنازہ غائب

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔


گزشتہ دنوں جماعت کے ایک بزرگ اور عالم مکرم عثمان چینی صاحب کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو چین کے ایک دور دراز علاقے سے اپنی خاص تقدیر سے نکال کر پاکستان آنے اور احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ کس کس طرح اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ سلوک کرتا رہا اور انہیں احمدیت قبول کرنے اور دینی علم حاصل کرنے اور پھر زندگی وقف کرنے کی طرف رہنمائی کی اور توفیق عطا فرمائی۔ ان کی اپنی تحریریں ہیں، انہوں نے اپنی یادداشت لکھی ہے اور اس میں کافی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ تفصیل تو یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں۔ انہوں نے مختلف لوگوں کو جو اپنی بعض باتیں بتائیں، لوگوں نے جو اُن کے بارے میں بعض باتیں لکھی ہیں وہ بھی بہت تفصیل سے لکھی ہوئی ہیں اور ان کی تفصیل بیان کرنا بھی یا ان سب کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ بہت ایمان افروز واقعات ہیں۔ ان کے حالات اور ان کی زندگی اور خدمات اور سیرت کے بارے میں اتنا زیادہ مواد ہے کہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں خدام الاحمدیہ پاکستان یہ کام بہتر طور پر کر سکتی ہے۔ بہرحال اس وقت میں اس درویش صفت انسان، جماعت کے بزرگ واقف زندگی، مبلغ سلسلہ، عالم،بلکہ حقیقت میں عالم با عمل اور ولی اللہ انسان کا کچھ تذکرہ کروں گا جو واقفین زندگی اور مبلغین کے لئے بھی خاص طور پر اور عمومی طور پر ہر ایک کے لئے، ہر احمدی کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ مختلف لوگوں نے ان کی سیرت کے بارہ میں جو لکھا ہے اس کا جیسا کہ مَیں نے کہا بعد میں مختصراً ذکر کروں گا۔

عثمان چینی صاحب معروف تھے عثمان چینی کے نام سے۔ ان کا پورا نام محمد عثمان چو چنگ شی تھا۔ 13؍اپریل 2018ء کو ان کی وفات ہوئی۔یہ 13؍دسمبر 1925ء کو چین کے صوبہ آن خوئی میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کے بعد 1946ء میں نان چنگ یونیورسٹی میں ایک سال کا ایڈوانس کورس کیا۔ پھر نان چنگ نیشنل یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ چونکہ سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے قانون، فلسفہ یا دینیات سیکھنے کا سوچا۔ پہلے کہتے ہیں ترکی جا کر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ تھا۔ پھر 1949ء میں یہ پاکستان تشریف لے آئے۔ خود تحقیق کر کے انہوں نے بیعت کی۔ جامعہ احمدیہ میں تعلیم شروع کی۔ اپریل 1957ء میں جامعہ احمدیہ سے شہادۃ الاجانب کا امتحان پاس کیا۔ یہ مبلغین کا short course تھا۔ 16؍اگست 1959ء کو آپ نے وقف کیا اور آپ کا تقرر جنوری 1960ء میں ہوا۔ پھر مبلغین کلاس کا کورس پاس کرنے کے لئے انہوں نے دوبارہ اپریل 1961ء میں جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ اور 1964ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں وکالت تصنیف تحریک جدید ربوہ میں نیز کراچی اور ربوہ میں ان کو بطور واقف زندگی اور مربی خدمت کی توفیق ملی۔ 1966ء میں سنگاپور اور ملائشیا تشریف لے گئے۔ وہاںان کو تقریباً ساڑھے تین سال سنگا پور میں اور چار مہینے کے قریب ملائشیا میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1970ء میں واپس پاکستان آئے اور پھر مختلف جگہوں پہ مربی سلسلہ رہے۔ عمرہ اور حج بیت اللہ کرنے کی بھی سعادت ان کو نصیب ہوئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہجرت کے بعد جب یہاں لندن میں مختلف دفاتر کا قیام ہوا، کاموں میں وسعت پیدا ہوئی، جماعتی لٹریچر کا ترجمہ کرنے کی طرف زیادہ وسعت پیدا ہوئی تو چینی ڈیسک بھی قائم کیا گیا۔ پھر ان کو یہاں بلا لیا گیا اور آپ کو چینی کتب کے چینی تراجم کی توفیق ملی جس میں چینی ترجمہ قرآن خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ جماعتی عقائد اور تعلیمات پر مشتمل کتب بھی آپ نے لکھیں۔

آپ کے پسماندگان میں آپ کی ایک اہلیہ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ جہاں تک چینی ترجمہ قرآن کا سوال ہے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایت پر انہوں نے 1986ء میں چینی ترجمہ قرآن کا کام شروع کیا۔ اسی سال جون میں آپ کو پاکستان سے برطانیہ بلا لیا گیا اور چار سال کی محنت کے بعد یہ ترجمہ مکمل ہوا۔ چینی صاحب خود لکھتے ہیں کہ چینی ترجمہ قرآن کا کام کافی وقت چاہتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی طرف سے ہدایت تھی کہ اسے صد سالہ احمدیہ جشن تشکر کے موقع پر شائع ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں مجھے بہت فکر تھی کہ کام وقت پہ مکمل ہو جائے۔ مناسب آدمیوں کی تلاش تھی جو چینی زبان کا معیار بہتر کرنے اور نظر ثانی کے کام میں مدد دے سکیں اور پاکستان یا یُوکے میں رہ کر یہ کام بڑا مشکل تھا۔ مثلاً اگر چینی زبان میں کسی کو عبور تھا تو اسلامیات سے ناواقف تھا اور اگر دین کا علم تھا تو چینی زبان معیاری نہیں تھی۔ یہ بڑا مشکل کام تھا۔ بہرحال کہتے ہیں جب ترجمہ مکمل ہو گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایت پر چین اور سنگاپور جا کر چینی زبان کے ماہرین سے بھی مشورہ کیا۔ اس کو بہتر بنایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چینی زبان میں قرآن کریم کا بڑا معیاری ترجمہ تیار ہوااور خود یہ بڑی عاجزی سے لکھتے ہیں کہ یہ کام میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس سے یہ ممکن ہوا۔ یہ کہتے ہیں کہ چینی زبان میں اس سے قبل بھی بعض تراجم قرآن کریم موجود تھے اور بعد میں بھی تراجم ہوئے جن کی تعداد دس سے زیادہ ہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کا جو ترجمہ ہے اس کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں جو کسی اور ترجمہ میں نہیں ہیں اور یہ جماعتی علم کلام کی وجہ سے ایک بڑا شاہکار ہے۔ اس کی اشاعت پر چین اور دوسرے ممالک کے اہل زبان کی طرف سے بیشمار تبصرے موصول ہوئے جن میں اس ترجمہ کو بہترین قرار دیتے ہوئے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جماعت کا ترجمہ کافی مقبول ہے اور اس کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ جماعتی عقائد بیچ میں ڈال دئیے گئے ہیں یا اپنے مطابق تفسیر کر دی گئی ہے لیکن عمومی طور پر ترجمہ کا معیار ہر ایک نے بہت اعلیٰ قرار دیا۔ چین کے ایک پروفیسر لِن سانگ (Lin Song) ہیں انہوں نے ایک کتاب ’’اس صدی کے چینی زبان میں تراجم قرآن‘‘ لکھی جس میں ہمارے ترجمہ قرآن کا بھی ذکر کیا اور اس میں تقریباً پندرہ صفحات ہیں جن میں جماعت احمدیہ کے چینی ترجمہ قرآن پہ اس کا تبصرہ ہے اور پروفیسر صاحب بڑی وضاحت کے ساتھ ہمارے قرآن کریم کے ترجمہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ عام علماء جب ترجمہ کرتے ہیں تو بعض الفاظ کا ترجمہ نہیں کرتے بلکہ ترجمہ کی جگہ وہی عربی لفظ لکھ دیتے ہیں یا حاشیہ میں اس کی تشریح کرتے ہیں لیکن آخر تک یوں لگتا ہے جیسے وہ حصہ ان کے لئے مبہم ہے جبکہ عثمان صاحب کے ترجمہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ایسے مقامات کا ترجمہ بھی کرتے ہیں اور جس بنیاد پر وہ ترجمہ کیا ہوتا ہے اس کے تائیدی حوالے حاشیہ میں درج کر دیتے ہیں۔یہ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ ترجمہ قرآن کے متعلق میں نے تبصرہ لکھا تھا اس کے بعد کئی دفعہ عثمان صاحب سے ملاقات بھی ہوئی۔ میرا تاثر یہ ہے، یہ ایک غیر کا، پڑھے لکھے پروفیسر کا تأثر ہے جو اسلام پر اپنے آپ کو اتھارٹی سمجھتا ہے کہ یہ یعنی عثمان چینی صاحب ایک سیدھا سادہ خاکسار، مخلص، کھرا اور احکام پر سنجیدگی سے عمل کرنے والا شخص ہے۔ کہتے ہیں رمضان میں میں نے انہیں دعوت پر بلایا تھا۔ عثمان صاحب روزہ رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کو شریعت کی اعلیٰ کتاب سمجھتے ہیں۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ اگرچہ ان کے ترجمہ اور تفسیر کے بعض حصے ہمارے چینی سُنّی فرقہ کے لوگوں کے نقطہ نظر سے مطابقت نہیں رکھتے تاہم کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ یہ شخص توحید کا قائل ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اور احکام الٰہی کی پابندی کرنے والا ہے۔

(ماخوذ از روزنامہ الفضل مورخہ 12 مارچ 2012ئ صفحہ 3 جلد 97-62 نمبر 60)

چینی صاحب نے اپنی نگرانی میں جو چائینیز لٹریچر تیار کیا ان کے انگریزی ٹائٹل یہ ہیں ۔My life and ancestary چائینیز میں لکھی ہے۔ Introduction to morality چائینیز میں لکھی۔ سات کتابیں ان کی اپنی ہیں۔ ویسے پینتیس کے قریب کتابیں ہیں جو انہوں نے ترجمہ کیں،یا اپنی نگرانی میں کروائی ہیں۔ An outline of Ahmadiyya Muslim jama’at یہ جماعت کا تعارف ہے۔ Outline of Islam ۔اسلام کا تعارف ہے۔ Fundamental questions and answers about Islam بنیادی سوال ہیں اسلام کے بارہ میں۔ Islamic concept of Jihad and Ahmadiyya Muslim Jama’atیہ بھی انہوںنے چائینیز میں کتاب لکھی ہے۔ Ahmadiyya Muslim comunity’s contribution to the world یہ لکھی اور انسانی زندگی میں اسلام کی اور مذہب کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ان کی علمی خدمات ہیں۔ میں نے مختصراً ذکر کیا ہے۔

گھریلو زندگی کے بارہ میں ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ جب میرے لئے پاکستان سے عثمان صاحب کا رشتہ آیا تو میرے والد صاحب نے عمر کے فرق کی وجہ سے رشتہ پر رضا مندی ظاہر نہیں کی۔ ان کی اہلیہ بھی چینی ہیں۔ کہتی ہیں میری عمر اس وقت بیس سال تھی اور عثمان صاحب کی پچاس سال کے قریب تھی۔ کئی ماہ تک والد صاحب نے مجھے اس رشتہ کے متعلق بتایا نہیں۔ پھر آخر جب انہوں نے بتایا تو خط میرے سامنے رکھ دیا کہ میں خود فیصلہ کر لوں۔ کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں باہر کے کسی ملک میں ایک بڑے میدان میں بالکل خالی ہاتھ کھڑی ہوں اور اچانک سوچتی ہوں کہ میرا کیا بنے گا۔ تب میں نے کچھ فاصلے پر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا اور ایک آواز سنی کہ تمہاری ساری ضرورتیں اس شخص کے ذریعہ پوری کی جائیں گی۔ کہتی ہیں اس خط کو دیکھنے کے بعد میں نے عثمان صاحب کو خواب میں دیکھا جبکہ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس میرے پاس کھڑے تھے اور میں لیٹی ہوئی تھی۔ بعد میں جب مجھے عثمان صاحب کی تصویر دکھائی گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ یہی وہ شخص ہے جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا اور اس طرح میں نے رشتہ قبول کر لیا۔ چار سال منگنی رہی۔ پاسپورٹ نہیں بن رہا تھا۔ وہاں کے حالات بڑے خراب تھے اور سیاسی صورتحال اور کلچرل ریولیوشن (Revelation) کی وجہ سے ان کا آنا بہت مشکل تھا۔ کہتی ہیں عثمان صاحب نے ایک خواب میں دیکھا تھا کہ جب ماؤزے تنگ کی وفات ہوگی تو بیوی آئے گی۔ اور ماؤزے تنگ صاحب جو اس وقت کے چائنا کے چیئرمین تھے، ان کی صحت بھی اچھی تھی کوئی بیمار بھی نہیں تھے اور بڑے آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔ بہرحال اس پر انہوں نے کہا یہ تو بڑا لمبا عرصہ ہے پتہ نہیں کب آئے۔ اس پر چینی صاحب نے فیصلہ کیا کہ ماؤزے تنگ کو خط لکھیں۔ کہتے ہیں میں خط پوسٹ کرنے جا رہا تھا کہ ماؤزے تنگ کی وفات کی اطلاع مل گئی۔ ان کی بیوی لکھتی ہیں کہ اس کی وفات کے چند دن بعد ہی مجھے اپنا پاسپورٹ مل گیا۔ اور کہتی ہیں چنانچہ میں پاسپورٹ لے کےاپنے والد صاحب کے گھر آئی اور جب میں گھر آئی تو اس رات بہت بارش ہوئی اور اس سے پہلے بہت خشک سالی تھی۔ اتنی بارش ہوئی کہ پانی کے بہاؤ کی وجہ سے زمین میں جو بڑے بڑے کٹاؤ پیدا ہو جاتے ہیں وہ پیدا ہو گئے۔ ایک غیر احمدی ہمسائے نے مجھے کہا کہ تم پہلے آ جاتی تو ہماری یہ خشک سالی دور ہو جاتی۔ بہرحال کہتی ہیں ایک ہفتہ کے بعد میں چائنا سے نکلی اور سامان میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ دو جوڑے تھے جو عثمان صاحب کے چھوٹے بھائی نے مجھے دئیے تھے اور Soya Sauce کی چند cubes تھیں۔ 12؍اگست 1978ء کو میں کراچی پہنچی۔ وہاں چوہدری احمد مختار صاحب نے نکاح پڑھایا اور خود ہی میرے ولی مقرر ہوئے۔ تیسرے دن ہم نے چائینیز ایمبیسی میں جاناتھا۔ ٹرین کے ذریعہ ہم گئے جس میں مردوں اور عورتوں کا علیحدہ علیحدہ انتظام تھا اور فیصلہ یہ ہوا تھا کہ جب سارے لوگ ٹرین سے اتر جائیں گے تو ہم سٹیشن پر ملیں گے۔ لیکن یہ کہتی ہیں کہ میں تو نئی تھی جس ڈبے میں بیٹھی تھی اس کے سارے لوگ، مسافر اس سے پہلے ہی اتر گئے۔ میں سمجھی یہی آخری سٹیشن ہے اور ٹرین جب دوبارہ چلی تو پھر مجھے احساس ہوا لیکن اس وقت پھر ٹرین پہ چڑھنا مشکل تھا۔ بہت رش تھا۔ خیر میں بڑی پریشان تھی۔ بہرحال ایک پولیس افسر نے جب مجھے پھرتے ہوئے دیکھا تو اس نے ریلوے پولیس والوں کو وہاں بلا لیا اور پھر مجھے چائینیز ایمبیسی بھجوا دیا۔ کہتی ہیں میں نے نقاب اور کوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس وقت ایمبیسی والوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں چائینیز ہوں کیونکہ ایک عورت برقعے میں کس طرح ہو سکتی ہے۔ بہرحال انہوں نے ایک چائنیز رسالہ منگوایا اور مجھے کہا پڑھ کے سناؤ اور پھر ٹیکسی کا انتظام کیا گیا۔ بہرحال ایک لمبی کہانی ہے اور کسی نہ کسی طرح وہ پہنچ گئیں۔ ٹیکسی والا راستے میں پوچھتا جا رہا تھا کہ کہاں لے جانا ہے تو اس نے ان کو پہنچا دیا اور بلکہ ٹیکسی والا بڑا حیران تھا کہ میں نے کبھی اس طرح کسی نوجوان عورت کو گھومتے ہوئے اور پھر اس طرح ملتے ہوئے دیکھا نہیں۔ بہرحال کہتی ہیں کہ یہ ہماری زندگی کی ابتدا تھی۔ عثمان صاحب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ اچھے خاوند تھے بلکہ میرے روحانی استاد تھے۔ جب میں پاکستان آئی تو انہوں نے سب سے پہلے مجھے نماز پڑھنا سکھائی۔ مسجد میں نماز پڑھانے کے بعد گھر آ کر مجھے باجماعت نماز پڑھاتے۔ کئی کئی گھنٹوں مجھے نماز کے عربی الفاظ سکھاتے۔ انہوں نے مجھے لفظ بہ لفظ اور سطر بہ سطر سکھایا اور نصیحت کی کہ اس کی مشق کرتی رہو اور اگر بھول جاؤ تو دعاؤں کی کتاب پاس رکھو۔ انہوں نے چھ ماہ میں مجھے قاعدہ پڑھنا سکھا دیا۔ انہوں نے مجھے قرآن پڑھنا سکھانا شروع کیا تو ساتھ ہی ترجمہ بھی سکھایا تا کہ میری دلچسپی قائم رہے۔ بہت صبر والے تھے۔ بہت گہرائی تک جا کر مضمون سمجھاتے۔ لمبی مثالوں کے ساتھ سمجھاتے۔ بہت صلہ رحمی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کو چائنا سے پاکستان بلا کر ان کی بھرپور خدمت کی۔ کہتی ہیں بعض دفعہ ہمارے حالات ایسے ہوتے تھے، ایسا وقت بھی آیا کہ دن میں دودھ کی صرف ایک بوتل خرید سکتے تھے اور وہ بھی اپنی والدہ کو دے دیتے تھے۔ جہاں بھی سفر پر جاتے اپنی والدہ کو ساتھ رکھتے۔ چینی صاحب نے والدہ کی بڑی خدمت کی۔ کہتی ہیں آپ کی تمام عمر اپنے کام کے ساتھ لگاؤ پر مشتمل تھی۔ جب آپ کی صحت اچھی تھی تو اکثر رات دیر تک دفتر کام کرتے بلکہ بعض دفعہ کام کرتے کرتے صبح ہو جاتی تھی۔ گھر میں ان کا سب سے اہم کام بچوں کی اچھی تربیت کرنا تھا اور باقی چھوٹے چھوٹے دنیاوی کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ اپنے کھانے اور کپڑوں وغیرہ کے متعلق بہت سادہ مزاج تھے۔

پھر ان کی بڑی بیٹی ہیں ڈاکٹر قرۃ العین لکھتی ہیں کہ میرے والد صاحب کی بعض خصوصیات کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ آپ بہت شفیق، مہربان، نہایت محنتی، انتھک، ہمیشہ اچھی امید رکھنے والے، عاجز انسان تھے۔ ہر معاملے میں ہم سارے بہن بھائیوں کو اور پھر اپنے دامادوں کو بھی گفتگو میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔ ہماری سکول کی پڑھائی میں دلچسپی لیتے تھے۔ ٹیچر کے تاثرات معلوم کرتے تھے کہ کیا کہا ٹیچرز نے اور کہتے تھے تم لوگوں کی زندگی کا مقصد یہ ہے، دنیا میں اس لئے تمہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، یہ مقصد ہے تمہارا کہ تبلیغ کرو خاص طور پہ چائینیز لوگوں کو اور ہمیں باقاعدگی سے نصیحت کرتے تھے کہ روحانیت، اخلاق اور علم میں ترقی کرتے رہو۔ اور اکثر کہتے کہ تم لوگوں کی شخصیت، عمل اور رویّہ کو دیکھ کر لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ خدا کا وجود موجود ہے کیونکہ جو بچے خدا پر یقین رکھتے ہیں وہ ان بچوں سے بہت بہتر ہوتے ہیں جو یہ یقین نہیں رکھتے۔ یہ بھی نصیحت کرتے کہ تمہارے ہر کام میں جو شروع کرو اس میں باقاعدگی ہونی چاہئے۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ بچپن میں ڈانٹا ہو۔ ہمیشہ پیار سے سمجھاتے تھے اور جہاں کبھی سختی کی تو وہ نماز کے بارے میں کہ نماز میں باقاعدگی کیوں نہیں رکھی۔ اور کہتی ہیں بلکہ ہمیں بچپن میں عادت ڈالنے کے لئے پانچوں وقت مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے لے جاتے تھے اور چھٹیوں میں ہمیں کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کے لئے دیتے پھر اس کا ٹیسٹ لیتے۔ پھر کہتی ہیں کہ انہوں نے کشتی نوح کی ایک بہت پرانی کاپی پڑھنے کے لئے دی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اس کو پڑھو اس کی اردو اتنی زیادہ مشکل نہیں ہے جتنی دوسری کتابوں کی اردو مشکل ہے۔ اور پھر کہنے لگے کہ یہ کشتی نوح پہلی کتاب ہےجو انہوں نے جامعہ احمدیہ میں خود پڑھی تھی۔ پھر پردے کے بارے میں بھی ان کو فکر تھی۔ یونیورسٹی جاؤ گی تو پردہ کرنا اور اگر نقاب اتارنے کی مجبوری ہو تو پھر یہ ہے کہ میک اَپ نہیں کرنا اور صرف پڑھائی کے دوران اُتارنا ہے۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے انہوں نے پوچھا تھا اور پھر اس کی اجازت دی۔ یونیورسٹی میں اس شرط کے ساتھ پڑھنا ہے کہ تمہارا پردہ ہو اور اگر کلاس میں مجبوراً اتارنا بھی پڑے تو پھر میک اَپ نہیں ہونا چاہئے اور اس کے بعد بھی پھر فوراً پردہ ہو۔

اسی طرح چھوٹی بیٹی ہیں منزہ۔ وہ بھی کہتی ہیں کہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ تم لوگوں کو چاند کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اس طرح اگر چاند نہ ملا تو ستارے تو مل ہی جائیں گے۔ یعنی کہ ہمیشہ اونچے مقاصد رکھو اور پنجوقتہ نماز باجماعت کے ساتھ ہمیں تہجد کی بھی ترغیب دیتے ۔ پانی کے چھینٹے ڈال کر فجر کی نماز پہ اٹھاتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے اور کئی گھنٹوں بیٹھ کر بڑے صبر اور تحمل سے ہمارے سوالوں کے جواب دیتے۔ یہ نہیں کہ ذرا سی بات پر تنگ آ جائیں۔ یہ والدین کے لئے بھی ایک نمونہ ہے۔ ہمیشہ یہ کہتے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان کو استعمال کرو۔ کبھی ضائع نہ کرو اور کہتے جو عمل بھی کرو اسے خدا کی عبادت کی نیت سے کرنا چاہئے۔ روحانی ترقی کی مثال دیتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ اس سیڑھیوں کی طرح ہوتی ہے جس میں کبھی کبھی توقّف آجاتا ہے لیکن پھر ساتھ ہی مزید بلندی کی طرف قدم بڑھتا ہے۔

یہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے ہمیں سادگی، عاجزی اور دوسروں کو خود پر ترجیح دینا سکھایا۔ جب آپ صدر جماعت اسلام آباد تھے تو تمام گھروں میں سینٹرل ہیٹنگ لگائی جا رہی تھی۔ اس وقت انہوں نے یقین دہانی کی کہ ہمارے گھر میں سب سے آخر میں یہ کام ہو۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر داؤد صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ جامعہ کی تعلیم کے دوران انہیں اپنے بڑے بھائی اور والد صاحب کی وفات کا ٹیلیگرام آیا۔ تو اس وقت جامعہ کے امتحانات میں مصروف تھے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ افسوس ناک خبر بھی جامعہ کے امتحان کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے اور یہ سوچ کر آپ نے وقت پر امتحان دئیے اور وقت ضائع نہیں کیا۔

ان کے یہ بیٹے ہی لکھتے ہیں کہ چائینیز لوگوں میں تبلیغ کا انہیں بہت شوق تھا۔ جس فنکشن میں بھی جاتے وہاں لوگوں کو احمدیت کا تعارف کراتے اور لٹریچر تقسیم کرتے یہاں تک کہ جب آپ بیمار ہو گئے اور چل نہیں سکتے تھے تو ویل چیئر(wheel chair) پر آتے تھے، اور ویل چیئر کے خانے میں بھی بڑی بڑی کتابیں ڈالنے پر اصرار کرتے تھے تا کہ لوگوں میں تقسیم کر سکیں۔

پھر یہ کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو کبھی ان کے دفتر میں چلا جاتا۔ پین یا پنسل لینے کی کوشش کرتا تو مجھے اپنے آفس میں رکھے ہوئے پین استعمال کرنے نہیں دیتے تھے۔ اور میری والدہ سے کہتے تھے کہ میرے لئے الگ پین خرید کر دو۔ اس کو پَین کی ضرورت ہے۔ اور اگر کبھی فوٹو کاپی کروانی ہوتی تو مجھے کہتے کہ گھر سے اپنا کاغذ ساتھ لے کر آؤ اور پھر مشین پر فوٹو کاپی کر لینا۔ پھر یہ بیٹے ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے صفاتی نام یاد کرنے کی تلقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے جتنے صفاتی نام ہیں وہ یاد کرو۔ انہوں نے چائینیز زبان میں ایک نظم لکھی تھی جس میں اللہ تعالیٰ کے سو صفاتی ناموں کی تعریف کی تھی۔ یہ نظم روزانہ رات کو پڑھتے تھے اور کھیل کی صورت میں ہم بہن بھائیوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام یاد کرنے کا مقابلہ کرواتے تھے اور پھر انعام بھی دیتے تھے۔

دو تین مہینے پہلےیہ اپنے داماد اور فیملی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے تو ان کے داماد لکھتے ہیں کہ مجھے انہوں نے تین پوائنٹ لکھ کے دئیے کہ میں تو بول نہیں سکوں گا۔ انہوں نے میرے سے جو پوچھنا تھا وہ یہ تھا کہ میں کمزور ہوں اور خود کھڑا نہیں ہو سکتا اس لئے ویل چیئر پر بیٹھا ہوں اس کے لئے مجھے معذرت ہے۔ خلافت کا بڑا احترام تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ دعاکریں کہ میں آخری سانس تک تبلیغ کرتا رہوں اور اس کی مجھے اجازت بھی دیں اور پھر یہ کہ دفتر میں جا نہیں سکتا تو گھر میں اپنا کام کرنے کی اجازت دیں۔ کام کی دُھن تھی۔ یہ نہیں تھا کہ گھر میں بیٹھا ہوں تو فارغ بیٹھا رہوں۔ گھرمیں بھی کام کرتا رہوں۔ یہ جب حج پہ گئے ہیں تو ان کے داماد بھی ساتھ تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ عثمان صاحب نے اپنے دعائیہ جذبات کو چائینیز منظوم کلام میں لکھا ہوا تھا اور ان کو بتایا کہ میں ان جذبات کو اس لئے منظوم کر رہا ہوں تا کہ آئندہ بھی ان سے فائدہ اٹھا سکوں۔ اور حج کے ہمارے گروپ میں ایک موقع پر چند لوگوں نے مکرم عثمان چینی صاحب سے پوچھا کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ آپ نے انہیں مختصراً بتایا کہ میں اپنی چائینیز قوم کے لئے دعائیں کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں حقیقی اسلام کی طرف ہدایت دے۔ ان سوال کرنے والوں نے کافی حیرت کا اظہار کیا کہ ایک عمر رسیدہ بوڑھا شخص جو اس وقت سہارے کے بغیر آسانی سے چل نہیں سکتااس کو صرف اپنی قوم کی ہدایت کے لئے فکر ہے۔

پھر چینی صاحب اپنے حالات میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ چین میں بدھ ازم اور کنفیوشس ازم اور تاؤ ازم کی بعض تعلیمات آپس میں مخلوط ہو گئی ہیں اور بہت سے چینی ایک وقت میں ان تینوںمذاہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتےہیں۔ مگر اس زمانے میں انہوں نے ان مختلف تعلیمات کو جمع کر کے اپنے طور پر ایک مذہب بنایا ہے اور اس مذہب میں انسان کی اخلاقی حالت کی طرف خاص توجہ دی جاتی ہے۔ چینی صاحب لکھتے ہیں کہ جب تین چینی اخباروں میں میرے انٹرویو شائع ہوئے تو ملائشیا کی داستا سوسائٹی نے جو نیا مذہب دے ازم ہے اس کی سوسائٹی نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے عنوان پر ایک مضمون لکھوں تا کہ وہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو دوسرے مذاہب کی تعلیمات کے ساتھ ایک رسالہ میں شائع کریں۔ چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں ایک مضمون لکھا اور جس پر انہوں نے چینی صاحب کو واپس یہ جواب دیا کہ ہمیں آپ نے اسلام کے بارے میں ایک عظیم الشان مضمون دیا ہم آپ کے بہت ممنون ہیں۔ آپ نے غیرجانبدارانہ رنگ میں اسلام کے حقائق بیان کئے ہیں۔ آپ کی بحث باریک اور لطیف تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت اچھی طرح مذہب کے علوم حاصل کئے ہیں۔ چینی لوگوں کو اب تک اسلام سے واقفیت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ چینی زبان میں اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی۔ اب آپ سنگاپور میں اسلام کی اشاعت کے لئے آ گئے ہیں۔ (جب یہ سنگاپور میں تھے۔) تو یہ لازمی بات ہے کہ اسلام ان ممالک میں چینیوں میں پھیل جائے اور چینی لوگ بھی اس سے برکات حاصل کریں۔

آغا سیف اللہ صاحب ان کے کلاس فیلو بھی تھے یا اس زمانے میں جامعہ میں پڑھتے تھے لکھتے ہیں کہ عثمان چینی صاحب میرے کلاس فیلو بھی تھے۔ آپ بھرپور جوانی کی عمر میں پارسا خوش خصائل اور نیک اطوار کے مالک تھے۔ بڑے سوزو گداز سے نماز ادا کرتے۔ نہایت تضرع سے دعا مانگتے تھے۔ نفلی روزے رکھتے۔ نوافل ادا کرنے کے عادی تھے۔ تسبیح و تحمید اور ذکر الٰہی میں کمال شغف رکھتے تھے۔ احمدیت کی نعمت ملنے پر اظہار تشکر کرتے اور ہمیشہ عظیم محبت اخلاص اور فدائیت کے جذبات کا مظاہرہ کرتے۔ لکھتے ہیں کہ یہ سچی شہادت ہے کہ زمانہ طالبعلمی میں بعض اوقات شدت اداسی اور تفکّر میں ان کے آنسو بہنے لگتے۔ اپنی والدہ، بھائیوں سے ملاپ اور ان کی خیریت کے بارہ میں وہاں پر قائم نظام حکومت کی وجہ سے بعض اوقات دکھ کا اظہار کرتے اور بڑے الحاح سے اور تضرع اور سوز سے اپنے خالق حقیقی کے حضور اپنے مطلوبہ مقاصد کے لئے دعائیں کرتے۔ کہتے ہیں یہ نظارے اب بڑی عمر میں بھی میرے لئے قابل رشک ہیں۔ آغا سیف اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ اس بندہ خدا نے اس زمانہ ابتلا میں جو مانگا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور احمدیت کی برکت سے سب کچھ دیا اور وافر رحمتوں سے بھی نوازا بلکہ مخلوق خدا نے بھی ان کی قبولیت دعا کے ثمرات سے فیض پایا۔ کہتے ہیں کہ مجھے بھی زمانہ طالب علمی میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی، حضرت مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری، صاحبزادہ سید ابوالحسن صاحب اور دیگر بزرگوں کی خدمت میں بیٹھنے اور درخواست دعا کرنے اور ان کی قبولیت کے اثرات دیکھنے کی بفضلہٖ تعالیٰ توفیق ملی ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ میں پوری احتیاط سے اپنے مشاہدے اور وجدان سے گواہی دے سکتا ہوں کہ عبادت میں سوزو گداز، دعا میں الحاح و تضرع اور قبولیت دعا کے لحاظ سے ان محترم اکابرین کاعکس محترم عثمان چینی صاحب کی ذات میں موجود تھا۔ کہتے ہیں میں نے خود بھی کئی بار ذاتی معاملات میں ان کی قبولیت دعا کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ آپ ہمیشہ مجھے اور میرے ساتھ ملنے والوں کو دعائیں کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ آپ بڑے زیرک اور مومنانہ فراست کے مالک تھے۔ جماعتی انتظامی معاملات میں اظہار رائے میں نہایت محتاط تھے۔ خود بھی نظام جماعت کا احترام مکمل پابندی سے کرتے تھے۔ اپنے دوستوں اور ملنے والوں کو بھی اس کی ہمیشہ تلقین کرتے۔ خلافت سے مکمل روحانی عقیدت رکھتے اور ان کے احسانات پر تشکر کا اظہار کرتے تھے۔ جب بھی کوئی آپ سے درخواست کرتا تو پوچھا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت کی خدمت میں درخواست دعا کی ہے؟

یہاں اسلام آباد کے صدر جماعت ڈاکٹر رضوان صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آخری چند سالوں میں انہیں اپنے گھر سے مسجد تک جانے کے لئے جو صرف چند منٹ کا فاصلہ ہے کئی منٹ لگ جاتے تھے اور راستے میں کئی دفعہ رک کر سانس لینا پڑتا تھا۔ مگر اس کے باوجود میں نے کبھی انہیں نماز جمع کرتے نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ جب مغرب اور عشاء کی نماز میں وقفہ بہت کم تھا تو میں نے انہیں عرض کیا کہ آپ گھر جانے کے بجائے مسجد میں عشاء کا انتظار کر لیا کریں یا جمع کر لیا کریں۔ تو فرمانے لگے کہ چلنے سے exercise ہو جاتی ہے اور گھر سے مسجد تک کا فاصلہ طے کرنے کا ثواب بھی مل جاتا ہے اس لئے میں جاتا بھی ہوں اور آتا بھی ہوں۔

رشید بشیر الدین صاحب ابوظہبی میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی دعائوں سے غیر احمدی اور احمدی سب ان سے فیض پاتے تھے۔ جب یہ ڈرِگ روڈ کراچی میں مربی تھے تو وہاں قیام کے دوران غیر احمدی مرد و زن چینی صاحب سے اپنی ذاتی اور دیگر معاملات میں مشورے لیتے اور گواہی دیتے کہ ان کے مشوروں پر عمل کرنے سے اور چینی مولوی صاحب سے دعا کروانے کے بعد ان کے بڑے بڑے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ تو مختصر یہ کہ ڈرِگ روڈ کراچی کا مشہور چینی مولوی بلا تفریق مذہب ہر ایک کے لئے فیض رساں وجود رہا اور بیشمار محبتیں بانٹتا رہا۔ ان کے انگلستان چلے جانے کے بعد ایک لمبے عرصہ تک غیر احمدیوں میں ان کا ذکر اور یاد قائم رہی۔

یہ کہتے ہیں مَیںنے یہ بھی دیکھا ہے کہ چینی صاحب والدہ کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ بعض دفعہ والدہ غصہ میں ڈانٹتیں اور یہ لپک کر ان کو باقاعدہ پیار کرتے۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے اور اتنا انہماک ہوتا کہ اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی کہ آس پاس کون دیکھ رہا ہے۔ والدہ سے جو پیار اور ان کا اظہار ہو رہا تھا وہ ایک غیرمعمولی تھا۔

جماعت توکموک قرغزستان کے مجانوف محمد صاحب لکھتے ہیں کہ عثمان چُو صاحب سے میری ملاقات 1994ء میں ایک سفر کے دوران جہاز میں ہوئی۔ ابتداء ًمجھے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ وہ مسلمان ہیں یا جماعت احمدیہ کے عالم ہیں۔ لیکن جب جہاز پرواز کرنے لگا تو انہوں نے بسم اللہ پڑھا تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ مسلمان ہیں۔ کچھ دیر کے بعد میں نے انہیں سلام کیا۔ ہمارا تعارف ہوا اور ہم نے مختلف امور پر گفتگو شروع کر دی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کو جماعت احمدیہ مسلمہ کے بارے میں معلوم ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں میرے علم میں نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ قرآن کریم کا چینی زبان میں ترجمہ پڑھتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ جی میں پڑھتا ہوں۔ اس پر کہنے لگے کہ چینی زبان میں قرآن کریم کے کتنے تراجم کا آپ کو علم ہے؟ میں نے کہا کہ اس وقت جتنے تراجم موجود ہیں میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے اور کر رہا ہوں۔ عثمان صاحب نے پوچھا کہ جن مترجمین نے قرآن کریم کے تراجم چینی زبان میں کئے ہیں کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا میں تو سب کو جانتا ہوں ۔ تو عثمان صاحب نے کہا ان مترجمین میں سے ایک مترجم کا نام عثمان چُو ہے۔ کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ میں نے کہا جی میں انہیں جانتا ہوں لیکن میں نے ان کا ترجمہ قرآن نہیں پڑھا اور نہ ہی کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ عثمان چُو کو کیسے جانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ بس مجھے یہ علم ہے کہ وہ عالم ہیں۔ قرآن کریم کا چینی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ مگر میں نے انہیں کبھی دیکھا نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے بتایاکہ میں ہی عثمان چُو ہوں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ عثمان چُو صاحب سے ملاقات کر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے اپنے رابطہ کی اور پھر عارضی طور پر جہاں رہائش رکھے ہوئے تھے اس کی معلومات دیں۔ مَیں نے بھی انہیں اپنا نمبر دیا۔ ایک دو دن کے بعد مجھے چینی صاحب کا فون آیا کہ آپ کے گھر آکر آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے بڑے مرتبے کے عالم مجھ سے ملنے میرے گھر آئیں گے۔ میں نے ان کا اپنے گھر میں استقبال کیا۔ ان کے ساتھ دو پاکستانی دوست بھی تھے۔ ہم دس منٹ تک بات چیت کرتے رہے۔ اس کے بعد عثمان چُو صاحب نے مجھے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت دی۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ مہمان ہیں اور مجھے آپ کو دعوت دینی چاہئے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ آپ طالب علم ہیں اور میں آپ کا بڑا ہوں اور والدین کی جگہ ہوں۔ اس لئے مجھے آپ کی مدد کرنی چاہئے۔ اس کے بعد ہم ریسٹورنٹ میں گئے۔ کھانا کھایا۔ مختلف امور پر گفتگو ہوئی۔ اور اسی طرح کہتے ہیں کہ ایک دن میں ان کو ملنے گیا۔ سینٹرل بنک کی عمارت تھی۔ ہم نے ان کی رہائشگاہ میں بیٹھ کر گفتگو کی اور عثمان چُو صاحب نے مجھ سے وفات مسیح، مسئلہ ختم نبوت، یاجوج ماجوج، جنّ،امام مہدی اور اس طرح قرآن و حدیث کے بارہ میں سوالات کئے۔ میں نے انہیں وہی جواب دئیے جو عام طور پر روایتی مسلمان دیا کرتے ہیں۔ عثمان چو صاحب مسکرانے لگے اور پھر انہوں نے مجھے ان تمام سوالات کے صحیح جوابات بتائے۔ مجھے الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے کہ میں کیا کہوں۔ مجھ پر ان جوابات کا گہرا اثر ہوا۔ اس طرح انہوں نے مجھے قرآن کریم کا ترجمہ اور کچھ کتب بھی تحفہ کے طور پر دیں اور کہا کہ انہیں پڑھو اور پھر ضرور لکھنا اور بتانا کہ ان کتابوں کو پڑھ کر کیسا لگا۔ اور کہتے ہیں کہ میں نے بہرحال ان کتابوں کو پڑھا اور میری سوچ کلیۃً تبدیل ہو گئی۔ اس وقت مجھے بیعت کا علم نہیں تھا۔ بعد میں پھر میں نے بیعت بھی کر لی۔ اور یہ لکھتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ اس بات کو اعزاز سمجھا کہ مجھے حضرت امام مہدی کے ظہور اور امام مہدی کی سچی جماعت کا علم ہوا۔

دعاؤں کی قبولیت کے لوگوں نے واقعات لکھے ہیں۔ منظور شاد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ربوہ سے کراچی ٹرین پر سفر کر رہے تھے۔ ساٹھ بچے ساتھ تھے۔ ربوہ اطفال کا کوئی فنکشن تھا۔ راستے میں باجماعت نماز ادا کی تو غیر احمدیوں کو پتہ لگ گیا کہ یہ تو احمدی ہیں۔ اس پر مولویوں نے ڈبّوں میں تقریر شروع کر دی کہ ان کے خلاف کارروائی کرو۔ ہم بڑے پریشان تھے۔ عثمان چینی صاحب بھی ساتھ تھے۔ اس وقت سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی مختلف لوگوں کی مختلف ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔تو چینی صاحب نے کہاکہ میری بھی لگاؤ۔ اس پر کہتے ہیں کہ میں نے انہیں کہا آپ کا کام یہ ہے کہ برتھ پہ بیٹھ جائیںا ور دعا کریں۔ مولویوں کا پروگرام تھا کہ ملتان پہنچ کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے اور ماریںگے۔ لیکن کہتے ہیں کہ ملتان گزر گیا تھوڑی دیر بعد مولوی کی طرف سے خاموشی چھا گئی۔ جا کے دیکھا تو مولوی سویا ہوا تھا۔ مولوی صاحب نے تو ملتان اترنا تھا لیکن ایسا سویا کہ ملتان سٹیشن بھی گزر گیا اور اس کی آنکھ نہیں کھلی اور اگلے سٹیشن پر کہیں جا کر وہ اترا اور اس طرح کہتے ہیں کہ ہماری جان بچی۔

اسی طرح عدنان ظفر صاحب ہیں کہتے ہیں کہ میرا ہوم آفس میں کام نہیں ہو رہا تھا۔ پاسپورٹ مانگتا تو کہتے کہ ہمارے ریکارڈ میں آپ کا یُوکے کا ریکارڈ ہی کوئی نہیں ہے۔ مَیں جاب سے چھٹی لے کر تین چار مہینے تک جاتا رہا۔ آخر مایوس ہو گیا۔ ایک دن اسلام آباد میں چینی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ نماز پڑھ کے گھر جا رہے تھے۔ میں نے پاسپورٹ والا اپنا مسئلہ بیان کیا ۔انہوں نے وہیں کھڑے ہو کر دعا کی کہ دعا کرتے ہیں اور اتنی رقّت تھی اور چیخنے والی دعائیں تھیں کہ کہتے ہیں میں بھی ڈر گیا کہ میرے لئے اتنی دعائیں کر رہے ہیں۔ خواہ مخواہ میں نے ان کو تکلیف دی۔ کچھ اور لوگ بھی دعا میں شامل ہو گئے۔ اگلے دن کہتے ہیں میرے وکیل نے جب ہوم آفس فون کیا تو وہاں کوئی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا۔ کافی لمبی گھنٹی بجی تو وہاں کا جو ڈائریکٹر تھا وہ وہاں سے گزرا اور اس نے فون اٹھا لیا۔ انہوں نے ان کو بتایا کہ اس طرح مسئلہ ہے۔ تو ڈائریکٹر نے کہا کہ اچھا اس سے کہو کہ صبح آ کے مجھے دفتر میں ملے۔ کہتے ہیں میں دفتر میں گیا۔ مسٹر رچرڈ ان کا نام تھا۔ میں reception میں گیا اور reception کو میں نے کہا میں نے ان سے ملنا ہے تو receptionوالوں نے کہا کہ یہ بڑا افسر ہے وہ تمہیں کہاں ملے گا۔ تم ہمیں بتاؤ تمہارا کیا کام ہے۔ انہوں نے کہا نہیں مجھے انہوں نے خود بلایا ہے۔ کوئی افسر کو اطلاع کرنے کو تیار نہیں تھا۔ آخر ایک آدمی تیار ہوا۔ اس نے جا کر بتایا تو مسٹر رچرڈ خود اپنے دفتر سے اٹھ کے آئے۔ ان کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے۔ اپنے کمپیوٹر پہ سارا ریکارڈ تلاش کیا۔ پھر اپنے سیکرٹری کو بلایا اور خط دے دیا کہ ان کو پاسپورٹ ایشو کر دیا جائے اور اس کے بعد پھر واپس باہر چھوڑنے آئے۔ اور سارا عملہ دیکھ رہا تھا کہ یہ کون غیر ملکی بڑا آدمی آ گیا ہے کہ جس کو چھوڑنے کے لئے اتنا بڑا افسر باہر آیا اور دروازہ کھول کر رخصت کر رہا ہے۔ تو اس کو میں کیا بتاتا۔ کہتے ہیں اس وقت میری جو حالت تھی کہ یہ عثمان چُو صاحب کی رقّت بھری دعائیں تھیں جس نے چار مہینے سے پھنسا ہوا کام صرف ایک دن میں کر دیا اور نہ صرف ایک دن میں کر دیا بلکہ بڑے افسر کے ہاتھ سے خود کروا دیا۔

واقعات تو بیشمار ہیں اتنے زیادہ ہیں کہ جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ جو بیان ہو ہی نہیں سکتے۔ چند ایک جو اُن کے قریبی ہیں ان کے بارہ میں بتا دیتا ہوں۔

سید حسین احمد صاحب مربی لکھتے ہیں کہ ہفتہ وار ہمارا اجلاس ہوتا تھا۔ ہمارےمربیان کے پاس سواریاں تو تھیں نہیں۔ بسوں میں بیٹھ کے چلے جاتے تھے۔ رات دیر تک میٹنگ ہوتی تھی جب اس کے بعد جانے کے لئے یہ ہوتا تھا کہ ہم اس انتظار میں ہوتے تھے کہ کسی نہ کسی عاملہ ممبر کے ساتھ چلے جائیں۔ لیکن عثمان چینی صاحب نے کبھی اس کا انتظار نہیں کیا پیدل ہی چل پڑتے تھے یا کوئی بس مل جاتی تھی راستے میں یا کوئی نہ کوئی سواری ان کو لے جاتی تھی اور جس جگہ مشن ہاؤس میں رہتے تھے وہاں اتنی جگہ تھی کہ ایک دفعہ جب انہوں نے دعوت کی تو ہم نے پوچھا کہ آپ رہتے کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہی کمرہ ہے جو عورتوں کا ہال ہے۔ جب عورتیں نماز پڑھنے آتی ہیں تو اپنا سامان ہم سمیٹ لیتے ہیں اور اس کے بعد یہی ہماری سونے کی جگہ ہے۔ یہی ہمارے کھانے کی جگہ ہے۔ یہی سب کچھ ہے۔ بڑی عاجزی سے انکساری سے چھوٹی سی جگہ پر رہتے رہے۔

رشید ارشد صاحب ہیں جو چینی ڈیسک میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ان کے ساتھ بڑا لمبا عرصہ کام کیا۔ یہ کہتے ہیں تینتیس سال کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے بارے میں جو خصوصیات ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نماز باجماعت میں باقاعدگی اور عبادت میں شغف ہمارے لئے ایک نمونہ تھا۔ بارش ہو طوفان ہو برف باری ہو بڑی باقاعدگی سے نماز باجماعت کے لئے مسجد میں تشریف لاتے تھے اور کہتے ہیں ہم نے آپ کو اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکے تھے اور اسلام آباد مسجد سے گھر آنے کا، (پہلے بھی اس کا ذکر ہوگیا) چند منٹ کا فاصلہ پندرہ بیس منٹ میں سانس لے لے کر طے کرتے تھے لیکن مسجد ضرور آتے تھے۔ تہجد کا باقاعدگی سے التزام رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کہتے ہیں ہم لمبا سفر کر کے چین کے ایک علاقے میں گئے اور پھر وہاں بھی مقامی احمدی لوگوں سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی اس لئے میرا خیال تھا کہ تہجد کے لئے اٹھنا مشکل ہو گا۔ لیکن صبح دیکھا کہ چینی صاحب تہجد ادا کر رہے ہیں اگرچہ مختصر ادا کی لیکن ناغہ نہیں کیا۔ چینی صاحب نے خود بھی اس بارہ میں لکھا ہے۔ انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ جب چین سے ربوہ آئے تودیکھا کہ ربوہ کے بزرگان کس سوز و گداز سے نمازیں ادا کرتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ اعتکاف کرتے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں سنتا بھی ہے۔ اس بات کا آپ پر خاص اثر ہوا اور آپ نے ارادہ کر لیا کہ میں بھی ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلوں گا۔ اس وقت آپ کو خلیفہ وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رہنمائی میسر تھی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے وجودوںکی صحبت نصیب تھی۔ مولانا غلام رسول راجیکی صاحب، حضرت مختار احمد صاحب شاہ جہان پوری، حضرت محمد ابراہیم صاحب بقا پوری، سید ولی اللہ شاہ صاحب وغیرہ کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی صحبت کی وجہ سے آپ کی شخصیت کو مزید ابھارا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کا مزید تعلق پیدا ہوا۔

کہتے ہیں کہ تبلیغ میں بھی آپ بہت پُرجوش تھے۔ عموماً خاموش طبع اور کم گو طبیعت کے مالک تھے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جب تبلیغ شروع ہوتی تھی تو آپ میں غیر معمولی قوت اور جوش پیدا ہو جاتا تھا اور گھنٹوں گفتگو کرتے تھے۔ کئی مرتبہ فون پر بھی گفتگو شروع ہوتی تو وقت کا احساس ختم ہو جاتا اور گھنٹہ گھنٹہ گفتگو ہو جاتی۔ مہمان نوازی بھی آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ کہا کرتے تھے کہ ہمارے والد بہت مہمان نواز تھے کیونکہ گاؤں میںکوئی ہوٹل نہیں تھا اور ان کے والد کہا کرتے تھے کہ ہمارا گھر ہی ہوٹل ہے۔ مہمان نوازی میں چینی صاحب کی اہلیہ بھی آپ کا بھرپور ساتھ دیتی تھیں۔

اسی طرح جتنے مرضی تھکے ہوں ہر ایک کے جذبات کا خیال رکھنے والے تھے۔ ایک دفعہ رات دیر تک میٹنگ ہوتی رہی اور جب کار میں بیٹھنے لگے تو کسی نے کہا کہ میرا گھر قریب ہے وہاں چلیں تورشید صاحب کہتے ہیں ہمارا تو خیال تھا کہ انکار کر دیں گے لیکن چل پڑے اور وہاں جا کر اس شخص نے پھر کھانے کا بھی انتظام شروع کر دیا۔ بڑی دیر تک وہاں رہے۔ آپ رات کو Late ایک بجے کے قریب پہنچے۔ لیکن یہ نہیں تھا کہ اس کو انکار کر دیں یا یہ کہیں کہ جلدی کرو میںنے جانا ہے۔

اسی طرح نصیر احمد بدر صاحب مربی سلسلہ ہیں۔ یہ بھی لکھتے ہیں کہ جب مجھے چینی زبان سیکھنے کا ارشاد ہوا تو اس کے بعد ان سے رابطہ ہوا۔ وہاں چین کے بہت سے علاقوں میں جا کر دعوت الی اللہ کی توفیق ملتی رہی اور اس موقع پر عثمان چینی صاحب کی نہایت مفید رائے اور مشوروں سے بہت فائدہ اٹھایا۔ کہتے ہیں کہ خطوط کے ذریعہ سے وہاں میری رہنمائی کرتے تھے۔اور کہتے ہیں کہ ہزاروں چینیوں کو زبانی اور کتب، فولڈر کی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کا موقع ملتا رہا۔ کہتے ہیں تقریباً ہرجگہ عثمان چینی صاحب کا ذکر نہایت اچھے الفاظ میں ہوتا رہا جو چین میں اسلام کے ایک بہت بڑے سکالر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں چینی زبان کا جو یادگار لٹریچر اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کبھی آپ کو مرنے نہیں دے گا۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی چینی زبان کی بیسیوںکتب اور تراجم کا ایک سمندر ہے جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی خزائن سے اخذ کیا ہے اور ترجمہ کر کے لوگوں تک پہنچایا۔ ان کی فصیح و بلیغ چینی زبان بھی اپنے اندر ایک خاص کشش و جذب کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں اس بات کا اندازہ مجھے چین کے ایک مسلمان مدرسہ میں جا کر ہوا جہاں پہلی دفعہ جانے پر تو انہوں نے کوئی خاص ردّ عمل ظاہر نہیں کیا۔ مسلمانوں کا جو علاقہ ہے وہاں مدرسہ میں گیا لیکن جب میں کچھ عرصہ بعد دوبارہ وہاں گیا تو تمام چینی مسلمان اور امام صاحب بڑا پیار کرتے اور بڑی چاہت سے ملتے تھے۔ اس پر ایک دوست سے میں نے پوچھاکہ کیا وجہ ہے کہ جب میں پہلی دفعہ آپ کے پاس آیا تھا تو آپ میں اتنی چاہت نہ تھی جتنی اب ظاہر ہو رہی ہے۔ اس پر ایک چینی دوست نے بتایا کہ آپ جو چینی زبان کی کتب مولوی صاحب کو دے گئے تھے ان میں سے خاص طورپر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منتخب تحریرات کا چینی ترجمہ وہ خطبہ میں پڑھ کر سناتے ہیں تو ہمارے اندر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہم نے اس سے پہلے اس قسم کی شاندار تحریرات اپنی پوری زندگی میں نہیں سنیں اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مزید اس قسم کی کتب لا کر دیں۔

پھر یہ کہتے ہیںکہ چینی صاحب کے آبائی گاؤں میں جانے کا موقع ملا۔ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ سارے کے سارے عثمان چُو صاحب کا نہایت ادب اور محبت سے ذکر کرتے۔ ہر کوئی آتا اور عثمان چُو صاحب سے اپنا رشتہ بتا کر بڑی خوشی کا اظہار کرتا اور کہتے ہیں جتنے دن میں وہاں ٹھہرا سب نے بڑا خیال رکھا۔ بڑی مہمان نوازی کی۔ بڑی آؤ بھگت کی۔ صرف اس لئے کہ عثمان چینی صاحب کو میں جانتا ہوں اور جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہوں۔ کہتے ہیں عثمان چینی صاحب کا چینی زبان میں کیا ہوا قرآن کریم کا ترجمہ نہایت سلیس اور آسان الفاظ میں ہر کسی کو سمجھ آنے والا ترجمہ ہے جس میں چینی زبان کی فصاحت و بلاغت کا معیار بھی جھلکتا نظر آتا ہے۔ اس لئے باوجود اس کے کہ قرآن کریم کے دوسرے تراجم بھی چینی زبان میں موجود ہیں لیکن عثمان چو صاحب کا ترجمہ پورے چین میں یکساں مقبول اور سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا اندازہ بہت سے چینی علماء سے مل کر ہوا جو جماعت کے عقائد سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس ترجمہ کو نہایت پسندیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے حد درجہ چاہت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ علاقے کے دورے کے دوران جب ایک بزرگ امام نے میرے پاس یہ ترجمہ دیکھا تو ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ اِن کے پاس چینی صاحب والا ترجمہ تھا اور اس کو دیکھ کر انہوں نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور بار بار کہتے رہے کہ مجھے اس ترجمہ کی لمبے عرصہ سے تلاش تھی کیا آپ مجھے یہ قرآن کریم عطا کر سکتے ہیں؟ ہم نے انہیں کہا کہ اس وقت تو ہمارے پاس صرف ایک ہی نسخہ ہے۔ آپ اپنا ایڈریس بھجوا دیں ہم آپ کو عثمان چینی صاحب سے منگوا دیتے ہیں۔ تو کچھ دیر سوچ کر کہنے لگے کہ آپ یہ قرآن کریم تھوڑی دیر کے لئے مجھے ادھار دے دیں۔ میں اس کی فوٹو کاپی کروا لیتا ہوں۔ قریباً ساڑھے چودہ سو صفحات پر مشتمل اس ترجمہ کی فوٹو کاپی کرنے پر ان کا یہ شوق دیکھ کر ہم نے پھر ان کو قرآن کریم دے دیا اور وہ اتنے خوش ہوئے اور بار بار شکر ادا کرتے تھے کہ جیسے ان کو کوئی بے بہا خزانہ مل گیا۔ خزانہ تو یقیناً ہے۔ خوشی کا اظہار ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

اسی طرح ان کے بیشمار رابطے تھے۔ ابھی بھی ان کے رابطے تھے۔ اسی طرح اور مبلغین جو وہاں رہے ہوئے ہیں انہوں نے بھی یہی لکھا ہے کہ چین میں جہاں بھی ہم جاتے تھے ہر جگہ چینی صاحب کا ذکر تھا۔ ظفر اللہ صاحب بھی وہاں مربی سلسلہ رہے ہیں۔ آجکل پاکستان میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ 2004ء میں چینی صاحب جب پاکستان تشریف لے گئے تو اسلام آباد سے ربوہ کے سفر کے دوران کلر کہار کے علاقے میں مجھے لے جا کر وہ جگہ دکھائی جہاں آپ جامعہ میں تعلیم کے دوران آ کر چلّہ کیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بھی بیان کیا کہ کس طرح ایک گھر میں تشریف لے گئے جن کے ہاں شادی کے دس سال بعد تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ چلّہ کے دوران چینی صاحب سے اولاد کے لئے دعا کی درخواست کی۔ چینی صاحب نے دعا کی اور خواب میں دیکھا کہ ان کے صحن میں چارپائی پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سوئے ہوئے ہیں۔ آپ نے یہ خواب ان کو سنائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا کرے گا۔چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے سے نوازا۔ یہ جب کلر کہار میں چلّہ کیا کرتے تھے تو مجھے بھی یاد ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کے زمانے میں ہم چھوٹے ہوتے تھے۔ میں بھی ایک دفعہ اس جگہ گیا تو نیچے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور قرآن کریم ہاتھ میں تھا۔ دعائیں کر رہے تھے۔ پھر ہم لوگوں نے بچوں نے بھی اور بڑوں نے بھی ان کو دعا کے لئے کہا۔ بڑے مسکراتے ہوئے جواب دیا کرتے تھے اور بڑی شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر نوری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ 2004ء میں چودہ پندرہ سال قبل جب ان کا چیک اَپ کیا گیا تو تشخیص ہوا کہ ان کو دل کی بیماری ہے اور اس کا علاج بھی کوئی نہیں کیا جا سکتا۔ کہتے ہیں مجھے بہت پریشانی ہوئی کیونکہ محض دعا اور چند معمولی ادویات کے سوا اور کوئی ترکیب نہیں تھی۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے survival کے چانس بہت کم ہوتے ہیں اور چند سال سے زیادہ نہیں جی سکتے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ میں حیران ہوں کہ چینی صاحب کو کئی بار ملا ہوں اور علالت کے باوجود کمزوری کے آثار تو ظاہر ہوتے رہے لیکن اللہ کے فضل سے آپ نے کبھی اپنی بیماری کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں حائل نہیں ہونے دیا اور کام ہمیشہ کرتے رہے۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ بیماری کی وجہ سے کام نہ کریں یا عبادتوں میں کمی بلکہ ایک نے مجھے لکھا ہے کہ برف شدید پڑی ہوئی تھی ہمارا خیال تھا کہ چینی صاحب کے لئے آنا مشکل ہو گا۔ آج فجر کے وقت برف زیادہ ہے اور اس وقت چلا بھی نہیں جا رہا توکوئی مسجد میں نہیں آئے گا لیکن کم از کم جا کے مسجد تو کھولتے ہیں لیکن کہتے ہیں جب ہم باہر نکلے تو برف پہ پاؤں کے نشان تھے اور جب اندر گئے تو دیکھا کہ چینی صاحب مسجد میں نہ صرف آئے ہوئے ہیں بلکہ بہت پہلے برف میں چل کر آئے اور آ کر تہجد کی نماز وہاں ادا کر رہے تھے۔

عطاء المجیب راشد صاحب نے ان کا جو خلاصہ لکھا ہے وہ اچھا خلاصہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت بڑا خلا چھوڑا۔ بلند پایہ بزرگ تھے۔ کہتے ہیں مَیں چینی صاحب کی خصوصیات کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے ذہن میں آیا کہ بہت دعا گو اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ نمازوں کے بیحد پابند، بیماری اور کمزوری کے باوجود مسجد جانے والے، بہت نیک اور خدا ترس، بے ضرر انسان تھے۔ ہر ایک کی خیر خواہی کرنے والے اور نیک مشورہ دینے والے تھے۔ بہت سادہ مزاج اور بے تکلف انسان تھے۔ بہت مہمان نواز اور محبت بھرے اصرار سے مہمان نوازی کرنے والے تھے۔ بہت بلند ہمت اور کمزوری کے باوجود متحرک خدمت دین میں مصروف اپنی ذمہ داری کو بہت اخلاص محنت اور محبت سے ادا کرنے والے، خدمت دین کرتے چلے جانے کی ایک دُھن بہت نمایاں تھی۔ خلافت احمدیہ کے سچے، بے ریا اور باوفا خدمت گزار تھے۔ ہمیشہ بہت خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے ملتے تھے اور بیشمار ان کی خصوصیات ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے جو انہوں نے بیان کی۔

اللہ تعالیٰ مکرم عثمان چینی صاحب کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کا حافظ و ناصر ہو اور اسی طرح بچوں کو بھی ان کی دعاؤں اور نیکیوں کا وارث بنائے۔ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں ۔ مَیں اب نماز کے بعد ان کا نماز جنازہ بھی پڑھوں گا۔ انشاء اللہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button